نام کتاب : اسلام کے عقائد(پہلی جلد )
 
٧
الٰہی مبلغین کے صفات ،گناہوں سے عصمت

١۔ ابلیس زمین پر خدا کے جانشینوںپر غالب نہیں آسکتا ۔
٢۔ عمل کا اثر اور اس کا دائمی ہونا اور برکت کا سرایت کرنا اور زمان اور مکان پر اعمال کی نحوست۔
٣۔ الٰہی جانشینوںکا گناہ سے محفوظ ہونا ( عصمت)اس کے مشاہد ہ کی وجہ سے ہے ۔
٤۔وہ جھوٹی روایتیں جو خدا کے نبی داؤد پر اور یا کی بیوہ سے ازدواج کے بارے میں گڑھی گئیں اور حضرت خاتم الانبیاء سے متعلق آنحضرت کے منھ بولے فرزند زید، کی مطلقہ بیوی زینب سے ازدواج کی نسبت دی اور ان دونوں ازدواج کی حکمت۔
٥۔ جن آیات کی تاویل میںلوگ غلط فہمی کا شکار ہوئے۔

١۔ ابلیس روئے زمین پر خدا کے جانشینوں پر غالب نہیں آ سکتا
خدا وند سبحان نے سورۂ حجر میں اپنے اور ابلیس کے درمیان گفتگو کی خبر دی کہ ، ابلیس اس کے مخلص بندوں پر تسلط نہیں رکھتا ، وہ گفتگو اس طرح ہے :
(قال رب بما اغویتنی لأزینّن لھم فی الارض ولأغوینھم اجمعین الا عبادک منھم المخلصین٭قال...ان عبادی لیس لک علیہم سلطان الا من اتبعک من الغاوین)
ابلیس نے کہا: خدایا ؛ جو تونے مجھے گمراہ کیا ہے اس کی وجہ سے زمین میں ان کے لئے زینت اور جلوے بخشوں گا اور سب کو گمراہ کر دوں گاسواتیرے مخلص بندوں کے ۔
فرمایا: تو میرے بندوںپر قابو اور تسلط نہیں رکھتا، جز ان لوگوں کے جو تیرا اتباع کرتے ہیں۔(١)
اور یوسف اور زلیخا کی داستان کے بیان میں ،مخلَصین کی خدا نے کس طرح شیطانی وسوسوں سے محافظت کی اس طرح بیان کرتا ہے :
(ولقد ھمت بہ و ھم بھا لو لا أن رء أ برھان ربہ کذلک لنصرف عنہ السوء و الفحشاء أنّہ من عبادنا المخلصین)
اس عورت نے ان کا قصدکیا اوروہ بھی اس کا قصد کر بیٹھتے اگر اپنے رب کی دلیل و برہان نہیں دیکھتے!ہم نے ایسا کیا تاکہ اس سے برائی اور فحشاء کو دور کریں ،کیونکہ وہ ہمارے مخلص بندوں میںسے تھے۔(٢)
ہم مذکورہ وصف یعنی: عصمت اور ابلیس کے غالب نہ ہونے کو ، سورۂ بقرہ میں خدا وند سبحان اور ابراہیم خلیل کے درمیان ہونے والی گفتگو میں، امامت کے شرائط کے عنوان سے ملاحظہ کرتے ہیں، جیساکہ فرمایا:
..............
