آیات کی شرح اور روایات میں ان کی تفسیر
پہلے۔ پیغمبر اکرمۖ سے منقول روایات:
١۔ احمد بن حنبل، ابن سعد، ابو دائوداور ترمذی نے اپنی سندوں سے رسول خداۖ سے نقل کیا ہے: آپ نے فرمایا: خدا وند عالم نے آدم کو ایک مشت مٹی جوزمین کے تمام اطراف سے لی تھی خلق کیا؛ اسی وجہ سے بنی آدم زمین کے ہم رنگ ہیں بعض سرخ، بعض سفید، بعض سیاہ اور کچھ لوگ انہیں گروہوںمیں میانہ رنگ کے مالک ہیں...۔(١)
٢۔ ابن سعد نے رسول خداۖ سے روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :
جب حضرت آدم سے یہ خطا سرزد ہوئی تو ان کی شرمگاہ ظاہر ہو گئی جبکہ اس سے پہلے ان کے لئے نمایاںنہیں تھی۔(٢)
٣۔ شیخ صدوق نے اپنی سند کے ساتھ خصال میں رسول خداۖ سے ذکر کیا ہے :
آدم و حوا کا قیام اس بہشت میں ان کے خارج ہونے تک دنیاوی دنوں کے لحاظ سے صرف سات گھنٹہ تھا یہاں تک کہ خدا وند عالم نے اسی دن بہشت سے نیچے بھیج دیا۔(٣)
..............
(١)سنن ترمذی ، ج ١١، ص ١٦، سنن ابی داؤد ج ، ٤، ص ٢٢٢، حدیث ٤٦٩٣،مسند احمد ج ، ٤، ص ٤٠٠، طبقات ابن سعد ، طبع یورپ ، ج ١، حصہ اول ص٥۔ ٦ .
(٢) طبقات ابن سعد ، ج ، ١حصہ اول ، طبع یورپ ، ص ١٠.
(٣)نقل از بحار الا نوار ج ١١، ص ١٤٢.
دوسرے۔ حضرت امام علی سے مروی روایات
الف:۔ فرشتوںکی خلقت کے بارے میں
کتاب بحار الانوار میں مذکور ہے کہ امیر المؤمنین حضرت علی ـ خدا وند عالم سے عرض کرتے ہیں:
....جن فرشتوں کو تونے خلق کیا اور انہیں اپنے آسمان میں جگہ دی ان میں کسی طرح کی کوتاہی اور سستی نہیں ہے؛ نیز ان کے یہاں نسیان وفراموشی کا گز ر نہیں ہے اور عصیان و نافرمانی ان کے اندر نہیں ہے وہ لوگ تیری مخلوقات کے با شعور اور دانا ترین افراد ہیں؛ وہ تجھ سے سب سے زیادہ خوف رکھتے اورتجھ سے نزدیک ترین اور تیری مخلوقات میں سب سے زیادہ اطاعت گزاراورفرمانبردارہیں؛ انہیں نیند نہیں آتی ، عقلی غلط فہمیاں ان کے یہاں نہیں پائی جاتی، جسموں میں سستی نہیں آتی، وہ لوگ باپ کے صلب اور ماں کے رحم سے وجود میں نہیں آئے ہیں نیز بے حیثیت پانی (منی) سے پیدا نہیںہوئے ہیں؛ تونے ان لوگوںکو جیسا ہونا چاہئے تھا خلق کیا ہے اور اپنے آسمانوں میں انہیں جگہ دی ہے اور اپنے نزدیک انہیں عزیز و مکرم بنایا ہے اور اپنی وحی پر امین قرار دیا آفات و بلیات سے دور اور محفوظ رکھ کر گناہوں سے پاک کیا اگرتونے انہیں قوت نہ دی ہوتی تو وہ قوی نہ ہوتے؛ اگر تونے انہیںثبات و استقلال نہ دیا ہوتا تو وہ ثابت و پائدار نہ ہوتے۔
اگر تیری رحمت ان کے شامل حال نہ ہوتی تو وہ اطاعت نہیں کرتے اورا گر تو نہ ہوتا تو وہ بھی نہوتے، وہ لوگ جو تجھ سے قرابت رکھتے ہیں اور تیری اطاعت کرتے اور تیرے نزدیک جو اپنا مخصوص مقام رکھتے ہیں اور ذرہ برابر بھی تیرے حکم کی مخالفت نہیں کرتے ان سب کے باوجود اگر نگاہوں سے تیرا پوشیدہ مرتبہ مشاہدہ کرتے ہیں تو اپنے اعمال کو معمولی سمجھ کراپنی ملامت و سرزنش کرتے ہیں اور راہ صداقت اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیری عبادت کا جو حق تھا ویسی ہم نے عبادت نہیں کی ؛اے خالق و معبود! تو پاک و منزہ ہے تیرا امتحان و انتخاب مخلوقات کے نزدیک کس قدر حسین وخوبصورت اور باعظمت ہے ۔(١)
ب:۔آغاز آفرینش
خلقت کی پیدائش کے بارے میں حضرت امام علی ـ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے:
..............
