نام کتاب : اسلام کے عقائد(پہلی جلد )
 
٤
ربوبیت کی بحثیں
١۔ رب اور پروردگار
٢۔ رب العالمین کون ہے ؟
٣۔ مخلوقات کے بارے میںرب العالمین کی اقسام ہدایت

١۔رب
اسلامی اصطلاحوں میں سب سے اہم ''رب'' کی اصطلاح ہے کہ اس کے روشن و واضح معنی کا ادراک ہمارے ئے آئندہ مباحث میں ضروری و لازم ہے ؛ جس طرح قرآن کریم کی بہت ساری آیات کا کلی طور پر سمجھنا نیز خدا وند عزیز کی خصوصی طور پر معرفت و شناخت اس لفظ کے صحیح سمجھنے اور واضح کرنے سے وابستہ ہے نیز پیغمبر، وحی ، امام، روز قیامت کی شناخت اور موحد کی مشرک سے پہچان اسی کے سمجھنے ہی پر موقوف ہیلہٰذا ہم ابتد ا میں اس کے لغوی معنی اس کے بعد اصطلاحی معنی کی تحقیق کریں گے :

الف۔ لغت عرب میں رب کے معنی
''رب'' زبان عربی میں مربی اور تدبیر کرنے والے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ، نیز مالک اور صاحب اختیار کے معنی میںبھی استعمال ہوا ہے ۔''رب البیت'' یعنی گھر کا مالک اور ''رب الضیعة؛ یعنی مدبر اموال ،پراپرٹی کا مالک اور ''رب الفرس'' یعنی گھوڑے کو تربیت کرنے والا یا اس کامالک۔

ب۔ اسلامی اصطلاح میں رب کے معنی
''رب'' اسلامی اصطلاح میں خدا وند عالم کے اسمائے حسنی میں شمار ہوتا ہے ، نیز رب نام ہے مخلوقات کے خالق اور مالک ، نظام حیات کے بانی اور اس کے مربی کا ،حیات کے ہر مرحلہ میں، تاکہ ہر ایک اپنے کمال وجودی تک پہنچ سکے ۔(١)
''رب'' قرآن کریم میںکہیں کہیں لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے اور ہم اس معنی کو قرینہ کی مدد سے جو دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد رب کے لغوی معنی ہیں سمجھتے ہیں، جیسے حضرت یوسف کی گفتگو اپنے قیدی
..............
(١)راغب اصفہانی نے کلمہ ''رب'' کے لغوی اور اصطلاحی معنی کو خلط و ملط کردیا ہے اور ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا ہے ،کیونکہ مربی شۓ تمام مراحل کے طے کرنے میں درجہ ٔ کمال تک پہنچنے تک یہ معنی خاص طور پر اسلامی اصطلاح میں ہیں جبکہ راغب نے اس کو تمام معنی میں ذکر کیا ہے ۔
ساتھیوں سے کہ ان سے فرمایا:
١۔(أ أرباب متفرقون خیرأَم اللہ الواحد القہار)(١)
آیا چند گانہ مالک بہتر ہیں یا خدا وند عالم واحد و قہار؟
٢۔(وقال للذی ظن انہ ناجٍ منھما اذکرنی عند ربک) (٢)
جسکی رہائی اور آزاد ہونے کا گمان تھا اس سے کہا: میرا ذکر اپنے مالک کے پاس کرنا۔
جہاں پر''رب'' مطلق استعمال ہوا ہے اور کسی چیز کی طرف منسوب نہیں ہوا ہے وہاں مراد خداوندمتعال ہی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے :
(بلدة طیبة ورب غفور)(٣)
''پاک و پاکیزہ سر زمین اور غفور پروردگار''
جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس کی بنا پر ''رب'' لغت عرب اور اسلامی اصطلاح میں مالک اور مربی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اس کے علاوہ اسلامی اصطلاح میں نظام حیات کے مؤسس اور بانی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے جو زندگی کے تمام مراحل میں درجہ کمال(٤) تک پہنچے کے لئے پرورش کرتا ہے اور اسی کے ساتھ مربی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ، اس اضافہ کی صورت میں کامل مربی کے معنی میںاستعمال ہوا ہے یعنی اصطلاحی ''رب' ' کے دو معنی ہوئے یا اس کے معنی دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔
راغب اصفہانی مادۂ ''قرئ'' کے ذیل میں فرماتے ہیں:
کوئی اسم بھی اگر ایک ساتھ دو معنی کے لئے وضع کیا جائے تو جب بھی تنہا استعمال ہوگا دونوں ہی معنی مراد ہوں گے ، جیسے ''مائدہ'' جو کہ کھانے اور دستر خوان دونوں ہی کے لئے ایک ساتھ وضع ہوا ہے لیکن تنہا تنہا بھی ہر ایک کو ''مائدہ'' کہتے ہیں۔
''رب'' کے معنی لغت عرب میں بھی اسی قسم کے ہیں، کبھی مالک تو کبھی مربی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اسلامی اصطلاح میں کبھی تربیت کرنے والے مالک اور کبھی ا س کے بعض حصہ کے معنی میں استعمال
..............
(١)یوسف ٣٩
(٢) یوسف ٤٢.