(١) سورۂ حجر ٤٢۔٣٩
(٢)یوسف ٢٤
(و اذابتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمات فأتمھن قال انی جاعلک للناس أِماما قال و من ذریتی قال لا ینال عہدی الظالمین)
جب خدا وند عالم نے ابراہیم کا گونا گوں طریقوں سے امتحان لے لیا اور وہ خیر و خوبی کے ساتھ کامیاب ہوگئے، تو خدا وند سبحان نے کہا: میں نے تمہیں لوگوں کا پیشوا اور امام بنایا، ابراہیم نے کہا:اور میری ذریت میں سے بھی ! فرمایا: میرا عہدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔(١)
سورۂ انبیاء میں ذکر ہوا ہے : جن کو خدا نے لوگوں کا پیشوا بنایا وہ خدا کے حکم سے ہدایت کرتے ہیں: (وجعلنا ھم أئمة یھدون بأمرنا ) اورہم نے ان لوگوں کو پیشوا بنایا جوہمارے فرمان سے ہدایت کرتے ہیں۔(٢)
اسی سورہ میں بعض کا نام کے ساتھ ذکر فرمایا ہے ، جیسے نوح، ابراہیم ، لوط، اسماعیل، ایوب، ذوالکفل، یونس، موسیٰ ، ہارون، دائود، سلیمان ، زکریا، یحیٰی اور عیسیٰ علیہم السلام۔
جن لوگوں کو خدا وند عالم نے اس سورہ میں منصب امامت کے ساتھ یاد کیا ہے ان کے درمیان بنی، رسول، وزیر اور وصی سبھی پائے جاتے ہیں، اس بنا پر ہم پر واضح ہوتا ہے کہ خدا وند عالم نے ایسی شرط ذکر کی ہے کہ جسے امام بنائے گا وہ ظالم نہ ہو.
خدا وند عالم نے امام کو روئے زمین پر اپنا خلیفہ شمار کیا ہے ، چنانچہ سورۂ ص میں داؤد سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے :( یا داود اَنَّا جعلناک خلیفة فی الارض)
اے دائود! ہم نے تم کو زمین پر خلیفہ بنایا۔(٣)
اور حضرت آدم ـکے متعلق فرشتوں سے سورہ ٔ بقرہ میں فرمایاہے :
(و أِذ قال ربک للملائکة أِنی جاعل فی الارض خلیفة)
اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا: میں روئے زمین پر خلیفہ بنائوں گا۔(٤)

کلمات کی تشریح
١۔ اغویتنی، ولأغوینہم، و الغاوین۔
..............
(١)بقرہ ١٢٤
(٢)انبیائ ٧٣
(٣) ص ٢٦
(٤) بقرہ ٣٩۔
غویٰ: گمراہ ہو گیا، غاوی: اس شخص کو کہتے ہیں جو گمراہی اور ضلالت میں ڈوبا ہوا ہو، شیطان ملعون اسی اعتبار سے خدا سے کہتا ہے : اغویتنی : مجھے تونے گمراہ کر دیا کہ خدا وند عالم نے اس سے پہلے اس پر لعنت بھیج کر فرمایا تھا: (ان علیک اللعنة الیٰ یوم الدین) رحمت حق سے تیری دوری قیامت کے دن تک رہے یعنی تجھ پر اس وقت تک کے لئے لعنت ہے ، یہ رحمت خدا سے دوری اس نافرمانی اور سجدہ آدم سے انکار کی سزا ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ میں فرمایا:
(یضل بہ کثیراً و یھدی بہ کثیراً وما یضل بہ الا الفاسقین)
خدا وند عالم کثیر جماعت کو اس کے ذریعہ گمراہ اور اسی طرح بہت سارے لوگوں کو ہدایت کرتا ہے: لیکن اس کے ذریعہ صرف فاسقوں کو گمراہ کرتا ہے ۔(١)
٢۔ لأ زیّنن لھم: ان کی بری رفتار کو زینت دوں گا، چنانچہ خدا وند سبحان نے فرمایا: (زین لھم الشیطان اعمالھم ) شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظر میں زینت دیدی ہے۔(٢)
اور فرمایا: زیّن لھم سوء اعمالھم ان کے برے اعمال ان کی نظروں میں خوبصورت ہو گئے۔(٣)
