اسلام اور آج کا انسان
 

چوتھاحصہ:

کچھ سوالات اورجوابات(١)

مرداورعورت کے مساوی ہونے کی کیفیت اور عورتوں کی سیاست میں مداخلت:
سوال:کیا اسلام کے قانون میں مرداورعورت مساوی ہیں ؟اور کیا عورت سیاست اور ملکی معاملات میں مداخلت کرسکتی ہے اور مرد کے ساتھ مساوی ہو سکتی ہے؟
جواب:اسلام کے آغاز پر ،انسانی معاشرہ عورت کے بارے میں درج ذیل دو عقیدوں میں سے ایک عقیدہ رکھتاتھا:ایک گروہ عورتوں کے ساتھ پالتو جانوروں جیسا سلوک کرتاتھا، اس کی نظر میں عورت معاشرہ کار کن نہیں تھی لیکن اس سے تسلّط اور معاشرہ کی نفع میں خدمت، جیسے استفادے کئے جاسکتے تھے ۔دوسرے گروہ سے تعلق رکھنے والے افرادمہذّب ترتھے اورعورت کے ساتھ ایک ناقص رکن جیسا سلوک کرتے تھے ۔ان کے سامنے عورت ایک بچہ یا اسیر کے مانند معاشرہ کی طفیلی تھی اور اپنی حالت کے مطابق کچھ حقوق رکھتی تھی اور مردوں کے ذریعہ ادارہ ہو تی تھی ۔یہ دین اسلام تھا جس نے عالم بشریت میںپہلی بارمعاشرہ میں عورت کی مکمل رکنیت کا اعلا ن کیااور اس کے کام کو محترم
١۔١٣٨٣ھ(١٩٦٢ئ)نیو یارک (امریکہ)میں ایرانی مقیم دانشوروں میں سے ہر ایک نے استاد علامہ طباطبائی سے اسلام کے مختلف موضوعات پر گوناگوں سوالات کئے تھے کہ علامہ نے تمام سوالات کے جوابات لکھ کر ایک ساتھ انھیں روانہ کئے تھے ۔
ہم اس کتاب میں ان سوالات اور ان کے جوابات کو قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں تا کہ ان موضوعات سے دلچسپی رکھنے والے محققین ان سے استفادہ کریں (ادارہ)
جانا:''میں تم میں سے کسی بھی عمل کرنے والے کو ضائع نہیں کروں گا چاہے وہ مردہو یا عورت،تم سب ایک خلقت رکھتے ہو ۔''١
اجتماعی موضوعات میں سے صرف تین موضوعات میں عورت کو،اسلام نے مداخلت کی اجازت نہیں دی ہے :حکومت،فیصلہ دینا اور جنگ ،قتل کے معنی، میں نہ جنگ سے مربوط دیگر حصوں کے معنی میں ـ اس کا فلسفہ ۔جیسادینی محور سے معلوم ہو تا ہے ـ یہ ہے کہ عورت ذات ایک جذباتی اور احساساتی مخلوق ہے، مرد کے بر خلاف کہ ایک استدلالی مخلوق ہے اور یہ تین مو ضوع استدلال سے مربوط ہیں نہ جذبات سے اور بدیہی ہے کہ ایک جذباتی مخلوق کو سو فیصدی استدلی امور میں کسی قسم کا دخل نہیں دینا چاہئے اور فطری طور پر وہ اس میں نشو ونما نہیں پا سکتی ہے ۔
اس نظریہ کے لئے بہترین گواہ وہ مشترک کوشش ہے جس سے مغربی دنیا نے مرداور عورت کی مشترک تعلیم وتر بیت میں استفادہ کیا ہے ،لیکن اس کے باوجود آج تک معاشرہ کے ان تین شعبوں میں سے کسی ایک شعبہ میں بھی عورتوں کی کوئی قابل توجہ تعداد کو پیش نہیں کر سکے ہیں عدلیہ ،سیاست یا جنگی سرداروں کے نا بغوں کی فہرست میں ( مثلاً،نرسوں ،رقاص ،فلمی ستاروں،نقاشی اور موسیقی کے برخلاف)مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کا تناسب بہت ناچیز ہے ،مساوی کی بات ہی نہیں ۔
..............
١۔(...انیّ لا اضیع عمل عامل منکم من ذکراو انثی بعضکم من بعض...)(آل عمران ١٩٥)

