انسان شناسی
 
پانچویں فصل :

انسان کی فطرت

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات:

١. انسانی مشترکہ طبیعت سے مراد کیا ہے وضاحت کریں ؟
٢. دینی اعتبار سے انسان کے مشترکہ عناصر کا بنیادی نقطہ بیان کریں ؟
٣. انسانی مشترکہ طبیعت کے وجود پر دلیلیں پیشکریں ؟
٤.انسانی تین مشترکہ طبیعت کی خصوصیات کے نام بتائیں اور ہر ایک کے بارے میں مختصر
وضاحت پیش کریں ؟
٥. ان آیات و روایات کے مضامین جو انسان کی مشترکہ طبیعت کے وجود کی بہت ہی واضح
طور پرتائید کرتی ہیں بیان کیجیئے ؟
٦. توحید کے فطری ہونے کے باب میں مذکورہ تین احتمال بیان کریں ؟
٧. سورۂ روم کی آیت نمبر ٣٠ کو ذکر کریں اور اس آیت کی روشنی میں فطرت کے زوال نا پذیر
ہونے کی وضاحت کریں ؟

اپنے اور دوسروں کے بارے میں تھوڑی سی توجہ کرنے سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ ہمارے اور ہم جیسے دوسرے افراد کے عادات و اطوار نیزظاہری شکل و شمائل کے درمیان اختلاف کے باوجود ایک دوسرے میںجسم و روح کے لحاظ سے بہت زیادہ اشتراک ہے ،اپنے اور دوسروں کے درمیان موجودہ مشترک چیزوں میں غور و فکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشترک علت کبھی تو ہمارے اور بعض لوگوں کے درمیان یا انسانوں کے مختلف گروہوں کے درمیان ہے مثال کے طور پر زبان ، رنگ ، قومیت ، آداب و رسوم ، افعال،قد کا زیادہ اور کم ہونے وغیرہ میں اشتراک ہے۔اور کبھی یہ امور سبھی افراد میں نظر آتے ہیں جیسے حواس پنجگانہ رکھنا ،قد کا سیدھا ہونا ، خدا کا محتاج ہونا ، جستجو کی حس ، حقیقت کی خواہش اور آزاد خیال ہونا وغیرہ ۔
مشترک کی پہلی قسم، بعض افراد انسان میںنہ ہونے کی وجہ سے انسان کی فطری اور ذاتی چیزوں میں شمار نہیں ہوسکتی ہے لیکن مشترک کی دوسری قسم میں غور و فکر سے مندرجہ ذیل مہم اور بنیادی سوالات ظاہر ہوتے ہیں ۔
١. گذشتہ فصل کے مباحث کی روشنی میں ان مشترکہ امور کا انسان کی واقعی حقیقت اور ذات سے کیا رابطہ ہے ؟ کیا یہ سبھی مشترکہ چیزیں انسان کی ذات سے وجود میں آتی ہیں ؟
٢. ذاتی مشترک چیزوں کی خصوصیات کیا ہیں اور غیر ذاتی چیزوں سے ذاتی مشترک چیزوں ( انسان کی مشترکہ فطرت )کی شناخت کا ذریعہ کیا ہے ؟
٣.انسان کے یہ مشترکہ اسباب اس کی زندگی میں کیا کردار ادا کرتے ہیں ؟
٤.ان ذاتی مشترک چیزوں کی قسمیں یا مصادیق و موارد کیا ہیں ؟
٥.انسان کی شخصیت اور بناوٹ اور الٰہی فطرت سے ذاتی مشترکہ چیزیں کیا رابطہ رکھتی ہیں ؟
٦.کیا انسان ان ذاتی مشترکہ چیزوں کی بنا پر خیر خواہ اور نیک مخلوق ہے یا پست و ذلیل مخلوق ہے یا ان دونوں کا مجموعہ ہے ؟
ان سوالات کے جوابات کا معلوم کرنا وہ ہدف ہے جس کے مطابق یہ فصل (انسان کی فطرت کے عنوان سے )مرتب ہوئی ہے ۔(١)

