بعض کلموں اور اصطلاحوںکی تفسیر
اول۔بحث کی اصطلاحوں کی تعریف
الف۔ خدا کے اوامر اور نواہی: بعض خدا کے اوامر اور نواہی ذاتی امور سے متعلق ہیں اور ان کی مخالفت کے آثار صرف اورصرف دنیاوی زندگی میں آشکار ہوتے ہیں اور اخروی زندگی سے متعلق نہیں ہوتے ، جیسے:
(کلوا واشربواولا تسرفوا) کھائو، پیو اور اسراف نہ کرو۔(١)
اسراف: کسی بھی کام میں حد سے تجاوز اور زیادہ روی کو کہتے ہیں جسے انسان انجام دیتا ہے ، جیسے : پاکیزہ چیزوں کو زیادہ سے زیادہ کھاناپینا، انسان اس طرح کے اوامر و نواہی کی مخالفت کا اثر اپنی دنیاوی زندگی ہی میں دیکھ لیتا ہے اور اس کا ربط اس کی آخرت سے نہیں ہے اس طرح کے امر ونہی کو فقہی اصطلاح میں امر و نہی ارشادی کہتے ہیں۔
دوسرے اوامر و نواہی ایسے ہیں جن کا بجالاناواجب اور ترک حرام اور جس فعل سے روکا گیا ہے اس کے بجالانے کو ممنوع کہتے ہیں۔
اس طرح کے اوامر و نواہی کی مخالفت کے آثار روز آخرت سے مربوط اور عذاب کا باعث ہیں، انہیں فقہی اصطلاح میں امر ونہی مولوی کہتے ہیں، جیسے : نماز ،روزہ اور حج کا وجوب یا جوا، شراب اور ربا وغیرہ کی حرمت۔
ب۔ ترک اولیٰ: انسان کے افعال کے درمیان جو وہ انجام دیتا ہے کچھ اس طرح کے ہیں کہ اگر ان کی ضد بجالاتا تو بہتر ہوتا ، ایسے بہتر کے ترک کو ''ترک اولیٰ'' کہتے ہیں، جیسے اللہ کے نبیوں کے بعض افعال، جیسے آدم و موسیٰ علیہما السلام جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی آیا ہے انشاء اللہ آئندہ بحث میں آئے گا۔
ج۔ معصیت: معصیت اور عصیان، دونوںہی اطاعت سے خارج ہونے اور فرمان کے انجام نہ دینے کوکہتے ہیں، عاصی یعنی نافرمان۔
..............
(١)فتح ٣۔١
جملوں میں لفظ( امر) کبھی معصیت کے مشتقات کے ذکر کے بعد آتا ہے ، جیسییہ بات سورۂ کہف میں حضرت موسیٰ اور خضر کی داستان میں آئی ہے اور بہ زبان موسیٰ فرماتاہے:
(ستجدنی ان شاء اللہ صابراً و لا اعصی لک ''امرا'')
عنقریب مجھے خدا کی مرضی اور خواہش سے صابر پائو گے اور کسی امر میں تیرا مخالف اور نافرمان نہیں ہوں گا۔(١)
اور جہنم کے کارندے، فرشتوں کی توصیف میں سورۂ تحریم میں ارشاد ہوتا ہے :
(علیہا ملائکة غلاظ شداد لا یعصون اللہ ماأمرھم و یفعلون ما یؤمرون)
جہنم پر سخت مزاج اور بے رحم فرشتے مقرر کئے گئے ہیں جو کبھی خدا کے ''امر'' کی مخالفت نہیں کرتے اور جس پر وہ مامور ہیں عمل کرتے ہیں۔(٢)