(١) بحار الانوار ج ٥٩ ، ص ١٧٥، ١٧٦.
خدا وند عالم نے فضائوں کو خلق کیا، اس کی بلندی پر موجزن اور متلاطم پانی کی تخلیق کی، سرکش اور تھپیڑے کھاتا ہوا پانی؛ بلند موجوں کے ساتھ کہ جس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے پھر اسے تیز و تند اور سخت ہلا دینے والی ہوا کی پشت پر قرار دیاجس نے اپنے شدید جھونکوںسے (جس طرح دہی اور دودھ کو متھا جاتا ہے اس کو متھتے اور حرکت دیتے ہیں؛اور اس سے مکھن اور بالائی نکالتے ہیں اور اس کا جھاگ اوپر آجاتا ہے) ان جھاگوں کو پراکندہ کر دیا پھر وہ جھاگ کھلی فضا اور وسیع ہوا میں بلندی کی طرف چلے گئے تو خدا وند عالم نے ان سے سات آسمان خلق کئے اور اس کی نچلی سطح کو سیلاب سے عاری موج اور اس کے اوپری حصہ کو ایک محفوظ چھت قرار دیا، بغیر اس کے کہ کوئی ستون ہو اور وسائل و آلات سے مل کر ایک دوسرے سے متصل و مرتبط ہوں؛ آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت بخشی پھر فوقانی آسمانوں کے درمیان جو کہ آسمان دنیا کے اوپر واقع ہے ،شگاف کیا پھر انہیں انواع و اقسام کے فرشتوں سے بھر دیا، ان میں سے بعض دائمی سجدہ کی حالت میں ہیںجو کبھی سجدے سے سر نہیںاٹھاتے تو بعض رکوع دائم کی حالت میں ہیں جو کبھی قیام نہیں کرتے، بعض بالکل سیدھے منظم صفوف کی صورت میں مستقیم اورثابت قدم ہیں اور حرکت نہیں کرتے؛ خدا کی تسبیح کرتے ہوئے کبھی تھکاوٹ کا احساس نہیں کرتے، انہیںخواب آنکھوں میں عقلوں کی غفلت ، جسموں میں سستی، فراموشی، بے توجہی اور بے اعتنائی لاحق نہیں ہوتی، بعض وحی خداوندی کے امین ہیں اور رسولوں تک پیغام رسانی کے لئے اس کی زبان اور حکم خداوندی پہنچانے کے لئے ہمیشہ رفت و آمد رکھتے ہیں، بعض اس کے بندوں کے محافظ اور بہشت کے دروازوں کے نگہبان ہیں، ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کے قدم پست سر زمینوں پر ہیں اور سر آسمان سے بھی اوپر ہیں... وہ لوگ اپنے پروردگار؛ کی توہم و خیال کے ذریعہ تصویر کشی نہیں کرتے، خدا کی خلق کردہ مخلوقات کے اوصاف کو خدا کی طرف نسبت نہیں دیتے اسے مکان کے دائرہ میں محدود نہیں کرتے اور امثال و نظائر کے ذریعہ اس کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔
ج:۔ انسان کی خلقت
امام نے فرمایا: خدا نے پھر زمین کے سخت و نرم ، نمکین اور شیرین مختلف حصوں سے کچھ مٹی لی؛ پھر اسے پانی میں مخلوط کیا تاکہ خالص ہو جائے، پھر اسے دوبارہ گیلا کر کے جلادی اور صیقل کیا ، پھر اس سے شکل و صورت جس میں اعضا ء وجوارح والی خلق کی اور اسے خشک کیا پھر اسے استحکام بخشا تاکہ محکم و مضبوط ہو جائے روز معین و معلوم کے لئے۔