انسانی مشترکہ طبیعت
انسان کی فطرت کے بارے میں گفتگوکو انسان شناسی کے مہم ترین مباحث میں سے ایک سمجھا جاسکتا ہے ، جو جاری چند صدیوں میں بہت سے مفکرین کے ذہنوں کو اپنی طرف معطوف کئے ہوئے ہے ۔
یہ مسئلہ متعدد و مختلف تعریفوں کو پیش کرنے کے باوجود ایک معتبر ومتیقن طریقۂ معرفت کے نہ ہونے اور ذات انسان کے پر اسرار و مخفی ہونے کی وجہ سے بہت سے دانشمندوں کی حیرت و پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے ان میں سے بعض جیسے ''پاسکال '' کو مجبور ہونا پڑا کہ انسان کی فطرت اور ذات کی معرفت کو غیر ممکن سمجھے(٢) اور بعض لوگوں کی اس گمان کی طرف رہنمائی کی ہے کہ انسانوں
..............
(١)اس بحث کو حجة الاسلام احمد واعظی زید عزہ نے آمادہ کیا ہے جو تھوڑی اصلاح اور اضافہ کے ساتھ معزز قارئین کی خدمت میں پیش ہو رہی ہے ۔
(٢)پاسکال منجملہ ان لوگوں میں سے ہے جو معتقد تھا کہ انسان کی معرفت کی عام راہیں کسی وقت بھی انسان کے سلسلہ میں صحیح معلومات فراہم نہیں کرسکتی ہیں ۔ اور دین جو انسان کی معرفت کا واحد ذریعہ ہے وہ بھی انسان کو مزید پر اسرار بنا دیتا ہے اور اس کو خدا وند عالم کی طرح پوشیدہ اور مرموز کردیتا ہے ۔ ملاحظہ ہو: کیسیرر ، ارنسٹ ؛ فلسفہ و فرہنگ ؛ ص ٣٤و ٣٦۔
کے درمیان مشترکہ فطرت و ذات کے وجود کے منکر ہوں (١)مثال کے طور پر ''جوزارٹگا''(٢)اس سلسلہ میں کہتا ہے کہ'' فطری علوم، حیات انسانی کی حیرت انگیز حقیقت کے مقابلہ میں متحیر ہیں ۔انسان سے پردۂ اسرار کے نہ ہٹنے کی وجہ شاید یہ ہے کہ انسان کوئی شیٔ نہیں ہے اور انسان کی فطرت کے بارے میں گفتگو کرنا کذب محض ہے ۔ فطرت و طینت نامی کوئی بھی شیٔ انسان میں نہیں ہے ''۔ (٣)
بہتر یہ ہوگا کہ انسان کی مشترکہ فطرت کی نفی یا اثبات کی دلیلوں کو پیش کرنے سے پہلے مشترکہ فطرت و طینت کے مقصود کو واضح کیا جائے ۔