(٣)سبا١٥
(٤) کلمۂ '' رب '' کلمہ ٔ '' صلاة '' کے مانند ہے کہ جو لغت عرب میں ہر طرح کے دعا کے معنی میں ہے اور شریعت اسلام میں مشہور اور رائج '' نماز '' کے معنی میں ہے .
ہوا ہے یعنی نظام زندگی کے بانی اور اس کا قانون بنانے والے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، جیسے خداوندعالم کا کلام کہ فرمایا:
(اتخذوا احبارھم و رھبانھم ارباباً من دون اللہ) (١)
(یہود و نصاریٰ نے) اپنے دانشوروں اور راہبوںکو خدا کے مقابل قانون گز ار بنا لیا ۔
..............
(١)توبہ ٣١

٢۔ رب العالمین اور اقسام ہدایت

مقدمہ:
''رب العالمین'' کی بحث درج ذیل اقسام میں تقسیم ہوتی ہے۔
الف۔ ''رب العالمین'' کے معنی اور اس کی توضیح و تشریح۔
ب۔ اس کا خدا وند جلیل میں منحصر ہونا۔
ج۔ رب العالمین کی طرف سے ہدایت کی چہار گانہ انواع کا بیان درج ذیل ہے :
١۔ فرشتوں کی ہدایت جو موت ، زندگی، عقل اور ارادہ رکھتے ہیں، لیکن نفس امارہ بالسوء نہیں رکھتے ان کی ہدایت بلا واسطہ خدا وند عالم کی تعلیم سے ہوتی ہے ۔
٢۔ انسان و جن کی ہدایت جو موت، زندگی، عقل و ارادہ کے ساتھ ساتھ نفس امارہ بالسوء بھی رکھتے ہیں ان کی ہدایت پیغمبروں کی تعلیم اور انذار کے ذریعہ ہوتی ہے ۔
٣۔موت و زندگی کے حامل حیوانات جو عقل اور نفس امارہ بالسوء نہیں رکھتے ان کی ہدایت الہام غریزی کے تحت ہوتی ہے ۔
٤۔ بے جان اور بے ارادہ، موجودات کی ہدایت، تسخیر ی ہے ۔

الف:۔قرآن کریم میں رب العالمین کے معنی
خدا وند متعال نے فرمایا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
١۔(سبح اسم ربک الاعلیٰ٭الذی خلق فسوی٭ و الذی قدر فھدی٭ و الذی اخرج المرعیٰ٭فجعلہ غثاء اَحوی)
خدا وند مہربان و رحیم کے نام سے
اپنے بلند مرتبہ خدا کے نام کو منزہ شمار کرو جس خدا نے منظم طریقہ سے خلق کیا وہی جس نے اندازہ گیری کی اور ہدایت کی وہ جس نے چراگاہ کو وجود بخشا پھر اسے خشک اور سیاہ کردیا۔(١)
٢۔ (ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقہ ثم ھدی)
ہمارا خدا وہی ہے جس نے ہر چیز کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا اور اس کے بعد ہدایت فرمائی۔(٢)
٣۔ (خلق کل شیء فقدرہ تقدیرا)
اس نے ساری چیزوں کو خلق کیا اور نہایت دقت و خوض کیساتھ اندازہ گیری کی۔(٣)
٤۔(وعلّم آدم الاسماء کلھا ثم عرضھم علیٰ الملائکة فقال انبئونی باسماء ھٰؤلاء ان کنتم صادقین٭ قالوا سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم )
اسرار آفرینش کے تمام اسما ء کا علم آدم کو سکھایا پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر سچے ہو تو ان کے اسماء مجھے بتائو!
فرشتوں نے کہا: تو پاک و پاکیزہ ہے! ہم تیری تعلیم کے علاوہ کچھ نہیں جانتے؛ تو دانا اور حکیم ہے۔(٤)
٥۔(شرع لکم من الدین ما وصیٰ بہ نوحاً و الذی اوحینا الیک و ما وصینا بہ ابراھیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ...)
اس نے تمہارے لئے ایک آئین اور نظام کی تشریع کی جس کی نوح کو وصیت کی تھی اور جو کچھ تم پر وحی کی ہے اور ابراہیم موسیٰ، عیسیٰ کو جس کی سفارش کی ہے وہ یہ ہے کہ دین قائم کرو اور اس میں تفرقہ اندازی نہ کرو۔(٥)
٦۔(انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوحٍ و النبیین من بعدہ و اوحینا الیٰ ابراہیم و اسماعیل و اسحق و یعقوب و الاسباط و عیسیٰ و اَیوب و یونس و ھارون و سلیمان و آتینا داود زبوراً و رسلاً قد قصصنا ھم علیک من قبل و رسلاً لم نقصصہم علیک وکلم اللہ موسیٰ
..............
(١)اعلیٰ ١۔٥
(٢)طہ٥٠
(٣) فرقان ٢
(٤)بقرہ٣١۔٣٢
(٥)شوریٰ١٣
تکلیماً ٭ رسلاً مبشرین و منذرین... )
ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی کی جس طرح نوح اور ان کے بعدکے انبیاء کی طرف وحی کی تھی اور ابراہیم ، اسماعیل، اسحق، یعقوب، اسباط، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف وحی کی ہے اور داؤد کو ہم نے زبور دی ،کچھ رسول ہیں جن کی سر گز شت اس سے قبل ہم نے تمھارے لئے بیان کی ہے ؛ نیزکچھ رسول ایسے بھی جن کی داستان ہم نے بیان نہیں کی ہے ؛ خدا وند عالم نے موسیٰ سے بات کی ، یہ تمام رسول ڈرانے والے اور بشارت دینے والے تھے...(١)
٧۔(نزل علیک الکتاب بالحق مصدقاً لما بین یدیہ و انزل التوراة والأِنجیل من قبل ھدیً للناس...)