کلمہ اور لفظ امر بیشتر اوقات جملہ میں معنی واضح ہونے کی وجہ سے استعمال نہیں کیا جاتا ہے جیسے خدا کا کلام سورۂ طہ میں: (و عصیٰ آدم ربہ)آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی یعنی آدم نے ''امر'' پروردگار کی نافرمانی کی۔(٣)
کبھی کبھی نافرمان شخص کا نام بھی جملہ میں نہیں لایا جاتا جیسے فرعون کے بارے میں سورہ ٔ نازعات میں آیا ہے : ( فکذب و عصی ) پس اس (فرعون )نے تکذیب کی اور نافرمانی کی ۔
د۔ذنب: ذنب کی حقیقت ہر اس کام کا اثر اور نتیجہ ہے کہ جو آئندہ انسان کو نقصان دیتا ہے۔ یہ اثر کبھی بعض دنیاوی امور سے مخصوص ہوتا ہے اور طاقتوروں کی طرف سے ہوتا ہے جو انسانوں کو نقصان پہنچانے کی قدرت اور توانائی رکھتے ہیں، جیسا کہ موسیٰ کی گفتگو میں خدا سے مناجات کے موقع پر سورۂ شعراء میں ذکر ہوا ہے۔
(و اذ نادیٰ ربک موسیٰ ان ائت القوم الظالمین٭ قوم فرعون الا یتقون٭ قال رب انی اخاف ان یکذبون٭ و یضیق صدری و لا ینطلق لسانی فأرسل الیٰ ھٰرون٭ و لھم علیِّ''ذنب'' فاخاف ان یقتلون٭ قال کلا فاذھبا بآیاتنا انا معکم مستمعون)
جب تمہارے رب نے موسیٰ کو آواز دی کہ ظالم اور ستمگر قوم فرعون کی طرف جائو، آیا وہ لوگ پرہیز نہیں کرتے؟!موسیٰ نے عرض کی: پروردگار ا! میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ مجھے جھوٹا نہ کہیں اور میرا دل
..............
(١)کہف ٦٩
(٢) تحریم ٦
(٣) نازعات ٢١
تنگ ہو جائے اور زبان گویائی سے عاجزہو جائے لہٰذا یہ پیغام ہارون کے پاس بھیج دے ان کا میرے ذمہ ''ایک گناہ'' ہے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ مجھے مار نہ ڈالیں، فرمایا: ایسا نہیں ہے ، تم دونوں ہی ہماری نشانیوں کے ساتھ جائو، ہم تمہارے ساتھ سننے والے ہیں۔(١)
موسیٰ کا کام ( گناہ) وہی قبطی شخص کو قتل کر ناتھا کہ جس کا ذکر سورۂ قصص کی آیات میں اس طرح آیا ہے:
( ودخل المدینة علیٰ حین غفلة من اھلھا فوجد فیھا رجلین یقتتلان ھذا من شیعتہ و ھذا من عدوہ فاستغاثہ الذی من شیعتہ علیٰ الذی من عدوہ فوکزہ موسیٰ فقضیٰ علیہ قال ھذا من عمل الشیطان انہ عدو مضل مبین٭ قال رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی فغفر لہ انہ ھوالغفور الرحیم٭ قال رب بما انعمت علی فلن اکون ظھیراً للمجرمین٭ فأصبح فی المدینة خائفاً یترقب فاذا الذی استنصرہ بالامس یستصرخہ قال لہ موسیٰ انک لغوی مبین٭ فلما ان اراد ان یبطش بالذی ھو عدو لھما قال یا موسیٰ اترید ان تقتلنی کما قتلت نفساً بالامس ان ترید الا ان تکون جباراً فی الارض وما ترید ان تکون من المصلحین٭ و جاء رجل من اقصیٰ المدینة یسعیٰ قال یا موسیٰ ان الملأ یأتمرون بک لیقتلوک فاخرج انی لک من الناصحین٭ فخرج منھا خائفاً یترقب قال رب نجنی من القوم الظالمین)(٢)