مرداورعورت کی وراثت کی کیفیت
سوال:عورت کو مرد کی نسبت کیوں وراثت کم ملتی ہے ؟
جواب:اسلام میں عورت،میراث میں سے مجموعی طورپر ایک حصہ اور مرددوحصے لیتا ہے ( جیسا کہ روایت میں ہے)اس کا سبب یہ ہے کہ عورت کی زندگی کا خرچہ مرد(شوہر) کے ذمہ ہے اور اس حکم کا سر چشمہ بھی عورت کا جذباتی ہو اور مرد کا استدلالی ہونا ہے ۔
وضاحت:ہر زمانہ میں زمین پر موجود سرمایہ ایک نسل سے متعلق ہو تا ہے جو اس زمانہ میں زندگی کرتی ہے اور بعد والی نسل پہلی نسل کی جا نشین بن کر اس سرمایہ کو میراث کے طورپر حاصل کرتی ہے اور چونکہ مجموعی طور پر عورتوں اورمردوں کی آبادی ہمیشہ متفاوت رہی ہے اور اسلام کی نظر میں عمومی ثروت کا ٤٣حصہ مرد کا اور١٣حصہ عورت کا ہوتا ہے اوردوسری طرف سے مردکے عورت کے اخراجات کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے عورت اپنے خرچ میں مرد کے حصہ میں شریک ہوتی ہے جبکہ ١٣حصہ اپناحصہ رکھتی ہے اور نتیجہ کے طورپر سرمایہ کا ٢٣ حصہ خرچ کے طور پر عورت کے اختیار میں اور١٣حصہ مرد کے اختیار میں قرار پاتا ہے ،نتیجہ کے طورپر خرچ کے لحاظ سے سرمایہ کا ٢٣ حصہ جذبات کا اور ١٣حصہ استدلال کا ہوگا اور یہ بذات خود ایک بہترین اور عادلانہ تقسیم ہے ،اس کے علاوہ یہ ترتیب خاندان کی تشکیل میں گہرے اور نفع بخش اثرات رکھتی ہے ،چنانچہ بندئ١١کے جواب میں اشارہ کیا جائے گا١
..............
١۔ص١٤٣۔ص١٤٥ کی طرف رجوع کیا جائے۔

مرد اور طلاق کا حق
سوال:طلاق کا حق صرف مرد کو کیوں ہے ؟
جواب:دینی بیانات کے لہجہ سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ مسئلہ بھی مرد کے استدلالی اور عورت کے جذباتی ہونے سے مربوط ہے ۔اس کے علاوہ اسلام کی شرع میں ایسے راستے بھی موجود ہیں ،جن کے ذریعہ عورت ازدواج کے وقت مرد کے اختیارات کو کسی حد تک محدود کرسکتی ہے یا اپنے لئے طلاق کے کچھ اختیارات حاصل کرسکتی ہے

اقتصادی امور میں عورت کی آزادی
سوال : کیا عورت اقتصادی اور مالی امور میں آزاد ہو سکتی ہے ؟
جواب : اسلام میں عورت اپنے بارے میں اقتصادی اور مالی امور میں مکمل او ہرقسم کی آزادی رکھتی ہے ۔

