٢
الوہیت سے متعلق بحثیں
الف۔ آیا مخلوقات اچانک وجود میں آئی ہیں؟
ب۔الٰہ کے معنی
ج۔لاالہ الا اللہ کے معنی
''الہ''وہی خالق ہے اور خدا کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے نیز خالق کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں ہوسکتی یعنی خدا ئے وحد ہ لا شریک کے علاوہ کوئی معبود اور خالق نہیں ہے اس لئے : لا الہ الا اللہ ہے۔
د۔ آیا خدا کے بیٹا اور بیٹی ہے ؟
الف۔آیا مخلوقات اتفاقی طور پر وجود میں آگئی ہیں؟
ابھی بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ تخلیق اور ہستی (عالم) کی تخلیق اور اس کا نظام اچانک وجود میں آگیا ہے ، نہ مخلوقات کا کوئی خالق ہے اور نہ ہی نظام کا کوئی نظم دینے والا! ان کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے:
یہ تمام ناقابل احصاء اور بے شمارمخلوق عالم ہستی میں اچانک اور اتفاقی طور پر وجود میں آگئی ہے ، یعنی ذرات اور مختلف عناصر اپنے اندازہ اور مقام کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ارد گرد جمع ہوئے اور اتفاقی طورپر بقدر ضرورت اور مناسب انداز میں ایک دوسرے سے مخلوط ہو کر ایک مناسب ماحول اور فضا میں اپنی ایک شکل اختیار کر لی نیز اتفاقاً عناصر ایک دوسرے سے مرکب ہو گئے اور ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ بن گئے ،دور اوراچانک نزدیک کے شائستہ و مناسب مداروںمیں یکجا ہو کر اتفاقی طور پر ایک لا متناہی اور بے شمار منظم اور حیات آفریں مجموعہ میں تبدیل ہو گئے، وہ بھی مناسب اورصحیح حساب و کتاب کے ساتھ یہاں تک کہ زندگی کے اصلی عناصر جیسے آکسیجن وہائیڈروجن پیدا ہو ئے اورزندگی کے وسائل و اسباب وجود میں آ گئے۔
موضوع کی مزید وضاحت کے لئے نیز اس لئے بھی کہ اس مغالطہ اور پردہ پوشی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا جائے خدا وند عالم کی مدد سے درج ذیل مثال پیش کرتے ہیں:
آپ اگر چھوٹی چھوٹی دس گیندیں ایک اندازہ کی کی برابر سے لیں اور ایک سے دس تک شمارہ گزاری کریں پھر انہیں ایک تھیلی میں رکھیں اور اسے زور سے ہلائیں تاکہ مکمل طور پرخلط ملط ہو کر ترتیب عدد سے خارج ہو جائیں پھر یہ طے کریں کہ اسی ردیف سے ایک سے دس تک نکالیں تو ایک نمبر کی گیند باہر لانے کا احتمال ایک سے دس تک میں باقی رہے گا، یعنی ممکن ہے کہ پہلی بار یا دوسری بار میں یا دسویں مرحلہ میں باہر آئے جو دسواں اور آخری مرحلہ ہے اگر ایک اور دو عددکو ایک دوسرے کے بعد باہر نکالنا چاہیں تو احتمال کی نسبت ایک سے سو تک پہنچ جائے گی یعنی ممکن ہے پہلے ہی مرحلہ میں ساتھ ساتھ باہر آجائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اس عمل کو سو بار تکرار کرنے پر مجبور ہوں جب جا کے کامیابی ملے لیکن اگر ١۔٢۔٣ عدد کو ترتیب سے باہر لانا چاہتے ہیں یہاں پر احتمال کی نسبت ہزار تک بھی پہنچ سکتی ہے بعد کے مرحلہ میں یعنی ١۔٢۔٣ ۔٤ عدد کو نکالنے میں نسبت اور بڑھ جائے گی اور ایک سے دس ہزار تک عدد کا اضافہ ہو جائے گایعنی ممکن ہے کہ دس ہزار بار تکرار کرنے پر مجبور ہوں تاکہ آپ کی مراد پوری ہو، اسی طرح آگے بڑھتے جائیں یہاں تک کہ ان دسوں گیندوں کو اگر اسی ترتیب سے ایک سے دس تک نکالنا چاہیںتو احتمال کی نسبت دسوں ملین ہو سکتی ہے!(١) یہ قابل قبول اور واضح علمی روش ہے !
اگر علمی نقطہ نظر سے ایسا ہے کہ صرف ١٠، عدد کو اتفاقی طور پر ایک تھیلی سے باہر لانے کے لئے وہ بھی منظم طور پرنیز شماروں کی ترتیب کے ساتھ تو اتنی تکرار کی ضرورت ہے، تو پھر علمی نقطہ نظر آج کے ایسے نظام کے لئے جس کا ہم مشاہدہ کررہے ہیں،کیا ہوگا ؟ ایسا نظم و انضباط جو نہ صرف بے شمار اور ناقابل احصاء موجودات کا مجموعہ ہے بلکہ خود اس کے ایک موجود کے اندر موجودات بھی آج کے معروف وسائل اور دوربین علمی نقطئہ نظرسے قابل احصاء نہیں ہیں! تو پھر کون ذی شعور ہے جو کہے: یہ سب اتفاقی طور پر وجود میں آگیا ہے اور ہر ایک کے لئے مناسب اجز اء اتفاقی طور پر پیدا ہوگئے ہیں نیز اتفاق سے ایک جز نے دوسرے جز کے پہلو میںپناہ لے لی ہے اسی طرح ایک جزء دوسرے جزء کے پاس اور ایک حصہ دوسر ے حصہ سے ہم ردیف اور متصل ہوگیا ہے اور محیر ا لعقول اور تعجب آور یہ نظم و نسق خود ہی ایجاد ہوگیا ہے ؟
نظم آفرین خدا نے سورۂ حجر میں فرمایا ہے :
(ولقد جعلنا فی السماء بروجاً و زیناھا للناظرین )
ہم نے آسمان میں بہت سے برج قرار دئیے اور انہیں دیکھنے والوں کے لئے آراستہ کیا۔(٢)
(والارض مددناھا وألقینا فیھا رواسی و أنبتنا فیھا من کل شیء موزونٍ)
..............
(١) علم بہ ایمان دعوت می کند ، تالیف أ. کریسی موریسون.A .CRESSY. MO RRISO N
(٢)حجر١٦.
ہم نے زمین بچھائی اور اسمیں مستحکم و مضبوط پہاڑ استوار کئے اوراس میں ہر مناسب اور موزوں چیز پیدا کی۔(١)
سورۂ بقرہ میں فرماتا ہے :
(اِناّ فی خلق السموات والارض و اختلاف اللیل و النھار و الفلکِ التی تجری فی البحر بما ینفع الناس وما انزل اللہ من السماء من مائٍ فاحیا بہ الارض بعد موتھا و بث فیھا من کل دابةٍ و تصریف الریاحِ والسحاب المسخر بین السماء و الارض لآیات لقوم یعقلون)
یقینا آسمان و زمین کی تخلیق، روز و شب کی گردش اور لوگوں کے فائدہ کے لئے دریا میںسطح آب پر کشتیوں کارواں دواں کرنا نیز خداکا آسمان سے پانی نازل کرنا اور زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کرنا اور چلنے والوں کی کثرت، ہوائوں کی حرکت اور زمین و آسمان کے درمیانمسخر بادل صاحبان عقل و ہوش کے لئے نشانیاں ہیں۔ (٢)
یقینا، خدا کی قسم زمین و آسمان کی خلقت میں تدبر و تعقل کی بے شمار نشانیاں ہیں اور آسمان کے قلعوں اور اس کے ستاروںکے ہماہنگ نظام میںاور محکم اورنپے تلے میزان میں نباتات کے اگنے میںعقلمندوں کیلئے اس کی عظمت و قدرت نیز نظم و نسق کی بے حساب نشانیاں ہیںبشرطیکہ غور توکریں لیکن افسوس ہے کہ عاقل انسان کو ہوا و ہوس نے تعقل و تدبر سے روک رکھا ہے !!!
..............
