ھ۔ جن آیات کی تاویل کے بارے میں غلط فہمی کے شکار ہوئے ہیں
١۔ سورۂ طہ میںجہاں حضرت آدم کے عصیان کے بارے میں فرماتا ہے : (وعصیٰ آدم ربہ فغویٰ)آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ ہلاکت طے کی۔(١)
٢۔سورۂ انبیاء میں جہاں حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑنے کے بارے میں فرمایا:(بل فعلہ کبیرھم) بلکہ ان کے بڑے (بت) نے یہ کام انجام دیا ہے جبکہ توڑنے والے آپ ہی تھے، جیسا کہ خداوند سبحان فرماتا ہے:
(فجعلھم جذاذاً الا کبیراً لھم لعلھم الیہ یرجعون٭قالوا من فعل ھذا بآلھتنا انہ لمن الظالمین٭ قالوا سمعنا فتیً یذکرھم یقال لہ ابراہیم٭ قالوا فأتوا بہ علیٰ أعین الناس لعلھم یشھدون٭ قالوا أ أنت فعلت ھذا بآلھتنا یا ابراہیم٭ قال بل فعلہ کبیرھم ھذا فسئلوھم ان کانوا ینطقون٭ فرجعوا الیٰ انفسھم فقالوا انکم انتم الظالمون٭ ثم نکسوا علیٰ رؤوسھم لقد علمت ما ھٰؤلاء ینطقون)
سر انجام سوائے بڑے بت کے تمام بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تاکہ شاید اس کی طرف لوٹ کرآئیں، ان لوگوں نے کہا: جس نے ہمارے خدائوں کے اتھ ایسا سلوک کیا ہے، یقینا ستمگروں میں سے ہے، کہنے لگے: ا یک نوجوان جسے ابراہیم کہتے ہیں سنا ہے کہ وہ بتوںکاتذکرہ کر رہا تھا، لوگوں نے کہا: اسے لوگوں کے سامنے لائو تاکہ وہ لوگ گواہی دیں، انہوں نے کہا: اے ابراہیم !آیا تم نے ہمارے خدائوں کے ساتھ ایسا کیا ہے؟
جواب دیا: بلکہ ان کے بڑے نے کیا ہے: ان سے سوال کرو !اگر وہ جواب دیں، وہ لوگ اپنے وجدان سے کام لیتے ہوئے بولے: یقینا تم سب ستمگر ہوپھر سروں کو جھکا کر کہا کہ: تم خوب جانتے ہو کہ یہ بات نہیں کر سکتے۔
..............
(١) طہ ١٢١.
٣۔خدا وند عالم نے سورۂ یوسف میں خبر دی ہے کہ یوسف کے کار گزار نے ان کے بھائیوں سے کہا: (انکم لسارقون) یقینا تم لوگ چور ہو،جبکہ انہوں نے بادشاہ کا برتن نہیں چرایا تھا، کیونکہ خداوند عالم فرماتا ہے:
(فلما جھزھم بجھازھم جعل السقایة فی رحل أخیہ ثم أذّن موذن ایتھا العیر انکم لسارقون٭ قالوا و اقبلوا علیہم ماذا تفقدون٭ قالوانفقد صواع الملک و لمن جاء بہ حمل بعیر و انا بہ زعیم٭ قالوا تاللہ لقد علمتم ما جئنا لنفسد فی الارض وما کنا سارقین، قالوا فما جزا ؤہ ان کنتم کاذبین٭ قالوا جزاؤہ من وجد فی رحلہ فھو جزاؤ ہ کذلک نجزی الظالمین٭ فبدأ بأوعیتھم قبل وعاء اخیہ ثم استخرجھا من وعاء أخیہ کذلک کدنا لیوسف ما کان لیأخذ اخاہ فی دین الملک الا ان یشاء اللہ نرفع درجات من نشاء و فوق کل ذی علم علیم٭ قالوا ان یسرق فقد سرق أخ لہ من قبل فأسرھا یوسف فی نفسہ و لم یبدھا لھم قال انتم شر مکاناً و اللہ اعلم بما تصفون٭ قالوا یا ایھا العزیز ان لہ اباً شیخاً کبیراً فخذ احدنا مکانہ انا نراک من المحسنین)
اور جب ان کا سامان باندھ دیا، تو بادشاہ کا ایک( پانی پینے والا) ظرف ان کے بھائی کے سامان میں رکھ دیا ؛ پھر آواز دینے والے نے آواز لگائی: اے قافلے والو تم لوگ چور ہو وہ لوگ اس کی طرف مڑے اور بولے: آخر تمھاری کیا چیز گم ہوگئی ہے ، ملازمین نے کہا:بادشاہ کاپیمانہ نہیں مل رہا ہے اور جو اسے لے کر آئے گا اسے ایک اونٹ کا بار غلہ انعام ملے گا اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، ان لوگوں نے کہا: خداکی قسم تم لوگ خوب جانتے ہو کہ ہم اس شہر میں فساد کر نے کے لئے نہیں آئے ہیں؛ اور ہم چور نہیں ہیںانہوں نے کہا: اگر جھوٹے ثابت ہوئے تو سزا کیا ہے ؟ کہا: جس کے سامان میں پیمانہ ملے خود وہی اس چوری کی سزا ہے ہم ستمگروں کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں، اس نے ان کے بھائی کے سامان کی تلاشی لینے سے پہلے ان کے دوسرے بھائیوں کے سامانوں کی تلاشی لی ، پھر اسے ( پیمانہ کو) ان کے بھائی کے سامان سے باہر نکالا؛ اس طرح سے ہم نے یوسف کے لئے چارہ جوئی کی!
