اسلام اور آج کا انسان
 

آٹھواں حصہ:

وجود اورماہیت

''سوفسطائی'' یاوجود علم کے منکر
سوال:فلسفہ کی دنیا میںقدیم زمانہ سے آج تک ،ہمیشہ ایسے افراد موجود تھے جو تمام چیزوں کو خیالی اورتصوراتی فرض کرکے کسی بھی حقیقت کے معتقد نہیں تھے ،ان افراد میں سے بعض حتی اپنے شک پر بھی شک کرتے ہوئے مطلق طورپر علم کے وجود کے منکر ہوئے ہیں ۔البتہ اس گروہ کو دنیائے فلسفہ میں'' سوفسطائی'' کہتے ہیں ان کے دعوی کو باطل ثابت کرنے کے سلسلہ میں آپ سے ایک مختصر فلسفی اورعلمی جواب کا تقاضا ہے۔
جواب:ہم ایسے افراد کے مقابلہ میں قرار پائے ہیں جوسو فسطائیت کے گرویدہ ہوکر کہتے ہیں :ہمارے اورہمارے نظریہ کے علاوہ جس چیز کا بھی فرض کیا جائے حقیقت نہیں ہے بلکہ خیال کے سوا کچھ نہیں ہے ۔اسی طرح کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس سے بالاتر قدم بڑھا کر کہتے ہیں :میرے اور میرے نظریہ کے علاوہ سب چیزیں خیالی اورافسانوی ہیں ان میں سے بھی آگے بڑھ کر کچھ لوگ کہتے ہیں :ہم سب چیزوں میں شک کرتے ہیں حتی اسی اپنے شک میں بھی شک کرتے ہیں !
یہ وہ لوگ ہیں جو وجود علم کے منکر ہیں اور'' سوفسطائی'' کے نام سے معروف ہیں ۔علم فلسفہ کے مباحث میں ان کا مذہب مسترد ہوا ہے اور''علم'' کا وجود ثابت ہو چکا ہے اور یہ اطہر من الشمس ہے کہ انسان اپنی خداداد فطرت سے حقیقت پسند اور خارجی اورمستقل حقیقت کا معتقد ہے ۔
ہم ،سوفسطائیوں کے مقابلہ میں، کسی حقیقت کو ثابت کرنے والے ،حقیقت کے لئے بہت سے مصادیق کے قائل ہیں کہ ان میں سے ہر ایک مصداق دوسرے سے ممتاز ہے اور اپنے خاص آثار کا سرچشمہ رکھتا ہے ۔خارجی اشیا ء میں سے ہر ایک کی اپنے سے غیر کی نسبت ایک ممتازحقیقت ہوتی ہے اورآثار مرتب کرنے کا اس کا اپنا ایک خاص سر چشمہ ہوتا ہے ۔اسی حالت میں خارج میں دکھائی دینے والی ہر ایک حقیقت دومفہوم کا مصداق ہوتی ہے جواس سے علٰیحدہ ہوتے ہیں اوران دو مفاہیم میں سے ہر ایک کے زائل ہونے سے فرض کی گئی حقیقت معدوم ہو کر باطل ہو تی ہے۔
ماہیت و وجود :موجود ہ انسان ایک ایسی حقیقت ہے ،کہ اگر اس سے انسانیت سلب کی جائے یاموجودیت کو اٹھا لیا جائے تو اس کی حقیقت ختم ہو جائے گی ،لیکن اسی حالت میں یہ دوبنیادی مفاہیم ایک دوسرے سے متفاوت ہوتے ہیں ،کیونکہ ''وجود'' اور''عدم''ایک دوسرے کے نقیص ہیں اور محال ہے ''وجود''،''عدم''کے ساتھ جمع ہو جائے ۔اس کے برعکس ''ماہیت''وجود اورعدم میں سے ہر ایک کے ساتھ قابل توصیف ہے ۔
اسی طرح دونوں مفاہیم کے مصداق ذاتاًاصل (یعنی ان کے آثار کے مرتب ہونے کا سرچشمہ ) نہیں ہیں ورنہ ہر خارجی حقیقت دوحقیقتیں ہو تیں ،پس ان دو مفاہیم میں سے ایک ذاتاًاصلی اورآثار کا سرچشمہ ہو گا اور دوسرا اتفاقی طورپر اصل اورحقیقت سے بہرہ مند ہو گا اوردوسرے الفاظ میں ،ان دو مفاہیم میں سے ایک کے مطابق دوسرے کی عین حقیقت اس کے ساتھ متحد ہونے کے ذریعہ ،حقیقت ہو تی ہے جب کہ اپنی ذات کی حد میں اعتباری ہے ۔
اب یہ سوال پید اہو تا ہے کہ کیا ماہیت اصل ہے یا وجود؟ اس کے پیش نظر کہ خارجی حقیقتیں موجود ماہیتیں ہو تی ہیں ،جب اصل اورآثار کے سر چشمہ سے مرتب ہو جائیں اورمفہوم (موجود)آثارکا مرتب ہونا ان سے جدا ہو جائے تو وجود وعدم کی نسبت ماہیت اپنی ذات کی حد میں مساوی ہوتی ہے ،اس صورت میں کہناچاہئے کہ اصل وجو دہے نہ ماہیت۔
