نام کتاب : اسلام کے عقائد(پہلی جلد )
 
٣۔اصناف خلق کے لئے رب العالمین کی اقسام ہدایت
اس حصہ میں ہم اصناف موجود ات کے لئے ہدایت الٰہی کے اقسام کی تحقیق کریں گے، ان کے تخلیقی زمانہ کی ترتیب کے اعتبار سے بحث کریں گے، خدا نے پہلے فرشتوں کو خلق کیا کیونکہ وہ لوگ خلقت میں خدا کی سپاہ اور عرش ربوبی کے حامل ہیں، اس کے بعد زمان و مکان ، آسمان و زمین کی تخلیق کا تذکرہ کیا اور جو کچھ جانداروں کی ضرورت جیسے پانی، نباتات بلکہ تمام ضروریات زندگی کو ان کے اختیار میںقرار دیا پھر جن اور حیوانات کی تخلیق کی اور انسان کو اس کی تمام ضروریات کی تخلیق کے بعد پیدا کیا۔
مذکورہ اصناف کے لئے ''رب العالمین'' کی انواع ہدایت کی تشریح درج ذیل ترتیب سے بیان کرتے ہیں:

پہلی۔ فرشتوں کی بلاواسطہ تعلیم
خدا وند عالم نے فرشتوں سے متعلق فرمایا :
(اذ قال ربک للملائکة انی جاعل فی الارض خلیفة قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا و یسفک الدماء و نحن نسبح بحمدک و نقدس لک قال انی اعلم ما لا تعلمون٭و علم آدم الاسماء کلھا ثم عرضھم علیٰ الملائکة فقال انبئونی بأَسماء ھؤلاء ان کنتم صادقین٭ قالوا سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم، قال یا آدم انبئھم باسمائھم فلما انباھم باسمائھم قال الم اقل لکم انی اعلم غیب السمٰوات و الارض و اعلم ما تبدون و ما کنتم تکتمون٭ و اذ قلنا للملاٰئکة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابلیس ابیٰ و استکبر و کان من الکافرین)
جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا: میںروئے زمین پر ایک خلیفہ اور جانشین بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو ایسے کو بنائے گا جو فساد و خونریزی کرتا ہے ؟جبکہ ہم تیری تسبیح اور حمد بجالاتے ہیں اور تیری تقدیس اور پاکیز گی کا گن گاتے ہیں؛ فرمایا: میں ان حقائق کا عالم ہوں جو تم نہیںجانتے۔
پھراسماء ( اسرار خلقت )کا تمام علم آدم کو سکھایا؛ اس کے بعد انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا: اگر تم لوگ سچے ہو تو ان کے اسماء کے بارے میں مجھے خبر دو! سب نے کہا: تو پاک و پاکیزہ ہے! ہم تیری تعلیم کے سوا کچھ اور نہیں جانتے؛ تو دانا اور حکیم ہے ، فرمایا: اے آدم! انہیں ان اسماء موجودات کے حقائق سے آگاہ کرو اور جب انہیں آگاہ کر دیا تو فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں زمین و آسمان کا غیب جانتا ہوں؟! نیز وہ بھی جانتا ہوں جو تم آشکار کرتے ہو اورجو چھپاتے ہو۔اورجب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کے لئے سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سواابلیس کے کہ اس نے انکار کیا اور تکبر سے کام لیتے ہوئے کافروںمیں شامل ہو گیا۔

کلمات کی تشریح
١۔ ''خلیفة اورخلیفة اﷲفی الارض''
الف۔ خلف: خلف زید عمرواً یعنی زید عمرو کے بعد آیا ،یا زید عمر کے بعد کاموں میں مشغول ہوا (١)پہلا معنی جیسے یہ آیت : (فخلف من بعد ھم خلف) یعنی ان کے بعد اولاد آئی۔(٢)
دوسرے معنی جیسے: (و قال موسیٰ لاخیہ ھارون اخلفنی فی قومی) یعنی موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا میرے بعد ( یعنی میری عدم موجودگی میں) قوم کی اصلاح اور ان کے امور کی رسیدگی کرنا۔(٣)
ب۔ خلافت: غیبت و عدم موجودگی موت یا ناتوانی کی وجہ سے یا جانشین کے رتبہ میں اضافہ کرنے کیلئے غیر کی جانشینی ۔
ج۔ خلیفہ: یعنی وہ شخص جو کسی کی غیبت، موت ، ضعف و ناتوانی ، یا رفعت مقام کی وجہ سے کسی دوسرے کا جانشین ہوتا ہے ۔ پہلے معنی جیسے: (و اذکروا اذ جعلکم خلفاء من بعد قوم نوح) اس وقت کو یاد کرو جب خد اوند عالم نے تمہیں قوم نوح کا جانشین بنایا۔(٤)
دوسرے معنی جیسے:( یا داؤد انا جعلناک خلیفةً فی الارض)
اے دائود! ہم نے تم کو زمین پر خلیفہ قرار دیا(٥) نیز جیسے رسول خداۖ کا کلام:
..............
(١)معجم الفاظ القرآن کریم ''مادہ'' خلف
(٢)اعراف١٦٩
(٣) اعراف١٤٢
(٤)اعراف١٦٩، مادہ خلف ماخوذ از مفردات.
(٥)سورۂ ص ٢٦.
