نام کتاب : اسلام کے عقائد(پہلی جلد )
 
٢۔ ٣: عمل کے آثار اور ان کا دائمی ہونا
عمل کے آثار اور ان کا دائمی اور جاوید ہونا اور بعض اعمال کی برکت ونحوست کا زمان و مکان پر اثر ڈالنا اور خدا کے جانشینوں کا گناہ سے محفوظ ہونا اس لئے ہے کہ وہ ہمیشہ اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

عصمت انبیا سے آشنائی کے لئے بہتر یہ ہے کہ پہلے دنیا وآخرت میں زمان ومکان پر انسانی افعال کی برکت و نحوستکے سرایت کرنے کی کیفیت سے بحث کریں، لہٰذا خدا سے توفیق مانگ کر کہہ رہے ہیں : خداوند سبحان سورۂ بقرہ میں فرماتا ہے :
(شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس و بینات من الھدی و الفرقان فمن شہد منکم الشہر فلیصمہ)
رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے کہ جس میں قرآن لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوا اوراس میں ہدایت کی نشانیاںہیں اور وہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے لہٰذا جو اس ماہ میں مسافر نہ ہو اسے روزہ رکھنا چاہئے۔(١)
اور سورۂ قدر میں ارشاد ہوتا ہے:
( انا انزلناہ فی لیلة القدر٭وما ادرٰاک ما لیلة القدر٭ لیلة القدر خیر من الف شہر٭ تنزل الملائکة والروح فیھا بأِذن ربھم من کل امر٭ سلام ھی حتیٰ مطلع الفجر)(٢)
ہم نے شب قدر میں قرآن نازل کیا ، تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیاہے ؟ شب قدر ہزار ماہ سے بہتر
..............
(١) بقرہ ١٨٥
(٢) سورہ قدر .
ہے ، فرشتے اور روح، خدا کی اجازت سے اس شب میں تمام امور کولے کر اترتے ہیں صبح تک یہ شب سلامتی سے بھری ہے۔
خدا وند عالم نے ماہ مبارک رمضان کی ایک شب میں رسول اکرمۖ پر قرآن نازل کیا یہ شب اس وجہ سے شب قدر ہے کہ فرشتے اور روح ہمیشہ اسی رات ہمیشہ ہر سال خدا کی اجازت اور حکم سے نازل ہوتے ہیں، اس شب کی برکت ہر ماہِ رمضان کی تمام شبوں پر ہمیشہ کے لئے سرایت کر گئی۔
ہم انشاء اللہ نسخ کی بحث میں اس پر روشنی ڈالیں گے کہ جمعہ کا دن حضرت آدم کے وقت سے ہی بابرکت رہا ہے، اس وجہ سے کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم پر اپنی برکتیں اس دن نازل کی ہیں اور نویں ذی الحجة مبارک ہے اور خدا کے بندوں کے لئے منیٰ میں گناہوں کی بخشش کا دن ہے ، اس لئے کہ خدا وند عالم نے اسی دن آدم کی بخشش و مغفرت فرمائی ہے اور عرفات، منیٰ اور مشعر کی زمینیں نویں اور دسویں ذی الحجة کو تمام اولاد آدم کے لئے مبارک سر زمین قرار پائیں اور اس کے آثار ہر عصر و زمانہ میں باقی رہیں گے۔
اسی طرح خدا کے گھر میں حضرت ابراہیم کے قدموں کا نشان ،اس مٹی کے ٹیلہ پرجسے اپنے قدموں تلے رکھا تھا یعنی اس پر چڑھ کر خانہ کعبہ کی دیواریں بلند کی تھیں، با برکت ہو گیااور خدا وند عالم نے ہمیں حکم دیا کہ ہمیشہ کے لئے اسے عبادت گاہ بنائیں( اس پر نماز پڑھیں) اور فرمایا: (اتخذوا من مقام ابراہیم مصلیٰ)مقام ابراہیم کو اپنا مصلی(نماز کی جگہ ) بناؤ ۔
