نام کتاب : اسلام کے عقائد(پہلی جلد )
 
٨

انبیاء کے مبارزے
ربوبیت کے سلسلے میںانبیا ء علیہم السلام کے مبارزے
ادیان آسمانی کی تاریخ بتاتی ہے کہ اکثر جباروں اور ستمگروں کی نزاع اور کشمکش کا محور جو انبیاء کے مقابلے میں آتے تھے''خدا کی ربوبیت'' اور اس کی پروردگار ی تھی نہ کہ ''خالقیت'' کیونکہ بیشتر قومیںاس بات کا عقیدہ رکھتی تھیں کہ ''اللہ'' تمام موجودات کا خالق ہے اگر چہ کبھی اس کا دوسرانام رکھ دیتے تھے، جیسے یہود کہ ''اللہ'' کو ''یہوہ'' کہتے تھے جیسا کہ خداوند عالم نے ان کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے:
١۔(ولئن سألتھم من خلق السمٰوات و الارض لیقولن اللہ)
اور اگر ان سے سوال کروگے کہ زمین و آسمان کو کس نے خلق کیا ہے تو وہ کہیں گے: اللہ نے!(١)
٢۔( ولئن سألتھم من خلق السمٰوات و الارض لیقولن خلقھن العزیز العلیم)
اور اگر ان سے سوال کروگے کہ زمین و آسمان کو کس نے خلق کیا ہے تو وہ کہیں گے: قادر اور دانا خدا نے اسے خلق کیا ہے ۔(٢)
٣۔(ولئن سألتھم من خلقھم لیقولن اللہ فأنیٰ یؤفکون)
اگر ان سے سوال کروگے کہ ان کو کس نے خلق کیا ہے تو وہ کہیں گے: اللہ نے! پھر کس طرح اس سے منحرف ہو جاتے ہیں؟(٣)
ہم اس بحث کو فرعون سے موسیٰ کلیم کے مبارزہ سے شروع کرتے ہیں کیونکہ اسمیں تصاد م اورمبارزہ کے تمام پہلو مکمل طور پر واضح ہیں۔

موسیٰ کلیم اللہ اور فرعون
حضرت موسیٰ علیہ السلام اوران کے زمانے کے طاغوت فرعون کی داستان قرآن کریم میں باربار ذکر
..............
(١) لقمان ٢٥
(٢)زخرف ٩
(٣)زخر ف ٨٧
ہوئی ہے ، منجملہ ان کے سورۂ نازعات میں ہے: فرعون نے آیات الٰہی کو دیکھنے اور حضرت موسیٰ کے اس پر حجت تمام کرنے کے بعد مصر کے ایک عظیم گروہ کو اکٹھا کیا اور ان کے درمیان آواز لگائی :
(انا ربکم الاعلیٰ) میں تمہارا سب سے بڑارب ہوں ۔(١)
فرعون اپنے اس نعرہ سے درحقیقت یہ کہنا چاہتاہے : مثال کے طور پر اگر پالتو پرندہ ایک پالنے والا رکھتا ہے جو اس کا مالک ہوتا ہے، جو اسے کھانا، پانی دیتا ہے، نیز اس کی زندگی کے لئے نظام حیات مرتب کرتا ہے تو میں فرعون بھی تمہاری نسبت اسی طرح ہوں وہ کہتا ہے : (الیس لی ملک مصر و ھذہ الانھار تجری من تحتی) کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے اورکیایہ نہریں میرے حکم کے تحت جاری نہیںہوئی ہیں؟(٢)
فرعون اس وقت پورے مصر اور اس کے اطراف اور متعلقات کا مالک تھا، اس لحاظ سے اس نے خیال کیا کہ مصریوں کو غذاوہ دیتا ہے ، وہ ہے جو سب کی ضرورتوں کو برطرف کرتا ہے اور ان کی امداد کرتا ہے،لہٰذا ، وہ ان کا مربی اور پرورش کرنے والا ہے ان کا نظام حیات اس کی طرف سے معین ہونا چاہئے اور جو قانون بنائے-مثال کے طور پر-کہ تمام بنی اسرائیل، اہل مصر کے خادم رہیں گے، یہ وہی دین اور شریعت ہے کہ جس پر عمل کرنا واجب ہے ۔ فرعون کے قول کا مطلب اس فقرے سے :(انا ربکم الاعلیٰ) یہی ہے اس نے اپنے کلام میں زمین و آسمان نیز تمام موجودات کو خلق کرنے کا دعویٰ نہیں کیا ہے ۔
لیکن موسیٰ کلیم اللہ اس سے کیا کہتے ہیں؟ اوران کی اور ان کے بھائی ہارون کی رسالت، فرعون کو ا للہ کاپیغام پہنچانے میں کیا تھی؟ خدا وند عالم نے ان دونوں موضوع سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوتے فرمایا:
(اذھبا الیٰ فرعون انہ طغیٰ...فأتیاہ فقولا انا رسولا ربک فأرسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبھم قد جئناک بآیة من ربک)
فرعون کی طرف جائو اس لئے کہ وہ سرکش ہو گیا ہے ...اس کے پا س جائو اور کہو: ہم تیرے رب کے فرستادہ ہیں، لہٰذا بنی اسرئیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور انہیں عذاب نہ دے، ہم تیرے پروردگار کی طرف سے روشن علامت کے ساتھ آئے ہیں۔(٣)
..............
