١
میثاق
خدا وند عالم کا بنی آدم کے ساتھ عہد و میثاق
الف۔ آیہ کریمہ''الست بربکم''کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟
ب۔ انسانی معدہ اورذہن کو کھانے اور معرفت کی تلاش.
ج۔ آیہ کریمہ ''الست بربکم'' کی تفسیر.
د۔ انسان ماحول اور ما ں باپ کا پابند نہیںہے.
١۔٢:آیہ کریمہ''الست بربکم'' اور فکری جستجو
خداوند عالم نے قرآن کریم میں مذکور ہ چیزوں کے مطابق حضرت آدم کی نسل اور ذریت سے عہد و پیمان لیا ہے، جیسا کہ سورۂ اعراف میں فرماتا ہے :
(واذ اخذ ربک من بنی آدم من ظھورھم ذریتھم و أشھدھم علیٰ انفسھم الست بربکم قالوا بلیٰ شہدنا ان تقولوا یوم القیٰمة انا کنا عن ھذا غافلین٭ او تقولوا اِنَّما اشرک آبٰاؤنا من قبل و کنا ذریة من بعدھم افتھلکنا بما فعل المبطلون)
جب تمہارے پروردگار نے فرزندان حضرت آدم کی پشتوں سے ان کی ذریت اور نسل کو لیا نیز ان کو خود انہیں پرگواہ قرار دیا اور فرمایا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے کہا ہاں، ہم گواہی دیتے ہیں۔ یہ اس لئے ہے تاکہ تم روز قیامت یہ نہ کہہ سکو کہ ہم آگاہ نہیں تھے یا یہ کہ ہمارے آباء و اجداد مشرک تھے اور ہم تو ان کے بعد والی نسل ہیںلہٰذا کیا تو ہمیں ان کی وجہ سے ہلاک کرے گا؟!(١)
ان دو آیتوں کی شرح اور تفسیر کے لئے درج ذیل دومقدموں کی ضرورت ہے :
جب نو مولود رحم مادر سے الگ ہوتا ہے اوروہ ناف کا سلسلہ کہ جس کے ذریعہ غذا حاصل کرتا تھا وہ سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے ، تو گرسنگی کی خواہش اسے غذا کی تلاش پر مجبور کرتی ہے، وہ روتا اور چیختا ہے اور ہاتھ پاؤں مارتا ہے نیز سکون نہیں لیتا جب تک کہ ماں کا پستان منھ میں نہیں لیتا اور دودھ نہیںپیتااور منھ کے راستہ سے معدہ تک پہنچاتا ہے ، یہ غریزہ( فطرت) انسان میں ہمیشہ پایا جاتا ہے اور اسے پوری زندگی غذا کے حصول پر مجبور اور متحرک رکھتا ہے۔
اس غریزہ میں جسے ہم غذا کے لئے معدہ کی تلاش کانام دیتے ہیں تمام حیوانات انسان کے ساتھ
..............
(١)اعراف١٧٣۔١٧٢
شریک ہیں اور یہی وہ پہلا غریزہ ہے جو انسان کو فعالیت اور تلاش کی طرف حرکت دیتا ہے ،پھر جب نومولود کچھ بڑا اور چند سال کا ہو جاتا ہے تو دوسرا غریزہ تدریجاً اس میں ابھر تا ہے اور بچپن کے درمیان اور ابتدائے نوجوانی میں ظاہر ہوتا ہے اور اپنی دماغی توانائی کو روحی غذا کے حصول کے لئے مجبور کرتا ہے، ایسی صورت میں جو کچھ اپنے اطراف میں دیکھتا ہے اپنی توجہ اس کی طرف مرکوزکر دیتا ہے اور اسکے ماں باپ اور اطراف سے سوال کرنے کا باعث بنتا ہے کہ ہر موجود کی علت دریافت کرے۔ نمونہ کے طور پر ، جب خورشید کو ڈوبتا ہوا دیکھتا ہے تو ان سے پوچھتا ہے کہ خورشید راتوں کو کہاں جاتا ہے ؟ یا جب کوئی پانی کا چشمہ پہاڑوں سے گرتا ہوا دیکھتا ہے تو سوال کرتا ہے کہ یہ پانی کہاں سے آرہا ہے ؟ یا جب کبھی بادلوں کو آسمان پر اڑتا دیکھتا ہے تو سوال کرتا ہے یہ بادل کہاں جا رہے ہیں؟وغیرہ۔