شومی اور نحوست کا دوسروں تک سرایت کرنابھی اسی طرح ہے جیسے حجر کے علاقہ میں قوم عاد کے گھروںکی حالت عذاب آنے کے بعدایسی ہی تھی اوررسول خدا نے غزوہ تبوک کے موقع پر وہان سے گزرتے ہوئے ہمیںاس امر کی اطلاع دی ہے، اس کا حدیث و سیرت کی کتابوں میں خلاصہ یوں ہے ۔
جب رسول خدا ۖ ٩ھ میںغزوہ تبوک کی طرف روانہ ہوئے تو وادی القریٰ میں واقع حجر نامی سر زمین( جو کہ قوم ثمود کا شہر تھی اورمدینہ سے شام کے راستے میں تھی ) پر پہنچے تو اسے عبور کرنے سے پہلے پیادہ ہو گئے اور سپاہیوں نے وہاں کے کنویں سے پانی کھینچا کہ پیغمبرۖ کے منادی نے آواز دی کہ اس کنویں کا پانی نہ پینا اور نماز کے لئے اس سے وضو نہ کرنا، لوگ جو کچھ اپنے پاس پانی جمع کئے ہوئے تھے سب کو زمین پر ڈال دیا اور کہا: اے اللہ کے رسول ۖ!اس سے تو ہم نے خمیر کیا ہے( آٹا گوندھا ہے)فرمایا: اسے اپنے اونٹوں کو کھلا دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ جس سے وہ دوچار ہوئے تمہیں بھی ہونا پڑے۔
اور جب سامان لا ددیا اور حِجْرسے گز ر ے تو اپنا لباس چہرہ پر ڈال لیا اور اپنی سواری کو تیزی سے آگے بڑھا دیا سپاہیوں نے بھی ایسا ہی کیا، رسول خداۖ نے فرمایا:
(لا تدخلوابیوت الذین ظلمواالاوانتم باکون)
ستمگروں کے گھروں میں داخل نہو مگر گریہ کی حالت میں ۔
ایک شخص اس انگوٹھی کو لے کر جو معذب لوگوں کے گھروں میں مقام حجر میں پا ئے تھا، رسول خداۖ کی خدمت میں آ یا، آنحضرت ۖنے اس سے منھ موڑ لیا اور اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں بند کر لیں تاکہ اسے نہ دیکھیں اور فرمایا: اسے پھینک دے، تو اس نے اسے دور پھینک دیا۔(١)
اسی کے مانند واقعہ حضرت علی علیہ السلام کوبھی پیش آیا، نصر بن مزاحم وغیر ہ نے ذکر کیا ہے :
مخنف بن حضرت علی کے ہمراہ بابل سے گز ر رہے تھے تو حضرت علی نے فرمایا: بابل (٢)میں ایک جگہ ہے جہاں پر عذاب نازل ہوا ہے اور زمین میں دھنس گئی ہے، اپنی سواری کو تیزی سے آگے بڑھائو تاکہ نماز عصر اس کے باہر انجام دیں۔
وہ کہتا ہے : امام علیہ السلام نے اپنی سواری کو تیزی سے آگے بڑھایا تو لوگوں نے بھی ان کی تاسی کرتے ہوئے اپنی سواریوں کو تیزی سے آگے بڑھایا اور جب آپ پل صراةسے گز ر گئے تو سواری سے اترے اور لوگوں کے ساتھ نماز عصر پڑھی ۔(٣)
ایک روایت میں مذکور ہے :
امیر المومین کے ہمراہ عصر کے وقت ہم پل صراة سے گز رے تو آپ نے فرمایا: یہ سر زمین وہ ہے جس پر عذاب نازل ہوا ہے اور کسی پیغمبر یا اس کے وصی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اس جگہ نماز پڑھے۔(٤)
ہاں! اس زمان و مکان کی برکت جسے خدا وند عالم نے اپنے مخلص بندوں میں سے کسی بندہ کے لئے مبارک قرار دیا ہے دیگر زمان و مکان تک بھی سرایت کرتی ہے جس طرح کہ نحوست اور بدبختی بھی سرایت کرتی ہے اور جس زمانے میںخدا اپنے بد بخت یا شقی بندہ پر غضب نازل کرتا ہے تو اس کی نحوست دوسرے زمان
و مکان تک بھی سرایت کرتی ہے ۔
..............