(١)حجر ١٩(٢) بقرہ ١٦٤
ب۔ اِلٰہ اور اس کے معنی
اول: کتاب لغت میں الہ کے معنی
جو کچھ لغت کی کتابوں میں الہ کے معنی سے متعلق ذکر ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے :
الہ کتاب کے وزن پر ہے'' اَلِہَ یَاْلَہُ'' کے مادہ سے جو عبادت کے معنی میں ہے یعنی خضوع و خشوع کے ساتھ اطاعت کے معنی میں ہے ، لفظ الہ کتاب کے مانند مصدر بھی ہے اور مفعول بھی ؛ لہٰذا جس طرح کتاب مکتوب (لکھی ہوئی شیئ) کے معنی میں ہے الہ بھی مالوہ یعنی ''معبود'' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اس لحاظ سے الہ لغت میں یعنی:
١۔ خاضع انداز میں عبادت اور اطاعت (مصدری معنی میں)
٢۔ معبود اور مطاع: جس کی عبادت کی جائے( مفعولی معنی میں)
یہ لغت میں الہ کے معنی تھے۔
دوسرے: عربی زبان والوںکی بول چال میں الہٰ کے معنی
الٰہ عربی زبان والوں کے محاوررات اور ان کی بول چال میں دو ٢ معنوں میں استعمال ہوا ہے:
١۔ جب عرب کسی کو خبر دیتا ہے تو کہتا ہے: اَلَہ؛ اُس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس نے کوئی عبادت کی ہے یعنی اپنے معبود کے لئے دینی عبادت جیسے نماز و دعا و قربانی بجالایا ہے اور جس وقت کہتا ہے : اِلھاً کتاب کے وزن پر تو اس کا مقصود وہی معبود ہوتا ہے جس کی عبادت و پرستش ہوتی ہے اور دینی مراسم اس کے لئے انجام پاتے ہیں، یعنی یہ شکل و ہیئت ،مفعولی معنی میں استعمال ہوتی ہے جس طرح کتاب مکتوب کے معنی میں استعمال ہوتی ہے یعنی لکھی ہوئی ۔
اور عرب ہر اس چیز کو الہ کہتے ہیں جس کی عبادت و پرستش ہوتی ہے جس کی جمع آلہہ ہے ، خواہ وہ خالق اور پیدا کرنے والا ہو یا مخلوق و پیدا شدہ چیز ہو، ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے جیسے خورشید، بت، چاند اور گائے کہ جو ہندوئوں کی عبادت کا محور ہیں۔
٢۔ ''الہ'' کبھی مطاع اور مقتدا کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، جیسا کہ کئی جگہ قرآن میں آیاہے :
١۔(أرأیت من اتخذ الٰھہ ھواہ أفانت تکون علیہ وکیلاً)
کیا دیکھا ایسے شخص کو جس نے خواہشات کو اپنا مطاع بنایا ہو؟! آیا تم اس کی ہدایت و راہنمائی کر سکتے ہو؟! (١)
٢۔ (افرأیت من اتخذ الٰھہ ھواہ و أضلہ اللہ علیٰ علم…)
یعنی جو کوئی اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے در اصل ہواء نفس اور خواہشات کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے اور اللہ نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے ۔(٢)
جیسا کہ سورۂ قصص میں ارشاد ہوتا ہے :
(ومن أضل ممن اتّبع ھواہ بغیر ھدیً من اللہ)آیا اس سے بھی زیادہ کوئی گمراہ ہے جو ہوائے نفس اور خواہشات کی پیروی کرتاہے اور اللہ کی ہدایت کو قبول نہیں کرتا ؟! (٣)
٣۔سورہ ٔ شعراء میں حضرت موسی ٰ ـ سے فرعون کی گفتگو کو ذکر کرتا ہے کہ فرعون نے کہا :
( لئن اتخذت الھاً غیری لٔاجعلنک من المسجونین )(٤)
اگر میرے علاوہ کسی اور خدا کی پیروی کروگے تو تمہیں قید کر دوں گا!
ہم نے اس آیت میں الہ کے معنی مطاع اور مقتدا ذکر کئے ہیں اس لئے کہ فرعون اور اس کے ماتحت افراد پوجنے کے لئے معبود رکھتے تھے جیسا کہ خدا وند عالم انہیں کی زبانی سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے :
(و قال الملأ من قوم فرعون اتذر موسیٰ و قومہ لیفسدوا فی الٔارض و یذرک و آلہتک)
قوم فرعون کے بزرگوں نے اس سے کہا: آیا موسیٰ اور ان کی قوم کو چھوڑ دے گا تاکہ وہ زمین میں فساد کریں اور تجھے اور تیرے معبود وںکو نظر انداز کر دیں؟(٥)
..............
(١)فرقان ٤٣
(٢)جاثیہ ٢٣
(٣)قصص ٥٠
(٤) شعرائ٢٩
(٥)اعراف١٢٧
جن معبودوں کا یہاں پر ذکر ہے یہ وہ معبود ہیں جن کی پرستش فرعون اور اس کی قوم کیا کرتی تھی، کہ ان کے لئے وہ لوگ قربانی اور اپنے دینی مراسم منعقد کرتے تھے۔
لیکن فرعون خود بھی ''ا لہ'' تھا لیکن الہ مطاع اور مقتدا کے معنی میں اگر چہ یہ بھی احتمال ہے کہ فرعون الوھیت کا بھی دعویدار تھا، یعنی خود کو لائق پرستش معبود تصور کرتا تھا جیسا کہ بہت سی قوموں کے بارے میںنقل ہوا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کو ''الھہ'' کی نسل سے سمجھتے تھے چاہے وہ خورشید ہو یا اسکے علاوہ نیز ان کے لئے بعض عبادتی مراسم کا انعقاد بھی کرتے تھے۔
یہ ''اِلہٰ'' کے معنی عرب اور غیر عرب میں موجودہ اور فنا شدہ ملتوں کے درمیان ہیں۔
تیسرے ۔ اسلامی اصطلاح میں اِلٰہ کے معنی
''اِلٰہ'' اسلامی اصطلاح میں خدا وند عالم کے اسمائے حسنیٰ اور معبود نیز مخلوقات کے خالق کے معنی میں ہے اوریہ لفظ قرآن کریم میں کبھی کبھی قرینہ کے ساتھ جو کہ لغوی معنی پر دلالت کرتا ہے استعمال ہوا ہے، جیسے:
(الذین یجعلون مع اللہ اِلھاً آخر)
وہ لوگ جو خدا کے ساتھ دوسرا معبود قرار دیتے ہیں۔ (٢)
اس لئے کہ آیت کے دو کلمے:''آخر ''اور'' مع اللہ'' اس بات پر دلیل ہیں کہ اس الہ سے مراد اس کے لغوی معنی یعنی : مطاع اور معبود ہیں یعنی وہی جس کی خدا کے علاوہ عبادت اور پیروی ہوتی ہے ۔
''الہ'' قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں بطور مطلق اور بغیر قرینہ کے اصطلاحی معنی میں استعمال ہوا ہے اور ''الوہیت' کو خدا وندسبحان سے مخصوص کرتا ہے ہم آیندہ بحث میں بسط و تفصیل سے بیان کریں گے۔
''اِ لہٰ'' کے معنی میں جامع ترین گفتگو ابن منظورکی کتاب لسان العرب میں مادۂ ''الہ'' کے ذیل میں ابی الھیثم کی زبانی ہے کہ اس نے کہا ہے :خدا وند عز و جل نے فرمایا: خدا وند متعال کے نہ کوئی فرزند ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی الٰہ ہے اس لئے کہ اگر اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوقات کی دیکھ ریکھ کرتا۔
یعنی کوئی الہ نہیں ہو سکتا مگر یہ کہ معبود ہواور اپنی عبادت کرنے والوں کیلئے خالق، رازق نیز ان پر، مسلط اورقادرہو؛ اور جو ان صفات کا حامل نہ ہو وہ خدا نہیں ہے وہ مخلوق ہے چاہے ناحق اس کی عبادت کی گئی ہو۔
..............
(٢)حجر ٩٦
ج۔ لا الہ الا اللہ کے معنی
قرآن کریم میں الہ کے معنی ان آیات میں غور و فکر و دقت کرنے سے روشن ہو جائیں گے جو مشرکین کی باتوں کی رد میں الوہیت سے متعلق بیان کی گئی ہیں ، وہ آیات جو الوھیت کو خداوند سبحان و قادر سے مخصوص اور منحصر بہ فرد جانتی ہیں نیز وہ آیات جو مشرکین سے الہ کے متعلق جدل اوربحث کے بارے میںہیں جیسا کہ درج ذیل آیات میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں:
(ولقد خلقنا الاِنسان من سلالة من طین ٭ثم جعلناہ نطفة فی قرار مکین۔۔۔)
ہم نے انسان کو خالص مٹی سے خلق کیا، پھر اس کو قابل اطمینان جگہ رحم میں نطفہ بنا کر رکھا؛ پھر نطفہ کو علقہ کی صورت اور علقہ کو مضغہ کی صورت اور مضغہ کو ہڈیوں کی شکل میں بنایا پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا؛ پھر اسے نئی تخلیق عطا کی؛ اور احسن الخالقین خدا با برکت اور عظیم ہے ۔(١)
کلمات کی شرح
١۔ سلالة: اس عصارہ(نچوڑ) اور خالص شیء کو کہتے ہیں جو نہایت آسانی اور اطمینان کے ساتھ کسی چیز سے اخذ کی جائے نطفہ کو سلالہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ جو غذا کا نچوڑ اورخلاصہ ہوتا ہے اور غذا ہی سے پیدا ہوتا ہے ۔
٢۔ نطفہ وہی منی یا معمولی رطوبت جو مرد اور عورت سے خارج ہوتی ہے ۔
٣۔ قرار : ہر وہ مقام جس میں اطمینان اور آسانی سے چیزیںمستقر ہوں یعنی جہاںچیزیں آسانی سے ٹھہر جائیں قرار گاہ کہتے ہیں۔
٤۔ مکین: جو چیز اپنی جگہ پر ثابت و استوار ہوا سے مکین کہتے ہیں، یعنی مطمئن و مستقل جگہ ۔
لہٰذا یہاں تک آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ: ہم نے نطفہ کو اس کے محل سکونت میں رکھا یعنی رحم میں قرار دیا ہے ۔
..............
