اسلام اور آج کا انسان
 

علم وغیرہ میں انسان کا تکامل و ارتقاء
سوال : کیا انسان کا ارتقاء صرف علم میں تھا یا تمام زمینوں میں ؟
جواب :دین کے نظریہ کے مطابق انسان کامل کا کمال اس کے وجود میں ہے اور تمام زمینوں میں اس کے وجود کی خصوصیتیں ہیں اور اسی کے ساتھ اس کے علم کے ہمراہ بھی ہے ۔قرآن مجید کی آیتوں میں اس کے ارتقاء کے آخری مرحلہ کی توصیف مفصل طور پر آئی ہے اور اس کی حالت کی توصیف میں جامع ترین کلمہ آیہ کریمہ ہے :
(لھم ما یشاء ون فیھا ولدینا مزید)
(ق٣٥)
''وہاں ان کے لئے جو کچھ بھی چاہیں گے سب حاضر رہے گا اور ہمارے پاس مزید بھی ہے ۔''
ان بحثوں کے دوران جن آیا ت کریمہ کا ہم نے ذکر کیا ،مزکورہ مطالب کو ثابت کر نے میں کافی ہیں ،لیکن چونکہ حقیر کی صحت ٹھیک نہیں تھی ،اس لئے آیات کو مفصل وضاحت سے پر ہیز کیا گیا ۔آیات کی کیفیت کی دلالت واضح ہو نے کے لئے تفسیر ''المیزان'' کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے ۔

مجّردات کے وجود کو اثبات کے دلائل
سوال:امکان اشرف کے علاوہ مجّردات کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے کوئی دوسری عقلی دلیل کیا ہے؟
جواب :اس سلسلہ میںشیخ کی کتابوں کی طرف رجوع کر نا چاہئے ،جو امکان اشرف کا قائل نہیں ہے ۔اس کے علاوہ مجّردکے وجود کو (ذات اور فعل میں مجرد کے معنی میں)دوسرے مختلف طریقوں سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے ۔مثلاً ہم کہیں کہ ابتدائی طور پر صادرکومجّرد ہونا چاہئے ، تاکہ اس میںارتقاکی قدرت بھی ہو،لیکن فعلیت کی صورت میںکمال رکھتی ہو(اور اس میںمزید فعلیت اورکمال نہیں آسکتا)اوراگرفرض کیا جائے کہ اس میں تکامل کی قوت بھی موجود ہوتو یہ صادرمادی اورمادہ اورصورت کامرکب ہوگااور اس صورت میںکسی چیزکے اجزاء خود اس چیزپروجودی صورت میں مقد م ہونے لگیںگے اور مادہ وصورت اس صادر سے قبل موجودہوںگے،حالانکہ ہمارافرض یہ ہے کہ صادراب وجودمیں آرہاہے۔
اسی طرح ثابت شدہ صور علمیہ کے تجرد سے نفس کاذاتی تجرداورنفس کے تجردکے ذریعہ اس کی علت فاعلی کے تجردتام کوثابت کیاجاسکتا ہے۔

ختم نبوت کی عقلی دلیل
سوال :ختم نبوت کے بارے میں عقلی دلیل کیا ہے ؟
جواب :کتاب ''برہان از منطق'' میں ثابت ہوا ہے کہ جزئی اور شخصی حکم کی عقلی دلیل نتیجہ بخش نہیں ہے ،لہذا نبوت عامہ کے مقابلہ میں نبوت خاصّہ کو عقلی دلیل سے ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے ۔وضاہت یہ ہے کہ نبوت اور رسالت کا سلسلہ انسان کے ارتقاء کے لئے اور اس کی ہدایت وراہنما ئی کے لئے ہے ،کمال کے مراتب اور آسمانی شریعتوں کا تعدّد تدریجی ارتقاء کے لئے ہے ،جیسے انسان نے زمانہ کے گزرنے کے ساتھ اسے حاصل کیا ہے کہ ہر شریعت گزشتہ شریعت کو کامل کر نے کا درجہ رکھتی ہے اور اس کو منسوخ کر نے والی ہو تی ہے اور واضح ہے کہ انسان لامتنا ہی کمالات کا مالک نہیں ہے ،جن کمالات کی صلاحیت رکھتا ہے ،جتنے بھی زیادہ ہوں ،بالآخر ایک مرحلہ پر ختم ہو تے ہیں ،نتیجہ کے طور پر جو نبوت اس مرحلہ کی ضامن ہے، وہ خاتم نبوت ہے اور جونبوت شریعت کو لائی ہے وہ قیامت تک مستحکم اور واجب العمل ہے ۔اس بیان سے یہ ثابت ہو تا ہے آسمانی شریعتوں میں ایک ایسی شریعت ہو گی جو شریعتوں کو خاتمہ بخشنے والی ہو گی ۔
روایتوں کے مطابق بھی اسلام کی مقدس شریعت ،ایک آسمانی اور بر حق شریعت کو خاتم النبیین اور قرآن مجید کو نا قابل تنسیخ کتاب کے طورپرتعا رف کرا گیا ہے:
(...ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین...)
(احزاب ٤٠)
(...وانّہ لکتاب عزیز٭لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ ولامن خلفہ تنزیل من حکیمٍ حمید)
(فصلّت٤١۔٤٢)
''اور یہ ایک عالی مرتبہ کتا ب ہے ۔جس کے قریب سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آبھی نہیں سکتا ہے کہ یہ خدا ئے حکیم و حمید کی نازل کی ہوئی کتاب ہے ۔''
پیغمبروں کی نسبت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت اور آسمانی شریعتوں کی نسبت شریعت اسلام کی خا تمیت ثابت ہو تی ہے ۔
گزشتہ بحث سے یہ مطلب بھی واضح ہو تا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت کا یہ معنی نہیں ہے کہ آپ کی تشریف آوری سے نبوت کا باب بند ہوا ہے اس لئے لوگوں کی عقلیں مکمل ہو چکی ہے اور اب وحی اور آسمانی احکام کی ضرورت ہی نہیں ہے اس صورت میں اسلام کی وسیع شریعت اوراحکام کے لئے کوئی معنی باقی نہیں رہتا ۔