پھر اس میں اپنی روح پھونکی، تو ایک ہوشیار انسان کی شکل میں ظاہر ہوا؛ اور حرکت کرتے ہوئے اپنے ،دل و دماغ؛ عقل و شعور اور دیگر اعضاء کا استعمال کرتاہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ قابل انتقال آلات سے استفادہ کرتاہے حق و باطل میں فرق قائم کرتاہے نیز چکھنے، سونگھنے اور دیکھنے والے حواس کا مالک ہے وہ رنگا رنگ سرشت اور طبیعت اور مختلف عناصر کاایک ایسا معجون ہے جن میں سے بعض ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ان میں سے بعض متبائن اور ایک دوسرے سے علٰحدہ ہیں جیسے گرمی، سردی، خشکی، رطوبت، بدحالی اور خوش حالی۔(١)
د:۔جن، شیطان اورابلیس کی خلقت
حضرت امام علی فرماتے ہیں: خدا وند عالم نے جن اور نسناس کے سات ہزار سال روئے زمین پر زندگی بسر کرنے کے بعد جب چاہا کہ اپنے دست قدرت سے ایک مخلوق پیداکرے اور وہ مخلوق آدمی ہونا چاہے کہ جن کے لئے آسمان و زمین کی تقدیر و تدبیر کی گئی ہے تو آسمانوںکے طبقوں کا پردہ اٹھا کر فرشتوں سے فرمایا: میری (جن اور نسناس )مخلوقات کا زمین میں مشاہدہ کرو۔
جب ان لوگوں نے اہل زمین کی غیر عادلانہ رفتار اورظالمانہ اور سفاکانہ انداز دیکھے تو ان پرگراں گز را اور خدا کے لئے ناراض ہوئے اور اہل زمین پر افسوس کیا اور اپنے غیظ و غضب پر قابو نہ پا کر بول پڑے: پروردگارا! تو عزیز، قادر، جبار، عظیم و قہار عظیم الشان ہے اور یہ تیری ناتواں اور حقیر مخلوق ہے کہ جو تیرے قبضہ قدرت میں جابجا ہوکر،تیر ا ہی رزق کھاتی ہے اور تیری عفو و بخشش کے سہارے زندہ ہے اور اپنے سنگین گناہوں کے ذریعہ تیری نافرمانی کرتی ہے جبکہ تو نہ ان پر ناراض ہوتاہے اور نہ ہی ان پر اپنا غضب ڈھاتا ہے اور نہ ہی جو کچھ ان سے سنتا اور دیکھتاہے اس کاانتقام لیتا ہے ، یہ بات ہم پر بہت ہی گراں ہے اور ان تمام باتوںکو تیرے سلسلہ میں ہم عظیم شمار کرتے ہیں۔ جب خدا وند عالم نے فرشتوں کی یہ باتیں سنیں تو فرمایا: ''میں روئے زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں'' تاکہ میری مخلوق پر حجت اور میرا جانشین ہو، فرشتوںنے کہا: تو منزہ اور پاک ہے ''آیا زمین پر ایسے کوخلیفہ بنائے گا جو فساد و خونریزی کرے جبکہ ہم تیر ی تسبیح اور حمد بجالاتے ہیں اور تیری تقدیس کرتے اور پاکیزگی کا گن گاتے ہیں۔'' اور کہا: اس جانشینی کو ہمارے درمیان
..............
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید : ج ١، ص ٣٢.
