انسان شناسی
 

نویں فصل :

کمال نہائی

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات:

١۔ (کمال ) کا معنی ذکر کرتے ہوئے اس کی تشریح کریں ؟
٢۔ انسان کے کمال نہائی سے مراد کیا ہے ؟ وضاحت کریں ؟
٣۔ قرب الٰہی کے حصول کی راہ کو آیات قرآن سے استدلال کرتے ہوئے بیان کریں ؟
٤۔ ایمان اور مقام قرب کے رابطے کی وضاحت کریں ؟

کمال خواہی اور سعادت طلبی ہر انسان کی ذاتی وفطری خواہشات میں سے ہے اور انسان کی پوری کوشش اسی خواہش کو پوراکرنا اور نقائص کو دورکرناہے . البتہ یہ بات کہ کمال کی خواہش اور سعادت طلب کرنا خود ایک حقیقی اور مستقل رغبت وخواہش ہے ، یا ایک فرعی خواہش ہے جو دوسری خواہشوں کا نتیجہ ہے جیسے خود پسندی وغیرہ میں یہ مسئلہ اتفاقی نہیں ہے اگر چہ نظریہ کمال کو مستقل اور حقیقی سمجھنا ہی اکثر لوگوں کا نظریہ ہے ۔
انسان کی سعادت وکمال کی خواہش میں ایک مہم اور سر نوشت ساز مسئلہ ،کمال اور سعادت کے مراد کو واضح کرنا ہے جو مختلف فلسفی ودینی نظریوں کی بنیاد پر متفاوت اورمختلف ہے . اسی طرح کمال وسعادت کے حقیقی مصداق کو معین کرنا اور ان کی خصوصیات نیز کیفیت اور اس کے حصول کا طریقہ کاران امور میں سے ہے جس کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق وتحلیل اور بحث ہوچکی ہے اور مزید ہوگی . ظاہر ہے کہ مادی مکاتب جو معنوی اور غیر فطری امور کے منکرہیں ، ان تمام مسائل میں دنیاوی پہلو اختیار کرتے ہیں اور کمال وسعادت کے معنی ومفہوم اور ان دونوں کا حقیقی مصداق اور اس کے راہ حصول کو مادی امور ہی میں منحصرجانتے ہیں . لیکن غیر مادی مکاتب خصوصاً الہی مکاتب فکر، مادی و دنیاوی اعتبار سے بلند اور وسیع و عریض نظریہ پیش کرتے ہیں . اس فصل میں ہماری کوشش یہ ہوگی کہ قرآنی نظریہ کے مطابق مذکورہ مسائل کا جواب تلاش کریں .

مفہوم کمال اور انسانی معیار کمال
دنیا کی باحیات مخلوق جن سے ہمارا سرو کار ہے ،ان میں سے نباتات نیز حیوان و انسان گوناگوں صلاحیت کے حامل ہیں ، جس کے لئے مناسب اسباب و علل کا فراہم ہونا ظاہر وآشکار اور پوشیدہ توانائیوں کے فعال ہونے کا سبب ہیں . اور ان صلاحیتوں کے فعال ہونے سے ایسی چیزیں معرض وجود میں آتی ہیں جواس سے قبل حاصل نہیں تھیں . اس طرح تمام با حیات مخلوق میںدرونی قابلیتوں کو پوری طرح سے ظاہر کرنے کے لئے طبیعی تلاش جاری ہے . البتہ یہ فرق ہے کہ نباتات موجودات کے ان طبیعی قوانین کے اصولوں کے پابند ہیں،جو ان کے وجود میں ڈال دی گئی ہیں . جانوروں کیسعی و کوشش حب ذات جیسے عوامل پر مبنی ہے جو فطری الہام وفہم کے اعتبار سے اپنے امور انجام دیتے ہیں لیکن انسان کی جستجو، اختیار وعلم کی روشنی میں ہوتی ہے ۔
اس وضاحت کے مطابق جو اختیار اور اس کے اصول کی بحث میں گذرچکا ہے . اس کے کمال نہائی کا مقصد دوسری مخلوق سے بالکلعلیحدہ اور جدا ہے ۔
گذشتہ مطالب کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ''کمال'' ایک وجودی صفت ہے جو ایک وجود کا دوسرے وجود کے مقابلہ میں حقیقی توانائی وقوت کی طرف اشارہ کرتا ہے .اور کامل وجود اگر فہم وشعور کی نعمت سے مالامال ہو تو کمال سے مزین ہونے کی وجہ سے لذت محسوس کرتا ہے . گذشتہ مفہوم کی بنیاد پر کمال اگر طبیعی اور غیر اختیاری طور پر حاصل ہو جائے جیسے انسان کی حیوانی توانائی کا فعال ہونا (جیسے جنسی خواہش )تو اسے غیر اکتسابی وغیر طبیعی کمال کہا جاتا ہے اور اگر دانستہ اور اختیاری تلاش کی روشنی میں حاصل ہوتو کمال اکتسابی کہا جاتا ہے . پس جب یہ معلوم ہوگیا کہ ہر موجود کا کمال منجملہ انسان کا کمال ایک قسم کی تمام قابلیت کا ظاہر اورآشکار ہونا ہے . توبنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان کا حقیقی کمال کیا ہے اور کون سی قابلیت کا ظاہر ہونا انسانی کمال سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ؟ بے شک انسان کی قابلیتوں اور خواہشوں کے درمیان حیوانی اور مادی خواہشوں کے ظاہر ہونے کو انسانی کمالات میں شمار نہیں کیا جاسکتااس لئے کہ یہ خواہشیں انسان اور حیوان کے درمیان مشترک ہیں اور حیوانی پہلو سے ان قابلیتوں کے فعال ہونے کا مطلب انسان کا تکامل پانا ہے ۔
ایسے مرحلہ میں انسان کی انسانیت ابھی بالقوہ ہے اور اس کی حیوانیت بالفعل ہوچکی ہے اور یہ محدود ،ناپایدار اور سریع ختم ہونے والی صلاحیتیں انسان کی واقعی حقیقت یعنی نا قابل فنا روح ، اور ہمیشہ باقی رہنے والی لامحدود خواہش سے سازگار نہیں ہے . انسان کی انسانیت اس وقت بالفعل ہوگی جب اس ناقابل فناروح کی قابلیت فعال ہواور کمال وسعادت اور ختم نہ ہونے والی خالص اور ناقابل فنا لذت بغیر مزاحمت ومحدود یت کے حاصل ہو ۔