ان دواستدلالوں سے وجود کی اصلیت اوراصلیت کے بارے میں بیان کئے گئے دوسرے اقوال کا باطل ہو نا واضح ہو تا ہے ،مثلاًماہیت کی اصلیت اور وجود کی اعتباریت کا قول، کیونکہ عقل کے واضح حکم کے مطابق جس ماہیت کی حقیقت اورعدم حقیقت سے نسبت مساوی ہو ،اسے عین حقیقت اوراصل نہیں کہا جاسکتا ہے ۔
اس کے مانند کہ کہا گیا ہے کہ واجب الوجودمیں ممکن ماہیت اصل ہے اورجیسے کہاگیا ہے کہ واجب الوجود میں ممکن خلقت اصل ہے ،جبکہ ہم واجب اور ممکن کی خلقت سے ایک معنی سمجھتے ہیں جو آثار کے مرتب ہو نے کا سرچشمہ ہے اور اس بناپر دولفظ وجوداورتخلیق آپس میں مترادف ہیں اور اس قول کی حقیقت ایک نام سے زیادہ نہیں ہے ۔
وجودمیں شک:ابتدائی طور پر جاننا چاہئے کہ علما ئے منطق نے ابتدائی اور سطحی طور پر کلّی کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے :''متواطی''اور''مشکک''۔متواطی: ایک ایسی ماہیت ہے کہ اس کے افراد مذکورہ ماہیت کی صداقت کی حثیت سے مساوی ہیں انسان کے مفہوم کے مانند کہ اس کے افراد انسان کے مفہوم کی صداقت کی حیثیت سے مساوی ہیں اور اگر کوئی تفاوت پیش آئے تو وہ عوارض کی وجہ سے ہوتی ہے جو انسان کے مفہوم سے خارج ہو تے ہیں ،مانند لمبائی ،چوڑائی ،وزن ،جوان اور بوڑھا وغیرہ اورمشکّک: ایک ایسی ماہیت ہے کہ اس کے افراد مذکورہ کلی کی صداقت کی حیثیت سے آپس میں متفاوت ہوتے ہیں ،جیسے ،نور، کہ اس کے افراد شدّت اور ضعف کی حیثیت سے مختلف اور متفاوت ہیں اور اس شدّت اورصعف میں اختلاف اور تفاوت ،نور کی نورانیت کی وجہ سے ہے ۔شدید نور اپنی نورانیت میں شدید ہے نہ نورانیت کے خارجی معنی میں اور اسی طرح ضعیف نور بھی ۔
عام محسوسات ،اصل میں ،مشکّک ہیں ہم قوئہ باصرہ سے نور کو درک کرتے ہیں اور مصداق کی حیثیت میں مختلف ہو تے ہیں اور اپنی حیثیت سے ان کا اختلاف نورانیت ہے جیسا کہ اشارہ ہو ا۔اوراسی طرح ،لمبائی ،چوڑائی اور دور ونزدیک میں رکھنے والے اختلاف اور خودابعاد اورکمیت میں رکھنے والے اختلاف ،کے پیش نظر ہم ابعاد اور مسافتوں کو درک کرتے ہیں ۔اور قوہ ئسامعہ ہم آوازوں کو سنتے ہیں اور انھیں شدید اورشدید تر اورضعیف اور ضعیف تر پاتے ہیں اور یہ اختلافات خودآوازمیں مسموع ہیں نہ ایک عارضی معنی میں قوئہ شامّہ سے بو کو سونگتے ہیں جبکہ ان میں معطرومعطر تر اور بدبووبدبوتراوربالآخرشدید وضعیف ہے کہ یہ اختلاف رایحہ کی ماہیت میں ہے ۔قوئہ ذائقہ سے ہم مزہ چکھتے ہیں اور ان میں شرین وشرین تراور تلخ و تلخ تراورترش و ترش ترہیںاور ان کا اختلاف خود ان کے مزّہ میں ہے نہ ماہیت سے خارج کسی امر میں قوئہ لامسہ سے ہم ملموس چیز وں کو پاتے ہیںاور ان کے درمیان گرم وگرم تراور سردوسردتراورسخت وسخت تراور نر م و نرم ترہیں اور اسی طرح تمام یہ اختلافات صرف معنای ملموس میں ہیں ۔