(١)نازعات ٢٤
(٢) زخرف ٥١
(٣) طہ ٤٧۔٤٣
خدا وند عالم اس آیت میں فرماتا ہے : اے موسیٰ اور اے ہارون! فرعون کے پاس جائو اور کہو ہم دونوں تیرے رب کے فرستادہ ہیں جس نے تجھے خلق کیا اور تیری پرورش کی ہے اور کمال تک پہنچایا ہے ، اس سے کہو: اے فرعون تو '' اپنے ادعاء ربوبیت'' میں خطا کا شکار ہے! ہم اپنی بات کی صداقت اور حقانیت پر تیرے رب کی طرف سے اپنے ہمراہ روشن دلیل لیکر آئے ہیں۔
لیکن فرعون حضرت موسیٰ سے خدا کی آیات اور نشانیوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد جنگ و جدال اور بحث و مباحثہ پر اتر آیا اور بولا: اگر تم میری ربوبیت کے قائل نہیں ہو اور کہتے ہو''ربوبیت'' میرے علاوہ کسی اور کا حق ہے اور ہمیں چاہئے کہ نظام حیات اسی سے حاصل کریں تو، یہ ''رب'' جس کے بارے میںتمہارا دعویٰ ہے وہ کون ہے؟
(فمن ربکما یا موسیٰ)(١)اے موسیٰ تم دونوںکا رب کون ہے ؟
قرآن کریم نے یہاں پر موسیٰ کے ذریعہ جوفرعون کا جواب نقل کیا نہایت ہی ایجاز اور اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرمایا: (ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقہ ثم ھدی ) ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر موجود کو اس کے تمام لوازمات سمیت خلق کیا، پھر اس کے بعد ہدایت کی۔(٢)
یعنی تمام چیز کی تخلیق بکمالہ و تمامہ انجام دی ہے، خدا وند عالم سورہ''اعلیٰ'' میں اس تمامیت کو زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرماتاہے : ''فسوّی '' اس نے مرتب اور منظم کیا۔ یعنی اسے ہدایت پذیری کے لئے آمادہ کیا پھر'' قدر فھدی'' اس نے اندازہ گیری کی اور ہدایت کی ۔(٣)
یعنی ہر مخلوق کو اس کی فطرت اور ذات کے تناسب اور مناسب اندازہ کے ساتھ پیدا کیا اور ہدایت کی اور تمامخلق میں آدمیوں کی پیغمبروں کے ذریعہ ہدایت کی۔
فرعون اس بات پر آمادہ ہوا کہ موسیٰ کے اس استدلال میں شک و شبہہ ڈال دے اس نے کہا:(فما بال القرون الاولیٰ)پھر گز شتہ نسلوں کی تکلیف کیا ہوگی؟(٤)
یعنی اگر تمہارا رب لوگوں کو پیغمبروں کے ذریعہ اس نظام کی طرف ہدایت کرتا ہے جو اس نے ان کے لئے مقرر کیا ہے تو اس پروردگار نے گز شتہ نسلوں کو کس طرح ہدایت کی ہے؟ جو رسول ان کی طرف مبعوث ہوئے ہیں وہ کون ہیں؟ ان کے دستورات اور شرائع کیا تھے؟
..............
(١) طہ ٤٩
(٢)طہ ٥٠
(٣) سورۂ اعلیٰ ٢ اور ٣
(٤) طہ ٥١
موسیٰ نے کہا:
(علمھا عند ربی فی کتاب لا یضل ربی ولا ینسیٰ )
اس کا علم میرے رب کے پاس ، ایک محفوظ کتاب میں ہے میرا رب کبھی گمراہ نہیں ہوتا اور نہ ہی فراموش کرتا ہے۔ (١)
یعنی ان زمانوں کا علم پروردگار کے نزدیک ایک کتاب میں مکتوب ہے وہ کبھی گمراہی اور فراموشی کا شکار نہیں ہوتا۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ نے پروردگار کے صفات اور خصوصیات بیان کرنا شروع کئے اور کہا:
(الذی جعل لکم الارض مہداً و سلک لکم فیھا سبلاً وانزل من السماء مائً فأخرجنا بہ ازواجاً من نباتٍ شتی٭ کلوا وارعوا انعامکم ان فی ذٰلک لآیاتٍ لأولی النھی)
وہی خدا جس نے زمین کو تمہارے آسائش کی جگہ قرار دی اور اس میں تمہارے لئے راستے ایجاد کئے اور آسمان سے پانی نازل کیا ، پس ہم نے اس سے انواع و اقسام کی سبزیاںاگائیں، کھائو اور اپنے چوپایوں کو اس میں چرائو، یقینا اس میں اہل عقل کے لئے روشن نشانیاں ہیں ۔(٢)
قرآن کریم نے اس سلسلے میں موسیٰ اور فرعون کے سوال و جواب کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : اے فرعون! توجو کہتاہے:
(الیس لی ملک مصر و ھذہ الأنھار تجری من تحتی)(٣)
تو اور تیرے دربار کے تمام حاشیہ نشین اور درباری لوگ یہ جان لیں: تیرا پروردگار وہی خالق ہے جس نے زمین کو خلق کیا اور اپنی ''ربوبیت'' کے تقاضاکے مطابق اسے انسان کی آسا ئش کے لئے گہوارہ قرار دیا اور اس میں راستے پیدا کئے وہ زمین جس کا ایک جز ملک مصر بھی ہے اور آسمان سے بارش نازل کی کہ اس سے نہریں وجود میں آئیں اور نیل بھی انہیں میں سے ایک ہے نیز اسی پانی کے ذریعہ انواع و اقسام کے نباتات پیدا کئے تاکہ انسان اور حیوانات کے لئے خوراک ہو۔
جب فرعون حضرت موسیٰ کی اس منطق کے سامنے عاجز اور بے بس ہو گیا تو ا س نے دوبارہ شبہ ایجاد کرنے کی ٹھان لی کہ حضرت موسیٰ کے ادلہ و براہین کو تحت الشعاع میں قرار دیدے، خدا وند عالم اس کے اور
..............
