نام کتاب : اسلام کے عقائد(پہلی جلد )
 
٤۔ جن اور شیاطین
الف۔ جن ّو جانّ
جِنّ:. مستور اور پوشیدہ'' جَنَّ الشیء یا جَنَّ عَلیَ الشیئِ'' ، یعنی اسے ڈھانپ دیا، چھپا دیا، پوشیدہ کر دیا، جیسا کہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :
(فلما جن علیہ اللیل) جب اسے شب کے پردے نے ڈھانپ لیا۔(١)
لہٰذا جن ّو جانّ دونوں ہی درج ذیل تشریح کے لحاظ سے ناقابل دید اور پوشیدہ مخلوق ہیں۔
١۔ (وخلق الجان من مارج من نار)
جن کو آگ کے مخلوط اور متحرک شعلوں سے خلق کیا۔(٢)
٢۔ (والجان خلقناہ من قبل من نارالسموم)
اور ہم نے جن کو انسان سے پہلے گرم اور جھلسا دینے والی آگ سے خلق کیا۔(٣)
ب۔ اس سلسلے میں کہ یہ لوگ انسانوں کی طرح امتیں ہیں خدا وند عالم فرماتا ہے :
(فی اممٍ قد خلت من قبلھم من الجن والأِنس)
وہ لوگ ( جنات) اپنے سے پہلے جن و انس کی گمراہ امتوں کی سر نوشت اور ان کے انجام سے دوچار ہوگئے۔(٤)
ج۔ سلیمان نبی نے انہیں اپنی خدمت گزاری کے لئے مامور کیا ہے، اس سلسلے میںفرماتا ہے :
( و من الجن من یعمل بین یدیہ باِذن ربہ و من یزغ منھم عن امرنا نذقہ من
..............
(١)انعام ٧٦
(٢) الرحمن ١٥
(٣) حجر ٢٧
(٤)فصلت٢٥
عذاب السعیر یعملون لہ ما یشاء من محاریب و تماثیل و جفان کالجواب و قدور راسیاتٍ)
جنوں کا بعض گروہ سلیمان کے سامنے ان کے پروردگار کی اجازت سے کام کرتا تھا؛ اور ان میں سے جوبھیہمارے حکم کے برخلاف کرے گا ، اسے جھلسا دینے والی آگ کا مزہ چکھا ئیں گے؛ وہ لوگ سلیمان کے تابع فرمان تھے اور وہ جو چاہتے تھے وہ بناتے تھے جیسے ، عبادت خانے ، مجسمے ، کھانے کے بڑے بڑے ظروف جیسیحوض اور غیر منقول( اپنی جگہ سے منتقل نہ ہو نے والی) دیگیں وغیرہ۔(١)
د۔ سلیمان کے لشکر میںجن بھی شامل تھے اس سلسلے میں فرماتا ہے کہ وہ ایسے تھے کہ فلسطین اور یمن کے درمیان کے فاصلہ کوسلیمان نبی کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی طے کر کے واپس آجایا کرتے تھے۔
خدا واند عالم ان میں سے ایک کی سلیمان سے گفتگو کی یوں حکایت کرتا ہے :
(قال عفریت من الجن انا آتیک بہ قبل ان تقوم من مقامک و انی علیہ لقوی امین)
جنوں میں سے ایک عفریت (دیو)نے کہا: میں اس تخت کوآپ کے پاس،آپ کے اٹھنے سے پہلے حاضر کر دوں گا اور میں اس کام کے لئے قوی اورامینہوں۔(٢)
ھ ۔ جن غیب سے بے خبر اور ناآگاہ ہیں اس بابت فرماتا ہے۔
(فلما قضینا علیہ الموت مادلھم علیٰ موتہ الا دابة الارض تاکلمنسأتہ فلما خرَّ تبینت الجن ان لوکانوا یعلمون الغیب ما لبثوا فی العذاب المہین)
جب ہم نے سلیمان کو موت دی تو کسی نے ان کو مرنے کی خبر نہیں دی سوائے دیمک کے اس نے سلیمان نبی کے عصا کو کھا لیااور وہ ٹوٹ کر زمین پر گرگیا۔ لہٰذا جب زمین پر گر گئے تو جنوں نے سمجھا کہ اگر غیب کی خبر رکھتے تو ذلت و خواری کے عذاب میں مبتلا نہ ہوتے۔(٣)
و ۔ اورحضرت خاتم الانبیاء کی بعثت سے پہلے ان کے عقائد اور کردار کو انہیں کی زبانی بیان فرماتا ہے :
١۔(و انہ کان یقول سفیھنا علٰی اللہ شططاً)
اور ہمارا احمق ( ابلیس) خدا وند عالم کے بارے میں ناروا باتیںکہتاتھا۔(٤)
٢۔ (و انھم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث اللہ احداً)
..............
(١)سبا١٢۔١٣
(٢)سورہ ٔ نمل : ٣٩.
