نام کتاب : اسلام کے عقائد(پہلی جلد )
 
٢۔ کتب عہدین میں ا وصیاء کی بعض خبریں
کتب عہدین سے اخبار اوصیاء کے نقل کے بارے میں ہم صرف تین وصیت پر اکتفا کریں گے:

الف۔ حضرت موسی کلیم کی خدا کے نبی یوشع کو وصیت
''قاموس کتاب مقدس '' نامی کتاب میں مادہ ''یوشع'' کے ذیل میں توریت کے حوالے سے ذکر ہوا ہے :
یوشع بن نون حضرت موسیٰ کے ساتھ کو ہ سینا پر تھے اور ہارون کے زمانے میں گوسالہ پرستی میں ملوث نہیں ہوئے۔(١)
اورسفر اعداد کے ستائیسویں باب کے آخر میں خد اکی جانب سے موسیٰ کی تعیین وصیت کے بارے میں ذکر ہوا ہے:
موسیٰ نے خدا وند عالم کی بارگاہ میں عرض کی کہ یہوہ تمام ارواح بشر کا خدا کسی کو اس گروہ پرمقرر کرے جو کہ ان کے آگے نکلے اور ان کے آگے داخل ہو اور انہیںباہر لے جائے اور ان کو داخل کرے تاکہ خد اکی جماعت بے چرواہے کے گوسفندوں کی طرح نہ رہے، خداوند عالم نے موسیٰ سے کہا: یوشع بن نون کہ جو صاحب روح انسان ہیںان پر اپنا ہاتھ رکھو اور ''العازار کاہن''اور تمام لوگوں کے سامنے کھڑاکرکے وصیت کرو اور انہیں عزت اور احترام دو،تاکہ تمام بنی اسرائیل ان کی اطاعت کریں اوروہ ''العاذار کاہن'' کے سامنے کھڑے ہوں تاکہ ان کے لئے ''اوریم'' کے حکم کے مطابق خدا سے سوال کرے اور اس
کے حکم سے وہ اور تمام بنی اسرائیل ان کے اور پوری جماعت کے ساتھ باہر جائیں اور ان کے حکم سے داخل ہوں لہٰذا موسی ٰنے خد اکے حکم کے مطابق عمل کیا اور یوشع بن نون کو پکڑکر
..............
(١)''قاموس کتاب مقدس'' ترجمہ و تالیف مسٹر ھاکس امریکی، مطبع امریکی، بیروت، ١٩٢٨ء ص ٩٧٠
'' العازار کاہن ''اور تمام جماعت کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا اپنے ہاتھوں کو ان کے اوپر رکھا اور انہوں نے خدا کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق وصیت کی ۔(١)
نیز اموربنی اسرائیل کو چلانے اور ان کی جنگوںکی داستان تیئیسویں باب سفر یوشع بن نون میں مذکورہے ۔(٢)

ب۔ حضرت داؤد نبی کی حضرت سلیمان کو وصیت
بادشاہوں کی کتاب اول کے باب دوم میں مذکور ہے ۔(٣)
اور جب حضرت داؤد کا یوم وفات قریب آیا اپنے بیٹے سلیمان کو وصیت کی اور کہا :میں تمام اہل زمین کے راستہ (موت ) کی طرف جا رہا ہوں لہٰذا تم دلیرانہ طور پراپنے خدا یہوہ کی وصیتوں کو محفوظ رکھتے ہوئے اس کے طریقہ پر گامزن رہنا اور اس کے فرائض ، اوامر، احکام و شہادات جس طرح موسیٰ کی کتاب توریت میں مکتوب ہیں اسے محفوظ رکھنا تاکہ جو کام بھی کرو اور جہاں بھی رہو کامیاب رہو ۔(٤)
ج۔حضرت عیسی کی حواری شمعون بطرس کو وصیت
انجیل متی کے دسویں باب میںسمعون کے بارے میں کہ ان کانام توریت میں شمعون ہے، ذکر ہوا ہے :
انہوں نے پھر اپنے بارہ شاگردوں کو بلا کر خبیث ارواح پر تسلط عطا کیا کہ انہیں باہر کرا دیں
اورہر مرض اور رنج کا مداوا کریں بارہ رسولوں ( نمائندوں)کے یہ اسماء ہیں: اول شمعون جو پطرس کے نام سے مشہور ہیں تھے۔
انجیل یوحنا کے اکیسویں، باب ١٨۔١٥ شمارہ میں ذکر ہے :
عیسیٰ نے انہیں ( شمعون کو) اپنا وصی بنایا اور ان سے کہا: میری گوسفندوں کو چرائو ''یعنی مجھ
پر ایمان لانے والوں کی حفاظت کرو''۔
..............