(١) طہ ٥٢
(٢)طہ٥٣۔٥٤
(٣)زخرف٥١
اس کے موقف کے بارے میں فرماتا ہے :(ولقد اریناہ آیاتنا کلھا) یقینا ہم نے اسے اپنی تمام نشانیاں دکھادیں۔(١)
یعنی جب ہماری عام نشانیوں اور ان خاص الخاص نشانیوںکوجو موسیٰ نے اسے دکھایا فکذّب و ابیٰ تواس نے تکذیب کی اور انکار کرتے ہوئے بولا:
(اجئتنا لتخرجنا من ارضنا بسحرک یا موسیٰ٭ فلنأتینک بسحر مثلہ فاجعل بیننا و بینک موعداً لا نخلفہ نحن و لا انت مکاناً سویٰ)
اے موسیٰ تم اس لئے آئے ہو کہ ہمیں ہماری سرزمینوں سے اپنے سحر کے ذریعہ نکال باہر کرو؟ یقینا ہم بھی اسی طرح کے سحر کا مظاہرہ کریں گے ، تو اب ہمارے اور اپنے درمیان کوئی تاریخ معین کردو کہ ہم میں سے کوئی بھی اس کے خلاف نہ کرے وہ بھی ایسی جگہ جو سب کے لحاظ سے مساوی ہو۔ (٢)
موسیٰ قوم بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے، وہ لوگ سرزمین مصر میں عالم غربت میں غلامی کی زندگی گزار رہے تھے اور فرعون اپنی اس بات سے کہ: تم آئے ہو کہ ہمیں ہماری سر زمینوں سے نکال باہر کردو؟ اپنے گردو پیش ، سر کش حوالی و موالی کو ان کے خلاف بھڑکا نا چاہ رہا تھا اور خدا کی آیات اور نشانیوں (عصا اور ید بیضا) میں اپنی اس بات سے کہ یہ سب کچھ سحر وجادد ہے شبہ ایجاد کرناچاہ رہا تھا، کیونکہ سرزمین مصر میں سحر کا رواج تھا اور بہت سارے جادو گر فرعون کے پیرو کار تھے۔
سحر، ایک خیالی اور وہمی ایک بے حقیقت شی ٔ ہے جو انسان کے حواس اور نگاہوں کو دھوکہ دیتا ہے جس طرح کبھی انسان کا احساس دھوکہ کھا جاتا ہے اور اپنے خیال میں غیر واقعی چیز کو واقعی سمجھ لیتا ہے جبکہ اس کا وجود حقیقی نہیں ہوتا لیکن جناب موسیٰ کے ہمراہ قدرت خدا کی نشانیاں تھیں وہ بھی ایسی قدرت کے ہمراہ جس نے آگ کو حضرت ابراہیم پر گلزار بنادیااور انہیںسلامتی عطا کی ، عام لوگ حق و باطل، نیک و بد اور خیال وواقع (حقیقت) کے درمیان تمیز کرنے کی قوت و صلاحیت نہیں رکھتے، اس کے علاوہ کبھی کبھی کثرت اور زیادتی غالب آجاتی ہے لہٰذا فرعون نے بھی لوگوں کے حالات دیکھتے ہوئے اور اپنے پر فریب جادو گروں کی قوت کے بل پر موسیٰ کا مقابلہ کیااور کہا: یقینا ہم بھی تمہاری طرح سحر کا مظاہرہ کریں گے اور ابھی ہم دونوں کے درمیان اس کی تاریخ معین ہو جائے کہ اس تاریخ سے کوئی پیچھے نہ ہٹے وہ بھی ایک مساوی اور برابر جگہ پر (کھلے میدان میں)۔
..............
(١) طہ ٥٦
(٢)طٰہ ٥٨ ٥٧.
فرعون اپنی قدرت اور برتری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موسیٰ کے مقابلے میں آ گیا اور تاریخ کا تعین موسیٰ کے ذمہ چھوڑ دیا، موسیٰ نے قبول کیا اور وقت معینہ کو ایسے دن رکھا جس دن سارے لوگ عید مناتے ہیں اور کھلے میدان میں اجتماع کرتے ہیں اور کہا: موعد کم یوم الزینة و ان یحشر الناس ضحیٰ ہمارے اور تمہارے مقابلہ کا وقت زینت اور عید کا دن ہے اس شرط کے ساتھ کہ سارے لوگ دن کی روشنی میں جمع ہو جائیں۔ ضحی اس وقت کو کہتے ہیں جب آفتاب اوپر چلا جاتا ہے۔ اور اس کی شعاع پھیل جاتی ہے (فتولی فرعون فجمع کیدہ )فرعون مجلس ترک کرکے واپس چلا گیا اور مکرو حیلہ کی جمع آوری میں لگ گیا۔(١)
موسیٰ کلیم اللہ اور فرعون کا دوسرا مقابلہ سورۂ شعرا ء میں بیان ہوا ہے خدا وند سبحان فرعون کی طرف موسیٰ اور ہارون کوبھیجنے اور ان کے مقابلہ کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :
(فأتیا فرعون فقولا انا رسول رب العالمین٭ قال فرعون وما رب العالمین٭ قال رب السموات والارض وما بینھما ان کنتم موقنین٭ قال لمن حولہ الا تستمعون٭ قال ربکم و رب آبائکم الاولین٭ قال ان رسولکم الذی ارسل الیکم لمجنون٭ قال رب المشرق و المغرب وما بینھما ان کنتم تعلقون)
فرعون کی طرف جائو اور کہو ! ہم پروردگار عالم کے فرستادہ ہیں... فرعون نے کہا: پروردگار عالم کون ہے ؟ موسیٰ نے کہا: زمین اور آسمان اور ان کے ما بین موجود ہرچیز کا پروردگار ،اگر اہل یقین ہو تو ، فرعون نے اپنے گرد و پیش کے لوگوں سے کہا: کیا تم لوگ نہیں سن رہے ہو؟ موسیٰ نے کہا: وہ تمہارا اور تمھارے گزشتہ آبا ء و اجداد کا پروردگار ہے، فرعون نے کہا: جو پیغمبر تمہاری طرف مبعوث ہوا ہے وہ یقینا دیوانہ ہے ۔ موسیٰ نے کہا: وہ مشرق و مغرب نیز ان کے ما بین کا پروردگار ہے اگر اپنی عقل و فکر کا استعمال کرو۔(٢)
جب فرعون نے موسی ٰ سے دلیل اور نشانی کا مطالبہ کیا اور حضرت موسی ٰ کے عصا اور ید بیضا کو دیکھا تو اپنے اطراف والوں سے کہا :
( ان ھذا لساحر علیم٭ یرید ان یخرجکم من ارضکم بسحرہ فماذا تأمرون، قالوا ارجہ و اخاہ و ابعث فی المدائن حاشرین٭ یأتوک بکل سحار علیم٭ فجمع السحرة لمیقات یوم معلوم٭ و قیل للناس ھل أنتم مجتمعون٭ لعلنا نتبع السحرة ان کانوا ھم
..............