''اللھم ارحم خلفائی اللھم ارحم خلفائی اللھم ارحم خلفائی قیل لہ: یا رسول اللہ من خلفاؤک؟ قال : الذین یأتون من بعدی یروون حدیثی و سنتی''
خدا وندا میرے جانشینوں پرر حم کر اوور اس جملہ کی تین بار تکرار کی آپ سے سوال کیا گیا یارسول اللہ آپ کے جانشین کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو لوگ میرے بعد میری حدیث اور سنت کی روایت کریں گے ۔(١)
روایات کی طرف رجوع کرنے سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ کا خلیفہ پیغمبر ہے یا اس کا وصی جسے خدا وند عالم نے انسان کی ہدایت کے لئے آسمانی شریعتوں کے ساتھ معین کیا ہے اس کی تشریح خدا کی مدد سے ''الٰہی رسول'' کی بحث میں آئے گی۔
٢۔سجد: خضوع و خشوع کیا ، سجدہ یعنی خضوع اور فروتنی لیکن انسان کے بارے میں اس کے علاوہ زمین پر پیشانی رکھنے کو کہتے ہیں۔ پہلے معنی خضوع و فروتنی کے جیسے :
(و للہ یسجد من فی السمٰوات و الارض طوعاً وکرھاً وظلالھم با لغدو و الآصال)
یعنی تمام وہ لوگ جو زمین و آسمان میں رہتے ہیں اور ان کے سایہ از روئے طاعت یا جبر و اکراہ ۔ ہر صبح و عصر خدا کاسجدہ (خضوع و فروتنی) کرتے ہیں۔(٢)
اور دوسرے معنی جیسے :(سیما ھم فی وجوھھم من أَثر السجود)
ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں میں نمایاں ہیں۔(٣)

تفسیر آیات کا خلاصہ
خدا وند عالم نے فرشتوں پر ایمان لانے کو خدا، روز قیامت، آسمانی کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لانے کی ردیف میں قرار دیا ہے۔ اور اُن سے دشمنی کو اِن کی دشمنی کے مترادف قرار دیا ہے، انہیں اپنے خاص بندوں میں شمار کیا ہے ایسے بندے جو اپنے پروردگار کی تسبیح خوانی میں مشغول ہیں، اہل زمین کے لئے بخشش و مغفرت طلب کرتے ہیں اور خدا جو کچھ انہیں حکم دیتا ہے اسے وہ انجام دیتے ہیں۔
لیکن خداوندعالم نے اس بات کا ذکر نہیں کیا ہے کہ فرشتوں کو کس چیز سے خلق کیا ہے ،( بعض روایات
..............
(١)معانی الاخبار، صدوق، ص ٣٧٤،٣٧٥.
(٢)رعد١٥
(٣)فتح٢٩
میں مذکور ہے کہ انہیں نور سے خلق کیاہے)۔(١)
صرف یہ خبر دی ہے کہ ان کودو یا تین یا چار پرعطا کئے ہیں اور یہ کہ خلقت میں جو چاہے اضافہ کر دے اور وہ لوگ انسانی شکل میں ظاہر ہو تے ہیں اور اپنی ماموریت (فریضہ) انجام دیتے ہیں اور فرشتوں کے پروں کی کیفیت کا پرندوں کے پروں سے مقایسہ کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے اس لئے کہ فرشتے پرندوں کی طرح مادی اجسام کے مالک نہیں ہیں اور معرفت و شناخت کے وسائل جو ہماری دسترس میں ہیں یعنی اجسام کی حسی شناخت کے ذریعہ ان کی حقیقت کو درک نہیں کر سکتے ،لہٰذا ان کے درک کرنے کا ذریعہ سوائے نقل کے اور کوئی چیزنہیں ہے جس طرح ان دیکھے شہر اور سر زمینوں کی شناخت صرف سماعت پر موقوف ہے اس فرق کے ساتھ کہ ہم محسوسات کو ان جیسی چیز وں سے مقایسہ کر سکتے ہیں اور عقلی استنتاج کے ذریعہ سنی ہوئی بات کی صحت اور عدم صحت کافیصلہ کر سکتے ہیںیہاں پر اس کی تشریح کی گنجائش نہیں لیکن ان دیکھے عالم کا مادی دنیا سے مقایسہ ممکن نہیںہے ۔
خدا وند عالم فرشتوںکے حالات کے ضمن میں فرماتا ہے : خدا وند عالم نے تمام وہ چیزیں جن کوفرشتوں کو جاننا چاہئے انہیں سکھا دی ہیں ایسی تعلیم جولابدی طور پر انکی ماموریت اوران کے وظائف کے حدود میں شامل ہو۔
نیز ان لوگوںکو اس بات سے کہ وہ روئے زمین پر خلیفہ بنائے گا آگاہ کیا اور اس کے لئے آدم ابوالبشر کا تعارف کرایا اور فرمایا کہ فرشتوں نے کہا:
(اتجعل فیھا من یفسد فیھا و یسفک الدماء ونحن نسبح بحمد ک و نقدس لک)
کیا زمین پرکسی ایسے کو (خلیفہ)بنائے گا جو فساد برپا کرے اور خونریزی کرے؟ ! جبکہ ہم تیری تسبیح و حمد بجالاتے اور تقدیس کرتے ہیں۔(١)
روایات میں مذکور ہے کہ فرشتوں نے اس لئے ایسا کہا کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم سے پہلے کچھ مخلوقات کی تخلیق کی تھی جو فساد اور خونریزی کی خوگر تھیں لہٰذا انہیں کرتوت کی بنا پر خدا وند عالم نے انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا، فرشتوں نے نئی مخلوق کا گز شتہ مخلوقات سے قیاس کیا۔
جسکا خد اوند عالم نے یہ جواب دیا: میں ان حقائق کو جانتا ہوں جسے تم نہیں جانتے! پھر آدم کی تخلیق کی اور تمام اسماء یعنی تمام اشیاء کے حقائق سے انہیں آگاہ کیا؛ اس لئے کہ یہاں پر اسماء اسم کی جمع کسی شیء کے خصوصی صفات اور اس کے بیان کرنے والے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور یہ اس لئے ہے کہ زمین و
..............
(١)صحیح مسلم، کتاب زہد، باب احادیث متفرقہ، ص ٢٢٩٤ و مسند احمد ج ٦ ص ١٥٣ اور ١٦٨
(٢)بقرہ٣٠
آسمان کے درمیان جو کچھ ہے انسان کے نفع کے لئے مسخر اور تابع کر دیا ہے ، لہٰذا ان کے صفات اور خواص کی بھی انہیں تعلیم دی اس کی تشریح اس کتاب کے خاتمہ میں بیان ہوگی۔
خدا وند عالم نے حضرت آدم ـ کوتمام مسخرات کے خواص سکھا دئے تاکہ وہ ان پراپنے فائدہ کے تحت عمل کریں اور ہر ایک فرشتہ کو صرف اس ان سے متعلق وظیفہ کی تعلیم دی مثال کے طور پر : جو فرشتے عبادت کے لئے خلق کئے گئے تھے انہیں تہلیل، تسبیح اور تکبیر خدا وند ی کا طریقہ بتایا اور جو فرشتے انسانوں کے اعمال ثبت کرنے کے لئے خلق کئے گئے ہیںانہیں انسانی خیر و شرکے ثبت کرنے کا طریقہ اور کیفیت بتائی ، قبض روح پر مامور فرشتوں کو قبض روح کا دستور اور طریقہ سکھایانیز دوسروںکو بھی تمام وہ چیزیںجس کے لئے خلق کئے گئے تھے سکھادیں۔
اسی وجہ سے کیونکہ فرشتوں میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ خدا وند عالم نے جو کچھ آدم کو تعلیم دیا ہے درک کریں اور جب خدا نے فرشتوں سے ان اسماء کے حقائق کے بارے میں سوال کیا جس کی حضرت آدم کو تعلیم دی تھی تو، انہوں نے جواب دیا : تو پاک و پاکیزہ ہے جو تونے ہمیں تعلیم دی ہے اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں جانتے ! خد ا نے حضرت آدم کو حکم دیا کہ جو کچھ خد انے تمہیں تعلیم دی ہے انہیںبتادو،پھر ملائکہ سے فرمایا آدم کا سجدہ کرو، ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا کیونکہ وہ منکر اور متکبر تھا....
