اجتماعی اورانسانی ضرورتوں کی تشخیص کا وسیلہ
چنا نچہ معلوم ہوا کہ قوانین اور ضوابط کا اصلی عامل زندگی کی ضرورتیں ہیں۔ لیکن دیکھنا چاہئے ان ضرورتوں ـجو در حقیقت وہی اجتماعی اور انسانی ضرورتیں ہیں ـکو کس طرح تشخیص دی جائے ۔
البتہ یہ ضرورتیں انسان کے لئے بالواسطہ یابلاواسطہ قابل تشخیص ہونی چاہئیں اگر چہ اجمالی اور کلّی طور پر ضمنًا یہ سوال پید ہوتا ہے کی کیا انسان اپنی زندگی اور اجتماع کی تکا لیف کی تشخیص میں بھی کبھی خطا سے دوچار ہوتا ہے یا جس چیز کو بھی تشخیص دیدے اسی میں اس کی سعادت وخوشبختی ہوتی ہے اور اسے چون چرا کے بغیر قبول اور نافذ کرنا چاہئے ؟یعنی انسان کی وہی چاہت ،اس کے حقیقی ہو نے کی صورت میں ،اسے ضروری طور پر قبول اور نافذ کرنے کی لیبل لگا دے گی ۔
لیکن آج کی ترقی یافتہ دنیا کی اصطلاح میں دنیا کے اکثر لوگ انسان کی چاہت کو قانون کی تشخیص دینے والی چیز بتاتے ہیں ،لیکن اس کے پیش نظرکہ ایک ملت کے تمام افراد کی چاہت یا باکل یکساں نہیں ہوتی یا اگر کہیں توافق پیدا ہو جائے تو وہ بہت کم اور اختلافی موارد کے مقا بلہ میں نا چیز ہوتا ہے جس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے ،لہذا مجبورًا لوگوں کی اکثریت(نصف بعلاوہ ایک) کو قابل اعتبار جان کر اقلیت (نصف منہای ایک)کو مسترد کرکے اقلیت کی آزادی کو پائمال کیا جاتا ہے ۔
البتہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انسان کے ارادہ اور چاہت کا اس کی زندگی کے حالات سے براہ راست ربط ہوتا ہے ۔ایک امیرآدمی ،جو اپنی ضروریات کو پورا کرتا ہے ،اپنے دماغ میں ہزاروں آرزوئیں رکھتا ہے کہ ایک مفلس و حاجتمند کے ذہن میں یہ آرزوئیں پیدا بھی نہیں ہو سکتی ہیں ۔یا بھوک کی وجہ سے جس شخص نے اپنا تاب وتحمل کھو دیا ہو ،وہ ہر لذیذ اور غیر لذیذ کھانے کو کھا لیتا ہے ،اگر چہ وہ کسی اور کا مال بھی ہو ۔جب کہ امیر آدمی ناز ونخروں سے صرف لذٰیذ کھانوں کی طرف ہاتھ بڑھا تا ہے ۔انسان آرام و آسائش کی حالت میں اپنے ذہن میںبہت سے خیا لات کو پاتا ہے جن کا سختی اور مشکلات میں تصور تک نہیں کرتا !
اس لحاظ سے اجتماعی زندگی کی ترقی کے پیش نظر انسان کی ضرورتیں تدریجاًبدل جاتی ہیں اور ان کی جگہ پر دوسری ضرورتیں جانشین ہو تی ہیں اور انسان قوانین کے ایک سلسلہ کے اعتبار اور نفاذ سے بے نیاز ہو کر نئے اور دوسرے قوانین وضع اورنا فذ کرنے یا پرانے قوانین میں تبدیلی لانے پر مجبور ہوتا ہے ۔اس لئے زندہ قو موں میں پرانے قوانین مسلسل بدلتے رہتے ہیں اور ان کی جگہ نئے قوانین لیتے ہیں ۔یہ بات واضح ہوئی کہ اس کی حقیقی علت یہ ہے کہ قوانین کو وجود میں لانے والااوراس کی حمایت کرنے والا سبب ملت کے افراد کی اکثریت کی چاہت ہے اور یہی اکثریت کی مرضی قوم کے قواعدو ضوابط کو قانونی شکل دے کر ان پر حقیقت کی مہر لگا دیتی ہے ، حتی اگر ان کے معاشرہ کی حقیقی مصلحت ان قوانین میں نہ ہو،کیونکہ مثال کے طور پر فرانس کا ایک شخص فرانسیسی معاشرہ میں اس معاشرہ کا رکن اورجز اور اکثریت کے موافق ہونے کے ناطے محترم ہے اور مثال کے طور پر فرانس کا قانون جو چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک فرانسیسی فرد کو تحفظ بخشے اور وہ بھی بیسویں صدی میں نہ یہ کہ ایک برطانوی فرد کی یا ایک فرانسیسی فرد کی دسویں صدی میں (قابل غوربات ہے!) اس سلسلہ میں بیشترغور وخوض کر نے کی ضرورت ہے کہ کیا مذکورہ عامل انسان کی خواہشات میں مؤثر ہے اور تہذیب وتمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان میں ہر لحاظ سے تبدیلی آتی رہتی ہے۔؟