قرار دے کہ نہ تو ہم فساد کرتے ہیں اور نہ ہی خونریزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
خداوند عالم نے فرمایا: میرے فرشتو! میںجن حقائق کو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ، میرا ارادہ ہے کہ ایک مخلوق اپنے دستِ قدرت سے بنائوں اور اس کی نسل و ذریت کو مرسل ،پیغمبراور صالح بندے اورہدایت یافتہ امام قرار دوں نیز ان کو اپنی مخلوقات کے درمیان اپنا زمینی جانشین بنائوں، تاکہ لوگوں کو گناہوں سے روکیں اور میرے عذاب سے ڈرائیں، میری اطاعت و بندگی کی ہدایت کریں اور میری راہ کو اپنائیں نیز انہیں آگہی بخش برہان اور اپنے عذر کی دلیل قرار دوں، نسناس (١)کو اپنی زمین سے دور کرکے ان کے ناپاک وجود سے اسے پاک کر دوں.اور طاغی و سرکش جنوںکو اپنی مخلوقات کے درمیان سے نکال کر انہیں ہوااور دور دراز جگہوں پر منتقل کر دوں تاکہ نسل آدم کے جوار سے دوررہیں اور ان سے انس و الفت حاصل نہ کریں اور ان کی معاشرت اختیار نہ کریں، لہٰذا جو شخص ہماری اس مخلوق کی نسل سے جس کو میں نے خود ہی انتخاب کیا ہے میری نافرمانی کرے گا اسے سر کشوں اور طاغیوں کے ٹھکانوں پر پہنچا دوں گااور کوئی اہمیت نہیں دوںگا۔ فرشتوں نے کہا: خدایا! جو مرضی ہو وہ انجام دے: ہم تیری تعلیم کردہ چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں جانتے ، تو دانا اور حکیم ہے ...(٢)
ھ۔ روح: حضرت امام علی نے روح کے بارے میںجو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے :
جبریل روح نہیں ہیں، جبرئیل فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے اور روح جبریل کے علاوہ ایک دوسری مخلوق ہے، اس لئے کہ خدا وند عالم نے اپنے پیغمبرۖ سے فرمایا:
(تنزل الملائکة بالروح من امرہ علیٰ من یشاء من عبادہ)
فرشتوں کو اپنے فرمان سے روح کے ساتھ اپنے جس بندہ پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے ۔ لہٰذا روح فرشتوں کے علاوہ چیز ہے۔(٣)
نیز فرمایا:
(لیلة القدر خیر من الف شہر٭ تنزل الملائکة و الروح فیھا بِأِذن ربھم)(٤)
شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے فرشتے اور روح اس شب میں اپنے پروردگار کے اذن سے نازل ہوتے ہیں۔ نیز فرماتا ہے :
..............
(١) نسناس کی حقیقت ہم پرواضح نہیں ہے ، بحار الانوار میں ایسا ہی مذکور ہے ۔
(٢)بحار الانوار ج٦٣ص٨٢۔٨٣، علل الشرائع سے منقول.
(٣)نحل٢
(٤)قدر٣۔٤
(یوم یقوم الروح و الملائکة صفاً)(١)
جس دن روح اور فرشتے ایک صف میں کھڑے ہوں گے۔
اور حضرت آدم کے بارے میں جبرائیل سمیت تمام فرشتوں سے فرمایا:
( انی خالق بشراً من الطین فأِذا سوّیتہ و نفخت فیہ من روحی فقعوا لہ ساجدین)
میں مٹی سے ایک انسان بنائوں گا اور جب اسے منظم کر دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو اس کے سجدہ کے لئے سر جھکا دینا! تو جبریل نے تمام فرشتوں کے ہمراہ اس روح کا سجدہ (٢)کیا۔
اور مریم کے بارے میں ارشاد ہوا:
(فأَرسلنا الیھا روحنا فتمثّل لھا بشراً سویاً)(٣)
ہم نے اپنی روح اس کی طرف بھیجی اور وہ ایک مکمل انسان کی شکل میں مریم پر ظاہر ہوا اور پیغمبر ۖ سے فرمایا:
(نزل بہ الروح الامین٭ علیٰ قلبک )
تمہارے قلب پر اسے روح الامین نے نازل کیا ہے ۔
پھر فرمایا:
(لتکون من المنذرین، بلسانٍ عربیٍ مبین )(٤)
تاکہ واضح عربی زبان میں ڈرانے والے رہو۔
لہٰذا روح گوناگوں اور مختلف شکل و صورت میں ایک حقیقت ہے۔ (٥)
امام کی گفتگو کا خاتمہ۔
اس بنا پر روح (خد ابہتر جانتا ہے) وہ چیز ہے جو آدم میں پھونکی گئی ، نیز وہ چیز ہے کہ جو مریم کی طرف بھیجی گئی نیز وہ چیز ہے جو حامل وحی فرشتہ اپنے ہمراہ پیغمبر کے پاس لاتا تھا ؛ اور کبھی اس فرشتہ کو جو وحی پیغمبر کا حامل ہوتا تھا اسے بھی روح الامین کہتے ہیں، اس طرح روح وہی روح القدس ہے جس کے ذریعہ خدا وند عالم نے حضرت عیسیٰ کی تائید کی تھی اور قیامت کے دن خود روح فرشتوں کے ہمراہ ایک صف میں کھڑی ہوگی۔
..............