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مخلوقات کی یہ صنف، یعنی وہ فرشتے جن کو خداوند عالم نے آسمانوں اور زمین پر سکونت دی ہے اور موت، زندگی اور عقل و ادراک کے مالک اور ہوا ئے نفس سے خالی ہیں مقام ہدایت میں ان کے لئے اتنا ہی کافی ہے ، جس کے لئے و ہ خلق کئے گئے ہیں یا د کریں تاکہ اپنی پوری حیات میں اس پر عمل کریں اور اسے عملی طور پرپیش کریں لیکن اخبار سجدہ میں ان کے سوال کی داستان صر ف اتنی ہی ہے کہ وہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ آدم کس لئے خلق کئے گئے ہیں اور جب اس بات کو آدم کے ذریعہ جان لیا اور انہوں نے اسماء اور حقائق اشیاء کی تعلیم دے دی تو دستورات خدا وندی کی اطاعت کی اور آدم کا سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے آدم کے سجدہ سے انکار کیا اور تکبر کا مظاہرہ کیا اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی۔
اس بنا پر فرشتوں کی ہدایت خدا کی تعلیم کی وجہ سے ہے ، ایسی چیز کی تعلیم جو ان سے مطلوب ہے ۔

دوسرے ۔مسخرات کی تسخیر
ہدایت تسخیری کی بحث میں ہم یہاں پر صرف ان چند آیات کا ذکر کریں گے جو صراحت کے ساتھ بیان کرتی ہیںکہ خدا وند عالم نے ان مسخرات کو انسان کی خاطر اور اس کے فائدہ کے لئے تسخیر کیا ہے ، جیسا کہ فرمایا:
١۔(و سخر لکم ما فی السمٰوات وما فی الأرض جمیعاًً منہ ان فی ذلک لآیاتٍ لقومٍ یتفکرون)
خداوند عالم نے جو کچھ زمین وآسمان میں ہے اپنی طرف سے تمہارے نفع اور فائدہ کے لئے مسخر کیا ہے یقیناً اس کام میں غور و خوض کرنے والوںکیلئے نشانیاں ہیں۔(١)
٢۔( اللہ الذی جعل لکم الأرض قراراً و السماء بنائً)
وہ خدا جس نے زمین کو تمہارے لئے سکون و امن کی جگہ اور آسمان کو چھت قرار دیا۔(٢)
٣۔(الذی جعل لکم الأرض مہداً و جعل لکم فیھا سبلاً لعلکم تھتدون)
وہ ذات جس نے زمین کو تمہارا گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لئے راستے بنائے تاکہ ہدایت پاسکو۔(٣)
٤۔ ( و الارض وضعھا للانام٭ فیھا فاکھة و النخل ذات الاکمام٭ و الحب ذو العصف و الریحان٭ فبای آلاء ربکما تکذبان)
زمین کو خلائق کے لئے خلق کیا، اس میں میوہ اور پر ثمر کھجور کے درخت ہیںجن کے خوشوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں اور دانے ہیں جو تنوںاور پتوں کے ہمراہ سبزے کی شکل میں نکلتے ہیں اور پھول بھی ہیںپھر تم خدا کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے۔(٤)
٥۔(ھو الذی جعل لکم الارض ذلولاً فامشو فی مناکبھا و کلوا من رزقہ و الیہ النشور)
وہ خدا وند جس نے زمین کو تمہارے لئے رام کیا لہٰذا دوش ِزمین پر سوار ہو کرراستہ طے کرواور خداوندعالم کا رزق کھائو اور یہ جان لو کہ سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے ۔(٥)
٦۔(الم تر ان اللہ سخر لکم ما فی الأرض )
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے خد انے تمہارے لئے رام اور مسخر کر دیا ہے۔(٦)
٧۔(ولقد کرمنا بنی آدم و حملنا ھم فی البر و البحر و رزقناھم من الطیبات و فضلنا
..............
(١) جاثیة ١٣
(٢)مومن٦٤
(٣)زخرف١٠
(٤)رحمن١٠۔١٣
(٥)ملک١٥(٦)حج٦٥
ہم علیٰ کثیر ممن خلقنا تفضیلاً)
یقینا ہم نے بنی آدم کو مکرم بنایا اور انہیں خشکی اور دریا کی سیر کرائیاورپاکیزہ چیزوںسے انہیں رزق دیا اور انہیں بہت ساری مخلوقات پر فوقیت اور برتری دی۔(١)
٨۔ (اللہ الذی خلق السمٰوات الارض و انزل من السماء مائً فأَخرج بہ من الثمرات رزقاً لکم و سخر لکم الفلک لتجری فی البحر بأمرہ و سخر لکم الانھار٭ و سخر لکم الشمس و القمر دائبین و سخر لکم اللیل و النھار٭ و آتاکم من کل ما سألتموہ و ان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا ان الانسان لظلوم کفار۔)
وہ خدا جس نے آسمانوں اور زمینوں کو خلق کیا اورآسمان سے پانی برسایا اور اس سے تمہارے لئے میوے پیدا کئے ، نیز کشتیوںکو تمہارے لئے رام اور مسخرفرمایا: تاکہ دریائوں میں اس کے حکم سے حرکت کریں نہروں کو تمہارے اختیار میں دیا، سورج، چاند جو منظم نظام کے تحت رواں دواںہیں اور شب و روز کو تمہارے نفع میںتمہارا تابع بنایا نیز اس سے تم نے جو بھی سوال کیا تمہیں دیا؛ اگر نعمت خدا وندی کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے: یقیناً انسان، ستمگراور ناشکرا ہے ۔(٢)
٩۔ و علیٰ اللہ قصد السبیل و منھا جائر ولو شاء لھدٰاکم اجمعین ، ھو الذی انزل من السماء مائً لکم منہ شراب و منہ شجر فیہ تسیمون٭ ینبت لکم بہ الزرع و الزیتون و النخیل و الاعناب و من کل الثمرات ان فی ذلک لآیة لقومٍ یتفکرون٭ و سخر لکم اللیل و النھار و الشمس و القمر و النجوم مسخرات بِأَمرہ ان فی ذلک لآیاتٍ لقومٍ یعقلون٭ و ما ذَرَاَ لکم فی الارض مختلفاً الوانہ انا فی ذلک لآیة لقوم یذکرون٭و ھو الذی سخر البحر لتأکلوا منہ لحما طریّاً و تستخرجوا منہ حلیة تلبسونھا و تری الفلک مواخر فیہ و لتبتغوا من فضلہ و لعلکم تشکرون٭ و القی ٰ فی الارض رواسی ان تمید بکم و انھاراً و سبلاً لعلکم تھتدون٭ و علاماتٍ و بالنجم ھم یھتدون)
اور خدا کی ذمہ داری ہے کہ تہیں راہ راست دکھائے، لیکن بعض راستے کج بھی ہوتے ہیں! اگر خدا چاہے تو تم سب کی ہدایت کر دے ؛وہ ایسا ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا کہ جس کے ایک حصہ کو تم نوش
..............
