٥
دین اور اسلام
الف۔ دین کے معنی
ب۔ اسلام اور مسلمان
ج۔ مومن اور منافق
د۔ اسلام تمام آسمانی شریعتوں کا نام ہے
ھ۔ شرائع میں تحریف اور تبدیلی اور ان کے اسماء میں تغیر:
١۔یہود و نصاریٰ نے کتاب خدا اور اس کے دین میں تحریف کی
٢۔ یہود و نصاریٰ نے دین کانام بھی بدل ڈالا
٣۔ تحریف کا سر چشمہ
و۔ انسان کی فطرت سے احکام اسلامی کا سازگار ہونا
ز۔ انسان اور نفس امارہ بالسوء ( برائی پر ابھارنے والا نفس)
ح۔ شریعت اسلام میں جن و انس شریک ہیں
الف۔ دین
لفظ''دین'' اسلامی شریعت میں دو معنی میں استعمال ہوا ہے :
١ ۔جزا، کیونکہ ، یوم الدین قرآن میںجو استعمال ہوا ہے اس سے مراد روز جزا ہے ، اسی طرح سورۂ فاتحہ( الحمد) میں مالک یوم الدین (١)آیا ہے یعنی روز جزا کا مالک۔
٢۔ شریعت جس میں اطاعت و تسلیم پائی جاتی ہو، شریعت اسلامی میں زیادہ تر دین کا استعمال اسی معنی میں ہوتا ہے ، جیسے خدا وند عالم کا یوسف اور ان کے بھائیوں کے بارے میں قول:
(ماکان لیأخذ أخاہ فی دین الملک )
( یوسف) بادشاہی قانون و شریعت کے مطابق اپنے بھائی کو گرفتار نہیں کر سکتے تھے۔(٢)
اور سورۂ بقرہ میں فرمایا:
( ان اللہ اصطفیٰ لکم الدین)
خدا وند سبحان نے اطاعت اور تسلیم کے ساتھ تمہارے لئے شریعت کا انتخاب کیا ہے ۔(٣)
..............
(١) فاتحہ٤
(٢)یوسف٧٦
(٣)بقرہ١٣٢
ب۔ اسلام اور مسلمان
اسلام ؛ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا اور اس کے احکام ا و رشریعتوں کے سامنے سر جھکانا۔
خدا وند سبحان نے فرمایا:
( ان الدین عند اللہ الاسلام) (١)
یعنی خدا کے نزدیک دین اسلام ہے ۔ اور مسلمان وہ شخص ہے جو خد اور اس کے دین کے سامنے سراپاسر تسلیم خم کر دے۔
اس اعتبارسے حضرت آدم کے زمانے میں اسلام خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا اور اس کی شریعت کے مطابق رفتار کرنا ہے اور اس زمانے میں مسلمان وہ تھا جو خدا اور آدم پر نازل شدہ شریعت کے سامنیسراپا تسلیم تھا؛ یہ سراپا تسلیم ہونا حضرت آدم کے سامنے تسلیم ہونے کو بھی شامل ہے جو کہ خدا کے برگزیدہ اور اپنے زمانے کی شریعت کے بھی حامل تھے۔
اسلام؛ نوح کے زمانے میں بھی خد ا کے سامنے تسلیم ہونا ، ان کی شریعت کا پاس رکھنا ، حضرت نوح کی خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی کے عنوان سے پیروی کرنا اور گز شتہ شریعت آدم پر ایمان لانا تھا۔ اور مسلمان وہ تھا جو تمام بتائی گئی باتوں پر ایمان رکھتا تھا، حضرت ابراہیم کے زمانے میں بھی اسلام خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونے ہی کے معنی میں تھا اور حضرت نوح کی شریعت پر عمل کرنے اور حضرت ابراہیم کی بعنوان بنی مرسل پیروی کرنے نیز آدم تک گز شتہ انبیاء و مرسلین پر ایمان لانا ہی تھا۔
اور حضرت موسی اور حضرت عیسیٰ کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔
نیز حضرت محمد خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں بھی وہی اسلام کا گزشتہ مفہوم ہے اور
..............
