٣
قرآن میں مخلوقات الٰہی کی قسمیں
١ ۔ملائکہ
٢۔ آسمان، زمین اور ستارے
٣۔ دوّاب ( زمین پر متحرک چیزیں)
٤۔ جن اور شیطان
٥۔ انسان
٦۔ آیات کی تشریح اور ان کی روایات میں تفسیر
١۔ ملائکہ
اس کا واحد ملک یعنی فرشتہ ، خدا وند عالم کی پردار مخلوقات کی ایک صنف ہے جس کیلئے موت و زندگی کا تصور بھی ہے یہ خدا کے مطیع اور فرمانبردار بندے ہیں جو اس کی عبادت کرتے ہیں۔ اس کے دستورات کی اطاعت کرتے اور کبھی اس کی نافرمانی نہیں کرتے ہیں۔ کبھی خدا وند عالم کے دستورات کی انجام دہی اور فرمانبرداری کے لئے انسانی شکل میں بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ خدا وند عالم نے اپنے پیغام پہنچانے والوں کو انہیں میں سے انتخاب کیا ہے اور سورۂ فاطر میں فرمایاہے :
(الحمد للہ فاطر السمٰوات و الارض جاعل الملائکة رسلاًاولی اجنحة مثنیٰ و ثلاث و رباع یزید فی الخلق ما یشاء ان اللہ علیٰ کل شیئٍ قدیر)
زمین و آسمان کے خالق خدا سے حمد و ستائش مخصوص ہے ایسا خدا جس نے فرشتوں کو پیغام پہنچانے والابنایا جو دو دو، تین تین ، چار چار، پر(١) رکھتے ہیں وہ اپنی آفرینش میں جس قدر چاہے اضافہ کر سکتا ہے ،خداوند عالم ہر چیز پر قادر ہے ۔(٢)
سورۂ زخرف میں فرماتاہے:
(وجعلوا الملائکة الذین ہم عباد الرحمن اِناثاً اشھد وا خلقھم)
یہ لوگ فرشتوں کو جو رحمن کے بندے ہیںلڑکی خیال کرتے ہیں کیا یہ لوگ تخلیق کے وقت موجود تھے؟!(٣)
سورۂ شوریٰ میں فرماتا ہے :
..............
(١) پردار قرآن کریم کی تاسی میں کہتے ہیں ورنہ اس کی کیفیت ہم نہیں جانتے۔
(٢) فاطر ١۔
(٣) زخرف ١٩
(و الملائکة یسبحون بحمد ربھم و یستغفرون لمن فی الاَرض)
فرشتے، ہمیشہ اپنے پروردگار کی تسبیح کرتے ہیں اور زمین پر موجود افراد کے لئے خدا سے بخشش کے طالب رہتے ہیں۔(١)
سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے :
(یخافون ربھم من فوقھم و یفعلون ما یؤمرون)
یہ لوگ صرف خدا وند متعال (جو کہ ان کا حاکم ہے)کی مخالفت اور نافرمانی سے ڈرتے ہیں؛ اور جس پر وہ مامور ہیں اسے انجام دیتے ہیں۔(٢)
سورۂ مریم میں اس سلسلہ میں کہ یہ کبھی انسانی شکل میں بھی ظاہر ہوتے ہیں فرماتا ہے :
(فارسلنا الیھا روحنا فتمثل لھا بشراً سویا٭ قالت انی اعوذبالرحمن منک ان کنت تقیاً٭ قال انما انا رسول ربک لأ ھب لک غلاماً زکیاً)
ہم نے اپنی روح اس کی طرف بھیجی وہ ایک انسانی شکل میں متعادل انداز سے ظاہر ہوا! مریم بہت ڈریں اور بولیں میں تیرے شر سے خدا وند رحمن کی پناہ چاہتی ہوں اگر پرہیزگار ہے! فرشتہ نے کہا: میں تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا ہوں، میں تمہیں ایک پاک و پاکیزہ فرزند عطا کرنے آیا ہوں!(٣)
سورۂ ہود میں قوم لوط پر عذاب نازل کرنے کے بارے میں فرشتوں کی انسانی شکل میں آمد کی خبر دی گئی ہے اور کہا گیا ہے :
(ولقد جاء ت رسلنا ابراہیم بالبشریٰ قالوا سلاماً قال سلام فما لبث ان جاء بعجلٍ حنیذ٭ فلما رأی ایدیھم لا تصل الیہ نکرھم و اَوجس منھم خیفة قالوا لا تخف انا ارسلنا الیٰ قوم لوط٭... ولما جاء ت رسلنا لوطاً سیئَ بہم وضاق بہم ذرعا و قال ھذا یوم عصیب٭... قالوا یا لوط انا رسول ربک لن یصلوا الیک...)