(١)اسرائ٧٠
(٢)ابراہیم ٣٢تا ٣٤
کرتے ہو، نیز ایک حصہ سے نباتات اور درختوںکو اگایا تاکہ اس کے ذریعہ اپنے حیوانات کے چارہ کا انتظام کرو؛ خداوند عالم نے اس پانی سے تمہاری لئے کھیتی، زیتون، کھجور، انگور نیز تمام میوہ جات اُگائے یقینا اس کام میں صاحبان عقل کے لئے روشن نشانی ہے ،اس نے روز و شب، ماہ و خورشید کو تمہارے لئے مسخر کیا، نیز ستارے بھی اس کے حکم سے تمہارے لئے مسخر ہیں یقینا اس تدبیر میں اس گروہ کے لئے نشانیاں ہیں جو اپنی عقل کا استعمال کرتے ہیں اور گوناگوں ، رنگا رنگ مخلوقات کو زمین میں تمہارے فائدہ کے لئے پیدا کیا، اس خلقت میں روشن نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو عبرت حاصل کرتے ہیں، وہ ایسی ذات ہے جس نے دریا کو تمہارے لئے رام کیا تاکہ اس سے تازہ گوشت کھائو اور پہننے کے لئے زیورات نکالو، کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ دریا کے سینہ کو چاک کرتی ہے تاکہ خدا کے فضل و کرم سے استفادہ کرو اور شاید اس کا شکرا دا کرو، نیز زمین میںثابت اور محکم پہاڑ قرار دئیے تاکہ تمہیں زلزلہ سے محفوظ رکھے، نہریں اور راستے پیدا کئے تاکہ ہدایت حاصل کرو اور علامتیں قرار دیں اور لوگ ستاروں کے ذریعہ راستہ تلاش کرتے ہیں۔(١)
١٠۔ (و من ثمرات النخیل و الاعناب تتخذون منہ سکراً و رزقاً حسناً ان فی ذلک لآیة لقوم یعقلون)
کھجور اور انگور کے درختوں کے میووں سے، مسکرات( نشہ آور)عمدہ رزق اور پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو۔ اس میں صاحبان عقل کے لئے روشن نشانی ہے۔(٢)

کلمات کی تشریح
١۔ سخّر: رام اور خاضع بنایا تاکہ معین ہدف کے لئے استعمال کرے، مسخر، یعنی وہ چیز جو طاقت کے ذریعہ خاضع اور رام ہوئی ہو۔
٢۔ اکمام: ''کِمّ ''کی جمع ہے : درخت کے میوہ اور زراعت کے دانہ کا غلاف اور چھلکا۔
٣۔ حب: دانہ، لیکن ا س سے مراد ، جو ، گیہوں اور چاول ہے ۔
٤۔ عصف: سوکھا پتا، دانوں کا چھلکا اور گھاس.
٥۔ ریحان: خوشبو دار گھاس
..............
(١)نحل١٦۔ ٩.
(٢)نحل : ٦٧.
٦۔ آلائ: نعمتیں
٧۔ ذلول: سدھاہوا اور رام، سواری کا جانور جو سرکش ہونے کے بعد رام ہوا ہو۔
٨۔ مناکب: منکب کی جمع ہے ، انسان اور غیر انسان کے شانے اور بازو کا جوڑ ، مناکب زمین :
١۔ پہاڑوں کو کہا گیاہے ، اس لئے کہ وہ اونٹ کے شانوںکے مانند زیادہ نمایاں اور ابھرے ہوئے ہوتے ہیں۔
٢۔ نیز زمین کے اطراف و جوانب کو بھی کہا گیا ہے اس لئے کہ وہ اونٹ کے دو طرفہ پہلوئوں کی مانند ہوتے ہیں ۔
٩۔ دائبین: دائب کاتثنیہ، کام میں زیادہ اور ہمیشہ کوشش کرنے والے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، یعنی سورج، چاند ہمیشہ حرکت میں ہیں اور دنیا کی انتہا تک اسی طرح حرکت کرتے رہیں گے کبھی متوقف نہیں ہوں گے۔
١٠۔ تسیمون: چراتے ہو یا چرانے کے لئے چراگاہ لے جاتے ہو۔
١١۔ذرأ: ایجاد کیا،( یعنی جو پہلی بار ایجاد ہو) وسعت عطا کی۔
١٢۔ مواخر:ماخرة کی جمع ہے: دریا کے پانی کو چیرنے والی کشتی۔
١٣۔ تمیدبکم:تمہیں لرزا دیا، مید: شدید جھٹکے اور لرزش کو کہتے ہیں جیسے زمین کا زلزلہ ، یعنی پہاڑوں کو زمین میں ( بعنوان ستون) قرار دیا تاکہ اسے زلزلہ اور جھٹکے سے محفوظ رکھے۔

بحث کا نتیجہ
خدا وند عالم نے زمین اور اس کے داخل اور خارج پائی جانے والی موجودات جیسے دریائوں، جھیلوں ، درختوں، نباتات اور معادن ( کانیں) آسمان ،کہکشاں، چاند، سورج، ستارے غرض ساری چیزیں انسان کے لئے تخلیق کی ہیں، جیسا کہ خود فرماتا ہے :یعنی جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب کو اپنی طرف سے تمہارے لئے مسخر اورتمہارا تابع بنا دیا ہے ۔(١)
خدا وند عالم نے اس طرح کی مخلوقات کو ، ہدایت تسخیری کے ذریعہ اس طرح بنایا کہ اس نے اپنی ربوبیت کے اقتضا کے مطابق جو نظام معین فرمایا ہے اس کے اعتبار سے حرکت کریں، اس طرح کی ہدایت کو
..............