اس نے تم پر کتاب ،حق کے ساتھ نازل کی، جو گز شتہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ا س سے پہلے توریت اور انجیل لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل کی۔(٢)
٨۔(وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون)
میںنے جن و انس کوصرف اپنی بندگی اور عبادت کے لئے خلق کیا۔(٣)
٩۔(یا معشر الجن و الانس اَلم یأتکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی و ینذرونکم لقاء یومکم ھذا قالوا شہدنا علیٰ انفسنا و غرتھم الحیوٰة الدنیا و شھدوا علیٰ انفسھم انھم کانوا کافرین )
اے گروہ جن و انس! کیا تمہارے پاس تم میں سے کوئی رسول نہیں آئے کہ ہماری آیتوں کو تمہارے لئے بیان کرتے اور تمہیں ایسے دن کی ملاقات سے ڈراتے؟!
ان لوگوں نے کہا : (ہاں) ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں؛ اور انہیں زندگانی دنیا نے دھوکہ دیا: اور اپنے نقصان میں گواہی دیتے ہیں اسلئے کہ وہ کافر تھے!(٤)
١٠۔(و اذ صرفنا الیک نفراً من الجن یستمعون القرآن فلما حضروہ قالوا انصتوا فلما قضی ولوا الیٰ قومھم منذرین٭قالوا یاقومنا انا سمعنا کتاباً انزل من بعد موسیٰ مصدقاً لما بین یدیہ یھدی الیٰ الحق و الیٰ طریق مستقیم ٭یا قومنا اجیبوا داعی اللہ و آمنوا بہ یغفرلکم
..............
(١)نسائ١٦٣۔١٦٥
(٢)آل عمران٣۔٤
(٣)ذاریات ٥٦
(٢)انعام١٣٠
من ذنوبکم و یجرکم من عذاب الیم٭و من لا یجب داعی اللہ فلیس بمعجزٍ فی الارض و لیس لہ من دونہ أَولیاء اولئک فی ضلالٍ مبین )۔
اور جب ہم نے جن کے ایک گروہ کو تمہاری طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن مبین کو سنیں؛ جب سب ایک جگہ ہوئے تو ایک دوسرے سے کہنے لگے: خاموش ر ہو! اور جب تلاوت تمام ہوگئی تو اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور انہیں ڈرایا! اور کہا: اے میری قوم! ہم نے ایک ایسی کتاب کی تلاوت سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے اور گز شتہ کتابوں کی تصدیق بھی کرتی ہے اور راہ راست اور حق کی ہدایت کرتی ہے ؛ اے میری قوم !اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہو اور اس پر ایمان لائو تاکہ وہ تمہارے گناہوںکو بخش دے اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے!اورجو اللہ کی طرف دعوت دینے والے کا جواب نہیں دے گا، وہ کبھی زمین میں عذاب الٰہی سے بچ نہیں سکتا اور اس کیلئے خدا کے علاوہ کوئی یا رو مددگاربھی نہیں ہے ، یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔(١)
١١۔(قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن فقالوا انا سمعنا قرآنا عجباً، یھدی الیٰ الرشد فامنا بہ ولن نشرک بربنا احدا٭ و انہ تعالیٰ جد ربنا ما اتخذ صاحبةً و ولا ولداً٭ و انہ کان یقول سفیھنا علیٰ اللہ شططاً٭ وانا ظننا ان لن تقول الانس و الجن علیٰ اللہ کذبا٭و انہ کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوھم رھقا٭ و انھم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث اللہ احدا٭ و انا لمسنا السماء فوجدنا ھا ملئت حرساً شدیداً و شھباً٭و انا کنا نقعد منھا مقاعد للسمع فمن یستمع الآن یجد لہ شھاباً رصدا و انا لا ندری اشر ارید بمن فی الارض ام ارادبھم ربھم رشداً٭ وانا منا الصالحون و منا دون ذلک کنا طرائق قددا٭ و انا ظننا ان لن نعجز اللہ فی الارض و لن نعجزہ ھرباً٭ و انا لما سمعنا الھدی آمنا بہ فمن یومن بربہ فلا یخاف بخساً ولا رھقا٭ وانا منا المسلمون ومنا القاسطون فمن اسلم فاُولٰئک تحروا رشداً٭ و اما القاسطون فکانوا لجھنم حطباً٭ و ان لو استقاموا علیٰ الطریقة لاسقیناھم مائً غدقاً٭ لنفتنھم فیہ و من یعرض عن ذکر ربہ یسلکہ عذاباً صعداً)
کہو!میری طرف وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنوں نے میری باتوں پر توجہ دی اور بولے : ہم نے ایک عجیب
..............