٣۔مخلصین : خالص اور پا ک وپاکیزہ لوگ ، جن لوگوں کو خدا نے اپنے لئے خاص کیا اور خالص کرلیا ہے بعد اس کے کہ انہوں نے اپنے کو خدا پر وقف کردیا ہو اور ان کے دلوں میں خدا کے علاوہ کسی اور کی کوئی جگہ نہ ہو ۔
٤۔ ابتلیٰ: امتحان کیا، آزمایا، یعنی خیر وشر، خوشحالی اور بدحالی سے آزمایا۔
٥۔ بکلمات:یہاں پر کلمات سے مراد ایسے حوادث ہیں کہ خدا وند عالم نے حضرت ابراہیم کا اس کے ذریعہ امتحان لیا، جیسے : ان کا ستارہ پر ستوں اور بت پرستوں سے مورد آزمائش قرار پانا،آگ میں ڈالاجانا،اپنے ہاتھ سے اپنے فرزند ( اسماعیل ) کے گلے پر چھری پھیرناوغیرہ۔
٦۔ فأتمھن : انہیں احسن طریقے سے انجام دیا۔
٧۔ جاعلک: جعل عربی زبان میں ، ایجاد، خلق، حکم ، قانون گز اری، جاگزین کرنا اور قرار دینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے کہ یہاں پر یہی آخری معنی مراد ہے ، یعنی میں نے تم کو امام قرار دیا۔
٨۔ اماماً: امام یعنی لوگوں کا رفتار و گفتار ( اقوال و افعال )میں مقتدا اور پیشوا۔
..............
(١)بقرہ ٢٦
(٢) انفال ٤٨، نحل ٢٤، عنکبوت ٣٧
(٣) توبہ ٣٧
٩۔ ظالمین: ظلم، کسی چیز کا اس کے مقام کے علاوہ قرار دینا اورحق سے تجاوز کرنا بھی ہے ۔ ظلم تین طرح کا ہے : پہلے ۔ انسان اور اس کے رب کے درمیان ظلم کہ اس کا سب سے عظیم مصداق کفر اور شرک ہے ، جیسا کہ سورۂ لقمان میں فرمایا ہے: (ان الشرک لظلم عظیم) یقینا شرک عظیم ظلم ہے۔(١)
او ر سورۂ انعام میں فرمایا: (...فمن اظلم ممن کذب بآیات اللہ)آیات خداوندی کی تکذیب کرنے والے سے زیادہ کون ظالم ہوگا۔(٢)
دوسرے : انسان وغیرہ کے درمیان ظلم ، جیساکہ سورۂ شوریٰ میں فرمایا: (انما السبیل علیٰ الذین یظلمون الناس)غلبہ اور سزا ان لوگوں کیلئے ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔(٣)
تیسرے: انسان کا اپنے آپ پر ظلم کرنا، جیساکہ سورۂ بقرہ میں فرمایا: ( ومن یفعل ذلک فقد ظلم نفسہ) اور جو ایسا کرے گااس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ۔(٤)
سورۂ طلاق میں ارشاد ہوا: ( ومن یتعدّ حدود اللہ فقد ظلم نفسہ) جو حدود الٰہی سے تجاوز کرے اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔(٥)
ظلم خواہ ( ان تینوں قسموں میں سے )کسی نوعیت کا ہو، آخر کار اپنے اوپر ظلم ہے اور جو ظلم سے متصف ہو ، خواہ کسی بھی زمانے میں ظلم کیا ہو، گز شتہ یا حال میں اسے ظالم کہتے ہیں۔
١٠۔ ہمّت بہ و ھمّ بھا یعنی اقدام کا اراد ہ کیا لیکن انجام نہیں دیا۔
١١۔ رای : دیکھا ، دیکھنا بھی دو طرح سے ہے :آنکھ سے دیکھنا ، یعنینظر کرنا اور دل سے دیکھنا، یعنی بصیرت و ادراک ۔
١٢۔ برہان: ایسی محکم دلیل اور آشکار حجت جو حق کو باطل سے جدا کر دے اور جو یوسف نے دیکھا ہے وہ ان تعریفوں سے مافوق ہے ۔

آیات کی تاویل
ابلیس نے پروردگار عالم سے کہا: اب جو تونے مجھ پر لعنت کی ہے اور اپنی رحمت سے مجھے دور کر دیا ہے ، تو میں بھی دنیا میں لوگوں کی بری رفتار اور بد اعمالیوں کو ان کی نگاہوں میں زینت دوں گا ، جیساکہ سورۂ نحل
..............
