نام کتاب : اسلام کے عقائد(پہلی جلد )
 
٢۔ السمٰوات و الارض و سماء الارض

پہلے۔ السماء والسمٰوات
الف: ۔سمائ
سماء اور اس کے معنی زبان عرب میں ارتفاع اور بلندی کے ہیں اورآسمان ہر چیز کا اوپری حصہ ہے یعنی جو چیز اوپر سے تم پر سایہ فگن ہواور ڈھانپ لے وہ سماء کہلاتی ہے:
٢۔ سماء اور اس کے معنی قرآن کریم میں : سماء قرآن کریم میں جہاں پر مفرد (واحد)استعمال ہوتا ہے کبھی زمین پر محیط اور اس سے متعلق فضا کے معنی میں ہے جیسے یہ آیتیں:
١۔(اَلم یروا الیٰ الطّیر مسخرات فی جو السمائ)
آیا وہ لوگ آسمانی فضا میں مسخر پرندوں کی طرف نہیں دیکھتے؟(١)
٢۔ (و اَنزل من السماء مائً فاَخرج بہ من الثمرات رزقاً لکم)
اور اس نےآسمان سے پانی برسایا اور اس سے میوے نکالے تاکہ تمہاری روزی مہیا ہو سکے۔(٢)
اس لئے کہ انسان غیر مسلح آنکھوں سے بھی پرندوں کو فضا کے اطراف میں اور زمین کے او پر پروازکرتے دیکھتا ہے نیز پانی کابرسنا بھی مسخر بادلوں سے آسمان پر مشاہدہ کرتا ہے ۔
انسان کبھی پہاڑ سے اوپر جاتا ہے جبکہ خورشیدکو اس سے اوپر آسمان میں نور افشانی کرتے دیکھتا ہے اور بادلوں کو پائوں کے نیچے اور اسی زمین و آسمان کے ما بین فضا میں یااس آسمان کے درمیان جو زمین کے اوپر محیط ہے دیکھتا ہے۔
..............
(١)نحل ٧٩
(٢)بقرہ٢٢
اور کبھی آسمان ان سب چیزوں کے معنی میں ہے جو زمین کے اوپر پائی جاتی ہیں جیسے ساتوں آسمان اور ستارے وغیرہ ،جیسا کہ فرماتا ہے :
١۔(ثم استویٰ الیٰ السماء فسواھن سبع سمٰوات)
پھر آسمان کی طرف توجہ کی پھر سات آسمان مرتب خلق کئے۔(١)
٢۔ (وما من غائبةٍ فی السماء و الارض الا فی کتابٍ مبین)
زمین و آسمان کے درمیان کوئی پوشیدہ چیزنہیںمگر یہ کہ وہ کتاب مبین میں ثبت ہے ۔(٢)
٣۔ (یوم نطوی السماء کطی السجل للکتب)
جس دن ہم آسمان کو خطوں کے ایک طومار کی شکل میں لپیٹیں گے...۔(٣)
یہاں پر آسمان سے مراد تمام وہ چیزیں ہیں جو زمین سے اوپر ہیں اور زمین اس کے نیچے اور زیر قدم واقع ہوتی ہے۔ یعنی ساتوں آسمانوں اور ان کے علاوہ چیزیںجو زمین کے اوپر ہیں۔

ب: السمٰوات
قرآن کریم میں سمٰوات سے مراد ساتوں آسمان ہیں۔ جیسا کہ فرمایا:
(ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ثم استویٰ الیٰ السماء فسواٰھن سبع سمٰوات و ھو بکل شیئٍ علیم)
وہ خداوہ ہے جس نے تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے پیدا کیا ہے پھر آسمان کی طرف توجہ کی تو انہیں سات آسمان کی شکل میں مرتب کیا وہ ہر چیز سے آگاہ ہے۔(٤)

دوسرے ۔ الارض
ارض: زمین ،قرآن کریم میں (٤٥١) مرتبہ مفرد اور ایک مرتبہ کلمہ سمٰوات کے ساتھ اور اس پر عطف کی صورت میں استعمال اس طرح سے ہوا ہے :
(اللہ خلق سبع سمٰوات و من الارض مثلھن... )
خدا وند عالم وہ ہے جس نے سات آسمانوں کو خلق کیا نیز انہیں کے مثل زمینوں کو بھی۔(٥)
..............
(١)بقرہ ٢٩
(٢)نمل٧٥
(٣)انبیاء ١٠٤
(٤)بقرہ٢٩
(٥)طلاق١٢.
ہم اس آیت میںجو زمین و آسمان کے درمیان مشابہت دیکھتے ہیں اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ خلقت کے اعتبار سے یہ دونوں ایک جیسے ہیں نہ یہ کہ تعداد میں اب اگر یہ کشف ہو جائے کہ زمین کے بھی سات طبقے ہیں تو اس سے زمین و آسمان کے طبقات کی تعداد میں مشابہت مراد ہوگی۔

تیسرے۔ سمٰوات و ارض کی خلقت
قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں زمین و آسمان کی خلقت اور اس کے آغاز کی طرف اشارہ ہواہے ایسی آیتوں کی تفسیر کے لئے جن کا موضوع ہمارے حس وتجربہ کی دسترس سے باہر ہے لہٰذاصرف ہم اس کی طرف رجوع کریں جس کا خدا کی طرف سے قرآن کے مفسر اور مبین کی حیثیت سے تعارف ہواہے جس کے بارے میں خدا وند عالم فرماتا ہے:
(و انزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم)
ہم نے اس قرآن کو تم پر نازل کیا تاکہ لوگوں کو جو ان پر نازل ہواہے بیان کرو۔(١)
اس سلسلے میںاور ابتدائے خلقت کے بارے میں رسول خداۖ سے بہت ساری روایتیں موجود ہیں لیکن یہ احادیث چونکہ احادیث احکام جیسی نہیں ہیں کہ جن میں علماء فن کے ذریعہ سند و متن کی تحقیق کی گئی ہو نیز یہاں پر بھی ایسی تحقیق و بررسی کا موقع نہیںہے لہٰذاناچار ایسے حالات میں ہم ابتدائے خلقت کے متعلق اپنی تحقیق میں جو کچھ ظواہر آیات سے سمجھ میں آتا ہے اسی پر اکتفا کرتے ہیں، نیزان روایات کا بھی سہارا لیں گے جو صحت کے اعتبار سے اطمینان بخش اور ظن قوی کی مالک ہیں ،خدا وند عالم سے توفیق کی درخواست کرتے ہوئے کہتے ہیں:

