کسی چیز سے محروم شخص وہ چیز عطا نہیں کر سکتا
سوال : جیسا کہ واضح ہے ''کسی چیز سے محروم شخص وہ چیزدوسروںکو عطا نہیں کر سکتا ہے ''اگر یہ قاعدہ کلی ہو اور قابل استثناء نہ ہو ،تو پر وردگار عالم نے کس طرح اشیاء کو جسم بخشا ہے جبکہ وہ خودجسم سے منزّہ ہے ؟
جواب : قاعدئہ ''کسی چیز سے محروم شخص وہ چیزعطا نہیں کرسکتا ہے ''ایک فلسفی قاعدہ اور ناقابل استثناء ہے اور اس قاعدہ کے مطابق ہر علت اسی معلول کی حامل ہوتی ہے جس نے اسے ایجاد کیا ہے جیسا کہ ''جعل ''کی بحث میں طے ہوا۔علت جو اثر معلول پر ڈالتی ہے وہ وجود میں ہے اور علت کا معلول کی ماہیت کے سا تھ کوئی ربط نہیں ہے۔اس بناء پر ،علّت،جو کمال معلول کو بخشتی ہے ،وہ وجود کمال ہے لیکن ماہیت کے سلسلہ میںنہ علت اس کی خالق ہے اورنہ اس پرکوئی اثر کرتی ہے۔ جو کچھ موجودات کوبخشتاہے وہ ان کے وجودی کمالات ہیں ،لیکن جسم کا مفہوم اس کی ما ہیّت ہوتی ہے اور خدائے متعال نہ ماہیّت رکھتا ہے اور نہ ہی ماہیت عطاکرتا ہے ۔
عالم ،تغییر وتحوّل کی حالت میں
سوال: کیااسلام کی نظر میں کائنات تغییروتحول کی حالت میں ہے ؟
جواب:کائنات کے اجزاء میں تغییروتحوّل کا وجودمشہود،بدیہی اور ناقابل انکار ہے اور قرآن مجید کائنات کے تمام اجزاء میں تغییر وتحوّل کو ثابت کرتا ہے :
(ما خلقنا السّموات والارض وما بینھما لّابالحق وجل مُسمّیٰ...)(احقاف٣)
''ہم نے آسمان وزمین اور ان کے درمیان کی تمام مخلوقات کو حق کے ساتھ اور ایک مقررمدت کے ساتھ پید کیا ہے ...''
اس مضمون کی آیات بہت ہیں اور عام طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کائنات کی ہرایک چیز بعض آثار کی حامل ہے اورکسی ایک مقصد کے تعاقب میں ہے جو اس کا کمال ہے اوراس کی ایک نہایت اور خاتمہ ہے جو اس تک پہنچنے سے اس کی ترکیب منحل ہو کر اپنے اصلی اجزاء کی طرف تجزیہ ہو کر مرکب معدوم ہو تا ہے ۔
ثابت قوانین
سوال: کیا کائنات کے تحوّلات مشخص اصول کے مطابق اور ناقابل تغییر ہیں ؟یایہ کہ خود قوانین کے حالات میں شامل ہوتے ہیں ؟
جواب :قرآن مجید کے نظریہ کے مطابق ،جو نظام کائنات میں حکم فرماہے اور جن قوانین کی خلقت کے اجزاء پیروی کرتے ہیں ،ایک خدائی روش اور سنت ہے اور خدائی سنّتیں میں یکساں اور نا قابل تغیر ہیں اور ان میں موجود قوانین نا قابل استثناہیں :
(...فلن تجد لسُنت اللّہ تبدیلا ولن تجد لسُنت اللّہ تحویلا) (فاطر٤٣)
''...اور خداکا طریقہ کاربھی نہ بدلنے والاہے اور نہ اس میں کسی قسم کا تغیر ہو سکتا ہے ۔''
(...انّ ربّی علی صراط مستقیم )(ہود٥٦)
''...میرے پروردگار کاراستہ بالکل سیدھا ہے ۔''
کائنات کا ارتقائی سفر
سوال: کیا،کائنات کی پیدائش کے آغاز سے ،کائنات کی حرکت ارتقائی تھی ؟چنانچہ سائنس کہتا ہے : تقریباًدس ارب سا ل پہلے ہائیڈروجن کے نام پر کائنات کا پہلا ایٹم پیدا ہوا ،اس سے پہلے کائنات منتشرگیس کی حالت میں تھی ،لیکن دن بدن پیچیدہ تر اور اکٹھاہوئی ،یہاں تک کہکشاں ،سیاّرے ،نظام شمسی ،زمین کے چار مراحل ،زندگی زندگی کی ارتقاء اور انسان وجود میں آئے ؟