وہ جب اہل شہر غافل تھے شہر میںداخل ہو گئے، ناگہاں دو شخص کو آپس میں لڑتے جھگڑتے دیکھا؛ ایک ان کا پیرو تھا اور دوسرا دشمن، جوان کا پیر و تھا اس نے دشمن کے مقابل ان سے نصرت طلب کی؛ موسیٰ نے ایک زبردست گھونسا اس کے سینہ پر مارا اور کام تمام کر دیا۔ اور کہا: یہ شیطان کے کام سے تھا جو کھلم کھلا دشمن اور گمراہ کرنے والا ہے پھر کہا: خدایا!میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے مجھے معاف کر دے! خدا نے اسے معاف کر دیا کہ وہ بخشنے والا ہے عرض کیا: خدایا جو تونے ہمیں نعمت دی ہے اس کے شکرانہ کے طور ر میں کبھی مجرموں کی حمایت نہیں کروں گا! موسیٰ شہر میں خوفزدہ اور چوکنا تھے کہ اچانک دیکھا کہ وہی شخص جس نے کل نصرت کی درخواست کی تھی آواز دے رہا ہے اور ان سے مدد مانگ رہا ہے موسیٰ نے اس سے کہا: یقینا تم کھلم کھلا گمراہ انسان ہواور جب چاہا کہ اس پر سختی کریںجو دونوں کا مشترکہ دشمن تھا تواس نے کہا: اے موسیٰ! کیا مجھے مار ڈالنا چاہتے ہو جس طرح سے کل ایک انسان کو قتل کر ڈالا ہے؟!کیا چاہتے ہو کہ تم زمین پر صرف جبار بن کر
..............
(١)شعرائ١٠۔١٥
(٢)قصص١٥.
رہو اور مصلح بن کر رہنانہیں چاہتے! اس اثناء میں شہر کے دور دراز علاقہ سے ایک مرد تیزی کے ساتھ آیا اور بولا اے موسیٰ قوم کے سردار تمہارے قتل کا پروگرام بنا رہے ہیں؛ باہر نکل جائو میں تمہارا خیر خواہ ہوں! موسیٰ خوفزدہ اورمحتاط انداز میں شہر سے باہر نکل گئے اور کہا: خدایا! مجھے اس ظالم قوم سے نجات دے۔
حضرت موسیٰ کا کام جو کہ قبطی کا قتل تھا اس کا اثر او ر نتیجہ یہی تھا کہ فرعونیوںنے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا۔
خدا کے مولوی اوامر اور نواہی کی نافرمانی کے زیادہ تر آثار اور نتائج آخرت میں انسان کے دامن گیر ہوں گے کبھی دنیا و آخرت دونوں میںدامن گیر ہوتے ہیںاور وہ خدا کے مقابل گستاخانہ گناہ ہیں۔
دوسرے۔ بعض کلمات کی تشریح
١۔ ذالأ ید: قدرت مند
٢۔ اوّاب: جیسیتواب،خدا کی طرف توجہ کرنے اور لوٹنے والا وہ بھی گناہوں کے ترک اور فرمان کی انجام د ہی کے ساتھ۔
٣۔ لا تشطط: ظلم نہ کرو اور حد سے تجاوز نہ کرو، شطط کے مادہ سے ،قضاوت میں ظلم و جور اور حد سے تجاوز کے معنی میں ہے ۔
٤۔اکفلنیھا:مجھے اس کا ولی اور سر پرست قرا دے اس کی نگہبانی اور حفاظت میرے حوالے کر دے۔
٥۔ عزّنی فی الخطاب: وہ گفتگو میں مجھ پر سختی سے پیش آیا ہے۔