عدالت اور عصمت میں فرق
سوال: عدالت اورانبیاء کی عصمت ـنہ ملائکہ کہ قوئہ غضبیہ اورقوئہ شہوانیت نہیں رکھتے ـکے درمیان کیافرق ہے ؟
جواب :عدالت ایک طاقت اور ملکہ ہے جس سے انسان عملی طور پر گناہان کبیرہ اور گناہان صغیرہ پر اصرار کر نے سے اجتناب کرتا ہے اور ممکن ہے اصرار کے بغیر گناہان صغیرہ کا مرتکب ہو جائے ۔اور''عصمت''ایک ایسی طاقت ہے جس کے ذریعہ انسان کے لئے مطلق معصیّت ، خواہ گناہان کبیرہ ہو یا صغیرہ کا انجام دینا محال ہوتا ہے ۔اور قرآن مجید کی آیات سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ عصمت علم کی ایک قسم ہے ۔یہ معصیّت کے قبیح ہونے کا علم ہے جس کے ہوتے ہوئے معصیّت ہر گز انجام نہیں پاتی ،ایک شخص کے مانند جیسے ایک مایع کے بارے میں قطعی علم ہو کہ وہ ایک مہلک زہر ہے وہ ہرگز اسے نہیں کھائے گا اور نتیجہ کے طور پر معصیّت کا مرتکب ہو نا ایک عادل کے لئے ممکن ہے لیکن ایک معصوم کے لئے ممکن نہیں ہے ۔

تکوین کا تغییر نا پذیر ہونا
سوال: باوجود یکہ عصمت انبیاء پر عقلی دلیل کو مسلّمات بلکہ مذہب شیعہ کی ضرورت میںشمارکیاگیاہے،لیکن مذکورہ ادلّہ میں ''عیال کے ساتھ ایک غیرحاضری''مثلاًشامل نہیں ہوتی اور فرض کریں شامل ہو جائے ،تو عدالت کافی ہے اور فرض کریں ادلّہ تمام ہو ،رسالت سے نسبت بیان احکام ہے ،جو سہو ونسیان سے محفوظ ہے اور دوسرے گناہوں کی نسبت تمام نہیں ہے اور بنیادی طورپر اس موضوع کے اثبات پر اصرار کرنے والاداعی کون ہے ؟اگر ایک شخص عادل خطاونسیان سے محفوظ،پیغمبر ہو تواس کا فاسد کیا ہے ؟
جواب:نبوت عامہ کو ثبت کرنے والی عقلی دلیل کے مطابق ،وحی آسمانی کے ذریعہ بشر کی ہدایت خلقت تکوینی کا جزو ہے ،اورتکوین میں خطا اور تخلف معقول نہیں ہے تاکہ وحی کے مضامین کے نتائج جو مصدر وحی سے صاد ہوتے ہیں ،ہو بہو لوگوں تک پہنچ جائیں ،یعنی نبی وحی کے قبول کر نے ،اس کے ضبط و تحفّظ اوراسے لوگوں تک پہنچانے میں کسی قسم کی خطا وخیانت نہیں کرنی چاہئے ،اس کی بات محفوظ ہونی چاہئے اور اس کا فعل بھی ہر قسم کے تخلف و معصیت سے پاک ہونا چاہئے ،کیو نکہ اس کا فعل تبلیغ کے مصادیق میں سے ہوتا ہے ،یعنی نبوت سے قبل اور بعد اس کا قول وفعل معصیت ،اعم از گناہان کبیرہ وصغیرہ ،سے منزّہ اور پاک ہو نا چاہئے ،کیونکہ یہ سب مراحل بیان احکام سے مربوط ہیں اور احکام سے باہر کوئی معصیت نہیں ہے ۔اس بحث کے بہت سے ابعاد ہیں ،مزید وضاحت کے لئے ''المیزان'' کی تیسری جلد یاکتاب ''اسلام میں شیعہ''یارسالہ ''وحی وشعورمرموز'' کی طرف رجوع کریں ۔