(١)طہ٥٩۔٦٠
(٢)شعرائ١٦۔٢٨
الغالبین٭ فلما جاء السحرة قالوا لفرعون ائن لنا لأجراً ان کنا نحن الغالبین٭ قال نعم و انک اذا لمن المقربین٭ قال لھم موسیٰ ألقوا ما انتم ملقون٭ فالقوا حبالھم و عصیھم و قالوا بعزة فرعون انا لنحن الغالبون)
یہ آگاہ اور ماہر ساحر ہے وہ اپنے جادو کے ذریعہ تمہیں تمہاری سر زمینوں سے نکال باہر کرنا چاہتاہے۔ تم لوگوں کی کیا رائے ہے ؟ بولے: اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دو اور مامورین ہرشہر کی طرف روانہ کئے جائیںتاکہ ہر ماہر اور آگاہ ساحر کو لا سکیں آخر کار روز موعود پر تمام جادو گر اکٹھا ہو گئے اور لوگوں سے کہا گیا: کیا تم لوگ بھی اکٹھاہو گے تاکہ اگر جادو گر کامیاب ہو جائیں تو ہم ان کی پیروی کریں؟! جب جادو گر آئے تو فرعون سے بولے: اگر ہم کامیاب ہوگئے تو کیا ہمیں اجر ملے گا؟ کہا: ہاں اور ایسی صورت میں تم لوگ مقرب بارگاہ بن جائو گے۔ موسیٰ نے ساحروں سے کہا: جو ڈالنا چاہتے وہ زمین پرڈال دو، ان لوگوں نے اپنی رسیاں اورلاٹھیاںڈال کر کہا: فرعون کی عزت کی قسم یقینا ہم لوگ کامیاب ہیں۔(١)
سورۂ اعراف سحر کی کیفیت اور اس کی لوگوں پر تاثیرکے بارے میں فرماتا ہے :
(فلما ألقوا سحروا أعین الناس و استرھبوھم و جاء وا بسحر عظیم٭ و أوحینا الیٰ موسیٰ ان القِ عصآک فاذا ھی تلقف ما یأفکون ٭ فوقع الحق و بطل ما کانوا یعملون٭ فغلبوا ھنالک وانقلبوا صاغرین٭ و القی السحرة ساجدین٭ قالوا آمنا برب العالمین٭ رب موسیٰ و ھارون٭ قال فرعون آمنتم بہ قبل ان آذن لکم ان ھذا لمکر مکرتموہ فی المدینة لتخرجوا منھا اھلھا فسوف تعلمون٭ لأقطعن أیدیکم و أرجلکم من خلاف ثم لأصلبنکم اجمعین٭ قالوا انا الیٰ ربنا منقلبون٭ وما تنقم منا الا ان آمنا بآیات ربنا لما جائتنا ربنا افرغ علینا صبراً و توفنا مسلمین)
جب ان لوگوں نے اپنے سحر کے اسباب و وسائل زمین پر ڈال دیئے، لوگوں کی نگاہیں باندھ دیں اور ڈرایا اور بہت بڑا جادو ظاہر کیا تو ہم نے موسیٰ کو وحی کی :
اپنا عصا ڈال دو اچانک اس عصا نے ان کے وسائل کو نگل لیا! نتیجہ یہ ہوا کہ حق ثابت ہوگیا اور ان کا کاروبار باطل ہوگیا وہ سب مغلوب ہوگئے اور ذلیل ہوکر واپس ہوگئے،اورجادو گر سجدے میں گر پڑے اور
..............