مرداور تعدّدازدواج
سوال :مرد کیوں کئی بیویاں رکھ سکتا ہے ؟
جواب :البتہ معلوم ہے کہ اسلام نے تعدّدازدواج کو واجب قرارنہیں دیا ہے بلکہ صرف اجازت دی ہے کہ مرد ایک سے زیادہ چار عورتوں تک ازدواج کر سکتا ہے وہ بھی صرف اس شرط پر کہ ان کے درمیان مساوات اور عدالت سے پیش آسکے ۔اور اس کا حکم صرف ماحول کے مطابق ہے ،یعنی یہ اس طرح ہونا چاہئے کہ عورتوں کی کمی اور مردوں کی فراوانی کی وجہ سے معاشرہ کا نظم ونسق اس عمل (تعدّدازدواج ) سے درہم برہم ہو کر ہرج ومرج سے دوچار نہ ہو جا ئے ۔لیکن مردوں کی طرف سے واضح ہے ،کیو نکہ عورت اور اولاد کی رہائش اور زندگی کا خرچہ مرد کے ذمہ ہے اور عدالت کی بھی شرط ہے ،لہذا اس کے نتیجہ میں ایسا اقدام کرنا معدودمردوں کے لئے ممکن ہے نہ ہر ممکن کے لئے ۔دوسری طرف سے فطرت اور خارجی حوادث ہمیشہ قابل ازدواج عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ مہیا کر تے ہیں ۔
اگرہم ایک معیّن سا ل کو ابتداء قرار د ے کر ،زن ومرد کی مسا وی پیدائش کا موازنہ کریں تو سولھویں سال قابل ازدواج عورتوں کی تعدادسے سات گناہ زیادہ ہوگی اوربیسویں سال عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت گیارہ اور پانچ(١ا۔٥)ہوگی اور پچیسویں سال ، جو تقریباًعام طور پر ازدواج کا سال ہو تا ہے یہ نسبت ''١٦۔١٠''ہو گی اور اگر اس صورت میں تعدد ازدواج والے مردوں کو ١٥فرض کریں تو آٹھ فیصد مرد ایک بیوی والے ہو ں گے اور بیس فیصد مرد چار بیویوں والے ہوں گے اور تیسویں سال بیس فیصد مرد تین بیویوں والے ہوں گے ۔
اس کے علاوہ ،عورت کی عمر مرد سے زیادہ ہو تی ہے اور معاشرہ میں ہمیشہ بیوہ عورتوںکی تعداد بیوہ سے مردوں سے زیادہ ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ مردوں میں جانی نقصان قابل توجہ حد تک عورتوں سے زیادہ ہو تا ہے اور خاص کر اہم اورعام جنگیں اس مطلب کے بہترین گواہ ہیں ۔ہم نے ،حالیہ چند برسوں کے دوران روزناموں اور مجلات میں مکرر پڑھا ہے کہ جر منی کی عورتوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ اسلام کے تعدّدازدواج کے قانون کو جرمنی میں رائج کریں اور اس طرح بے شوہر عورتوں کی ضرورت کو پورا کریں ، لیکن حکومت نے کلیسائی مخالفت کی وجہ سے اس درخواست کو منظور نہیں کیا ۔
دوسری طرف سے تعدّد ازدواج سے عورتوں کی مخالفت فطری جبلّت کے احساس پر مستند نہیں ہے ،کیونکہ دوسری ،تیسری اور چوتھی بیوی رکھنے والے مرد زبردستی یہ کام انجام نہیں دیتے اور جو عورتیں کسی مردکی دوسری ،تیسری یا چوتھی بیوی بن جاتی ہیں ،وہ آسمان سے نہیں اتری ہیں اور نہ زمین سے اگی ہیں بلکہ ان ہی عام عورتوں میں سے ہیں اور یہی رسم بہت سے اقوام اورملتوں میں سیکڑوں اور ہزاروں سال سے رائج تھی۔ نہ کوئی جبلّتی برائی رونما ہوئی اور نہ عورت ذات کی میں کوئی کمی محسوس کی گئی ہے