آغاز خلقت
خداوند عالم نے آغاز خلقت و آفرینش نیز اس کے بعدکی کیفیت قرآن کریم میں اس طرح بیان فرمائی ہے:
١۔ (ھو الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام و کان عرشہ علیٰ المائ)
وہ خداوہ ہے جس نے زمین و آسمان کوچھ دنوں یا چھ مراحل میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر قرار پایا۔(٢)
٢۔(ان ربکم اللہ الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام ثم استویٰ علیٰ العرش یدبر الامر)
..............
(١)نحل٤٤
(٢)ہود٧.
یقینا تمہار ا رب اللہ ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دنوںمیں خلق کیا پھر وہ عرش قدرت پر مسلط ہو گیا اور وہی امور کی تدبیر کرتا ہے ۔(١)
٣۔(الذی خلق السمٰوات و الارض وما بینھما فی ستة ایام ثم استویٰ علیٰ العرش الرحمن فاسئل بہ خبیراً)
خدا وند عالم نے زمین و آسمان نیز اس کے ما بین چیزوں کو چھ دنوں میں خلق کیا پھر عرش قدرت پر مسلط ہو گیا جو چاہئیے اس سے مانگو کہ وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے۔(٢)
٤۔(اولم یر الذین کفروا ان السمٰوات و الارض کا نتا رتقا ففتقناھما و جعلنا من الماء کل شیء حی افلا یؤمنون)(٣)
کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان ایک دوسرے سے متصل اور جڑے ہوئے تھے اور ہم نے انہیں ایک دوسرے سے الگ کیا اور ہر زندہ شیء کو پانی سے بنایا؟! کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟!
٥۔(ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ثم استویٰ الیٰ السماء فسواھن سبع سمٰوات و ھوبکل شیء علیم)
وہ خدا وہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین میں موجود تمام چیزوں کو پیدا کیا؛ پھر آسمان کی تخلیق شروع کی اور انہیں سات آسمان کی صورت میں ترتیب دیا؛ وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے ۔(٤)
٦۔ (قل ء أنکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین و تجعلون لہ انداداً ذلک رب العالمین٭ و جعل فیھا رواسی من فوقھا و بارک فیھا و قدر فیھا اقواتھا فی اربعة ایام سواء للسائلین٭ ثم استوی الیٰ السماء و ھی دخان فقال لھا و للارض ائتیا طوعاً و کرھاً قالتا اتینا طائعین٭ فقضاھن سبع سمٰوات فی یومین و اوحیٰ فی کل سماء امرھا و زینا السماء الدنیا بمصابیح و حفظاً ذلک تقدیر العزیز العلیم)
کہو: کیا تم لوگ اس ذات کا کہ جس نے زمین کو دو دن میں خلق کیا ہے انکار کرتے ہو اور اس کے لئے مثل و نظیرقرار دیتے ہو؟وہ ہر عالم کا پروردگار ہے ۔
اس نے زمین کے سینے پر استوار اور محکم پہاڑوں کو جگہ دی اور اس میں برکت اور زیادتی عطا کی اور
..............
(١)یونس٣.
(٢)فرقان٥٩.
(٣)انبیائ٣٠.
(٤)انبیائ٣٠۔
چار دن کی مدت میں خواہشمندوں کی ضرورت کے مطابق غذا کا انتظام کیا پھر آسمان کی تخلیق شروع کی جبکہ وہ دھویں کی شکل میں تھا؛ پھر اس کو اور زمین کو حکم دیا موجود ہو جائو چاہے بہ شوق و رغبت چاہے بہ جبر و اکراہ۔
انہوں نے کہا: ہم برضا و رغبت آتے ہیں اور شکل اختیار کرتے ہیں، پھر انہیں سات آسمان کی شکل میں دو دن کے اندر خلق کیا اور ہر آسمان سے متعلق اس کا کام وحی اورمعین کیا اور دنیاوی آسمان کو چراغوں سے زینت بخشی اور شیاطین کی رخنہ اندازی سے حفاظت کی یہ ہے خداوند دانا و توانا کی تقدیر!(١)
٧۔(اللہ الذی خلق سبع سمٰوات و من الارض مثلھن...)
خدا وہی ہے جس نے سات آسمان اور انہیں کے مانند زمین کو خلق کیا...۔(٢)
٨۔(ء انتم اشد خلقاً ام السماء بناھا٭ رفع سمکھا فسوھا٭ و اغطش لیلھا و اخرج ضحاٰھا٭ و الارض بعد ذلک دحاٰھا٭ و اخرج منھا مائھا و مرعاھا٭ و الجبال ارسٰاھا٭ متاعاً لکم و لانعامکم)
آیا تمہاری خلقت زیادہ مشکل ہے یا آسمان کی کہ جس کی خدا وند عالم نے بنیاد ڈالی؟! اس کا شامیانہ تانا اور اسے منظم کیا اور راتوں کو تاریک اور دن کو روشن بنایا اس کے بعد زمین کا فرش بچھایا اور اس سے پانی نکالااور چراگاہیں پیدا کیں اور پہاڑوں کو ثابت و استوار کیا یہ تمام چیزیں تمہارے اور چوپایوں کے استفادہ کے لئے ہیں۔(٣)
٩۔( و السماء وما بنٰاھا، والارض وما طحاھا)
آسمان اور اس کے بنانے والے کی قسم، زمین اور اس کے بچھانے والے کی قسم۔(٤)
١٠۔(والارض مددناھا والقینا فیھا رواسی وانبتنا فیھا من کل شیء موزون٭ و جعلنا لکم فیھا معایش ومن لستم لہ برازقین)
ہم نے زمین کوپھیلا دیا اور اس میںاستوار و محکم پہاڑ قرار دئے اور اس میں معینہ مقدار کے مطابق اور مناسب نباتات اگائیں اور تمہارے لئے نیز ان لوگوں کے لئے جن کے تم رازق نہیں ہو انواع و اقسام کے سامان زندگی فراہم کیا۔(٥)
١١۔ (الذی جعل لکم الارض مہداً وسلک لکم فیھا سبلًا وانزل من السماء مائً
..............
(١)فصلت٩۔١٢
(٢)طلاق١٢
(٣)نازعات٣٢۔٢٧
(٤)شمس٥۔٦
(٥)حجر١٩۔٢٠
فاخرجنا بہ ازواجاً من نبات شتیٰ،کلواوارعواانعامکم ان ذلک لآیات لاولی النھیٰ٭ منھا خلقناکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارة اخریٰ)
جس خدا نے زمین کو تمہاری آسائش کی جگہ قرار دیا اور اس میں راستے پیدا کئے اور آسمان سے پانی برسایا اس سے گوناگوں نباتات اگائیں، کھائو اور اپنے چوپایوں کو کھلائو بیشک یہ صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں اور ہم نے تم کو زمین سے خلق کیا اور دوبارہ اس میں لوٹائیں گے پھر اس سے دوبارہ نکالیں گے۔(١)
١٢۔(الذی جعل لکم الارض فراشاً والسماء بنائً و انزل من السماء مائً فاخرج بہ من الثمرات رزقاً لکم فلا تجعلوا للہ انداداً وانتم تعلمون)
جس خدا نے زمین کو تمہارا بستر اور آسمان کو چھت قرار دیا اور آسمان سے پانی نازل کیا پھر اس سے پھل نکالے تمہارے رزق کے لئے لہٰذا خدا کا کسی کو شریک قرار نہ دو جبکہ (ان شریکوںکے خود ساختہ ہونے کے بارے میں)تم آگاہ ہو۔(٢)
١٣۔ (الم تروا کیف خلق اللہ سبع سمٰوات طباقاً٭و اللہ جعل لکم الارض بساطاً٭ لتسلکوامنھا سبلاً فجاجاً)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا وند عالم نے ایک پر ایک سات آسمانوں کو خلق کیا اور خدا نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا تاکہ اس کے راستوں اور دروں سے رفت و آمد کرو۔(٣)
١٤۔(افلا ینظرون الیٰ الابل کیف خلقت و الیٰ السماء کیف رفعت و الیٰ الجبال کیف نصبت و الیٰ الارض کیف سطحت)
آیا وہ لوگ اونٹ کی طرف نظر نہیں کرتے کہ کس طرح خلق ہوا ہے آسمان کی خلقت کی طرف نگاہ نہیں کرتے کہ اسے کیسے رفعت دی گئی ہے ؟ اور پہاڑ کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے نصب کیا گیا ہے اور زمین کی طرف مشاہدہ نہیں کرتے کہ اسے کیسے بچھائی گئی ہے؟(٤)
١٥۔(امن خلق السمٰوات و الارض و انزل لکم من السماء مائً فانبتنا بہ حدائق ذت بھجة ما کان لکم ان تنبتوا شجرھا ء الٰہ مع اللہ بل ھم قوم یعدلون٭ امن جعل الارض قراراً وجعل خلالھا انھاراً و جعل لھا رواسی و جعل بین النھرین حاجزاً ء اِلٰٰہ مع اللہ بل
..............
(١)طہ٥٣۔٥٥
(٢)بقرہ٢٢
(٣)نوح١٥،١٩و٢٠
(٤)غاشیہ١٧۔٢٠
اَکثرھم لا یعلمون)
کیا جس نے زمین و آسمان کو خلق کیا اور تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا کہ اس سے مسرت بخش اور خوشنما باغ اگائے، ایسے باغ کہ اس کے اگانے پر تم لوگ ہرگز قادر نہیں تھے، آیا خدا کے علاوہ بھی کوئی معبود ہے؟! نہیں بلکہ یہ حق پذیری سے روگردانی والی قوم ہے۔ یا جس نے زمین کو تمہاری رہائش اور آرام کی جگہ قرار دیا اور اس کے درمیان نہریں جاری کیں اور اس کے درمیان استوارو محکم پہاڑ قرار دئیے نیز دو دریا کے درمیان مانع قرار دیا آیا خدا کے علاوہ بھی کوئی معبود ہے؟! نہیں ، بلکہ اکثر نہیں جانتے۔(١)
١٦۔(وجعلنا فی الارض رواسی ان تمیدبھم و جعلنا فیھا فجاجاً سبلاً لعلھم یھتدون٭ وجعلنا السماء سقفاًمحفوظاً و ھم عن آیاتھا معرضون)
اور ہم نے زمین پر ثابت اور محکم پہاڑ بنائے تاکہ اسے زلزلہ اور لرزش سے محفوظ رکھیں نیز اس میں درّے اور راستے بنائے تاکہ ہدایت پائیں اور آسمان کو محفوظ چھت قرار دیا لیکن وہ لوگ اس کی نشانیوں سے رو گرداں ہیں۔(٢)
١٧۔(الم نجعل الارض کفاتاً٭ احیائً و امواتاً٭ وجعلنا فیھا رواسی شامخات)
کیا ہم نے زمین کو انسانوں کا مرکز نہیں بنایا؟ ان کی حیات اور موت دونوں حالتوںمیں؛اور اس میں مستحکم اور استوار و بلندپہاڑوں کو جگہ دی۔(٣)
١٨۔(ھو الذی جعل الشمس ضیائً و القمر نوراً و قدّرہ منازل لتعلموا عدد السنین و الحساب ما خلق اللہ ذالک الا بالحق یفصل الآیات لقوم یعلمون٭ ان فی اختلاف اللیل والنھاروما خلق اللہ فی السمٰوات والارض لآیات لقوم یتقون)
ترجمہ: وہ خداوہ ہے جس نے خورشید کوضیا ،قمر کو نور،عطا کیا اور اس کے لئے منزلیں قرار دیں تاکہ اس سے سالوں کی تعداد اور حساب معلوم ہو؛ خدا وند عالم نے انہیں حق کے سوا خلق نہیں کیا؛ اور وہ اہل دانش گروہ کے لئے نشانیوں کی تشریح کرتا ہے ، یقینا روز و شب کی آمد اور جو کچھ خد اوند عالم نے زمین و آسمان میں خلق کیا ہے وہ سب پرہیزگار وں کے لئے نشانیاں ہیں۔(٤)
..............
(١)نمل٦٠۔٦١
(٢)انبیائ٣١۔٣٢
(٣)مرسلات٢٥۔٢٧
(٤) یونس٤۔٥