(١)آل عمران١٩
اس کی حد زبان سے اقرار شہادتین ''اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمداً رسول اللہ'' تھا۔
اس زبانی اقرار کا لازمی مطلب یہ ہے کہ ضروریات دین خواہ عقائد ہوںیا احکام یا گز شتہ انبیاء کی نبوتیں کہ جن کا ذکرقرآن کریم میں ہوا ہے ان میں سے کسی کاا نکار نہ ہو، یعنی جو چیز تمام مسلمانوں کے نزدیک متفق علیہ ہے اور اسے اسلام میں شمار کرتے ہیںاس کا انکارنہیں کرنا چاہئے جیسے نماز، روزہ اور حج کا وجوب یا شراب نوشی، سود کھانا،محرموں سے شادی بیاہ کرنا وغیرہ کی حرمت یا اس جیسی اور چیزیں کہ جن کے حکم سے تمام مسلمان واقف ہیں،ان کا کبھی انکار نہیں کرنا چاہئے۔
ج۔ مومن اور منافق
اول : مومن
مومن وہ ہے جو شہادتین زبان پر جاری کرے نیز اسلام کے عقائد پر قلبی ایمان بھی رکھتا ہو۔
اور اس کے احکام پر عمل کرے اور اگر اسلام کے خلاف کوئی عمل اس سے سرزد ہو جائے تو اسے گناہ سمجھے اور خدا کی بارگاہ میں توبہ و انابت اور تضرع و زاری کرتے ہوئے اپنے اوپر طلب بخشش و مغفرت کو واجب سمجھے۔
مومن اور مسلم کے درمیان فرق قیامت کے دن واضح ہوگا لیکن دنیا میں دونوں ہی اسلام اور مسلمانوں کے احکام میں شامل ہیں یہی وجہ ہے کہ خدا وند منان نے سورۂ حجرات میں ارشاد فرمایا:
(قالت الأعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا و لما یدخل الاِیْمان فی قلوبکم...)
صحرا نشینوں نے کہا: ہم ایمان لائے ہیں ، تو ان سے کہو: تم لوگ ایمان نہیں لائے ہو بلکہ کہو اسلام لائے ہیں اور ابھی تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے ...(١)
دوسرے ۔ منافق
الف۔ نفاق لغت میں: نفاق لغت میں باہر جانے کو کہتے ہیں، نافق الیربوع، یعنی چوہا
اپنے ٹھکانے یعنی بل کے مخفی دروازہ پر سرمار کر سوراخ سے باہر نکل گیا، یہ اس لئے ہے کہ ایک قسم کاچوہا جس کے دونوں ہاتھ چھوٹے اور پائوں لمبے ہوتے ہیں وہ اپنے بل میںہمیشہ دودروازے رکھتا ہے ایک داخل ہونے کا آشکار دروازہ جو کسی پر پوشیدہ نہیں ہوتا؛ایک نکلنے کا مخفی اور پوشیدہ دروازہ ،وہ باہر نکلنے والے دروازہ کو اس طرح مہارت اور چالاکی سے پوشیدہ رکھتا ہے کہ جیسے ہی داخل ہونے والے دروازہ سے دشمن آئے؛
..............
(١)حجرات١٤
آہٹ ملتے ہی مخفی دروازے پر سرمار کر اس سے نکل کر فرار کر جائے تواس وقت کہتے ہیں: ''نافق الیربوع''۔
ب۔ اسلامی اصطلاح میں نفاق: اسلامی اصطلاح میں نفاق، ظاہر ی عمل اور باطنی کفر ہے ۔ نافق الرجل نفاقاًیعنی اسلام کا اظہار کرکے اس پر عمل کیا اور اپنے کفر کو پنہاں اور پوشیدہ رکھا، لہٰذا وہ منافق ہے خدا وند عالم سورۂ منافقون میں فرماتا ہے :
(اذا جاء ک المنافقون قالوا نشھد انک لرسول اللہ و اللہ یعلم انک لرسولہ و اللہ یشھد ان المنافقین لکاٰذبون٭ اتخذوا أَیمانھم جنة...)