ہمارے نمائندوں نے ابراہیم کو بشارت دیتے ہوئے کہا: سلام! انہوںنے بھی جواب سلام دیا اور ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ بھنا ہوا گوسالہ لیکر حاضر ہوئے لیکن جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ وہاں تک نہیں پہنچ رہے ہیں اوروہ اسے کھا نہیں رہے ہیںتو انہیں اچھا نہیں لگا اور ان سے دل میں خوف کا احساس پیدا ہوا تو
..............
(١)شوریٰ٥
(٢)نحل٥٠
(٣)مریم١٧۔١٩
انہوںنے کہا: نہ ڈرو! ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں ...،جب ہمارے فرستادہ عذاب کے فرشتے قوم لوط کے پاس آئے تو وہ ان کی آمد سے ناخوش ہوئے اور دل مرجھا گیا اور بولے: آج کا دن بہت سخت دن ہے...، فرشتوں نے کہا اے لوط! ہم تمہارے پروردگار کے فرستادہ ہیں! وہ لوگ ہرگز تم تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے...۔(١)
اور سورۂ انفال میں فرشتوں کے متعلق اور اس سلسلے میں کہ کس طرح وہ جنگ بدر میں سپاہیوں کی صورت میں مسلمانوںکی مدد کے لئے آئے، فرماتا ہے :
(اذتستغیثون ربکم فاستجاب لکم اِنِّی ممدکم بالف من الملائکة مردفین)
اس وقت کو یاد کرو جب جنگ بدرمیں شدید تھکان کی وجہ سے خدا وند عالم سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمہاری بات رکھ لی اور فرمایا: میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ جو یکے بعد دیگر اتریں گے مددکروں گا۔ (٢)
اس کے بعد فرماتا ہے :
(اذ یوحی ربک الیٰ الملائکة انی معکم فثبتوا الذین آمنوا سا لقی فی قلوب الذین کفروا الرعب فَاضْربوا فوق الاَعْناق و اضربوا منھم کل بنانٍ)
جب تمہارے پروردگار نے فرشتوںکو وحی کی: ''میں تمہارے ساتھ ہوں'' جو لوگ ایمان لا چکے ہیں انہیں ثابت قدم رکھو! بہت جلدی ہم کافروںکے دلوں میں خوف و وحشت ڈال دیں گے؛ ان کی گردن کے اوپری حصہ پر وار کرو اور ان کی تمام انگلیاںکاٹ ڈالو۔(٣)
سورۂ آل عمران میں فرماتا ہے:
(اذ تقول للمؤمنین الن یکفیکم ان یمدکم ربکم بثلاثة آلاف من الملائکة منزلین، بلیٰ ان تصبروا و تتقوا و یا توکم من فورھم ھذا یمدد کم ربکم بخمسة آلافٍ من الملائکة مسومین)
جب تم مومنین سے کہہ رہے تھے: کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ خدا وند عالم تین ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے؟ یقینا اگر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرو اور تقویٰ اختیار کرو. اور فی الفور دشمن تمہارے سراغ میں آ جائیں تو تمہارا خدا پانچ ہزار با علامت فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔(٤)
..............