کلموں کی تشریح
١۔ یوم:دن ،طلوع فجر یا طلوع خورشید اورغروب آفتاب کے درمیان کے فاصلہ کو یوم کہتے ہیں؛ اسی طرح تاریخی حوادث، یادگار واقعات اور جنگ کے ایام کو بھی یوم کہتے ہیں اگر چہ مدت جنگ طولانی ہوجائے جیسے یوم خندق، یوم صفین کہ مراد جنگ خندق اورجنگ صفین ہے ۔
٢۔ثم: پھر، یہ کلمہ اپنے ما قبل کے مابعدکے زمانی، مکانی اور رتبہ ای کے تاخر پر دلالت کرتا ہے ۔
ا لف: زمانی تاخر، جیسے:
(ولقد ارسلنا نوحاً و ابراھیم ...ثم قفینا علیٰ آثارھم برسلنا و قفینا بعیسیٰ بن مریم )
یعنی ہم نے نوح و ابراہیم کو مبعوث کیا...، پھر اس کے بعد اپنے دیگر رسولوں کو بھیجا اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم کو بھیجا۔(١)
ب: مکانی تاخر،جیسے: قم سے تہران اس کے بعد مشہد گئے۔
ج: رتبی تاخر، جیسے جو کچھ پیغمبرۖکے جواب میں آیا ہے، ایک شخص نے سوال کیا کس کے ساتھ نیکی کروں؟ پیغمبر نے کہا: اپنی ماں کے ساتھ، پھر پوچھا اس کے بعد؟ کہا: اپنی ماں کے ساتھ ، پھر پوچھا: اس کے بعد؟کہا: اپنے باپ کے ساتھ۔
٣۔ دخان:دھواں ، یا وہ چیز جو آگ سے نکل کر اوپر جاتی ہے کبھی بھاپ اور اس کے مانند کو بھی ''دخان'' کہتے ہیں۔
٤۔استویٰ، استوی علیہ، استولیٰ علیہ:یعنی اس پر مسلط ہو گیا، اس کی مزید وضاحت رحمن،عرش،
''سواہ''کے معنی کے ہمراہ صفات رب کی بحث میںآئے گی۔
٥۔رتق: باندھنے اور ضمیمہ کرنے کو کہتے ہیں اور فتق کھولنے کے معنی میںآیا ہے ۔
٦۔ جعل: جعل قرآن کریم میں درج ذیل معانی میں استعمال ہو اہے ۔
الف : خلق و ایجاد کے معنی میں جیسے:
(اذکروا نعمة اللہ علیکم اذ جعل فیکم انبیائ)(٢)
..............
(١) سورۂ حدید ٢٧، ٢٦
(٢)سورۂ مائدہ ٢٠
اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب اس نے تمہارے درمیان انبیاء پیدا کئے۔
(وجعل لکم سرابیل تقیکم الحر)(١)
اور تمہارے لئے لباس پیدا کئے تاکہ گرمی سے تمہاری حفاظت کرے۔
ب : گرداننیکے معنی میں جیسے :
(الذی جعل لکم الارض فراشاً)(٢)
خدا نے زمین کو تمہارے لئے بستر قرار دیا۔
ج : حکم اوردستور اور قرار دینے کے معنی میں جیسے:
(لکل جعلنا منکم شرعةً ومنھاجاً)(٣)
تم میں سے ہر ایک کے لئے واضح آئین اور دستور قرار دیا۔
د : مسخر کرنے یعنی تسخیری ہدایت کے معنی میں جیسے:
(وجعلنا الانھار تجری من تحتھم)(٤)
ہم نے نہروں کو ان کے نیچے جاری کیا؛ یعنی ہم نے ہدایت تسخیری کے ذریعہ نہروں کو اس طرح قرار دیاکہ ان کے نیچے سے بہنے لگیں۔(٥)
٧۔ رواسی:ثابت و استوار پہاڑاور اس کا مفرد( واحد) راسی ہے ۔
٨۔ قضاھن: قضا یہاں پر تقدیر و اتمام خلقت کے معنی میں ہے یعنی آسمان کی خلقت دو دن میںطے ہوئی اور وہ مکمل ہو گیا۔
٩۔ (اوحیٰ فی کل سمائٍ امرھا):
یعنی ہر آسمان کے فرشتوں کا فریضہ انہیں بتا دیا اور سکھا دیا کہ وہ کیا کریں اور کس لئے پیدا کئے گئے ہیں اسی طرح تمام آسمانی مخلوقات کو بھی اس طرح رام و مسخر کیا تاکہ نظام تخلیقی کے تحت کام کریں۔
١٠۔سمک:چھت، نیچے سے اوپر کی جانب ہر چیز کے فاصلہ کو کہتے ہیں جس طرح عمق(گہرائی) اوپر سے نیچے کی طرف کے فاصلہ کو کہتے ہیں۔
..............
(١)سورۂ نحل ١ ٨
(٢)بقرہ ٢٢
(٣)مائدہ ٤٨
(٤)انعام ٦ ۔
(٥) تسخیری ہدایت کے متعلق ہدایت کی چاروں اقسام کی بحث میں آئندہ بیان کریں گے ۔
١١۔ بناھا:بنا یعنی بنانا اور قائم کرنا ،آیت میں یعنی :آسمان کو میزان کے مطابق دقیق و محکم بنایا۔
١٢۔ سوی : سواہ، یعنی اسے راہ کمال و استعداد میں مورد توجہ قرار دیا ہے ۔
١٣۔ اغطش:اظلم، اسے تاریک بنایا۔
١٤۔ضحی:خورشید اور اس کی روشنی اور دن کا نکلنا؛ اخرج ضحٰھا یعنی، دن کو ظاہر کیا۔
١٥۔دحاھا:بچھانااور ہموار کرنا؛ و الارض دحاھا، یعنی زمین کو بچھایا اور انسان کے استفادہ اور سکونت کے لئے اسے آمادہ کیا ۔
١٦۔طحاھا:بسطھا، یعنی اسے وسعت عطا کی ، اسے پھیلایا۔
١٧۔ مددناھا:مد، مسلسل و طویل ، و سعت اور پھیلاؤاور آیت میں یعنی: زمین کو زندگی کے لئے پھیلایا اور ہموار کیا۔
١٨۔ موزون: وزن یعنی : اجسام کااسی کے مساوی کسی چیز سے اندازہ لگانا یعنی وزنی اور ہلکے ہونے کے لحاظ سے یا لمبائی اور چوڑائی کے لحاظ سے یا گرمی وسردی کے لحاظ سے....۔
(و انبتنا فیھا من کل شیء موزون )
یعنی ہر چیز کو زمین میں اسی کے خاص حالات کے مطابق، اس کے مقصد اور ہدف کے پیش نظر اس کی ضرورت بھر نیز اس کی حکمت مقتضی کے تحت خلق کیا۔