(١)شعرائ٣٤۔
بولے : ہم پروردگار عالم پر ایمان لائے؛ یعنی موسیٰ اور ہارون کے رب، پر فرعون نے کہا: کیا تم میری اجازت سے پہلے اس پر ایمان لے آئو گے؟ یقینا یہ ایک سازش ہے جو تم نے شہر میں کی ہے تاکہ یہاں کے رہنے والوںکو باہر کر دو لیکن عنقریب جان لو گے کہ تمہارے ہاتھ پائوں خلاف سمتوں سے قطع کروںگا( کسی کا داہنا ہاتھ تو بایاں پیراور کسی کا بایاں پیرتو داہنا ہاتھ) ؛ پھر تم سب کو سولی پرلٹکا دوں گا، جادو گروں نے کہا: ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جائیں گے تمہارا انتقام لینا ہم سے صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم اپنے رب کی آیتوں پر کہ جو ہمارے پاس آئیں ایمان لے آئے، خدایا! ہمیں صبر اور استقامت عطا کر اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں موت دینا۔
سورۂ شعرا ء میں فرماتا ہے : (انہ لکبیرکم الذی علمکم السحر) یقنا وہ تمہارا بزرگ اور استاد ہے جس نے تمہیں سحر کی تعلیم دی ہے ۔
گز شتہ آیات میں ذکر ہو اہے کہ: فرعون نے اہل مصر سے کہا:( انا ربکم الاعلیٰ )میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں، موسیٰ کو وحی ہوئی کہ فرعون سے کہو: (انا رسولا ربک..و جئنا بآیة من ربک)ہم تمہارے رب کے فرستادہ ہیں...ہم اس کے پاس سے تمہارے لئے نشانی لیکر آئے ہیں۔
فرعون نے کہا: (فمن ربکما یا موسیٰ )تمہارا رب کون ہے اے موسیٰ!
موسیٰ نے کہا:(ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقہ ثم ھدی) ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہرموجود کو اس کی خلقت کی ہر لازمی چیز کے ساتھ وجود بخشا اور اس کے بعد ہدایت کی۔
اس کے اس سوال کے جوا ب میںکہ گز شتہ نسلوں کی تکلیف پھر کیا ہوگی؟ کہا: اس کا علم ہمارے پروردگار کے پاس ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے آرام و آسا ئش کی جگہ قرار دی...، خدا وند عالم ایک دوسرے موقع پر موسیٰ و ہارون سے فرماتا ہے : فرعون سے کہو: ہم رب العالمین کے فرستادہ ہیں۔
فرعون نے کہا: رب العالمین کون ہے ؟ موسیٰ نے جواب دیا: زمین ، آسمان اور ان کے ما بین موجود چیزوں کا رب۔
تمہارااور تمہارے گز شتہ آباء اجداد کا رب ،مشرق و مغرب اور ان کے درمیان کا رب ہے ۔
لیکن ان کے جادو گروں نے جب عصا کا معجزہ دیکھا اور یہ دیکھا کہ جو کچھ انھوں نے غیر واقعی اور جھوٹ دکھا یا تھا سب کو نگل گیا، تو بے ساختہ کہنے لگے:(آمنا برب العالمین، رب موسیٰ و ھارون) ہم رب العالمین پر ایمان لائے رب موسیٰ وہارون پر۔
اورفرعون کے جواب میں کہ جب اس نے کہا:تمہارے ہاتھ پائوں خلاف سمتوں سے قطع کروں گا تو ان لوگوں نے کہا:
(لاضیر أِنا الیٰ ربنا منقلبون٭وما تنقم منا الا ان آمنا بآیات ربنا لما جائتنا ربنا افرغ علینا صبراً و توفنا مسلمین)
کوئی بات نہیں ہے ہم اپنے رب کی طرف لوٹ جائیں گے ، تم ہم سے صرف اس وجہ سے انتقام لے رہے ہو کہ ہم اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان لائے ہیں جب وہ ہمارے پاس آئیں، خدایا! ہمیں صبر و استقامت عطا کر اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں موت دے۔
قرآن کریم میں مذکور ہ بیان سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے : موسی و ہارون کی بحث اور معرکہ آرائی فرعون اوراس کے سرکش و باغی طرفداروں کیساتھبارہا تکرار ہوئی ،جیسا کہ خداکی آیتیں اور نشانیاں بھی متعدد تھیں: طوفان، ٹڈیوں کی کثرت،پیڑ پودوںکی آفت، مینڈک اور خون اور یہ بھی ہے کہ تمام نزاع ربوبیت کے بارے میں تھی لہٰذ اموسی و ہارون نے اس سے کہا: ہمارا اور تمہارا رب وہی عالمین کا پالنے والا ہے ، جوزمین و آسمان اور اس کے ما بین کا رب ہے نیز گز شتہ نسلوں کا رب ہے ، مشرق و مغرب اور ان کے ما بین کا رب ہے نیز تمہارے گز شتہ آباء و اجداد کا رب ہے ۔
اورکہا: سب کا رب ایک ہی ہے اوروہ وہ ہے جس نے ہر موجود کو اس کے تمام لوازم خلقت کے ساتھ خلق کیا پھر اس نے ہدایت کی، او ریہ کہ: اس کے جادو گروں نے سمجھا کہ ان کا سحر خیالی اور موہوم شی ٔ ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس کے آثار وقتی ہیں۔ لکڑیاں اور رسیاں جو کہ میدان میں سانپ کی طرح لہرا رہی ہیںاور بل کھا رہی ہیں وہ اپنی پرانی حالت پر واپس آکر لکڑی اور رسی ہی رہ جائیں گی لیکن عصا کے معجزہ نے سب کو نگل لیا او ر کوئی اصل اور فرع باقی نہیں رہ گئی، یہ عصا کے خالق رب العالمین کے علاوہ کسی کے بس کی بات نہیں ہے ، لہٰذا کہا: ہم رب العالمین یعنی موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لائے ،اس پروردگار پر جس نے دونوں کو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجاہے ۔