انسان کا کمال نہائی
انسانی کمال اور اس کی عام خصوصیات کے واضح ہونے کے بعد یہ بنیاد ی سوال در پیش ہوتا ہے کہ انسانی کمال کا نقطۂ عروج اور مقصد حقیقی جسے ہر انسان اپنی فطرت کے مطابق حاصل کرنا چاہتا ہے اور اپنی تمام فعالیت جس کے حصول کے لئے انجام دیتا ہے وہ کیا ہیں ؟ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ انسان کا کمال نہائی کیا ہے ؟
اس سوال کے جواب کے وقت اس نکتہ پر توجہ ضروری ہے کہ حوادث زندگی میں انسان کی طرف سے جن مقاصد کی جستجو ہوئی ہے وہ ایک جیسے مساوی اور برابر نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بعض اہداف، ابتدائی اہداف ہیں جو بلند وبالا اہداف کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں اور بعض نہائی اور حقیقی اہداف شمار ہوتے ہیں اور بعض درمیانی ہیں جو مقدماتی اور نہائی اہداف کے درمیان حد وسط کے طور پر واقع ہوتے ہیں . دوسرے لفظوں میں ، یہ تین طرح کے اہداف ایک دوسرے کے طول میں واقع ہیں. انسان کے نہائی کمال وہدف سے مراد وہ نقطہ ہے جس سے بڑ ھ کر کوئی کمال، انسان کے لئے متصور نہیں ہے اور انسان کی ترقی کا وہ آخری زینہ ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے یہ تلاش وکوشش جاری ہے قرآن مجید نے اس نقطۂ عروج کو فوز (کامیابی ) ،فلاح (نجات ) اور سعادت (خوشبختی )جیسے ناموں سے یاد کیا ہے اور فرماتا ہے :
( وَ مَن یُطِعِ اللّٰہَ و رَسُولَہُ فَقَد فَازَ فَوزاً عَظِیماً )(١)
اور جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ تو اپنی مراد کوبہت
اچھی طرح پہونچ گیا ۔
(أُولٰئِکَ عَلَیٰ ھُدًی مِن رَّبِّھِم وِ أُولٰئِکَ ھُمُ المُفلِحُونَ)(٢)
یہی لوگ اپنے پروردگار کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ اپنی دلی مرادیں پائیں گے
( وَ أَمَّا الَّذِینَ سُعِدُوا فَفِی الجَنَّةِ خَالِدِینَ فِیھَا )
اور جو لوگ نیک بخت ہیں وہ تو بہشت میں ہوں گے ۔(٣)
قرآن مذکورہ مفاہیم کے نقطۂ مقابل کو ناکامی :(ِنَّہُ لا یُفلِحُ الظَّالِمُونَ)(٤)(اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ ظالم لوگ کامیاب نہیں ہوںگے )ناامیدی اور محرومی :(وَ قَد خَابَ مَن دَسَّیٰھَا)(اور یقینا جس نے اسے بنا دیا وہ نامراد رہا ) شقاوت اور بد بختی سے تعبیر کرتا ہے:(فَأَمَّا الَّذِینَ شَقُوا فَفِی النَّارِ لَھُم فِیھَا زَفِیر وَشَھِیق)(٥)(تو جو لوگ بدبخت ہیں وہ دوزخ میں ہوں گے اور اسی میں ان کی ہائے وائے اور چیخ پکار ہوگی)
گذشتہ مطالب کی روشنی میں معلوم کیا جاسکتا ہے کہ انسان کی توانائیوں میں سے ہر ایک کو کمال اور فعلیت کے مرحلہ میں پہونچنے کے لئے فقط اتنی ہی مقدار معتبر ہے جس میں ایجاد کمال نیز دائمی اورلازوال کمال کے تحقق کے اسباب فراہم ہوسکیں اور کمال نہائی کے حصول کا مقدمہ بن سکیں . دوسرے لفظوں میں ان کا رشد وکمال ایک مقدمہ ہے اور اگرمقدماتی پہلو کا فقدان ہوجائے توانسان اپنی مطلوبیت اور اعتبار کو کھودیتا ہے ۔
..............
(١)سورہ احزاب ٧١۔
(٢)سورہ بقرہ ٥۔
(٣)سورہ ھود ١٠٨۔
(٤)سورہ قصص ٣٧۔
(٥)سورہ ھود ١٠٦۔