ا س طرح موجودات سے متعلق آگاہی کو وسعت دیتا ہے اور موجودات کی علت اور حرکت سے متعلق ماں باپ یا اپنے بزرگ سے سوال کر کے دوسرے غریزہ کی ضرورت بر طرف کرتا ہے لہٰذا یہ غریزہ بھی اس طرح کی بھوک مٹانے کے لئے انسان کو کوشش اورجستجو پر مجبور کرتا ہے، یہ در حقیقت وہی انسانی عقل کی تلاش و کوشش ہے جو معرفت اور ادراک کی راہ میںہوتی ہے اور تحقیق و کاوش سے موجودات کے اسباب و علل کے سمجھنے اور دریافت کرنے کے در پے ہوتی ہے ۔
یہ روش موجودات کے ساتھ انسان کی پوری زندگی میں اس غریزہ کے ذریعہ وسیع ہوتی رہتی ہے،نیز موجودات کی پیدائش کے اسباب و علل کے سلسلے میں جستجو اور تحقیق کی طرف کھینچتی ہے اور معرفت شناسی اور حصول علم و دانش کا یہی ایک واحد راستہ ہے ۔
انسان کی کدو کاوش ،تلاش و جستجو ،تحقیق و بر رسی ،موجودات کی علت سے متعلق اس کے موجدیعنی خالق کائنات خدا کی شناخت کا سبب بنتی ہے نیز موجودات کے حرکت و سکون کی علت کا دریافت کرنا اور اس کے متعلق تحقیق و جستجو اسے مخلوقات کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نظم و نظام کے بانی کا پتہ دیتی ہے ۔
مثال کے طور پر چاند کازمین کے اردگرد اور زمین کاخورشید کے اردگرد چکر لگانا یا الکٹرون کی حرکت ایٹم (Atom)کے اندر اپنے ہی دائرہ میں نیزگلو بل(سرخ و سفید ذرات کی) حرکت خون کے اندر یا اس کے علاوہ نظم و نظام کے آشکار نمونے موجودات کی حرکت و سکون سے متعلق بے حد و شمار ہیں۔
اس طرح کی کوشش و تحقیق میں تمام انسانوں کو ایسے نتیجہ تک پہنچاتی ہیں کہ زمین و آسمان اوران دونوں کے درمیان تمام موجودات ایک قانون ساز اور نظم آفرین پروردگار رکھتے ہیں جس نے ان کی زندگی کو منظم اور با ضابطہ بنایا ہے اور یہ وہی خداوند متعال کی بات ہے جوسورۂ اعراف میں ہے کہ وہ فرماتا ہے:
(و اذ اخذ ربک...)
٣۔آیت کی تفسیر
(و اذاخذ ربک من بنی آدم من ظھورھم ذریتھم)
یعنی جب خداوند عالم نے افراد بنی آدم میں سے ہر ایک سے اس کی ذریت اور نسل کو ظاہر کیااور ہر باپ کی نسل اس کی پشت سے جدا ہو گئی تو اشہدھم علیٰ انفسم تو ان میں سے ہر ایک کو خود انہیں پر گواہ بنایا اور تلاش و تحقیق کرنے والی اس فطرت کی راہ سے، جو اس نے ودیعت کی ہے تاکہ حوادث اور موجودات کی علت اور موجودات کی حرکت و سکون کا سبب دریافت کریں ، اس نے ان سے دریافت کیا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ اور چونکہ سبھی نے اپنی فطری عقل سے دریافت کرلیا تھا کہ ہر مخلوق کا ایک خالق ہے اور ہر نظم کا ایک ناظم ہے لہٰذا تو سب نے بیک زبان ہاں کہہ دیا ،یہ وہی فطری غریزہ ہے جس نے انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کیا ہے اور انسان اس کے ذریعہ سے صغریٰ و کبریٰ اور نتیجہ نکالنے پر قادر ہوا ہے اوروہ تمام چیزیں جو دیگر مخلوقات کے بس سے باہر ہیں انہیں درک اور دریافت کرتاہے ،انشاء اللہ اس کی شرح و تفصیل آیہ کریمہ ''وعلم آدم الاسماء کلھا'' کی تفسیر میںآئے گی ۔
٤۔انسان ماحول اور ماں باپ کاپابندنہیں ہے