(١)نبأ٣٨
(٢)ص٧١۔٧٢
(٣)مریم١٧
(٤)شعرائ١٩٤۔١٩٥
(٥)الغارات ثقفی تحقیق اسناد جلال الدین حسینی ارموی '' محدث ''جلد اول ص ١٨٤۔١٨٥
یہ وہی روح ہے جس کے بارے میں خدا وند عالم فرماتا ہے :
( و یسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی)(١)
تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں توتم ان سے کہہ دو روح امر پروردگار ہے ۔
خدا وندا! ہم کو سمجھنے میں خطا سے اور گفتار میں لغز ش سے محفوظ رکھ۔
و۔ فرشتوں کے حضرت آدم کا سجدہ کرنے کے معنی
امام علی کی اس سلسلے میں گفتگو کا خلاصہ یہ ہے :
فرشتوں کا آدم کے لئے سجدہ؛ اطاعت اور بندگی کا سجدہ نہیں تھا فرشتوں نے اس سجدہ سے ، غیر اللہ، یعنی آدم کی عبادت اور بندگی نہیں کی ہے ، بلکہ حضرت آدم کی فضیلت اور ان کیلئے خداداد فضل و رحمت کا اعتراف کیا ہے ۔
امام علی کے کلام کی تشریح:
امام نے گز شتہ بیان میں فرشتوں کو چار گروہ میں تقسیم کیا ہے :
پہلا گروہ: عبادت کرنے والے ، بعض رکوع کی حالت میں ہیں، بعض سجدہ کی حالت میں ہیں تو بعض قیام کی حالت میں ہیں تو بعض تسبیح میں مشغول ہیں۔
دوسرا گروہ: پیغمبروں تک وحی پہنچانے میں وحی خداوندی کے امین ہیں اور رسولوں کے دہن میں گویا زبان؛ نیز بندوں کے امور سے متعلق کہ خداوند عالم ان کے ذریعہ خلق کا انتظام کرتا ہے رفت و آمد کرنے والے ہیں۔
تیسرا گروہ: بندوں کے محافظ و نگہبان، انسان کے جسم و جان میں ایک امانت اور ذخیرہ کی قوتوں کے مانند کہ جن کے ذریعہ خدا وند عالم بندوں کو ، ہلاکت اور مفاسد سے محفوظ رکھتا ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو ہلاکت اور مفسدہ ؛امن و امان اور حفاظت و سلامتی سے زیادہ انسان کو پہنچے، ان میں سے بعض جنت کے خدام یعنی نگہبان اور خدمت گز ار بھی ہیں۔
چوتھا گروہ: حاملان عرش کا ہے : شاید یہی لوگ ہیںجو امور عالم کی تدبیر پر مامور کئے گئے ہیں جیسے بارش نازل کرنا ،نباتات اور اس جیسی چیزوںکا اگانا اور اس کے مانند ایسے امور جو پروردگار عالم کی ربوبیت
سے متعلق ہیں اور مخلوقات عالم کے لئے ان کی تدبیر کی گئی ہے ۔
..............