(١) مومنون ١٤۔١٢
٥۔ علقہ : جمے ہوئے گاڑھے چسپاں خون کو ''عَلَق'' اور اس کے ایک ٹکڑے کو علقہ کہتے ہیں۔
٦۔ مضغہ: جب عرب کہتا ہے : مضغ اللحم اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ گوشت دہن میں چبایا اور دانتوں سے ٹکڑے ٹکڑے کیا تاکہ نگل سکے۔
چبانے کے قابل ایک لقمہ گوشت کو بھی مضغہ کہتے ہیں؛ اسی لئے شکم مادر میں مستقر جنین جب ایک لقمہ کے بقدر ہوتا ہے تو مضغہ کہتے ہیں؛ مضغہ علقہ کے بعد وجود میں آتاہے ۔
٧۔ انشائ: ایجاد، پرورش کرنا اور وجود میں لانا،''انشأا لشیٔ ''یعنی اس چیز کووجود بخشا اوراس کی پرورش کی۔ و انشاء اللہ الخلق، یعنی خداوند عالم نے مخلوقات کو پیدا کیا اور اس کی پرورش کی۔
آیات کی تفسیر
ہم نے انسان کو مٹی کے صاف و شفاف خالص عصارہ سے خلق کیا پھر اسے ثابت اور آرام دہ جگہ ، یعنی رحم مادر میں ٹھکانا دیا، پھر اس نطفہ کو خون میں تبدیل کیا، ایسا جامد اور منجمد گاڑھا خون کہ جو چیز وہاں تک پہنچے اس سے پیوستہ ہو جائے پھر اس منجمد گاڑھے خون کو چبانے کے قابل گوشت کی صورت تبدیل کیا پھر اس گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیوں میں بدل ڈالا پھر ان ہڈیوں پر گوشت کے خول چڑھائے اور آخر میں ایک دوسری تخلیق، جو انسانی روح اور اعضاء پر مشتمل ہے وجود میں لے آئے خداوند عالم بہترین خلق کرنے والا ہے بزرگ و برتر ہے وہ خد جس نے اس پیچیدہ اور حیرت انگیز مخلوق کو اس طرح کے مراحل سے گز ار کر خلق کیا ہے !
پہلی بات کی طرف بازگشت
خداوند عالم سورۂ مومنون میںمذکورہ ١٢۔١٣۔١٤ آیات کے بعد اور ان موجودات کے ذکر کے بعد جو انسان کے مفاد نیز اس کے اختیار و تسخیر میں ہیںنیز انواع مخلوقات کے بیان کے بعد فرماتا ہے :
(ولقد ارسلنا نوحاً الیٰ قومہ فقال یا قومِ اعبدوا اللہ ما لکم من الہ غیرہ افلا تتقون)
ہم نے نوح کو ان کی قوم کے پاس بھیجا تو آپ نے ان سے کہا: اے میری قوم والو! خدا کی عبادت کرو اسکے علاوہ کوئی تمہارا خدا نہیں ہے ، آیا ڈرتے نہیں ہو؟! (١)
..............
(١)مومنون ٢٣
پھر دیگر امتوں کی خلقت کی طرف اشارہ کیا جو خدا کی مخلوقات میں ہیں اور کافی شرح و بسط کے ساتھ ان کے کفر و انکار کو بیان کیا پھر اسی سورۂ کی ٩١ آیت میں فرماتا ہے :
(ما اتخذ اللہ من ولد وما کان معہ من الہ اذاً لذھب کل الہٍِ بما خلق ولعلا بعضھم علیٰ بعض....)(١)
خدا وند عالم نے کبھی اپنے لئے فرزند انتخاب نہیں کیا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی دوسراخدا ہے ورنہ ہر ایک خدا اپنے پید اکئے ہوئے کی طرف متوجہ ہوتا اور ان کانظام چلاتا اور بعض بعض پر برتری و تفوق طلبی کا ثبوت دیتا و... ۔
ہم ان آیات میں الوھیت کی سب سے واضح اور روشن ترین صفت اس کی خالقیت کو پاتے ہیں اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا وند عالم مشرکین سیجواب طلب کرتا ہے اور فرماتا ہے ہم نے زمین و آسمان اور جو کچھ اس کے درمیان ہے ان سب کو بر حق خلق کیا ہے۔ (٢)پھراس کے بعد پیغمبر سے فرماتا ہے : ان سے کہو!خدا کے علاوہ جن معبودوں کی تم پرستش کرتے ہو مجھے بتائو کہ انہوں نے زمین سے کونسی چیز خلق کی ہے ، یا آسمان کی خلقت میں ان کی کون سی شرکت رہی ہے؟(٣)
نیز سورۂ رعد میں فرماتا ہے :
( أَم جعلوا للہ شرکاء خلقوا کخلقہ فتشابہ الخلق علیھم قل اللہ خالق کل شء و ھو الواحد القھار )
آیا وہ لوگ خدا کے لئے ایسے شریک قرار دئے ہیں کہ جنہوں نے خدا کی مانند خلق کیا اور یہ خلقت ان پر مشتبہ ہو گئی ہے ؟! ان سے کہو: خدا سب چیز کاخالق ہے اور وہ یکتا اور کامیاب (غالب) ہے ۔(٤)
نیز سورئہ نحل میں فرماتا ہے :
(أفمن یخلق کمن لا یخلق أفلا تذکرون)
آیا وہ جو خالق ہے اس کے مانند ہے جو خالق نہیں ہے ؟! آیا نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے؟! (٥)
یہ بات ، یعنی خالقیت پرتاکید الوھیت کی واضح ترین صفت کے عنوان سے ہے جسکی دیگر آیات جیسے سورۂ نحل کی بیسویں آیت، سورئہ فرقان کی تیسری آیت اور سورئہ اعراف کی نویں آیت میں تکرار ہوئی ہے۔
..............
(١)مومنون ٩١
(٢) احقاف ٣
(٣) احقاف٤
(٤) رعد
١٦(٥)نحل ١٧
ان تمام آیات میں توحید کے مسئلہ پر مشرکین سے مبارزہ اور استدلال، خالق کی وحدانیت کے محور پر ہوتا ہے، پہلی آیت میں خداوند عالم، کفار سے سوال کرتاہے : جنہیں تم خدا کہتے ہو اور ان کی پر ستش کرتے ہو مجھے بتائو کہ انہوں نے زمین سے کوئی چیز پیدا کی ہے ؟! اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : کیااس وجہ سے خدا کا شریک قرار دیا ہے کہ تم نے خدا کی تخلیق کے مانند ان کی بھی کوئی تخلیق دیکھی ہے اور خدا کی تخلیق ان دوسروں کی تخلیق سے مشتبہ ہو گئی ہے اور تشخیص کے قابل نہیں ہے ؟! تیسری آیت میں سوال کرتا ہے : جس نے گونا گوںموجودات کو خلق کیا ہے اور وہ کہ جنہوں نے نہ خلق کیا ہے اور نہ ہی خلق کرسکتے ہیںکیا دونوں یکساں ہو سکتے ہیں؟!
نیز فرماتا ہے : کوئی معبود خدا کے ہمراہ نہیں ہے اور دیگر آیت میں فرماتا ہے :
کہو: خدا تمام چیزوں کا خالق ہے اور وہی یکتا اورغالب ہے ۔
قرآن کریم مقام استدلال میں مشرکین سے اس طرح دلیل و برہان پیش کرتا ہے اور جو دوسرے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں اور ان کو وہ لوگ خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت میں شریک قرار دیتے ہیں ان لوگوں سے فرماتا ہے: مخلوقات کی تخلیق اللہ سے مخصوص ہے اور دوسرے خداتخلیق پر قادر نہیں ہیں۔
اس اعتبار سے ہم دیکھتے ہیں کہ الہ کی بارز ترین صفت آفرینش ہے ۔یہ موضوع درج ذیل آیات میں زیادہ واضح اور روشن ہوتا ہوا نظر آتا ہے جہاں فرماتا ہے :
١۔( ذلکم اللہ ربکم لا اِلہ ِالاّ ھوخالق کلّ شیء فاعبدوہ)
وہی تمہارا پروردگارہے اس کے علاوہ ''کوئی خدا''نہیں ہے وہی ہر چیز کا خالق ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔(١)
٢۔( یا قوم اعبدوا للہ ما لکم من الہٍ غیرہ ھو انشأکم من الارضِ)
صالح پیغمبر نے کہا: اے میری قوم! خدا کی عبادت کرو کیونکہ اس کے علاوہ کوئی ''خدا'' نہیں ہے، وہی ہے جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے۔(٢)
..............
(١) انعام ١٠٢
(٢)ھود ٦١
٣۔( ھل من خالق غیر اللہ یرزقکم من السماء و الارض لا الہ الا ھو...)
آیا 'کوئی خالق'' خدا کے سوا ہے جو تمہیں زمین و آسمان سے روزی دیتاہے ؟! کوئی ''خدا '' اس کے علاوہ نہیں ہے ۔ (١)
٤۔( واتخذوا من دونہ آلھةً لایخلقون شیئاًوھم یخلقون...)