اور یا پوری تاریخ بشریت میں انسانی معاشروں کے درمیان کوئی مشترک پہلو باقی نہیں رہتا ہے ؟
یا اصل انسانیت ـجبکہ فطر تًازندگی کی چند ضرورتیں اس سے مربوط ہیں (چنانچہ کچھ دوسری ضرورتیں مختلف علا قوں اور زندگی کے مراکز کے حالات اور ماحول کے مختلف ہونے سے مر بوط ہوتی ہیں ) ـتدریجاًبدل گئی ہے ؟اور پہلا انسان مثلاًآنکھ، کان ،ہاتھ پائوں ،دماغ ،دل ،گردے ،پھیپھڑے ،جگر اور نظام ہاضمہ کے اعضا ء ـو ہم میں پائے جاتے ہیں ـنہیں رکھتا تھا یا ان اعضاء کی سر گرمی ایک دن ایسی نہیں تھی جیسی آج پائی جاتی ہے ؟
کیا گزرے ہوئے لوگوں کو پیش آنے والے حالات ،جیسے جنگ و خون ریزی اور صلح وآشتی کے معنی انسان کو نابود کرنے یا اسے محفوظ رکھنے کے علاوہ کچھ اور تھے ؟
کیا شراب پینے کی صورت میں پیدا ہونے والی مستی ،مثلاً(شراب کے افسانہ کے موجد)''جمشید'' کے زمانہ میں آج کے زمانہ میں رکھنے والے مفہوم کے علاوہ کچھ اور مفہوم رکھتی تھی ؟اور اسی طرح کیا،''نکسیا''اور ''باربد ''جیسے موسیقی کاروں کی مو سیقی کی لذت آج کی موسیقی کی لذتوں کے علاوہ کچھ اور تھی ؟
مختصر یہ کہ کیا گزشتہ انسان کے وجود کی پوری بناوٹ آج کے انسان کی بناوٹ سے بالکل مختلف تھی ؟یا قدیم انسان کے اندرونی اور بیرونی حالات آثار،عمل اور ردعمل ،آج کے انسان کے علاوہ کچھ اور تھے ؟
البتہ ان تمام سوالات کے جوابات منفی ہیں ۔کسی بھی صورت میں یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ انسانیت تدریجاًنابود ہو گئی ہے اور کوئی اورچیز اس کی جانشین بن گئی ہے یا جانشین ہوگی ،یا یہ کہ اصل انسانیت جو سیاہ فام وسفیدفام، بوڑھے جوان، عقلمند اوربیوقوف ،قطب میں رہنے والے اور خط استواپر رہنے والے اور پرانے زمانے کے انسان اور آج کے انسان میں مشترک ہے ،مشترک ضروریات نہیں رکھتی ۔یا اگریہ ضروریات مشترک بھی ہوں تو انسان کی خواہش اورارادہ ان کو پورا کرنے سے مربوط نہیں ہے۔
جی ہاں ،حقیقت میں یہ ضرورتیں موجود ہیں اورکچھ ثابت اور دائمی قوانین کی متقاضی بھی ہیں جن کا بدلنے والے قوانین سے کوئی ربط نہیں ہے ،کوئی بھی قوم کسی بھی زمانہ میں اس کی زندگی کے لئے قطعی طور پر خطرہ بننے والے دشمن سے ممکن صورت میں جنگ کرنے سے گریز نہیں کرتی اور اگر ایسے دشمن سے نجات پانے کے لئے اسے قتل کرنے کے علاوہ کوئی اورچارہ نظر نہ آئے تو خوں ریزی برپا کرنے سے پیچھے نہیں رہتی ۔
مثلاً کوئی معاشرہ اپنے افراد کی زندگی کے لئے ضروری تغذیہ کو نہیں روک سکتا ہے ،یا ان کے جنسی تمایلات پر پابندی نہیں لگا سکتا ہے ۔اس قسم کے بہت سے نمونے موجود ہیں جو نا قابل تغیراحکام کی نشاندہی کرتے ہیں اور قابل تغیراحکام سے ان کا کوئی ربط نہیں ہوتا ۔