ابراہیم کی جنگ توحید ''الوہیت اور ربوبیت ''سے متعلق
حضرت موسیٰ کلیم کے زمانے سے صدیوں پہلے حضرت ابراہیم خلیل نے اپنے زمانے کے انواع و اقسام شرک سے مقابلہ کیاکہ منجملہ یہ ہیں :

الف۔ توحید الوہیت کے بارے میں مبارزہ
خدا وند عالم نے سورۂ انبیائ، شعراء اور صافات میں توحید الوہیت کے بارے میں ابراہیم کی اپنی قوم سے نزاع کا تذکرہ کیاہے ا ور ہر ایک میں اس کی کچھ کچھ داستان بیان کی ہے۔
ابراہیم نے محکم دلائل سے ان کے اعتقادات کو باطل کیا اور ان کے بتوں کو توڑ ڈالا جس کے نتیجہ میں انہیں آگ میں ڈال دیاگیا، پھر خد اوند عالم نے آگ کو ان پر سرد کر کے انہیں سلامتی عطا کیہم اس کے متعلق تفصیلی بیان سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف'توحید الوہیت'' کے بارے میں جو کچھ تحقیق ہے بیان کریں گے۔
جب مشرکوں نے اپنے بتوں کو ٹوٹا پھوٹا اور بکھرا ہوا دیکھا توابراہیم کو حاضر کرکے ان سے کہا:
(ء أنت فعلت ھذا بآلھتنا یا ابراہیم٭ قال بل فعلہ کبیرھم ھذا فاسألوھم ان کانوا ینطقون)
آیا تم نے ہمارے خدا ئوں کے ساتھ ایسا سلوک کیاہے اے ابراہیم ! ابراہیم نے کہا: بلکہ یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے ، ان سے پوچھو اگر بول سکیں۔(١)
یعنی اگر ان میں نطق کی صلاحیت ہے تو خود ان سے دریافت کر لو: ان کے بڑے نے کیا ہے یا کسی اور نے؟اور چونکہ بت بات نہیں کر سکتے یقینا ان کے بڑے نے نہیں توڑا ہے ۔
اسی طرح خدا وند عالم خبر دیتا ہے : ابراہیم نے ان لوگوںکے ساتھ بھی مبارزہ کیا جنہوں نے ستاروں کو اپنا رب سمجھ لیا تھالیکن ان کے نزدیک معنی و مفہوم کیا تھا اس سے ہمیں آگاہ نہیں کرتا ہم مشرکوں کے اخبار میں صرف اس بات کو درک کرتے ہیںکہ، ان میں سے بعض''رب'' اور ''الہ'' کو الگ الگ نہیں جانتے تھے جیسا کہ اس سے پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ انبیاء اور پیغمبروں نے ہمیشہ اپنی امت کے مشرکین سے ''توحید
..............
(١) انبیائ٦٣۔٦٢
ربوبیت'' کے بارے میںمبارزہ کیا ہے ۔
خد اوند عالم سورۂ انعام میں حضرت ابراہیم کے، ستارہ پرستوں سے مبارزہ کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :
(و کذلک نری ابراہیم ملکوت السموات و الارض و لیکون من الموقنین٭ فلما جن علیہ الیل رای کوکباً قال ھذا ربی فلما افل قال لا احب الآفلین٭ فلما رأ ی القمر بازغاً قال ھذا ربی فلما افل قال لئن لم یھدنی ربی لأکونن من القوم الضالین٭ فلما رای الشمس بازغة قال ھذا ربی ہٰذا اکبر فلما افلت قال یا قوم انی بریٔ مما تشرکون٭ انی وجھت وجھی للذی فطر السموات و الارض حنیفاً و ما أنا من المشرکین٭ و حاجہ قومہ قال اتحاجونی فی اللہ و قد ھدانِ و لا اخاف ما تشرکون بہ الا ان یشاء ربی شیئاً وسع ربی کل شیء علماً افلا تتذکرون)
اور اس طرح ابراہیم کو زمین و آسمان کے ملکوت کی نشاندہی کرائی تاکہ اہل یقین میں سے ہو جائیں جب شب کی تاریکی آئی تو ایک ستارہ دیکھا، کہا: یہ میرا رب ہے ؟ اور جب ڈوب گیا تو کہا: میںڈوبنے والے کو دوست نہیں رکھتا اور جب افق پر درخشاں چاند کو دیکھا تو کہا: ''یہ میرا رب ہے ''؟ اور جب ڈوب گیا، کہا: اگر میرا رب میری ہدایت نہ کرتا تو یقینی طور پر میںگمراہ لوگوں میں سے ہو جاتا۔ اور جب سورج کو دیکھا کہ افق پر تاباں ہے ، کہا: یہ میرا خدا ہے. یہ سب سے بڑا ہے اور جب ڈوب گیا، کہا: اے میری قوم! جس کو تم خدا کا شریک قرار دیتے ہو میں اس سے بیزار ہوں۔
میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کیا جس نے زمین و آسمان کو خلق کیا ہے میں اپنے ایمان میں خالص ہوں نیز مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
حضرت ابراہیم کی قوم ان سے جھگڑنے کے لئے آمادہ ہو گئی، کہا: کیا تم مجھ سے خدا کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو؟ جبکہ خدا نے میری ہدایت کی اور جس کو تم لوگوں نے اس کا شریک قرار دیا ہے میں اس سے نہیں ڈرتا، مگر یہ کہ ہمارا رب ہم سے کوئی مطالبہ کرے کہ ہمارے رب کا علم تمام چیزوں پر محیط ہے تم لوگ نصیحت کیوںنہیںحاصل کرتے؟!(١)
حضرت ابراہیم خلیل اپنی قوم کے ستارہ پرستوں کی زبان میں ان سے بات کرتے ہیں اوروہ لوگ رب
..............