(٣)سبا١٤
(٤)جن٤
بیشک ان لوگوں نے ویسے ہی خیال کیاجیسے تم خیال کرتے ہوکہ خدا وند عالم کسی کو مبعوث نہیں کرے گا۔(١)
٣۔( وانہ کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوھم رھقاً)
یقینا بعض انسانوںنے بعض جنوں کی پناہ چاہی اور وہ لوگ ان کی گمراہی اور طغیانی میں اضافہ کا باعث بنے۔(٢)
ز۔ خاتم الانبیا کی بعثت کے بعد ان کی سرقت سماعت( چوری چھپے بات اچکنے ) کے بارے میں خود انہیں کی زبانی فرماتا ہے :
١۔(وانا لمسنا السماء فوجدنا ھا ملئت حرساً شدیداً و شھباً)
اور ہم نے آسمان کی جستجو کی؛ تو سبھی کو قوی الجثہ محافظوں اور شہاب کے تیروں سے لبریز پایا۔(٣)
٢۔(واِنا کنا نقعد منھا مقاعد للسمع فمن یستمع الان یجد لہ شھاباً رصداً)
اور ہم اس سے پہلے خبریں چرانے کے لئے آسمانوں پربیٹھ جاتے تھے، لیکن اس وقت اگر کوئی بات چرانے کی کوشش کرتاہے تو وہ ایک شہاب کو اپنے کمین میں پاتاہے۔(٤)
ح۔ جنوںکے اسلام لانے کے بارے میں فرماتا ہے : ان لوگوںنے کہا:
١۔(و انا منا الصالحون و منا دون ذلک کنا طرائق قدداً)
اور ہمارے درمیان صالح اور غیر صالح افراد ہیں؛ اور ہم مختلف گروہ ہیں۔(٥)
٢۔ (و انا منا المسلمون و منا القاسطون فمن اسلم فاُولائک تحروا رشداً)
ہم میں سے بعض گروہ مسلمان ہے اوربعض ظالم ؛ جو اسلام قبول کرے وہ راہ راست کا سالک ہے۔(٦)

ب۔ شیطان
شیطان، انسان جنات اور حیوانات میں سے ہر سرکش، طاغی اور متکبر کو کہتے ہیں۔
خدا وند عالم نے فرمایا ہے:
١۔(ولقد جعلنا فی السماء بروجاً و زیناھا للناظرین٭ و حفظناھا من کل شیطان
..............
(١)جن٣
(٢)جن٦
(٣)جن ٨
(٤)جن٩
(٥)جن١١
(٦)جن١٤
رجیم٭ الا من استرق السمع فاتبعہ شھاب مبین)
اور ہم نے آسمان میں برج قرار دئیے اور اسے دیکھنے والوں کے لئے آراستہ کیا اور اسے ہر شیطان رجیم اور راندہ درگاہ سے محفوظ کیا؛ سوائے ان کے جواستراق سمع کرتے ہیں او رچوری چھپے باتوں کو سنتے ہیں تو شہاب مبین ان کا پیچھا کرتا ہے اور بھگاتا ہے ۔(١)
٢۔(انا زیّنا السماء الدنیا بزینة الکواکب٭ و حفظاً من کل شیطانٍ مارد ٭لا یسمعون الیٰ الملاء الأَعلیٰ و یقذفون من کل جانبٍ٭ دحوراً ولھم عذاب واصب٭ الا من خطف الخطفة فاتبعہ شہاب ثاقب)
ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت بخشی تاکہ اسے ہرطرح کے شیطان رجیم سے محفوظ رکھیں وہ لوگ ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے اور ہر طرف سے حملہ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ وہ لوگ شدت کے ساتھ الٹے پائوں بھگا دئے جاتے ہیں اور ان کیلئے ایک دائمی عذاب ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایک لحظہ اور آن کے لئے استراق سمع کے لئے آسمان سے نزدیک ہو تے ہیں تو شہاب ثاقب ان کا پیچھا کرتا ہے۔(٢)
٣۔ (ولقد زیّنا السماء الدنیا بمصابیح و جعلنا ھا رجوماً للشیاطین واعتدنا لھم عذاب السعیر)(٣)
ہم نے آسمان دنیا کو روشن چراغوں سے زینت بخشی اور انہیں شیاطین کو دور کرنے کا تیر قرار دیا اور ان کے لئے ڈھیروں عذاب فراہم کئے۔
٤۔( وکذلک جعلنا لکل نبی عدواً شیاطین الانس و الجن یوحی بعضھم الیٰ بعض زحزف القول غروراً ولو شاء ربک ما فعلوہ فذرھم وما یفترون٭و لتصغیٰ الیہ افئدة الذین لا یؤمنون بالآخرة و لیرضوہ ولیقترفوا ما ھم مقترفون)
اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے شیاطین جن و انس میں سے دشمن قرار دیا، وہ لوگ خفیہ طور پر فریب آمیز اور بے بنیاد باتیں ایک دوسرے سے کہتے ہیں تاکہ لوگوں کو فریب دیں اور اگر پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہیں کرتے؛لہٰذا انہیں ان کی تہمتوں کے ساتھ ان کے حال پر چھوڑ دو! نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت سے انکار کرنے والوں کے دل ان کی طرف مائل ہو جائیں گے اور ان سے راضی ہو جائیں گے؛اور جو چاہیںگے گناہ انجام دیں گے۔(٤)
..............