(١)جاثیہ : ١٣.
قرآن میں زیادہ تر لفظ ''سخر'' اور کبھی''جعل'' جیسے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ، جیسے :
(جعل الشمس ضیائً و القمر نوراً)
یعنی سورج کوضیا بخش اور چاند کو تابندہ بنایا۔

تیسرے۔ الہام غریزی کے ذریعہ حیوانات کی ہدایت
خدا وند عالم سورۂ نحل میں فرماتا ہے :
١۔( والانعام خلقھا لکم فیھا دفء و منافع و منھا تأکلون٭ ولکم فیھا جمال حین تریحون و حین تسرحون٭ و تحمل اثقالکم الیٰ بلد لم تکونوا بالغیہ الا بشق الأنفس ان ربکم لرؤ وف رحیم٭و الخیل و البغال و الحمیر لترکبوھا و زینة و یخلق ما لا تعلمون)
اوراس نے چوپایوں کو خلق کیا، اسمیں تمہارے لئے پوشش کا سامان اور دیگر منافع ہیں؛ نیزتم ان کا دودھ اور گوشت کھاتے ہو ، وہ تمہارے لئے زینت اور جمال کا باعث ہیں جب انہیں واپس لاتے ہو اورجب جنگل اور بیابانوں میں روانہ کرتے ہو : تو وہ سنگین اور وزنی بوجھ تمہارے لئے ان جگہوں تک لے جاتے اور اٹھاتے ہیں جہاں تک تم جان جونکھوں میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے، بیشک تمہارا خدا مہربان اور بخشنے والا ہے ۔ اوراس نے گھوڑے، خچر اور گدھے خلق کئے تاکہ ان پر سواری کرو اور تمہاری زینت کا سبب ہوں نیز کچھ چیزیںایسی پیدا کرتا ہے جس کو تم نہیں جانتے۔(١)
٢۔( و ان لکم فی الانعام لعبرة نسقیکم مما فی بطونہ من بین فرث و دم لبناً خالصاً سائغاً للشاربین)
یقیناچوپایوں میں تمہارے لئے عبرت ہے :جو کچھ ان کے شکم میں ہے چبائی ہوئی غذا( گوبر) اور خون کے درمیان خوشگواراور خالص دودھ ہے ہم اسے تمہیں پلاتے ہیں۔(٢)
٣۔(و أَوحیٰ ربک الیٰ النحل ان اتخذی من الجبال بیوتاً و من الشجر و مما یعرشون٭ ثم کلی من کل الثمرات فاسلکی سبل ربک ذللاً یخرج من بطونھا شراب مختلف الوانہ فیہ شفائً للناس ان فی ذلک لآیة لقوم یتفکرون)
..............
(١)نحل ٥۔٨
(٢)نحل٦٦
تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو وحی کی : پہاڑوں، درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں کہ جن پر لوگ چڑھتے ہیں، گھر بنائے، پھر اس کے تمام ثمرات کو کھائے اور نرمی کے ساتھ اپنے پروردگار کی سیدھی راہ کو طے کرلے۔ اس کے شکم سے رنگا رنگ قسم کا شربت نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے یقینا اس چیز میںروشن علامت اور نشانی ہے اس گروہ کے لئے جو غور و فکر کرتا ہے۔(١)
٤۔ (و اللہ خلق کل دابة من ماء فمنھم من یمشی علیٰ بطنہ و منھم من یمشی علیٰ رجلین و منھم من یمشی علیٰ أَربع یخلق اللہ ما یشاء ان اللہ علیٰ کل شیئٍ قدیر)
خدا وند عالم نے ہر چلنے والے جاندار کو پانی سے خلق فرمایا: ان میں سے بعض پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض اپنے دو پیروںپراور کچھ چار پیروں سے چلتے ہیں۔ خدا جو چاہے پیدا کرسکتا ہے اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔(٢)
٥۔(وما من دابة فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیہ الا اُمَم امثالکم ما فرطنا فی الکتاب من شیئٍ ثم الیٰ ربھم یحشرون)
اورکوئی زمین پر چلنے والا ایسا نہیں اور کوئی اپنے دو پروں کے سہارے اڑنے والا پرندہ ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ وہ بھی تمہاری جیسی ایک امت ہے۔ اس کتاب میں کوئی چیز فروگز اشت نہیںہوئی ہے ۔ پھر سارے کے سارے اپنے پروردگار کی طرف محشور کئے جائیں گے۔(٣)

کلمات کی تشریح
١۔ فرث :جو چیز معدہ کے اندر ہوتی ہے ۔
٢۔ حیوانات کو خدا کا وحی کرنا: جس سے ان کی زندگی اور امور کی درستگی وابستہ ہے اس کے انجام کے لئے الہام اور ہدایت غریزی کرنا اور کبھی زیادہ دقت اور ہوشمندی کے ساتھ ہوتی ہے، حیوانات کا فعل تقریبا ویسا ہی ہے جیسے کہ ایک تسخیر شدہ صنف انجام دیتی ہے ۔
٣۔ یعرشون:عرش کے ''مادہ'' سے ہے جس کے معنی چھت اور چھپر کے ہیںیعنی چھتوں کی بلندی کے اوپر بھی جہاں لوگ جاتے ہیں نیزگھر بنائو۔
٤۔ ذللاً: استوار اور ہموار
..............
(١)نحل٦٨۔٦٩
(٢)نور٤٥
(٣)انعام٣٨.