آیتوں کی تفسیر
جو کچھ آیتوں کے معنی ہم بیان کرتے ہیں الفاظ کے ظاہری معنی کے اعتبار سے ہے اور خدا زیادہ جانتا ہے ۔ خدا وند متعال نے زمین و آسمان کی خلقت سے پہلے ایک پانی جس کی حقیقت صرف خدا ہی جانتا ہے اور ہمارے لئے واضح نہیں ہے، خلق کیا،عرش خدا یعنی وہ فرشتے جو خدا کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں اسی پانی پر تھے؛ اور جب حکمت اور مشیتالٰہی کا تقاضا ہوا کہ دوسری چیز کو خلق کرے تو آسمان سے پہلے زمین کو خلق کیا پھر زمین کی گرمی اور بھاپ سے آسمان کی تخلیق کی ؛یہ بھاپ یا دھواں زمین سے اوپرجاتے تھے اسی طرح خدا وند عالم نے آسمان و زمین کو جو ایک دوسرے سے متصل تھے الگ کیا (اور خدا زیادہ جانتاہے) اور وہی زمین کا دھواں یا اس کی بھاپ آسمان بن گیا اس آسمان کو خدا نے کشادہ اور وسیع کیا اور اس کے سات طبقہ ایک پر ایک قرار دئے یہ تفسیر ،کلام حضرت علی میں اس طرح ملتی ہے ۔
خدا وند عالم نے موجزن اور متلاطم دریاکے پانی سے جامد خشکی( ٹھوس زمین )پیدا کی پھر اسی پانی یا خشکی سے بہت سے طبقے پیدا کئے اور ایک دوسرے سے اتصال کے بعد انہیں الگ الگ کردیااورسات آسمانوںمیں تبدیل کر دیا۔(١)
خدا وند عالم نے زمین و آسمان کی خلقت ٦، دن یا عملی طور پر ٦ مراحل میں انجام دی جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے :

پہلے۔ زمین کی خلقت
خدا وند عالم نے زمین کو دو دن میں خلق کیا اور اس میں محکم اور استوار پہاڑوں کو جگہ دی اور چار دن میں آسمان کی فضا میں خورشید کو قرار دیا اور زمین پر پانی جاری کیا پھرروزی کو معین کیاخواہ وہ اگنے والی ہو یا نہ ہو یعنی پانی اور ہر زندہ موجود کی طبیعت کو اس طرح قرار دیا کہ پانی سے وجود میں آئے۔
پھر آسمان کی تخلیق کی یعنی زمین کی خلقت کے بعد آسمان کی خلقت کی جبکہ آسمان اس وقت دھواںاور اس حالت میںپانی بھاپ تھا ،یہ بھاپ اور گرمی زمین کے دریائوں یا تالابوں سے اٹھی تھی، خدا وند عالم نے زمین و آسمان کی اتصالی کیفیت کو جدا کیا اور آسمان کی بلندی کو زمین کے لئے چھت قرار دیا( خدا وند زیادہ جاننے والا ہے) پھر ان آسمان و زمین سے کہا: وجود میں آئو اور اپنی شکل اختیار کرو؛ خواہ برضا و رغبت خواہ بہ جبر و اکراہ، انہوں نے کہا: ہم برضا ور غبت شکل اختیار کرتے ہیں ،پھر آسمان تمام کہکشائوں، ستاروں اور اس کی دیگر موجودات کے ساتھ کہ جسکی تعداد اور مقدار صرف خدا ہی جانتا ہے وجود میں آ گیا: پھر زمین کافرش، آسمان سے دور ایک معین فاصلے پر بچھایا اور درختوں نیز تمام اگنے والی چیزوں کو اس میں قرار دیا اس کے بعد حیوانوں کو خلق کیا۔
پھر زمین سے جدا شدہ اس آسمان کو جو اس پر محیط تھاسات آسمانوںمیں تبدیل کر دیا اور ہر آسمان میںاسکی سیر و حرکت نیز تحفظ و بقا کے لئے ایک مناسب نظام قرار دیا اور آسمان کی دنیا کو فروزاں چراغوں سے آراستہ کیا اور انہیں ستاروں میںسے شہاب ثاقب کوخلق کیاکہ شیطان چوری چھپے آسمانی خبروںکو نہ سن سکے۔ کہ اس کی بحث آئندہ آئے گی خورشیدکو نور دینے والا اور چاند کوضوفشاں بنایا اور چاند کے راستے
..............
(١) نہج البلاغہ : خطبہ ٢١١ ؛ تفسیر در منثور : ج ، ١ ، ص ٤٤؛ بحار : ج ٥٨ ، ص ١٠٤.
میںمنزلیں قرار دیں تاکہ ہر شب ایک منزل کو طے کرے اور خورشید سے کچھ دور قرار دیا تاکہ ایک مہینہ میں ایک چکر مکمل کر لے اور اس گردش سے سال اور مہینے ظاہر ہوں اور لوگ سال کا شمار اور حساب جان لیں اور زمین میں ہر چیز سے ضرورت کے مطابق خلق کی اور زمین کو انسانوں کی رہائش اور آرام کی جگہ قرا ر دی، تاکہ اسمیں زندہ اورمردہ جمع ہوں اور روز قیامت اس سے محشور ہوں۔
ہمارے مذکورہ بیان کی بنا پر گز شتہ آیتوں سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ زمین زمانہ کے اعتبار سے آسمان سے اور رتبہ کے اعتبار سے اس پر پائی جانے والی تمام مخلوقات سے مقدم ہے اور خدا وند عالم نے آسمان و زمین کے درمیان تمام چیزوں کوزمین پر بسنے والے تمام انسانوں اوران کے درمیان پائے جانے والے اولیاء کے لئے خلق کیا ہے ارشاد ہو رہا ہے:
١۔( الم ترو ا ان اللہ سخرلکم ما فی السمٰوات وما فی الارض)(١)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان کے درمیان موجود تمام چیزوں کو تمہارا تابع اور مسخر بنایا ہے ۔
اس کے علاوہ گزشتہ آیتوں سے یہ بھی استنباط کر سکتے ہیں کہ انسانی غذائیں جیسے پانی ، گوشت اور تمام نباتات خلقت انسان سے پہلے تھیں جیساکہ جن کی خلقت گرم اور جھلسا دینے والی آگ سے انسان کی خلقت سے پہلے ہوئی یہ بعض آیات کی صراحت سے واضح ہوتا ہے ، جس طرح فرشتے بھی انسانوں سے پہلے خلق ہوئے ہیں، خدا فرماتا ہے :
(ولقد خلقنا الانسان من صلصال من حمأٍ مسنون٭ و الجان خلقناہ من قبل من نارالسموم٭ و اذ قال ربک للملائکة انی خالق بشرا من صلصال...)
میںنے انسان کو کھنکھناتی اور سیاہ رنگ نرم مٹی سے خلق کیا اور اس سے پہلے جنات کو گرم اور جھلسا دینے والی آگ سے پیدا کیا اور جب تمہارے پروردگار نے فرشوں سے کہا: میں کھنکھناتی اور سیاہی مائل نرم مٹی سے انسان پیدا کروں گا۔(٢)