انہوں نے خدا وند عالم کے علاوہ ایسوں کواپنا خدا بنایا جو کوئی چیز خلق نہیں کرسکتے بلکہ خود مخلوق ہیں۔(٢)
٥۔(یا اَیھا الناس ضرب مثل فاستمعوالہ ان الذین تدعون من دون اللہ لن یخلقوا ذباباً ولو اجتمعوا لہ و ان یسلبھم الذباب شیئاًلا یستنقذوہ منہ ضعف الطالب والمطلوب٭ ما قدرو....االلہ حقّ قدرہ اِن اللہ لقوی عزیز)(٣)
اے لوگو! ایک مثل دی گئی ہے ، لہٰذا اس پر کان لگائو، جو لوگ خد اکے علاوہ کسی اور کی عبادت کرتے ہیں وہ ہرگز ایک مکھی بھی خلق نہیں کر سکتے، چاہے اس کے لئے ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں! اور اگر مکھی کوئی چیز ان سے لے بھاگے تو اسے واپس نہیں لے سکتے! طالب و مطلوب، عابد و معبود دونوں ہی ناتواں اور عاجز ہیں! یقینا جس طرح خداکو پہنچاننا چاہئے تھا نہیں پہچانا؛ خدا وند عالم قوی ہے اور مغلوب ہونے والوں میں سے نہیں ہے ۔
خدا وند عالم نے اس مقام پر انتمام لوگوں کو جو خدا کے علاوہ دوسرے ''خدائوں'' کی عبادت کرتے اور اسے پکارتے ہیں مخاطب قرار دیا ہے اور ان سے فرماتا ہے :اس مثل پر توجہ کرو: تم لوگ خدا کے علاوہ جنکو پکارتے ہو، خواہ فراعنہ اور بادشاہ ہوں یا طاقتور افراد، گائے ہو یا اصنام یا دوسرے معبود ہوں وہ سب ، ہرگز ایک مکھی بھی خلق نہیں کر سکتے یعنی ان سرکش اور باغی فراعنہ میں سے کوئی بھی ہو اور اسی طرح وہ گائیں جن کی عبادت کی جاتی ہے یا لوگوں کے ہر دوسرے معبود ، آلودہ ترین اور پست ترین حشرات الارض بھی خلق نہیں کر سکتے یعنی جن حشرات کو سب لوگ پہچانتے اوروہ تمام روئے ارض پر پھیلے ہوئے ہیں اور ساری مخلوق ان سے دوری اختیار کرتی ہے ! یہ کیسے معبود ہیں کہ آلودہ ترین مکھی بھی خلق نہیں کر سکتے ہیں اور اگر سب اکٹھا ہو کر ایک دوسرے کی مدد بھی کریں تو بھی معمولی حشرہ کے خلق کرنے پر قادر نہیں ہیں؟!
..............
(١)فاطر ٣
(٢)فرقان ٣
(٣)حج٧٤٧٣
اس کے علاوہ، اگر یہی مکھی ان خیالی معبود سے کوئی چیز لے اڑے، چاہے وہ گائے ہو یا فرعون یا کوئی اور ''خدا'' ہوتو ان کے پاس واپس لینے کی قدرت نہیں ہے ، مثال کے طور پر اگر مکھی ہند میں پوجی جانے والی گائے کا خون چوس لے تو بیچاری گائے اپنا حق یعنی چوسا ہوا خون واپس نہیں لے سکتی!
کتنی ناتوان اور عاجز ہے وہ بیچاری گائے جوانسانوں کی معبود ہے اور اس سے زیادہ عاجز اور بے بس وہ شخص ہے جو اس بیچاری مخلوق سے اپنی حاجت طالب کرتاہے ! یقینا خداکو اس کی ذات اقدس کے اعتبار سے نہیں پہچانا، یعنی اس خدا کو جو تمام مخلوقات کا خالق اور سب سے قوی اور قادر و غالب طاقتور ہے ۔
اس لئے خلقت اور تمام آفرینش خدا ہی سے ہے اور بس؛ وہ کہ جس نے مخلوقات کو خلق کیا اور موجودات کو زیور وجود سے آراستہ کیا،وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے وہی تمام چیزوں کا مالک ہے ؛ عالم تخلیق میں اس کے علاوہ کوئی اور موثر نہیں ہے تاکہ اس سے اپنی در خواست کریں لہٰذا واجب ہے کہ صرف اور صرف اسی کی عبادت کریں اور اسی سے حاجت طلب کریں۔
درج ذیل آیات انہیں معانی کی وضاحت کرتی ہیں:
١۔ (قل أرأیتم ان اخذ اللہ سمعکم وأبصارکم وختم اللہ علیٰ قلوبکم من اِلٰہ غیر اللہ یأتیکم بہ)
کہو: مجھے جواب دو! اگر خدا وند عالم تمہاری آنکھ، کان کو سلب کر لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے تاکہ کچھ سمجھ نہ سکو،تو اللہ کے علاوہ کون ہے جو اسے واپس لوٹا سکتا ہے ؟!(١)
٢۔( الذی لہ ملک السموات والارض لا الٰہ الا ھو یحیی و یمیت)
و ہی خدا جس کے قبضہ قدرت میں زمین اور آسمان ہے اس کے علاوہ کوئی خدااور معبود نہیں ہے وہ مارتا اور زندہ کرتا ہے ۔(٢)
٣۔ (من اِلٰہ غیر اللہ یاتیکم بضیاء افلا تسمعون)
کون معبود اور خدا ،اللہ کے علاوہ تمہارے لئے روشنی پیدا کر سکتا ہے کیا سنتے نہیں ہو؟!(٣)
٤.( ذلکم اللہ ربکم لہ الملک لا الہ اِلّا ھو فانیٰ تصرفون)
یہ ہے تمہارا پروردگارخداکہ جس کی ساری کائنات ہے اور اس کے علاوہ کوئی خدانہیں ہے تو پھر کیوں
..............
(١) انعام ٤٦
(٢)اعراف١٥٨
(٣) قصص ٧١
راہ حق سے منحرف ہوتے ہو؟! (١)
٥۔ (لا الٰہ الا ھو یحی و یمیت ربکم و رب آباکم الَاولین )
اس کے علاوہ کوئی خدانہیں ہے ، وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے جو تمہارا اور تمہارے گز شتہ آباء و اجداد کا خدا ہے ۔(٢)
٦۔(اِنَّما الھکم اللہ الذی لا اِلٰہ اِلّا ھو وسع کلّ شیء علماً)
یقینا تمہارا معبود خداہی ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے نیز اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔(٣)
٧۔(قل لو کان معہ آلہة کما یقولون اذاً لا بتغواالیٰ ذی العرش سبیلاً)
کہو! جیسا کہ وہ قائل ہیں اگر اللہ کے ہمراہ دوسرے خدا ہوتے تو ایسی صورت میں صاحب عرش اللہ تک رسائی کی کوشش کرتے ۔ (٤)
٨۔( و اتخذوا من دون اللہ آلھة لیکونوا لھم عزاً)
ان لوگوں نے اللہ کے علاوہ دوسرے خدائوں کا انتخاب کیا، تاکہ ان کے لئے عزت کا سبب ہوں۔ (٥)
٩۔ (اَم لھم آلھة تمنعھم من دوننا)
آیا ان کا کوئی دوسرا خداہے جو میرے مقابل ان کا دفاع کر سکے؟۔(٦)
١٠۔(ااتخذ من دونہ آلھة ان یردن الرحمن بضر لا تغن عنی شفاعتم شیئا ولا ینقذون)
آیا میں خداکے علاوہ دوسرے معبودوں کا انتخاب کروں کہ اگر خدا وند رحمان مجھے نقصان پہنچائے تو ان کی شفاعتمیریلئے بے سود ثابت ہو اور وہ مجھے نجات نہ دے سکیں!(٧)
١١۔(و اتخذوا من دون اللہ آلھة ً لعلھم ینصرون)
انہوں نے خدا کے علاوہ دوسرے خدائوں کا انتخاب کیا اس امید میں کہ ان کی مدد ہوگی۔(٨)
١٢۔( فما اَغنت عنہم آلھتھم التی یدعون من دون اللہ من شیء لما جاء امر ربک)
جب خدا وند عالم کی سزا کا فرمان صادر ہوا، تو اللہ کے علاوہ دوسرے خدا کہ جن کو پکاراجاتا تھا انہوں نے ان کی کسی صورت مدد نہیں کی۔ (٩)
..............