جواب: دوسرے سوال کے جواب میں جو آیہ کریمہ بیان ہو ئی وہ اس سوال کے بارے میں بھی مطابقت رکھتی ہے ۔جب سے کائنات تھی اور جہاں تک رہے گی پوری کائنات ایک خاص حرکت اوراپنے خاص نظم کے ساتھ اپنے مقصدکی طرف تکامل وترقی کا راستہ طے کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی ۔
حقیقت میں کائنات کی پیدائش کے لئے دس ارب سا ل کا فرض کرنا غفلت سے خالی نہیں ہے ،کیونکہ زمان کا تعلق ایک کمیّت اورامتدادکے مقولہ سے ہے جو حرکت کے ساتھ قائم ہے اور اس لحاظ سے ہر حرکت اپنے لئے ایک مخصوص زمان رکھتی ہے اور ہم اہل زمین کی ّنظر میں زمان ایک ایسا امتداد ہے جو دن رات کی حرکت پر قائم ہے اور اس کے پیش نظرکہ یہ تمام انسانوں کے لئے مشہود ہے اس لئے پیمائش کا ایک اندازہ مقرر کیا گیا ہے جس کے ذریعہ ہم جزئی حرکتوں کی پیمائش کرتے ہیں اور حوادث کا اندازہ لگاتے ہیں ۔ہر زمانہ کے قبل اور بعد ایسی حالتیں ہیں کہ اسی زمانہ کے اجزاء سے موازنہ کے نتیجہ میں وجود میں آتی ہیں اور اس زمانہ سے باہر ہر گز وجودنہیں رکھتی ہیں،اس لئے کائنات کی عمر کے لئے اس زمانہ سے اندازہ لینا جو زمین کی دوری اور انتقال حرکت کے نتیجہ میں وجود میںآتا ہے ،غفلت اور سہل انگاری سے خالی نہیں ہو گا ۔
تکامل و ارتقاء کے مراحل اورجدید قوانین
سوال :کیا کائنات میں تکامل کے ہر مرحلہ کے بعد نئے قوانین کا اضافہ ہوا ہے جس طرح کیمسٹری کے قوانین کے نامیاتی مادّہ کے پیدا ہو نے کے بعد وجود میں آئے ہیں یا حیات سے مربوط قوانین کے مانند جو حیات کے بعدپیدا ہو تے ہیں ؟
جواب:البتہ ہر نئے حادثہ اور مظہر کی پیدائش کے مطابق کائنات میں کچھ نئے قوانین کے مصداق پید اہو تے ہیں لیکن نہ اس صورت میں کہ خدائے متعال کی جاری سنت میں تغیر وتجزیہ پید اہو جائے ،جیسا کہ فرماتا ہے :
(ماننسخ من آیة او ننسھا نت بخیر منھا و مثلھا...)
(بقرہ ١٠٦)
''اوراے رسول ہم جب بھی کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یادلوں سے محو کر دیتے ہیں تو اس سے بہتریا اس کی جیسی آیت ضرور لے آتے ہیں...''
اور اسی طرح کائنات کی توسیع کے بارے میں فرماتا ہے :
(والسماء بنیناھا بید و انا لموسعون)
(ذرایات٤٧)
''اورآسمان کو ہم نے اپنی طاقت سے بنایا اور ہم ہی اسے وسعت دینے والے ہیں''
کائنات میں تکامل وارتقاء کا عامل
سوال : کیا ایٹم سے لے کر انسان تک پوری کائنات کا ارتقاء کے عامل تضاد ہے ؟
جواب:اشیاء کی تخلیق کے بارے میں تو صیف کر نے والی قرآن مجید کی آیتوں سے جو کچھ معلوم ہو تا ہے ،وہ یہ ہے کہ ایٹم سے لے کر انسان تک اشیاء کے ارتقاء کے عامل، اشیاء کیاپنی طبیعی اور ذاتی حرکات ہیں چنانچہ انسان کی خلقت کے بارے میں فرماتا ہے :
(الّذی احسن کل شیء خلقہ وبداخلق الانسان من طین٭ثم جعل نسلہ من سلالةٍ من مائٍ مھین٭ثم سوّ یٰہ ونفخ فیہ من روحہ وجعل لکم السّمع والبصار والفئدة...)