وہ اپنے بھائی کو بادشاہی آئین کے مطابق پکڑ نہیں سکتے تھے، مگر یہ کہ خدا چاہے ! جس کے مرتبہ کو ہم چاہیں بلند کر دیں اور ہرصاحب علم سے برتر ایک عالم ہے ۔
بولے: اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی۔ یوسف نے اس چیز کو اپنی اندر مخفی رکھا اور ان پر ظاہر نہیں کیا،فرمایا تم لوگ سب سے بدترین جگہ اور مقام کے حامل ہو اور جو تم بیان کر رہے ہو خدااسے بہتر جانتا ہے : بولے: اے عزیز! اس کا ضعیف باپ ہے ہم میں سے کسی ایک کو اس کی جگہ رکھ لیجئے، ہم تمہیں احسان کرنے والا گمان کرتے ہیں۔(١)
٤۔ خدا وند عالم نے سورۂ انبیا میں بھی خبر دی ہے کہ ''ذا النون'' پیغمبر ( یونس) نے اس طرح گمان کیا کہ خد اکبھی انہیں مشکل میںنہیں رکھے گا جیسا کہ وہاں فرمایا ہے:
( وذاالنون اذ ذھب مغاضباً فظن ان لن نقدر علیہ فنادیٰ فی الظلمات ان لا الٰہ الا انت سبحانک أِنی کنت من الظالمین٭ فاستجبنا لہ و نجیناہ من الغم وکذلک ننجی المومنین)
اور ذالنون ( یونس) جب غصہ سے گئے اور ایساخیال کیا کہ ہم ان پر روزی تنگ نہ کریں گے تو تاریکیوں میں آواز دی: تیرا سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو منزہ ہے : میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں تھا ہم نے ان کی دعا قبول کی؛ اور غم و اندوہ سے انہیں نجات دی اور ہم مومنین کو اس طرح نجات دیتے ہیں۔(٢)
٥۔ خدا وند عالم نے سورۂ فتح میں بھی خبر دی ہے کہ فتح مکہ کے بعد خاتم الانبیاء کے گز شتہ اور آئندہ گناہ بخش دئے گئے ہیں جہاں پر فرماتا ہے:
(انا فتحنا لک فتحاً مبینا٭ لیغفر لک ما تقدم من ذنبک وما تأخر و یتم نعمتہ علیک و یھدیک صراطاً مستقیماً٭ و ینصرک اللہ نصراً عزیزاً)
ہم نے تمہیں کھلی ہوئی کامیابی دی تاکہ خدا وند عالم تمہارے گز شتہ اور آئندہ گناہوں کو بخش دے اور اپنی نعمت تم پر تمام کرے اور راہِ راست کی ہدایت کرے اور تمہیں شکست ناپذیر فتح و کامیابی عنایت کرے۔(٣)
یہ اور اس کے مانند آیات جن کی صحیح تاویل نہیں کر سکے اور ہم کلمات کی تفسیر اور بعض اصطلاحوں کی توضیح کے بعد ان کی چھان بین اور تحقیق کریں گے۔
..............
(١)یوسف ٧٨۔٨٠
(٢)انبیاء ٨٨۔٨٦
(٣) اعراف ٣١
|