تشہد میں (ارفع درجتہ)کا مقصود
سوال: فلسفیوں کی تعریف کے مطابق انسان کامل وہ ہے جس کے لئے''کل ما یمکن لہ بالامکان العالم''فعلی ہوچکاہو گا اورہر ایک کے اتفاق کے مطابق حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا منحصر مصداق ہیں یا افراد انسان کامل میں سے ہیں ،اس صورت میں تشہد میں پڑھی جانی والی دعا''ارفع درجتہ'' یا یہ کہ ''بلنددرجہ پر پہنچا ہے ''کا سبب کیا ہے ؟
جواب: مذکورہ دعااوراسی طرح صلوات اس عطیہ کا سوال ہے جوخدائے متعال کی طرف سے قطعی طور پر ملنے والا ہے اور حقیقت میں خدائے تبارک وتعالیٰ کی طرف سے اپنے رسولۖ اور حبیب پر کی گئی عنایت کے سلسلہ میں راضی ہونے اور دلی خوشحالی کا اظہار ہے ۔

گز شتہ سوالات کے مجدد جواب
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
آپ کا دوسراخط ملا۔یاد آوری کے لئے بہت بہت شکریہ ۔ارسال کئے گئے جوابات کے بارے میں فرمایاہے کہ وہ نامکمل ہیں ،لگتا ہے جواب کے متن پر دقت سے غور نہیں کیا گیا ہے :
١۔آپ نے لکھا ہے :''مجّردات کا ثبوت گمراہ جوانوں کے لئے چاہتے ہیں جو خدا کے منکر ہیں اور ماورائے طبیعت کے قائل نہیں ہیں اور خط میں جو دلیل ذکر کی گئی ہے وہ وجود خدا کی فرعی دلیل ہے اور کارآمد نہیں ہے ۔''
یہ مسئلہ ،ایک فلسفی مسئلہ ہے اور مختلف طریقوں سے ثابت ہوا ہے اور جو کچھ خط میں ذ کر کیا گیا تھا یہ ہے کہ صورت علمیہ ّکے تجرّدکو اس راہ سے کہ عمومی مادہ کی خصوصتیں(تغیر،زمان اور مکان )نہیں رکھتا ہے ثابت کریں اور اس کے بعد انسانی نفس کے تجرّدکو اس راہ سے کہ بدون تغیّرانسان کے لئے مشہود ہے اور یہ کہ علمیہ صورت اس سے قائم ہے ،ثابت کریں اور اس کے بعدنفس مجرّدہ کی علّت فاعلی کے تجرّدکو اس راہ سے ثابت کریں کہ علت کو وجود کی حالت میں قوی طورپر معلول سے ہو نا چاہئے اور اضعف امر مادی وجوداًمجرّد ہے ۔
مذکورہ برہان ایک مکمل برہان ہے اور واجب الوجود کو ثابت کر نے میں کسی قسم کی کمی نہیں رکھتا ہے ،چونکہ مقصد یہ ہے یہ مسئلہ ناواقف افراد کو سمجھایا جائے ،اس لئے اس کا بیان کسی حدتک سادہ اور عام فہم ہو نا چاہئے ۔
٢۔آپ نے لکھاہے :''خط میں ،ختم نبوت کے بارے میں ذکر کیا گیا عقلی برہان اچھا ہے ،لیکن مذکورہ ذکر کی گئی قرآنی آیات دلالت نہیں کرتی ہیں شریعت ناسخ ''یاتیہ الحق من خلفہ''ہے نہ''یاتیہ الباطل''۔
باطل کا مطلب ایک قرآنی حکم ہے کہ جو ناسخ شریعت کے ذریعہ منسوخ اور باطل ہو تا ہے اور نتیجہ کے طورپر ایک باطل حکم قرآن مجید میں داخل ہوتا ہے نہ ناسخ شریعت جوبالفرض حق ہوگی نہ باطل ۔
٣۔آپ نے لکھاہے :''تشریع''کامطلب ،معصیت و خطا کے بغیرحکم پہنچانا ہے اور یہ امر مبلغ کی عدالت سے بھی انجام پاتا ہے ،اور عصمت کی ضرورت نہیں ہے اور جوکچھ تکوینی ہے اصل شریعت کو جعل کرنا اور تبلیغ ہے نہ اس کے جزئیات اور رات کے وقت پیغمبر کی اپنے عیال کے ساتھ یک مخفیانہ غیبت ہر گز جزء تکوینی اور احکام کی تبلیغ نہیں ہے ۔