(١)اسرائ٨٥
تیسرے۔ امام محمد باقرسے مروی روایات
امام باقر نے (ونفخت فیہ من روحی ) کے معنی میں ارشاد فرمایا:
یہ روح وہ روح ہے جسے خدا وند عالم نے خودہی انتخاب کیا، خود ہی اسے خلق کیا اور اسے اپنی طرف نسبت دی اور تمام ارواح پر فوقیت و برتری عطا کی ہے ۔(١)
اور دوسری روایت میں آپ نے فرمایا ہے :
خدا وند عالم نے اس روح کو صرف اس لئے اپنی طرف نسبت دی ہے کہ اسے تمام ارواح پر برتری عطا کی ہے ،جس طرح اس نے گھروں میں سے ایک گھر کو اپنے لئے اختیار فرمایا:
میرا گھر! اور پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر سے کہا:میرا خلیل ( میرے دوست) یہ سب ،مخلوق ، مصنوع، محدَّث ، مربوب اور مدبَّر ہیں۔(٢)
یعنی ان کی خد اکی طرف اضافت اور نسبت تشریفی ہے ۔
دوسری روایت میں راوی کہتا ہے :
امام باقر سے میں نے سوال کیا: جو روح حضرت آدم اور حضرت عیسیٰ میں ہے وہ کیا ہے ؟
فرمایا: دو خلق شدہ روحیں ہیں خد اوند عالم نے انہیں اختیار کیاا ور منتخب کیا: حضرت آدم اور حضرت عیسی ـ کی روح کو۔(٣)
چوتھے۔ امام صادق سے مروی روایات
حضرت امام صادق نے خدا وند عالم کے حضرت آدمۖ و حوا سے متعلق کلام( فبدت لھما سو ء اتھما) ''ان کی شرمگاہیں ہویدا ہو گئیں'' کے بارے میں فرمایا:
ان کی شرمگاہیں ناپیدا تھیں ظاہر ہو گئیں یعنی اس سے قبل اندر مخفی تھیں۔(٤)
امام نے حضرت آدم سے حضرت جبریل کی گفتگو کے بارے میں فرمایا:
(١)بحار الانوار ، ج٤ ص ١٢، بنا بر نقل معانی الاخبار اورتوحید صدوق(٢) بحار الانوار ج٤ ،ص١٢، بحوالہ ٔ نقل از معانی الاخبارو توحید صدوق.(٣) بحار الانوار ج٤ ،ص ١٣(٤) بحار الانوار ج١١ ص ١٦٠، نقل از تفسیر قمی ص ٢٣١
جب حضرت آدم جنت سے باہر ہوئے تو ان کے پاس جبرئیل نے آکر کہا: اے آدم! کیا ایسا نہیں ہے کہ آ پ کو خدا وند عالم نے خود اپنے دست قدرت سے خلق کیا اورآپ میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو آپ کے سجدہ کا حکم دیا اور اپنی کنیز حوا کوآ پ کی زوجیت کے لئے منتخب کیا، بہشت میں جگہ دی اور اسے تمہارے لئے حلا ل اور جائز بنایا اور بالمشافہہ آپ کونہی کی : اس درخت سے نہ کھانا! لیکن آپ نے اس سے کھایا اور خدا کی نافرمانی کی، آدم نے کہا: اے جبرئیل! ابلیس نے میرے اطمینان کے لئے خدا کی قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ اور میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خدا وند عالم کی کوئی مخلوق خدا کی جھوٹی قسم کھا سکتی ہے۔(١)
امام نے حضرت آدم کی توبہ کے بارے میں فرمایا:
جب خدا وند عالم نے آدم کو معاف کرنا چاہا تو جبرئیل کو ان کی طرف بھیجا، جبرئیل نے ان سے کہا: آپپر سلام ہو اے اپنی مصیبت پر صابر آدم اور اپنی خطا سے توبہ کرنے والے !خدا وند عالم نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ ایسے مناسک آپ کو تعلیم دوں جن کے ذریعہآ پ کی توبہ قبول کرلے! جبرئیل نے ان کا ہاتھ پکڑا اور بیت کی طرف روانہ ہو گئے اسی اثناء میں آسمان پر ایک بادل نمودار ہوا، جبرئیل نے ان سے کہا جہاں پر یہ بادل آپ پر سایہ فگن ہو جائے اپنے قدم سے خط کھیچ دیجئے ، پھر انہیںلیکر منیٰ چلے گئے اور مسجد منیٰ کی جگہ انہیں بتائی اور اس کے حدود پر خط کھینچا، محل بیت کو معین کرنے اور حدود حرم کی نشاندہی کرنے کے بعد عرفات لے گئے اور اس کی بلندی پر کھڑے ہوئے اور ان سے کہا: جب خورشید غروب ہو جائے تو سات بار اپنے گناہ کا اعتراف کیجئے آدم نے ایسا ہی کیا۔(٢)
پانچویں۔ امام رضا سے مروی روایات
امام رضا نے خدا وند عالم کے کلام ''خلقت بیدی'' کے معنی کے بارے میں فرمایا : یعنی اسے میں نے اپنی قوت اور قدرت سے خلق فرمایا:(٣)
آپ سے عصمت انبیاء سے متعلق مامون نے سوال کیا:
اے رسول خداۖ کے فرزند! کیا ایسا نہیں ہے کہ آپ کہتے ہیں انبیاء معصوم ہیں؟
..............
