ائمہ اہل بیت کی روایات میں آیات کی تاویل
صدوق نے ذکر کیا ہے :عباسی خلیفہ مامون نے مذاہب اسلام کے صاحبان فکرو نظر نیز دیگر ادیان کے ماننے والے یہود ، نصاریٰ ، مجوس اور صابئین کو آٹھویں امام حضرت علی بن موسیٰ الرضا سے بحث کرنے کے لئے جمع کیا ،ان کے درمیان علی بن جہم جواسلامی مذہب کا صاحب نظر شمار ہوتا تھا اس نے امام سے سوال کیا اور کہا: اے فرزند رسول! کیاآپ لوگ انبیاء کو معصوم جانتے ہیں؟ فرمایا: ہاں، کہا: پھر خد اوند عالم کے اس کلام
کے بارے ،میں کیاکہتے ہیںکہ فرماتاہے :(و عصی آدم ربہ فغوی) آدم نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی اور جزاسے محروم ہو گئے؟(١) اور یہ کلام جس میں فرماتا ہے:(وذا النون اذ ذھبمغاضبا فظن ان لن نقدر علیہ)؛ اور ذا النون( یونس کہ ) غضبناک چلے گئے اور اس طرح گمان کیا کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے۔(٢)اور یہ کلام کہ یوسف کے بارے میں فرماتا ہے :(ولقد ھمت بہ وھم بھا) اس عورت نے یوسف کا اور یوسف نے اس عورت کا ارادہ کیا؟(٣)اور جو داؤد کے بارے میں فرمایا ہے:(و ظن داود انما فتناہ)اور داؤد نے خیال کیا کہ ہم نے اسے مبتلا کیا ؟(٤) اور اپنے نبی محمدۖ کے بارے میں کہ فرمایا: (و تخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ و تخشی الناس و اللہ احق ان تخشاہ)آپ دل میں ایک چیز پوشید رکھتے تھے جبکہ خد انے اسے آشکار کر دیااور لوگوں سے خوفزدہ ہو رہے تھے جبکہ خدا اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے؟ (٥)
آپ ان آیات کے بارے میں کیا فرماتے ہیں اور ا س کاکیا جواب دیتے ہیں:
امام علی بن موسیٰ الرضا نے فرمایا: تم پر وائے ہو اے علی! خدا سے ڈرو اور برائی کی نسبت اللہ کے انبیاء کی طرف مت دو اور کتاب خدا کی اپنی ذاتی رائے سے تاویل نہ کرو۔ خدا وند عز و جل فرماتا ہے : (وما یعلم تأویلہ الا اللہ و الراسخون فی العلم ) خدا اور راسخون فی العلم کے علاوہ کوئی آیات کی تاویل کا علم نہیں رکھتا ہے ۔(٦)
لیکن جو خدا نے حضرت آدم کے بارے میں فرمایا ہے :(وعصی ٰآدم ربہ فغوی ) ایسا ہے کہ خدا نے آدم کی تخلیق کی تاکہ زمین پر اس کی طرف سے جانشین اور خلیفہ ہوں، انہیں اس بہشت کے لئے خلق نہیں کیا تھا، آدم کی نافرمانی اس بہشت میں تھی نہ کہ اس زمین پر اور وہ اس لئے تھی کہ تقدیر الٰہی انجام پائے، وہ جب زمین پر آئے اور خد اکے جانشین اور اس کی حجت بن گئے تو عصمت کے مالک ہو گئے، کیونکہ خدا وند عالم نے فرمایا ہے : ( ان اللہ اصطفی آدم و نوحاً و آل ابراہیم و آل عمران علٰی العالمین) خدا نے آدم، نوح،آل ابراہیم اور آل عمران کو عالمین پر فوقیت دی ۔(٧)
لیکن جو اس نے حضرت یونس کے بارے میں فرمایا ہے :
..............