جب منافقین تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم شہادت و گواہی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں،خدا وند عالم جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو، لیکن خدا گواہی دیتا ہے کہ منافقین ( اپنے دعوے میں) جھوٹے ہیں، انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے۔
یعنی ان لوگوں نے اپنی قسموں کو اس طرح اپنے چھپانے کا پردہ بنا رکھا ہے اور اپنے نفاق کو اپنی جھوٹی قسموں سے پوشیدہ رکھتے ہیں اور خدا وند عالم ان کے گفتار کی نادرستگی (جھوٹے دعوے )کو پیغمبر اکرمۖ کے لئے ظاہر کرتا ہے ۔(١)
سورۂ نساء میں ارشاد ہوا:
( ان المنافقین یخادعون اللہ و ھو خادعھم و اذا قاموا الیٰ الصلٰوة قاموا کسالیٰ یرآء ون الناس...)
منافقین خدا سے دھوکہ بازی کرتے ہیں، جبکہ وہ خود ہی ان کو دھوکہ میں ڈالے ہوئے ہے اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی اور کسالت سے اٹھتے ہیں اور لوگوں کے سامنے ریا کرتے ہیں۔(٢)
..............
(١)منافقون١۔٢
(٢)نسائ١٤٢
د۔ اسلام تمام شریعتوںکا نام ہے
اسلام کا نام قرآن کریم میں گز شتہ امتوں کے بارے میں بھی ذکر ہوا ہے ، خدا وند عالم سورۂ یونس میں فرماتا ہے:
نوح نے اپنی قوم سے کہا:
( فأِن تولیتم فما سئلتکم من اجر ان اجری اِ لَّاعلیٰ اللہ و أمرت ان اکون من المسلمین)
اگر میری دعوت سے روگردانی کروگے تومیں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا؛ میرا اجر تو خدا پر ہے ، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمان رہوں۔(١)
ابراہیم کے بارے میں فرمایا:
(ماکان ابراہیم یہودیاً ولا نصرانیاً ولکن کان حنیفاً مسلماً و ما کان من المشرکین )
ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی نصرانی بلکہ خالص موحد ( توحید پرست) اور مسلمان تھے وہ کبھی مشرکوں میںسے نہیں تھے۔(٢)
٢۔(ووصیٰ بھا ابراہیم بنیہ و یعقوب یا بنیَّ ان اللہ اصطفیٰ لکم الدین فلا تموتن الا و انتم مسلمون)
ابرہیم و یعقوب نے اپنے فرزندوںکو اسلام کی وصیت کی اور کہا: اے میرے بیٹو! خدا وند عالم نے تمہارے لئے دین کا انتخاب کیا ہے اور تم دنیا سے جائو تو اسلام کے آئین کے ساتھ۔(٣)
٣۔(ما جعل علیکم فی الدین من حرجٍ ملة ابیکم ابراہیم ھو سما کم المسلمین من قبل)
..............
(١) بقرہ١٣٢
(٢) حج٧٨
(٣) ذاریات٣٥۔٣٦
خدا وند عالم نے اس دین میں جو کہ تمہارے باپ کا دین ہے کسی قسم کی سختی اور حرج نہیں قرار دیا ہے اس نے تمہیں پہلے بھی مسلمان کے نام سے یاد کیا ہے۔(١)
سورۂ ذاریات میں قوم لوط کے بارے میں فرمایا:
(فأَخرجنا من کان فیھا من المؤمنین ٭ فما وجدنا فیھا غیر بیت من المسلمین)
ہم نے اس شہر میں موجود مومنین کو باہر کیا،لیکن اس میں ایک مسلمان گھرانے کے علاوہ کسی کو مسلمان نہیں پایا۔(٢)
جناب موسیٰ کے بارے میں فرماتا ہے : انہوں نے اپنی قوم سے کہا:
(یا قوم ان کنتم آمنتم باللہ فعلیہ توکلوا ان کنتم مسلمین)(٣)
اے میری قوم! اگر تم لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر توکل اور بھرو سہ کرو اگر مسلمان ہو۔
اورسورۂ اعراف میں فرعونی ساحروں کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے :
(ربنا افرغ علینا صبراً و توفنا مسلمین)
خدا وندا! ہمیں صبرو استقامت عطا کر اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں موت دینا۔(٤)
فرعون کی داستان سے متعلق سورۂ یونس میں فرماتا ہے :
(حتی اذا ادرکہ الغرق قال آمنت انہ لا الٰہ الا الذی آمنت بہ بنو اسرائیل ٭ و انا من المسلمین)
جب ڈوبنے لگا توکہا: میں ایمان لایا کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔(٥)
سلیمان نبی کا ملکہ ٔسبا کے نام خطلکھنے کے بارے میں سورۂ نمل میں ذکر ہوا ۔
(انہ من سلیمان و انہ بسم اللہ الرحمن الرحیم٭ الا تعلو علی و أْتونی مسلمین)
یہ سلیمان کا خط ہے جو اس طرح ہے : خدا وند رحمان و رحیم کے نام سے، میری یہ نسبت فوقیت اور برتری کا تصور نہ کرو اور میری طرف مسلمان ہو کر آجائو۔(٦)
نیز اس سورہ میں فرماتا ہے :
..............