قرب الٰہی
اہم گفتگو یہ ہے کہ اس کمال نہائی کا مقام ومصداق کیا ہے ؟ قرآن کریم اس کمال نہائی کے مصداق کو قرب الہی بیان کرتا ہے جس کے حصول کے لئے جسمانی اور بعض روحی کمالات صرف ایک مقدمہ ہیں اور انسان کی انسانیت اسی کے حصول پرمبنی ہے اور سب سے اعلی ،خالص ، وسیع اور پایدار لذت ،مقام قرب کے پانے سے حاصل ہوتی ہے .قرب خدا کا عروج وہ مقام ہے جس سے انسان کی خدا کی طرف رسائی ہوتی ہے اور رحمت الہیسے فیضیاب ہوتاہے . اس کی آنکھ اور زبان خدا کے حکم سے خدائی افعال انجام دیتی ہیں۔ منجملہ آیات میں سے جو مذکورہ حقیقت پر دلالت کرتی ہیں درجہ ذیل ہیں :
١۔ِنَّ المُتَّقِینَ فِی جَنّاتٍ وَ نَھَرٍ فِی مَقعَدِ صِدقٍ عِندَ مَلِیکٍ مُقتَدرٍ
بے شک پرہیزگار لوگ باغوں اور نہروں میں پسندیدہ مقام میں ہر طرح کی قدرت
رکھنے والے بادشاہوں میں ہوں گے ۔(١)
٢.(فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا بِاللّٰہِ وَ اعتَصَمُوا بِہِ فَسَیُدخِلُھُم فِی رَحمَةٍ مِّنہُ
وَ فَضلٍ وَ یَھدِیھِم ِلَیہِ صِرَاطاً مُّستَقِیماً)(٢)
پس جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور اسی سے متمسک رہے تو خدا بھی انھیں عنقریب
ہی اپنی رحمت و فضل کے بیخزاں باغ میں پہونچا دیگا اور انھیں اپنی حضوری کا سیدھا
راستہ دکھا دے گا ۔
اس حقیقت کو بیان کرنے والی روایات میں سے منجملہ حدیث قدسی ہے :
''ما تقرب لیّ عبد بشیٍٔ أحبّ لیّ ممّا فترضت علیہ و أنّہ لیتقرب
..............
(١) سورہ قمر ٥٤،٥٥۔
(٢) سورہ نسائ ١٧٦۔
لی بالنافلة حتیٰ أحبہ فذا أحببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ
الذی یبصر بہ و لسانہ الذی ینطق بہ و یدہ التی یبطش بھا''(١)
کوئی بندہ واجبات سے زیادہ محبوب شیٔ کے ذریعے مجھ سے نزدیک نہیں ہوتا ہے .
بندہ ہمیشہ (درجہ بہ درجہ ) مستحب کاموں سے (واجبات کے علاوہ) مجھ سے نزدیک
ہوتا ہے حتی کہ میں اس کو دوست رکھتا ہوں اور جب وہ مرا محبوب ہوجاتا ہے تواسکا کان
ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور
اس کی زبان ہوجاتا ہوں جس سے وہ گفتگو کرتا ہے اور اسکا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے
وہ اپنے امور کا دفاع کرتا ہے ۔