(١)طہ٢١١
(٢)انبیائ٨٧
(٣)یوسف٢٤
(٤)ص٢٤
(٥)احزاب٣٧
(٦)آل عمران٧
(٧)آل عمران٣٣
( و ذا النون اذذہب مغاضبا فظن ان لن نقدرعلیہ )
اس کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا کہ انہوں نے خیال کر لیا تھا کہ خدا ان کے رزق کو تنگ نہیں کر سکتا، کیا تم نے خد کا یہ کلام نہیں سنا ہے کہ فرمایا: (واما اذا ما ابتلاہ فقدر علیہ رزقہ)لیکن جب انسان کا امتحان لیتا ہے تو اس کے رزق کو کم کر دیتا ہے ؟(١) یعنی اسے تنگی معیشت میں مبتلا کر دیتا ہے، اگر یونس واقعی طور پر ایسا خیال کرتے کہ وہ اس پر قدرت اور قابو نہیں رکھتا ہے تو وہ کافر ہو گئے ہوتے۔
رہی خدا کی گفتگو حضر ت یوسف کے بارے میں کہ فرمایا ہے : (ولقد ھمت وھم بھا) اس عورت نے یوسف کا اور یوسف نے اس عورت کا قصد کیا یعنی اس عورت نے گناہ کا قصد کیا اور یوسف نے اس کے قتل کا اگر مجبور کرتی تو ،چونکہ عظیم مخمصہ میں پڑ گئے تھے تو خدا نے اس عورت کے قتل اور فحشاء سے دور کر دیا۔
جیسا کہ فرمایا:(کذلک لنصرف عنہ السوء و الفحشائ) ہم نے ایسا کیا تاکہ بدی یعنی قتل اور فحشاء یعنی زنا کوان ( یوسف) سے دور کر یں۔
لیکن داؤد کے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں؟ علی بن جہم نے کہا: کہتے ہیں: داؤد محراب عبادت میں نمازپڑھ رہے تھے کہ ابلیس خوبصورت ترین اور خوشنما پرندہ کی شکل میں ظاہر ہوا انہوں نے نماز توڑ دی اور پرندے کو پکڑنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے پرندہ گھر میں داخل ہو گیا انہوں نے پیچھا کیا اڑ کر چھت پر بیٹھ گیا اس کے چکر میں اوپر گئے، پرندہ اور یا بن حنان کے گھر میں داخل ہو گیا نظروں سے تعاقب کیااچانک ''اوریا'' کی بیوی پر غسل کی حالت میں نظر پڑ گئی جب اس پر نظر پڑی دلباختہ اور فریفتہ ہو گئے ایسااس وقت ہوا جب کہ اوریا کو اس سے پہلے کسی جنگ میں بھیج چکے تھے پھر لشکر کے کمانڈر کو لکھا کہ اوریا کو لشکر کی پہلی صف اور محاذ کے مدمقابل رکھنا اوریا پہلی صف میں جنگ کرنے کے لئے روانہ ہو گیا اور مشرکوں پر فتح حاصل کی تو یہ فتح داؤد پر بہت گراں گز ری، دوبارہ خط لکھا کہ اوریا کو تابوت کے آگے آگے جنگ کے لئے روانہ کرو ''اوریا''( خدا اس پر رحمت نازل کرے) مار دیا گیا اور داؤد نے اس کی بیوی سے شادی رچا لی، امام نے یہ باتیں سن کر اپنا منھ پیٹ لیااور کہا:انا للہ و انا الیہ راجعون یقینا تم نے خدا کے نبی پر یہاں تک کہ تہمت لگائی اور افترا پر دازی سے کام لیا ،کہ انہوں نے نماز میں لاپرواہی برتی اورپرندہ کے چکر میں پڑ گئے اور برائی
..............
(١)فجر١٦
میں ملوث ہو گئے اور بے گناہ کے قتل کا اقدام کیا!! علی بن جہم نے پوچھا: اے فرزند رسول! پھر حضرت داؤد کی خطا کیا تھی؟ امام نے فرمایا: تم پروائے ہو! داؤد کا گناہ صرف یہ تھا کہ انہوں نے خیال کر لیا تھا خدا نے ان سے زیادہ عاقل و دانا مخلوق پیدا نہیں کی ہے ، خداوندعالم نے دو فرشتوں کو بھیجا وہ دونوں تاکہ ان کی محراب عبادت میں داخل ہوئے اور کہا:
(خصمان بغی بعضنا علیٰ بعض فاحکم بیننا بالحق ولا تشطط و اھدنا الیٰ سواء الصراط٭ ان ھذا اخی لہ تسع و تسعون نعجة و لی نعجة واحدة فقال اکفلنیھا و عزنی فی الخطاب)
ہم دو آدمی شاکی ہیں کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ظلم کیا ہے ؛ اس وقت ہمارے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں اور ظلم و ستم روانہ رکھیںاور ہمیں راہ راست کی ہدایت کریں! یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس٩٩ بھیڑیں ہیں اورمیرے پاس ایک ہے اور وہ کہتا ہے کہ اس ایک کو بھی میں اسے دیدوں اوریہ گفتگو میں مجھ پر غالب آ گیا ہے ۔(١)