(١)ہود:٨١۔٦٩
(٢) انفال، ٩
(٣) انفال ١٢
(٤)آل عمران١٢٤۔١٢٥
پیغام رسانی کے سلسلے میں فرشتوں کے انتخاب کے بارے میں فرماتا ہے :
(اللہ یصطفی من الملائکة رسلاً و من الناس)
خد اوند عالم فرشتوں میں سے نمائندوںکا انتخاب کرتا ہے اور انسانوںمیں سے بھی ۔(١)
پھر ان کے توسط سے وحی بھیجنے کے متعلق فرماتا ہے :
(انہ لقول رسول کریم٭ ذی قوة عند ذِی العرش مکین٭ مطاع ثم امین)
یہ بات عظیم المرتبتنمائندہ ( جبرئیل) کی ہے جو صاحب قدرت اور خدا وند کے نزدیک عظیم منصب کا حامل ہے ؛ آسمان میںمطاع و امین ہے ۔(٢)
سورۂ بقرہ میں فرماتا ہے:
(قل من کان عدواً لجبریل فانہ نزَّلہ علیٰ قلبک ِبأِذن اللہ)
کہو! جو بھی جبرئیل کا دشمن ہے ( در حقیقت وہ خد ا کا دشمن ہے ) اس لئے کہ اس نے خدا کے حکمسے تم پر قرآن نازل کیا ہے ۔(٣)
سورۂ شعراء میں فرماتا ہے :
(و انہ لتنزیل رب العالمین، نزل بہ الروح الَٔامین٭ علیٰ قلبک لتکون من المنذرین)
یقیناً یہ قرآن پروردگار عالم کی طرف سے نازل ہوا ہے جسے روح الامین لے کر آئے ہیں اور تمہارے قلب پر نازل کیاہے تاکہ ڈرانے والوں میں رہو۔(٤)
سورۂ نحل میں فرماتا ہے:
(قل نزلہ روح القدس من ربک بالحق لیثبت الذین آمنوا و ھدیً و بشریٰ للمسلمین)
کہو: اس قرآن کو روح القدس نے خدا وند عالم کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ باایمان افراد کو ثابت قدم رکھے اور مسلمانوںکیلئے ہدایت اور بشارت کا سبب بنے۔(٥)
سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے:
(و آتینا عیسیٰ ا بن مریم البینات و ایدناہ بروح القدس)
اورہم نے عیسیٰ بن مریم کو واضح دلائل عطا کئے اور ان کی روح القدس کے ذریعہ نصرت فرمائی۔(٦)
(١)حج٧٥(٢)تکویر١٩۔٢١سورۂ (٣)بقرہ٩٧(٤)شعراء ١٩٢۔٩٤(٥)نحل١٠٢(٦)بقرہ٨٧و ٢٥٣
فرشتہ شب قدر میں تقدیر امور کے لئے نازل ہوتے ہیں خدا وند عالم سورۂ قدر میں فرماتا ہے :
(تنزل الملائکة والروح فیہا بِأِذن ربہم من کل أَمر )
فرشتے اور روح شب قدر میں اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر کام کی تقدیر کے لئے نازل ہوتے ہیں۔(١)
ان میں سے بعض انسانوںکے محافظ اور نگہبان ہیں جیسا کہ سورۂ ''ق ''میں فرماتاہے :
(ولقد خلقنا الانسان ونعلم ماتوسوس بہ نفسہ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید٭اذ یتلقی المتلقیان عن الیمین وعن الشمال قعید٭ ما یلفظ من قولٍ الا لدیہ رقیب عتید)
ہم نے انسان کو پیدا کیا اورہم اس کے نفسانی و اندرونی وسوسے کو جانتے ہیں اور ہم اس کی شہ رگ گردن سے بھی نزدیک ہیں ،اس وقت جبکہ دو فرشتے اس کے دائیں اور بائیں محافظت کرتے ہوئے اس کے اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں۔کوئی بات بھی زبان سے نہیں نکالتا ہے مگر یہ کہ وہی محافظ و نگہبان فرشتے اسی وقت لکھ لیتے ہیں۔(٢)
فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ''ملک الموت'' ہے، خدا وند عالم فرماتا ہے :
(قل یتوفاکم ملک الموت الذی وکل بکم ثم الیٰ ربکم ترجعون)
کہو: موت کا فرشتہ جو تم پر مامور ہے وہ تمہاری روح قبض کر لے گا؛ پھر اپنے پروردگا رکی طرف لوٹائے جائو گے۔(٣)
ان میں سے بعض ملک الموت کے معاون ہیں جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
(حتّی اذاجائَ احدکم الموت توفتہ رسلناوھم لایفّرطون)
جب تم میں سے کسی کی موت آجائے ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کر لیتے ہیں وہ لوگ انجام وظیفہ میں کوتاہی نہیں کرتے ہیں۔(٤)
(الذین تتوفاھم الملائکة ظالمی انفسھم فالقوا السلم ما کنا نعمل من سوئٍ بلیٰ ان اللہ علیم بما کنتم تعملون، فادخلوا ابواب جہنم خالدین فیھا....٭ الذین تتوفاھم الملائکة طیبین یقولون سلام علیکم ادخلوا الجنة بما کنتم تعملون)
..............
(١)قدر٤
(٢)ق١٦۔١٨
(٣)سجدہ١١
(٤)انعام٦١سورۂ نحل میں بھی ذکر ہوا ہے۔
جن لوگوں کی روح موت کے فرشتے قبض کرتے ہیںجبکہ وہ اپنے آپ پر ظلم کر چکے ہیں! ایسے موقع پر سراپا تسلیم ہوتے ہوئے کہتے ہیں:
ہم نے تو کوئی بر اکام نہیں کیا ہے ! ہاں جوکچھ تم نے کیا ہے خدا وند عالم آگاہ ہے! اب جہنم کے دروازوں سے داخل ہو جائو کہ اس میں ہمیشہ رہوگے...جن لوگوں کی روح موت کے فرشتے قبض کرتے ہیں جبکہ پاک و پاکیزہ ہوں،ان سے کہتے ہیں تم پر سلام ہو جنت میں داخل ہو جائو ان اعمال کی جزا میں جو تم نے انجام دئے ہیں۔(١)
خدا وند سبحان قیامت کے دن فرشتوں کے کام اور ان کی منزلت کے بارے میں فرماتا ہے:
(تعرج الملاکة و الروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنة)
فرشتے اور روح اس کی طرف اوپر جاتے ہیں، اس دن جس کی مقدار پچاس ہزارسال ہے ۔(٢)
سورۂ نبا میں ارشاد ہوتا ہے :
(یوم یقوم الروح و الملائکة صفاً لا یتکلمون الا من اذن لہ الرحمن و قال صواباً)
جس دن فرشتے اور روح ایک صف میں کھڑے ہوں گے اور کوئی شخص بھی بغیر خدا وند عالم کی اجازت کے گویا نہیں ہوگا اس وقت ٹھیک ٹھیک کہیں گے۔(٣)
خد اوند عالم نے ہم فرشتوںپر ایمان کو واجب کیا اور سورئہ بقرہ میں فرمایا:
(لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق و المغرب ولکن البر من آمن باللہ و الیوم الآخر و الملائکة و الکتاب و النبیین)
نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ ( نماز کے وقت)اپنا رخ مغرب یا مشرق کی طرف کرلو، بلکہ نیکی اور نیکو کار وہ شخص ہے جو خدا، روز قیامت، فرشتوں، آسمانی کتابوں اور نبیوں پر ایمان رکھتا ہے ۔(٤)
نیز اسی سورہ میں ارشاد فرماتا ہے :
(من کان عدواً للہ و ملائکتہ و رسلہ و جبریل و میکال فاِن اللہ عدو للکافرین)
..............