میں نے کہا: خداوند متعال نے اسی فطری غریزہ سے جو انسان کی سرشت میں پایا جاتا ہے انہیں خود انہیں پر گواہ بنایا اور ان سے سوال کیا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ تو ان لوگوں نے بھی بزبان فطرت جواب دیا کیوں نہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا پروردگار ہے درج ذیل روایت شدہ حدیث کے یہی معنی ہیں کہ پیغمبر نے فرمایا: ''کل مولود یولد علیٰ فطرة الاسلام حتی یکون ابواہ یہودانہ و ینصرانہ (١)و یمجسانہ۔''(٢)
ہر بچہ فطرت اسلام پرپیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔
یعنی ہر انسان ربوبیت شناسی کی فطرت کے ساتھ عقلی نتیجہ گیری کے ہمراہ پیدا ہوتا ہے ( اس کی شرح آئے گی) یہ تو ماںباپ ہوتے ہیں جو اسے فطرت سلیم سے منحرف کرکے دین یہود، نصرانی اور مجوس (جوکہ دین فطرت سے روگرداں ہو کر خدا وندعزیز کے آئین میں تحریف کے مرتکب ہوئے ) میں لے آتے ہیں،اس کی شرح آئے گی۔
رہا سوال یہ کہ خدا وند عالم نے تنہا اپنی ''ربوبیت'' پر ایمان سے متعلق گواہ بنایا ہے اور الوہیت اور اس پر ایمان سے متعلق گواہی کے بارے میںکچھ نہیں پوچھا تو وہ اس لئے کہ مخلوقات کے نظام زندگی میں قانون گزاری اور ''ربوبیت'' پر ایمان، خدا کی ''الوہیت'' پر ایمان کا باعث اور لازمہ ہے جب کہ اس کے بر عکس صادق نہیں ہے .اس کی وضاحت آیہ کریمہ ''الذی خلق فسوی'' کی تفسیر میںآئے گی ۔
ہاں خدا وند متعال نے خودانہیںانہیں پر گواہ بنایا تاکہ روز قیامت یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم اس موضوع سے بے خبر اور غافل تھے اور تیری ربوبیت اور پروردگار ہونے کی طرف متوجہ نہیں تھے!اور تونے ہمارے لئے بر ہان و دلیل نہیں بھیجی نیز ہماری عقلوں کو بھی کمال تک نہیں پہنچایا کہ ہم اس ''ربوبیت'' کو درک کرتے ،یا یہ نہ کہہ سکیں کہ انّما اشرک آباؤنا من قبل و کنا ذریةً من بعدھم ہمارے گز شتہ آباء و اجداد مشرک تھے اور ہم تو ان کے بعد کی نسل ہیں،یعنی: ہمارے آباء و اجداد ہم سے پہلے شرک الوہیت اور کفر ربوبیت پرپرورش پائے تھے اور ہم تو ایسے حالات میں دنیا میں آئے کہ کچھ درک نہ کر سکے یہ تو وہ لوگ تھے جنہوں نے ہمیں اپنے مقصد کی سمت رہنمائی کی تھی۔ اور ہم بھی ان کی تربیت کے زیر اثر جیسا انہوں نے چاہا ہو گئے، لہٰذا سارا گناہ اور قصور ان کا ہے نیز اس کے تمام آثار اور نتائج کے ذمہ دار بھی وہی ہیں:'' افتھلکنا بما فعل المبطلون'' کیا ہمیں ان گناہوں کی سزا دے گا جس کے مرتکب ہمارے آبا ء و اجداد ہوئے ہیں؟!
یہ وہی چیز ہے جس کو اس دور میں''جبر محیط'' یعنی ماحول کاجبر اور اس کا اثرانسان خصوصاً بچوں پر کہتے ہیں،
..............
(١) سفینة البحار: مادہ فطرت . (٢)صحیح مسلم : کتاب قدر،باب معنی کل مولود ... ،صحیح بخاری ، کتاب جنائز ، کتاب تفسیر ، و کتاب قدر ،سنن ابی داود، کتاب سنت ؛سنن ترمذی ،کتاب قدر ؛موطأ مالک، کتاب جنائز اور مسند احمد ، ج ٢، ص ٢٣٣، ٢٥٣.وغیرہ ...