(١) لقمان ١٣
(٢) شوریٰ ٤٢
(٣)انعام ١٥٧
(٤) طلاق ١
(٥) بقرہ ٢٣١
میں ارشاد ہوتا ہے :
(تاللہ لقد ارسلناالیٰ اُمم من قبلک فزیّن لھم الشیطان اعمالھم)
خدا کی قسم ! ہم نے تم سے پہلے والی امتوں کی طرف رسولوں کو بھیجا ؛ لیکن شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظروں میں نیک جلوہ دیا۔(١)
اور سورۂ انفال میں فرمایا: (واذ زین لھم الشیطان اعمالھم و قال لا غالب لکم الیوم...)
جب شیطان نے ان ے اعمال کو نیک اور خوشنما جلوہ دیا اور کہا: آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔(٢)
اور سورۂ نحل میں فرمایا:
(یسجدون للشمس من دون اللہ و زیّن لھم الشیطان اعمالھم فصدھم عن السبیل...)
وہ لوگ خدا کے بجائے سورج کا سجدہ کرتے تھے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظروںمیں نیک جلوہ دیا اور انہیں راہِ راست سے روک دیا...(٣)
ہاں، شیطان نے کہا: میں تمام لوگوں کے کاموں کو ان کی نظروں میں خوشنما بنا کر پیش کروںگا، سوائے تیرے ان خاص بندوں کے جن کوتونے اپنے لئے منتخب کیا ہے ۔
خدا وند عالم نے اس کا جواب دیا: تو اپنے ان ماننے والوں کے علاوہ جوکہ ضلالت اور گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیںکسی پر تسلط نہیں رکھتا۔
خدا وند عالم اپنے مخلص بندوں کے حال کے بارے میںیوسف اور زلیخا کی داستان میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے : (ولقد ھمّت بہ و ھمّ بھا لولا أن رأیٔ برھان ربہ)
اس عورت نے یوسف کا ارادہ کیااور یوسف بھی اس کا ارادہ کر لیتے اگر اپنے رب کا برہان نہیں دیکھتے۔ اور یہ ماجراایک ایسے گھر میں پیش آیا کہ یوسف اور زلیخا کے علاوہ اس میں کوئی بھی نہیں تھا۔
زلیخا مصر کی ملکہ او ر یوسف کی مالک تھی، اس نے اس بات کو طے کر لیا کہ یوسف کو اپنے مقصد میں استعمال کرے، اگریوسف اپنے رب کی طرف سے برہان کا مشاہدہ نہ کرتے،تو یا اس کو قتل کر دیتے کہ یہ برا کام ہوتایا فحشاء اور برائی کا ارادہ کرتے جو کہ ان کے کنوارے پن اور جوان طبیعت کا تقاضا تھا اور اپنی جوان
..............
(١) نحل ٦٣
(٢) انفال ٤٨
(3) نمل ٢٤
مالکہ کے ساتھ جو خود بھی اسی طرح کے حالات سے دو چار تھی اور عیش و عشرت میں گز ار رہی تھی ایک ایسے گھر میں جس میں دوسرا کوئی نہ تھا اس سے لپٹ جاتے لیکن چونکہ اپنے رب کے برہان کو دیکھا ، لہٰذا عفت و پاکدامنی کا ثبوت دیا اور گناہ و برائی سے دور رہے یقینا وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیںخد انے اپنے لئے منتخب کیا تھا اور انہیں پاکیزہ بنایا تھا، لیکن جو برہان یوسف نے دیکھااور اس کے دیکھنے کی کیفیت اس کااجمالی خاکہ اس طرح ہے کہ انہوں نے دونوںکام کے آثار اپنے لئے بعینہ مشاہدہ کئے، اس کی تشریح آئندہ آئے گی۔