(١)احقاف ٢٩۔٣٢
قرآن سناہے جو راہ راست کی ہدایت کرتا ہے ، تو ہم اس پر ایمان لائے اور کبھی کسی کو اپنے پروردگار کا شریک قرار نہیں دیں گے یقینا ہمارے پروردگار کی شان بہت بلند ہے اور اس نے کبھی کوئی فرزند اور بیوی منتخب نہیں کیا ہے اور یہ ہمارا سفیہ ( ابلیس) تھا جس نے خدا کے بارے میں ناروا اور غیر مناسب باتیں کی ہیں! اور ہم گمان کرتے تھے کہ جن و انس کبھی خدا کی طرف جھوٹی نسبت نہیں دیتے! اور اب یہ حال ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگتے ہیں ؛لیکن ان لوگوں نے اپنی گمراہی اور ضلالت میں اضافہ ہی کیا! اور ان لوگوں نے تمہاری طرح یہ گمان کیا ہے کہ خدا کبھی کسی کودوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔
ہم نے آسمانوں کی تلاشی لی، تو سب کو قوی ہیکل محافظوں اور نگہبانوں سے پر اور شہابی تیروں سے چھلکتا ہوا پایا! ہم اس سے پہلے چوری چھپے باتیں سننے کے لئے آسمانوں پر کمین کر کے بیٹھ جاتے تھے: لیکن اب یہ ہے کہ اگر کوئی چوری چھپے سننا چاہے تو ایک شہاب اس کے گھات میں لگا رہتا ہے ۔
ہم نہیںجانتے کہ آیا اہل زمین کے بارے میں کسی برائی کا ارادہ ہوا ہے یا ان کے پروردگار کا ارادہ ہے کہ ان کی ہدایت کرے؟!
ہمارے درمیان صالح اور غیر صالح دونوں طرح کے لوگ موجودہیں اور ہم مختلف گروہ ہیں! نیز ہمیں یقین ہے کہ ہم زمین پر کبھی ارادہ الٰہی پر غالب نہیں آسکتے اور کبھی اس کے قبضہ قدرت سے فرار نہیں کر سکتے!
جب ہم نے قرآن کی ہدایت سنی تو ہم اس پر ایمان لائے؛ اور جو بھی اپنے پروردگار پر ایمان لائے وہ ظلم و نقصان سے خوفزدہ نہیں ہوگا!
اور یہ بھی ہے کہ ہم میں سے بعض گروہ مسلمان ہیں تو بعض ظالم، لہٰذاجو بھی اسلام قبول کرے گویا راہِ رشد وہدایت کا مالک ہوگیا لیکن ظالمین دوزخ کا ایندھن ہیں!
اور اگر وہ لوگ( جن و انس) اسلام کی راہ میں اپنی ثبات قدمی اور پائداری کا ثبوت دیں تو کثیر پانی سے ہم انہیں سیراب کریں گے اس غرض سے کہ انہیں ہم آزمائیں اور جو یاد الٰہی سے غافل ہو جائے اسے وہ شدید اور وحشتناک عذاب میں مبتلا کرے گا۔(١)
١٢۔( اوحیٰ ربک الیٰ النحل ان اتخذی من الجبال بیوتاً و من الشجر ومما
..............
(١) جن ١۔١٧
یعرشون٭ ثم کلی من کل الثمراتِ فاسلکی سبل ربک ذللاً یخرج من بطونھا شراب مختلف الوانہ فیہ شفاء للناس ان فی ذالک لآیة لقوم یتفکرون)
تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کو وحی کی (بعنوان الہام غریزی) کہ پہاڑوں، درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں اپنے گھر کو بنائے پھر تمام پھلوں کو کھائے اور جن راستوںکو تمہارے پروردگار نے معین کیا ہے نہایت متانت اور نرمی سے طے کرے اس کے اندرسے مختلف قسم کے شربت نکلتے ہیںجس میں لوگوںکیلئے شفاء ہے ؛ یقینا اس چیز میں صاحبان عقل و ہوش کے لئے کھلی ہوئی نشانی ہے ۔(١)
١٣۔(ان ربکم اللہ الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام ثم استویٰ علیٰ العرش یغشی اللیل النہار یطلبہ حثیثاً و الشمس و القمر و النجوم مسخراتٍ بِاَمرہ الا لہ الخلق و الأَمر تبارک اللہ رب العالمین)(٢)
تمہارا پروردگار وہ خدا ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں خلق کیا پھر عرش کی تدبیر کی جانب متوجہ ہوا، شب کو جو تیزی کے ساتھ دن کا پیچھا کر رہی ہے دن پر ڈھانپ دیتا ہے اور سورج، چاند اور ستاروں کو خلق کیا کہ سب اس کے فرمان کے سامنے مسخر ہیں آگاہ رہو کہ تخلیق اور امرتدبیر اسی کا کام ہے خدا رب العالمین اور نہایت بابرکت اور بلند و بالا ہے ۔

ب:۔ خدا وند ذو الجلال میں ربوبیت کا منحصر ہونا
خدا وند عالم اس سلسلے میں فرماتا ہے :
١۔(ان ربکم اللہ الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام ثم استوی علی العرش یدبر الامر ما من شفیع الا من بعد اذنہ ذٰلکم اللہ ربکم فاعبدوہ افلا تذکرون٭ الیہ مرجعکم جمیعا وعد اللہ حقا انہ یبدؤ الخلق ثم یعیدہ لیجزی الذین ء آمنو و عملوا الصاٰلحاٰت بالقسط و الذین کفروا لھم شراب من حمیم و عذاب الیم بما کانوا یکفرون٭ ھو الذی جعل الشمس ضیاء و القمر نورا و قدرہ منازل لتعلموا عدد السنین و الحساب ما خلق اللہ ذلک الا بالحق یفصل الآیات لقوم یعلمون)(٣)
..............