(١)حجر١٦۔٨
(٢)صافات٦۔١٠
(٣)ملک٥
(٤)انعام١١٢۔١١٣
٥۔( انا جعلنا الشیاطین اَولیاء للذین لا یؤمنون)
ہم نے شیطانوں کو ان کا سرپرست قرار دیا ہے جو بے ایمان ہیں۔(١)
٦۔(ان المبذرین کانوا اِخوان الشیاطین و کان الشیطان لربہ کفوراً)
اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان خدا وند عالم کابہت ناشکرا ہے۔(٢)
٧۔(ولا تتبعوا خطوات الشیطان انہ لکم عدو مبین، انما یامرکم بالسوء و الفحشاء و ان تقولوا علٰی اللہ ما لا تعلمون)
شیطان کا اتباع نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ، وہ تمہیںصرف فحشا ء اور منکرات کا حکم دیتا ہے اور اس بات کا کہ جس کو تم نہیں جانتے ہو خدا کے بارے میں کہو۔(٣)
٨۔ (الشیطان یعدکم الفقر و یامرکم بالفحشاء واللہ یعدکم مغفرة منہ و فضلاً و اللہ واسع علیم)
شیطان تمہیں فقر اور تنگدستی کا وعدہ دیتا ہے اور فحشاء کا حکم دیتا ہے لیکن خدا تمہیں بخشش اور فضل کا وعدہ دیتا ہے، یقینا خدا صاحب وسعت و علم ہے ۔(٤)
٩۔(و من یتخذ الشیطان ولیاً من دون اللہ فقد خسر خسراناً مبینا٭ یعدھم و یمنیھم وما یعدھم الشیطان الا غروراً)
جو بھی خد اکے بجائے شیطان کو اپنا ولی قرار دیتا ہے ، تووہ کھلے ہوئے (سراسر) گھاٹے میں ہے، وہ انہیںوعدہ دلاتا اور آرزو مندبناتاہے جبکہ اس کا وعدہ فریب اور دھوکہ دھڑی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔(٥)
١٠۔(انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوة و البغضاء فی الخمر و المیسر و یصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوة فھل انتم منتھون)
شیطان تمہارے درمیان شراب، قمار بازی کے ذریعہ صرفبغض و عداوت ایجاد کرنا چاہتا ہے اور ذکر خدا اور نماز سے روکنا چاہتا ہے ، آیا تم لورک جاؤ گے؟(٦)
١١۔(یا بنی آدم لایفتننکم الشیطان کما اخرج ابویکم من الجنة ینزع عنھما لبا سھما
..............
(١)اعراف٢٧
(٢)اسرائ٢٧
(٣)بقرہ١٦٨۔١٦٩
(٤)بقرہ ٢٦٨.
(٥)نسائ١١٩۔١٢٠
(٦)مائدہ٩١
لیریھما سوء اتھما انہ یراکم ھو وقبیلہ من حیث لا ترونہم)(١)
اے آدم کے فرزندو! شیطان تمہیں دھوکہ نہ دے ، جس طرح تمہارے والدین کو جنت سے باہر نکالا اور ان کے جسم سے لباس اتروا دیا تاکہ ان کی شرمگاہ کوانہیں دکھلائے ، کیونکہ وہ اور اس کے ہمنوا ایسی جگہ سے تمہیں دیکھتے ہیں اس طرح کہ تم انہیں نہیں دیکھتے۔

ج۔ ابلیس
الف۔ ابلیس لغت میں اس شخص کے معنی میں ہے جو حزن و ملال، غم و اندوہ، حیرت اور ناامیدی کی وجہ سے خاموشی پر مجبور؛ اور دلیل و برہان سے عاجز ہو۔
خدا وند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے :
(ویوم تقوم الساعة یبلس المجرمون)
جب قیامت آئے گی تو گناہگار اور مجرم افراد غم و اندوہ ، یاس اور نامیدی کے دریا میں ڈوب جائیں گے۔(٢)
ب۔ قرآن کریم میں ابلیس اس بڑے شیطان کا'' اسم علم'' ہے جس نے تکبر کیا اور سجدہ آدم سے سرپیچی کی؛ قرآن کریم میں لفظ شیطان جہاں بھی مفرد اور الف و لام کے ساتھ استعمال ہوا ہے اس سے مراد یہی ابلیس ہے ۔
ابلیس کی داستان اسی نام سے قرآن کریم کی درج ذیل آیات میں ذکر ہوئی ہے:
١۔(اِذ قلنا للملائکة اسجدو لآدم فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربہ افتتخذونہ و ذریتہ اولیاء من دونی و ھم لکم عدوبئس للظالمین بدلاً)
جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کا سجدہ کرو! تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جوقوم جن سے تھا اور حکم الٰہی سے خارج ہو گیا ! آیا اسے اور اس کی اولاد کو میری جگہ پر اپنے اولیاء منتخب کرتے ہو جب کہ وہ لوگ تمہارے دشمن ہیں؟ ستمگروں کے لئے کتنا برابدل ہے ۔(٣)
٢۔(ولقد صدق علیھم ابلیس ظنہ فأتبعوہ الا فریقاً من المؤمنین وما کان لہ علیہم من
..............
(١)اعراف٢٧
(٢)روم
١٢(٣)کہف٥٠
سلطانٍ...)
یقینا ابلیس نے اپنے گمان کو ان کے لئے سچ کر دکھایا اور سب نے اس کی پیروی کی سواء کچھ مومنین کے کیونکہ وہ ان پر ذرہ برابر بھی تسلط نہیں رکھتا۔(١)
اس کی داستان دوسری آیات میں شیطان کے نام سے اس طرح ہے :
١۔(فوسوس لھما الشیطان لیبدی لھما ما ووری عنھما من سوأتھما...و ناداھما ربھما الم انھکما عن تلکما الشجرة واقل لکما ان الشیطان لکما عدو مبین)
پھر شیطان نے ان دونوں کو ورغلایا تاکہ ان کے جسم سے جو کچھ پوشیدہ تھا ظاہر کرے اور ان کے رب نے انہیں آواز دی کہ کیا تمہیں میں نے اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟! اور میں نے نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ؟!(٢)
٢۔(الم اعھد الیکم یا بنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان انہ لکم عدو مبین)
اے آدم کے فرزندو! کیا میں نے تم سے عہد نہیںلیا کہ تم لوگ شیطان کی پیروی نہ کروکیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے؟!(٣)
٣۔(ان الشیطان لکم عدو فاتخذوہ عدواً انما یدعوا حزبہ لیکونوا من اصحاب السعیر) (٤)
یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے لہٰذا اسے دشمن سمجھو وہ صرف اپنے گروہ کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اہل نار ہوں!