(١) کتاب مقدس ، عہد عتیق ( توریت )ص ٢٥٤، کلدانی اور عبرانی یونانی زبان سے فارسی ترجمہ ، طبع ٣. دار السلطنت لندن . ١٩٣٢ ء .
(٢)کتاب مقدس ، عہد عتیق ( توریت کلدانی اور عبرانی یونانی زبان سے فارسی ترجمہ ، طبع دار السلطنت لندن . ١٩٣٢ ء . ص ٣٧٠، ٣٣٣.
(٣) وہی ماخذ.
(٤) وہی ماخذ.
''قاموس کتاب مقدس'' میں بھی ذکر ہو اہے : مسیح نے انہیں (شمعون کو) کلیسا(عبادت خانہ) کی ہدایت کے لئے معین فرمایا۔(١)
پہلی خبر میں ہم نے ملاحظہ کیا کہ بنی خدا، موسیٰ بن عمران نے اپنے بعد خدا کے نبی یوشع(جوقرآن کریم میںالیسع کے نام سے مشہورہیں)کو وصی بنایا۔
اور دوسری خبر میں خدا کے نبی دائود نے حضرت سلیمان کو وصیت کی کہ وہ خدا کے نبی اور رسول موسیٰ بن عمران کی شریعت پر عمل کریں۔
تیسری خبر میں عیسی روح اللہ نے اپنے حواری کواس بات کی وصیت کی کہ لوگوں کی ہدایت کریں۔

قرآن کریم میں رسولوں اور اوصیاء کی خبریں
خدا وند سبحان نے قرآن کریم میں جن ٢٦ انبیاء کی ان کے اسماء کے ذکر کے ساتھ داستان بیان کی ہے وہ یہ ہیں:
آدم، نوح، ادریس، ہود، صالح، ابراہیم ، لوط، ایوب، الیسع، ذو الکفل، الیاس، یونس، اسمعیل، اسحق، یعقوب، یوسف، شعیب، موسیٰ، ہارون، دائود، سلیمان، زکریا، یحییٰ، اسماعیل صادق الوعد، عیسیٰ اور محمد مصطفی ۔
ان میں سے بعض ایسے صاحب شریعت تھے کہ جو گز شتہ شریعت کے متمم اور مکمل تھے ، جیسے حضرت نوح کی شریعت جوکہ حضر ت آدم کی شریعت کو کامل کرنے والی تھی اور حضرت محمدۖ کی شریعت کہ جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی شریعت کو کامل اور تمام کرنے والی تھی،ان میں سے بعض ایسی شریعتوں کے مالک تھے کہ جو گزشتہ شریعت کے لئے ناسخ تھے جیسے حضرت موسیٰ اورحضرت محمدۖ۔
ان میں سے بعض بنی بھی تھے اور وصی بھی اور اپنے ما قبل رسول کی شریعت کے محافظ و نگہبان بھی جیسے یوشع بن نون کہ جو موسیٰ بن عمران کے وصی تھے۔
چونکہ جو شخص پروردگار عالم کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوتا ہے پیغمبر ہو یا اس کا وصی، اس کے لئے خداداد نشانی ضروری ہے تاکہ اس کے مدعا کی صداقت پر شاہد و گواہ رہے نیز اس کے خدا کی جانب سے بھیجے جانے پر دلیل ہو ، آئندہ بحث میں اس موضوع یعنی ''معجزہ'' کی تحقیق کریں گے۔
..............
(١)قاموس کتاب مقدس ، مادہ : پطرس حواری .

٣۔ آیت اور معجزہ
آیت، لغت میں اس نشانی کو کہتے ہیں جو کسی چیز پر دلالت کرتی ہے ، وہ بھی اس طرح سے کہ جب کبھی وہ نشانی ظاہر ہو تو اس چیز کا وجود نمایاں ہو جائے۔
لیکن ہم اسلامی اصطلاح میں دو طرح کی آیت اور نشانی رکھتے ہیں، ایک وہ جو خالق کے وجود پر دلالت کرتی ہے اور دوسری وہ جو اس کی کسی ایک صفت (یعنی اسما ئے حسنی الٰہی میں سے کسی ایک کی طرف) اشارہ کرتی ہے وہ دونوں نشانیاں درج ذیل ہیں:
الف۔ وہ نشانیاں جو اپنے متقن اور سنجیدہ وجود کے ساتھ اپنے خالق حکیم کے محکم اور استوارنظام پر دلالت کرتی ہیں اور اس طرح ظاہر کرتی ہیں کہ اس پوری کائنات کا کوئی پروردگار حکیم ہے کہ جو خلق کے امور کو ایک محکم اور استوار نظام کے ساتھ چلا رہا ہے اورہم اسے ''کائنات میں خد اکی سنتیں'' کہتے ہیں۔
پہلی مثال، جیسے خدا سورۂ غاشیہ میں فرماتا ہے :
(أفلا ینظرون الیٰ الأبل کیف خلقت٭و الیٰ السماء کیف رفعت٭ و الیٰ الجبال کیف نصبت)
کیا وہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسے خلق کیا گیا ہے اور آسمان کو کہ کس طرح رفعت دی گئی ہے اور پہاڑوں کو کہ کیسے نصب کیا گیاہے ؟!(١)
اورسورۂ عنکبوت میں فرماتا ہے:
(خلق اللہ السمٰوات و الارض بالحق ان فی ذلک لآیة للمومنین)
خدا وند عالم نے زمین و آسمان کو حق کے ساتھ خلق کیا یقینا اس میں مومنین کے لئے نشانی ہے۔(٢)
خدا وند عالم نے اس طرح کی قرآنی آیات میں کچھ مخلوقات کا تذکرہ کیا ہے جو اپنے وجود سے اپنے خالق کے وجود کا پتہ دیتی ہیں، اسی لئے انہیں آیات اور نشانیاںکہا گیا ہے ۔
..............