٦۔ الخلطائ: دوستوں، پڑوسیوں اور شریکوں کے معنی میں ہے۔
٧۔ ظن: ظن وہ چیز ہے جو شواہد اور علامتوں سے حاصل ہوتا ہے ،کبھی یقین کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے ، جیسے ''وظن داؤد انما فتناہ'' داؤد نے یقین کیا کہ ہم نے اس کا امتحان لیا ہے اور کبھی ظن ، یقین سے دور حدس اور وہم کی حد میں استعمال ہوتا ہے ، جیسے وما لھم بذلک من علم ان ھم الا یظنون وہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں انہیں اسکا کوئی علم نہیں ہے بلکہ صرف حدس اور وہم کرتے ہیں۔
٨۔فتنّاہ: ہم نے اسے مبتلا کیا، آزمایا
٩۔خرّ : گر پڑا، خرّ راکعا یعنی رکوع میں گیا
١٠۔ اناب: توبہ و انابت کی اور خدا کی پناہ مانگی، ابراہیم علیہ السلام کواس لحاظ سے منیب کہتے تھے کہ وہ اپنے امور میں خدا پر تکیہ کرتے اور اسی کی طرف رجوع کرتے تھے۔
١١۔ فغفرنا لہ: اس کی پوشش کی غافر اور غفور ،چھپانے والااور غفار مبالغہ کے لئے ہے، زرہ کا بعض حصہ جو ٹوپی کے نیچے رکھتے ہیں مغفر کہتے ہیں، اس لئے کہ سر اور گردن کو ڈھانک لیتا ہے، غفر اللہ ذنوبہ ، یعنی: خدا وند عالم نے اس کے گناہوں کو پوشیدہ کر دیا، یہ ڈھانکنا یا پوشیدہ کرنا، دینا اور آخرت میں گناہوں کے آثار کا مٹانا ہے ۔
١٢۔ زلفیٰ: قرب و منزلت
١٣۔ مآب: سر انجام ، اوب کا اسم زمان و مکان ہے ( اوب یعنی بازگشت)
١٤۔ خلیفة: خلیفہ کے معنی کی تشریح گز ر چکی ہے اس کا خلاصہ اس طرح ہے۔
خلیفة اللہ قرآن میں اس معنی میںجیسا کہ بعض نے کہا ہے، نوع انسان کی خلافت زمین پر نہیں ہے بلکہ مراد: یہ ہے کہ لوگوں کی ہدایت اور ان کے درمیان قضاوت کرنے کے لئے خدا کی طرف سے برگزیدہ امام اور پیشوا؛ جیسا خدا وند متعال کی دائود سے گفتگو سے واضح ہے :
(یا داود انا جعلنا ک خلیفة فی الارض فاحکم بین الناس بالحق )
اے داؤد! ہم نے تم کو روئے زمین پر جانشین اور خلیفہ بنایا لہٰذا لوگوں کے درمیان حق (انصاف) کے ساتھ قضاوت کرو۔
١٥۔ خیرة: اختیار اورانتخاب کا حق۔
١٦۔ وطر: اس اہم ضرورت اور احتیاج کو کہتے ہیں کہ جب اسے پورا کردیتے ہیں تو کہتے ہیں: قضیٰ وطرہ اس کی ضرورت کو پورا کیا۔
١٧۔ادعیائھم: ان سے منسوب لوگ، دعی: وہ شخص جس کو کسی قوم سے نسبت دیں اور وہ ان میں سے نہ ہو، اس کا بارز مصداق منھ بولا فرزند ہے۔
١٨۔سنة اللہ: خدا کے اس نظام کو کہتے جو اس نے مخلوقات کے لئے معین و مقدر فرمایا ہے ، ''سنة اللہ فی الذین خلوا ''اس خدائی فرمان اور شریعت کو کہتے ہیں جو اس نے گز شتہ انبیاء پر نازل کی ۔
