اسلام اور آج کا انسان
 

انسان کا آدم و ہواسے پیدا ہو نا
سوال :مہم ترین سوالات میں سے ایک مسئلہ یہ ہے جس کے بارے میں تعلیم یافتہ طبقہ سخت اعتراض کرتا ہے اور یہ مسئلہ متدیّن طبقہ کے لئے سب سے بڑی مشکل بنا ہوا ہے اور وہ اصل خلقت کا قضیہ ہے ۔
قرآن مجید واضح طور پر انسان کے جد کو حضرت آدم اور ان کی خلقت کو مٹی سے جانتا ہے ،جبکہ بعض انسان شناس دانشوروں نے ،برسوں کی تحقیق وتجر بہ کے بعداس مسئلہ میںمختلف نظریہ پیش کیا ہے جو کلی طور پرقرآن مجید کے نظریہ سے متفاوت ہے ۔چونکہ ان دانشوروں نے انسانوں اور حیوانوں کے مختلف انواع پر مدتوں آزمائش اور تجربہ کے بعد اپنا یہ نظریہ پیش کیا ہے ،بہر حال امید ہے کہ آپ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں گے ۔
جواب :موجودہ انسان کی نسل کے شجرئہ نسب کی ابتداء کے بارے میں دوافرادآدم اور ان کی بیوی کے بارے میں قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے اور قرآن مجید کی آیتیں اس مطلب کے بارے میں صراحت کے نزدیک قوی ظہور رکھتی ہیں ،ایسے کہ قطعی برہان کے بغیرمذکورہ ظہور سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ہم نے اس کے بارے میں تفسیرالمیزان میں سورئہ نساء کی ابتداء میں بحث کی ہے ۔
خلاصہ یہ کہ مربوط علوم سے متعلق دانشوروں نے نوع انسان کی پیدائش کے سلسلہ میں جو اپنا نظریہ پیش کیا ہے کہ،جس سے انسان کی اصل بندر یامچھلی تک پہنچتی ہے ایک علمی فرضیہ (علمی مسائل کی تو جیہ کے لئے فرض کیا جاتا ہے )کے علاوہ کچھ نہیں انہوں نے جن دلائل کو پیش کیا ہے وہ اس سے زیادہ استدلال نہیں کرتی ہیں کہ انسان اور اس کی فرض کی گئی اصل دو طبیعی مخلو قات ہیں ،جو وجوداور وجود کے آثار کی جہت سے آپس میں کامل و ناقص نسبت رکھتے ہیں اور یہ ایک کے دوسرے سے استخراج یا ایک کے دوسرے میں تبدیل ہو نے کے علاوہ ہے ،جس کا دعویٰ تبدّل انواع کے مدعی کرتے ہیں ۔
خاص کر اس لحاظ سے کہ اسلام میں دین کے بیانات فطری منطق کے مطابق ہیں اور علوم مادی کے دانشوراپنے بیانات میں غالباً''آلگوریزم'' ریاضی منطق کی پیروی کرتے ہیں ،چنانچہ وہ کہتے ہیں :بجلی خاص شرائط میں حرکت یا حرارت یامقناطیس میں تبدیل ہوتی ہے اور پانی جب ایک سودرجہ پر ابلتا ہے تو اپنی کمیت کو کیفیت میں تبدیل کرکے بخار بن جاتا ہے مثلاًمساوات کے ایک طرف قرار پایا ہوامثبت عدد دوسری طرف منتقل ہو جانے پرمنفی عدد بن جاتا ہے ۔جو آپ نے لکھا ہے کہ یہ دانشورانسان کے لئے لاکھوں سال عمر فرض کرتے ہیں ،یہ کسی بھی دین کے منافی نہیں ہے ۔اس کے علاوہ لاکھوں سال پرانے فُسیل اور زمین کے آثار،پیدا ہو نا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتے ہیں کہ اس زمانہ کے انسان اورآج کے انسان ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ،کیو نکہ ممکن ہے اسی زمین پر مختلف ادوارگزرچکے ہوں اور ان میں سے ہر دور میں انسان کی ایک جدانسل وجود میں آئی ہو گی اور ایک عمر گزار نے کے بعدوہ نوع نیست و نابودہوئی ہو گی اور کچھ مدت کے بعدانسان کی ایک اور نسل وجود میں آئی ہوگی ۔چنانچہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ زمین پر انسان کی موجودہ نسل انسا نیت کے ادوار کا آٹھواں دور ہے ۔

علم نفس اور معرفت نفس میں فرق
سوال:علم نفس اور معرفت نفس میں فرق بیان فرمائیے ؟
جواب : عام طور پرعلم نفس اس فن کو کہتے ہیں جس میں نفس اور اس سے مر بو ط مسائل اور اس کی خصوصیتوں کی بحث ہو تی ہے اور معرفت نفس،مشاہدہ کے ذریعہ نفس کی حقیقت کی پہچان کر نے کو کہتے ہیں ۔علم نفس کے ذریعہ نفس کی پہچان ''فکری پہچان ''ہے اور معرفت نفس کے ذریعہ ''شہودی پہچان ''ہے...