(١) نحل٢٨۔٣٢
(٢) معارج٤
(٣) نبأ٣٨
(٤)بقرہ ١٧٧
جو بھی خدااور اس کے ملائکہ، رسول نیز جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہوگا تو خدا وند عالم کا فروںکا دشمن ہے۔(١)
کلمات کی تشریح
١۔ فاطر : خالق اور ایجاد کرنے والا.
٢۔حنیذ : کباب اور بریاں.
٣۔نکرھم : ان سے ڈرے اور انھیں برا معلوم ہوا .
٤۔مردفین: پے در پے، ملائکہ مردفین یعنی جھنڈ کے جھنڈ مسلسل، پے در پے آنے والے فرشتے ۔
٥۔ ثبتوا : ان سے سستی کو دور کرو اور انہیں ثابت قدم رکھو.
٦۔مسومین: علامت والے، ''ملائکہ مسومین'' یعنی وہ ملائکہ جو اپنے یا اپنے گھوڑوں پر علامت بنائے ہوتے تھے۔
٧۔مکین: عظیم و برزگوار لیکن یہاں پر خدا وند عالم سے قریب اور اس کے نزدیک باعظمت ہونے کے معنی میں ہے۔
٨۔مطاع :جسکی اطاعت کی جائے ملائکہ میں سے مطاع یعنی فرشتوں کا سردار جس کی اس کے ما تحت فرشتے اطاعت کرتے ہیں۔
٩۔ بینات: واضح و روشن ''آیات بینات'' یعنی واضح و روشن نشانیاں
١٠۔حبل الورید: شہ رگ، یہاں پر رسی سے تشبیہ دی گئی ہے
١١۔ متلقیان: انسان کے محافظ اور نگہبان دو فرشتے یعنی جو کچھ بھی ان کی رفتار و گفتار کو دیکھتے ہیں، نامہ اعمال میں ثبت کر دیتے ہیں۔
١٢۔ رقیب:حافظ ونگہبان
١٣۔عتید: آمادہ و مہیا
..............
(١)بقرہ٩٨
١٤۔ توفّیٰ:قبض کرنا اور مکمل دریافت کرنا ،خدا وند عالم یا فرشتے کہ انسان کووفات دیتے ہیں یعنی ان کی روح کو موت کے وقت بطور کامل قبض کر لیتے ہیں۔
١٥۔روح: جس سے انسان کی حیات و زندگی وابستہ رہتی ہے اگر وہ انسان یا حیوان سے نکل جائے تو وہ مر جاتا ہے؛ روح کی اصل کنہ و حقیقت کی شناخت ہمارے لئے ممکن نہیں ہے جیسا کہ خداوند عالم نے سورۂ اسراء میں اس کی طرف اشارہ کیاہے اور فرمایاہے: تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں، تو ان سے کہو روح امر پروردگار سے ہے اور تمہیں تھوڑے علم کے علاوہ کچھ دیا بھی نہیں گیا ہے ۔
روح کی نسبت اور اضافت خد اوند عالم کی طرف یا تشریفی ہے ( کسب عظمت کی خاطر ہے) یعنی اس عظمت و شرافت کی وجہ سے ہے جواسکو خد اوند عالم کے نزدیک حاصل ہے، یا اضافت ملکی ہے یعنی چونکہ خداکی ملکیت ہے لہٰذا اس نے اپنی طرف منسوب کیا ہے، جس طرح حضرت آدم کی خلقت سے متعلق سورۂ حجر میں ذکر ہوا ہے اور خدا وند عالم نے ملائکہ سے فرمایا:
(فاِذا سویتہ و نفخت فیہ من روحی فقعوا لہ ساجدین)(١)
جب میں تخلیق آدم کاکام تمام کر دوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم سب کے سب سجدہ میں گر پڑنا
اور حضرت عیسیٰ کی تخلیقی داستان میں سورۂ تحریم میں ارشاد ہوتا ہے:
(ومریم ابنة عمران التی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روحنا)
مریم بنت عمران نے اپنی پاکدامنی کا مظاہرہ کیا اور ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔(٢)
اس طرح کے موارد میں روح کی خدا کی طرف نسبت دینا ویسے ہی ہے جیسے بیت کی نسبت اس کی طرف جیسا کہ سورۂ حج میں فرماتا ہے :
(و طھر بیتی للطائفین...)