بحث کا نتیجہ
خدا وند عالم نے ان موجودات کے لئے جنہیں آسمان کے نیچے محدود فضا میں زیور تخلیق سے آراستہ کیا ہے ایسی موجودات جو موت، زندگی اور حیوانی نفس کی مالک ہیں لیکن عقل سے بے بہرہ ہیں فضا میں ہوںیا زمین میں؛ اس کے اندر ہوںیا دریائوں کی تہوںمیں؛ خدا وند عالم نے ان کی ہر ایک صنف اور نوع کے لئے ایک نظام بنایا ہے جو ان کی فطری تخلیق اور حیوانی زندگی سے تناسب رکھتا ہے؛ اور ہر نوع کو ایک ایسے غریزہ کے ذریعہ جو اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے الہام فرمایا ہے کہ زندگی میں اس نظام کے تحت حرکت کریں؛ وہ خود ہی اس طرح کی مخلوقات کی ہدایت کا طریقہ اور کیفیت جیسے شہد کی مکھی کی زندگی کے متعلق حکایت کرتے ہوئے بیان فرماتا ہے : تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو وحی کی کہ: پہاڑوں، درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں جہاں لوگ بلندی پر جاتے ہیں، گھربنائے، پھرہر طرح کے پھلوںسے کھائیاور اپنے پروردگار کی سیدھی راہ کو طے کرے اس کے شکم سے رنگ برنگ کا شربت نکلتاہے جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے یقینا اس میں روشن نشانیاں ہیں صاحبان عقل و ہوش کیلئے۔
معلو م ہو اکہ شہد کی مکھی اپنی مہارت اور چالاکی سے جو کام انجام دیتی ہے اور اسے حکیمانہ انداز اورصحیح طور سے بجالاتی ہے وہ ہمارے رب کے الہام کی وجہ سے ہے، یہ بیان اس طرح کے جانداروں کی ہدایت کا ایک نمونہ ہے جو اسی سورہ کی : ٨۔٥ آیات میںچوپایوں کی صنف ، ان کی حکمت آفرینش اور نظام زندگی اور وہ نفع جو ان میں پایا جاتا ہے ان سب کے بارے میںآیا ہے ؛ اور اوحیٰ ربک کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ جس پروردگار نے شہد کی مکھی کو ہدایت کی کہ معین شدہ نظام کے تحت جو اس کی فطرت کے موافق ہے زندگی گز ارے وہی ہمارا خدا ہے جس نے ہمارے لئے بھی ہماری فطرت سے ہم آہنگ نظام بنایا ہے ایسی فطرت کہ ہمیں حکیمانہ اور متقن انداز میں جس پر پیدا کیا۔
چوتھے۔ پیغمبروں کے ذریعہ انسان اور جن کی تعلیم.
سورہ ٔ اعلی کی آیات (خلق فسوی و قدر فھدی)میں انسان اور جن خدا وند عالم کے کلام کے مصداق ہیں۔
پہلے ۔ انسان: خدا وند عالم نے انسان کو خلق کیا اور اس کے لئے نظام حیات معین فرمایا: نیز اس کی ذات میں نفسانی خواہشات ودیعت فرمائیں کہ دل کی خواہشکے اعتبار سے رفتار کرے نیز اسے امتیاز اور تمیز دینے والی عقل عطا کی تاکہ اس کے ذریعہ سے اپنا نفع اور نقصان پہچانے اور اسے ہدایت پذیری کے لئے دو طرح سے آمادہ کرے ۔
١۔ زبان سے گفتگو کے ذریعہ، اس لئے کہ بات کرنے اور ایک دوسرے سے تفاہم کا طریقہ خود خدا نے انسان کو الہام فرمایا ہے : (خلق الانسان، علمہ البیان)انسان کو خلق کیا اور اسے بات کرنے کا طریقہ سکھایا۔(١)
٢۔ پڑھنے ، لکھنے اور افکار منتقل کرنے کے ذریعہ ایک انسان سے دوسرے انسان تک اور ایک نسل سے دوسری نسل تک جیسا کہ ارشاد ہوا:
(اقرأ و ربّک الأکرم٭ الذی علّم بالقلم٭ علم الانسان ما لم یعلم)
پڑھو کہ تمہار ارب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم دیا، جو کچھ انسان نہیں جانتا تھا اسے سکھایا۔(٢)
خداوند متعال نے اسی کے بعد انسان کے لئے اس کی انسانی فطرت کے مطابق نظام زندگی اور قانون حیات معین فرمایا ہے :
جیسا کہ ارشاد ہوا:
(فَأَقِم وجھک للدین حنیفاً فطرة َاللہ التی فطر الناس علیھا)
اپنے رخ کو پروردگار کے محکم اور ثابت آئین(دین اسلام ) کی طرف رکھو اور باطل سے کنارہ کش رہو کہ یہ دین خدا کی وہ فطرت جس پر خدا نے لوگوں کو خلق کیاہے ۔(٣)
خدا وند عالم نے پیغمبروں پر وحی نازل کر کے انسانوںکو اس دین کی طرف جو اس کی فطرت سے سازگار اور تناسب رکھتا ہے ہدایت کی؛ جیسا کہ فرمایا:
١۔(انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوحٍ و النبین من بعدہ...)
ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی کی جس طرح نوح اور ان کے بعد دیگر انبیاء کی طرف وحی کی ہے ...(٤)
٢۔ (شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحاً والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین...)
..............
(١)رحمن٣۔٤
(٢)علق٣۔٤
(٣)روم٣٠
(٤)نسائ١٦٣
تمہارے لئے اس دین کی تشریع کی کہ جس کی نوح کو وصیت کی تھی اور جو تم پر وحی نازل کی اورہم نے ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو جس کی وصیت کی یہ ہے کہ دین قائم کرو...۔(١)
خدا وند عالم نے اس دین کو جسے پیغمبروں پر نازل کیا ہے اس کا اسلام نام رکھا جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
(ان الدین عند اللہ الاسلام) خدا کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔(٢)
دوسرے ۔ جن: خدا نے جن کو پیدا کیا اور انسان ہی کی طرح ان کی زندگی بھی بنائی کیونکہ ان کی سرشت میں بھی نفسانی خواہشات کا وجود ہے کہ نفسانی خواہشات کے مطابق رفتار کرتے ہیںاور عقل کے ذریعہ اپنے نفع اور نقصان کو درک کرتے ہیں ، مانندابلیس جو کہ جنوں میں سے تھا، اس کے بارے میں ہمیں آگاہ کیا ہے اور فرمایاہے:
(و اِذ قلنا للملائکة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربہ...)
جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کا سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا ،وہ جنوں میں سے تھا اورحکم پروردگار سے خارج ہو گیا؛ خدا وند عالم نے سورۂ اعراف میں ابلیس کی داستان بسط و تفصیل سے بیان کی ہے ۔(٣)
(ولقد خلقناکم ثم صورناکم ثم قلنا للملائکة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابلیس لم یکن من الساجدین٭ قال ما منعک الا تسجد اذ امرتک قال انا خیر منہ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین٭ قال فاھبط منھا فما یکون لک ان تتکبر فیھا فاخرج انک من الصاغرین٭ قال انظرنی الیٰ یوم یبعثون٭ قال انک من المنظرین٭ قال فبما أغویتنی لأقعدن لھم صراطک المستقیم٭ ثم لآتینھم من بین ایدیھم و من خلفھم و عن أیمانھم و عن شمائلہم و لا تجد اکثرھم شاکرین٭ قال اخرج منھا مذئوما مدحورا لمن تبعک منھم لأملئن جھنم منکم اجمعین)
اورہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر شکل و صورت بنائی، اس کے بعد فرشتوں سے کہا: ''آدم کا سجدہ کرو'' تو ان سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے کہ وہ سجدہ کرنے والوںمیں سے نہیں تھا؛ خدا وند عالم نے اس سے فرمایا: جب میں نے حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے روک دیا؟ کہا: میں اس سے بہتر ہوں ؛ تونے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے خلق کیا ہے فرمایا: تو اس جگہ سے نیچے اتر جاتجھے حق نہیں ہے کہ اس جگہ تکبر سے کام لے نکل جا ؛اس لئے کہ تو پست اور فرومایہ شخص ہے ! ابلیس نے کہا: مجھے روز قیامت تک کی مہلت
..............
(١)شوری١٣
(٢)ال عمران١٩
(٣)کہف٥٠
دیدے، فرمایا مہلت دی گئی! تو بولا:اب جو تونے مجھے گمراہ کر دیا ہے میں تیرے راستہ میں ان کے لئے گھات لگا کر بیٹھوں گا پھر آگے سے ، پیچھے سے ،دائیں سے، بائیں سے، ان کا پیچھا کروں گااور تو ان میںسے اکثر کوشکر گز ار نہیں پائے گا۔
فرمایا:اس منزل سے ننگ و خواری کے ساتھ نکل جا، قسم ہے کہ جو بھی ان میں سے تیری پیروی کرے گا جہنم کو تم لوگوں سے بھردوں گا۔(١)
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خدا وند عزیز و جبار کی سرکش اور طاغی جنیمخلوق میں دیگر موجودات سے کہیں زیادہ قوی ہوائے نفس پائی جاتی ہے۔
خدا وند عالم نے سورۂ جن میں تمام جنات میں ہوای نفس کے وجود کی خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے : کہ جنات ہوائے نفس کی پیروی میں اس درجہ آگے بڑھ گئے کہ فرشتوں کی باتیں چرانے کے لئے گھات میں لگ گئے۔ اور اس رویہ سے باز نہیں آئے یہاں تک کہ خاتم الانبیاء مبعوث ہوئے اور خدا وند عالم نے جلادینے والے شہاب کا انہیں نشانہ بنایا، روایت ہے کہ وہ لوگ فرشتوں کی باتیں سنکر کاہنوں کے پاس آکر بتاتے تھے اور بربنائے ظلم و ستم اور انحراف و گمراہی آدمیوں کی اذیت اور آزار کے لئے جھوٹ کا بھی اضافہ کردیتے تھے۔
خدا وند عالم نے سورۂ جن میں اس رفتار کی بھی خبر دی ہے اور فرمایا ہے: (فزادوھم رھقاً) یعنی جناتوں نے آدمیوں کی گمراہی میں اضافہ کر دیا. اور یہ کہ جنات خواہشات نفس کی پیروی کرنے میں آدمیوںکی طرح ہیں اور ان کے درمیان مسلمان اور غیر مسلمان سبھی پائے جاتے ہیں اس کی بھی خبر دی ہے ۔
سورۂ احقاف میں مذکور ہے : جب پیغمبر اکرمۖ قرآن کی تلاوت کررہے تھے توجنات کے ایک گروہ نے حاضر ہوکراسے سنا اور اپنی قوم کی طرف واپس آکر انہیں ڈرایا اور کہا: خدا وند عالم نے موسیٰ کے بعد قرآن نامی کتاب بھیجی ہے اور ان سے ایمان لانے کی درخواست کی ،اسی طرح سورۂ جن میں معاد کے سلسلے میں بعض جنات کا بعض آدمیوں سے نظریہ یکساںملتا ہے کہ ان کا خدا کے بارے میں یہ خیا ل ہے کہ : خدا کبھی کسی کو قیامت کے دن مبعوث نہیں کرے گا۔
گز شتہ مطالب سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جنوں میں بھی انسانوں کی طرح عقلی سوجھ بوجھ اور کامل ادراک پایا جاتا ہے اور وہ لوگ انسانوں کی باتیں سمجھتے ہیں اور اسے سیکھنے میں گفتگو کرنے میں بھی انسان کے ساتھ
..............
(١)اعراف١١۔١٨
شریک ہیں، یہ موضوع سورۂ نمل کی ١٧ میں اور ٣٩ویں آیت میں سلیمان کی ان سے گفتگو کے سلسلہ میںمحسوس کرتے ہیں۔
اسی طرح یہ دونوں صنف نفسانی حالات میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہیںجس طرح رفتار وعمل کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں؛ خدا وند عالم نے سورۂ سبا میں فرمایا:
(یعملون لہ ما یشاء من محاریب و تماثیل و جفان کالجواب و قدور راسیات)
جنات جناب سلیمان کے لئے جو چاہتے تھے انجام دیتے تھے اور محراب، مجسمے، بڑے بڑے کھانے کے برتن اور دیگیںبناتے تھے۔ (١)
اور سورہ ٔ انبیاء میں فرماتا ہے :
(ومن الشیاطین من یغوصون لہ و یعملون عملا دون ذلک)
بعض شیاطین ( جنات )جناب سلیمان کے لئے غوطہ لگاتے تھے اور اس کے علاوہ بھی کام کرتے تھے۔(٢)
خدا وند عالم نے ان دو گروہ جن و انس کی اسلام کی طرف ہدایت اوررہنمائی کے لئے انبیاء بھیجے بشارت، انذار اور تعلیم دینے میں دونوں کومساوی رکھاتاکہ خدائے واحد و یکتا پر ایمان لائیں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں اس کے اور پیغمبروں، فرشتوں، قیامت، مشاہد اور مواقف پر ایمان لائیں۔
اسلامی احکام ، جو کچھ اجتماعی آداب سے متعلق ہیں جیسے : ناتواںکی مدد کرنا ، ضرورتمندوں اور مومنین کی نصرت کرنا اور دوسروں کو اذیت دینا اور ان کے مانند دوسری باتیں ،ان میں دونوں گروہ مشترک ہیں ،لیکن عبادات جیسے : نماز،روزہ، حج اور ان کے مانند جنوں سے مربوط دیگر احکام ضروری ہے کہ وہ جنوں کے حالات سے موافقت اور تناسب رکھتے ہوںجس طرح آدمی ایک دوسرے کی نسبت احکام میں اختلاف رکھتے ہیں جیسے مرد و عورت کے مخصوص احکام یا مریض و سالم ، مسافر اور غیر مسافر وغیرہ کے احکام۔

مباحث کا نتیجہ
خدا وند عالم نے فرشتوںکو خلق کیا تاکہ اس کی ''ربوبیت'' اور ''الوہیت'' کے محافظ و پاسدارہوں جیسا کہ
..............