(١) نحل٦٨۔٦٩
(٢)سورہ ٔ اعراف ٥٤.
(٣)یونس٣۔٥
بیشک تمہارا پروردگار ایسا خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دن میں خلق کیا پھر عرش پر غالب آیا اور تمام امور کی تدبیرمیں مشغول ہو گیا کوئی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرنے والا نہیں ہے؛تمہارا پروردگاراللہ ہے ، لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور پھر تم کیوںعبرت حاصل نہیں کرتے؟!تم سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے ، خدا کا وعدہ سچا ہے وہی یقینا مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے ، پھر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کئے ان کو انصاف کے ساتھ جزائے خیر عطا فرمائے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لئے ان کی کفر کی سزا میں پینے کے لئے کھولتا ہوا پانی اور درد ناک عذاب ہوگا ، وہی ہے جس نے سورج کو روشنی دی اور چاند کوتا بندہ بنایااور ان کے لئے منزلیں قرار دیں تاکہ سال کی تعداداوردوسرے حساب لگا سکو یہ سب خدا نے صرف حق کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ صاحبان علم کیلئے اپنی آیتوں کو تفصیل سے بیان کرتاہے ۔
٢۔(قل ئَ اِنّکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین و تجعلون لہ انداداً ذلک رب العالمین٭ و جعل فیھا رواسی من فوقھا و بارک فیھا و قدر فیھا اقواتھا فی اربعة ایام سواء للسائلین ٭ ثم استویٰ الیٰ السماء و ھی دخان فقال لھا وللارض ائتیا طوعاً او کرھاً قالتا اتینا طائعین ٭ فقضاھن سبع سمٰواتٍ فی یومین و اوحیٰ فی کل سماء امرھا و زینا السماء الدنیا بمصابیح و حفظا ذلک تقدیر العزیز العلیم)
کہو: آیا تم لوگ اس ذات کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں خلق کیا اور اس کے لئے مثل و نظیر قرار دیتے ہو؟! جبکہ عالمین کا رب ہے وہی ہے جس نے زمین کے سینہ پر استوار و محکم پہاڑوںکو جگہ دی اور اس میں برکت اور زیادتی بخشی اور خواہشمندوں کی ضرورت کے مطابق اس میں غذا کا انتظام کیا؛پھر اس کے بعد آسمان کی خلقت شروع کی جبکہ وہ دھوئیں کی شکل میں تھا؛ اس کو اور زمین کو حکم دیا: موجود ہو جائو، خواہ برضا و رغبت خواہ بہ جبر و اکراہ: انہوں نے کہا: ہم بعنوان اطاعت آتے ہیں! پھر انہیں سات آسمان کی صورت میں دو دن میں خلق کر دیااور ہر آسمان کواس سے متعلق امور کی وحی کر دی اور نچلے آسمان کو چراغوں سے زینت دی اور شیاطین کے رخنہ سے محفوظ رکھا؛ یہ ہے خدا وند قادر و عالم کی تقدیر۔(١)
..............
(١) فصلت٩۔١٢

کلمات کی تشریح
١۔ سبح: نزّہ، یعنی خدا کو پاکیزہ ترین و جہوں سے یاد کیا، یا ''سبحان اللہ'' کہا، یعنی خدا کو ہر طرح کے نقص و عیب سے پاکیزہ اور مبرا خیال کیا۔ تسبیح مطلق عبادت و پر ستش کے معنی میں بھی ہوا ہے خواہ رفتار میں ہو یا کردار میں یا نیت میں ۔
٢۔ اسم: اسم کے ، جیسا کہ پہلے بھی بیان کر چکے ہیں دو معنی ہیں۔
الف۔ وہ لفظ جو اشیا کی نامگز اری کے لئے رکھتے ہیں جیسے : ''مکہ'' اس شہر کا نام ہے جہاں مسلمانوں کا قبلہ، کعبہ ہے اور ''قرآن '' اس کتاب کا نام ہے جسے خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء پر نازل کیا ہے ۔
ب۔ اسم الشیء ، ہر چیز کی مخصوص صفت جو اس کی حقیقت کو روشن و آشکار کر دیتی ہے، آیت میں اسم سے مراد یہی معنی ہے ۔
٣۔ ربک: تمہارا پروردگار ، نظام بخشنے والا اور تمہارے لئے قانون گز ار جیسا کہ گز ر چکا۔
٤۔ اعلیٰ: برتر،آیت میںاس کے معنی یہ ہیںکہ خدا وند عالم اس بات سے کہیں بلند و بالا ہے کہ کسی چیزسے اس کا مقایسہ کیا جائے۔
٥۔ خلق: پیدا کیا ،خلق کی تفسیر اس کلام میں ملتی ہے جو خدا وند عالم موسیٰ کی زبانی فرعون سے بیان کرتا ہے : ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر موجود کو اس کی آفرینش کے مطابق ہر ضروری شۓ عطا کی پھر اس کے بعد ہدایت کی ۔(١)یعنی ہمارے پروردگار نے سب چیز کو کامل، مناسب اور دقیق پیدا کیا ہے ۔
٦۔ سوّیٰ: اندازہ لگایا اور منظم کیا یعنی کمی و زیادتی سے محفوظ کرتے ہوئے متعادل اور مناسب خلق کیا۔ (١)ہر چیز کا تسویہ اس وقت بولا جاتا ہے جب اس چیز کو راہِ کمال اور اس سمت میں جس کے لئے ایجاد ہوئی ہے جہت دی جائے۔
خدا وند عالم سورۂ انفطار میں فرماتا ہے : ''اے انسان کس چیز نے تمہیں تمہارے کریم پروردگار کے مقابل مغروربنادیا؟!وہی خدا جس نے تمہیں پیدا کیا، منظم بنایا اور ہر جہت سے درست کیا ؟(٢) اس آیت میں دونوں معنی: منظم کرنا اور راہ کمال و سعادت کی طرف لے جانا پیش نظر ہے ،خلق کا تسویہ یا اس کو ہرجہت
..............