جی ہاں !سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ ان مشککہ ماہیات میں ایک اختلاف اورتضاد پایا جاتا ہے ،خود ماہیت میں اس مفہوم کے معنی میں کہ ماھو کے جواب میں واقع ہوتا ہے اختلاف نہیں پایا جاتا ہے بلکہ یہ اختلاف مصداق کی صداقت میں ہو تا ہے ۔مثلاً''خواندگی ''کامفہوم ،شدید اور ضعیف میں کسی تغیر واختلاف کے بغیر وہی ''خواندگی ''کامفہوم ہے بلکہ''خواندگی''جود خارجی میں خودشدید یا ضعیف ہے،یعنی وجود میں تشکیک ہے نہ ماہیت میں مفہوم کی حیثیت سے ،ان لوگوں کا مقصود یہی ہے ،جو کہتے ہیں :تشکیک غرض میں ہے نہ عرض میں ۔
اس طرح تشکیک ثابت ہوتی ہے ،لیکن وجو دمیں نہ ماہیت میں ۔اوریہ جو بعض افراد نے کہا ہے : تشکیک معقول نہیں ہے ،کیونکہ اس کا معنی نہیں ہے کہ ایک ہی شئے شدید بھی ہواورضعیف بھی بالجملہ صفات متقابلہ سے متصف ہو ،یہ شخص کے واحدعددی اور واحد بالعموم میں خلط ہے اور شخص میں صفات متقابلہ سے توصیف ہونا محال ہے نہ واحد بالعموم میں ۔
اس بحث سے واضح ہو تا ہے کہ مشکک ایک ایسی حقیقت ہے جو ذات کی حد میں قابل اختلاف ہے اوردوسرے الفاظ میں خود مصادیق میں تفاوت رکھتے ہوئے مابہ الاختلاف سے مابہ الاتفاق کی طرف پلٹتی ہے ۔
اس مقدمہ کے بیان کے بعد ہم کہتے ہیں :اس کے پیش نظر کہ وجود کا مفہوم،جیسا کہ بیان ہوا ،ایک ایسا مفہوم اور واحد ہے جو وحدت کی بناپر تمام موجودات پر حمل ہوتا ہے ۔وجود کی حقیقت جو خارجی حقیقت کے آثار کا مرتب شدہ اس مفہوم ومرحلہ کا مصداق ہے ،منفرد حقیقت اور ایک قسم ہے اور یہی منفرد حقیقت اپنے مصادیق میں وجوب ،امکان ،علیّت ،معلولیت ،وحدت ،کثرت،قوت اورفعل وغیرہ کی حیثیت سے رکھنے والے اختلافات کے پیش نظر محقق ہے ،ایک مشکک حقیقت ہے اورذاتی شدت وضعف کے لحاظ سے اس کے مختلف مراتب ہیں ۔
یہاں پر واضح ہو تا ہے کہ ایک جماعت سے نسبت دیا گیا قول،یعنی ''وجود'' ایک مشترک لفظ ہے اور ہر ماہیت کا وجود اسی ماہیت کے معنی میں ہے ،کیونکہ ''وجود''کا مفہوم ''عدم''کا نقیض ہے اور وجود عدم سے نسبت ماہیت ایک مساوی نسبت ہے عقل کے واضح حکم سے ان دو اضدادمیں سے کسی سے ایک واضح طورپر متصف ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور اگر ماہیت کا وجود اس ماہیت کے معنی میں ہو ،تو اس کا لازمہ یہ ہو تا ہے کہ نقیضین میں سے ایک کے دوسرے مفہوم کے نقیض سے ملنا جائز ہے ۔اوریہ معقول نہیں ہے ۔حقیقت میں یہ قول مصداق سے مفہوم کے اشتباہ میں سے ہے اور اتحاد ماہیت و وجود کے مصداق اور اتحاد ماہیت اور وجود کے مفہوم کے درمیان خلط ہے ۔اوراسی طرح واجب اورممکن کے درمیان وجود کے مشترک لفظی کا غلط ہو نا اور یہ کہ واجب میں وجوب کامفہوم معنی کی حیثیت سے ممکن میں وجود کے مفہوم سے مختلف ہونا۔
اور یہ قول بھی اپنے عیوب کے پیش نظر مصداق کے مفہوم کی طرح اشتباہ ہے اور جو اختلاف واجب اور ممکن کے درمیان ہے وہ وجود کے مصداق (عینی حقیقت اورآثار کے مرتب ہو نے کامرحلہ )میں ہے نہ وجود کے مفہوم میں ۔
بعض نے جو یہ کہا ہے : خارجی وجود تمام الزامات کے حقائق متبا ینہ ہیں ،بھی اسی طرح ہے اور اس قول کے عیب کاسبب کثیر مصادیق سے کثیر کے مانند واحد مفہوم کے نکلنے کا لازمہ ہے جو محال ہے ۔