(١)سبا١٣
(٢)انبیائ٨٢
خود ہی گز شتہ آیات میں نیز ان آیات میں جس میں فرشتوں (١)کا ذکر ہوا ہے اس کے بارے میں خبر دی ہے اسی غرض کے پیش نظر انہیں تمام لوگوں سے پہلے زیور تخلیق سے آراستہ کیا؛ وہ اس وقت حاملان عرش (٢)تھے جب عرش الٰہی پانی پرتھا، جیسا کہ سورۂ ہود میں فرمایا ہے:
(وھوالذی خلق السمٰوات والارض فی ستة ایام وکان عرشہ علٰی المائ...)(٣)
اوروہ خدا وہ ہے جس نے آسمان اور زمین کو چھ دن میں خلق کیاجب کہ اس کاعرش پانی پر ٹھہرا ہوا تھا۔
اور نیز خدا وند عالم نے آسمان کو اس کے داخلی اور خارجی اشیاء سمیت خلق کیا: جن فرشتوں کو ہم جانتے ہیں اورجن کو ہم نہیں جانتے اور جو کچھ آسمانوںکے نیچے ہے جیسے کہکشائیں ،ستارے ، چاند اور سورج وغیرہ کہ جن کو ہم جانتے ہیں اور ان میں سے بہت سی چیزوں کو ہم نہیں جانتے اور زمین جو کچھ اس کے اوپر اور جو کچھ اس کے اندر ہے جیسے پانی ، نباتات ، جمادات ، ( معادن ) وغیرہ جو کہ زندگی کیلئے مفید ہیں اور جو کچھ آسمانوں اور زمین کے درمیان ہے جیسے گیس وغیرہ جو ہم پہچانتے ہیں اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو نہیں پہچانتے یہ تمام چیزیںوہی ہیںجوان تینوں انسان، حیوان اور جن کی ضروریات زندگی میں شامل ہیں حیوانوں کو جن و انس سے پہلے اس لئے پیداکیا کہ انسان اور جن اس کی احتیاج رکھتے ہیں اور جنات کو انسان سے پہلے پیدا کیا جیسا کہ خود ہی حضرت آدم کی خلقت سے متعلق داستان میں ارشاد فرماتا ہے :
حضرت آدم کی خلقت کے بعدتمام ملائکہ کو ''کہ ابلیس بھی انہیں میں سے تھا ''حکم دیا کہ آدم کا سجدہ کریں پھر انسان کو تمام اصناف مخلوقات کے بعد پیدا کیا۔
یہ خدا وند عالم کی چہار گانہ اصناف مخلوقات کی داستان تھی کہ جس کا قرآن کریم کی آیات اور روایات سے بمقتضائے ترتیب ہم نے استنباط کیا، لیکن ان کی ہدایت کی قسمیں اس ترتیب سے ہیں:
جب خدا ''رب العالمین'' نے فرشتوں، جن و انس کو عقل و ادراک بخشا تو ان کی ہدایت بھی دو
طرح سے قرار دی، تعلیم بالواسطہ، تعلیم بلا واسطہ جیسا کہ فرشتوں کی زبانی حضرت آدم کی تخلیق کے بارے میں حکایت کرتا ہے(سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا) تو پاک و پاکیزہ ہے ہم تو تیرے دئے ہوئے علم کے علاوہ کچھ جانتے ہی نہیں ہیں؛ اور صنف انسان کے بارے میں فرمایا: ( علم آدم الاسمائ
..............
(١)معجم المفہرس قرآن، میں مادہ''ملک''ملاحظہ ہو۔
(٢)عرش سے مراد وہ جگہ و مقام ہے جہاں پر الوہیت اور ربوبیت سے مربوط امور پر مامور خدا کے فرشتہ رہا کرتے تھے کہ جو، پانی کے اوپر زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے رہتے تھے ۔
(٣)ھود٧
کلہا).خدا نے تمام اسماء ( اسرارخلقت ) آدم کو تعلیم دئے اور فرمایا:(علم الانسان ما لم یعلم)جو انسان نہیں جانتا تھا اسے تعلیم دی۔ اور جنوںکی داستان میں جو کہ خود انہیں کی بیان کردہ ہے اس طرح ہے کہ ان لوگوں نے قرآن سیکھا اور اس سے ہدایت یافتہ ہو گئے ایسااس وقت ہوا جب رسول خدا سے قرآن کریم کی تلاوت سنی ۔
چونکہ خدا وند سبحان نے صنف حیوان اور زمین پر چلنے والوں کو تھوڑا سا شعور و ادراک بخشا ہے لہٰذا ان میں سے ہر ایک کی ہدایت الہام غریزی کے تحت ہے اور چونکہ ان کے علاوہ تمام مخلوقات جیسے ستارے، سیارے، جمادات، حتی کہ ایٹم (e Atom) وغیرہ کہ ان کوشمہ بھربھی حیات اور ادراک نہیں دیا ہے لہٰذاان کی ہدایت ، ہدایت تسخیری ہے، جیسا کہ تفصیل سے قرآن کریم میں بیان کیا ہے ۔
انسان کی ہدایت کے لئے جو نظام خدا نے بنایا ہے اس کا نام اسلام رکھا ہے اور ہم انشاء اللہ آئندہ بحثوں میں اس کی تحقیق کریں گے۔