١٩۔ قدراًمقدوراً: جس کو تدبیر کے ذریعہمعین کیا جائے، قدر اللہ الرزق اللہ نے محدود اور کم مقدار میں روزی قرار دی۔
٢٠۔ جذاذ: ٹکڑے ٹکڑے اور ٹوٹاہوا۔
٢١۔ فتیٰ: شادا ب جوان، جو ابھی تازہ جوا ن ہوا ہوغلام اور کنیز کو بھی عطوفت، مہربانی اور دلجوئی کے عنوان سے فتیٰ کہا جاتا ہے نیز ہر جہت سے کامل مردوں کو بھی فتی کہا جاتا ہے، لیکن یہاں مراد نوجوان ہے۔
٢٢۔ نکسوا: ذلت و خواری کے ساتھ ان کے سر جھکا دئے گئے ۔
٢٣۔ سقایة: پانی پینے والے کے ظرف کو کہتے ہیںکہ کبھی پیمانہ کے کام بھی آتا ہے ۔
٢٤۔ عیر: بوجھ اٹھانے والے قافلے کو کہتے ہیں خواہ وہ مرد وں کا ہویا اونٹوں کا ۔
٢٥۔ صواع: پیمانہ، وہی پانی پینے کا ظرف جو ابھی گز ر چکا ہے ۔
٢٦۔ زعیم: ضامن اور کفیل کو کہتے ہیں۔
سوم ۔آیات کی تاویل
آیات کی تاویل بیان کرنے میں پہلے بعض موارد کی تاویل، اس کے لغوی معنیکی مناسبت سے کریں گے، اس کے بعد ائمہ اہل بیت کی روایات کو ذکر کریں گے۔
زبان عرب میں الفاظ کے معنی کی مناسبت سے آیات کی تاویل
الف۔ بتوں کے توڑنے کے بارے میںحضرت ابراہیم کے کلام کی تاویل: حضرت ابراہیم نے مشرکین سے فرمایا:(بل فعلہ کبیرھم ھذا فاسئلوھم ان کانوا ینطقون) بلکہ یہ کام ان کے بڑے نے انجام دیا ہے اگر یہ بول سکتے ہیں تو ان سے پوچھ لو۔(١)
حضرت ابراہیم نے اس بیان سے تو ریہ کیا ، کیونکہ ان کی بات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر بات کر سکتے ہیں تو ان کے بزرگ نے یہ کام کیا ہے ، یہ معنی بعد کے جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے کہا: (لقد علمت ما ھؤلاء ینطقون) تم خوب جانتے ہو کہ یہ بات نہیں کرسکتے۔(٢)
ب۔ اس بات کی تاویل جو حضرت یوسف کے بھائیوں سے کہی گئی : اس بات سے مراد کہ یوسف کے
..............
(١)انبیائ٦٣
(٢)انبیاء ٦٥
بھائیوں کو چور کہا اور ان سے کہا:(ایھا العیر انکم لسارقون) اے قافلہ والو! تم لوگ چور ہو،یہ تھاکہ انہوں نے پہلے یوسف کو ان کے باپ سے چرایا تھا۔
بادشاہ کے پیمانہ کے بارے میں بھی کہا: (نفقد صواع الملک) بادشاہ کا پیمانہ ہم نے گم کر دیا ہے اور یہ نہیں کہا کہ بادشاہ کا پیمانہ چوری ہو گیا ہے ، اس بات میں بھی جیسا کہ ملاحظہ کر رہے ہیں تور یہ ہوا ہے.(١)
ج۔ فتح کے بعد پیغمبرۖ کی داستان: خدا وند سورۂ فتح میں فرماتا ہے :
(انا فتحنا لک فتحاً مبینا٭ لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر و یتم نعمتہ علیک و یھدیک صراطا مستقیما٭ و ینصرک اللہ نصراً عزیزاً٭ ھو الذی انزل السکینة فی قلوب المؤمنین...)