(١) غاشیہ ١٧۔٢٠
(٢)عنکبوت٤٤
دوسری مثال: خدا وند عالم سورۂ نحل میں فرماتا ہے:
(ھو الذی انزل من السماء ما ئً لکم منہ شراب ومنہ شجر فیہ تسیمون٭ ینبت لکم بہ الزرع و الزیتون و النخیل و الاعناب ومن کل الثمرات ان فی ذلک لآیة لقوم یتفکرون٭ وسخر لکم اللیل و النھار و الشمس و القمر و النجوم مسخرات بأمرہ ان فی ذلک لآیات لقوم یعقلون٭وما ذرأ لکم فی الارض مختلفا الوانہ ان فی ذلک لآیة لقوم یذکرون)
وہ خداجس نے تمہارے پینے کے لئے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس سے سر سبز درختوں کو پیدا کیا جس سے تم اپنے حیوانات کے چارہ کا انتظام کرتے ہوخدا وند عالم اس ''پانی'' سے تمہارے لئے کھیتی، زیتون کھجور، انگور اور تمام انواع و اقسام کے میوے اگاتا ہے یقینا اس میں دانشوروںکیلئے واضح نشانی ہے اس نے شب و روز ،ماہ و خورشید کو تمہار اتابع بنایا نیز ستارے بھی اس کے حکم سے تمہارے تابع ہیں، یقینا اس میں صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں اور گونا گوں اور رنگا رنگ مخلوقات کو تمہارا تابع بنا کر خلق کیا، بیشک اس میں واضح نشانی ہے ان کے لئے جو نصیحت حاصل کرتے ہیں۔(١)
خدا وند عالم ان جیسی قرآنی آیات میں ان انواع نظام ہستی کو بیان کرتا ہے جو مدبر اور حکیم پروردگار کے وجود پر دلالت کرتی ہیں اور کبھی کبھی ان آیات اور نشانیوں کو جو ''عزیز خالق'' اور'' حکیم، مدبراور رب'' کے وجودپر دلالت کرتی ہیں یکجا بیان کیا ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :
(ان فی خلق السمٰوات و الارض و اختلاف اللیل و النھار و الفلک التی
تجری فی البحر بما ینفع الناس وما انزل اللہ من السماء من مائٍ فأحیا بہ الارض بعد موتھا و بث فیھا من کل دابة و تصریف الریاح و السحاب المسخر بین السماء و الارض لآیات لقوم یعقلون)
یقینا زمین و آسمان کا تخلیق کرنا اور روز و شب کو گردش دینا اور لوگوں کے فائدہ کے لئے دریا میں کشتیوں کو رواں دواں کرنا اور خدا کا آسمان سے پانی برسانانیز زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرنا اور ہر قسم کے متحرک جانوروں کو اس میںپھیلانا نیز زمین و آسمان کے درمیان ہوائوں اور بادلوں کو مسخر کرنا اسلئے ہے کہ ان سب میں صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں۔(٢)
خدا نے اس آیت کی ابتدا میں آسمانوں اور زمین کی خلقت کو بیان کیا ہے اس کے بعد نظام کائنات کی
..............
(١)نحل١٠۔١٣
(٢)بقرہ١٦٤
نشانیوں کا ذکر کیاہے ، ایسا نظام جس کو پروردگار نے منظم کیا ہے اور ہم اسے '' کائنات کی سنتیں '' کہتے ہیں ۔
ب۔ وہ آیات جنہیں پروردگار عالم انبیاء کے حوالے کرتا ہے ، جیسے نظام ہستی پر ولایت وہ بھی اس طرح سے کہ جب مشیت الٰہی کا اقتضا ہو تو پیغمبر، خدا کی اجازت سے اس نظام کو جس کو خدا نے عالم ہستی پر حاکم بنایا ہے بدل سکتا ہے ،جیساکہ خد اوند متعال حضرت عیسیٰ کی توصیف میں فرماتا ہے۔
(ورسولاً الیٰ بنی اسرائیل انی قد جئتکم بآیة من ربکم انی اخلق لکم من الطین کہیئة الطیر فانفخ فیہ فیکون طیراً بأِذن اللہ...)
حضرت عیسیٰ کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا ( انہوں نے ان سے کہا:)میں تمہارے پروردگار کی ایک نشانی لیکر آیا ہوں، میں مٹی سے تمہارے لئے پرندے کے مانند ایک شیء بنائوں گا اور پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ خد اکے حکم سے پرندہ بن جائے گا۔(١)
اس طرح کی آیات الٰہی کو اسلامی عرف میں ''معجزہ'' کہتے ہیں، اس لئے کہ دیگر افراد بشر اس طرح کی چیزوں کے پیش کرنے سے عاجز ہیں اور وہ خارق عادت ہے نیز تخلیقی نظام طبیعی کے برعکس ہے ، جیسے حضرت عیسیٰ کا معجزہ کہ مٹی سے خد اکے اذن سے ایک پرندہ خلق کر دیا تاکہ اس بات پر دلیل ہو :
١۔ یہ دنیا کا پروردگار ہے کہ جس نے اشیاء کو خاصیت اور طبیعی نظام عطا کیاہے اور جب اس کی حکمت کا اقتضا ہو کہ کسی چیز کی خاصیت کو اس سے سلب کر لے ، تو ایسی قدرت کا مالک ہے جس طرح کہ آگ کی گرمی سلب کر کے حضرت ابراہیم کو جلنے سے بچا لیا اور جب اس کی حکمت تقاضاکرے کہ اس نظام طبیعی کو جو اپنی بعض مخلوقات کے لئے قرار دیا ہے بدل دے تو وہ اس پر قادر اور توانا ہے ، جیسے مٹی سے حضرت عیسیٰ کے ہاتھ پرندہ بن جانا بجائے اس کے کہ اپنے نر جنس کی آمیزش سے پرندہ کی ماں اسے جنے جو کہ طبیعی نظام خلقت کے مطابق ہے اور اسے جانداروں کی خلقت کے لئے معین کیاہے ۔
انبیاء کے معجزات جیسا کہ ہم نے بیان کیاہے خارق العادة اور طبیعی نظام کے برخلاف ہیںاور انتقال مادہ کے مراحل طے کرنے، یعنی ایک حال سے دوسرے حال اور ایک صورت سے دوسری صورت میں آخری شکل تک تبدیل ہونے کی پیروی نہیں کرتے اس لئے کہ پرندہ کا مٹی سے تخلیق کے مراحل کا طے کرنا
( جیساکہ بعض فلاسفہ کے کلام سے سمجھ میں آتا ہے) نور کی سرعت رفتار کے مانندتھا کہ جن کو خدا وند عالم نے
..............
(١)آل عمران٤٩
طبیعی مدت اور دورہ انتقال سے بہت تیزپیغمبر کے لئے طے کیا ہے۔
معجزہ سحر نہیں ہے ، اس لئے کہ سحر ایک قسم کی باطل اور غیر واقعی خیال آفرینی کے سوا کچھ نہیں ہے، مثال کے طور پر ایک ساحر و جادو گرایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرغ کونگل جاتا ہے ، یاا ونٹ کے منھ سے داخل ہو کر اس کے مخرج سے نکل آتا ہے یا شیشہ کے برتنوں کو چکنا چور کر کے دوبارہ اسے پہلی حالت میں پلٹادیتاہے در حقیقت اس نے ان امور میں سے کسی ایک کوبھی انجام نہیں دیا ہے بلکہ صرف اورصرف دیکھنے والوں اور تماشائیوں کی نگاہوں پر سحر کر دیا ہے (جسے نظر بندی کہتے ہیں) اور ان لوگوں نے مذکورہ امور کو اپنے خیال میں دیکھا ہے اسی لئے جب سحر کا کام تما م ہو جاتا ہے تو حاضرین تمام چیزوں کو اس کی اصلی حالت اور ہیئت میں بغیر کسی تبدیلی اور تغیر کے دیکھتے ہیں، لیکن معجزہ نظام طبیعت کو در حقیقت بدل دیتا ہے جیسے وہ کام جو حضرت موسیٰ کے عصا نے انجام دیا: ایک زبردست سانپ بن کر جو کچھ ساحروں نے اس عظیم میدان میں پیش کیا تھا سب کویکبار گی نگل گیا اور جب حضرت موسیٰ کے ہاتھ میں آکر دوبارہ عصا بنا، تو جوکچھ ساحروں نے اس میدان میں مہیا کیا تھا اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہا ،یہی وجہ تھی کہ جادوگر سجدہ میں گر پڑے اور بولے : ہم پروردگار عالم پر ایمان لائے ، جوموسیٰ اور ہارون کا پروردگار کیونکہ وہ لوگ جادو گری میں تبحر رکھتے تھے اور ایک عجیب مہارت کے مالک تھے۔ انہوں نے درک کیا کہ یہ سحر کا کام نہیں ہے بلکہ خدا وند متعال کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔
معجزہ کا محال امر سے تعلق نہیں ہوتا جس بات کو علم منطق میں اجتماع نقیضین سے تعبیر کرتے ہیں جیسے یہ کہ کوئی چیز ایک وقت میں ایک جگہ ہے اور نہیں بھی ہے یہ بھی اثر معجزہ کی شمولیت سے خارج ہے ۔
پیغمبروں کے معجزوں کی حقیقت ، وہ آیتیں ہیں جن کوپروردگاران کے ہاتھوں سے ظاہر کرتا ہے ، وہ نشانیاںکہ جن و انس جن کو پیش کرنے سے عاجز اور ناتواں ہیں خواہ بعض بعض کی مدد ہی کیوں نہ کریں جبکہ جنات میں بعنوان مثال ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو اس بات پر قادر ہیں کہ ملک یمن سے تخت بلقیس حضرت سلیمان کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی بیت المقدس حاضر کر دیں کیونکہ فضا میں جن کی سرعت رفتار نور سے ملتی جلتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ جن کبھی دور دراز کی خبر بھی اپنے سے مربوط کاہن کو لا کر دے سکتا ہے ، لیکن یہی جن و انس مٹی سے پرندہ نہیں بنا سکتے کہ بغیر اللہ کی اجازت کے حقیقی پرندہ بن جائے۔
ہندوستان میں ریاضت کرنے والے ''مرتاض''کبھی ٹرین کو حرکت کرنے سے روک سکتے ہیں، لیکن وہ اور ان کے علاوہ افراد کہ جن کو خدا نے اجازت نہیں دی ہے یہ نہیں کر سکتے کہ پتھر پر عصا ماریں تو بارہ چشمے پھوٹ پڑیں۔
کیونکہ پروردگارعالم آیات ومعجزات اس لئے ا پنے انبیاء و مرسلین کو عطا کرتا ہے تاکہ امتیں ان کے دعوے کی صداقت پر یقین کریں اور سمجھیں کہ یہ لوگ خدا کے فرستادہ ہیں، حکمت کا مقتضا یہ ہے کہ یہ معجزات ایسے امور سے متعلق ہوں کہ جس امت کے لئے پیغمبر مبعوث ہوا ہے اسے پہچانیں ، جیساکہ حضر ت امام علی بن موسیٰ الرضانے ایک سائل کے جواب میں کہاجب اس نے سوال کیا: کیوں خدا نے حضرت موسیٰ بن عمران کو ید بیضا اور عصا کے ساتھ مبعوث کیااور حضرت عیسیٰ کو طب اور حضرت محمدۖ کو کلام و سخن کے ساتھ؟
امام نے جواب دیا:
جس وقت خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ کو مبعوث کیا تھا اس زمانے میں سحر و جادو نما یاں فن شمار ہوتا تھا لہٰذا وہ بھی خدا وند عز و جل کی طرف سے ایسی چیز کے ساتھ ان کے پاس گئے کہ اس کی مثال ان کے بس میں نہیں تھی، ایسی چیز کہ جس نے ان کے جادو کو باطل کر دیا اور اس طرح سے ان پر حجت تمام کی۔
خدا وند عالم نے حضرت عیسیٰ کوایسے زمانے میں مبعوث کیا جب مزمن اور دائمی بیماریوں کا دور دورہ تھااور لوگوں کوطب کی ضرورت تھی تو وہ خدا کی طرف سے ان کے لئے ایسی چیز لیکر آئے کہ اس جیسی چیز ان کے درمیان نا پید تھی، یعنی جو چیز ان کے لئے مردوں کو زندہ کر دیتی تھی، اندھے اور سفید داغ والے کو شفا دیتی تھی لہٰذا اس کے ذریعہ ان پر حجت تمام کی۔
خدا وند متعال نے حضرت محمد ۖ بھی اس وقت مبعوث کیا جب غالب فن خطابت اور سخنوری تھا، راوی کہتا ہے میرے خیال میںآپۖ نے کہا: اور شعر تھا، آنحضرت نے خدا وند عز و جل کی کتاب اور اس کے موعظوں اور احکام سے ان کے لئے ایسی چیز پیش کی کہ ان کی تمام باتوں کو باطل کر دیا اور ان پر حجت تمام کر دی۔
سائل نے کہا: خدا کی قسم، آج جیسا دن کبھی میں نے نہیں دیکھا ہے : پھر بولا: ہمارے زمانے کے لوگوں پر حجت کیا ہے ؟ امام نے کہا: عقل ؛ اس کے ذریعہ خدا پر سچ بولنے والے کی صداقت پہچا نوگے اوراس کی تصدیق کروگے اور خدا کی طرف جھوٹی نسبت دینے والے کوتشخیص دوگے اور اسے جھٹلا ئو گے ۔
سائل نے کہا: خدا کی قسم، صحیح، جواب یہی ہے اور بس۔(١)
..............
(١)بحار، ج١١ ، ص ٧٠۔٧١ بحوالہ ٔ علل الشرائع ، ص ٥٢. اور عیون الاخبار، ص ٢٣٤
پیغمبروں کے خارق العادة معجزے کہ جو اشیاء کے بعض طبیعی نظام کے مخالف ہیں ،وہ خود انسانی معاشرے میں پروردگار عالم کی تکوینی سنتوں میں سے ایک سنت ہیں ایسا سماج اور معاشرہ جس میںخدا وند عالم نے انبیاء بھیجے، اسی وجہ سے امتوں نے اپنے پیغمبروں سے معجزے طلب کئے تاکہ ان کے دعویٰ کی صحت پر دلیل ہو، جیساکہ خدا وند عالم نے سورۂ شعراء میں قوم ثمود کی گفتگو پیش کی کہ انہوں نے اپنے پیغمبر صالح سے کہا:
(ما أنت الا بشر مثلنا فات بآیة ان کنت من الصادقین٭ قال ہذہ ناقة لھا شرب و لکم شرب یوم معلوم٭ولا تمسوھا بسوء فیأخذ کم عذاب یوم عظیم )
تم صرف ہمارے جیسے ایک انسان ہو ، اگر سچ کہتے ہو تو کوئی آیت اور نشانی پیش کرو! کہا: یہ ناقہ ہے ( اللہ کی آیت )پانی کا ایک حصہ اس کااور ایک حصہ تمہاراہے معین دن میں،ہر گز اسے کوئی گزندنہ پہنچانا کہ عظیم دن کے عذاب میں گرفتار ہو جائو۔(١)
بہت سی امتوں کااپنے پیغمبر سے معجزہ دیکھنے کے بعدعناد شدید تر ہوجاتا تھااور ان سے دشمنی کرنے لگتے تھے ۔ اور ایمان لانے سے انکار کر دیتے ،جیسا کہ خدا وند عالم نے قوم ثمود کے بارے میں ناقہ دیکھنے کے بعد فرمایا :
(فعقروھا فأصبحوا نادمین)
آخر کار اس ناقہ کو پے کر دیااس کے بعد اپنے کرتوت پر نادم ہوئے۔(٢)
خدا کی سنت یہ رہی ہے کہ اگر امتوں نے اپنے پیغمبر وںسے معجزہ کی درخواست کی اور معجزہ آیا لیکن وہ اس پر ایمان نہیں لائے تو وہ زجر و توبیخ اور عذاب کے مستحق بنے اور خدا وند عالم نے انہیں عذاب سے دوچار کیا۔
جیسا کہ اسی سورۂ میں قوم ثمود کے انجام کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :
(فأخذھم العذاب ان فی ذلک لآیة وما کان اکثرھم مؤمنین)
پس ان کو اللہ کے عذاب نے گھیر لیا یقینا اس میں آیت اور نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر مومن نہیں تھے۔(٣)
انبیاء کا معجزہ پیش کرنا حکمت کے مقتضیٰ کے مطابق ہے ، حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ معجزہ اس حد میںہونا چاہئے کہ پیغمبر کے دعوے کی حقانیت کا، اس شخص کے لئے جو اس پر ایمان لانا چاہتا ہے اثبات کرسکے ، آیت
..............
(١) سورۂ شعرا ١٥٦، ١٥٤
(٢) سورۂ شعرا ١٥٧
(٣) سورۂ شعرا ١٥٨
الٰہی ان سرکشوں کی مرضی اور مردم آزاروں کی طبیعت کے مطابق نہیں ہے جو خدا اور رسول پر ایمان لانے سے بہر صورت انکار کرتے ہیں کہ جو چاہیں ہو جائے، نیز جیسا کہ گز ر چکاہے کہ معجزہ امرمحال سے بھی تعلق نہیں رکھتاہے ، چنانچہ یہ دونوںباتیں ،رسول سے قریش کی خواہش میںموجود تھیں جبکہ خدا نے عرب کے مخصوص معجزے ''فصیح وبلیغ گفتگو'' کو انہیں عطا کیا خدا نے سورۂ بقرہ میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے :
( وان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فأتو بسورة من مثلہ و ادعوا شھدائکم من دون اللہ ان کنتم صادقین٭فأِن لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقوا النار التی و قودھا الناس و الحجارة اُعدت للکافرین)
ہم نے جو اپنے بندہ پر نازل کیا ہے اگر اس کے بارے میں شک و تردید میںمبتلا ہو تو اس کے مانند ایک ہی سورہ لے آئو اورخدا کے علاوہ اس کام کے لئے اپنے گواہ پیش کر و ،اگر سچے ہوپھر اگر ایسا نہیں کر سکتے اور ہر گز نہیں کر سکتے تو اس آگ سے ڈرو! جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جو کافروں کے لئے آمادہ کی گئی ہے۔(١)
قریش کے سر برآوردہ افراد جو ایمان لانے کو کا قصد ہی نہیں رکھتے تھے اپنی شدت اور ایذا رسانی میں اضافہ کرتے گئے اور رسول اکرمۖ کو زحمت میں ڈالنے اور انہیں عاجز اور بے بس بنانے کے لئے گونا گوں درخواستیں کرتے حتی کہ امر محال کا بھیمطالبہ کرتے تھے ، خداوند عالم سورۂ اسراء میں ان کی ہر طرح کی سرکشی اورمزاحمت کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :
(قل لئن اِجتمعت الانس و الجن علیٰ ان یأتو بمثل ھذا القرآن لا یأتون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظہیراً٭ ولقد صرفنا للناس فی ھذا القرآن من کل مثل فأبیٰ اکثر الناس الاکفورا٭ و قالوا لن نؤمن لک حتیٰ تفجر من الارض ینبوعا٭ او تکون لک جنة من نخیل و عنب فتفجر الانھار خلالھا تفجیرا٭ او تسقط السماء کما زعمت علینا کسفاً او تأتی باللہ و الملائکة قبیلا٭ او یکون لک بیت من زخرف او ترقیٰ فی السماء و لن نؤمن لرقیک حتی تنزل علینا کتاباً نقرؤہ قل سبحان ربی ھل کنت الا بشراً رسولا٭ و ما منع الناس ان یومنوا اذ جائھم الھدی الا ان قالوا ابعث اللہ بشراً رسولا، قل لو کان فی الارض ملائکة یمشون مطمئنین لنزلنا علیھم من السماء ملکاً رسولاً قل کفیٰ باللہ شہیداً بینی و بینکم انہ کان بعبادہ خبیراً بصیرا)
..............
(١)سورۂ بقرہ٢٣۔٢٤
کہو: اگر تمام جن و انس یکجا ہو کر اس قرآن کے مانند لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے ہر چند ایک دوسرے کی اس امر میں مدد کریں، ہم نے اس قرآن میں ہر چیز کا نمونہ پیش کیا ہے لیکن اکثرلوگوں نے ناشکری کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا اور کہا: ہم اس وقت تک تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ اس سرزمین سے ہمارے لئے چشمہ جاری نہ کرو، یا کھجور اور انگور کا تمہارے لئے باغ ہو اور ان کے درمیان جا بجا نہریں جاری ہوں، یا آسمان کے ٹکڑوںکو جس طرح تم خیال کرتے ہو ہمارے سر پر گرا دو؛ یا خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر کر دو؛یا کوئی زرین نقش و نگار کا تمہارے لئے گھر ہو، یا آسمان کی بلندی پر جائو اور اس وقت تک تمہارے اوپر جانے کی تصدیق نہیں کریں گے جب تک کہ وہاں سے کوئی نوشتہ ہمارے لئے نہ لائو جسے ہم پڑھیں!
کہو: میرا پروردگار منزہ اور پاک ہے ، کیا میں ایک فرستادہ ( رسول)انسان کے علاوہ بھی کچھ ہوں؟! صرف اور صرف جو چیز ہدایت آنے کے بعد بھی لوگوں کے ایمان لانے سے مانع ہوئی یہ تھی کہ وہ کہتے تھے: آیا خدا نے کسی انسان کو بعنوان رسول بھیجا ہے ؟!