معرفت نفس کا مطلب
سوال:کیا معرفت نفس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے نفس''روح''کومادّہ اور عینی صورت سے ''مجرّد ''مشاہدہ کرے یایہ کہ اس کے علاوہ کوئی اور مطلب ہے ؟بہرحال استدعا ہے کہ شناخت نفس کے بارے میں آیات و روایا ت میں بیان ہو ئے مطلب کی وضاحت فرمائیے ؟
جواب: ''معرفت نفس''کا مطلب وہی پہلا معنی ہے ،یعنی مادّہ سے مجرد نفس کی شہودی شناخت ۔اور جو یہ لکھا گیا ہے کہ ''مادّہ وصورت سے مجردنفس''غلط ہے کیونکہ انسان کا نفس اس کی اپنی صورت ہے اور معرفت نفس کا مطلب وہی ''رب ّ''ہے جو روایتوں میں آیا ہے ۔

عرفان نفس اور معرفت پر وردگارکا رابطہ
سوال :معروف حدیث:''من عرف نفسہ فقد عرف ربہ''١
''جس نے اپنے نفس کو پہچان لیایقینا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔''کے معنی میں (مرحو م سیدعبداللہ شبّرکی کتاب مصابیح الانوار میں )بارہ قول بیان ہوئے ہیں ،عرفان نفس اورربّ کی شناسائی کے درمیان کو ن سا رابطہ ہے ،رابطہ کا سبب بیان فرمائیے؟
جواب:اصل روایت اس طرح ہے :(من عرف نفسہ عرف ربہ) اس روایت کے بارے میںجو بارہ معنی بیان ہوئے ہیں ،جیسا کہ مجھے یاد ہے ،ان میں سے کوئی بھی معنی روایت کا دقیق معنی نہیں ہے ،صرف جس صورت کی ''فقد''کی راہ سے توجیہ کی گئی ہے اسے روایت کے ظاہری معنی قرار دیا جا سکتا ہے اور عرفان نفس اور رب کی شناسائی کا رابطہ اس راہ میں ہے کہ نفس مخلوق اور معلول حق تعالےٰ ہے اور حق تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی قسم کی آزادی نہیں رکھتا ہے اور جو کچھ اس کے پاس ہے خدا کی طرف سے ہے ،اور اس قسم کی مخلوق کا مشاہدہ حق تعالےٰ کے مشاہدہ کے بغیرممکن نہیں ہے ۔
..............
١۔مصباح١لشریعہ١٣

معرفت اور لقاء ا للہ کا مطلب
سوال: ''اصول کافی ''اور''بصائرالدرجات ''میں ائمہ اطہار علیہم السلام اور ان کے نورانی مقام کے بارے میں بہت سی روایتیں نقل ہو ئی ہیں ،ان میں سے بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ پر وردگار کی پہلی مخلوقات وہی ہیں ۔اسی طرح دوسری روایتوں اور زیارت جامعہ سے یوں استفادہ ہو تا ہے کہ وہ حضرات علیہم السلام اسما ء اللہ ،وجہ اللہ، یدا للہ،جنب اللہ ہیں ،ان احادیث کے پیش نظرکیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ معرفت اور لقاء اللہ کا مطلب وہی معصومین علیہم السلام کی معرفت ہے ؟ جیسا کہ فرمایا ہے :(معرفتی بالنورانیة معرفة اللّہ١ استدعا ہے کہ
..............
١۔(بحارالانوار١٢٦)
ان احادیث اور معرفت پروردگار کے بارے میں واضح احادیث کو کیسے جمع کیا جاسکتا ہے؟
جواب :معصومین علیہم السلام کی نورایت کا مقام ان کا کمال ہے اور یہ بلند ترین ممکن کمال ہے اور یہ جو بیان ہوا ہے کہ وہ حضرات علیہم السلام اسماء اللہ،وجہ اللہ ،یداللہ جنب اللہ ہیں یہ توحید کی عمیق ترین بحثوں میں سے ایک بحث ہے اور اس کا تفصیلی بیان یہاں پر ممکن نہیں ہے ۔جو کچھ خلاصہ کے طور پر علمی اصطلاح میں پیش کیا جا سکتا ہے ،وہ یہ ہے کہ وہ حضرات علیہم السلام اسماء اور صفات خداوند ی کے مکمل مظہر ہیں، وہ صاحب ولایت کلیہّ اور فیض الہیٰ کے چشمے ہیں ،ان کی شناخت خدائے متعال کی شناخت ہے ۔