داؤدنے (ع) مدعی علیہ کے بر خلاف قضاوت کرنے میں عجلت سے کام لیااور کہا: (لقد ظلمک بسوال نعجتک الیٰ نعاجہ)یقینا اس نے تم سے بھیڑ کا سوال کر کے تم پر ظلم کیا ہے اور مدعی سے اس کے دعویٰ پر دلیل اور بینہ طلب نہیں کیا ا ور مدعی علیہ کی طرف توجہ نہیں کی کہ اس سے بھی پوچھتے: تم کیا کہتے ہو؟ یہ داود کی خطا قضاوت میں تھی نہ کہ وہ چیز جس کے تم لوگ قائل ہوئے ہو۔
کیا خدا وند عالم کا کلام تم نے نہیں سنا کہ فرماتا ہے:(انا جعلناک خلیفة فی الارضفاحکم بین الناس بالحق)اے داؤد! ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ قرار دیا لہٰذا لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ قضاوت کرو۔(٢)
علی بن جہم کہتا ہے: میں نے کہا: اے فرزند رسول خداۖ پھر'' اوریا'' کی داستان کیا ہے ؟ امام رضا نے فرمایا: داؤد کے زمانہ میں عورتوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان کا شوہر مر جاتا تھا یا قتل کر دیا جاتا تھا تو وہ کبھی شوہر نہیں کرتی تھیں، یہ سب سے پہلے آدمی ہیں جن کے لئے خدا وند عالم نے روا رکھا کہ اس عورت سے شادی کریں جس کا شوہر مارا گیا تھا یہ وہ چیز ہے جو لوگوں کو'' اوریا'' کے بارے میں گراں گزری۔(٣)
..............
(١)ص٢٢۔٢٣
(٢) ص ٢٦
(٣)بحارج١١ص٧٣۔٧٤ نقل از امالی صدوق و عیون اخبار الرضا.
داستان جناب دائود کے سلسلہ میں حضرت امیر المومنین سے مروی ایک مخصوص روایت کہ آپ نے فرمایا: اگر کسی کو میرے پاس لایا جائے اور وہ یہ کہے کہ دائود نے'' اوریا'' کی بیوی سے شادی کی ہے تو میں اس کو دو ہری حد لگائوں گا ایک حد نبوت کی خاطر اور ایک حد مقام اسلام کی خاطر یعنی اگر کوئی یہ کہے کہ اوریا کی شہادت سے پہلے دائود نے اس کی بیوی سے شادی کر لی ہے ۔(١)
اوردوسری روایت میں فرماتے ہیں: جو بھی قصہ گو لوگوں کی طرح داؤد کی داستان روایت کرے گا تو میں اس کو ایک سو ساٹھ تازیانے لگائوں گا اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ حد انبیاء پر افترا پر دازی کی ہے (٢)
صدوق نے اسی طرح کی روایت امام جعفر صادق سے بھی ذکر کی ہے :
آٹھویں امام علی بن موسیٰ الرضا سے ایک دوسری روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: حضرت داؤد کے زمانے میں عورتوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان کا شوہر مر جاتا یا قتل ہو جاتا تھا ؛ تو اس کے بعد شادی نہیں کرتی تھیں اور کسی کی زوجیت قبول نہیں کرتی تھیں اور سب سے پہلا شخص جس کے لئے خدا نے یہ روا رکھا اور جائز کیا وہ داؤد تھے کہ ایک ایسی عورت سے شادی کریں جس کا شوہر مر گیا تھا، انہوں نے ''اوریا'' کے انتقال اور عدۂ وفات تمام ہونے کے بعداس کی بیوی سے شادی کی، یہ چیز ہے جو اوریا کے مرنے کے بعد لوگوں پر گراں گز ری۔(٣)
مولف کہتے ہیں: اگر کہا جائے کہ جو آپ نے روایت ذکر کی ہے اور جو علی بن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیر میںذکر کیا ہے دونوں میں منافات ہے، اس روایت کا خلاصہ یہ ہے :
حضرت داؤد محراب عبادت میں نماز پڑ ھ رہے تھے کہ اچانک ایک پرندہ آپ کے سامنے آکر بیٹھ گیا اور اس نے انہیں اس درجہ حیرت میںڈال دیا کہ انہوں نے نماز ترک کر دی اور اس کو پکڑنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، پرندہ اڑ کر وہاں سے داؤد اور'' اوریا'' کے گھر کے درمیان واقع دیوارپر بیٹھ گیا، داؤد اوریا کو محاذ جنگ پر بھیج چکے تھے، داؤد دیوار کے اوپر چڑھے تاکہ اسے پکڑ لیں اچانک ایک عورت کو غسل کرتے دیکھا جب اس عورت نے ان کا سایہ دیکھا اپنے بالوں کو پریشان کر کے اپنے جسم کو چھپا لیا داؤد اس کے گرویدہ ہو گئے اور اس کے بعد اپنی محراب عبادت میں لوٹ آئے اور لشکر کے کمانڈر کو لکھا کہ فلاں جگہ اور فلاں مقام کی طرف جائے اور تابوت کو اپنے اور دشمن کے درمیان قرار دے اور اور یا کو تابوت کے آگے
..............