کلموںکی تشریح
١۔ مارج: مرج مخلو ط ہونے کے معنی میں ہے اور مارج اس شعلہ کو کہتے ہیں جو سیاہی آتش سے مخلوط ہو۔
٢۔ سموم: دو پہر کی نہایت گرم ہوا کو کہتے ہیں، اس وجہ سے کہ زہر کے مانند جسم کے سوراخوں کے اندر اثر کرتی ہے ۔
٣۔ یزغ : منحرف ہوتا ہے ، و من یزغ منھم عن امرنا، یعنی تمام ایسے لوگ جو راہ خدا سے
..............
(١)سبا٢٠۔٢١
(٢)اعراف٢٠۔٢٢
(٣)یس٦٠
(٤)فاطر ٦.
منحرف ہوتے ہیں۔
٤۔ محاریب: جمع محراب، صدر مجلس یا اس کی بہترین جگہ کے میں ہے یعنی ایسی جگہ جو بادشاہ کو دوسرے افراد سے ممتاز کرتی ہے وہ حجرہ جو عبادت گاہ کے سامنے ہوتا ہے ، یاوہ مسجدیںجہاں عبادت ہوتی ہے ۔
٥۔ جفان : جفنہ کی جمع ہے ،کھانا کھانے کا ظرف اور برتن۔
٦۔ جواب:کھانا کھانے کے بڑے بڑے ظروف کو کہتے ہیں جو وسعت اور بزرگی کے لحاظ سے حوض کے مانند ہوں۔
٧۔ راسیات:راسیہ کی جمع ہے ثابت اور پایدار چیز کو کہتے ہیں۔
٨۔ عفریت: (دیو)جنوںمیں سب سے مضبوط اور خبیث جن کو کہتے ہیں۔
٩۔ رصد : گھات میں بیٹھنا، مراقبت کرنا، راصد و رصد یعنی پاسدار و نگہبان ''رصدا'' آیت میں کمین کے عنوان سے محافظ کے لئے استعمال ہوا ہے ۔
١٠۔ طرائق: طریقہ کی جمع ہے یعنی راہ، روش اور حالت خواہ اچھی ہو یا بری۔
قدداً: قدة کی جمع ہے جو ایسے گروہ اور جماعت کے معنی میں ہے جس کے خیالات جدا جدا ہوں اور طرائق قدداً یعنی ایسی پارٹی اور گروہ جس کے نظریات الگ الگ ہوں اور سلیقے فرق کرتے ہوں۔
١١۔ قاسطون:قاسط کی جمع ہے اور ظالم کے معنی میں ہے ، قاسطان جن ،ان ستمگروں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا ہے ۔
١٢۔ رشد: درستگی اورپائداری ؛ضلالت و گمراہی سے دوری۔
١٣۔سفیہ: جو دین کے اعتبار سے جاہل ہو؛ یابے وقوف اوربے عقل ہو۔
١٤۔ شطط: افراط اور زیادہ روی؛ حق سے دوررہ کر افراط اور زیادہ روی کو کہتے ہیں۔(وقلنا علیٰ اللہ شططاً) یعنی حق سے دور باتوں کے کہنے اور خدا کی طرف ظالمانہ نسبت کے دینے میں ہم نے افراط سے کام لیا۔
١٥۔ یعو ذون:پناہ مانگتے ہیں، یعوذبہ ، اس کی پناہ چاہتے ہیں اور خود کو اس سے منسلک کرتے ہیں۔
١٦۔ رھقاً:طغیاناً و سفھاً ''زادوھم رھقا''یعنی ان کی سرکشی ، بیوقوفی اورذلت و خواری میں اضافہ ہوا۔
١٧۔ دابةالارض:زمین پر چلنے والی شۓ ، دابة تمام ذی روح کا نام ہے خواہ نر ہوں یا مادہ، عاقل ہوں یا غیر عاقل لیکن زیادہ تر غیر عاقل ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہاں پر ''دابة الارض'' سے مراددیمک ہے جو لکڑی کو کھا جاتی ہے ۔
١٨۔ منساتہ:اس کا عصا، عرب جس لکڑی سے جانوروںکو ہنکاتے ہیں اس کو منساة کہتے ہیں۔
١٩۔ غیب:غیر محسوس، یعنی ایسی چیز جو حواس کے ذریعہ قابل درک نہ ہو اور حس کی دسترس سے باہر ہو یا پوشیدہ ہو؛ جیسے : خدا وند خالق اور پروردگار کہ جس تک انسان اپنی عقل اور تدبیرکے سہارے اسباب و مسببات میں غور و فکر کر کے پہنچتا ہے اور اسے پہچانتا ہے نہ کہ حواس کے ذریعہ اس لئے کہ نگاہیں اسے دیکھ نہیں سکتیں اس کی بے مثال ذات حس کی دسترس سے باہر اور حواس اس کے درک سے عاجز اور بے بس ہیں، نیز جو چیزیں پوشیدہ اور مستور ہیں جیسے وہ حوادث جو آئندہ وجود میں آئیں گے یا ابھی بھی ہیں لیکن ہم سے پوشیدہ ہیں اور ہمارے حواس سے دور ہیں، یا جو کچھ انبیاء کی خبروں سے ہم تک پہنچا ہے ،یہ دونوں قسمیں یعنی : وہ غیب جس تک رسائی ممکن نہیں ہے اور حواس کے دائرہ سے باہر ہیں،یاوہ غیب جوزمان اور مکان کے اعتبار سے پوشیدہ ہے یا وہ خبریں جو دورو دراز کے لوگوں سے ہم تک پہنچتی ہیں ساری کی ساری ہم سے غائب اور پوشیدہ ہیں۔
٢٠۔ رجوم: رجم اور رُجْم کی جمع ہے یعنی بھگانے اور دور کرنے کا ذریعہ
٢١۔زخرف:زینت، زخرف القول: باتوںکو جھوٹ سے سجانا اور آراستہ کرنا۔
٢٢۔ یوحی : یوسوس، ایحاء یہاں پر وسوسہ کرنے کے معنی میں استعمال ہواہے ۔
٢٣۔ غرور: باطل راستہ سے دھوکہ میں ڈالنا اور غلط خواہش پیدا کرنا۔
٢٤۔ یقترف ومقترفون: یقترف الحسنة او السیئة، یعنی حاصل کرتا ہے نیکی یا برائی، مقترف ، یعنی : کسب کرنے اور عمل کرنے والا۔