قربت کی حقیقت
اگر چہ مقام تقرب کی صحیح اور حقیقی تصویر اور اس کی حقیقت کا دریافت کرنا اس مرحلہ تک پہونچنے کے بغیر میسر نہیں ہے لیکن غلط مفاہیم کی نفی سے اس کو چاہے ناقص ہی سہی حاصل کیا جاسکتا ہے .
کسی موجود سے نزدیک ہونا کبھی مکان کے اعتبار سے اور کبھی زمان کے لحاظ سے ہوتاہے . یہ بات واضح ہے کہ قرب الٰہی اس مقولہ سے نہیں ہے اس لئے کہ زمان ومکان مادی مخلوقات سے مخصوص ہیںاور خداوند عالم زمان و مکان سے بالاتر ہے .اسی طرح صرف اعتباری اور فرضی تقرب بھی مد نظر نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس طرح کا قرب بھی اسی جہاں سے مخصوص ہے اور اس کی حقیقت صرف اعتبار کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اگر چہ اس پر ظاہر ی آثار مترتب ہوتے ہیں . کبھی قرب سے مراد دنیاوی موجودات کی وابستگی ہے منجملہ انسان خدا وند عالم سے وابستہ ہے اور اسکی بارگاہ میں تمام موجودات ہمیشہ حاضر ہیں جیسا کہ روایات و آیات میں مذکور ہے :
..............
(١)کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ اصول کافی ؛ ج٢ ص ٣٥٢۔
(وَ نَحنُ أَقرَبُ ِلَیہِ مِن حَبلِ الوَرِیدِ)(١)
اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔
قرب کا یہ معنی بھی انسان کے لئے کمال نہائی کے عنوان سے ملحوظ نظر نہیں ہے اس لئے کہ یہ قرب تو تمام انسانون کے لئے ہے .
دوست ،نزدیک تراز من بہ من است
وین عجیب ترکہ من از وی دورم
''دوست مرے نفس سے زیادہ مجھ سے نزدیک ہے لیکن اس سے زیادہ تعجب کی یہ بات ہے کہ میں اس سے دورہوں''
بلکہ مراد یہ ہے کہ انسان اس شائستہ عمل کے ذریعہ جو اس کے تقویٰ اور ایمان کا نتیجہ ہے اپنے وجود کوایک بلند ی پر پاتاہے اور اسکا حقیقی وجود استحکام کے بعد اور بھی بلند ہوجاتاہے. اس طرح کہ اپنے آپ کو علم حضوری کے ذریعہ درک کرتا ہے اور اپنے نفسانی مشاہدے اور روحانی جلوے نیز خدا کے ساتھ حقیقی روابط اور خالص وابستگی کی بنا پر الہٰی جلوے کا اپنے علم حضوری کے ذریعہ ادراک کرتا ہے:
( وُجُوہ یَومَئِذٍ نَاضِرَة ٭ لَیٰ رَبِّھَا نَاظِرَة ) ۔ (٢)
اس روز بہت سے چہرے حشاش و بشاش اپنے پروردگار کو دیکھ رہے ہوں گے ۔