ہم نے تمہیں کھلی فتح دی، تاکہ خدا وند عالم تمہارے اگلے اور پچھلے گناہوں کو بخش دے اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے اور راہ راست کی ہدایت کرے اور تمہیں کامیاب بنائے شکست ناپذیر کا میابی کے ساتھ وہی ہے جس نے مومنین کے دلوں میں سکون و اطمینان پیدا کیا ہے ۔(٢)
کلمات کی تفسیر
١۔ فتحنا: ہم نے کشادگی دی، فتح سے مراد یہاں پر صلح حدیبیہ ہے ، خدا وند عالم نے اس اعتبار سے فتح نام رکھا ہے کہ قریش کا اقتدار ختم ہو گیا وہ بھی اس طرح کہ اب پیغمبر سے دشمنی نہیں کر سکتے اور آنحضرتۖ سے جنگ کرنے کے لئے لشکر آمادہ نہیں کرسکتے ، اس صلح کے بعد ہی پیغمبرنے مکہ پر فتح حاصل کی۔
٢۔ لیغفر: تاکہ پوشیدہ کرے، غفران لغت میں ڈھانکنے کے معنی میں۔
٣۔ ذنبک: تمہارے کام کا خمیازہ اوربھگتان، نتیجہ، راغب مفردات میں فرماتے ہیں: ذنب در حقیقت کسی چیز کے آخری حصہ کا پکڑنا ہے ،''اذنبتہ''یعنی میں نے اس کا آخری حصہ پکڑ لیا، ''ذنب'' اس معنی میں ہر اس کام میں استعمال ہوتاہے جس کا نتیجہ بھیانک اور انجام خطرناک ہوتا ہے، ذنب کی جمع ذنوب آتی ہے ۔
آیت کی تاویل لغوی معنی کے مطابق
صلح حدیبیہ سے متعلق واقدی نے جو ذکر کیا ہے اس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے :
..............
(١)یوسف ٧٠۔٧٢. مجمع البیان ج٣، ص ٢٥٢.
(٢) فتح ٤۔١
حضرت عمر؛ حضرت رسول خداۖ کے پاس آکر کہنے لگے کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں۔کہا: تو پھر کیوں ہم اپنے دین میں ذلت و رسوائی کا سامنا کررہے ہیں؟ رسول خداۖ نے فرمایا: میں خدا کا بندہ اور اس کا پیغمبر ۖہوں لہٰذا کبھی اس کے فرمان کی مخالفت نہیں کروں گا اور وہ بھی کبھی ہمیں تباہ و برباد نہیں کرے گا، عمر نے رسول خداۖ کی بات نہیں مانی اور ابوبکر و ابو عبیدہ سے گفتگو کرنے لگے ان دونوں نے بھی اس کا جواب دیا،انہوں نے اس واقعہ کے بعد کہا: جس دن میں شک و تردید میں تھا پیغمبر اکرمۖ سے اس طرح گفتگو کی کہ اس انداز میں کبھی ان سے ہمکلام نہیں ہوا تھا...(١)
صلح حدیبیہ کے بعد سورۂ فتح نازل ہوا اور اعلان کیا کہ یہ صلح پیغمبر اور مسلمانوں کے لئے عین کامیابی ہے ، جسے مشرکین نے پیغمبر کا گناہ شمار کیا ہے وہ عین صواب اور درستگی ہے ،یعنی مشرکین کوسفیہ کہنا اورمکہ میں پیغمبر ۖ کا ان کے خدائوں پر اعتراض کرنا اور اس کے بعد جنگ بدر وغیرہ میں جو جنگ و جدال ہوئی سب کچھ حق اور خدا کی مرضی کے مطابق تھا۔ خدا وند عالم نے مشرکین کے تمام خیالات کواس صلح سے جو اتنی بڑی فتح و کامرانی ہے نابود اور فنا کر دیااور اس سورہ میں خدا کی گفتگو کہ جس میں فرماتا ہے :(ما تقدم من ذنبک وما تاخر) آپ کے گز شتہ اور آئندہ گناہ، یہ ویسی ہی بات ہے جیسے حضرت موسیٰ کے قول کی حکایت سورہ شعراء میں کی ہے کہ فرمایا: (ولھم علی ذنب فأخاف ان یقتلون) ان کامیرے ذمہ گناہ ہے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ مجھے قتل نہ کردیں، یعنی میں ان کے خیال میں گناہ گارہوں۔
..............
(١) مغازی واقدی ج٢ ص ٦٠٦۔٦٠٧، ج٣ ص ١٩٠ سورۂ فتح کی تفسیر میں۔
|