(١)تفسیر آیہ :مجمع البیان ، نورالثقلین ، تنزیہ الانبیاء .
(٢)تفسیر خازن٣٥٤، تفسیر رازی ١٩٢٢٢، نور الثقلین٦٤
(٣)بحار ٢٤١٤، نور الثقلین٤٤٦٤،نقل از عیون اخبار الرضا
بھیجے، اس نے ایسا ہی کیا اور اوریا قتل کر دیا گیا وغیرہ۔(١)
توہم جواب دیں گے: اس روایت کو راوی نے مکتب خلفاء میں وارد متعدد روایتوں سے جمع اور تلفیق کی ہے اور اپنے خیال سے اس پر اضافہ کیاہے، پھر اما م صادق کے بقول روایت کیا ہے، ابھی ہم اس روایت کے متن کی تحقیق اور بررسی سند کی جانب اشارہ کئے بغیر کرتے ہیں۔
١۔امام صادق نے خود ہم سے فرمایا: دو ایسی حدیثیں جو آپس میں معارض ہوں ان میں سے جو عامہ (سنی) کے موافق ہو اسے چھوڑ دو اور اس پر اعتماد نہ کرو۔(٢)
٢۔ اوریا کی داستان سے متعلق امام جعفر صادق سے ہم تک ایک روایت پہنچی ہے کہ جب حضرت سے سوال کیا گیا :
لو گ جو کچھ حضرت داؤد اور اوریا کی بیوی کے متعلق کہتے ہیں اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا: یہ وہی چیز ہے جو عامہ( مکتب خلفاء کے ماننے والے) کہتے ہیں۔
امام جعفر صادق اس حدیث کی تصریح کرتے ہیں کہ لوگوں کی داؤداور'' اوریا'' کی بیوی سے متعلق باتوںکا سر چشمہ عامہ ہیں، یعنی مکتب خلفاء کے پیرو ہیں لہٰذا یہ بات یقینی طور پر ان کے مکتب سے مکتب اہل بیت کی کتابوں میں داخل ہو گئی ہے اور ہم ان روایات کو اپنی جگہ پر''روایات منتقلہ '' یعنی مکتب خلفاء سے نقل ہو کر مکتب اہل بیت میں آنے والی روا یات کانام دیتے ہیں۔(٣)
اگر اس روایت کا ماخذ و مدرک کتب تفاسیر اور تاریخ میں تلاش کر یں(٤) تو سمجھ لیں گے کہ اس روایت کو روایوں نے رسول خداۖ سے نقل نہیں کیا ہے او ر یہ نہیں کہا ہے کہ اسے رسول خداۖ نے فرمایا ہے ،جز ایک روایت کے کہ سیوطی نے مورد بحث آیت کی تفسیر کے ذیل میں یزید رقاشی سے اور اس نے انس سے روایت کی ہے اور ہم نے اس کے باطل ہونے کو اس بحث کے آغاز میں واضح کر دیا ہے ۔
رہی زید اور زینب کی داستان، رسول اکرمۖ نے زینب کی زید سے شادی کر کے دور جاہلیت کے نسبی برابری کے قانون اور خاندانی و قبائلی تفریق کو توڑ دیا اوراس کو اسلامی مساوات کے قانون میں تبدیل کر دیا،
..............
(١)بحار٢٣١٤،از تفسیر قمی (٥٦٢۔٥٦٥)اس کا تتمہ اسرائلیات نامی کتاب اور اس کا اثر تفسیر کی کتابوں میں طبع اول ، بیروت ، ص ٢٣٣، میں ملاحظہ کریں .(٢)کتاب معالم المدرستین،ج ٣، ص ٣٣٦.(٣) بحث '' روایات منتقلہ '' جلد دوم،''القرآن الکریم و روایات المدرستین '' ملاحظہ ہو۔(٤)آیت کی تفسیر کے بارے میں تفسیر طبری، قرطبی ،ابن کثیر اور سیوطی ملاحظہ ہو .