یعنی ہمارے گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھو، یہاں پر بیت اللہ الحرام کی نسبت خد اکی طرف تشریفی ہے ؛جو شرف اور خصوصیت دیگر جگہوں کی بہ نسبت بیت کو حاصل ہے خدا وند عالم نے اسی خصوصیت اور اہمیت خاص کے پیش نظر اسے مکرم جانتے ہوئے اپنی طرف نسبت دی اور فرمایا: میر اگھر! اسی طرح گز شتہ دو آیتوں میں روح کی نسبت خدا کی طرف ہے۔
..............
(١) حجر ٢٩(٢) تحریم١٢
روح کے دوسرے معنی بھی ہیں کہ وہ نفوس کی ہدایت اور حیات کا سبب ہے جیسے: وحی، نبوت، شرائع الٰہی بالخصوص قرآن ، خد اوند عالم نے سورۂ نحل میں فرمایا:
(ینزل الملائکة بالروح من امرہ علیٰ من یشاء من عبادہ)
فرشتوں کو روح کے ہمراہ اپنے حکم سے اپنے جس بندہ کے پاس چاہتا ہے نازل کرتا ہے ۔(١)
اور سورۂ شوری ٰ میں فرمایا ہے :
(وکذلک اَوحینا الیک روحاً من اَمرنا)
اسی طرح ( جس طرح ہم نے گز شتہ رسولوں پر وحی کی ہے) تم پر بھی روح کی اپنے حکم سے وحی کی ۔(٢)
ان آیات میں مذکورہ روح کہ خد اوند عالم نے اپنے پیغمبرۖپر جس کی وحی کی ہے قرآن کریم ہے، یہ روح فرشتوں کے علاوہ ہے ، جیسا کہ خدا وند عالم نے سورۂ قدر میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :
(تنزل الملاکة و الروح فیھا باِذن ربھم من کل أمر)
فرشتہ، روح اس شب میں پروردگارکی اجازت سے تمام امور کی تقدیر کے لئے نازل ہوتے ہیں۔(٣)
سورۂ معارج میں ارشاد ہوتا ہے :
(تعرج الملائکة و الروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنة)(٤)
فرشتے اور روح اس کی طرف اوپر جاتے ہیں اس دن جسکی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔
اس کی توضیح و تشریح حضرت امام علی کی گفتگو سے آئندہ صفحو ں میں پیش کی جائے گی۔
١٦۔ امین: ثقہ اور امانت دار کو کہتے ہیں جو وحی پہنچانے میں امانت داری کرے، خدا وند عالم نے روح نامی فرشتہ کو امین کہا ہے اور سورۂ شعرا ء میں ارشاد فرماتا ہے :
(نزل بہ الروح الاَمین علیٰ قلبک لتکون من المنذرین )(٥)
روح الامین نے اسے تمہارے قلب پر اُتارا تاکہ ڈرانے والوں میں سے ہو جائو۔
١٧۔ قدس:پاکیزگی، روح القدس یعنی: پاک و پاکیزہ روح ،خدا وند عالم نے فرشتۂ روح کو صفت قدس اور پاکیزگی سے بھی یاد کیا ہے اور سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا:
..............
(١) نحل٢
(٢) شوری٥٢
(٣)قدر٤.