دوسرے: ستاروں اور کہکشاؤںکی خلقت
خداوند عالم نے قرآن مجید میں برج، ستارے اور شہاب کی خبر دی ہے اور فرمایا:
..............
(١)لقمان٢٠
(٢) حجر٢٦۔٢٨
١۔( ولقد جعلنا فی السماء بروجاً و زینا ھا للناظرین٭ و حفظناھا من کل شیطان رجیم٭ الا من استرق السمع فاتبعہ شھاب مبین)
ہم نے آسمان میںبرج قرار دئے اور اس کو ناظرین کے لئے آراستہ کیا اور اس کوہر راندہ درگاہ شیطان سے محفوظ رکھا؛ مگر یہ کہ کوئی استراق سمع کرے (چپکے سے سنے) کہ شہاب مبین اس کی تعقیب کرتا ہے۔(١)
٢۔ (انا زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب٭ و حفظاً من کل شیطا ن مارد، لا یسمعون الیٰ الملاء الاعلیٰ و یقذفون من کل جانب٭ دحوراً و لھم عذاب وا صب الا من خطف الخطفة فاتبعہ شہاب ثاقب)
ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے آراستہ کیااور اسے ہر سرکش اور ملعون شیطان سے محفوظ رکھاوہ لوگ آسمان بالا کی باتوں کو نہیں سن سکتے ہیں اوران پر ہر طرف سے حملہ ہوتا ہے : اور شدت سے بھگائے جاتے ہیں؛ ان کے لئے دائمی سزا ہے ؛ اس کے علاوہ ان میں سے جو معمولی لحظہ کے لئے سر گوشی کی خاطر آسمان سے نزدیک ہو تو شہاب ثاقب ان کا پیچھا کرتا ہے ۔(٢)
٣۔ (تبارک الذی جعل فی السماء بروجاً و جعل فیھا سراجاً و قمراً منیراً)
مبارک ہے وہ خدا جس نے آسمان میں ستاروں کے لئے منزلیں قرار دیں اور آسمان کے درمیان آفتاب اور ماہ تاباں کی قندیلیں لگائیں۔(٣)
٤۔(ھو الذی جعل الشمس ضیائً و القمر نوراً و قدرہ منازل لتعلموا عدد السنین و الحساب)
وہ خدا وہ ہے جس نے سورج کو روشنی ، قمر کو نور عطا کیا اور اس کی منزلیں قرار دیں تاکہ سالوںکا حساب اور تعداد معلوم ہو سکے۔(٤)
٥۔ (وجعل القمر فیھن نوراً و جعل الشمس سراجاً)
آسمانوں کے درمیان چاند کو روشنی کا ذریعہ اور سورج کو فروزاں چراغ بنایا۔(٥)
٦۔ (ان عدة الشہور عند اللہ اثنا عشر شہراً فی کتاب اللہ یوم خلق السمٰوات و الارض منھا اربعة حرم ذلک الدین القیم فلا تظلموا فیھن انفسکم و قاتلوا المشرکین کافة
..............
(١) حجر١٦۔١٨
(٢)صافات٦۔١٠
(٣)فرقان٦١
(٤)یونس٥
(٥)نوح١٦
کما یقاتلونکم کافةً و اعلموا ان اﷲ مع المتقین)
خدا کے نزدیککتاب خدا وندی میںجس دن زمین وآسمان کی تخلیق ہوئی اسی دن سے، مہینوں کی تعداد بارہ ہے جس میں سے چارمہینہ حرمت والے ہیں یہ ایک ثابت اور اٹل قانون ہے ! اس بنا پران مہینوں میںاپنے اوپر ظلم نہ کرو؛ اور ایک ساتھ مل کر مشرکین سے جنگ کرو، جس طرح وہ لوگ تم سے متحد ہو کر جنگ کرتے ہیں اور یہ بھی جان لو کہ خد اوند عالم پرہیز گاروں کے ساتھ ہے ۔(١)
٧۔( و علامات وبالنجم ھم یھتدون)
اس نے علامتیں قرار دیں اور لوگ ستاروں کے ذریعہ راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔(٢)
٨۔(و ھو الذی جعل لکم النجوم لتھتدوا بھا فی ظلمات البر و البحر)
وہ خدا وہ ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ خشکی اور دریا کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کر سکو۔(٣)

کلموں کی تشریح
١۔بروج: اس کامفرد برج ہے ، زمین میں قلعہ اورقصر کو کہتے ہیں لیکن آسمان میں ستاروںکے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس کے سامنے سے سورج ، چاند اور دیگر سیارے عبور کرتے ہیں؛ یہ بعض آسمانی برج کچھ اس طرح ہیں کہ اگر ان کی شکل کاغذ پر بنائی جائے اور ستاروں کے درمیان کے فاصلوں کو خط کھینچ کر ایک دوسرے سے متصل کریں توکیکڑے، مرغ،بچھو وغیرہ کی شکل بنے گی ،عقرب(بچھو) چاند کی ایک منزل ہے اسی لئے اصطلاح قمر در عقرب مشہور ہے، جب کہ یہ چاند برج عقرب سے متصل ہوتا ہے ۔
ستارہ شناس افراد چاند کی حرکت کے راستوں کیلئے بارہ ]١٢[ برج کے قائل ہیں اور ہم اسی بحث کے اختتام پر قرآن کے مخاطبین سے جو کچھ چاند کے سلسلے میں ظاہر ہوتاہے، اس کے بارے میں گفتگو کریں گے ۔
٢۔رجیم: راندۂ درگاہ، یعنی جو عرش والوں کی نیکیوں یا منزلت اوررحمت خداوندی سے محروم ہو گیا ہو۔
٣۔شہاب: شعلہ، ایسا شعلہ جو آسمان سے نیچے کی طرف آرہا ہو اس کی جمع شُہُب آتی ہے اس کی مزید تشریح آئندہ جنات کی بحث میں آئے گی۔
٤۔ مارد: مارد اور مرید یعنی وہ شیاطین جنات و انس جو نیکیوں اور بھلائیوں سے عاری ہیں اور گناہوں
..............
(١)توبہ٣٦
(٢)نحل١٦.
(٣)انعام٩٧.
اور برائیوں میںڈوبے ہوئے ہیں۔
٥۔ دحور: دور کرنا، بھگانا،ہنکانا.
٦۔ نجوم: ان فروزاں ستاروں کو کہتے ہیں جو خورشید کی طرح نور افشانی کرتے ہیں۔
٧۔کواکب:ان اجسام کو کہتے ہیں جو نجوم اور ستاروں سے کسب نور کرتے ہیں ، آسمان کے تمام نورانی اجسام کو کواکب کہتے ہیں ، جیسا کہ خداوند متعال فرماتاہے :
(انا زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب)
ہم نے آسمان ِدنیا کو کواکب سے زینت بخشی۔
٨۔واصب:ہمیشہ اور لازم
٩۔خطف،خطفة:تیزی سے اچک لیا اور بھاگ گیا یعنی یک بارگی اچک لیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کچھ شیاطین فرشتوں سے کوئی چیز سنتے ہیں اور اچک کرتیزی سے فرار کر جاتے ہیں۔
١٠۔ ثاقب:نفوذ کرنے والا، شگاف کرنے والا اور روشن، شہاب کو اس لئے ثاقب کہتے ہیں کہ تاریکیوں میں نفوذ کرتا ہے اورایسامعلوم ہوتا ہے کہ اپنے نور سے اسمیں شگاف پیدا کررہا ہے ۔