ماہیت کا وجود سے متصف ہونا:چنانچہ گزشتہ بحثوںسے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمیں دکھائی دینے والی موجودات میں سے ہر ایک ،ایک ایسی واحد حقیقت ہے جو دو مفاہیم ،وجوداور ماہیت سے جدا ہو نے کا سرچشمہ ہیں اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ ان دو مفاہیم بالذات میں سے ایک کا مصداق اصل اور حقیقت ہو اور دوسرا اس کے غرض میں اصلیت اور حقیقت سے بہرہ مند ہو جائے ۔اور اس کے پیش نظر کہ آثار کا مرتب ہو نا اصلیت کا معیار ہے ،وجود کے علیٰحدہ ہونے پر منحصر ہے ،اصلیت وجود سے متعلق ہے اور ماہیت اس کے عرض سے ،تحقق واصلیت سے بہرہ مند ہو تی ہے اور اپنی ذات کی حد میں اعتباری ہے ۔
البتہ اس بنا پر ماہیت کی اعتباریت کا معنی یہ نہیںہے کہ کوئی امر خیال اور وہم تھا اور مطلق سے گر کر اس کا موطن صرف خیال اور تصور ہو بلکہ ماہیت ایک خارجی موجود ہے ،جو کچھ ہے ،وہ یہ ہے کہ عین حقیقت اوربالذات اصلیت نہیں ہے بلکہ عرض سے وجود کی اصلیت ہے اور حقیقت کے مطابق ماہیت، وجود کی سر حد ہے کہ جو اپنے وجود کو دوسروں کے وجود سے جدا کرتی ہے ۔
یہیں پر ایک دوسرے قول کا باطل ہو نا واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ماہیت سے خارجی وجود میں خارجیت سے تحقق رکھتا ہے ورنہ ایک خیال کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
باطل ہو نے کا سبب یہ ہے کہ وجود ذہنی کی دلیل کی وجہ سے ماہیت ذہنی ماہیت خارجی کا وجود ذہنی ہے کہ اپنی ذات کی حیثیت سے عین ماہیت خارجی ،اورا حکام وآثار واقعی کے لئے ایک عقلی موضوع ہے اور اگر ہم ایک وہم اور خیالی ہوگا تو اصلی ماہیت خیالی ہو گی اور کلی طورپر حقیقت (حتی حقیقت بالعرض ) کو بھی کھودے گی ۔
اس کے علاوہ ،''قضایای حقیقیہ'' جو افراد'' محققتہ الوجود ''اور'' مقدرةالوجود'' میں شامل ہیں ،خیالی مفاہیم میں تبدیل ہو کر ،کلی طور پر علوم باطل ہوں گے ،مثلاًطبیب جو اپنی طبابت میں کہتا ہے: ہر انسان کا دل ہے یافلاسفر کہتا ہے: ہرانسان نفس اوربدن کا مرکب ہے ،اس سے مراد صرف انسان کے افرا دہوںگے جنھیں کہنے والے نے خارج میں مشاہد ہ کیا ہے اور کہنے والے کے گزرنے کے ساتھ ختم ہو تا ہے اور اس صورت میںعلم اپنی علمیت سے گر جائے گا ۔ان احکام کے علاوہ خود ماہیت بھی وجودذہنی اورخارجی سے صرف نظر کرتے ہوئے خود ماہیت کے عوارض ذاتی ہوتے ہیں ،ان کی جنسیت ،فصلیت ،ذاتیت اور عرضیت وغیرہ ختم ہوں گی ۔
جی ہاں !غالباًیہ لوگ ذہنی وجود میں خیالی تصویروں کے قائل ہیں ،اور جس صورت علمیّہ کو خارجی مصداق دکھائی دیتا ہے ،اسے ایک ایسی تصویر کے مانند جانتے ہیں جیسے دیوار پر ایک گھوڑے کی تصویر کھینچی گئی ہے اوراسے دیکھنا انسان کو خارج میں ایک گھوڑے کی یاد دلائے !
لیکن اس قول کا باطل ہو نا واضحات میں سے ہے،جبکہ ہمارا ادراک ایک نقشہ اورتصویر کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کرتا ہے اور صاحب تصویر کو خارج میں درک کرنے میں بالکل محروم ہیں تو یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ تصویر کودرک کرنے سے صاحب تصویرکے خارجی وجود کو حاصل کرسکیں ،جبکہ صاحب تصویر کے خارجی وجودسے کسی صورت میں کوئی خبر نہیں رکھتے ہیں ،اس لئے یہ خیالی قول،واضح طورپر مغالطہ ہے ۔