(١)طہ٥٠
(٢)انفطار ٦۔٧
سے منظم کرنا چارطرح سے ہے:

١۔ انسان کا تسویہ
انسان پہلے نطفہ سے خلق ہوتا ہے اور خلقت کے معین مراحل، میں اس کی خلقت اولیہ ،جنین ہونے کے دوران تمام ہوتی ہے ، خدا وند عالم اسے وہ بھی عطا کرتا ہے جن سے وہ تمام اعضاء و جوارح ہدایت پاتا ہے جیسے: کان ، آنکھ اور دیگر حواس بھی عطا کرتا ہے جن سے وہ علم و دانش کو کسب کرتاہے اور قوائے فکری اورمغز جو اس کی معلومات کا خزانہ ہوتی ہیں اور عقل و خرد جس کے ذریعہ وہ صحیح اور غلط کو جد اکرتا ہے یہ سب اس کی سرشت میںجاگزین کرتا ہے ۔ اورتعلیم و تعلم (افادہ و استفادہ) کی صلاحیت اپنے جیسوں سے زبان و قلم کے ذریعہ اس کے اندرپیداکرتا ہے ، جیسا کہ خدا فرماتا ہے :
١۔(خلق الانسان ، علمہ البیان)
اس ( خدا ) نے انسان کی تخلیق کی اور اسے بیان کا طریقہ سکھایا۔(١)
٢۔( اقرأ باسم ربک الذی خلق٭ خلق الانسان من علق٭ اقرأ و ربک الاکرم٭ الذی علم بالقلم٭ علم الانسان ما لم یعلم)
اپنے خالق رب کے نام سے پڑھو، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھو کہ تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی اور جو انسان نہیں جانتا تھا اس کی تعلیم دی۔(٢)
قلم اور بیان کے ذریعہ سیکھنا اور سکھانا عطیۂ خدا وندی ہے کہ اس نے صرف اور صرف انسان کو یہ دو خصوصیتیں عطا کی ہیں۔

٢۔حیوان کا تسویہ
حیوان کا تسویہ خلقت میں اس کے اندر ایجاد غریزہ کے ذریعہ کامل ہوتا ہے، ایسا غریزہ جس کے ذریعہ زندگی کا وہ طریقہ جو اس کی اپنی حیوانی سرشت سے مناسبت رکھتا ہو، تنظیم پاتاہے ۔
..............
(١)الرحمن ٣۔٤
(٢)علق١۔٥

٣۔ مسخرات خلقت کا تسویہ
خدا فرماتا ہے :١۔ (وسخر الشمس و القمرکل یجری لاجلٍ مسمیً ذلکم اللہ ربکم )(١)
اوراس نے سورج، چاند کو مسخر کیا، ہر ایک معین مدت تک متحرک رہتے ہیں یہ ہے خداوندعالم جو تمہارا رب ہے۔
٢۔( والشمس و القمر و النجوم مسخرات بامرہ الا لہ الخلق٭ و الأمر تبارک اللہ رب العالمین)(٢)
سورج چاند اور ستارے اس کے حکم کے پابند ہیں آگاہ رہو کہ تخلیق و تدبیر اسی کیلئے ہے بابرکت اور بلند ہے خدا جو عالمین کا رب ہے ۔

٤۔ فرشتوں کا تسویہ
فرشتوں کا تسویہ یہ ہے کہ خدا وند عالم نے انہیں ایسی سرشت و طبیعت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ:
(لا یعصون اللہ ما امرھم و یفعلون ما یؤمرون)(٣)
وہ کبھی اوامر الٰہی کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو انہیں حکم دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔
مادی تسویہ اور سامان دہی کے کامل معنی: قدر فھدی کی تفسیر کے ذیل میں آئندہ بیان ہوگا۔
٧۔ قدر: اندازہ کیا، خدا وند متعال کا اندازہ اور تقدیر کرنا ایسے موارد میں جن کی تفسیر و توضیح ہم چاہتے ہیں۔ یعنی:خداوندعالم نے ہر چیز کی حیات کا نظام کچھ اس طرح تنظیم کیا ہے جو اس کی سرشت اور خلقت سے مناسبت اور موزونیت رکھتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا:
(وخلق کل شیء فقدَّرہ تقدیراً)(٤)
اس نے تمام چیزوںکو خلق کیا اور اس کو بالکل درست اور صحیح اندازے (کہ جس میںسر مو بھی فرق نہیں ہے) کے مطابق بنایا ہے ۔
٨۔ ھدی:اس نے ہدایت کی، مخلوقات کی خالق کی طرف سے ہدایت چار قسم کی ہے:
..............