(١) زمر ٦
(٢)دخان ٨
(٣)طہ ٩٨
(٤)اسراء ٤٢
(٥)مریم٨١
(٦)انبیاء ٤٣
(٧)یس ٢٣
(٨)(یس ٧٤
(٩)ہود١٠١
قرآن کریم اس طرح صاف اور واضح بیان کرتا ہے : ہر طرح کی تخلیق خدا وند یکتا سے مخصوص ہے ، بارش کا نازل کرنا، پودوں کا اگانا، بیماروں کو شفا دینا، دشمنوں پر کامیابی، فقر و پریشانی کا دور کرنا، یہ تمام کی تمام اور اس جیسی دوسری چیزیںنیز عالم ہستی میں ہر حرکت اور سکون صرف اور صرف خدا سے مخصوص ہے اور بس؛ لہٰذا کائنات کا تنہا خدا وہی ہے ، وہ اپنی قدرت، شان و شوکت اور اپنے افعال میں لاشریک اور یگانہ ہے وہ مثل و مانند اور شبیہ نہیں رکھتا: نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی اس کاکوئی والد ، وہ اپنا ہم پلہ اورہمتانہیں رکھتا، وہی غالب ، قدرت مند اور یکتا خداہے، جیسا کہ خود اس نے اپنی توصیف کی ہے اور فرمایا ہے:
١۔( اِنّما اللہ الٰہ واحد سبحانہ اَن یکون لہ ولد)
یقینا صرف اور صرف اللہ ہی ایک اور واحد خداہے وہ اس بات سے منزہ اور بری ہے کہ اس کا کوئی فرزند ہو ۔(١)
٢.(لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ثالث ثلاثة وما من الٰہ الا الٰہ واحد۔)
جن لوگوں نے کہا: خداتین میں سے ایک ہے یقینا کافر ہیں کوئی خدا اور معبود خدا وند واحد کے علاوہ نہیں ہے ۔(٢)
٣۔ (و قال اللہ لا تتخذوا الھین اِثنین اِنّما ھو الٰہ واحد)
خدا وند عالم نے فرمایا: اپنے لئے دو خداکا انتخاب نہ کرو خدا صرف اور صرف ایک ہے ۔ (٣)
یہاں تک یہ روشن ہوا کہ الوہیت خداوند عالم سے مخصوص ہے یہی خصوصیت باعث ہو گی کہ خدا کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے ،لہٰذا عبادت بھی صرف خدا کی کی جانی چاہیئے ، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :
١۔( اِنَّنِی انا اللہ لا الٰہ الا انا فاعبدنی و اَقم الصلاة لذکری۔)
میں خدا ہوں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ! میری عبادت کرو اور میری یاد میں نماز برپا کرو۔(٤)
٢۔ (وما ارسلنا من قبلک من رسولٍ الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون)
ہم نے تم سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر یہ کہ اسے وحی کی:میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے لہٰذا صرف اور صرف میری عبادت کرو۔ (٥)
٣۔( اَمّن خلق السموات والارض و انزل لکم من السماء مائً فانبتنا بہ حدائق ذات
..............
(١)نساء ١٧١
(٢) مائدہ ٧٣
(٣)نحل ٥١
(٤)طہ ١٤
(٥)انبیاء ٢٥
بھجة ما کان لکم ان تنبتوا شجرھا أاِلٰہ مع اللہ بل ھم قوم یعدلون امن جعل الارض قرارًا و جعل خلا لھا انھاراً و جعل لھا رواسی و جعل بین البحرین حاجزاً أاِلٰہ مع اللہ بل اکثر ھم لا یعلمون٭ امن یجیب المضطر اذا دعاہ ویکشف السوء و یجعلکم خلفاء الارض أاِلٰہ مع اللہ قلیلا ما تذکرون٭ امن یھد یکم فی ظلمات البر و البحر و من یرسل الریح بشرا بین یدی رحمتہ ء الہ مع اللہ تعالیٰ اللہ عما یشرکون٭ امن یبدؤ الخلق ثم یعیدہ و من یرزقکم من السماء و الارض ء الہ مع اللہ قل ھاتوابرھانکم ان کنتم صادقین)
آیا جس نے زمین و آسمان کی تخلیق کی اور آسمان سے تمہارے لئے پانی نازل کیا پس ہم نے اس سے فرحت بخش باغ اگائے ، ایسے باغ کہ تم ہرگز ان درختوں کے اگانے پر قادر نہیں تھے، آیا اس خدا کے ہمراہ کوئی اور خد اہے ؟! نہیں، بلکہ وہ لوگ نادان قوم ہیں جو حق سے منحرف ہو کر مخلوق کو خالق کی ردیف میں رکھتے ہیں!
یا یہ کہ زمین کواستقراربخشا اور اسے استوار کیا اور اسمیں جگہ جگہ نہریں جاری کیں، نیز اس کی خاطر محکم و استوار پہاڑوں کو ایجاد کیا نیز دودریا ئوںکے درمیان مانع قرار دیا آیا ایسے خدا کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟! نہیں ، بلکہ اکثر نادان ہیں!
یا جو لاچاروں کی دعائیں مستجاب کرتا اور مشکلات کو بر طرف کرتا ہے نیز تمہیں زمین پر خلیفہ بناتا ہے آیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟! بہت کم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں!۔
یاجو خدا صحرا و ٔوں،بیابانوں نیز دریاؤں کی تاریکی میں بھی تمہاری راہنمائی کرتا ہے ، نیز جو نزول رحمت سے پہلے بطورمژدہ ہوائوں کو بھیجتا ہے : کیاایسے خدا کے ہمراہ کوئی اور خدا و معبود ہے ؟!ان لوگوں کے شریک قرار دینے سے کہیں زیادہ خدا وند عالم کا مرتبہ بلند و بالا ہے !
یا یہ کہ اس نے خلقت کا آغاز کیا پھر اس کی تجدید کرتا ہے اور وہی ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی عطا کرتا ہے ؛ کیا ایسے خدا کے ساتھ کوئی اور خدا ہو سکتاہے ؟! ان سے کہو! اگرتم سچے ہوتے تو اپنی دلیل و برہان پیش کرو ۔(١)
لہٰذا اس یکتا ویگانہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ، شریک، مثل اور مانند نہیں رکھتا جس طرح (بعض لوگوں کے خیال کے بر خلاف) بیٹے اور بیٹیاںبھی ، نہیں رکھتا،ان لوگوں کے بارے میں گفتگو آئندہ بحث میںکی جائے گی۔
..............
(١)سورۂ نمل ٦٤،٦٠
د۔کیا خدا وند عالم صاحب اولادہے ؟
متعدد خدائوں کے ماننے والوں کے درمیان کچھ لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو خدا کے لئے اولادکے قائل ہیں۔ خدا وند عالم سورۂ صآفات میں ان کی زبانی حکایت کرتاہے :
(فاستفتھم ألربک البنات و لھم البنون٭ ام خلقنا الملائکة اناثاً و ھم شاٰھدون٭اَلا اَنھم من اِفکھم لیقولون٭ ولد اللہ وانھم لکذبون٭ اصطفی البنات علیٰ البنین٭ مالکم کیف تحکمون)
ان سے سوال کرو: آیا تمہارے پروردگار کی لڑکیاں اور ان کے لڑکے ہیں؟! آیا ہم نے فرشتوں کو مونث بنایا اور وہ دیکھ رہے تھے؟! جان لو کہ یہ لوگ اپنے بڑے جھوٹ کے سہارے کہتے ہیں: ''خدا وند عالم صاحب اولادہے'' در حقیقت یہ لوگ جھوٹے ہیں! آیا خدا وند عالم نے لڑکیوں کو لڑکوں پر ترجیح دی ہے ؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ خدا کے بارے میں ایسا فیصلہ کرتے ہو۔(١)
نیز سورۂ زخرف میں ارشاد ہوتا ہے :
(وجعلوا الملائکة الذین ھم عباد الرحمن اناثاً! اشھدوا خلقہم ستکتب شھادتھم و یسئلون٭و قالوا لو شاء الرحمن ما عبدنا ھم...)
وہ لوگ خدا وندرحمن کے بندے فرشتوں کو مونث خیال کرتے ہیں؛آیا ان کی خلقت پر وہ گواہ تھے؟! ان کی گواہی مکتوب اور قابل باز پرس ہوگی اور انہوں نے کہا: اگر خدا چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہیں کرتے...۔(٢)
(ام اتخذ مما یخلق بنات و اصفاٰکم بالبنین)
..............
(١)صافات١٥٤۔١٤٩
(٢)زخرف٢٠۔١٩
کیا خدا وند عالم نے اپنی مخلوقات کے درمیان اپنے لئے لڑکیوں کو منتخب کیا ہے اور لڑکوں کو تمہارے لئے؟!(١)
(و اِذا بشر احدھم بما ضرب للرحمن مثلا ظل وجھہ مسودا و ھو کظیم)
جب ان میں سے کسی ایک کو اس چیز کی جسکوانہوں نے خدا وند رحمن کے لئے اپنے خیال میں تراش لیا ہے اور مثال دی ہے بشارت دی جائے تو ان کے چہرے سیاہ ہو جاتے ہیں اور غصہ کے گھونٹ پینے لگتے ہیں ۔(٢)
یہ مشرکین فرشتوں کی عبادت، لات ،عزی اور منات کے بتوں کے قالب میں کرتے تھے؛ نیز ان تینوں کو ملائکہ کا پیکر اور مجسمہ خیال کرتے تھے ۔
خدا وند عالم سورۂ نجم میں ارشاد فرماتا ہے :
(افرایتم اللات و العزی٭ومناة الثالثة الاخریٰ الکم الذکرولہ الانثی٭ تلک اذاًقسمة ضیزیٰ ان ھی الااسماء سمیتموھاانتم وآبائکم ماانزل اللہ بھا من سلطانٍ ان یتبعون اِلّا الظن وما تھویٰ الانفس ولقد جائھم من ربھم الھدیٰ۔)
مجھے بتاؤ! آیا لات و عزی اور تیسرا منات (خدا وند عالم کی لڑکیاں ہیں)؟! آیا تمہارا حصہ لڑکا ہے اور خدا کا حصہ لڑکی ہے ؟! ( باوجودیکہ تمہارے نزدیک تو لڑکیاں بے قیمت شیء ہیں!) ایسی صورت میں یہ تقسیم غیر منصفانہ ہے ! ( ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ایسے اسماء ہیںجو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے رکھے ہیں خدا وند عالم نے اس خیال کی تائید میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے ؛ وہ لوگ صرف گمان و حدس اور ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہیں، جبکہ پروردگار کی ہدایت ان تک پہنچی ہے ۔ (٣)
(ان الذین لا یؤمنون بالاخرة لیسمون الملائکة تسمیة الُانثیٰ٭ وما لھم بہ من علمٍ ان یتبعون اِلّاالظن و ان الظن لا یغنی من الحق شیئاً۔)
جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے ہیں، یہ لوگ اپنے اس قول پر دلیل بھی نہیں رکھتے صرف اور صرف حدس اور گمان کا اتباع کرتے ہیں، جبکہ حدس و گمان کبھی آدمی کو حق سے
بے نیاز نہیں کرتے۔(٤)
بعض دیگر مشرکین جنات کی عبادت کرتے تھے، خدا وند عالم ان کے بارے میں سورۂ انعام میں فرماتا ہے :
..............