خدا وند عالم فرماتا ہے : تمہیںایسی بات نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ ، ہم نے تمہیں تلاش وجستجو کی قوت اورعلت یابی کی صلاحیت سے آراستہ کیا ہے، بعینہ اسی طرح کہ بعد کی نسلوں نے بہت سی ایسی چیزیں کشف کی ہیں اور کرتے رہتے ہیںکہ جن سے گز شتہ لوگ بے خبر تھے، نیز ان کا شدت سے انکار کرتے تھے اور ایسا خیال کرتے تھے کہ اس کا حصول محال ہے ، جیسے بھاپ کی طاقت، الکٹریک اوربجلی کاپاور، نور کی سرعت، ستاروں کاایک دوسرے کے اردگرد چکر لگانا نیز اس کے علاو دیگر انکشافات جن کا شمار اور احصاء نہیں ہے ۔
ان تمام مقامات پر انسان نے اپنی علت جو فطری عقل وشعور کے ذریعہ یہ امکان پایا تاکہ سابقین کی گفتار وعقائد کو باطل اور بے بنیاد ٹھہرائے اور اپنے جدید انکشاف کو ثابت کرے۔ ہاں، خداوند عالم ہمیں اس طرح جواب دیتا ہے :چونکہ ہم نے تمہیںجستجو اور تلاش کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا، نیز حق و باطل کے درمیان تمیز کے لئے عقل اور صحیح و غلط کے لئے قوت امتیاز عطا کی اور تم پرحجت تمام کر دی ، لہٰذا تمہارے لئے یہ کہنا مناسب نہیں ہے :
''ہم اسے نہیں جانتے تھے اور اس سے غافل تھے'' یا یہ کہ: ''ہمارے ماں باپ مشرک تھے اور ہم نے ان کا اتباع کیا اور ماحول نے ہم پر اپنا اثر چھوڑا''۔
خدا وند عالم نے اس خیال کی رد نیز اس بات کے اثبات میں کہ انسان جس ماحول میں تربیت پاتا اور زندگی گز ارتا ہے اس کی مخالفت کر سکتا ہے اس کے لئے قرآن میں مثالیں اورنمونے بیان کئے اور فرماتا ہے :
( ضرب اللہ مثلا للذین کفروا امرأة نوح ٍو امرأة لوطٍ کانتا تحت عبدین من عبادنا صالحین فخانتا ھما فلم یغنیا عنھما من اللہ شیئا و قیل ادخلا النار مع الداخلین٭ وضرب اللہ مثلاً للذین آمنوا امرأة فرعون اذ قالت رب ابن لی عندک بیتاً فی الجنة و نجنی من فرعون و عملہ و نجنی من القوم الظالمین٭ و مریم بنت عمران التی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روحنا و صدقت بکلمات ربھا و کتبہ و کانت من القانتین)
خداوند عالم ان لوگوںکیلئے جو کافر ہو گئے ہیںنوح اور لوط کی بیویوں کی مثال دیتا ہے کہ یہ دونوں حریم نبوت اور ہمارے دو صالح بندوں کی سر پرستی میں تھیں پھر بھی ان کے ساتھ خیانت کی نیز ان دونوں کا دو پیغمبرۖ سے ازدواج اور تعلق انہیںعذاب کے سوا کچھ نہ دے سکا اور ان سے کہا گیا: جہنم میں ان لوگوں کے ہمراہ داخل ہو جائو جو جہنمی ہیں۔
اور خداوند عالم، مومنین کے لئے فرعون کی زوجہ (جناب آسیہ) کی مثال دیتا ہے ، جب انہوں نے کہا: خدایا! اپنے نزدیک میرے لئے بہشت میں ایک گھربنا اورمجھے فرعون اور اس کے کردار سے نجات دے اور ستمگر وں سے مجھے چھٹکارا دلا!
نیز عمران کی بیٹی حضرت مریم کی مثال دیتا ہے کہ انہوں نے عفت اور پاکدامنی کا ثبوت دیا اور ہم نے اس کے اندر اپنی روح ڈال دی اور اس نے کلمات خداوندی اور اس کی کتاب کی تصدیق کی وہ خداکی اور فرمانبردار اور تسلیم تھی۔(١)
فرعون کی بیوی آسیہ کافر گھرانے ،کفر آمیز اور کفر پرورماحول میں زندگی گز ار رہی تھیں، وہ ایسے شخص کی بیوی تھیں جو ''الوھیت''اور''ربوبیت'' کا دعویٰ کرتا تھا، اس اعتبار سے طبیعی اور فطری طور پر انہیںبھی خدائے ثانی(خدائن) بن جانا چاہئے تھا تاکہ تعظیم و تکریم اور عبادت و پرستش کا مرکز بنتیں لیکن ان تمام چیزوں کو انہوں نے انکاراور رد کر دیااور اپنے شوہر نیز تمام اہل حکومت کی مخالفت شروع کر دی اور صرف پروردگار عالمین پر ایمان لائیں۔
اور انہوں نے ربوبیت کے دعویدار طاقتور فرعون اور اس کی بد اعمالیوں سے بیزاری کا اظہار کیا اور کہا: خدایا!مجھے فرعون اور اس کے کرتوت سے نجات دے نیز ستمگر گروہ یعنی میری قوم سے چھٹکارا دلا اور ان لوگوں کے مقابل قیام کیا اور برابر مقابلہ کرتی رہیںیہاں تک کہ خاوند عالم کی راہ میں درجہ شہادت پر فائز ہوئیں۔
دوسری طرف، نوح و لوط کی بیویاں باوجود یکہ پیغمبر ۖکے گھر میں تھیںجو لوگوں کوپروردگارعالم کی اطاعت کی دعوت دیتے تھے لیکن اس کے باوجود خدا وند عالم اور اپنے شوہروں کا انکار کر دیااور کافر ہوگئیں ان دونوںسے زیادہ بھی اہم یہ ہے کہ حضرت نوح کا فرزند اپنے باپ کی مخالفت کر گیا، خدا وند عالم نے سورۂ ہود میں کشتی میں سوار ہونے سے متعلق بیٹے کاباپ کی دعوت سے انکار کرنے کا ذکر کیا ہے:
(وھی تجری بھم فی موج کالجبال و نادی نوح ابنہ و کان فی معزل یا بنی ارکب معنا ولا تکن مع الکافرین٭ قال سآوی الیٰ جبل یعصمن من الماء قال لا عاصم الیوم من امر اللہ الا من رحم و حال بینھما الموج فکان من المغرقین)
کشتی انہیں پہاڑ جیسی موجوں کے درمیان لے جارہی تھی نوح نے اپنے فرزند کو جوکنارے پر تھا آواز دی اور کہا: میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں کا ساتھ چھوڑ دے! تو اس نے کہا: ابھی میں پہاڑ پر پناہ لے لیتا ہوں تاکہ وہ مجھے پانی سے محفوظ رکھے، نوح نے کہا: آج امر الٰہی کے مقابل کوئی پناہ دینے والا
..............