(١)فاطر١٣ ا
(٢)اعراف ٥٤.
(٣)سورۂ تحریم ٦.
(٤)سورہ ٔ فرقان ٢.
الف۔ سکھانا( تعلیم)
ب۔ الہام غریزی
ج۔ مسخر کرنا
د۔ پیغمبروں کے ذریعہ وحی پہنچانا
قدر و ھدی: ان دو کلموںکی مکمل توضیح تفسیرِ آیات کے ذیل میں آئے گی۔
٩۔ غثائً: ایک دوسرے سے الگ اور جدا خشک گھاس
١٠۔ احویٰ: ایسی گھاس جو سبزہ کی زیادتی کی وجہ سے سیاہی مائل ہو۔
١١۔ وحی:
الف۔ وحی لغت میں : وحی لغت میں اشارہ ، ایما ء ،آہستہ بات کرنے اورکوئی بات کان میں کہنے، الہام، حکم دینے اور بات القاء کرنے کو کہتے ہیں۔
ب۔ وحی اسلامی اصطلاح میں؛ کلام الٰہی ہے جسے خدا اپنے پیغمبروںپر القاء کرتا ہے خواہ پیغمبر فرشتۂ وحی کو دیکھے اور اس کی بات سنے ، جیسے جبرئیل کا خاتم الانبیاء تک پیغام پہنچانا یا صرف اللہ کی بات سنے اور کچھ نہ دیکھے جس طرح موسیٰ نے اللہ کی بات سنی یا یہ کہ نیند میں خواب کے ذریعہ ہو جیسا کہ خدا وند عالم نے ابراہیم کے قول کی خبر دی ہے جو انہوں نے اپنے فرزند اسمٰعیل سے کہا ہے : (انی اری فی المنام انی اذبحک)میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں یا اس کے علاوہ وحی جو صرف خدا جانتا ہے اور صرف اس کے پیغمبر صلوات اللہ علیہم اجمعین اسے درک کرتے ہیں۔
اسلامی اصطلاح میں مذکور وحی کے استعمال کے بعض مواقع جو قرآن کریم میں آئے ہیں تقریباً ''خد ا کی پیغمبروں کو وحی ''کے باب میں ہم نے ذکر کیا ہے لیکن وحی لغوی کا قرآن کریم میں استعمال اس طرح ہوا ہے :
١۔( فخرج علیٰ قومہ من المحراب فاوحیٰ الیھم ان سبحوا بکرة و عشیاً)
(زکریا) محراب عبادت سے نکل کر اپنی قوم کی طرف واپس آئے اور ان کی طرف اشارہ کیا صبح و شام خدا کی تسبیح کرو!(١)
..............
(١)مریم١١
٢۔(ان الشیاطین لیوحون الیٰ اولیائھم)
شیاطین اپنے دوستوں کو کچھ مطالب القاء کرتے ہیں، یعنی ان کے دلوں میں برے خیالات اور زشت نظریات ڈالتے ہیں۔(١)
٣۔(و اوحینا الیٰ ام موسیٰ ان ارضعیہ)
موسیٰ کی ماں کو ہم نے الہام کیا کہ اسے دودھ پلائو۔(٢)
٤۔( و اوحی ربک الیٰ النحل)
تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کو وحی کی۔(٣)
یعنی شہد کی مکھی کو الہام غریزی کے ذریعہ اس طرح زندگی کا طریقہ الہام کیا، اس لئے کہ خدا وند عالم نے اپنی ربوبیت کے اقتضا کے مطابق حیوانات کی ہر صنف میں ایک غریزہ ودیعت کیا ہے جو اس کی سرشت اور فطرت سے مناسبت رکھتا ہے۔
١٢۔ استوی: غالب آیا، کلمہ استوی جب ''علیٰ'' کے ساتھ متعدی ہو تو غلبہ اور تسلط کے معنی میں ہوتا ہے جیسا کہ صفات رب کی بحث میںآئندہ ذکر ہوگا۔
١٣۔ عرش:لغت میںسقف داربلند جگہ کو کہتے ہیں،بادشاہوں کے تخت کو بھی اس کی بلندی کے اعتبار سے عرش کہتے ہیں اور اسے اس کی قدرت، سلطنت اور حکومت سے کنایہ کرتے ہیں لسان العرب میں ذکر ہوا ہے:ثل عرشھم ، یعنی خد اوند عالم نے ان کی حکومت اور سلطنت کو تباہ و برباد کر دیا۔(٤)
١٤۔ ضیائ: نورانی اجسام سے جو چیز پھیلتی ہے اور نور سے قوی اور وسیع ہوتی ہے ، ضوء ، روشنی بخش ہے، جیسے سورج کا نور اور آگ کا نور اور نور اپنے علاوہ سے کسب نور کرتا ہے جیسے چاند کی روشنی۔
١٥۔ امر:امر کے دو معنی ہیں:
الف۔ کسی کام کا طلب کرنا جو کہ نہی کی ضد ہے اس کی جمع اوامر آتی ہے ۔
ب۔ شان، کام اور حال جس کی جمع امور آتی ہے ۔
١٦۔ سخّر: رام کیا، سدھارا، خاضع اور ذلیل کیا؛ اسے معین ہدف کی راہ میں روانہ کیا؛ مسخر جو چیز قہر و غلبہ کے ذریعہ رام ہوتی ہو۔
١٧۔ رواسی: راسی کی جمع ہے ثابت اور استوار پہاڑ۔
..............