دین اسلام کا بے عیب ہو نا
سوال: کیاآپ ا سے قبول کرتے ہیں کہ دین اسلام زمانہ کے گزرنے کو درک نہیں کرسکا ہے تاکہ دین زمان ومکان کے مطابق ہو تا ؟
جواب :یہ ''اسلام زمانہ کے گزرنے کو درک نہیں کرسکا ہے تا کہ زمان ومکان کے مطابق ایک دین ہوتا ''ایک ایسی بات ہے جو فلسفی تفکر کے بجائے شعری تفکّر کے مشابہ ہے ۔زمان ومکان نے تغیر نہیں کیا ہے تاکہ انسان کے اجتماعی قوانین میں تبدیلی کا موجب بنیں ،دن اوررات وہی دن اور رات ہیں اور زمین اور ہوا وغیرہ ہزاروں سال قبل کے مانند ہیں ،صرف انسان کی طرز زندگی اپنی روزافزوں ترقی کے پیش نظر تبدیل ہوئی ہے اور دن بدن انسان کے توقعات اور مطالبات بڑھتے یا تبدیل ہوتے رہتے ہیں انسان کی فعاّل توانائی اپنی حیرت انگیز افزائش کے نتیجہ میں اسے یہ جرئت بخشتی ہے کہ عیش وعشرت کے جن انواع واقسام کے بارے میں کل کے پادشاہ تصور نہیں کرتے تھے آج کے فقیران کی فکر میں پڑ کر ان کا مطالبہ کریں ۔
معاشرہ میں یہ فکری تبدیلی بالکل ایک فرد میں فکری تبدیلی کے مانند ہے جو اسے زندگی کے مختلف حالات کی وجہ سے پیش آتی ہے ۔ایک مفلس خالی ہاتھ والاشخص صرف اپنے شکم کی فکر میں ہو تا ہے اور ہر چیز کو فراموش کر ڈالتا ہے ،جوں ہی اس کی روزمرہ کی روٹی مہیا ہو تی ہے ،لباس کی فکر میں پڑتا ہے ،اس کے بعد اولاد ،اور سرمایہ کو وسعت دینے، فخر ومباہات ،تکلفات اور گوناگوں عیاشیوں کو بڑھاوادینے کی فکر میں پڑتا ہے اور اسی طرح ...
آج کے اجتماعی قوانین معاشرہ کے اکثرلوگوں کے مطالبات کو اپنے لئے تحفظ قرار دیتے ہیں ،اگر چہ معاشرہ کی حقیقی مصلحت کے مطابق بھی نہ ہوں ،لیکن اسلامی طرز تفکر اس کے علاوہ ہے ،اسلام اپنی تشریعیات میں طبیعی انسان کا (قرآن مجیدکی اصطلاح میں انسانی فطرت کو ) تحفّظ قراردیتا ہے ،یعنی انسان کی وجودی عمارت کو اسلحوںسے مسلح صورت میں مد نظر رکھتا ہے اور جن ضروریات کی یہ مسلح عمارت نشان دہی کرتی ہے ان کے برابر مربوط قوانین وضع کرتی ہے ۔نتیجہ کے طور پر ،اسلام کا نظریہ اپنے وضع کئے گئے قوانین سے معاشرہ کی حقیقی مصلحت کو پورا کرتا ہے ،خواہ اکثریت کی مرضی کے مطابق ہو یا نہ ۔اور یہی قوانین ہیں کہ اسلام نے انھیں شریعت کانام رکھاہے اور انھیں قابل تغیر و تبدیلی نہیں جانتا ہے ،کیونکہ ان کا محافظ انسان کی فطری خلقت ہے جو قابل تغیر نہیں ہے ،اور جب تک انسان ،انسان ہے اس کی فطری ضرورتیں ثابت اور پائیدار ہوں گی ۔اسلام اپنے ثابت قوانین (شریعت) کے علاوہ قابل تغیر ضوابط بھی رکھتا ہے اور وہ ایسے قوانین ہیں جو زندگی کی تبدیلیوں سے مربوط ہیں ،تہذیب وتمدن کی پیشرفت کے اثر میں اور ان قابل تغیر قوانین کی شریعت کے قوانین سے نسبت ،پارلیمنٹ کے قابل تنسیخ قوانین کی ناقابل تغیر آئین سے نسبت کے مانند ہے ۔
اسلام نے دینی حکومت کے حاکم کو اختیار دیا ہے کہ شریعت کے قوانین کے سایہ میں ،ضرورت کے وقت زمان اور شوریٰ کی مصلحت کے تحت ضروری فیصلے لے کر انھیں نافذ کرے اور یہ قوانین مصلحت کے تقاضوں کے مطابق اعتبار رکھتے ہیں اور مصلحت کے رفع ہو نے پر منسوخ ہو تے ہیں ۔اس کے برخلاف شریعت کے قوانین قابل تنسیخ نہیں ہو تے ۔
اس بناء پر مذکورہ بیان کے مطابق اسلام دو قسم کے قوانین رکھتا ہے :پہلے ثابت اور پائدارقوانین ہیں ،جن کاضا من انسان کی ثابت فطرت ہے اور انھیں شریعت کہا جاتا ہے ۔
اوردوسرے وہ قوانین ہیں جو قابل تغیر ہو تے ہیں اور وقت کی مصلحت ان کی ضامن ہے ۔یہ قوانین مصلحت کے بدلنے کے ساتھ قابل تغیر ہو تے ہیں ،اس کے مانند کہ انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو نے سے بے نیاز نہیں ہے ،لیکن قدیم زمانے میں مسافرت کے لئے یاپیدل چلتے تھے یا گھوڑے اور گدھے پر سوار ہو کر سفر کرتے تھے ،ان کے لئے زیادہ قوانین اورضوابط وضع کر نے کی ضرورت نہیں تھی لیکن آج وسائل میں ترقی پیدا ہو نے کی وجہ سے صحرائی ،سمندری ،زمین دوز اور ہوائی راستے نکلے ہیں اور بہت دقیق قوانین وضع کر نے کی ضرورت پیدا ہوئی ہے ،یہاں پر واضح ہو تا ہے کہ یہ کہنا :''اسلام نے زمانہ کے گزر نے کو درک نہیں کیا ہے ''انتہائی بے بنیادبات ہے ۔
جن بات کو صاحب اعتراض کہہ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کے ان احکام کی نشاندہی کر کے ثابت کرے جو اس زمانہ کی حقیقی مصلحت کے موافق نہ ہوں یاحکم کی مصلحت کے بارے میں سوال کرے ۔یہ ایک وسیع بحث ہے ہم نے گنجائش کے مطابق اس کی وضاحت کی ، اگر اس کے باوجود اس بحث کے بارے میں مزید کوئی ابہام باقی ہو یا کوئی اعتراض ہوتو تذکر دینا تا کہ بحث کو جاری رکھیں ۔