(١ ) بحار الانوار ج١١ ص ١٦٧.
(2) تفسیر نور الثقلین ج٤ ص ٤٧٢ بہ نقل عیون اخبار الرضا
(3)بحار الانوار ج١١ص ١٦٧
امام نے فرمایا: ہاں، بولا! پھر جو خدا وند عالم نے فرمایا (فعصی آدم ربہ فغویٰ)اس کے معنی کیا ہیں؟
فرمایا: خدا وند عالم نے آدم سے فرمایا: ''تم اور تمہاری زوجہ جنت میں سکونت اختیار کرو اور اس میں جو دل چاہے کھائو لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ستمگروں میں سے ہو جائو گے'' اور گندم کے درخت کا انہیں تعارف کرایا۔ خدا وند عالم نے ان سے یہ نہیں فرمایاکہ: اس درخت اور جو بھی اس درخت کی جنس سے ہونہ کھانا لہٰذاآدم و حوا اس درخت سے نزدیک نہیں ہوئے یہ دونوں شیطان کے ورغلانے اور اس کے یہ کہنے پر کہ خداوندعالم نے تمہیں اس درخت سے نہیں روکا ہے بلکہ اس کے علاوہ کے قریب جانے سے منع کیا ہے ،تمہیں اسکے کھانے سے ا س لئے نہی کی ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتہ نہ بن جائو اوران لوگوں میں سے ہو جائو جو حیات جاودانی کے مالک ہیں اس کے بعد ان دونوں کے اطمینان کے لئے قسم کھائی کہ ''میں تمہارا خیر خوا ہ ہوں'' آدم و حوا نے اس سے پہلے کبھی یہ نہیں دیکھا تھا کہ کوئی خدا وند عالم کی جھوٹی قسم کھائے گا، فریب کھا گئے اور خدا کی کھائی ہوئی قسم پر اعتماد کرتے ہوئے اس درخت سے کھا لیا؛ لیکن یہ کام حضرت آدم کی نبوت سے پہلے کاتھا(١)، آغاز خلقت سے مربوط باقی روایتوں کو انشاء اللہ کتاب کے خاتمہ پر ملحقات کے ضمن میں عرض کریں گا۔
بحث کا خلاصہ
اس بحث کی پہلی فصل میں مذکورہ مخلوقات درج ذیل چار قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں۔
١۔ جو لوگ موت، زندگی، ارادہ اور کامل ادراک کے مالک ہیں اور ان کے پاس نفس امارہ بالسوء نہیں ہوتا وہ لوگ خدا کے سپاہی اورفرشتے ہیں۔
٢۔ جولوگ، موت ، زندگی، ارادہ؛ درک کرنے والا نفس اور نفس امارہ کے مالک ہیں یہ گروہ دو قسم کا ہے:
الف۔ جن کی خلقت مٹی سے ہوئی ہے وہ حضرت آدم کی اولاد ؛تمام انسان ہیں.
ب۔ جن کی خلقت جھلسا دینے والی آگ سے ہوئی ہے وہ جنات ہیں.
٣۔ جو موت، زندگی اور ارادہ رکھتے ہیں لیکن درک کرنے والا نفس نہیں رکھتے اور غور و خوض کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ حیوانات ہیں۔
..............
(١)بحار الانوار ج١١، ص ١٦٤، بہ نقل عیون اخبار الرضا
٤۔جو حیوانی زندگی نیز ادراک و ارادہ بھی نہیں رکھتے ، جیسے: نباتات ، پانی کی اقسام ، ماہ و خورشید اور ستارے۔
ہم ان تمام مخلوقات کی انواع و اصناف میں غور و فکر کرتے ہیں تو ہر ایک کی زندگی میںایک دقیق اور متقن نظام حیات پوشیدہ و مضمر پاتے ہیں جو ہر ایک کو اس کے کمال و جودی کے اعلیٰ درجہ تک پہنچاتا ہے ؛اب ہم سوال کرتے ہیں: جس نے ان انواع و اقسام اور رنگا رنگ مخلوقات کے لئے منظم نظام حیات بنایاوہ کون ہے ؟ اور اس کا نام کیا ہے ؟
یہ وہ بات ہے جس کے متعلق ہم خدا کی توفیق سے ربوبیت کی بحث میں تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے ۔
|