٢٥۔مبذرین : برباد کرنے والے ، یعنی جو لوگ اپنے مال کو اسراف کے ساتھ عیش و عشرت میں صرف کرتے ہیں۔ اور اسے اس کے مصرف کے علاوہ میں خرچ کرتے ہیں۔
٢٦۔ خطوات الشیطان: شیطان کے قدم، خطوہ یعنی ایک قدم، ولا تتبعوا خطوات الشیطان یعنی شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو اور اس کے وسوسوں کی جانب توجہ نہ کرو۔
٢٧۔ فحشائ:زشت اور بری رفتار و گفتار اور اسلامی اصطلاح میںنہایت برے گناہوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
٢٨۔ مَیْسِر:قمار ( جوا) زمانہ جاہلیت میں عربوں کا قمار''ازلام'' اور ''قداح''کے ذریعہ تھا۔
ازلام : زَلَم کی جمع، تیر کے مانند لکڑی کے ایک ٹکڑے کو کہتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک پر لکھتے تھے: میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے اور دوسرے پر لکھتے تھے کہ میرے پروردگار نے نہی کی ہے اور تیسرے کو بدون کتابت چھوڑ دیتے تھے اور ایک ظرف میں ڈال دیتے تھے اگر امر و نہی میں سے کوئی ایک باہرآتا تھا تو اس پر عمل کرتے تھے۔ اوراگر غیر مکتوب نکلتا تھا تو دوبارہ تیروں کو ظرف میں ڈال کر تکرار کرتے تھے، ازلام کو قریش ایام جاہلیت میں کعبہ میں قرار دیتے تھے تاکہ خدام اور مجاورین قرعہ کشی کا فریضہ انجام دیں۔
قِداح: قدح کی جمع ہے لکڑی کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جو طول میں دس سے ١٥ سینٹی میٹر اور عرض میں کم، وہ صاف اور سیدھا ہوتا ہے کہ ایک پر ''ہاں'' اور دوسرے پر ''نہیں'' اور تیسرے کو بدون کتابت چھوڑ دیتے تھے اور اس کے ذریعہ جوا اور قرعہ انجام دیتے تھے۔
٢٩۔ سوأئتھما: عوراتھما، ان دونوں کی شرمگاہیں۔
٣٠۔قبیل:ایک جیسا گروہ اور صنف، ماننے والوں کی جماعت کہ آیہ میں : انہ یراکم ھو و قبیلہ اس سے مراد شیطان کے ہم خیال اور ماننے والے ہیں۔
٣١۔ فَسَقَ فسق، لغت میں حد سے تجاوز کرنے اور خارج ہونے کو کہتے ہیں۔ اور اسلامی اصطلاح میں حدود شرع اور اطاعت خداوندی سے فاحش اور واضح دوری کو کہتے ہیںیعنی بدرفتاری اور زشت کرداری کے گندے گڑھے میںگر جانے کو کہتے ہیں؛ فسق کفر، نفاق اورگمراہی سے اعم چیز ہے ۔ جیسا کہ خداوند سبحان فرماتا ہے :
١۔(وما یکفر بھا الا الفاسقون)
فاسقوں کے علاوہ کوئی بھی میری آیتوں کا انکار نہیں کرتا۔(١)
٢۔(ان المنافقین ھم الفاسقون) یقینا منافقین ہی فاسق ہیں۔(٢)
..............
(١)بقرہ٩١
(٢)توبہ٦٧
٣۔ (فمنھم مہتدٍ و کثیر منھم فاسقون)
ان میں سے بعض ہدایت یافتہ ہیں اور بہت سارے فاسقہیں۔(١)
فسق ایمان کے مقابل ہے جیسا کہ ارشادہوتاہے:
(منھم المؤمنون واکثرھم الفاسقون)
ان میں سے بعض مومن ہیں اور زیادہ تر فاسق ہیں۔(٢)
د۔ روائی تفسیر میں جن کی حقیقت
سیوطی نے سورۂ جن کی تفسیر میں ذکر کیا ہے :
جنات حضرت عیسیٰ اور حضرت محمدۖ کے درمیان فاصلہ کے دوران آزاد تھے اور آسمانوں پر جاتے تھے،جب خداوند عالم نے حضرت محمدۖ کو مبعوث کیا تو آسمان دنیا میں ان کا جانا ممنوع ہو گیا اور ان کاشہاب ثاقب کے ذریعہ پیچھا کیا جاتا تھا اور بھگا دیا جاتا تھا۔ جنات نے ابلیس کے پاس اجتماع کیا تو اس نے ان سے کہا: زمین میں کوئی حادثہ رونما ہوا ہے جائو گردش کرو اور اس کا پتہ لگائو اور مجھے اس واقعہ سے باخبر کرو کہ وہ حادثہ کیا ہے ؟ پھر اکابر جنوں کے ایک گروہ کو یمن اور تہامہ کی طرف روانہ کیا ۔ تو ان لوگوں نے پیغمبر اکرمۖ کو نمازصبح کی ادائیگی میں مشغول پایا جو ایک خرمہ کے درخت کے کنارے قرآن پڑھ رہے تھے؛ جب ان کے قریب گئے تو آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے: خاموش رہو،آپ ۖجب نماز سے فارغ ہوئے تو وہ سب کے سب اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور انذار میں مشغول ہو گئے کیونکہ ایمان لا چکے تھے پیغمبر بھی ان کی طرف اس آیت کے نزول سے پہلے متوجہ نہیں ہوئے تھے ۔
(قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن)
کہو!مجھے وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنوںنے میری بات پر کان دھرا.