(١) انعام٨٠۔٨٥
کے جومعنی سمجھتے ہیں اسی معنی میں استعمال کرتے ہیں آپ کا یہ کہنا : یہ میرا رب ہے : یہ توریہ اور استفہام انکاری کے عنوان سے ہے یعنی کیا یہ میرا خد اہے ؟ ( یعنی میر اخدا یہ نہیں ہے) جس طرح انہوں نے بتوں کوتوڑا تو توریہ کیا تھا اور بت پرستوں کے جواب میں کہا تھا: بلکہ ان کے بزرگ نے یہ کام کیا ہے !
ب۔حضرت ابراہیم کا جہاد توحید ربوبیت کے بارے میں تربیت اجسام کے معنی میں:گز شتہ زمانے میں بہت سارے انسانوں کا عقیدہ تھا کہ، ستارے ہماری دنیا میں اور جو کچھ اس میں ہے انسان، حیوانات اور نباتات پر اثر چھوڑتے ہیں۔
بارش ان کی مرضی کے مطابق ہے برسے یا نہ برسے، سعادت، شقاوت، تنگدستی اور آسائش، سلامت اور مرض انسانی سماج میں انہیں کی بدولت ہے موت کاکم و بیش ہونا انسان و حیوانات اور نباتات میں ان کی وجہ سے ہے ، محبت اور نفرت کا وجود آدمیوں کے درمیان یا آدمی کی محبت کا دوسروں کے دل میں ڈالنا اور جو کچھ ان امور کے مانند ہے ستاروں کی بدولت ہے اس لئے بعض عبادی مراسم ان کے لئے انجام دیتے تھے اور مراسم کی فضا کو عود و عنبر ، خوشبواور عطر اور گلاب سے بساتے اور معطر کرتے تھے نیز دعائیں پڑھتے تھے اور ان سے دفع شر اور جلب خیر کی امیدیں لگاتے تھے ان میں سے بعض کو سکاکی سے منسوب ایک نوشتہ پر میں نے دیکھا ہے کہ جس میں اقسام و انواع کے طلسم ،دعائیںاورمناجات بعض ستاروں کے لئے جیسے: زہرہ، مریخ وغیرہ کیلئے تھے کہ کبھی انہیں''رب'' کے نام سے مخاطب قرار دیا ہے ، لیکن یہ تالیف سکاکی کی ہے ، یہ ہم پر ثابت نہیں ہے ، ندیم نے بھی صائبین سے متعلق بعض خبروں میں اپنی فہرست میں، نویں مقالہ کے ذیل میں بعض صابئی قوموں کے بارے میں فرمایا ہے : ' وہ لوگ بعض ستاروں کی پوجا کرتے تھے اور ان کے لئے بعض مخصوص مراسم انجا م دیتے تھے۔
ابراہیم نے اس گروہ کی کہ جن سے ستارے، چاند اور خورشید کے بارے میں گفتگو کی ہے راہنمائی کی اور ''ھذا ربی'' کہہ کر ان کے طلوع کے وقت اور ''لا اُحب الآفلین'' بوقت غروب کہہ کر ان کی فکری بنیاد کو ڈھا دیا اور آخر میں( أِنی وجھت وجھی للذی فطر السمٰوات والأرض)کہہ کر انہیں راہِ راست دکھائی ہے ۔
ج۔ حضرت ابراہیم کا جہاد ''توحید رب'' کے سلسلے میں نظام کائنات کے مدبر کے معنی میں خدا وند عالم اس جہاد کی سورۂ بقرہ میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :
( الم تر الیٰ الذی حاج ابراہیم فی ربہ ان آتاہ اللہ الملک اذ قال ابراہیم ربی الذی یحیی و یمیت قال انا احیی و امیت قال ابراہیم فأِن اللہ یأتی بالشمس من المشرق فات بھا من المغرب فبھت الذی کفر۔۔۔)
کیا تم نے اسے نہیں دیکھا جس نے اپنے پروردگار کے بارے میں حضرت ابراہیم سے کٹ حجتی کی کہ اسے خدا نے ملک عطا کیا تھا، جب ابراہیم نے کہا: میرا رب وہ شخص ہے جو زندہ کرتا اورموت دیتا ہے۔ اس نے کہا: میں بھی زندہ کرتا ہوں اور ما رتا ہوں! ابراہیم نے کہا: خد اوند عالم مشرق سے سورج نکالتا ہے تواسے مغرب سے نکال دے! وہ کافر مبہوت اور بے بس ہو گیا۔(١)
حضرت خلیل کی اس آیت میں وہی منطق ہے جو قرآن کی منطق سورۂ اعلیٰ میں ہے کہ فرماتا ہے : پروردگار وہی خدا ہے جس نے خلعت وجود بخشااور منظم کیا اور اندازے کے ساتھ ساتھ ہدایت کی، نیز اس سلسلے میں موجودات کی مثال وہ چراگاہ ہے جسے خدا وند عالم نے اُگایا پھر اسے خشک کردیااور سیاہ رنگ بنا دیا، یعنی موجودات کو حیات کے بعد موت دی ۔
حضرت ابراہیم کا استدلال قوی اور واضح تھا۔ لیکن ان کے زمانے کے طاغوت کی خواہش تھی کہ اس پر گمراہ کن پردہ ڈال دے، لہٰذا اس نے کہا: اگر ربوبیت کا مالک وہ شخص ہے جو زندہ کرتا ہے اورمارتا ہے تو میں بھی زندہ کرتا اور مار تا ہوں، اس نے حکم دیا کہ پھانسی کی سزا کے مجرم کو حاضر کرو اور اسے آزاد کردیا اور ایک گز رتے ہوئے بے گناہ انسان کو پکڑ کر قتل کر دیا۔
اس طرح سے اس نے اپنے اطرافیوں اور ہمنوائوں کو شبہہ میں ڈال دیا۔
حضرت ابراہیم نے موت اور حیات کے معنی کے بارے میں بحث و تکرار کرنے کے بجائے محسوس موضوع اور آشکار دلیل سے احتجاج کرناشروع کیا، تاکہ اس طاغوت کے دعوی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکیں اورفرمایا: میرا خد امشرق سے سورج نکالتا ہے تواسے مغرب سے نکال کر دکھا تو وہ کافر انسان مبہوت و ششدر رہ گیا۔
حضرت ابراہیم کے زمانے کے طاغوتوں کا شرک حضرت موسیٰ کے زمانے کے طاغوت کی طرح تھا ، دونوں ہی ربویت کے دعویدار تھے، یعنی دونوں ہی کہتے تھے، ہم انسانی زندگی کے نظام میں قانون
..............