آیات کی تفسیر
آسمانوں اور ستاروں کی بحث میں مذکور آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ آسمان دنیا کی منزلت تمام کواکب اور ستاروں اور فروزاں کہکشانوں سے بالاتر ہے اور آسمان دوم اس سے بلند تر ہے ،آسمان سوم، آسمان دوم سے بلند تر اور اسی طرح ساتویں آسمان تک کہ اس کی رفعت سب سے زیادہ ہے۔ نیز ہر ایک کا ارتفاع دوسرے کی بہ نسبت ارتفاع مکانی ہے ، بر خلاف عرش کے کہ اس کی رفعت و بلندی معنوی ہے اس کی وضاحت اپنی جگہ آئے گی اس توضیح سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں :
١۔ کیوں خدا وند عالم ستاروں کے فوائد اور خاصیتوں کو صرف انہیں امور میں بیان کرتا ہے جس سے تمام لوگ واقف ہیں جیسے: (جعل لکم النجوم لتھتدوا) ستاروںکو تمہاری ہدایت اور راہنمائی کے لئے بنایا۔(١)
کیوں ان آثار اور صفات کے بارے میں کچھ نہیں کہا جسے نزول قرآن کے بعد دانشوروں نے کشف کیاہے ؟
..............
(١)انعام٩٧
٢۔ خداوند عالم نے سورۂ صافات میں فرمایا ہے : ( انا زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب)ہم نے دنیاوی آسمان کو ستاروں سے زینت بخشی۔ (١)
سوال یہ ہے کہ اگر ستارے آسمان دنیا کی زینت ہیں تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ تمام ستاروں کی منزل آسمان دنیا کے نیچے ہو جبکہ ماضی کے ستارہ شناس اور دانشوروں(نجومیوں) کا کہنا ہے : اکثر ستاروںکی منزل دنیاوی آسمان کے اوپر ہے ؛ ہمارے زمانے کے علمی نظریات اس سلسلہ میں کیاہیں؟ ان دونوں سوالوں کے جواب میں ہم بہ فضل الٰہی یہ کہتے ہیں:

١۔ پہلے سوال کا جواب
خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء کو قرآن کریم کے ساتھ اس لئے بھیجا تاکہ تمام لوگوں کو مقرر کردہ آئین کے مطابق ہدایت کریں، جیسا کہ خود ہی فرماتا ہے :
الف:( قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً...)
کہو : اے لوگو! میں تم سب کی طرف خدا کا (بھیجا ہوا )رسول ہوں ...۔(٢)
ب: ( واوحی الی ھذا القرآن لانذر کم بہ و من بلغ...)
یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ تم کو اور ان تمام افراد کو جن تک یہ پیغام پہونچے ڈرائوں۔
اسی لئے قرآن کریم اپنے کلام میں تمام لوگوں کو (یا ایھا الناس) کا مخاطبقرار دیتا ہے اور چونکہ ہر صنف اور گروہ کے تمام لوگ مخاطب ہیں لہٰذا کلام تمام انسانوں کی فہم اور تقاضائے حال کے مطابق ہونا چاہئے تاکہ ہر زمان و مکان کے اعتبار سے تمام لوگ سمجھیں، جیسا کہ مقام استدلال و اقامہ برہان میں خالق کی وحدانیت اور معبود کی یکتائی ( توحید الوہیت) کے موضوع پر فرماتا ہے :
کیا وہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسے خلق ہوا ہے ؟
آسمان کی طرف نگاہ نہیں اٹھاتے کہ کیسے بلند کیا گیا ہے ؟
پہاڑوں کی طر ف نہیں دیکھتے کہ کیسے استوار اور اپنی جگہ پر محکم اور قائم ہے ؟
زمین کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح ہموار اور بچھائی گئی ہے ؟
..............
(١)صافات٦
(٢)اعراف١٥٨
لہٰذا یاد دلائو اس لئے کہ تم فقط یاد دلانے والے ہو، تم ان پر مسلط اور ان کومجبور کرنے والے نہیں ہو۔(١)
توحید ربوبیت کے سلسلہ میںمقام استدلال واقامہ ٔبرہان میں فرماتا ہے :
جو پانی پیتے ہو کیا اس کی طرف غور و خوض کرتے ہو؟! کیا اسے تم نے بادل سے نازل کیا ہے یا ہم اسے نیچے بھیجتے ہیں؟! ہم جب چاہیں ہر خوشگوار پانی کو تلخ اور کڑوا بنا دیںلہٰذا کیوں شکر نہیں کرتے؟(٢)...اب اگر ایسا ہے تو اپنے عظیم پروردگار کی تسبیح کرو اور اسے منزہ جانو۔
اب اگر خدا وند عالم اس کے علاوہ کوئی اور راہ اختیار کرتا اور مقام استدلال میں اربوں ستاروں اور کروڑوں آسمانی کہکشاؤں کے نظام حرکت و سکون کا تذکرہ کرتا، یا انسانون کی صرف آنکھ کو محور استدلال بناتا اور اس میں پوشیدہ لاکھوں باریک خطوط کا ذکر کرتا اور اس میں موجود خون کے سفید و سرخ ذرّات کے بارے میں کہتا،یا انسان کے مغزسراور اس کے لاکھوں پیچیدہ زاویوں سے پردہ اٹھاتا، یا اسباب قوت ہاضمہ یا انواع و اقسام کی بیماریوں اور اس کے علاج کا ذکر کرتا جیسا کہ بعض لوگ سوال کرتے ہیں:
کیوں خدا وند عالم نے جسم انسانی کہ جس کواس نے پیدا کیا ہے اس سے مربوط ہے علم و دانش کو قرآن میں کچھ نہیںبیان کیا؟آیااس طرح کے موارد قرآن میں نقص اور کمی کے مترادف نہیں ہیں؟
خدا کی پناہ ! آپ کیا فکر کرتے ہیں؟ اگر خصوصیات خلقت جن کا ذکر کیا گیا ،قرآن کریم میں بیان کی جائیں تو کون شخص ان کے کشف سے پہلے انہیں درک کر سکتا تھا؟ اور اگر انبیاء لوگوں سے مثلاً کہتے: جس زمین پر ہم لوگ زندگی گزار رہے ہیں وہ خورشیدکے ارد گرد چکر لگاتی ہے اور خورشید زمین سے ٢٣ ملین میل کے فاصلہ پر واقع ہے؛ یہ منظومہ شمسی راہ شیر نامی کہکشاں کے پہلو میں واقع ہے کہ اس کہکشاںمیں ٣٠ کروڑ ستارے ہیں اور ان ستاروں کی پشت پر سینکڑوں نامعلوم عوالم ہیں اور پیچیدہ گڑھے پائے جاتے ہیں وغیرہ۔
آپ کا کیا خیال ہے ؟ اگر امتیںاس طرح کی باتیں پیغمبروں سے سنتیں تو انبیاء کوکیا کہتیں؟ جبکہ وہ لوگ پیغمبروںکو صرف اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کو خدا کی توحید اور یکتا پرستی کی دعوت دیتے تھے، دیوانہ کہتے تھے جیساکہ خدا وند عالم ان کے بارے میں فرماتا ہے:
(کذبت قبلھم قوم نوح فکذبوا عبدنا و قالوا مجنون)
..............
(١)غاشیہ١٧۔٢٢
(٢)واقعہ٧٠۔٦٨و٧٤
١۔اس سے پہلے قوم نوح نے ان کی تکذیب کی؛یہاں تک کہ ہمارے بندے نوح کو دروغگو سمجھااور دیوانہ کہا۔(١)
٢۔(کذلک ماا تی الذین من قبلھم من رسولٍ اِلاقالوا ساحراومجنون)
اس طرح سے ان سے قبل کوئی پیغمبر کسی قوم کی طرف مبعوث نہیں ہوا مگر یہ کہ انہوں نے اسے ساحر اور مجنون کہا۔(٢)
٣۔(ویقولون انہ لمجنون)
وہ (کفار و مشرکین)کہتے ہیں وہ (خاتم الانبیائ) دیوانہ ہے۔(٣)
اب ان خیالات اور حالات کے باوجود جو گز شتہ امتوں کے تھے اگر اس طرح کی باتیں بھی پیغمبروں سے سنتے تو کیا کہتے ؟اصولی طور رپر لوگوںکی قرآن کے مخاطب لوگوںکی کتنی تعداد تھی کہ ان علمی حقائق کو سمجھ سکتی ، ایسے حقائق جن کو دانشوروں نے اب تک کشف کیا ہے اور اس کے بعد بھی کشف کریں گے کس طرح ان کے لئے قابل فہم اور درک ہوتے؟
اس کے علاوہ جن مسائل کو آج تک دانشوروں نے کشف کیا ہے کس حد تک علمی مجموعہ میں جگہ پاتے ہیں؟ جبکہ خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء پر قرآن اس لئے نازل کیا تاکہ یہ کتاب لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہو۔ اور لوگوںکو اس بات کی تعلیم دے کہ وہ کس طرح اپنے خدا کی بندگی کریں؛ اوراس کے اوامر اور نواہی کے پابند ہوں اور کس طرح دیگر لوگوں سے معاملہ کریں، نیز جن چیزوں کو خدا نے ان کے لئے خلق کیا ہے اور ان کا تابع بنا یا ہے کس طرح راہ سعادت اور کمال میں ان سے استفادہ کریں۔
خدا وند عالم نے قرآن کریم اس لئے نازل نہیں کیاکہ آب و ہوا، زمین ، حیوان اور نبات کی خصوصیات سے لوگوں کو آگاہ کرے بلکہ یہ موضوع انسانی عقل کے فرائض میںقرار دیا یعنی ایسی عقل جسے خدا وند عالم نے عطا کی ہے۔ تاکہ ان تمام چیزوں کی طرف بوقت ضرورت، مختلف حالات اور مسائل میںانسانوں کی ہدایت کرے۔
ایسی عقل کے باوجود جو انسان کو خدا نے بخشی ہے انسان اس بات کا محتاج نہیں تھا کہ خدا وند عالم قرآن کریم میں مثلاً ''ایٹم'' کے بارے میں تعلیم دے، بلکہ انسان کی واقعی ضرورت یہ ہے کہ خدا وند عالم اس طرح کی قوت سے استفادہ کرنے کے طور طریقے کی طرف متوجہ کرے تاکہ اسے کشف اور اس پر قابو پانے کے
..............
(١)قمر٩
(٢)ذاریات٥٢(٣)قلم٥١
بعداس کو انسانی فوائد کے لئے روبہ کار لائے ، نہ یہ کہ نوع بشر اور حیوانات کی ہلاکت اور نباتات کی نابودی کے لئے استعمال کرے۔
لہٰذا واقعی حکمت وہی ہے جو قرآن کریم نے ذکر کی ہے اور استدلال اور برہان کے موقع پر مخلوقات کی اقسام بیان کی ہے۔
البتہ یہ بات علمی حقائق کی جانب قرآن کریم کے اشارہ کرنے سے منافات نہیں رکھتی ہے ،وہ حقائق جو نزول قرآن کے بعد کشف ہوئے ہیں اور قرآن نے کشف سے پہلے ہی ان کی طرف اشارہ کیا ہے وہ اس بات کی واضح اور بین دلیل ہیں کہ قرآن کریم خالق ہستی اور پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اور جس طرح خاتم الاوصیاء حضرت علی نے بیان کیا ہے کہ عجائب قرآن کی انتہا نہیں ہے ۔
یہ قرآ ن کے عجائب میں سے ہے کہ اس میں جہاں بھی مخلوقات کی خصوصیتیں بیان ہوئی ہیں وہ ان علمی حقائق سے کہ جو دانشوروں کے ذریعہ پوری تاریخ اور ہر زمانے میں کشف ہوئے ہیں، مخالف نہیں ہیں ۔