(١)تحریم١٢۔١٠
نہیں ہے جز اس کے کہ کوئی مشمول رحمت الٰہی ہو اتنے میں موج دونوں کے درمیان حائل ہوئی اور نوح کا بیٹا ڈوبنے والوں میں قرار پایا۔(١)
پھر، نوح اور لوط کی بیویوں نے اپنے شوہروں کی مخالفت کی اور فرزند نوح نے عذاب الٰہی اور کوہ پیکر موجوں کو دیکھنے کے باوجود باپ کے حکم سے سرپیچی کی اور کشتی پر سوار ہونے سے انکار کر دیا، ان تمام افراد نے خواہشات نفسانی اور ہوا وہوس کا اتباع کیا او ر ان راستوں کو اپنایا اسمیں ماحول کی مجبوری کا کوئی دخل نہیں ہے ۔
جبکہ فرعون کی بیوی نے ہوائے نفس کی مخالفت کر تے ہوئے شوہراور خاندان سے مبارزہ کیا تاکہ حکم خداوندی کی پیروی کریں اور حضرت عمران کی بیٹی جناب مریم مومن گھرانے میں زندگی بسر کر رہی تھیں، انہوں نے نوح اور لوط کی بیویوں کے برخلاف، خدا اور اس کی کتاب کی تصدیق کی۔ لہٰذا ماحول اور گھرانے کی مجبوری کی رٹ لگانا بے معنی چیز ہے ۔ یہ خاندان اور ماحول کفر و ایمان پر مجبور نہیں کرتے بلکہ صرف اور صرف عادات کی طرف میلان اور ماحول کی پیروی کی طرف تمائل انسان کو راہ حق سے منحرف کر دیتا ہے جیسا کہ خداوند عالم نے قرآن میں سات مقام پر اس کے بارے میں خبر دی ہے، اور فرمایا ہے: گز شتہ امتوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا: ملائکہ اور بتوں کی عبادت اور پرستش کرنے میں اپنے آبائو اجداد کی پیروی کرتے ہیں، جیساکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قوم کی داستان سورۂ انبیا میں مذکور ہے:
(ولقد آتینا ابراھیم رشدہ من قبل و کنا بہ عالمین ٭ اذ قال لا بیہ وقومہ ما ھذہ التماثیل التی انتم لھا عاکفون ٭ قالو وجدنا آبائنا لھا عابدین۔)(٢)
ہم نے اس سے پہلے ہی ابراہیم کو رشد و کمال کا مالک بنا دیا، نیز ہم ان کی شائستگی اورلیاقت سے واقف تھے جب انہوں نے اپنے مربی باپ اور قوم سے کہا: یہ مجسمے کیا ہیں کہ تم لوگوںنے خود کو ان کا اسیراور غلام بنا ڈالا ہے ؟ ان لوگوں نے جواب دیا: ہم نے ہمیشہ اپنے آباء واجداد کو ان کی پوجا کرتے ہوئے پایا ہے۔
سورۂ شعرا ء میں مذکور ہے:
(و اتل علیھم نبأ ابراھیم ٭ اذ قال لابیہ و قومہ ما تعبدون ٭ قالوا نعبد اصناماً فنظل لھا عاکفین ٭قال ھل یسمعونکم اذ تدعون ٭ او ینفعونکم او یضرون ٭قالوا وجدنا
(١)ھود ٤٢ و٤٣(٢)انبیاء ٥٣۔٥١
..............