(١)زخرف١٦
(٢)زخرف ١٧
(٣)نجم ٢٣۔١٩
(٤)نجم٢٧،٢٨
(و جعلو للہ شرکاء الجن و خلقھم و خرقوا لہ بنین و بنات بغیر علم سبحانہ و تعالیٰ عما یصفون٭ بدیع السموات والارض اَنِّی یکون لہ ولد و لم تکن لہ صاحبة و خلق کل شیء و ھو بکل شیء علیم)
خدا کے لئے انہوں نے جنات کو شریک اور ہم پلہ قرار دیا، جبکہ وہ خدا کی مخلوق ہیں نیز اس کے لئے بغیر کسی دلیل کے لڑکے اور لڑکیاں منسوب کر دیں خدا وند عالم ان کی اس توصیف سے بلند اور منزہ ہے ، وہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے کیسے ممکن ہے کہ اس کا کوئی فرزند ہو جبکہ اسکی کوئی بیوی بھی نہیں ہے ؟! اس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا اور تمام چیزوں سے آگاہ ہے ۔ (١)
سورۂ سبا میں فرمایا:
و یوم یحشرھم جمیعاً ثم یقول للملائکة أ ھولاء ایاکم کانوا یعبدون ٭ قالوا سبحانک َانت ولینا من دونھم بل کانوا یعبدون الجن اَکثرھم بھم مو٭منون)
جس دن خداا ن تمام لوگوں کو مبعوث کرے گا اور فرشتوں سے کہے گا: کیا ان لوگوںنے تمہاری پرستش کی ہے ؟!'' وہ کہیں گے تو منزہ اور بلند ہے صرف تو ہمارا ولی ہے نہ وہ لوگ؛ بلکہ انہوں نے تو جنوں کی پوجا کی ہے اور اکثر نے انہیں پر ایمان رکھا ہے ۔(٢)
یہ مشرکین کا گروہ جو ملائکہ کی پرستش کرتا تھا، اس وقت پایا نہیں جاتا، یہ لوگ نابود ہو چکے ہیں صرف ان کے کردار کا تذکرہ باقی ہے، لیکن جو لوگ ابھی ہمارے دور میں پائے جا رہے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ خدا صاحب فرزند ہے وہ عیسائی ہیں، ان کے بارے میں سورۂ تو بہ میں ارشاد ہوتا ہے :
(و قالت الیہود عزیر ابن اللہ و قالت النصاریٰ المسیح ابن اللہ ذلک قولھم بِأَفواھھم یضاھئون قول الذین کفروا من قبل قاتلھم اللہ انیٰ یؤفکون )
یہود کہتے ہیں کہ عزیر خدا کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں یہ سب باتیں ہیں جو زبان سے بکا کرتے ہیں اور گز شتہ کافروں کے ہمنوا ہیں خدا انہیں قتل کرے راہ حق سے منحرف ہو کر کہاں جارہے ہیں ؟!(٣)
نیز سورۂ نساء میں ارشاد ہوتا ہے :
..............
(١)انعام ١٠١۔١٠٠
(٢)سبا٤١۔٤٠
(٣)توبہ٣٠
(یا اھل الکتاب لا تغلوا فی دینکم ولا تقولو ا علیٰ اللہ الا الحق انما المسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ و کلمتہ القٰیھا الیٰ مریم و روح منہ فامنوا باللہ و رسلہ ولا تقولوا ثلاثة انتھو خیراً لکم انما اللہ الہ واحد سبحانہ ان یکون لہ ولد لہ ما فی السموات وما فی الارض و کفیٰ باللہ وکیلاً٭ لن یستنکف المسیح ان یکون عبداً للہ ولا الملٰائکة المقربون و من یستنکف عن عبادتہ و یستکبر فسیحشرھم الیہ جمیعاً)
اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو اور خدا کے بارے میںحق کے علاوہ کچھ نہ کہو! حضرت مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح صرف خدا کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے خدا نے مریم کو القا کیا ہے نیز ایک روح بھی اس کی جانب سے ہیں پس خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور یہ نہ کہو ''خدا تین ہیں'' ایسی باتوں سے باز آجائو کہ تمہارے لئے بہتر ہوگا! یقینا خدا یگانہ معبود ہے وہ صاحب فرزند ہونے سے منزہ ہے جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب اسی کاہے اتنا ہی کافی ہے کہ خدا وند عالم مدبر اور وکیل ہے ۔حضرت مریم کے فرزند عیسیٰ مسیح کبھی خدا کے بندہ ہونے سے انکار نہیں کرتے اور اس کے مقرب فرشتے بھی ایسے ہی ہیں جو خداوند عالم کی عبادت و بندگی سے روگردانی اور تکبر کرے گا عنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔(١)
سورۂ مائدہ میں فرماتا ہے :
(لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ھو المسیح ا بن مریم وقال المسیح یا بنی اسرائیل اعبدوا اللہ ربی و ربکم انہ من یشرک باللہ فقد حرم اللہ علیہ الجنة ومأ واہ النار و ما للظالمین من انصار٭ لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ثالث ثلاثةٍ وما من الہٍ الا الہ واحد و ان لم ینتھوا عما یقولون لیمسّنّ الذین کفروا منھم عذاب الیم٭ أَفلا یتوبون الیٰ اللہ و یستغفرونہ و اللہ غفوررحیم٭ ماا لمسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل و امہ صدّیقة کانا یأ کلان الطعام انظرکیف نبین لھم الآیات ثم انظر انی یؤفکون ٭ قل اتعبدون من دون اللہ ما لا یملک لکم ضراً ولا نفعاً و اللہ ھو السمیع العلیم)
وہ لوگ جنہوں نے کہا: ''خدا وہی مریم کا فرزند مسیح ہے '' مسلم ہے کہ وہ کافر ہو گئے ہیں ، جبکہ خود حضرت مسیح کہتے ہیں : اے بنی اسرائیل جو ہمارا اور تمہارا خدا ہے اس کی عبادت کرو، اس لئے کہ ، جو کوئی اسکا شریک قراردے،
..............
(١)نسائ١٧١۔١٧٢
خدا وند عالم اس پر بہشت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ، ظالموں کا کوئی ناصر و مدد گار نہیں ہے ۔
جن لوگوں نے کہا : اللہ تین میں کا تیسراہے یقینا وہ کافر ہو گئے ہیں حالانکہ خدا وند یکتا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور اگر جو وہ لوگ کہتے ہیں اپنے قول سے باز نہیں آئے تو ان کافروں کو دردناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا، کیا وہ خدا کی سمت نہیں لوٹیں گے اور اس سے بخشش طلب نہیں کریں گے جبکہ خدا بخشنے والا مہربان ہے ؛حضرت مسیح مریم کے فرزند صرف خدا کے رسول ہیں نیز ان سے قبل بھی رسول آئے تھے ان کی ماں صدیقہ تھیں دونوں ہی کھاناکھاتے تھے خیال کرو کہ کس طرح ہم ان لوگوںکے لئے علامتیں ظاہر کرتے ہیں اور غور کرو کہ لوگ وہ کس طرح حق سے منھ موڑ تے ہیں ان سے کہو کیا خدا کے علاوہ بھی اس کی عبادت کرتے ہو جوتمہارے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے ؟! خدا وند عالم سننے والا اور جاننے وا لا ہے ۔(١)
پھر اسی سورہ میں فرمایا:
( لَقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا ِنَّ اﷲَ ہُوَ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ قُلْ فَمَنْ یَمْلِکُ مِنْ اﷲِ شَیْئًا ِنْ َرَادَ َنْ یُہْلِکَ الْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَُمَّہُ وَمَنْ فِی الَْرْضِ جَمِیعًا وَلِلَّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالَْرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا یخْلُقُ مَا یَشَائُ وَاﷲُ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیر )
کافروں نے کہا: خدا وہی عیسیٰ بن مریم ہیںیقینا وہ کافر ہو گئے ہیں ان سے کہو: اگر خدا چاہے کہ مسیح بن مریم اور ان کی ماں اور تمام روئے زمین پر بسنے والوں کو نابود کر دے تو کون روک سکتا ہے ؟
زمین و آسمان اور ان کے درمیان سب کا سب خدا کا ہے وہ جو چاہتا ہے خلق کرتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔(٢)
اور سورۂ آلِ عمران میں فرمایا:
(ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل آدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون)
خدا وند عالم کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اس نے ان کو مٹی سے پیدا کر کے کہا ہو جاتو فوراً وہ وجود میں آ گئے۔(٣)
نیزسورۂ مریم میں فرمایا:
(و قالوا اتخذا الرحمن ولداً٭ لقد جئتم شیئا ادّا٭ تکاد السموات یتفطرن منہ و
..............