مذکورہ بیانات سے چند موضوع واضح ہو جاتے ہیں :
١۔معاشرہ اور اجتماعی قوانین و ضوابط کی پیدائش کااصلی عامل زندگی کی ضروریات ہیں ۔
٢۔تمام اقوام حتی وحشی قومیں بھی اپنے لئے کچھ قوانین اورضوابط رکھتی ہیں ۔
٣۔موجودہ دنیا کی نظر میں زندگی کی ضرورتوں کو تشخیص دینے والا وسیلہ معاشرہ کے لوگوں کی اکثریت کی مر ضی ہے ۔
٤۔ اکثریت کی رائے ہمیشہ حقیقت کے مطابق نہیں ہوتی ۔
٥۔زمانہ کے گزر نے اور تہذیب وتمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ کچھ قوانین بدلتے رہتے ہیں اور یہ قوانین خاص حالات سے مر بوط ہوتے ہیں ،لیکن قوانین کا ایک اور سلسلہ جو ''انسانیت''کی بنیاد سے مربوط اور تمام ادوار کے انسانوں اور تمام شرائط اور ماحول میں مشترک ہیں ،ناقابل تغیر ہیں ۔اب جبکہ یہ مو ضو عات واضح ہوگئے،ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کا نظریہ کیا ہے ؟
تربیت کے بارے میں اسلام کا نظریہ
اسلام ،چونکہ ایک عالمی دین ہے اور ایک خاص جماعت اورایک معین زمان ومکان کو مد نظرنہیں رکھتا ہے ،اس لئے اس نے اپنی تعلیم وتر بیت میں ''فطری انسان'' کو مد نظر رکھا ہے ،یعنی اس نے اپنی نظر کو صرف انسانیت کی مخصوص بناوٹ پر متوجہ کیا ہے ،جس میں ایک عادی اور عمومی انسان کے شرائط جمع ہو کرانسان کا مصداق بنتا ہے ،اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ عرب ہو یا عجم ،سیاہ فام ہو یاسفید فام ،فقیر ہو یاامیر،طاقتور ہو یا کمزور،عورت ہو یا مرد،بوڑھا ہو یا جوان اور دانا ہو یانادان ۔
''فطری انسان ''یعنی جو انسان خداداد فطرت کا مالک ہو اور اس کا شعوروارادہ پاک ہوو توہمات اور خرافات سے آلودہ نہ ہواہو،اسے ہم ''فطری انسان کہتے ہیں ''
اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انسان کا دوسرے حیوانوں سے صرف یہ امتیاز ہے کہ انسان اپنی طاقت سے مسلح ہے اورزندگی کی راہ طے کرنے میں ''عقل وشعور''سے کام لیتا ہے ،جبکہ دوسرے حیوانات اس خداداد نعمت سے محروم ہیں ۔
ہر جاندار کی سر گرمی ـبجز انسان کے ـیک ایسے شعور ارادہ پر منحصر ہے کہ جس کا عامل صرف اس حیوان کے جذبات ہیں جو اپنے ظہور اور جوش سے اسے اس کے مقاصد کی طرف راہنمائی کرتے ہیں اور اسے فیصلہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور اس ارادہ کے نتیجہ میں وہ اپنی زندگی کی سر گرمیوں کو بروئے کار لا کر آب و غذااور زندگی کی دوسری ضروریات کے پیچھے جاتا ہے ۔
یہ صرف انسان ہے ،جو مہر ومحبت ،کینہ وعداوت دوستی ودشمنی اور خوف وامید کے شدید جوش وجذبہ اورجذب ودفع کے بارے میں ہر قسم کے دوسرے جذبات کے علاوہ ایک عدالتی نظام سے بھی مسلح ہے ،جو مختلف جذ بات اور طاقتوں اور حقیقی مصلحتوں کے درمیان دعوی کی تحقیق کرکے عمل کی تشخیص دے کر اس کے مطابق فیصلہ دیتا ہے ۔کبھی جذبات کی شدید خواہش کے باوجود اس کے بر خلاف فیصلہ سناتا ہے اور کبھی قدرت اور جذبات کی کراہت کے باوجود حق میں فیصلہ سناتا ہے اور انسان کو سر گرمی پر مجبور کرتا ہے اور کبھی ان جذبات اور طاقت کی مصلحتوں پر توا فق اور ان کی خواہش سے موافقت کا اعلان کرتا ہے ۔
|