(سجدہ ٧۔٩)
'' اس نے ہرچیزکو حسن کے ساتھ بنایا اور انسا ن کی خلقت کا آغاز مٹی سے کیا ہے ۔اس کے بعد اس کی نسل ایک ذلیل پانی سے قرار دی ہے اس کے بعداسے برابر کر کے اس میں اپنی روح پھونک دی ہے اور تمہارے لئے کان ،آنکھ اوردل بنادئے ہیں ...''
قرآن مجید میں اسی مو ضوع ،انسان اور کائنات کے دوسرے مظاہر کے بارے میں بہت سی دوسری آیتیں موجود ہیں ۔اور بعض آیتوں میں اس حرکت کی انتہا کو خدا کی طرف پلٹنے اور اس سے ملاقی ہو نے کی تعبیر کی گئی ہے :
(یا یّھا الانسان انّک کادح الیٰ ربّک کدحاً فملاقیہ)
(انشقاق ٦)
''اے انسان !تو اپنے پروردگار کی طرف جانے کی کو شش کر رہا ہے ،تو ایک دن اس کا سامنا کرے گا ۔''
(وللّٰہ ملک السّموات والارض والی اللّہ المصیر)
(نور٤٢)
''اور اللہ ہی کے لئے زمین وآسمان کی ملکیت ہے اوراسی کی طرف سب کی باز گشت ہے ''
مجموعی طور پر اشیاء کی پیدا ئش کا آغاز خدا سے ہے اور ارتقاء کے ساتھ ان کی باز گشت خدا کی طرف ہے :
(اللّٰہ یبدوا الخلق ثم یعیدہ ثم الیہ ترجعون)
(روم ١١)
''اللہ ہی تخلیق کی ابتداء کرتا ہے اور پھر پلٹابھی دیتا ہے اور پھر تم سب اسی کی بار گاہ میں واپس لے جائے جائو گے ۔''
انسانی معاشرے اورتکامل و ارتقاء کا آہنگ
سوال: کیا انسانی معاشرے پیدائش سے آج تک ارتقاء کی طرف بڑھ رہے ہیں؟
جواب:گزشتہ سوالوں کے جواب میں مذکورہ آیتوں کا اقتضایہ ہے کہ انسان اپنی انسانی فطرت انسانی کے مطابق ہمیشہ ارتقاء کی طرف چل رہا ہے اور یہ سلسلہ یوںہی چلتا رہے گا ....
انسانی معاشروے کے تکامل و ارتقاء کے اہم عوامل
سوال :انسانی معاشروں کے ارتقاء کے اہم عوامل کیا ہیں ؟
جواب: دین کے نظریہ کے مطابق ،انسان ابدی حیات رکھنے والا موجود ہے (جو موت سے نابود نہیں ہو تا ) اور اس کی ابدی سعادت ـجو اس کے ارتقائی وجود کی صورت ہے ـایمان اور عمل صالح میں ہے جو اس کی حقیقی نشوونما اور نفس کی ارتقائی حرکت میں شامل ہے :
(انّ الانسان لف خسر٭الّاالّذین آمنوا وعملواالصّلحات...)
(عصر٢۔٣)
''بیشک انسان خسارہ میں ہے۔علاوہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ...''
ضدوسرے الفاظ میں ،برحق اعتقادات کو قبول کرنا، قرب الہیٰ کا سبب بنتا ہے اور نیک کام اعتقاد کو استحکام اور تحفّظ بخشتے ہیں :
(...الیہ یصعد الکلم الطیّب والعمل الصلح یرفعہ...)
(فاطر١٠)
'' ...پاکیزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہوتے ہیں اور عمل صالح انھیں بلند کرتا ہے ...''
|