آبائنا کذلک یفعلون۔)(١)
ان کوابراہیم کی داستان سنائو،جب اس نے اپنے مربی باپ اور قوم سے کہا: کیا پوجتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: ہم بتوں کو پوجتے ہیں اور خود کو ان کے لئے وقف کر دیا ہے ابراہیم نے کہا: کیا جب تم انہیں بلاتے ہو تو یہ تمہاری باتیں سنتے ہیں؟ کیا تمہیں نفع اور نقصان پہنچاتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایسا کرتے دیکھا ہے ۔
حضرت موسیٰ اور فرعونیوں کی داستان سورۂ یونس میں خدا فرماتا ہے :
(قال موسیٰ اتقولون للحق لما جائکم اسحر ھذا ولا یفلح الساحرون ٭ قالوا جئتنالتلفتناعما وجدنا علیہ آبائنا وتکون لکما الکبیر یاء فی الارض وما نحن لکما بمؤمنین)
موسیٰ نے کہا: کیا جب تمہارے سامنے حق آتا ہے تو کہتے ہو یہ جادو ہے ، جبکہ جادو گروں کو کبھی
کامیابی نہیں ہے ؟انھوں نے کہا : کیا اس لئے تم آئے ہو تاکہ ہمارے آباء و اجداد کی روش سے ہمیں منحرف کردو اور زمین پر صرف تمہاری بزرگی اور عظمت کا سکہ چلے؟ ہم ہرگز تمہیں قبول نہیں کرتے۔ (٢)
یا حضرت خاتم الانبیاء کی داستان ان کی قوم کیساتھ کہ سورۂ مائدہ میں ارشاد ہوتاہے :
(واِذا قیل لھم تعالوا الیٰ ما انزل اللہ و الیٰ الرسول قالوا حسبنا ما وجدنا علیہ آبائنا أو لو کان آباؤھم لا یعلمون شیئاً ولا یھتدون۔)
جب بھی انہیں کہا گیا کہ خداوند عالم اور پیغمبر کی علامتوں کی طرف آئو، تو انہوں نے کہا: جس پر ہم نے اپنے آباو اجدا کو پایا ہے وہی ہمارے لئے کافی ہے خواہ ان کے آباء و اجداد جاہل اور گمراہ رہے ہوں۔(٣)
نیز سورۂ لقمان میں ارشاد ہوتا ہے :
( و من الناس من یجادل فی اللہ بغیر علمِ ولا ھدیً ولا کتابٍ منیر ٭و اذا قیل لھم اتبعوا ما انزل اللہ قالوا بل نتبع ما وجدنا علیہ آبائنا او لو کان الشیطان یدعوھم الیٰ عذاب السعیر)
بعض لوگ بغیر علم و دانش،ہدایت اور روشن کتاب کے، خدا سے متعلق جدال کرتے ہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی طرف سے نازل کردہ کتاب کا اتباع کرو تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے
..............
(١) شعرائ٧٤۔٦٩
(٢)یونس٧٧۔٧٨(٣) مائدہ١٠٤
آباء و اجداد کا اتباع کریں گے کیا ایسا نہیں ہے کہ شیطان انہیں جہنم کے بھڑکتے شعلوں اور عذاب کی دعوت دیتا ہے؟ (١)
نیز سورۂ زخرف میں ارشاد ہوتا ہے :
(وجعلوا الملائکة الذین ہم عباد الرحمن اناثاً أشھد وا خلقھم ستکتب شھادتہم و یسئلون ٭و قالو لوشاء الرحمن ما عبدنا ھم ما لھم بذلک من علم ان ھم الایخرصون ٭ ام آتینا ھم کتاباً من قبلہ فھم بہ مستمسکون بل قالوا انا وجدنا آبائنا علیٰ اُمة و انا علیٰ آثارھم مھتدون)(٢)
ان لوگوں نے خدا وند رحمن کے خالص بندے ملائکہ کولڑکی خیال کیا آیا یہ لوگ ان کی خلقت کے وقت موجود تھے کہ ایسا دعویٰ کرتے ہیں؟ یقیناً ان کی گواہی مکتوب ہو گی اور ان سے باز پرس کی جائے گی اور انہوں نے کہا: اگر خدا چاہتا تو ہم ان کی پوجا نہیں کرتے ۔ جہالت کی باتیں کرتے ہیں، اس سلسلہ میں کوئی اطلاع نہیں رکھتے صرف خیالی پلاؤ پکاتے اور دروغ بافی کرتے ہیں۔ کیا جو ہم نے اس سے قبل انہیں کتاب دی تو انہوں نے اس سے تمسک اختیار کیا؟ ہر گز نہیں، بلکہ کہا: ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اس راہ میں متحد اور یکساں پایا ہے لہٰذا ہم بھی انہیں کی روش پر گامزن ہیں۔
اوراسی سورہ کی دیگر آیات میں گز شتہ امتوں سے متعلق داستان بیان ہوئی ہے :
(و کذلک ما أرسلنا من قبلک فی قریة من نذیر الا قال مترفوھا اِنَّا وجدنا آبائنا علیٰ امة و انا علی آثارھم مقتدون ٭ قال اولو جئتکم باھدی مما وجدتم علیہ آبائکم قالوا انا بما ارسلتم بہ کافرون فانتقمنا منھم فانظر کیف کان عاقبة المکذبین)
اوراسی طرح ہم نے ہر شہر و دیار میں ایک ڈرانے والا نہیں بھیجا مگریہ کہ وہاں کے مالدار اور عیش پرستوں نے کہا: ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اپنے آئین کے مطابق متحد اور یکساں دیکھا لہٰذا ہم انہیں کی پیروی کریں گے، ڈرانے والے پیغمبر نے کہا: اگر اس چیز سے بہتر میں کوئی چیز لایا ہوں جس پر تم نے آباء و اجداد کو دیکھا ہے تو کیا بہتر کا اتباع کروگے؟ انہوں نے جواب دیا: چاہے تم کتنا ہی بہتر پیش کرو ہم ماننے والے نہیں ہیں، پھر ہم نے ان سے انتقام لیا، لہٰذا غور کرو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہے؟ (٣)
..............