(١)بقرہ٢٥٨
گز اری(تشریع) کا حق رکھتے ہیں اور چونکہ دونوں کا دعویٰ ایک جیسا تھا تو ان دونون پیغمبروں نے بھی ایک ہی جیسا جواب دیا اور فرمایا:
انسان کا رب وہ ہے جس نے نظامِ حیات معین کیا ہے وہی تمام موجودات کا رب ہے ،جس نے موجودات کو حیات عطا کی اور اس سلسلۂ وجود کی بقا اور دوام کے لئے مخصوص فطری نظام مقرر فرمایا اور اسی نظام کے مطابق انہیں جینے کا طریقہ سکھایا اور ان کی، ہدایت کی وہ وہی ہے جو تمام زندوںکوموت دیتا ہے ۔
حضرت ابراہیم کی یہ منطق مشرکوں کو دعوت توحید دینے میں تھی جیسا کہ خدا وند عالم سورۂ بقرہ میں فرماتا ہے :
(فانھم عدو لی أِلا رب العالمین٭ الذی خلقنی فھو یھدین)
جن چیزوں کی تم لوگ عبادت کرتے ہو ہمارے دشمن ہیں ، سوائے رب العالمین کے ، وہی جس نے ہمیں پید کیا اور ہمیشہ ہماری راہنمائی کرتا ہے۔(١)
یہی بات حضرت موسیٰ نے دوسرے قالب میں فرعون کی بات کاجواب دیتے ہوئے کہی:
(ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقہ ثم ھدیٰ)
ہمارا رب وہی ہے جس نے ہر موجود کو اس کیل لوازم خلقت و حیات کے ساتھ خلق کیاپھر اس کی ہدایت کی۔(٢)
اس کے بعد حضرت ابراہیم ربوبیت الٰہی کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(و الذی ھو یطعمنی و یسقینِ، و اذا مرضت فھو یشفینِ و الذی یمیتنی ثم یحیینِ ، والذی اطمع ان یغفر لی خطیئتی یوم الدین)
وہی پروردگار جو ہمیں کھانا کھلاتا اور سیراب کرتا ہے اور جب مریض ہو جاتے ہیں شفا دیتاہے اور وہ جو کہ ہمیں حیات اور ممات دیتا ہے (موت و حیات دیتاہے) اور وہ ذات جس سے امید رکھتا ہوں کہ روز قیامت میرے گناہ بخش دے۔(٣)
قرآن کریم جب پیغمبروں کے ان کی قوم سے بحث و مباحثہ اور استدلال کے اخبار کی تکرار کرتا ہے توہر بار اس کے بعض حصے کو ایک دوسرے سورہ میں مناسبت کے ساتھ بیان کردیتا ہے یعنی فکر کو صحیح جہت دینے اور
..............
(١)شعرائ ٧٧۔ ٧٨
(٢) طہ ٥٠
(٣) شعرائ ٨٢۔ ٧٩
لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے خواہ وہ لوگ مسلمان ہوں یا مشرک، یہود ہوں یا نصاریٰ، جو بات ان کی ہدایت کے لئے ضروری ہے اس کی تکرار کرتا ہے کیونکہ قرآن کوئی تاریخی کتاب نہیںہے جوگزشتہ لوگوں کے واقعات کو وقوع کے اعتبار سے سلسلہ وار بیان کرے۔
پیغمبروں کے مبارزے اور اس بات کے جاننے کے بعدکہ انکاجہاد زیادہ تر ''رب العالمین کی ربوبیت'' سے متعلق تھا اور ''رب العالمین'' یعنی وہ جو انسانوں کا رب ہے، جس نے ان کی زندگی کو تامین اور مقدر کیا ہے ، نیز انسان کی فطرت کے مطابق ا س کے لئے نظام مقرر کیا ہے ، ایسا نظام کہ جس کا نام ''دین اسلام ہے '' وہ دین کہ جس کی پیغام رسانی کے لئے تمام پیغمبروں کو وحی کی اور ان حضرات نے اس کا پیغام پہنچانے کے لئیقیام کیا، لیکن اب سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ اگر خدا کا دین صرف اور صرف اسلام ہے تو بعض پیغمبروں کی شریعت کے ذریعہ دوسرے پیغمبروں کی ''نسخ شریعت'' کے کیا معنی ہیں؟
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی تحقیق انشاء اللہ آئندہ بحث''نسخ؛ انبیاء کی راہ میں'' کے عنوان سے اس کتاب کی دوسری جلد میں تحقیق کریں گے۔

و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین