٦
اللہ کے مبلغ اور لوگوں کے معلم
١۔ نبی،رسول اور وصی کے معنی
٢۔ آسمانی کتابوں ، سیرت اور تاریخ میں پیغمبروںاور اوصیاء کی خبریں
٣۔ آیت ، معجزہ کی تعریف اور ا س کی کیفیت
١۔نبی ،رسول اور وصی
الف:۔ نبی و نبوت
نبوت لغت میں مرتبہ کی بلندی اور رفعت کو کہتے ہیں، خدا وندعالم سورۂ آل عمران میں فرماتا ہے:
(ماکان لبشر ان یؤتیہ اللہ الکتاب والحکم و النبوة ثم یقول للناس کونوا عباداً لی من دون اللہ...)(١)
کسی انسان کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ خدا وند عالم اسے کتاب ، حکم اور نبوت دے پھر وہ لوگوں سے کہے : خد اکے علاوہ میری عبادت کرو...لہٰذا نبوت ایک مخصوص مرتبہہے اور نبی خدا داد علم اور مقام قرب کے ذریعہ دیگر افراد پر فوقیت اور برتری رکھتا ہے ۔ اس لحاظ سے ، نبی وہ ہے جو ایسیمنزلت و مرتبہ کا مالک ہو ، یہی معنی خد اوند عالم کے کلام میں ہیں جب کہ وہ پیغمبر اکرمۖ سے مخاطب ہوکر سورۂ احزاب میں فرماتا ہے :
(یا ایھا النبی انا ارسلناک شاھداً و مبشراً و نذیراً٭ و داعیاً الیٰ اللہ بأِذنہ و سراجاً منیرا)
اے نبی ! ہم نے تم کو گواہی دینے والا، بشارت دینے والا اورڈرانے والا بنا کر بھیجا ، خدا کی طرف اس کے حکم سے دعوت دینے والااور روشن چراغ بنا کر بھیجا۔
لہٰذا ''یا ایہا النبی'' کے معنی ہیں اے بلند مرتبہ عالی مقام میں نے تمہیں بھیجا...۔(٢)
اسی طرح سورۂ احزاب کی دیگر آیت میں ارشاد فرماتا ہے :
( النبی اولی ٰ بالمومنیمن انفسہم )
بیشک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولی ٰ ہیں۔ (٣)
..............
(١)آل عمران٧٩
(٢)احزاب٤٥۔٤٦
( ٣) سورہ ٔ احزاب
نبی وہ ہے جس پر وحی ہوتی ہے ، جیسا کہ خدائے سبحان نے سورہ ٔ نساء میں فرمایا ہے :
(انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوح و النبیین من بعدہ)
ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جس طرح نوح اور ان کے بعد دیگر انبیا کی طرف بھیجی تھی۔(١)
اس اعتبار سے نبی ایک اسلامی اصطلاح ہے اس معنی میں کہ نبی: خد اکے نزدیک بلند مرتبہ اور عالی رتبہ ہوتا ہے اور اس کی طرف وحی کی جاتی ہے ، پروردگار خالق عالی مقام انبیاء کو مبعوث کرتا ہے تاکہ وہ بشارت دینے والے ، ڈرانے والے رسول بنیں اور لوگوں کی ہدایت کریں ، جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:
(کان الناس امة واحدة فبعث اللہ النبیین مبشرین و منذرین و انزل معھم الکتاب...)
سارے لوگ ایک امت تھے، خدا وند عالم نے انبیاء کو مبعوث کیا تاکہ بشارت دینے والے اورڈرانے والے ہوں اور ان کے ساتھ کتاب بھیجی...۔(٢)
(و انزل معھم الکتاب ) یعنی پروردگارخالق نے مبعوث ہونے والے بعض انبیاء کے ساتھ کتاب بھیجی نہ یہ کہ خدا وند عالم نے ہر ایک نبی کو کتاب دی ہے ، دوسرے یہ کہ خدا وند عالم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت و برتری دی ہے ۔
جیسا کہ سورۂ اسراء میں ارشاد فرماتا ہے : (ولقد فضلنا بعضھم علیٰ بعض)
ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت و برتری عطا کی ہے۔(٣)
اسی طرح خدا وند عالم نے انبیاء کے درمیان اپنے رسولوں کو منتخب کیا اور لوگوں کی طرف بھیجا، جیسا کہ بیان کیا جا رہا ہے ۔
ب۔ رسول
رسالت کا حامل، وہ لوگوں کی ہدایت کا خدا وند عالم کی طرف سے ذریعہ ہے۔ اور وہ خالق و مخلوق کے درمیا ن نوع بشر میں وساطت کا و شرف اسکی خاص صفت ہے اور مخصوص رسالت کے ہمراہ ان کے درمیان مبعوث ہوتا ہے ، خدا وندعالم اسے انہیں میں سے کہ جن کی طرف بھیجا گیا ہے یا جن کی زبان میں گفتگو کرتا ہے منتخب کرتا ہے جیسا کہ سورۂ ابراہیم میں ارشاد ہوتا ہے :
..............
(١)نسائ١٦٣
(٢)بقرہ٢١٣
(٣)اسرائ٥٥
(وماأَرسلنا من رسول الابلسان قومہ لیبیّن لھم...)(١)
ہم نے ہر پیغمبر کو اسی کی زبان میں مبعوث کیا تاکہ انہیں سمجھا سکے اور وضاحت کرسکے۔
نیز سورۂ اعراف اور ہود میں فرماتا ہے: (و الیٰ عاد اخاہ ہودا) اور قوم عاد کی طرف '' نوح کے بھائی ہود'' کو بھیجا نیز سورۂ اعراف ، ہود اور نمل میں فرماتا ہے : و الیٰ ثمود اخاہ صالحاً میں نے قوم ہود کی طرف '' ان کے بھائی صالح'' کو بھیجا اور سورۂ اعراف، ہود اور عنکبوت میں فرماتا ہے : (والیٰ مدین اخاہ شعیبا)؛ مدین کی طرف ''ان کے بھائی شعیب'' کو مبعوث کیا ۔
اس انتخاب کی حکمت بھی واضح ہے، کیونکہ خد اکا رسول اپنی قوم کے درمیان اپنے خاندان اور رشتہ داروں کی وجہ سے قوی اور مضبوط ہوتا ہے اور تبلیغی وظائف کی انجام دہی میں مدد ملتی ہے ، جیساکہ خد اوند عالم نے سورۂ ہود میں قوم شعیب کی داستان بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان کی قوم نے ان سے کہا:(ولو لا رھطک لرجمناک) اگر تمہارے عزیز و اقارب نہ ہوتے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیتے۔
خد اپیغمبروں کو لوگوںکی ہدایت اور ان پر حجت تمام کرنے کے لئے بھیجتا ہے جیسا کہ سورۂ نساء میں فرمایا:
(ورسلاً مبشرین و منذرین لئلا یکون للناس علٰی اللہ حجة بعد الرسل)
ایسے رسول جو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے تھے، تاکہ ان پیغمبروںکے بعد لوگوں کے لئے خدا پر کوئی حجت نہ رہ جائے اور سورۂ اسراء میں فرماتا ہے:(٢)
(وما کنا معذبین حتیٰ نبعث رسولاً)
ہم اس وقت تک عذاب نہیںکرتے ہیں جب تک کہ کوئی رسول نہ بھیج دیں۔(٣)
اورسورۂ یونس میں فرماتا ہے :
(ولکل امة رسول فاذا جاء رسولھم قضی بینھم بالقسط وھم لا یظلمون)(٤)
ہر امت کے لئے ایک پیغمبر ہوگا، جب ان کے درمیان پیغمبر آجائے گا تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ ہوگا اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔
جو امتیں پیغمبر کی نافرمانی کرتی ہیں وہ دنیاوی اور اخروی عذاب کی مستحق ہوجاتی ہیں جیسا کہ خداوند عالم فرعون اور اس سے پہلے والی امت کی خبر دیتے ہوئے سورۂ حاقہ میں فرماتا ہے :
..............
(١)ابراہیم٥
(٢)نسائ١٦٥
(٣)اسرائ١٥
(4)یونس٤٧
(فعصوا رسول ربھم فأخذھم أخذةرابیة)
انہوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی تو خدا وند عالم نے انہیں دردناک عذاب میں مبتلا کیا۔(١)
پیغمبر کی نافرمانی بعینہ خدا کی نافرمانی ہے ، جیسا کہ سورۂ جن میں ارشاد فرماتا ہے:
(ومن یعص اللہ و رسولہ فان لہ نار جھنم خالدین فیھا ابداً)
جو بھی خد ااور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اس کے لئے جہنم کی آگ ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔(٢)
خدا وند عالم نے رسولوں کو انبیاء کے درمیان سے منتخب کیا اور ہمیشہ رسولوں کی تعداد انبیاء سے کم ہے جیسا کہ ابوذر کی روایت میں ہے کہ انہوںنے کہا:
و قلت یا رسول اللہ :''کم ھو عدد الانبیائ، قال : ماة الف و اربعة و عشرون الفاً الرسل من ذلک ثلاثمأة و خمسة عشر جما غفیراً۔''
ابوذر نے کہا: یا رسول اللہ: انبیائ(ع) کی تعداد کتنی ہے ؟ فرمایا: ایک لاکھ چوبیس ہزار ، اس میں سے تین سو پندرہ رسول ہیں ان کی مجموعی تعداد یہی ہے ۔(٣)
جو میں نے بیان کیا اس اعتبار سے ہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے ، جیسا کہ ''یسع'' رسول نہیں تھے لیکن نبی اور موسیٰ کلیم اللہ کے وصی تھے۔
بعض پیغمبر جو شریعت لیکر آئے، انہوں نے بعض گز شتہ شریعت کے مناسک کو نسخ کر دیا جیساکہ حضرت موسیٰ کی شریعت اپنے ما قبل شریعتوں کے لئے ایسی ہی تھی، بعض پیغمبر کچھ ایسی شریعت لیکر آئے جو سابق شریعت کی تجدید کرنے اور کامل کرنے والی تھی، جس طرح حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت ابراہیم خلیل کے آئین حنیف کی نسبت، خدا وند سورۂ نحل میں فرماتا ہے :
(ثم اوحینا الیک ان اتبع ملة ابراہیم حنیفاً)
پھر ہم نے تمہاری طرف وحی کی کہ حضرت ابراہیم کے خالص آئین کا اتباع کرو...(٤)
اور سورۂ مائدہ میں ارشاد ہوتا ہے :
..............
(١)حاقہ١٠
(٢)جن٢٣
(٣)مسند احمد، ج٥، ص ٢٦٥۔٢٦٦، معانی الاخبار، صدوق ص ٣٤٢، خصال، طبع مکتبہ صدوق، ج٢ ص ٥٣٣، بحار الانوار، ج١١، ص ٣٢، حدیث ٢٤، مذکورہ روایت کی عبارت مسند احمد سے اخذ کی گئی ہے ۔
(٤) نحل١٢٣
(الیوم اکملت لکم دینکم و أتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً)(١)
آج تمہارے لئے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور اسلام کو تمہارے لئے آئین کے عنوان سے پسند کیا۔
آئندہ بحث میں انبیاء کے وصیوں کی خبروں کی تحقیق کریں گے۔
ج۔ وصی و وصیت
وصی کتاب اور سنت میں، ایک ایسا انسان ہے جس سے دوسرے لوگ وصیت کرتے ہیں تاکہ اس کے مرنے کے بعد ان کی نظر میں قابل توجہ امور پر اقدام کرے خواہ، اس لفظ اور عبارت میں ہو کہ '' میں تمہیں وصیت کر رہا ہوں کہ میرے بعد تم ایسا کرو گے ، یاان الفاظ میں ہو: میں تم سے عہد لیتا ہوں اور تمہارے حوالے کرتا ہوں کہ میرے بعد ایسا ایسا کرو گے اس میں، کوئی فرق نہیں ہے ، جس طرح سے وصیت کے بارے میں دوسروں کو خبر دینے میںبھی لفظ وصی اور وصیت وغیرہ میںکوئی فرق نہیں ہے اور اگر یہ کہے : فلاں میرے بعد میر اوصی ہے ، یا کہے : فلاں میرے بعد ایسا ایسا کرے گا یا جو بھی عبارت وصیت کا مفہوم ادا کرے اور اس پر دلالت کرے کافی ہے۔
نبی کا وصی بھی ،وہ انسان ہے جس سے پیغمبر نے عہد و پیمان لیا ہو تاکہ اس کے مرنے کے بعد امور شریعت اور امت کی ذمہ داری اپنے ذمے لے اور اسے انجام دے۔(٢)
انبیاء کے وصیوں کے بارے میں جملہ اخبار میںسے ایک یہ ہے جسے طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہہے : جناب حوا نے حضرت آدم کی صلب سے ''ھبة اللہ'' کوجو کہ عبرانی زبان میں ''شیث'' ہے جنم دیا تو حضرت آدم نے انہیں اپنا وصی قرار دیا، حضرت شیث سے بھی ''انوش'' نامی فرزند پیدا ہوا اور انہوں نے اسے بیماری کے وقت اپنا وصی بنایا اور دنیا سے رحلت کر گئے ، پھر اس کے بعد'' انوش'' کی اولاد ''قینان'' اور دیگر افراد دنیا میں آئے کہ اپنے باپ کے وصی ' 'قینان'' بنے، قینان سے بھی ''مھلائیل الیرد'' اور دیگر گروہ وجود میں آئے کہ جس میں وصیت ''یرد'' کے ذمہ قرار پائی، یرد سے بھی ''خنوخ'' کہ جن کو ادریس کہا جاتا ہے، دیگر فرزندوں کے ساتھ پیدا ہوئے اور جناب ادریس اپنے باپ کے وصی بنے اور ادریس سے ''متوشلخ'' اور کچھ دیگر افراد پیدا ہوئے اور وصیت ان کے ذمہ قرار پائی۔
..............
(١) سورۂ مائدہ ٣
(٢)مزید تفصیل کیلئے،''فرہنگ دو مکتب در اسلام''، ج١ ص بحث وصی کی طرف رجوع کریں۔
ابن سعد نے اپنی کتاب '' طبقات'' میں جناب ادریس کے بارے میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: سب سے پہلے پیغمبر جو آدم کے بعد مبعوث ہوئے ادریس تھے اور وہ ''خنوخ بن یرد'' ہیں۔
اور خنوخ سے بھی 'متوشلخ'' اور کچھ دیگر اولاد پیدا ہوئی اور وصیت ان کے ذمہ قرار پائی اور متوشلخ سے ''لمک'' اور کچھ دیگر اولاد پیدا ہوئی اور وہ اپنے باپ کے وصی ہو گئے اور لمک سے حضرت ''نوح'' پیداہوئے۔(١)
مسعودی نے ''اخبار الزمان'' میں ایک روایت ذکر کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :
خد اوند عالم نے جب حضرت آدم کی روح قبض کرنی چاہی ، تو انہیں حکم دیا کہ اپنے فرزند شیث کو اپنا ''وصی'' قرار دیں اور ان علوم کی انہیں تعلیم دیں جو اللہ نے انہیں دیا ہے تو انہوںنے ایسا ہی کیا اور نقل کیا ہے : شیث نے اپنے بیٹے قینان کو صحف کی تعلیم دی زمین کے محاسن اچھائیوں اور ذخائر کو بیان کیااس کے بعد انہیں اپنا وصی بنایا اور نماز قائم کرنے،زکوٰة دینے ، حج کرنے اور قابیل کی اولاد سے جہاد کرنے کا حکم دیا ۔ انہوںنے اپنے باپ کے حکم کی تعمیل کی اور سات سو بیس سال کے سن میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
قینان نے اپنے فرزند ''مہلائیل'' کو وصی بنایا اور انہیں جس کی خود انہیں وصیت کی گئی تھی وصیت کی مہلائیل کی عمر٨٧٥ سال تھی، انہوںنے بھی اپنے فرزند ''بوادر'' کو وصی بنایاانہیں صحف کی تعلیم دی اور زمین کے ذخیروں او رآئندہ رونما ہونے والے حوادث سے آگاہ کیا او ''سرِّ ملکوت'' نامی کتاب انہیں سپرد کی، یعنی وہ کتاب جسے مہلائیل فرشتے نے حضرت آدم کو تعلیم دی تھی اور اسے سربستہ اور دیکھے بغیر ،ایک دوسرے سے وراثت میں پاتے تھے، بوارد سے ''خنوخ'' نامی فرزند پیدا ہو ایہ وہی ادریس نبی ہیں کہ خد اوند عالم نے انہیں عالی مقام بنایا انہیں ادریس اس لئے کہتے ہیں کہ انہوںنے خدا وند عز و جل کی کتابوں اور دین کی سنتوں کو بہت پڑھا اور اس پر عمل کیا ہے ، خدا وند عالم نے ان پر تیس عدد صحیفے نازل کئے کہ ان کو ملاکر اس زمانے میں نازل ہونے والے صحیفے کامل ہوئے۔''یوارد'' نے اپنے فرزند ''خنوخ'' (ادریس) کو اپنا وصی بنایا اور اپنے باپ کی وصیت ان کے حوالے کی اور جو علوم ان کے پاس تھے ان کی تعلیم دی اور'' مصحف سر'' اُن کے حوالے کیا...۔
یعقوبی نے اخبار اوصیاء کو سلسلہ وار اور طبری و ابن اثیر سے زیادہ بسط و تفصیل سے نقل کیا ہے اس کے علاوہ دوسرے کی اخبار بھی وصیت کے سلسلہ میں ذکر کئے ہیں ، مثال کے طور پر کہتا ہے : حضرت آدم کی
..............
(١)تاریخ طبری، طبع یورپ، ج١ ص ١٥٣۔١٦٥، ١٦٦، تاریخ ابن اثیر، ج١ ص ١٩، ٢٠، شیث بن آدم کے بارے میں ، طبقات ابن سعد، ج١ ص ١٦، ابن کثیر نے بھی اپنی تاریخ میں حضرت آدم کی وصیت کا ،جو انہوں نے اپنے شیث کو کی تھی، ذکر کیا ہے ۔
وفات کے وقت ان کے فرزند شیث اوردوسرے بیٹے،پوتے ان کے پاس آئے تو انہوںنے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے خداسے برکت اور کثرت طلب کی اور اپنے بیٹے شیث کو اپنا وصی بنایا اور ذکر کیا ہے :
حضرت آدم کی موت کے بعد آپ کے فرزند شیث آ گے بڑھے اور اپنی قوم کو تقوای الٰہی اور عمل صالح کا حکم دیا...یہاں تک کہ شیث کی وفات کے وقت ان کے فرزند اور پوتے کہ اس دن انوش، قینان، مہلائیل یرد اور خنوخ تھے اور ان کے بچے اور بیویاں ان کے قریب آئیں اور شیث نے ان پر درود بھیجا اور خدا وند عالم سے ان کے لئے برکت ، ترقی اور زیادتی کی درخواست کی اور ان کی طرف مخاطب ہو کر انہیں قسم دی کہ.... قابیل ملعون کی اولاد سے معاشرت نہیں کریں گے اور فرزند انوش کو وصی بنایا۔
یعقوبی اس طرح سے سلسلہ وار اوصیاء کی خبروں کو ان کے زمانہ کے وقایع کے ذکر کے ساتھ حضرت نوح کی خبر وصیت تک پہنچ کر کہتاہے : حضرت نوح کی وفات کے وقت آپ کے تینوں بیٹے سام، حام اور یافث اور ان کی اولاد ان کے پاس جمع ہوگئی پھر حضرت نوح کی وصیت کی تشریح کرتا ہے اور اسی طرح انبیاء کے اوصیاء کے تسلسل کوبنی اسرائیل اور ان کے اوصیاء تک ذکر کیا ہے کہ ہم یہاں تک اسی خلاصہ پر اکتفا کرتے ہیں۔
حضرت نوح کے زمانے میں قابیل کے فرزندوں کے درمیان بتوں کی عبادت رائج تھی۔