(١) سورۂ لقمان٢٠و٢١
(٢)زخرف ٢٢-١٩.
(٣)زخرف ٢٥-٢٣.
آیات کی تفسیر
خداوند عالم گز شتہ آیتوں میں خبر دے رہا ہے : اس کے دوست ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے سوال کیا: یہ مجسمے جن کی عباد ت کیلئے تم نے خود کو وقف کر دیا ہے کیا ہیں؟ آیا جب تم انہیں پکارتے ہو تو وہ جواب دیتے ہیں؟ آیا تم کو کوئی نقصان و نفع پہنچاتے ہیں ؟ کہنے لگے: ہمیں ان مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے، ہم نے اپنے بزرگوں کو اسی راہ کا سالک پایا ہے لہٰذا ہم ان کی اقتدا کرتے ہیں، دوسری جگہ پر موسیٰ کی فرعونیوں سے گفتگو کی حکایت کرتا ہے کہ موسیٰ نے ان سے کہا: آیا خدا کی ان آیات حقہ کو تم لوگ سحر اور جادو سمجھتے ہو؟ فرعونیوں نے کہا: کیاتم اس لئے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے آباء و اجدادکے راستے سے منحرف کردو؟!
خدا وند عالم خاتم الانبیاء کی قریش کے ساتھ نزاعی صورت کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے : جب بھی ان سے کہا گیا خدا کے فرمان کے سامنے سراپاتسلیم ہو جائو تو انہوں نے جواب دیا: ہمارے لئے ہمارے آباء و اجداد کی سیرت و روش کافی ہے ! دوسری جگہ فرماتا ہے : بعض لوگ علم و دانش سے بے بہرہ، ہر طرح کی اطلاع اور راہنمائی سے دور، کتاب روشن سے بے فیض رہ کر خدا کے بارے میں بحث و اختلاف کرتے ہیں۔
کفار قریش ملائکہ کی عبادت کرتے اور انہیں لڑکی خیال کرتے تھے؛ خدا وند عالم ان سے استفہام انکاری کے عنوان سے سوال کرتا ہے : آیا یہ لوگ ملائکہ کی تخلیق اور ان کے لڑکیہونیکے وقت موجود تھے؟ یا یہ کہ خدا وند عالم نے ان کے پاس توریت، انجیل جیسی کتاب بھیجی اور اسمیں اس قضیہ کوذکر کیا اور یہ لوگ اس کو اپنا مستند بنا کر ایسی گفتگو کر رہے ہوں؟ نہیں ایسا نہیں ہے ، بلکہ کہا : ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اس روش و مسلک پرمتحد پایا ہے لہٰذا ہم ان کا اتباع کرتے ہیں۔
خدا وند متعال بھی اپنے پیغمبرۖ کی تسلی اور دلداری کے لئے نیز اس لئے بھی کہ یہ کوئی نئی اور جدید روش نہیں ہے بلکہ تمام امتوں نے ایسی ہی جاہلانہ رفتار اپنے پیغمبروں کے ساتھ روا رکھی ہے ، فرماتا ہے : ہم نے ہر شہر و دیار میںڈرانے والے پیغمبر بھیجے ہیں مگر وہاں کے ثروتمندوں اور فارغ البال عیش پرستوں نے کہا: جو ہمارا دین ہے اسی پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو متفق اور گامزن پایا ہے لہٰذا ہم اسی کا اتباع کریں گے، اللہ کے فرستادہ نبی نے ان سے کہا: اگر میرے پاس تمہارے آباء و اجداد کی روش سے بہتر کوئی روش ہو تو کیا تم اس کی تقلید کروگے یا اس کا انکار کر کے کافر ہی رہو گے؟انہوں نے جواب دیا :تم چاہے جتنا بہتر کچھ پیش کرو ہم کافر و منکر ہی رہیں گے۔