آنحضرت ۖاس عظیم توفیق کے بعد خدا کی طرف سے مامور ہوئے کہ زید کی مطلقہ سے شادی کرکے منھ بولے بیٹے کے قانون کو بھی توڑیں جو کہ زمانۂ جاہلیت کا مشہور اصول تصور کیا جاتاتھا اورپیغمبرۖ کا یہ کام جناب داؤد کے کام سے بہت مشابہ ہے کہ انہوں نے اوریا کی بیوی سے شادی کرکے جاہلیت کے قانون کو توڑکر اسلامی قوانین میں تبدیلکر دیا تمام انبیاء کرام احکام اسلامی کے اجراء کرنے میں ایسے ہی ہیں۔ پیغمبر اکرمۖنے قانون ربا (سود) کو باطل کرنے اور ''اعراب جاہلی کے خون بہا'' کے قانون کو توڑ نے میں بھی ایسا ہی کیا اور اپنے چچا عباس کے ربا کے عنوان سے حاصل شدہ منافع کو مردود شمار کیااور اپنے چچا زاد بھائی ربیعہ کے خون کے ضائع (عدم قصاص) ہونے کا اعلان حجة الوداع کے موقعہ پر کیا۔(١)
یہ داؤد نبی کی'' اوریا ''کی بیوہ سے شادی اور حضرت خاتم الانبیاء کی منھ بولے بیٹے زید کی مطلقہ بیوی زینب سے شادی کا نچوڑ اور خلاصہ تھا، لیکن افسوس یہ ہے کہ اسرائیلی روایتیں انبیاء کی داستانوں کی تاویل میںاور جعلی روایات اس کے علاوہ دوسری چیزوں کی تاویل میںبعض کتب تفسیر اسلام اورتحقیقی مآخذ میں محققین کی صحیح رائے اور درست نظر کے لئے مانع بن گئی ہیں اور حق کوباطل اور باطل کو حق بنا دیا ہے۔ یہ روایات خاص کر اس وجہ سے مشہور ہو گئیں اور اسلامی سماج کے متوسط طبقہ میں رائج ہو گئیں تاکہ بعض حاکم گروہ کے جنایات کی توجیہ ہو سکے جو کہ شہوت پرستی اور ہوس رانی میں اپنی مثال آپ تھے جس طرح کہ بڑے بڑے گناہوںکا معاویہ اور یزید بن معاویہ اور اس جیسے مروانی خلفاء سے صدوراس بات کا باعث بناکہ عامہ انبیاء اور اللہ کے رسولوں کی طرف بھی گناہوں کی نسبت دینے لگے اور ان سے عصمت کو سلب کر لیا اور قرآنی آیات کی ان کے حق میں اس طرح تاویل کی کہ بعض خلفاء پر کوئی اشکال اور اعتراض نہ ہو۔
الٰہی مبلغین کے صفات کی تحقیق اور اس بحث کے خاتمہ کے بعد مناسب ہے کہ آئندہ بحث میں اپنے زمانہ کے ان کی طاغوتوں اور سرکش دولت مندوں سے ان کی جنگ اور مبارزہ کی روش کے متعلق تحقیق کریں۔
..............
(١) سیرہ ابن ہشام طبع مصر ١٣٦٥ھ ،٢٧٥٤ رسول خداۖ نے اپنے حجة الوداع کے خطبہ میں فرمایا: (...ہر قسم کا ربا اور سود اٹھا لیا گیا ہے لیکن اصل سرمایہ تمہاری ملکیت ہے نہ کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی کسی کے ظلم کا شکار ہو خدا کا حکم یہ ہے کہ کوئی ربا نہ ہو، نیز عباس بن عبد المطلب کا ربا سارے کا سارا اٹھا لیا گیا ہے اور تمام جاہلیت کا خون بھی، سب سے پہلا خون جو تمہاری گردن سے اٹھاتا ہوں وہ ہمارے چچا زاد بھائی ربیعہ بن حرث بن عبد المطلب کے بیٹے کا ہے ( ربیعہ کا بیٹا رضاعت کے زمانہ میں قبیلۂ بنی لیث میں تھا جسے قبیلۂ ہذیل نے مار ڈالا تھا)۔
|