ان سے کہو: اگر روئے زمین پر فرشتے آہستہ آہستہ قدم اٹھائے سکون و وقار سے راستہ طے کرتے، تو ہم بھی ایک فرشتہ کو بعنوان رسول ان کے درمیان بھیجتے ! کہو! اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان خدا گواہ ہے ؛ کیونکہ وہ بندوں کی بہ نسبت خبیرو بصیر ہے ۔(١)
پروردگار خالق نے اہل قریش پر اپنی حجت تمام کر دی اور فرمایا: اگر جو کچھ میں نے اپنے بندہ پر نازل کیا ہے اس کے بارے میں شک و تردید رکھتے ہو، تو اس کے جیسا ایک سورہ ہی لے آئو اور خدا کے علاوہ کوئی گواہ پیش کرونیز خبر دی کہ اگر تمام جن و انس مل کر اس کے مانند لانا چاہیں تو قرآن کے مانند نہیں لا سکتے،خواہ ایک دوسرے کی مدد ہی کیوں نہ کریں اور اس کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: کبھی اس کے جیسا نہیں لا سکتے اور آج تک اسلام دشمن عناصر اپنی کثرت، بے پناہ طاقت اور رنگا رنگ قدرت کے باوجود ایک سورہ بھی اس کے مانند پیش نہیں کر سکے قرآن کی اس اعلانیہ تحدی اور چیلنج کے بعد کہ یہ ایک ایسا معجزہ ہے کہ اس کے مقابل جن و انس عاجز اور ناتواںہیں، جب مشرکین قریش نے خود کوذلیل اور بے بس پایا تو پیغمبر ۖسے خواہش کی کہ مکہ کی طبیعت اور اس کی ہوا کو بدل دیں او رسونے کا ایک گھر ہو، یاخدا اور ملائکہ کو ایک صف میں ان کے سامنے حاضر کر دیں، یا آسمان کی بلندی پر جائیں اور ہم ان کے جانے کی اس وقت تصدیق کریں گے جب وہاں
..............
(١)اسرائ٩٦۔٨٨
سے ہمارے لئے کوئی نوشتہ لائیں جسے ہم پڑھیں، جیسا کہ واضح ہے کہ ان کی در خواستیںامر محال سے بھی متعلق تھیں اور وہ خدا اور ملائکہ کو ان کے سامنے حاضر کرنا ہے ، یقینا خدا کا مقام اس سے کہیں بلند و بالا ہے جو یہ ظالم کہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی بعض خواہشیں پیغمبرں کے بھیجنے کے بارے میں سنت الٰہی کے مخالف تھیں ، جیسے ان کے سامنے آسمان کی بلندی پر جانا اور کتاب لانا کہ یہ سب خدا وند عالم نے اپنے نمائندے فرشتوں سے مخصوص کیا ہے اوریہ انسان کا کام نہیں ہے ۔
وہ لوگ اس بات کے منکر تھے کہ خدا کسی انسان کو پیغمبری کے لئے مبعوث کرے گا جبکہ حکمت کا مقتضا یہ ہے کہ انسان کی طرف بھیجا ہواپیغمبر خود اسی کی جنس سے ہو، تاکہ رفتار و گفتار، سیرت وکردار میں ان کیلئے نمونہ ہو، ان کی بقیہ تمام خواہشیں بھی حکمت کے مطابق نہیں تھیں ، جیسے یہ کہ عذاب کی درخواست کی، اسی لئے خداوندنے پیغمبر ۖسے فرمایا کہ ان کے جواب میں کہو: میرا خدا منزہ ہے آیا میں خدا کی طرف سے فرستادہ (رسول )انسان کے علاوہ بھی کچھ ہوں؟!
گزشتہ بیان کا خلاصہ: حکمت خدا وندی کا تقاضاہے کہ اس کا فرستادہ اپنے پروردگار کی طرف سے اپنے دعویٰ کی درستگی اور صداقت کیلئے معجزہ پیش کرے اور اس کے ذریعہ لوگوں پر اپنی حجت تمام کرے، ایسے حال میں جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کر دے ،جیسا کہ حضرت موسیٰ اور ہارون کی قوم کا حال ایسا ہی تھا کہ معجزہ دیکھنے کے بعد جادو گروں نے ایمان قبول کیا اور فرعون اور اس کے درباریوں نے انکار کیا، تو خدا وند عالم نے انہیں غرق کر کے ذلیل و خوار کر دیا اور خدا کی طرف سے اس کے پیغمبر جو بھی آیت پیش کریں اسے معجزہ کہتے ہیں۔
مذکورہ باتوں کے علاوہ جن لوگوں کو خدا نے زمین کا پیشوا اور لوگوں کا ہادی بنایا ہے وہ صاحب شریعت پیغمبر ہوںیا ان کے وصی، ان کے مخصوص صفات ہیںجو انھیں دوسروںسے ممتا ز کرتے ہیں اور ہم آئندہ بحث میں خدا کی توفیق اور تائید سے اس کا ذکر کریں گے ۔