قرب الٰہی کے حصول کا راستہ
گذشتہ مباحث میں بیان کیا جا چکا ہے کہ انسانی تکامل ،کرامت اکتسابی اور کمال نہائی کا حصول اختیاری اعمال کے زیر اثر ہے.لیکن یہ بات واضح رہے کہ ہر اختیاری عمل ،ہرانداز اورہرطرح کے اصول کی بنیادپر تقرب کا باعث نہیںہے بلکہ جیسا کہ اشارہ ہواہے کہ اس سلسلہ میں وہ اعمال، کار ساز ہیں جو خدا،معاد اور نبوت پر ایمان رکھنے سے مربوط ہوں اور تقوی کے ساتھ انجام دیئے گئے
..............
(١)سورہ ق ١٦۔
(٢)سورہ قیامت ٢٢، ٢٣۔
ہوں۔ عمل کی حیثیت ایمان کی حمایت کے بغیر ایک بے روح جسم کی سی ہے اور جو اعمال تقویٰ کے ساتھ نہ ہوں بارگاہ رب العزت میں قابل قبول نہیں ہیں:(ِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ المُتَّقِینَ)(١)(خدا تو بس پرہیزگاروں سے قبول کرتا ہے )لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ خدا وند عالم سے تقرب کے عام اسباب وعلل ،ایمان اور عمل صالح ہیں.اس لئے کہ جو عمل تقوی ز کے ہمراہ نہ ہو خدا وند عالم کے سامنے پیش ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اسے عمل صالح بھی نہیں کہا جاسکتاہے۔
گذشتہ مطالب کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ جوچیز حقیقت عمل کو ترتیب دیتی ہے وہ در اصل عبادی عمل ہے یعنی فقط خدا کے لئے انجام دینااور ہر عمل کا خدا کے لئے انجام دینا یہ اس کی نیت سے وابستہ ہے ''نّما الأعمال بالنیات''(٢)آگاہ ہو جاؤ کہ اعمال کی قیمت اس کی نیت سے وابستہ ہے اور نیت وہ تنہا عمل ہے جو ذاتاً عبادت ہے لیکن تمام اعمال کا خالصةً لوجہ اللہ ہونا ، نیت کے خالصةً لوجہ اللہ ہونے کے اوپر ہے ، یہی وجہ ہے تنہا وہ عمل جو ذاتاً عبادت ہوسکتا ہے وہ نیت ہے اور تمام اعمال، نیت کے دامن میں عبادت بنتے ہیں اسی بنا پرنیت کے پاک ہوئے بغیر کوئی عمل تقرب کا وسیلہ نہیں ہوسکتا ہے. یہی وجہ ہے کہ تمام با اختیار مخلوقات کی خلقت کا ہدف عبادت بنایا گیا ہے: (وَ مَا خَلَقتُ الجِنَّ وَ النسَ ِلا لِیَعبُدُونَ)(٣)(اور میں نے جنوں اور آدمیوں کو اسی غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔)
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن کی زبان میں مقام قرب الٰہی کو حاصل کرنا ہر کس و ناکس ، ہر قوم و ملت کے لئے ممکن نہیں ہے اور صرف اختیاری ہی عمل سے (اعضاو جوارح کے علاوہ )اس تک رسائی ممکن ہے ۔
مذکورہ تقریب کے عام عوامل کے مقابلہ میں خداوندعالم سے دوری اور بد بختی سے مراد ؛
..............
(١)سورہ مائدہ ٢٧۔
(٢)مجلسی، محمد باقر ؛ بحار الانوار؛ ج٧٦،ص٢١٢۔
(٣)ذاریات ٥٦۔
خواہش دنیا ، شیطان کی پیروی اور خواہش نفس(ہوائے نفس) کے سامنے سر تسلیم خم کردینا ہے.حضرت موسی کے دوران بعثت ،یہودی عالم'' بلعم باعور'' کے بارے میں جو فرعون کا ماننے والا تھا قرآن مجید فرماتا ہے:
(وَاتلُ عَلَیھِم نَبَأَ الَّذِی آتَینَاہُ آیَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنھَا فأَتبَعَہُ الشَّیطَانُ فَکَانَ
مِنَ الغَاوِینَ وَ لَوشِئنَا لَرَفَعنَاہُ بِھَا وَ لٰکِنَّہُ أَخلَدَ ِلَیٰ الأرضِ وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ)
اور تم ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنادو جسے ہم نے اپنی آیتیں عطا کی تھیں پھر
وہ ان سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا پکڑااور آخر کار وہ گمراہ ہوگیا اور اگر
ہم چاہتے تو ہم اسے انہی آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے مگر وہ تو خود ہی پستی کی
طرف جھک پڑا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن بیٹھا ۔(١)

تقرب خدا کے درجات
قرب الہی جو انسان کا کمال نہائی اور مقصود ہے خود اپنے اندر درجات رکھتا ہے حتی انسان کا سب سے چھوٹا اختیاری عمل اگر ضروری شرائط رکھتا ہوتو انسان کو ایک حد تک خداسے قریب کردیتا ہے اس لئے انسان اپنے اعمال کی کیفیت ومقدار کے اعتبار سے خداوند قدوس کی بارگاہ میں درجہ یا درجات رکھتا ہے. اور ہر فرد یا گروہ کسی درجہ یا مرتبہ میں ہوتا ہے:(ھُم دَرَجَات عِندَ اللّٰہِ) (٢) (وہ لوگ (صالح افراد)خدا کی بارگاہ میں(صاحب)درجات ہیں۔)اسی طرح پستی اور انحطاط نیز خداوند عالم سے دوری بھی درجات کا باعث ہے اورایک چھوٹا عمل بھی اپنی مقدار کے مطابق انسان کو پستی میں گراسکتا ہے . اسی بنا پر انسان کی زندگی میںٹھہراو ٔاور توقف کا کوئی مفہوم نہیں ہے .ہر عمل انسان کویا خدا سے قریب کرتا ہے یا دور کرتاہے، ٹھہراؤ اس وقت متصور ہے جب انسان مکلف نہ ہو. اور خدا کے ارادہ کے مطابق عمل انجام دینے کے لئے جب تک انسان اختیاری تلاش و جستجو میں ہے مکلف
..............
(١) سورہ اعراف ١٧٥،١٧٦۔
(٢)سورہ آل عمران ١٦٣۔
ہے چاہے اپنی تکلیف کے مطابق عمل کرے یا نہ کرے ، تکامل یا تنزل سے ہمکنار ہوگا۔
(وَ لِکُلِّ دَرَجَات مِمَّا عَمِلُوا وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعمَلُونَ)
اور جس نے جیسا کیا ہے اسی کے موافق (نیکوکاروں اور صالحین کے گروہ میں
سے) ہر ایک کے درجات ہیں اور جو کچھ وہ لوگ کرتے ہیں تمہارا پروردگار اس سے
بے خبر نہیں ہے ۔(١)
انسان کے اختیاری تکامل وتنزل کاایک وسیع میدان ہے؛ایک طرف تو فرشتوں سے بالا تر وہ مقام جسے قرب الہٰی اورجوار رحمت حق سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دوسری طرف وہ مقام جو حیوانات و جمادات سے پست ہے اور ان دونوں کے درمیان دوزخ کے بہت سے طبقات اور بہشت کے بہت سے درجات ہیںکہ جن میں انسان اپنی بلندی و پستی کے مطابق ان درجات وطبقات میں جائے گا۔