٢۔ د وسرے سوال کا جواب
بعض دانشور گروہ نے بعض ادوار میں قرآن کریم میں مذکور کچھ چیزوں کے بارے میں تاویل و توجیہ کی ہے اوران غلط و بے بنیاد نظریات سے جو ان کے زمانے میں علمی حقائق سمجھے جاتے تھے تطبیق دی ہے؛جیسے ہفت گانہ آسمانوں کی توجیہ ہفت گانہ افلاک سے کی ہے جو گز شتہ دانشوروں کے نزدیک مشہور نظر یہ تھا ، اور یہ ، بطلیموس جو تقریباً ٩٠ ء سے ١٦٠ ء کے زمانے میںگز را ہے اس کے نظریہ کے مطابق ہے :

بطلیموس کا نظریہ
آسمان اور زمین گیند کی شکل کے ہیں کہ بعض ان میں سے پیازکے تہہ بہ تہہ چھلکوں کے مانندہیں ان کرّات کا مرکز زمین ہے کہ جس کا ٣٤ حصہ پانی سے تشکیل پایا ہے ، زمین کا بالائی حصہ ہو ا ہے اور اس کے اوپر آگ ہے ان چار عنصر پانی ، مٹی، ہوا اور آگ کو عناصر اربعہ کہتے ہیں، ان کے اوپر فلک قمر ہے، جو فلک اول ہے ۔ اس کے بعد فلک عطارد، پھر فلک زہرہ، پھر خورشید پھر مر یخ اس کے بعد مشتری اور اس کے بعد زحل ہے ان افلاک کے ستاروںکو سیارات سبعہ کہتے ہیں،فلک ثوابت کہ جن کو بروج کہتے ہیں وہ ان پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے بعد اطلس نامی فلک ہے جس میں کوئی ستارہ نہیں ہے ؛ ان دانشوروںنے ان ساتوں آسمانوںکی ہفت گانہ سیارات کے افلاک سے ،کرسی کی فلک بروج سے نیز عرش کی نویں فلک سے توجیہ و تاویل کی ہے ۔
ان لوگوں نے اسی طرح قرآن و حدیث میں مذکور بعض اسلامی اصطلاحات کی بے بنیادفلسفیانہ نظریوں اور اپنے زمانے کے نجومی خیالوں سے توجیہ اور تاویل کی ہے اور چونکہ ان بعض نظریات میں ایسے مطالب پائے جاتے ہیں کہ جو قرآن کریم کی تصریح کے مخالف ہیں؛ انہوںنے کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کے نظریات کو ان نظریوں کے ساتھ جمع کر دیں، مرحوم مجلسی نے اس روش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
جان لو! کہ یہاں پر ایک مشہور اعتراض ہے اور وہ یہ ہے کہ: علم ہیئت کے تمام ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ آسمان اول پر چاند کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے اور تمام گردش کرنے والے ستارے ایک فلک میں گردش کر رہے ہیں اور ثابت ستارے آٹھویں فلک پر ہیں، جبکہ قرآن کریم کی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ سارے کے سارے یا اکثر ،آسمان دنیا پر پائے جاتے ہیں (١)، اس کے بعد وہ دئے گئے جواب کو ذکر کرتے ہیں۔
اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے کہ آیت اور اس کی تفسیر یکے بعد دیگرے ذکر کی جائے گی لہٰذا مرحوم مجلسی کی نقل کردہ دلیلوں سے یہاں پر صرف نظر کرتے ہیں۔ اور صرف اس زمانے کے عظیم فلسفی میرباقر داماد کی بات کو حدیث کی تاویل کے ضمن میں ذکر کررہے ہیں۔