(١)مائدہ ٧٢۔٧٦ .
(٢)مائدہ١٧
(٣)آلِ عمران٥٩
تنشق الارض و تخر الجبال ھداً٭ ان دعوا للرحمن ولداً وما ینبغی للرحمن ان یتخذ ولداً٭ان کل من فی السموات والارض الا آتی الرحمن عبداً)
ان لوگوں نے کہا: خدا نے اپنے لئے فرزند بنا لیاہے یقینا یہ بات زشت اور ناپسند ہے جو تم نے کہی ہے ! قریب ہے اس طرح کی بیہودہ گویوں سے آسمان پھٹ جائے اور زمین شگافتہ ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں کیونکہ خدا وند عالم کے لئے فرزند کے قائل ہوئے ہیں۔ جبکہ خدا وند عالم کے لئے ہر گز مناسب نہیں ہے کہ کسی کو فرزند بنائے ،زمین و آسمان میں کوئی چیز ایسی باقی نہیں ہے مگر یہ کہ خضوع اور بندگی کے ساتھ خدا کے پاس آئے۔(١)
خدا وند عالم نے سورۂ اخلاْص کی آیتوں میں اس طرح کے لوگوں کے تمام خیالات و افکارپر خط بطلان کھینچا ہے اور فرمایا ہے:
( بسم اللہ الرحمن الرحیم٭قل ھو اللہ احد٭ اللہ الصمد٭ لم یلد ولم یولد٭ و لم یکن لہ کفواً احد)
کہو: خدا وند یکتا اور یگانہ ہے ؛ خدا وند بے نیاز مطلق ہے ؛ ہر گز اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ والد ہے ؛ اور اس کے مانند کوئی نہیں ہے ۔
کلمات کی شرح
گز شتہ بحث سے بہتر نتیجہ اخذ کرنے کے لئے بعض الفاظ آیات کی تشریح کرتے ہیں:
١۔ افک: دروغ وافتراء اور حق سے باطل کی طرف منھ موڑ نے کو کہتے ہیں
٢۔ کظیم :جسے شدیدغم و اندوہ ہو۔
٣۔ سلطان: یہاں پر دلیل و برہان کے معنی میں ہے ۔
٤۔ ضیزیٰ: ظالمانہ، غیر عادلانہ ''قسمة ضیزیٰ'' غیر منصفانہ تقسیم ۔
٥۔ خرق : جھوٹے ،من گھڑت اور جعلی دعوے۔
..............
(١)مریم٩٣،٨٨
٦۔بدیع: بے سابقہ ایجاد کرنے والے اور مبتکر کو کہتے ہیں: بدیع السموات والارض۔
زمین و آسمان کو بغیر کسی اوزاراور آلہ نیز کسی سابقہ نقشہ کے بغیر خلق کرنے والا جو بغیر کسی مادہ اور زمان و مکان کے ہے لہٰذا بدیع کہنا (حقیقی مخترع) خدا کے علاوہ کسی کے لئے جائز و روا نہیں ہے ۔
٧۔ یضاھئون:یعنی شبہہ اور ایک جیسا قرار دیتے ہیں۔
٨۔ اداً :امرعظیم ،نہایت زشت و ناپسند چیز کے معنی میں ہے ۔
٩۔ ھداً :شدید تباہی ، نابودی بنیاد کو خراب کرنے اور کوٹنے کے معنی میں ہے ۔
١٠۔ مسیح: حضرت عیسیٰ بن مریم کا لقب ہے جو عبرانی زبان میں مشیح ہے ، کیونکہ حضرت اپنے ہاتھوں کو کوڑھی اور نا بنیا افراد پر مسح کر کے خدا کی اجازت سے شفا بخشتے تھے۔
١١۔ کلمہ: یعنی ایسی مخلوق جس کو خدا وند عالم نے لفظ کن (ہو جا) اور اس کے مانندسے پیدا کیا ہو۔
اورجو معروف اور عام روش یعنی اسباب کے ذریعہ آفرینش سے جدا ہو۔
عیسیٰ کو اسی لحاظ سے کلمہ خد اکہا گیا ہے کہ خدا وند عالم نے انہیں لفظ کن (موجود ہو جا) سے پیدا کیا ہے جس طرح زکریا پیغمبر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: (ان اللہ یبشرک بیحیٰ مصدقاً بکلمة من اللہ) خدا وند عالم تمہیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے ، جو کلمہ خد ا(مسیح) کی تصدیق کرنے والا ہوگا ۔(١)
اور مریم سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
(ان اللہ یبشرک بکلمة منہ اسمہ المسیح عیسیٰ بن مریم )(٢)
خدا وند عالم تمہیں اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہے.
اور گز شتہ ایک آیت میں ذکر ہو اہے :
یقنا مسیح عیسیٰ بن مریم صرف اور صرف رسول اور اس کا کلمہ (مخلوق) ہیں۔
عیسیٰ کو کلمہ کہنا مسبب کوسبب کانام دیناہے یعنی چونکہ کلمہ خدا (کن) حضرت عیسیٰ کی پیدائش(مسبب) کا سبب ہے، سبب کا نام مسبب کو دے دیا گیا ہے ۔
١٢۔صدیقہ:صدیق اسے کہتے ہیں جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور اپنے گفتا رکی درستگی کو اچھے کردار کے ذریعہ ثابت کرتا ہے ۔ صدیقین فضل و شرف، مقام اور منزلت کے اعتبار سے انبیاء کے بعد آتے ہیں اور
..............
(١)سورہ ٔ آل عمران ٣٩.
(٢) سورہ ٔ آل عمران ٤٥.
صدیقہ، صدیق کا مونث ہے ۔
١٣۔ عبد: عبد یہاں پر اس بندہ کے معنی میں ہے جواپنے نفع و نقصان ، موت و زندگی کا اختیار نہیں رکھتا۔
١٤۔ صمد: صمد اس شخص کو کہتے ہیں جو نہ کسی کو جنے اور نہ ہی جنا گیا ہو.اور نظیرو مثیل نہ رکھتاہو۔ یعنی کوئی چیز اس سے باہر نہیں آئی خواہ وہ چیز مادی و جسمانی ہویا وزنی ہو جیسے فرزنداور اس جیسی چیز کہ جو مخلوق سے پیدا ہوتی ہے۔ خواہ نرم و نازک غیر مادی چیزیں جیسے انسانی و حیوانی نفس اور روح وغیرہ ۔
خدا وند سبحان کو اونگھ اور نیند نہیں آتی ہے اور نہ ہی وہ غم و اندوہ سے دوچار ہوتاہے اور نہ ہی خوف و امیدسے، بے رغبتی اور خوشی، ہنسنا، رونا، بھوک اور شکم سیری، تھکاوٹ اور نشاط اسے عارض نہیں ہوتے ۔
وہ کسی چیز سے پیدانہیں ہوا جس طرح حجم دار، جسمانی، مادی اور پر وزن موٹی تازی چیزیں، اپنے جیسے سے وجود میں آتی ہیں۔ جیسے زمین پر رینگنے والے حشرات، اگنے والی چیزیں، ابلنے والے چشمے اور درخت کے پھل ، اسی طرح سے کسی لطیف اور نازک اور غیر مادی چیزوں سے بھی وجود میں نہیں آیا ہے ۔ جس طرح آگ پتھر سے نکلتی ہے یا جس طرح بات زبان سے نکلتی ہے اور شناخت و تشخیص، قلب سے، روشنی خورشیدسے اور نور ماہ سے۔ کوئی چیز اس کے جیسی نہیں ہے وہ یکتا اور واحد و بے نیاز مطلق ہے جو نہ کسی چیز سے پیدا ہوا ہے اور نہ ہی کسی چیز میں سمایا ہوا ہے ۔ اور نہ ہی کسی چیز پر تکیہ کرتا ہے تمام چیزوں کو وجود بخشنے والا اور ان کا مخترع اورموجدوہی ہے اور اسی نے سب کو اپنے دست قدرت سے خلق کیا ہے ۔
وہ جسے چاہتا ہے اپنی مرضی سے نابود کر دیتاہے اور جسے اپنے علم کے اعتبار سے بہتر اور مصلحت سمجھتا ہے اسے باقی رکھتا ہے وہ خدا وند بے نیاز جو نہ کسی سے پیدا ہواہے اور نہ ہی کوئی اس کے جیسا ہے اور نہ ہی وہ کفو و ہمتا رکھتا ہے۔
آیتوں کی تفسیر
خدا وند عالم گز شتہ آیتوں میں پیغمبر ۖکے زمانے میں بعض یہود کی نشاندہی کرتا ہے اور فرماتا ہے :