ایمان ومقام قرب کا رابطہ
ایمان وہ تنہا شیٔ ہے جو خدا کی طرف صعود کرتی ہے اور اچھا ونیک عمل ایمان کو بلندی عطا کرتا ہے:
(ِلَیہِ یَصعَدُ الکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ العَمَلُ الصَّالِحُ یَرفَعُہُ)(٢)
اس کی بارگاہ تک اچھی باتیں پہونچتی ہیں اور اچھے کام کو وہ خوب بلند فرماتا ہے ۔
انسان مومن بھی اپنے ایمان ہی کے مطابق خدا وند عالم سے قریب ہے.اس لئے جس قدر انسان کا ایمان کامل ہوگااتناہی اس کا تقرب زیادہ ہوگا.(٣)اور کامل ایمان والے کی حقیقی توحیدیہ ہے کہ قرب الہٰی کے سب سے آخری مرتبہ پر فائز ہواور اس سے نیچا مرتبہ شرک و نفاق سے ملاہوا ہے جو تقرب
..............
(١)سورہ انعام١٣٢۔
(٢)سورہ فاطر١٠۔
(٣)مزید وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو: محمد تقی مصباح ؛ خود شناسی برای خودسازی۔
کے مراتب میں شرک اورنفاق خفی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کے نیچے کا درجہ جو مقام قرب کے ماسواء ہے شرک اور نفاق جلی کا ہے اور کہا جا چکا ہے کہ یہ شرک ونفاق صاحب عمل وفعل کی نیت سے مربوط ہیں پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں :
''نیّة الشرک فی أمتی أخفی من دبیب النملة السودائِ علیٰ
صخرة الصّاً فی اللیلة الظلمائ''(١)
میری امت کے درمیان نیت ِشرک، تاریک شب میں سیاہ سنگ پر سیاہ
چیونٹیوں کی حرکت سے زیادہ مخفی ہے ۔(١)
..............
(١)طوسی ، خواجہ نصیر الدین ؛ اوصاف الاشراف ۔

خلاصہ فصل
١۔ انسان کی تمام جستجو وتلاش کمالات کو حاصل کرنے اور سعادت کو پانے کے لئے ہے۔
٢۔ وہ مادی مکاتب جو معنوی اور غیر فطری امور کے منکرہیںدنیاوی فکر رکھتے ہیں نیز کمال وسعادت اور اس کے راہ حصول کے معانی ومفاہیم کو مادی امور میں منحصر جانتے ہیں.
٣۔ہرموجودکا کمال منجملہ انسان، اس کے اندر موجودہ صلاحیتوں کا فعلیت پانا نیز اس کا ظاہر وآشکار ہوناہے .
٤۔ قرآن مجید انسان کے کمال نہائی کو فوز(کامیابی)فلاح(نجات)اور سعادت (خوشبختی ) جیسے کلمات سے تعبیرکرتا ہے.اور کمال نہائی کے مصداق کو قرب الٰہی بتاتاہے .
٥۔ اچھے لوگوں کے لئے مقام قرب الہی ایمان کے ساتھ ساتھتقویٰ اور شائستہ اختیاری عمل ہی کے ذریعہ ممکن ہے.
٦۔ قرب الہی جس انسان کا کمال نہائی اور مقصود ہے خود اپنے اندر درجات کا حامل ہے حتی کہ انسان کا سب سے چھوٹا اختیاری عمل اگر ضروری شرائط کے ہمراہ ہو تو انسان کو ایک حد تک خدا سے قریب کردیتا ہے.اس لئے اپنے اعمال کی کیفیت ومقدار کی بنیاد پر لوگوں کے مختلف درجات ہوتے ہیں .جس قدر انسان کا ایمان کامل ہوگا اسی اعتبار سے اس کا تقرب الہی زیادہ ہوگا اور ایمان کامل اورتوحید خالص، قرب الہی کے آخری مرتبہ سے مربوط ہے۔