کہاجاتا ہے کہ یہ گروہ اہل نصیبین کے سات لوگوں کا تھا۔(٣)
جو کچھ بیان ہوا ہے جن، شیاطین اور ابلیس کے مختصر حالات تھے جو قرآن کریم میں ذکر ہوئے ہیں لیکن جو کچھ روایات میں ذکر ہوا ہے وہ در ج ذیل ہے :
..............
(١)حدید٢٦
(٢)آل عمران١١٠
(٣) تفسیر الدر المنثور ج٦ ص ٢٧٠.
١۔ امام باقر نے سلیمان کے سلسلے میں فرمایا: سلیمان بن داؤد نے ایک دن اپنے ساتھیوں سے کہا: خداوند عالم نے مجھے ایسی بادشاہی عطا کی ہے کہ اس سے پہلے کسی کو عطا نہیں ہوئی ہے ، ہوا کو میرے قبضہ میں قرار دیا اور انسان و جن،وحوش و طیور کو میر امطیع اور فرمانبردار بنایا مجھے پرندوں سے بات کرنے کا سلیقہ دیا حتیٰ سب کچھ مجھے دیا ہے ، لیکن ان تمام نعمتوں اور بادشاہی کے باوجود ایک دن بھی خوشی نصیب نہیں ہوئی لیکن کل اپنے قصرمیں داخل ہونا چاہتا ہوںتاکہ اس کی بلندی پر جا کر اپنے تحت فرمان ز مینوں کا نظارہ کروں گا لہٰذا کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا تاکہ میں آسودہ خاطر رہوں اور کوئی ایسی چیز سننا نہیں چاہتا جو آج کے دن کو بد مزہ اور مکدر بنا دے ان لوگو ں نے کہا: جی ہاں ، ایسا ہی ہوگا۔
آنے والے کل کو اپنا عصا ہاتھ میں لیا اور اپنے قصر کی بلند ترین جگہ پر گئے اور اپنے عصا پر ٹیک لگا کر خوش و خرم اپنی سر زمین کا تماشہ کرنے لگے اور جو کچھ انہیں عطا ہوا تھا اس پرخوش حال ہوئے۔
اچانک ایک خوبرو، خوش پوشاک جوان پر نظر پڑ گئی، جوقصر کے ایک زاوئیے سے ان کی طرف آرہا تھا۔سلیمان نے اس سے پوچھا : کس نے تم کو اس قصر میں داخل کیا ہے جب کہمیں نے طے کیا تھا کہ آج قصر میں تنہا رہوں ؟ بتائو تاکہ میں بھی جانوں کہ کس کی اجازت سے داخل ہوئے ہو؟ اس جوان نے کہا: اس قصر کا پروردگار مجھے یہاں لایا ہے اور میں اس کی اجازت سے داخل ہوا ہوں؟ سلیمان نے کہا: قصر کا پروردگار اس کے لئے مجھ سے زیادہ سزاوار ہے ، تم کون ہو؟ کہا: میں موت کا فرشتہ ہوں، سلیمان نے کہا: کس لئے آئے ہو؟ کہا : آپ کی روح قبض کرنے آیا ہوں؛ کہا: جس بات کا تمہیں حکم دیا گیا ہے وہ انجام دو اس لئے کہ آج کا دن میری خوشی کا دن ہے خدا وند عالم اپنی ملاقات کے علاوہ کوئی اور خوشی میرے لئے نہیں چاہتا! پھر ملک الموت نے سلیمان کی روح اسی حال میں کہ اپنے عصا پرتکیہ کئے ہوئے تھے قبض کر لی۔
سلیمان مدتوں اپنے عصا پر تکیہ دئے کھڑے رہے لوگ انہیں دیکھ کر زندہ خیال کر رہے تھے، پھر اختلاف اور فتنہ میں مبتلا ہوگئے ان میںسے بعض نے کہا: سلیمان اتنی مدت تک بغیر سوئے ، تھکے ، کھائے، پئے اپنے عصا کے سہارے کھڑے رہے لہٰذا یہی ہمارے پروردگار ہیں لہٰذ ا ان ہی کی عبادت کرنی چاہئے، دوسرے گروہ نے کہا: سلیمان نے جادو کیا ہے وہ جادو کے ذریعے ایسا دکھار ہے ہیں کہ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے عصا پر ٹیک لگائے ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے ۔ مومنوں نے کہا: سلیمان نبی ہیں اور خدا کے بندے ہیں ، خدا جس طرح چاہے انہیں نمایاںکرے۔
اس اختلاف کے بعد، خدا وند عالم نے دیمکوںکو بھیجا تاکہ سلیمان کے عصا کو چاٹ جائیں، عصا ٹوٹا اور سلیمان اپنے قصر سے گر پڑے، یہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :
(فلما خرَّ تبینت الجن ان لو کانوا یعلمون الغیب ما لبثوا فی العذاب المہین)
جب زمین پر گرے تو جنوں نے سمجھا کہ اگر غیب سے آگاہ ہوتے تو خوار کنندہ عذاب میںمبتلا نہیںہوتے۔(١)
٢۔ امام صادق سے سوال ہوا :خدا وند عالم نے کس لئے آدم کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا اور عیسیٰ کو بغیر باپ کے خلق کیا اور باقی لوگوں کو ماں باپ دونوں سے؟ تو امام نے جواب دیا: اس لئے کہ لوگ خدا وند عالم کی قدرت کی تمامیت اور کمال کو جانیں اور سمجھیں کہ جس طرح وہ اس بات پر قادر ہے کہ کسی موجود کوفقط مادہ سے بغیر نر کے خلق کرے اسی طرح وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ موجود کو بغیر نر و مادہ کے خلق کرے۔ خداوندعالم نے ایسا کیا تاکہ اندازہ ہو کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ (٢)