(١) مغازی واقدی، ص ١٠٠٦۔ ١٠٠٨، اتک امتاع الاسماع ، ص ٤٥٤ تا ٤٥٦
(٢) بابل عراق میں کوفہ اور بغداد کے درمیان ایک جگہ (شہر )ہے اور صراة نامی ندی پر بغداد سے قریب پل صراة ہے .
(٣) وقعة صفین ، نصر بن مزاحم ص ١٣٥(٤)بحار، ج٤١ص ١٦٨، علل الشرائع اور بصائر الدرجات کی نقل کے مطابق .
ہم عنقریب ''آثار عمل'' کی بحث میں کہ جس کا آئندہ ذکر ہوگا ،ملاحظہ کریں گے کہ انسان کی رفتار کے دنیا و آخرت میں دائمی آثار ہیں، یا ایندھن کی شکل میں کہ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ، یادائمی نعمت کی شکل میں جو بہشت عدن میں ہے ،تمام ان آثار اوران کے سرایت کرنے کو اللہ کے مخلص بندے مشاہدہ اورادراک کرتے ہیں۔ اوریہ مشاہدہ انہیں نیک امور کی انجام دہی اور برائی سے بچنے میں زیادہ معاون ثابت ہوتی ہے یہ سوجھ بوجھ وہی برہان الٰہی ہے کہ خدا وند عالم اپنے ان بندوںکو عطا کرتا ہے جنہیں پاک و پاکیزہ بنایا ہے اورانہوں نے رضائے الٰہی کو اپنی نفسانی خواہشات پر مقدم رکھا ہے، اسی لئے خداکے نزدیک اسکے خالص بندے ہلاکت بار گناہ کا تصور نہیں کرتے، اس کی مثال بینا ( آنکھ والے) اور اندھے انسان کی سی ہے کہ دونوںایک ساتھ ناہموار زمین پر چلتے ہیں، واضح ہے کہ بینا انسان ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہے گا اور اپنے نابینا ساتھی کو بھی اس سے آگاہ کرتا رہے گا تاکہ اس میں گرنے سے محفوظ رہے ۔
یا اس کی مثال اس پیاسے انسان کی ہے جس کے سامنے صاف و شفاف پانی چھلک رہا ہو اور اس کی جان اس پانی سے ایک گھونٹ پینے کے لئے لحظہ شماری کررہی ہوتا کہ پیاس کی شدت اوردل کی حرارت کو بجھا سکے۔ لیکن ایک ڈاکٹر ہے جو آلات کے ذریعہ پانی کی جانچ کرتا ہے اور اس میںمختلف قسم کے مہلک جراثیم کی خبر دیتا ہے اور اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے: اس پانی کو استعمال کرنے سے پہلے اس کا تصفیہ کرلو۔
خدا کے مخلص بندوں کی مثال اسی طرح ہے ۔ وہ لوگ برہان الٰہی کو دیکھتے ہیں نیز اعمال کی حقیقتوں اور ان کے نیک و بدکے انجام کو درک کرتے ہیں، یہ لوگ اپنی بصیرت سے گناہ کی سنگینی اور اس کی پلیدگی کو درک کرتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے کہ آخرت میںیہ گناہ مجسم آگ اور دائمی عذاب کی شکل میں ظاہرگا، ممکن نہیں ہے کہ اختیاری صورت میں ایسے بھیانک عمل کا اقدام کریں۔
اور جو شبہات عصمت انبیاء سے متعلق ذکر کئے گئے ہیں اور اسکے لئے متشابہ آیات سے استنادکرتے ہیں۔ وہ اس لئے ہے کہ بعض کی تاویل میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں اور بعض کی نادرست روایات سے تفسیر کی ہے ، ہم بحث کو طوالت سے بچانے کی خاطر دونوں طرح کے چند نمونوں پر اکتفا کرتے ہیں۔