تمرین
١۔صاحب کمال ہونے اور کمال سے لذت اندوز ہونے کے درمیان کیا فرق ہے ؟
٢۔ انسان کی انسانیت اور اس کی حیوانیت کے درمیان کون سا رابطہ برقرار ہے؟
٣۔کمال نہائی کے حاصل ہونے کا راستہ کیا ہے؟
٤۔آیات وروایات کی زبان میں اعمال نیک کو عمل صالح کیوں کہا گیا ہے؟
٥۔ اسلام کی نظر میں انسان کامل کی خصوصیات کیا ہیں؟
٦۔اگرہرعمل کااعتبار نیت سے وابستہ ہے تو اس شخص کے اعمال جو دینی واجبات کو خلوص نیت کے ساتھ لیکن غلط انجام دیتا ہے کیوں قبول نہیں کیا جاتا ہے؟

مزید مطالعہ کے لئے
۔ آذر بائجانی ، مسعود (١٣٧٥) ''انسان کامل از دیدگاہ اسلام و روان شناسی '' مجلۂ حوزہ و دانشگاہ ، سال نہم ، شمارہ پیاپی۔
۔بدوی ، عبد الرحمٰن (١٣٧٦) الانسان الکامل فی الاسلام ؛ کویت : وکالة المطبوعات ۔
۔جبلی ، عبد الکریم ؛ ( ١٣٢٨)الانسان الکامل فی معرفة الاوایل و الاواخر؛ قاہرہ : المطبعة الازہریة المصریة ۔
۔جوادی آملی ، عبد اللہ (١٣٧٢) تفسیر موضوعی قرآن ، ج٦، تہران : رجائ۔
۔حسن زادہ آملی ، حسن (١٣٧٢) انسان کامل از دیدگاہ نہج البلاغہ ؛ قم : قیام ۔
۔زیادہ ، معن ، (١٣٨٦)الموسوعة الفلسفیة العربیة ؛ بیروت : معھد الانماء العربی ۔
۔ سادات ، محمد علی ، (١٣٦٤)اخلاق اسلامی ، تہران : سمت۔
۔سبحانی ، جعفر (١٣٧١) سیمای انسان کامل در قرآن ؛ قم : دفتر تبلیغات اسلامی ۔
۔شولٹس ، ڈوال ( بی تا) روان شناسی کمال ؛ ترجمہ ، گیتی خوشدل ، تہران : نشر نو ۔
۔محمد تقی مصباح ( بی تا) خود شناسی برای خود سازی ؛ قم : موسسہ در راہ حق ۔
۔ مطہری ، مرتضی ( ١٣٧١) انسان کامل ؛ تہران : صدرا۔
۔نصری ، عبد اللہ؛ سیمای انسان کامل از دیدگاہ مکاتب ؛ تہران : انتشارات دانشگاہ علامہ طباطبائی۔

ملحقات
ناٹالی ٹربوویک، انسان کے نہائی ہدف اور اس کے راہ حصول کے سلسلہ میں علماء علوم تجربی کے نظریات کو جو کہ صرف دنیاوی نقطہ نگاہ سے ہیں اس طرح بیان کرتا ہے۔