قصص الانبیاء میں ذکر ہوا ہے :
خدا وند عالم نے ابلیس کو حکم دیا تاکہ آدم کا سجدہ کرے، ابلیس نے کہا: پروردگارا تیری عزت کی قسم! اگر مجھے آدم کے سجدہ سے معاف کر دے تو میں تیری ایسی عبادت کروں گا کہ کسی نے ویسی تیری عبادت نہیں کی ہوگی، خدا وند عالم نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ میری خواہش کے مطابق میری اطاعت ہو..۔(٣)
آپ سے ابلیس کے بارے میں پوچھا گیا: آیا ابلیس فرشتوں میں سے تھا یا جنوں میں سے ؟ فرمایا: فرشتے اسے اپنوں میں شمار کرتے تھے اور صرف خدا جانتا تھاکہ ابلیس ان میں سے نہیں ہے ۔ پھر جب سجدہ کا حکم دیا گیا تو اس نے اپنی حقیقت ظاہر کر دی۔
آپ سے بہشت آدم کے بارے میں سوال کیا گیا: آپ نے فرمایا: دنیاوی باغوں میں سے ایک باغ تھا جس پر ماہ وخورشید کی روشنی پڑتی تھی ، کیونکہ اگر وہ جاویدانی باغوں میں سے ایک باغ ہوتا تو ہرگز وہاں سے باہر نہیں کئے جاتے۔(٤)
خدا وند عالم کے کلام (فبدت لھما سؤائتھما)برائیاں ان پر واضح ہوگئیں ۔ (٥) کے بارے میں
..............
(١)سورہ ٔ سبا ء ١٤.اور بحار الانوار : ج ١٤، ص ١٣٦ ، ١٣٧، بحوالہ ٔ علل الشرائع و عیون اخبار الرضا ـ.
(٢) بحار الانوار :ج ١١، ص ١٠٨.
(٣) بحار الانوار : ج١١، ص٤٤ا.
(٤) بحار الانوار : ج١١، ص١٤٣.
(٥)سورہ ٔ طہ:آیت ١٢١.
سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: ان دونوں کی شرمگاہیں ناقابل دید تھیں پھر اس کے بعد آشکار ہو گئیں۔(١)
ایک کافر اور زندیق نے امام صادق سے سوال کیا:
کہانت: (ستارہ شناسی، غیب گوئی )کس طرح اور کس راہ سے وجود میں آئی؟ اور کاہن کہاں سے لوگوں کو حوادث کی خبر دیتے تھے؟ امام نے فرمایا: کہانت زمانہ جاہلیت اور انبیاء کی فترت کے دور میں وجود میں آئی ہے ، کاہن قاضی اور فیصلہ کرنے والوں کی طرح ہوتا تھا اور لوگ جن مسائل میں مشکوک ہوتے تھے انکی طرف رجوع کرتے تھے اور وہ لوگوںکو حوادث اور واقعات کی خبر دیتے تھے یہ خبر دینا بھی مختلف راہوں سے تھا جیسے ذکاوت،ہوشیاری، وسوسہ نفس اور روح کی زیر کی اسی ساتھ شیطان بہت سی باتیں کاہن کے دل میں القاء کردیتا تھا، اس لئے کہ شیطان ان مطالب کو جانتا تھا اور انہیں کاہن تک پہنچاتا تھا اور اسے اطراف و جوانب کے حوادث اور روداد سے با خبر کرتا تھا۔
رہا سوال آسمانی خبروں کا: جب تک شیاطین شہاب کے ذریعہ آسمان سے بھگائے نہیںجاتے تھے اور آسمانی اخبار کے سننے، کے لئے کوئی حجاب اور مانع نہیں تھا وہ مختلف جگہوں پر چوری چھپے بات سننے کے لئے گھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور ان اخبار کو سنتے تھے، ان لوگوں کی چوری چھپے سننے سے ممانعت کی وجہ بھی یہ تھی کہ زمین پر وحی آسمانی کے مانندکوئی ایسی چیز وجود میں نہ آئے جو لوگوں کو شک و تردید میں مبتلا کردے اور وحی خداوندی کی حقیقت ان سے مخفی رکھے وحی جسے خدا وند عالم حجت ثابت کرنے اور شبہوں کو بر طرف کرنے کے لئے بھیجتا ہے اسی جیسی کوئی دوسری چیز نہیں ہونی چاہئے۔
ایک شیطان استراق سمع کے ذریعہ اخبار آسمانی سے ایک کلمہ حوادث زمین کے بارے میں سن کر اچک لیتا تھا اور اسے زمین پر لاکر کاہن کو القا کر دیتا تھا کاہن بھی اپنی طرف سے چند اس پرکلموں کااضافہ کر تا اور حق و باطل کو ملا دیتاتھا۔
لہٰذا جو کچھ کاہن کی پیشین گوئی درست ہوتی تھی وہ وہی چیز تھی جسے شیطان نے سن کر اس تک پہونچائی تھی اور جو غلط اور نادرست ہو جاتی تھی وہ اس کی اپنی طرف سے اضافی اور باطل باتیں ہوتی تھیں اور جب شیاطین استراق سمع سے روک دیئے گئے تو کہا نت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔
آج کل شیاطین صرف لوگوں کی خبریں کا ہنوں تک پہنچاتے ہیں،لوگ جن چیزوں سے متعلق بات کرتے
..............
(١) بحار الانوار : ج١١، ص١٤٥.
ہیں اور جو کام کرنا چاہتے ہیں شیاطین حوادث و روداد خواہ قریب کے ہوں یا دور کے جیسے چوری، قتل اور لوگوں کا گم ہو جانا ،دوسرے شیاطین تک پہنچادیتے ہیں،یہ لوگ بھی انسانوں کی طرح جھوٹے اور سچے ہیں۔
اس زندیق نے امام سے کہا: شیاطین کس طرح آسمان پر جاتے تھے جبکہ وہ بھی دیگرانسانوںکی طرح غلیظ پُر اوربھاری بدن رکھتے ہیں اور سلیمان بن داؤد کے لئے ایسی عمارتیں بنائی کہ بنی آدم کے بس کی بات نہیں تھی؟
امام نے فرمایا: جس وقت وہ جناب سلیمان نبی کے لئے مسخر ہوئے اسی وقت وہ سنگین، غلیظ اورپُر وزن ہو گئے ورنہ وہ تو نرم و نازک مخلوق ہیں ان کی غذا سونگھنا ہے اس کی دلیل ان کا آسمان پر استراق سمع کے لئے جانا ہے ، بھاری بھرکم اور وزنی جسم اوپر جانے کی صلاحیت نہیں رکھتا مگر یہ کہ زینہ ہو یا کوئی اور ذریعہ۔(١)
ابلیس کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں کہ: کیا ابلیس فرشتوں میں سے ہے ؟ اورکیا وہ آسمانی امور میں دخالت رکھتا ہے ؟ فرمایا:ابلیس نہ تو فرشتوں میں سے تھا اور نہ ہی اس کا آسمانی امور میں کوئی دخل تھا وہ فرشتوں کے ساتھ تھا اور ملائکہ اسے اپنوں ہی میں خیال کرتے تھے یہ تو صرف خدا جانتا تھا کہ وہ ان میں سے نہیں ہے ، جب اسے آدم کے سجدہ کا حکم دیا گیا تو وہ چیز اس سے ظاہر ہو گئی جو اس کے اندر تھی ۔(٢)

جن ، شیاطین اور ابلیس کے بارے میں بحث کا خلاصہ

١۔ جن:
ایک پوشیدہ مخلوق ہے جو قابل دید نہیں ہے خدا وند عالم نے قرآن کریم میں جنوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ جنوںکو آگ کے سیاہی مائل شعلوں سے خلق کیا ہے ۔

٢۔ شیطان :
انسان ، جنات اور حیوان میں سے ہر سر کش اور متکبر شخص کو کہتے ہیں ، اس بحث میں شیطان سے مراد شیاطین جن ہیں ۔

٣۔ ابلیس:
محزون، حیرت زدہ اور دلیل و برہان سے ناامید اورخاموش، محل بحث ابلیس وہی جنی مخلوق ہے جو آدم کے سجدے کا منکر ہوا۔
خدا وند عالم نے جناتوں کی داستان اور ان کا سلیمان نبی کے تابع فرمان ہونا اور ان کے لئے مجسمے ، محراب بڑے بڑے ظروف بنانے اور یہ کہ ان کے درمیان کوئی ایسا تھا جو سلیمان کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی تخت بلقیس یمن سے شام لے آئے ان تمام چیزوں کی خبر دی ہے، اسی طرح جناب سلیمان کا ان پر تسلط جب کہ عصا
..............
(١) خصال شیخ صدوق : ج ١، ص ١٥٢.
(٢)بحار : ج ١١، ص ١١٩.
کے سہارے کھڑے تھے اور خدا وند عالم ان کی روح قبض کر چکا تھا؛ نیز یہ بھی کہ مدتوں بعد تک اپنی جگہ پر باقی رہے یہاں تک کہ دیمکوں نے عصا کے اندر داخل ہو کر پورے عصا کو چاٹ ڈالا اور سلیمان گر پڑے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر جنوںکو اس کی خبر ہوتی اور غیب جانتے ہوتے تو اتنی مدت تک اپنے کاموں میں ثابت قدمی کا مظاہرہ نہ کرتے اور سختی برداشت نہ کرتے۔
خدا وند عالم نے ان تمام چیزوں کو قرآن کریم میں ہمارے لئے بیان کیا ہے ۔
خدا وند عالم نے فرمایا: شیاطین جنوں میں سے ہے، وہ لوگ مختلف جگہوں پر استراق سمع کے لئے کمین کرتے تھے تاکہ فرشتوں کی باتیں چرالائیں لہٰذا خاتم الانبیاء ۖ کی بعثت کے بعد خدا وند عالم نے انہیں اس کام سے روک دیا اور فرشتوں سے کہا کہ انہیں آتشی شہاب کے ذریعہ بھگا کر جلا ڈالو، اسی طرح ابلیس کی داستان اور آدم و حوا کے بہکانے اور بہشت سے خارج کرنے تک کا واقعہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے ، اس کی تفصیل آئندہ بحث میں آئے گی۔