(١)انعام١٢١
(٢)قصص٧
(٣)نحل٦٨
(٤) مادہ'' عرش '' کے لئے مفردات راغب ، معجم الوسیط اور قاموس قرآن ملاحظہ ہو .

آیات کی تفسیر
آیات کی مفصل تفسیر'' قدر'' اور''فہدی'' کلموں کی توضیح کے لئے ہم ذکر کررہے ہیں:
الف۔ ''قدر'' کی تفسیر: خدا وند عزیز نے سورۂ فصلت کی آیتوں میں تخلیق و آفرینش کو اپنی ذات اقدس ''رب العالمین'' سے مخصوص اور منحصر کیا ہے پھر اس کے بعد اس کو منظم کرنا اورکیفیت تقدیرنظام اور اس کے باقی رہنے کا ذکر کیا ہے :
(وجعل فیھا رواسی من فوقھا و بارک فیھا و قدّر فیھا اقواتھا فی أربعة أیامٍ)
اس نے چار دن میں زمین کے سینے پر محکم اور استوار پہاڑوں کو جگہ دی اور اس میں برکت اور زیادتی بخشی اور خواہشمندوں اور اہل ضرورت کی ضرورت کے بقدر غذا کا انتظام کیا۔(١)
آسمان کے سلسلے میں فرمایا: اس کی سات آسمان کی صورت میں تخلیق دو روزمیں تمام ہوئی ہے اور ہر آسمان میں اس سے متعلق امور کی وحی فرما دی ہے اور آسمان دنیا کو ستاروںسے زینت دی یہ ساری کی ساری عزیز اور دانا پروردگار کی تقدیر شمار کی جاتی ہے ۔
اس سلسلے میں کہ کس طرح فرمان الٰہی نظام خلقت کے مطابق باقی رہنے کے لئے مخلوقات کو صادر ہوا، فرماتا ہے:
(ان ربکم اللہ الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام ثم استویٰ علیٰ العرش یدبر الأمر)
تمہارا پروردگار وہ خدا ہے جس نے آسمان اور زمین کو چھ دنوں میں خلق کیا پھر عرش پر غالب آیا اور تدبیر امور میں مشغول ہو گیا۔(٢)
ان کے امر کی تدبیر، یعنی خلقت کے بعد ان کی تربیت اور پرورش ہے اور یہ کہ تمام انسانوں کا رب تنہا وہ ہے لہٰذا صرف اس کی عبادت کرو، خد اوند عالم نے اس کے بعد کچھ تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: یہ پروردگار وہی ہے جس نے خورشید کو روشنی بخشی اور چاند کو تابندگی اور اس کے لئے منزلیں قرار دیں ۔
..............
(١)فصلت ١٠
(٢)یونس ٣
ان آیات کے بعد یہ استفادہ ہوتا ہے کہ : قدرہ تقدیرا،یعنی اس کے لئے معین و منظم مدبرانہ نظام قرار دیا ۔
ب۔ ہدی ؛سورۂ فصلت اور یونس میںجہاں آسمانوں اور زمین، ماہ و خورشید کے لئے خد اکی ربوبیت کا تذکرہ ہے ''تربیت رب'' کا ذکر صرف انہیں کے بارے میں استعمال ہوا ہے لیکن سورۂ ''اعلیٰ'' میں تمام مخلوقات سے متعلق تربیت کی بات کرتے ہوئے فرمایا: (الذی خلق فسوی و الذی قدر فھدیٰ) اس سے مراد یہ ہے کہ جس پروردگار نے ان مخلوقات کو زیورتخلیق سے آراستہ کیا ہے خود اسی نے انہیں منظم بھی کیا ہے اور ہر نوع اور صنف کے لئے جو تقدیرمعین کی ہے اس کے ذریعہ انہیں ہدایت پذیری کے لئے آمادہ بھی کیا ہے بعنوان مثال حیوان کی چراگاہ کی مثال دی ہے اور اسی سے ملتا جلتا مضمون بیان کیا ہے :تمام حیوانات کا پروردگار وہی ہے جس نے زمین کا سینہ چاک کر کے حیوانوں کی چراگاہ بنائی ہے ۔ اور اسے کمال وجودی کے مرتبہ پر فائز ہونے تک پرورش کی ہے یہاں تک کہ شدید سیاہی مائل سبزہ ہو جائے اس کے بعداسے شدیدہریالی کے ساتھ خشک بنا دیا! خدا وند عالم نے چہار گانہ صنفوں کی ہدایت کی کیفیت بہت ساری دیگر آیتوں میں بھی بیان کی ہے کہ جس کوہم آئندہ بحث میں بیان کریں گے ۔