نفس کی معرفت خدا کی معرفت کی کنجی ہے
سوال:چنانچہ مرحوم مرزا جواد آقا ملکی کے ''رسالئہ لقائیہّ''میں درج ہے کہ معرفت نفس میں فکر،معرفت خدا کی کلید ہے ۔اس کے پیش نظر کہ نفس مجردات میں سے ہے کیا فکر مجرّدات تک پہنچ سکتی ہے یا نہیں ؟اس کے امکان کی صورت میں ،استدعا ہے کہ فکر کی راہ کے بارے میں اس رسالہ میں جو کچھ درج ہوا ہے ،اس سے واضح تربیان فرمائیے ؟
جواب :فکر مجرّدات تک پہنچ سکتی ہے جیسے مادیات میں پہنچتی ہے ۔فلسفہ مجرّدات کے بارے میں بہت سے مسائل حل ہوئے ہیں ،لیکن یہاں پر فکر کا مطلب اس کے معروف معنی کے علاوہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک خلوت اور شوروشر سے دور جگہ پر بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے اپنی صورت پر توجہ کیا جائے ،اس شخص کے مانند جو شیشہ میں اپنی صورت کو دیکھتا ہے اور وہ اس کے ذہن میں پیداہو نے والی ہر شکل وصورت سے ہٹ کرصرف اپنی صورت کو دیکھتا ہے ۔

دومطالب کی وضاحت
سوال :''رسالہ لقائیہ'' میں دو مطالب ذکر ہوئے ہیں پہلامطلب:''معرفت نفس''میں فکر کے بارے میں فرماتا ہے :
''اشتغل المتفکر تارة لتجزیة نفسہ،واخریٰ لتجزیة العالم حتی یتحقق لہ ان ما یعلمہ من العالم لیس الا نفسہ وعالمہ لا العالم الخارجی وان ھذہ العوالم المعلومة لہ انمّا ھو مر تبة من نفس''
اس عبارت کے کیا معنی ہیں اور اس کا مقصود کیا ہے ؟
دوسرامطلب:بعد میں فرماتے ہیں :''ہر صورت و خیال کو جب اس کادل نفی کرے توپھر عدم میں فکر کرے ''نفی اور عدم میں فکر کا مقصود کیا ہے ؟استدعا ہے کہ ان دونوں عبارتوں کے مقصود کو واضح تر بیان فرمائیے ؟
جواب:عربی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ قائم ہوئے برہان کے مطابق انسان ہمیشہ اپنے آپ کو تلقین کرے اور جان لے جو کچھ اپنے اور اپنے بیرونی عالم کے بارے میں درک کرتا ہے ،اسے اپنے اندر درک کر کے پاتا ہے ،نہ یہ کہ بیرونی عالم نے خود پایا ہو۔خیالی صورتوں کی نفی کا مطلب ،ان سے اجتناب کر کے صرف اپنی صورت پر اپنے دل کی نظر ڈالتا ہے اور عدم میں فکر کا مطلب اپنی صورت کی طرف فکر کرنا ہے کہ جس کا وجود مجازی ہے اور حقیقت میں عدم ہے ۔

خود شناسی کے مقام پر فائز ہونا
سوال : کیا غیر شیعہ اور غیر مسلم ،اپنے مذہب سے مربوط عبادتوں اور ریاضتوں کے نتیجہ میں ''خودشناسی'' کے مقام تک پہنچ سکتے ہیں ؟ممکن ہو نے کی صورت میں مسلّم ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا ،اس نے خدا کو پہچانا اور نتیجہ کے طور پر دین مقدس اسلام کے مقصد یعنی توحید تک پہنچا ہے اور اس طرح اسلام کے علاوہ دوسرے راستہ سے مقصد تک پہنچاہے ،کیا یہ فرض ممکن ہے یا نہیں ؟
جواب:بعض دانشوراس فرض کو ممکن جانتے ہیں ،لیکن کتاب وسنت کے اصلی مدارک و اسناد کے ظواہر ،اس فرض کے بارے میں موافق نہیں ہیں ،مگر یہ کہ مقدمات میں جیسا کمزورفرضی مجاہد فرض کریں ۔

خداکی یاد کا مقصود کیا ہے ؟
سوال: قرآن مجید کی آیات میں امر کئے گئے ''خدا کی یادمیں ہونے''کا مقصود کیاہ ہے ؟کیا خداکی یاد ،اولیائے خدا کی یاد اور خدا کی نعمتوں کی یاد ہے یا نہیں ؟''ذکراللہ'' کے مقصود کو بیان فرمائیے؟
جواب: یاد کرنے کا معنی واضح ہے اور خدا کو یاد کر نے کا مقصودہر کام کے انجا م دینے اور اسے ترک کر نے کی ابتداء میں خداکی مرضی کے مطابق اسے یاد کر نا ہے ،اس سے بڑھ کر ہمیشہ خدا کے حضورمیں اپنے آپ کو دیکھناہے اور اس سے بلند تراپنے سامنے خدا کو اس طرح دیکھنا ہے جو ذات اقدس خدا کو دیکھنے کا حق ہے ...