دین اسلام کا فطری ہو نا
سوال: کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ اسلام کے بہت سے قوانین جو زمان ومکان کے مطابق آج سے ١٤٠٠سال پہلے وجود میں آئے ہیں ،انھیں بدلنا چاہئے ؟
جواب : اس سوال کا جواب گزشتہ جواب میں واضح ہو اہے ۔ شریعت اسلام کے قوانین کی بنیاد انسان کی مخصوص فطرت و خلقت ہے نہ اکثریت( نصف اور ایک) کی رائے اور پسند۔خدائے متعال فرماتا ہے :
(فقّم وجھک للدّین حنیفافطرت اللّٰہ الّت فطرالنّاس علیھا لا تبدیل لخلق اللّٰہ...)(روم ٣٠)
''آپ اپنے رخ کو دین (اسلام) کی طرف رکھیں اور باطل سے کنار کش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الہٰی ہے جس پر اس نے انسان کو پید اکیا ہے اور خلقت الہٰی میں کو ئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے ...''

کیا حضرت زینب (س)ولایت عہدی کے مقام پرفائز تھیں ؟
سوال:کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا ولی عہدی کا مقام رکھتی تھیں ؟اور اگر رکھتی تھیں ،تو کیا ان کے ذمہ دوسرے کاموں کے علاوہ اس کام کی ذمہ داری اس بات کی علامت نہیں ہے کہ اسلام میں عورت صلاحیت رکھنے کی صورت میں مرد کے قدم بہ قدم بڑھ سکتی ہے ؟
جواب:اس مسئلہ کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے اور بنیادی طور پر اسلام میں ولی عہدی کے نام پر کوئی عنوان موجود نہیں ہے ۔اگر ولی عہد کا مقصود جانشینی ہو تو مستند مدارک کے مطابق تیسرے امام کے جا نشین چوتھے امام ہیں نہ آپ کی خواہر گرامی حضرت زینب سلام اللہ علیہا ۔
جی ہاں !روایتوں سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ یزید اور بنی امیہ کی ظالمانہ او ر استبدادی حکومت کے خلاف امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں حضرت سیدالشہداء کی وصیت کے مطابق حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے دوش مبارک پر بھاری ذمہ داریاں تھیں اور ان ذمہ داریوں کو نبھا نے میں آپ نے علمی ا ور عملی لیاقت اور غیر معمولی دینی شخصیت کا مظاہرہ کیا ۔اصولی طور پر جاننا چاہئے کہ اسلام کی نظر میں ،معاشرہ میں انسان کی قدر وقیمت علم وتقویٰ (دین کے انفرادی اور اجتماعی خدمات) پر ہے ۔اور معاشر ہ میںدوسرے امور جو امتیاز اور نفوذ کا وسیلہ ہو تے ہیں ،جیسے سرمایہ اورعظمت ،خاندان اورخاندانی شرافت ،حکومت اورعدلیہ کے عہدے اور فوجی عہدے کسی قسم کی قدر ومنزلت اور امتیاز نہیں رکھتے ہیں، جو ان کے لئے فخر ومباہات کا سبب بن کر ان کو دوسروں پر افضل قرار دیں ۔اسلام میں طاقت کا نفوذ جتلا نے کو کسی امتیاز کا معیار قرار نہیں دیا جانا چاہئے ،اس بناء پر ایک مسلمان خاتون اپنے دینی امتیازات میں مرد کے قدم بہ قدم بڑھ سکتی ہے اور اگر لیاقت رکھتی ہو تو تمام مردوں سے آگے بڑھ سکتی ہے اور تین مسائل ـ حکومت ،عدلیہ اور جنگ ـکے علاوہ تمام اجتماعی مشاغل میں مردوں کے دوش بدوش شرکت کرسکتی ہے ۔خدائے تعا لٰی فرماتا ہے :
''بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار رہے١'' اورفرماتا ہے :
''کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ان کے برابر ہو جائیں گے جو نہیں جانتے ہیں؟٢''
..............
١۔(...انّ اکرمکم عنداللّہ اتقکم ...)(حجرات١٣)
٢۔(...ھل یستوی الّذین یعلمون والّذین لا یعلمون)(زمر٩)