(٤)سورۂ معارج ٤.
(٥) سورۂ شعرا ء ١٩٤ ١٩٣.
(و آتینا عیسیٰ ابن مریم البینات و اَیدناہ بروح القدس)(١)
ہم نے عیسیٰ بن مریم کو واضح و روشن نشانیاں دیں اور ان کی روح القدس کے ذریعہ مدد کی ہے ۔
سورۂ نحل میں خاتم الانبیاء سے خطاب کر کے فرماتا ہے :
(قل نزلہ روح القدس من ربک بالحق لیثبت الذین آمنوا و ھدی و بشریٰ للمسلمین)
کہو!اس قرآن کو تمہارے پروردگار کی جانب سے حق کے ہمراہ روح القدس لیکر آیا ہے تاکہ با ایمان افراد کو ثابت قدم رکھے ؛ نیز یہ مسلمانوںکیلئے ہدایت اور بشارت ہے ۔(٢)
١٨۔تعرج:بلندی کی طرف جاتا ہے : مادہ ٔعروج سے جو بلندی کی طرف تدریجاًجانے کے معنی میں ہے۔
عالم غیب کے خیالی تصورات
ان مباحث کے مانند اور بحثوں میں کہ جن میں عالم غیب کے بارے میں گفتگو ہو تی ہے عام طور سے ایسے افراد کی طرف سے بحثیں ہوتی ہیں جو مختلف سطح کی قوت درک و فہم رکھتے ہیں،وہ ان مسائل سے آشنائی کے لئے گونا گوں کو ششیں کرتے ہیں ،ان لوگوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ قرآن کریم اور احادیث شریف میں نا محسوس عوالم کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے اسے جس طرح عالم مادہ میںپاتے ہیں اسی طرح درک اور شناخت کریں ، اسی وجہ سے عالم خیال کی سیر کرنے لگتے ہیںاور اپنے خیالات اور گمان کوعلم و معرفت سمجھ بیٹھتے ہیںاس کی توضیح و تشریح یہ ہے :
شناخت و معرفت کے وسائل
اشیاء کی شناخت اور معرفت کے لئے ہمارہے پاس گز شتہ میثاق کی بحث میں بیان کردہ عقلی نتائج کے علاوہ دو وسیلے ہیں:
١۔ حسی ٢۔ نقلی
..............
(١)بقرہ ٨٧اور ٢٥٣.
(٢)نحل١٠٢.
(اول۔ حسی)ہمارے حواس اس لئے خلق کئے گئے ہیں کہ عالم مادہ کی موجودات کو تشخیص دیں لہٰذا واضح ہے کہ عوالم غیر محسوس کے درک پر قادر نہیں ہو سکتے ہیں۔
(دوسرے نقلی )یعنی جو کچھ نقل و حکایت کی راہ سے پہنچانتے اور جانتے ہیں ، جیسے جو کچھ ہم ان دیکھے شہروں اور ملکوں کے حالات ،خبروں اور نقلوںکے ذریعہ جانتے ہیں ہماری اس طرح کی معلومات منقولات کے دائرے میں ہے اور اس سے حاصل شدہ شناخت خبر اور خبر دینے والے کی صداقت اور درستگی سے مربوط ہے ۔
جو کچھ انبیاء اور پیغمبر ان الٰہی ؛ عالم غیب کی خبر دیتے ہیں،وہ دوسری قسم کی معرفت ہے ، یعنی ستاروں اور سیاروں کے مافوق آسمانوں کی شناخت، نیز جنوں اور فرشتوں کی دنیا کے بارے میں معلومات اور روز قیامت کا مشاہدہ وغیرہ ان سب کو ہم ان حضرات کے اخبار اور احادیث سے حاصل کرتے ہیں ، اس سے بھی بڑھ کر ان کی باتیں اور احادیث خدا وند سبحان کی صفات کے بارے میں ہیںکہ ہمارا علم (اس بات کے بعد کہ ان کی رسالت و نبوت کا صادق ہونا ہمارے لئے ثابت ہو چکا ہے)ان حضرات کے بیانات کے دائرے میں محدود ہے اور ہم اس کی قدرت نہیں رکھتے ہیںکہ ان کی باتوں کو جوان عوالم سے مربوط ہیںحس کے ذریعہ تشخیص دے کر عقل کے حوالے کریں تاکہ اس کی صحت و عدم صحت کا اندازہ ہو سکے۔