تکوین کا مطلب مر حلہ ایجاد اور وجود خارجی ہے ۔اگر خارج میں موجودانسان خدائے متعا ل کے اردائہ تکوینی سے متعلق ہو ،توضروری طور پر اس کے وجودی آثار،اس کا وجودی مقصد اور مقصد کی طرف اس کا راستہ سب کے سب تکوینی ہوںگے ،پھر یہ کہنا معقول نہیں ہے کہ اصل خلقت تکوینی ہے اوراصل شریعت تکوینی ہے ،لیکن حکم پہنچنے کے مصادیق اور اس کی تبلیغ وضعی اورقراردادی اور غیر تکوینی ہیں اس کے مانند کہ کہا جائے اصل تغذیہ انسان کے لئے تکوینی طورپر مقدر ہوا ہے ،لیکن تغذیہ کے مصادیق اورغذا سب وہمی اور خیالی ہیں ۔یایہ کہا جائے کہ مبلغ کا قول و فعل اور تبلیغ اصل ہے ،لیکن اس کے مصادیق تبلیغ نہیں ہیں اور ممکن ہے مبلغ تمام ان احکام میں خلاف ورزی کر کے گناہان کبیرہ وصغیرہ کا مر تکب ہو جائے جن کے بارے میں اسے تبلیغ کرنی چاہئے ،کیو نکہ عدالت،معصیت انجام پانے کو محال نہیں بناتی ۔
اوریہ جو آپ نے خط میں لکھا ہے :''پیغمبر کی اپنے عیال کے ساتھ شبانہ غیبت تبلیغ نہیں ہے،مضر بھی نہیں ہے ۔''بہت عجیب ہے!کیا پیغمبر کی بیوی پیغمبر کی امت کا جزو نہیں ہے اور اسے تبلیغ کی ضرورت نہیں ہے یا پیغمبر کی بیوی اور دوسرے لوگوں میں کوئی فرق ہے ؟یا یہ کہ اگر بڑی معصیت کا مخفیانہ ارتکاب ایک یا دوافراد سے انجام پائے تو تبلیغ کی ضرورت نہیں ہے اور اگر علنی انجام پائے تو تبلیغ ہے ؟مختصریہ کہ نبی میں عصمت کے بجائے عدالت کا اعتبار لازم وملزوم ہے ۔قولاًاورفعلاًنبی سے کبیرہ وصغیرہ معصیت کا انجام پانا جائز ہو نے کی صورت میں تمام احکام میں خلاف ورزی جائز ہو گی اور یہ مطلب تکوین کی بنیاد سے اختلاف رکھتا ہے ۔
٤۔آپ نے لکھا ہے :تشہد میں ''ارفع درجتہ''کا لفظ واضح طور پر دعااور ارتقاء کے خلاف ہے ۔
خدائے متعال نے کمال امکان کا آخری درجہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کر کے ا سے ختم فرمایا ہے ،اس کے باوجود اس کی لامتنا ہی قدرت محدود نہیں ہوئی ہے اور اگر وہ چاہے تو عطا کی ہوئی چیز کو واپس بھی لے سکتا ہے ۔
(...قل فمن یملک من اللّہ شیئاً ان اراد ان یھلک المسیح ابن مریم وامّہ ومَن ف الارض جمیعا...)
(مائدہ ١٧)
'' ...پیغمبر!آپ ان سے کہئے کہ پھر خدا کے مقابلہ میں کون کسی امر کا صاحب اختیار ہو گا اگر وہ مسیح ابن مر یم اور ان کی ماں اورسارے اہل زمین کو مار ڈالنا چاہے ...''
اس بناء پر، ،دعا فیض کو جاری ر کھنے کے لئے ہے اور حتمی امر کے پھیلائوکے لئے دعاکرنا مناسب ہے اور دعا واضح طور پر عیب اور کوتاہی میں ہے لیکن ہماری بحث میں عیب وہی ذاتی امکان فقر وحاجت ہے نہ بالفعل عیب ۔
٥۔ولایت کی شہادت''علی ول الٰلّہ''میں لفظی اضافہ نہیں ہے اور اس کا یہ معنی ہے کہ وہ ایک ایسا ولی ہے کہ خدا نے اسے ولی قراردیا ہے ۔