مغربی انسان شناسی کے اعتبار سے کمال نہائی
انسان کو بہتر مستقبل بنانے کیلئے کیا کرنا چاہیئے ؟انسان کی ترقی کے آخری اہداف کیا ہیں ؟ فرایڈ کے ماننے والے کہتے ہیں : انسان کا مستقبل تاریک ہے ، انسان کی خود پسند فطرت اس کے مشکلات کی جڑ ہے اور اس فطرت کی موجودہ جڑ وں کو پہچاننا اور اس کی اصلاح کرنا راہ تکامل (١)کے بغیر دشوار نظر آتا ہے، فرایڈ کا دعویٰ ہے کہ زندگی کے نیک تقاضوں کو پورا کرنا ( جیسے جنسی مسائل) اور برے تقاضوں کو کمزور بنانا ( جیسے لڑائی جھگڑے وغیرہ ) شاید انسان کی مدد کرسکتا ہے جب کہ فرایڈ خود ان اصول پر عمل پیرا نہیں تھا ۔
ڈاکٹر فرایڈ کے نئے ماننے والے (مارکس، فروم ):انسان کی خطائیں معاشرے کے منفی آثار کا سر چشمہ ہیں لہٰذا اگر سماج اور معاشرہ کو اس طرح بدل دیا جائے کہ انسان کا قوی پہلو مضبوط اور ضعیف پہلو نابود ہوجائے تو انسان کی قسمت بہتر ہو سکتی ہے ، انسان کی پیشرفت کا آخری مقصد ایسے معاشرے کی ایجاد ہے جو تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ نیک کاموں کو انجام دینے کے لئے اپنی قابلیت کا مظاہرہ کریں ۔
مارکسیزم مذہب کے پیروی کرنے والے ( مارکس ، فروم ) : جن کا مقصدایسے اجتماعی شوسیالیزم کا وجود میں لانا تھا جس میں معاشرے کے تمام افراد ، ایجادات اور محصولات میںشریک
..............
(1) Evolution.
ہوں، جب کہ انسان کی مشکلوں کے لئے راہ حل اور آخری ہدف اس کی ترقی ہے، معاشرے کے افراد اس وقت اپنے آپ کو سب سے زیادہ خوشنود پائیں گے جب سب کے سب اجتماعی طور پر اہداف کو پانے کے لئے ایک دوسرے کے مددگار ہوں ۔
فعالیت اور کردار کو محور قرار دینے والے افراد مثلا ا سکینر کا کہنا ہے: انسان کی ترقی کا آخری ہدف ، نوع بشر کی بقاء ہے اور جو چیز بھی اس ہدف میں مددگار ہوتی ہے وہ مطلوب و بہتر ہے ۔ اس بقا کے لئے ماحول بنانا ، بنیادی اصول میںسے ہے ، اوروہ ماحول جو تقاضے کے تحت بنائے جاتے ہیں وہ معاشرے کو مضبوط بنا سکتے ہیں نیز اس میں بقاکا احتمال زیادہ رہتا ہے (جیسے زندگی کی بہتری ، صلح ، معاشرہ پر کنٹرول وغیرہ )
نظریہ تجربیات کے حامی ( ہابز) کا کہنا ہے : انسان کے رفتار و کردار کو کنٹرول اور پیشن گوئی کے لئے تجربیات سے استفادہ کرنا اس کی ترقی کی راہ میں بہترین معاون ہے ۔
سود خوری کرنے والے ( بنٹام ، میل ) کا کہنا ہے : معاشرے کوچاہیئے کہ افراد کے اعمال و رفتار کو کنٹرول کرے اس طرح کہ سب سے زیادہ فائدہ عوام کی کثیر تعداد کو ملے ۔
انسان محوری کا عقیدہ رکھنے والے ( مازلو، روجر ) :مازلو کے مطابق ہر شخص میں ایک فطری خواہش ہے جو اس کو کامیابی و کامرانی کی طرف رہنمائی کرتی ہے لیکن یہ اندرونی قوت اتنی نازک و لطیف ہے جو متعارض ماحول کے دباؤسے بڑی سادگی سے متروک یا اس سے پہلو تہی کرلیتی ہے ۔ اسی بنا پر انسان کی زندگی کو بہتر بنانے کی کلید، معاشرے کو پہچاننے اور پوشیدہ قوتوں کی ہلکی جھلک، انسان کی تشویق میں مضمر ہے ۔
روجر کا کہنا ہے :جملہ افراد دوسروں کی بے قید و شرط تائید کے محتاج ہیں تاکہ خود کو ایک فرد کے عنوان سے قبول کریں اور اس کے بعد اپنی انتہائی صلاحیت کے مطابق ترقی و پیش رفت کریں ، اسی لئے تائید کی میزان ِ افزائش انسان کی وضعیت کے بہتر بنانے کی کلید ہے اور ہر انسان کی اپنی شخصیت سازی ہی اس کی ترقی کا ہدف ہے ۔
انسان گرائی کا عقیدہ رکھنے والے ( می، فرینکل )کے مطابق :
می:کا کہنا ہے کہ دور حاضر کے انسان کو جاننا چاہیئے کہ جب تک وہ صاحب ارادہ ہے اپنے اعمال کے لئے مواقع کی شناخت کرناچاہیئے اوراپنے حسِ ارادہ کو حاصل کرکے اپنی وضعیت بہتر بنانی چاہیئے ۔
فرینکل کہتا ہے کہ : ہروہ انسان جو کسی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے یا کسی کے واسطے زندگی گذارنا چاہتا ہے ،اس کو چاہیئے کہ وہ اس کی حیات کو اہمیت دے ۔ یہ معنی اور نظریہ ہر ارادہ کرنے والے کو ایک مبنیٰ فراہم کراتا ہے اور انسان کو مایوسی اور تنہائی سے نجات دلاتا ہے ۔
خدا کا یقین رکھنے والے( ببر ، ٹلیچ ، فورنیر) :کا کہنا ہے کہ ہمارا خدا اور اس کے بندے سے دوگانہ رابطہ ہمارے آزادانہ افعال کے لئے ہدایت کا سر چشمہ ہے اور انسانی ترقی کا پیش خیمہ ہے ۔