(١) حج٧٨
(٢) ذاریات٣٥۔٣٦
(٣) یونس٨٤
(٤) اعراف١٢٦
(٥)یونس٩٠.
(٦)نمل٣٠۔٣١.
( یا ایھا الملاء ایکم یأ تینی بعرشھا قبل ان یأتونی مسلمین)
اے گروہ!(اشراف سلطنت) تم میں سے کون اس کا تخت میرے پاس حاضرکرے گا ان کے میرے پاس مسلمان ہو کر آنے سے پہلے۔(١)
سورۂ مائدہ میں عیسیٰ کے حواریوں کے بارے میں فرماتا ہے :
(واذا اوحیت الیٰ الحواریین ان آمنوا بی و برسولی قالوا آمنا و اشھد بأَِنا مسلمون)
جب میں نے حواریوں کو وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائو تو انہوں نے کہا: ہم ایمان لائے لہٰذا تو گواہی دے کہ ہم مسلمان ہیں۔(٢)
سورۂ آل عمران میں ارشاد فرماتا ہے :
(فلمّا احس عیسیٰ منھم الکفرقال من انصاری الیٰ اللہ قال الحواریون نحن انصار اللہ آمنا باللہ واشھد بأِنا مسلمون)
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان میں کفر محسوس کیا تو کہا: خدا کے واسطے میرے انصار کون لوگ ہیں؟
حواریوں نے کہا: ہم خدا کے انصار ہیں؛ ہم خدا پر ایمان لائے، آپ گواہ رہئے کہ ہم مسلمان ہیں۔(٣)
یہ اصطلاح گز شتہ امتوں سے متعلق قرآن کریم میں منحصر نہیں ہے بلکہ دوسرے اسلامی مدارک میں بھی ان کے واقعات کے ذکر کے وقت آئی ہے مثال کے طور پر ابن سعد نے اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے نوح کے کشتی سے باہر آنے کاذکر کرنے کے بعد کہا : '' نوح کے آباء و اجداد حضرت آدم تک سب کے سب دین اسلام کے پابند تھے اس کے بعد روایت میں اس طرح وارد ہوا ہے کہ جناب آدم ونوح کے درمیان دس قرن کا فاصلہ تھا اس طولانی فاصلے میں سب کے سب اسلام پر تھے؛ اور اس نے ابن عباس کی روایت کے ذیل میں ذکرکیاہے کہ آپ نے ان لوگوں کے بارے میں جو کشتی سے باہر آئے اور ایک شہر میں سکونت اختیار کی کہا ہے: ان کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ افراد تک پہنچ گئی تھی اور سارے کے سارے دین اسلام کے پابند تھے۔(٤)
..............
(١)نمل٣٨.(٢)مائدہ١١١.(٣)ال عمران٥٢.(٤)طبقات ابن سعد طبع یورپ، ج١،ص١٨، ابن کثیر نے اپنی تاریخ ج١، ص ١٠١ پر یہ روایت ابن عباس سے نقل کی ہے کہ عشرہ قرون کلھم علیٰ الاسلام.
|