ایک غیر صحیح تاویل اور بیان
سید داماد(میر باقر داماد) ''من لا یحضرہ الفقیہ'' کے بعض تعلیقات میں لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: عرش وہی فلک الافلاک ہے اور جو امام نے اسے مربع (چوکور) جانا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فلک کی دورانی حرکت کی وجہ سے اس میں ایک کمر بند اور دو قطب پید اہوتے ہیں؛ اور ہر بڑا دائرہ جو کرہ کے اردگرد کھینچا جاتا ہے اس کرہ کو نصف کر دیتا ہے اور فلک بھی کمر بندی اور دائرہ ای حرکت کی وجہ سے جوا ن دو قطب سے گزرتا ہے چار حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ۔ اور عرش جو کہ دور ترین فلک ہے اور کرسی جو کہ ثابت ستاروں کا فلک ہے یہ دونوں بھی نصف النہار ،منطقة البروج اور قطبوں سے گزرتا ہے ، چار حصوں میں تقسیم ہوجاتے
ہیں . اور دائرہ افق جو فلک اعلی کی سطح پر ہے نصف النہار اور مشرق و مغرب کے دائرہ کی وجہ سے چار حصوں میں
..............
(١) ولقد زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب ، صافات ٦.
تقسیم ہوتا ہے اور اس کا ہر حصہ اس مجموعہ میں اس طرح واقع ہوتا ہے کہ چہار گانہ جہتوں( جنوب و شمال ، مشرق و مغرب) کو معین کر دیتا ہے ۔ فلسفیوں نے فلک کو انسان کے مانند فرض کیا ہے جو اپنی پشت کے بل سویا ہوا ہے اس کا سر شمال کی طرف، پائوں جنوب کی طرف داہنا ہاتھ مغرب اور بایاں ہاتھ مشرق کی طرف نیز تربیع اور تسدیس دائرہ کی ابتدائی شکلیں ہیںجو اپنی جگہ پر بیان کی گئی ہیںکہ تربیع ان دو قطروں سے جو خود ایک دوسرے پرقائم ہیں اور ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیںحاصل ہوتی ہے اور تسدیس نصف قطر سے، اس لئے کہ٦\١ ،کا نصف قطرکے برابر ہے اور ٤\١ دور ایک مکمل قوس ہے اور جتنا ٤\١سے کم ہوگا تو باقی بچا ہوا ٤\١ کی حد تک پہنچنے تک اس کا کامل اور پورے ہونے کا باعث بنے گا۔
اور فلک اقصیٰ( آخری فلک) مادہ ، صورت اور عقل کا حامل ہے کہ وہی عقل اول ہے اور اسے عقل کل بھی کہاجاتا ہے اور نفس کا حامل ہے کہ وہی نفس اول ہے اور اسے نفس کل بھی کہتے ہیں او ریہ نفس،مربع ہے جو نظام ہستی کے مربعات میں سب سے پہلا مربع ہے ۔
یہاں پر دوسری جہتیںبھی پائی جاتی ہے جن کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ہے اور جو چاہتا ہے کہ اسے سمجھے وہ مزید کوشش کرے؛ مرحوم مجلسی کہتے ہیں کہ ان توجیہات کا قوانین شرع اور اہل اسلام کی اصطلاحوں سے موافق نہ ہونا پوشیدہ نہیں ہے ۔(١)
اس کے علاوہ بعض دانشوروںنے قرآن کریم کی تفسیر اسرائیلیات سے کی ہے، بعض لوگوں نے
ان جھوٹی روایات سے جن کی نسبت پیغمبر کی طرف دی گئی ہے بغیر تحقیق و بررسی کے قرآن کی تفسیر کی ہے ؛اور یہی چیز باعث بنی کہ قرآن اور اسلامی اصطلاحات و الفاظ کا سمجھناقرآن و حدیث کی تلاوت کرنے والوں پر پوشیدہ اور مشتبہ ہو گیا ہے ہم نے بعض ان غلط فہمیوں کو کتاب ''قرآن کریم اوردو مکتب کی روایات '' میں''قرآن رسول کے زمانے میں اور اس کے بعد '' کے حصہ میں ذکر کیا ہے ۔

بحث کا خلاصہ
اول: سماء : آسمان ، لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں جو تمہیںاوپر سے ڈھانپ لے اور ہر چیز کا آسمان اس
کا اوپری حصہ اوراس کی چھت ہے اور قرآن کریم میں جہاں یہ لفظ مفرد استعمال ہوا ہے تو کبھی تو اس کے معنی
..............
(١) بحار : ٥٨ ٥۔ ٦.
اس زمین کے ارد گرد فضا کے ہیں جیسے :
١۔(الم یروا الیٰ الطیر مسخرات فی جو السمائ)
کیا انہوں نے فضا میں مسخر پرندوں کو نہیں دیکھا؟!(١)
٢۔ (و انزل من السماء مائً) اس نے آسمان (فضا)سے پانی نازل کیا۔(٢)
اور کبھی اس سے مراد ستارے اور بالائی سات آسمان ہیں ، جیسے:
(ثم استویٰ الیٰ السماء فسواھن سبع سمٰوات)
پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اورترتیب سے سات آسمان بنا ئے۔(٣)
اور جہاں پر لفظ سماء جمع استعمال ہوا ہے اس سے مراد ساتوں آسمان ہیں جیسا کہ گز شتہ آیت میں ذکر ہوا ہے ۔
دوسرے: آغاز خلقت: خدا وند عالم خود خبر دیتا ہے کہ آسمان اور زمین کی خلقت سے پہلے پانی کی تخلیق کی اور گز شتہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا وند عالم نے زمین کو اسی پانی سے خلق کیا ہے اور آسمان کو اس زمین کے پانی اور اس کی بھاپ سے خلق کیا ہے ۔ اور زمین و آسمان کے تخلیقی مراحل اور اس میں موجود بعض موجودات جس کے ضمن میں انسان کی ضروریات زندگی بھی شامل ہیںچھ دور میں کامل ہوئے ہیں؛ اور خداوند عالم نے تمام نورانی ستاروں کو آسمان دنیا کے نیچے قرار دیا ہے اور جو اخبار خلقت سے متعلق خدا وند عالم نے ہمیں دئے ہیں اتنے ہیں کہ لوگوں کی ہدایت کی لئے ضروری ہیں اور عقل انسانی اس سے زیادہ ابتدائے خلقت سے متعلق مسائل اور کہکشائوں اور سیاروں کی حقیقت کو درک نہیں کر سکتی ہے۔
بعض دانشوروںنے خود کو زحمت میں مبتلا کیا ہے اور قرآن میں آسمان اور ستاروں کی توصیف کے سلسلہ میں اپنے زمانے میں معلوم مسائل سے ان کو علمی تصور کرتے ہوئے توجیہ و تاویل کی ہے ؛ جیسے آسمانوںکے معنی کی تاویل ہفت گانہ آسمان سے کہ اسے قطعی اور یقینی مسائل خیال کرتے تھے، لیکن آج اس کا باطل ہونا واضح اور آشکار ہے ۔
اسی طرح بعض آیتوں کی اسرائیلی روایتوں سے تفسیر کی ہے ایسی رو ش اس وقت بھی مسلمانوں میں رائج ہے اور اس سے اسلامی معاشرے میں غلط نظریئے ظاہر ہوئے کہ ان میں سے بعض کی آئندہ بحثوں میں خدا وند عالم کی تائید سے تحقیق و بررسی کریں گے۔
..............
(١)نحل٧٩
(٢)بقرہ٢٢
(٣)بقرہ٢٩