ادریس نے اپنے فرزند متوشلخ کو اپنا وصی بنایا، کیونکہ خدا وند متعال نے انہیں وحی کی کہ وصیت کو اپنے فرزند متوشلخ میں قرار دو کیونکہ ہم عنقریب ان کی صلب سے پسندیدہ کردار نبی پید اکریں گے۔ خد اوند عالم نے حضرت ادریس کو اپنی طرف آسمان پر بلا لیا اور ان کے بعد وحی کا سلسلہ رک گیا اور شدید اختلاف اور زبردست تنازعہ کھڑا ہو گیا اور ابلیس نے مشہور کر دیا کہ وہ مر گئے ہیں، اس لئے کہ وہ کاہن تھے وہ چاہتے تھے کہ فلک کی بلندی تک جائیںکہ وہ آگ میں جل گئے ہیں حضرت آدم کی اولاد چونکہ اس دین کی پابند تھی لہٰذا سخت غمگین ہوئی، ابلیس نے کہا ان کے بڑے بُت نے انہیں ہلاک کر دیا ہے ، پھر تو بت پرستوں نے بتوںکی عبادت میں زیادتی کر دی اور ان پر زیورات نثار کرنا شروع کر دئیے اور قربانی کی اور ایسی عید کا جشن منایا کہ سب اس میں شریک تھے وہ لوگ اس زمانے میں یغوث، یعوق، نسر، ودّ اور سواع نامی بت رکھتے تھے۔
جب متوشلخ کی موت کا وقت قریب آیا ، تو اپنے فرزند'' لمک'' کو وصی بنایا( لمک جامع کے معنی میں ہے) اور ان سے عہد و پیمان لیا اور جناب ادریس کے صحیفے اور ان کی مہر کردہ کتابیں ان کے حوالے کیں اس وقت متوشلخ کی عمر ٩٠٠ سال تھی، وصیت لمک تک منقل ہوئی ( وہ جناب نوح کے والد تھے) انہوں نے ایک بار اچانک دیکھا کہ ان کے دہن سے ایک آگ نکلی اور تمام عالم کو جلا گئی۔ اوردوبارہ دیکھا کہ گویا وہ دریا کے درمیان ایک درخت پر ہیں اور کوئی دوسری چیز نہیں ہے ، حضرت نوح بڑے ہوئے خدا وند عالم نے انہیں ٥٠ سال کے سن میں بلند مقام اور نبوت بخشی اور انہیں ان کی قوم کی طرف کہ جوبت کی پوجا کرتی تھی بھیجا، وہ اولوالعزم رسولوں میںسے ایک تھے۔
بعض اخبار میں آپ کی عمر ١٢٥٠ سال ذکر کی گئی ہے،وہ جیسا کہ خدا وند متعال نے فرمایا ہے: اپنی قوم کے درمیان ٩٥٠ سال رہے اور انہیں ایمان کی دعوت دی،ان کی شریعت: توحید ، نماز، روزہ، حج اور دشمنان خد اقابیل کے فرزندوں سے جہاد تھی، وہ حلال کے لئے مامور اور حرام سے ممنوع کئے گئے تھے اور ان کو حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں کو خدا وند متعال کی طرف دعوت دیں اور اس کے عذاب سے ڈرائیں اور خدا کی نعمتوں کو یاد دلائیں۔
مسعودی کا کہنا ہے: خدا وند عالم نے ریاست اور انبیاء کی کتابیں سام بن نوح کے لئے قرار دیں اور نوح کی وصیت بھی ان کے فرزندوں سے مخصوص ہوئی نہ کہ ان کے بھائیوں سے ۔(١)
یہاں تک جو کچھ مسعودی کی کتاب اخبار الزمان سے ہمارے پاس تھا تمام ہوا، مسعودی نے اسی طرح کتاب ''اثبات الوصیة''(٢) میں اوصیاء کے سلسلہ کو حضرت آدم سے حضرت خاتمۖ تک بیان کیا ہے ، یہ وہ چیز ہے جو اسلامی مدارک کی بحثوں میں رسولوں اور ان کے جانشینوں کے بارے میں بیان ہوا ہے، آئندہ بحث میں، رسولوںاور ان کے اوصیاء کی خبروں کوکتاب عہدین (توریت اور انجیل) سے بیان کریں گے۔
..............
(١) اخبار الزمان ، مسعودی، طبع بیروت، ١٣٨٦ ھ،ص ٧٥، ١٠٢(٢)ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں،مسعودی کی طرف اثبات الوصیة کی نسبت کے متعلق فصل : عصر فترت ،باب : پیغمبر ۖ کے آباء و اجداد میں وضاحت کر دی ہے۔
|