وہ لوگ کہتے ہیں: ''عزیر خدا کے فرزند ہیں'' یہ گروہ نابود ہو چکا ہے جس طرح بعض مشرکین جو کہتے تھے ''فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں'' نابود ہو گئے ہیں، لیکن نصاریٰ آج بھی پائے جا رہے ہیںجیسا کہ خد اوند عالم نے ان کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ کہتے ہیں : مسیح خدا کے بیٹے ہیں. اور کہتے ہیں: خدا وند عالم تین میں سے ایک ہے: باپ ، بیٹا اور روح القدس؛ سچ ہے کہ قابل فہم نہیں ہے ۔ کس طرح خدا وند واحد،سہ گانہ ہو جائے گا اور وہی سہ گانہ، واحد ! نصاریٰ اپنی ان باتوں سے کفار کے مشابہ اور مانند ظاہر ہوتے ہیں؛ نیز اپنی اس گفتار سے مسیح کی خدائی کے قائل ہو گئے جبکہ مسیح خدا کے رسول کے سوا کچھ نہیںہیں اور ان سے پہلے بھی رسول آئے ہیں۔ ان کی ماں بھی ایک راستگو اور نیک کردار خاتون تھیں، دونوں ہی دوسروں کی طرح غذا کھاتے تھے لہٰذا واضح ہے کہ جو غذا استعمال کرتا ہے وہ بیت الخلا کی ضرورت محسوس کرتا ہے، لہٰذا ایسا شخص معبود اور الہ نہیں ہو سکتا ہے ، بلکہ عیسیٰ بن مریم خدا کا'' کلمہ '' ہیں جسے خداوند عالم نے مریم کو عطاکیا تھا . اگر نصاریٰ انہیں اس وجہ سے کہ بن باپ کے پیدا ہوئے ہیں خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو ان کی خلقت آدم کی طرح ہے کہ خدا وند عالم نے انہیں خاک سے پیدا کر کے کہا ہو جا تو ''ہو گئے'' سچ تو یہ ہے کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ خدا صاحب فرزند ہے( جبکہ وہ اس سے منزہ اور پاک ہے کہ کوئی فرزند رکھتا ہو) تو اس بات کے آدم زیادہ حقدار ہیں کہ خدا کے فرزند بن سکیں ؛ اس باطل گفتگو سے خدا کی پناہ، یہ سارے کے سارے ''آدم و عیسیٰ'' ، ملائکہ، جن و انس، آسمان اور زمین خدا کی مخلوق ہیں اور کیا خوب کہا ہے خدا وند سبحان نے:
(قل ھو اللہ احد٭ اللہ الصمد٭ لم یلد ولم یولد٭ ولم یکن لہ کفواً احد)
امام حسین سے جب بصرہ والوں نے سوال کیا تو ان کے جواب میں انہوں نے صمد کے معنی بیان فرماتے ہوئے لکھا ہے : خدا وند رحمان و رحیم کے نام سے اما بعد!
قرآن میں بغیر علم و دانش کے غوطہ نہ لگائو اور اس میں جدال نہ کرو اور اس کے بارے میں نادانستہ طور پر گفتگو نہ کرو، میںنے اپنے جد رسول خداۖ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو بھی قرآن کے بارے میں نادانستہ طور پر گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ؛ خدا وند سبحان نے قرآن میں صمد کی تفسیرکرتے ہوئے فرمایا ہے:
خداایک ہے صمد ہے پھر اس کی تشریح کی کہ نہ اس نے کسی کو جنا ہے اورنہ ہی وہ جنا گیا ہے؛ کفو، ہمتا اور مانند نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ فرزند اور اس کی مانند مخلوقات کی طرح ثقیل اور سنگین چیزوں سے وجود میں آیا ہے اور نہ ہی لطیف اور خفیف چیزوں جیسے روح اور نفس سے وجود میں آیا ہے ۔وہ اونگھ اور نیند،وہم غم و اندوہ، خوشی ، غم ،ہنسی ، گریہ ، خوف، امید، میلان، بیزاری، گرسنگی، شکم سیری سے منزہ اور مبرہ ہے وہ اس سے مافوق ہے کہ لطیف اور سنگین چیزوں سے وجود میں آئے نہ وہ پیدا ہوا ہے اور نہ ہی کسی چیز سے وجود میں آیا ہے ؛اور نہ ہی وہ ایساہے کہ جس طرح جسمانی چیزیں اپنے عناصر سے وجود میں آتی ہیں یا نباتات زمین سے پیدا ہوتے ہیںیا پانی کہ بہتے چشمے سے اور پھل درختوں سے وجود میں آتے ہیں۔
جس طرح کہ وہ لطیف اشیاء کی سنخ سے بھی نہیں ہے ان اشیاء سے بھی نہیں ہے ،ایسی چیزیں جو اپنے مراکز سے وابستہ رہتی ہیں جیسے دیکھنا جس کا تعلق آنکھ سے ہے ،سننا جس کا تعلق کان سے، سونگھنا جس کا تعلق ناک سے ،چکھنا جس کا تعلق دہن سے، بات کرنا جس کا تعلق زبان سے، معرفت و شناخت جس کا تعلق دل سیاورآگ پتھر سے خدا ان میں سے کسی ایک کے مانند بھی نہیں ہے بلکہ وہ یکتا اور یگانہ وبے نظیر ہے وہ صمد ہے یعنی اس سے کوئی چیز پید انہیں ہوئی اور نہ وہ کسی چیز سے پیدا ہوا ہے نہ وہ کسی چیز سے ہے اور نہ ہی کسی چیز میں اور نہ ہی کسی چیز پر ہے وہ اشیاء کا خالق اور ایجاد کرنے والا ہے اور ان کو اپنے دست قدرت سے وجود میں لانے والا ہے جس چیز کو اپنی مشیت سے نابود ی اور فنا کیلئے پیدا کیا ہے اسے نابود کر دیتا ہے اور جسے اپنے علم میں بقا کے لئے پیدا کیا ہے اسے تحفظ اور بقا بخش دیتا ہے ۔
یہ ہے وہ واحد و یکتا خدا جو صمد ہے یعنی نہ کسی کو جنا ہے اور جنا گیا ہے وہ اپنا مثل و نظیر نہیں رکھتا ۔
بحث کا نتیجہ
متعدد خدائوں کے ماننے والوں کے درمیان مشرکین قریش کے مانند افراد تھے جو یہ کہتے تھے:
''فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں'' (اب) یہ گروہ ختم ہو چکا ہے ۔
کچھ دوسرے افراد جو کہتے تھے ''عزیر خدا کے فرزند ہیں'' جیسے عصر پیغمبر ۖ کے بعض یہود ی ، یہ گروہ بھی ختم ہو چکا ہے ۔
ان میں سے بعض کہتے تھے: ''عیسیٰ بن مریم خدا کے فرزند ہیں'' خدا سہ گانہ خدائوں میں سے ایک ہے: باپ، بیٹا اور روح القدس، تمام نصاریٰ آج تک اپنے اس عقیدہ پر باقی ہیں۔
بعض دیگرافراد جن ّ کی پرستش کرتے تھے، یہ فرقہ مختلف زمانوں میں جن سے متعلق نت نئے نظریات اور مکاتب خیال کا حامل رہا ہے ۔
خدا وند عالم نے قرآن مجید میں ان تمام اقوال اور نظریات کو باطل قرار دیا ہے ؛ جہاں پر فرشتوںکی پرستش کرنے والوں کے عقیدے کو بیان کیا کہ کہتے ہیں: فرشتے، خدا کی بیٹیاں اور مونث ہیں، فرمایا: آیا یہ لوگ فرشتوں کی تخلیق کے وقت موجود تھے اور انہوں نے دیکھا ہے کہ یہ مونث ہیں؟! اور جہاں پر مسیح اور ان کی ماں کی گفتگوکی ہے فرماتا ہے : یہ دونوں ہی غذا کھاتے تھے اور ہم جانتے ہیں کہ جو غذا کھاتے ہیں انہیں قضائے حاجت کی ضرورت پڑتی ہے نیز کھانا، پینا، قضائے حاجت؛ انسانی صفات میں سے ہے نیز فرمایا کہ عیسیٰ کی طرح بے باپ کے پیدا ہونے میں آدم ہیں کہ انہیں خاک سے بغیر باپ اور ماں کے پیدا کیا گیا ہے۔
لہٰذا قطعی طور پر عیسیٰ ، فرشتے اور جن ّ نیزآسمان و زمین میں تمام موجودات سارے کے سارے خدا کی مخلوق ہیں خدا وند عالم نے نہ کسی کو جنم دیا ہے اور نہ ہی کسی سے جنم لیا ہے نیز اس کا کوئی مثل و نظیر نہیں ہے۔
قرآن کریم اس طرح کی الوہیت یعنی تخلیق و آفرینش کو خدا وند وحدہ لا شریک سے مخصوص جانتا ہے اور اس پر استدلال کرتا ہے اور خالق یکتا کے علاوہ تمام چیزوں کو اس کی مخلوق تصور کرتا ہے ۔
آئندہ بحث میں اصناف مخلوقات خداوندی کے متعلق ان کے مراتب وجود کے اعتبار سے سلسلہ وارجستجواور تحقیق کریں گے۔
|