لہٰذا ہم نتیجہ نکالتے ہیںکہ قومی اور گروہی تعصب کہ جس کا محور جہل و نادانی ہے اس طرح کی خواہشات انسان کے اندر پیدا کرتا ہے اور خطرناک نتیجہ دیتا ہے یہاں تک کہ انسان پاکیزہ و سلیم خدا داد فطرت( جو کہ خالق و مربی پروردگار کی سمت راہنما ہے) سے برسرپیکار ہو جاتا ہے۔
بحث کا خلاصہ
چونکہ انسانی نفس تلاش و تحقیق کا خوگر ہے ، کہ پوری زندگی( اپنے حریص اور سیر نہ ہونے والے معدہ کے مانندپوری زندگی غذا کی تلاش میں رہتا ہے) معرفت اور شناخت کی جستجو و تلاش میں رہتا ہے لہٰذا ، جب متحرک کی حرکت کی علت موجوادات وجودکا سبب تلاش کرتا ہے تو اس کی عقل اس نتیجہ اور فیصلہ پر پہنچتی ہے کہ ہر حرکت کے لئے ایک محرک کی ضرورت ہے نیز ہرمخلوق جو کہ ایک موزوںاورمنظم کی حامل ہے ، یقینا اس کا کوئی موزوں و مناسب خالق ضرور ہے؛ اس خالق کا نام''الہ'' یعنی خدا ہے ۔
لہٰذا کسی کے لئے روز قیامت یہ گنجائش نہیں رہ جاتی کہ کہے: (انا کنا عن ھذا غافلین) ہم ان مسائل سے غافل و بے خبر تھے۔ یا کہے:'' ہمارے آباء و اجداد مشرک تھے اور ہم ان کی نسل سے تھے ( یعنی راستہ کا انتخاب انہیں کی طرف سے تھا )کیا ہمیں ان کے جاہلانا عمل کی وجہ سے ہلاک کروگے؟ '' اس لئے کہ، ان کا حال اس سلسلے میں دنیا میں زندگی گز ارنے والے لوگوں کا سا ہے ، کہ لوگ الکٹرک اور برق کے کشف و ایجاد سے پہلے محض تاریکی میں بسر کر رہے تھے، لیکن ان کی ذات میں ودیعت شدہ تحقیق و تلاش کے غریزہ نے ان کی اولاد کو بجلی کی قوت کے کشف کرنے کا اہل بنا دیا، نیز اس کے علاوہ تمام انکشافات جو ہر دوراور ہر زمانہ میں ہوئے ان تک گز شتہ لوگوں کی رسائی نہیں تھی اسی کے مانند ہیں۔ اس وجہ سے جیسا کہ نسل انسانی نے اپنی مادی دنیا کو تحقیق و تلاش سے تابناک و روشن بنا دیا لہٰذا وہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ اپنے آباء واجدادکی کفر و ضلالت کی تاریکی کو خیر باد کہہ کر پیغمبروں کے نور سے فیضیاب ہوں، لہٰذا کوئی یہ نہیںکہہ سکتا کہ ہمارے آباء و اجداد چونکہ کفر و شرک اور خالق کے انکار کی تاریکی میں بسر کر رہے تھے تو ہم بھی مجبوراً ان کا اتباع کرتے رہے ۔ مجبوری کا کوئی سوال ہی نہیں ہے ، اس لئے کہ خدا وند رحمان نے غافلوں اور جاہلوں کے تذکر اوریاد آوری کے لئے پیغمبر بھیج کر لوگوں پر حجت تمام کر دی ہے ، جیسا کہ خاتم الانبیاء سے فرمایا :
(فذکر انما انت مذکر لست علیھم بمصیطر)(١)
انہیں یاد دلائو کیونکہ تنہا تمہیں یاد دلانے والے ہو تم ان پر مسلط نہیں ہو۔
نیز قرآن کو ذکر کے نام سے یاد کیااور کہا:
(وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم ولعلھم یتفکرون)
میں نے اس ذکر (یاد آور) کو تم پرنازل کیا تاکہ جو کچھ لوگوں کے لئے بھیجا گیا ہے اسے بیان اور واضح کردو شاید غور و فکر کریں۔(٢)
آئندہ بحث میں جو کچھ ہم نے یہاں بطور خلاصہ پیش کیا ہے، انشاء اللہ خدا وند عالم کی تائید و توفیق سے اسے شرح و بسط کے ساتھ بیان کریں گے ۔
..............
(١) غاشیہ ٢١ اور ٢٢(٢) نحل ٤٤
|