بحث کا خلاصہ
فرشتے خدا کی ایک طرح کی مخلوق ہیں اس کے سپاہی اور بندے ہیں،وہ ان کے پاس ''پر'' ہیں،وہ زندگی گزارتے اور مرتے ہیں یہ ارادہ اور عقل کے مالک ہیں اور جب انجام فرمان خداوندی کے لئے ضرورت ہوتی ہے تو وہ انسانی شکل میں بھی ظاہر ہوتے ہیں؛ یہ لوگ مقام و منصب، فضل و شرف کے اعتبار سے مختلف درجوں کے حامل ہیں جیسے روح الامین، روح القدس وغیرہ؛ خدا وند عالم نے انہیں میں سے کچھ نمائندوںکو وحی پہنچانے اور مقدرات انسان کو شب قدر میں نازل کرنے کے لئے منتخب کیا ہے، انہیں میں سے دو فرشتے انسانوں پر مامور ہیں کہ ان کے اعمال کولکھیں اور ملک الموت اور ان کے ما تحت فرشتے یہ سب کے سب روز قیامت مبعوث کئے جائیں گے اور اطاعت خداوندی کے لئے آگے بڑھیں گے اور کبھی خدا کی نافرمانی نہیں کریں گے۔
ہماری شناخت اور معرفت کے دو ہی ذریعے ہیں:
١۔ حس اور حسی شناخت، یعنی جس سے اشیاء کی تشخیص اور شناخت کر سکیں۔
٢۔ نقل اور نقلی شناخت، یعنی جو کچھ مطمئن اور قابل اعتماد راوی کی خبر سے حاصل کرتے ہیں۔
چونکہ ملائکہ جن ، روح ، قیامت اور آغاز خلقت کے عالم ہمارے لئے نا محسوس اور غیر مرئی ہیں اور ہمارے پاس سوائے نقل کے کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے یعنی انبیاء الٰہی کی نقل کے علاوہ ان کی شناخت کاہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے ایسے انبیاء جنکی صداقت اور درستگی رسالت خدا کی طرف سے ہم پر ثابت ہو چکی ہے ،لہٰذا جن لوگوں نے اپنے آپ کو صاحب نظر خیال کر کے ان عوالم کے متعلق زبان و قلم سے بات کی ہے اس کی وقعت و اہمیت، وہم و خیال سے زیادہ نہیں ہے اور وہم و گمان کبھی ہمیں حق سے بے نیاز نہیںکر سکتے۔
جو کچھ ''وکان عرشہ علیٰ المائ''(اس کا عرش پانی پر ہے) یا ''ثم استویٰ الیٰ السماء و ھی دخان''( پھر اس نے آسمان کی تخلیق شروع کی جبکہ وہ دھواں تھا )جیسی آیتوں میںآیا ہے اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ پانی اسی پانی کی طرح ہے جسے ہم اس وقت زمین پر دیکھ رہے ہیں اور '' ہائیڈروجن اور آکسیجن'' کی ترکیب سے مناسب اندازے کے ساتھ وجود میں آیاہے یا دھواں وہی دھواں ہے کہ جو آگ سے نکلتا ہے! ہم عنقریب ربوبیت کی بحث میں عرش کے معنی بیان کریںگے نیز آئندہ بحث میں قرآن کریم میں مذکور سماء اور سماوات کے معنی تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔
|