مشترکہ فطرت سے مراد (٤)
حیوان کے مختلف اقسام میں مشترکہ جہتیں اور خصوصیات ہوتی ہیں ۔ فطری چیزوں کا وجود
..............
(١)ڈور کیم کی طرح جامعہ کو اصل سمجھنے میں افراط کرنے والے اور ژان پل سارٹر کی طرح عقیدۂ وجود رکھنے والے اور فرڈریچ ہگل (Georg Wilhelm Friedrich Hegel)کی طرح عقیدہ ٔ تاریخ رکھنے والے نیزریچارڈ پالمر(Richard Palmer) منجملہ ان لوگوں میں سے ہیں جومورد نظر معانی میں انسان کی مشترکہ فطرت کے منکر ہیں .ملاحظہ ہو: اسٹیونسن ، لسلی ؛ ہفت نظریہ در باب انسان ؛ ص ١٣٦۔ ١٣٨۔ محمد تقی مصباح ؛ جامعہ و تاریخ از دیدگاہ قرآن ؛ سازمان تبلیغیات اسلامی ، تہران ؛ ١٣٦٨، ص ٤٧و ٤٨۔ (٣)کیسیرر ، ارنسٹ ،گذشتہ حوالہ؛ ص٢٤٢۔
Cjose Ortega Y Gasset .(٢)
(٤)کلمہ'' فطرت انسان''کے مختلف و متنوع استعمالات ہیں : مالینوفسکی کی طرح مفکرین اس کو مادی ضرورتوںمیں منحصر کردیتے ہیں . کولی کی طرح بعض دوسرے مفکرین'' اجتماعی فطرت''خصوصاً اجتماعی زندگی میں جو احساسات اور انگیزے ابتدائی معاشرے میں ہوتے ہیں بیان کرتے ہوئے متعدد فطرت و سماج پر یقین رکھتے ہیں، بعض نے اجتماعی فطرت کوابتدائی گروہ( جیسے خاندان) اور سماجی طبیعت و اجتماعی کمیٹیوں سے وجود میں آنے کے بارے میں گفتگو کی ہے ،وہ چیز جو ان نظریات میں معمولاً مورد غفلت واقع ہوتی ہے وہ انسان کی مخصوص اور بلند و بالا فطرت ہے جو انسان و حیوان کی مشترکہ اور اس کی مادی و دنیاوی ضرورتوں سے بلند و بالا ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جو اس بحث میں شدید مورد توجہ واقع ہوئی ہے ۔
جیسے نفس کو بچانا اور حفاظت کرنا اور تولید نسل کرنا وغیرہ ان کی مشترکہ فطرت پر دلالت کرتی ہے ۔ اس لئے کہ یہ فطری چیزیں سبھی حیوانوں کے درمیان مشترک ہیں لیکن حیوان کی ہر فرد ان مشترکہ فطرت کے علاوہ اپنے مطابق صفات وکردار کی بھی مالک ہوتی ہے ،چونکہ حیوانوں کے اندر نفوذ کرکے ان کی ذاتیات کو کشف کرنا انسان کے لئے خیال و گمان کی حد سے زیادہ میسر نہیں ہے، لہٰذا بیرونی افعال جیسے گھر بنانے کا طریقہ ، غذا حاصل کرنا ، نومولود کی حفاظت ، اجتماعی یا فردی زندگی گذارنے کی کیفیت اور اجتماعی زندگی میں تقسیم کار کی کیفیت کے عکس العمل کی بنیاد پر حیوان کی ایک فرد کو دوسری فرد سے جدا کیا جاسکتاہے ،مذکورہ خصوصیات کو حیوانوں کی فطرت و طینت کے فرق و تبدیلی کی وجہ سمجھنا چاہیئے ۔
انسان کا اپنی مخصوص فطرت و طینت والا ہونے سے مراد یہ بات ثابت کرنا نہیں ہے کہ انسان سبھی حیوانوں کی طرح ایک حیوان ہے اور حیوانوں کی ہی قسموں میں سے ہر ایک کی طرح یہ نوع بھی اپنی مخصوص امتیاز رکھتی ہے ،بلکہ مقصود اس نکتہ کا ثابت کرنا ہے کہ انسان حیوانی فطرت کے علاوہ بعض مشترکہ خصوصیات کا مالک ہے ۔حیوانی وکسبی چیزوں کے بجائے مشترکہ خصوصیات کامقام جستجو ،فہم خواہشات اور انسان کی توانائی ہے،اگر ہم یہ ثابت کرسکے کہ انسان ،مخصوص فہم و معرفت یا خواہشات و توانائی کا مالک ہے جس سے سبھی حیوانات محروم ہیں تو ایسی صورت میں انسان کی خصوصیت اور حیوانیت سے بالاتر مشترکہ فطرت ثابت ہوجائے گی ۔(١)
..............
(١)فصل اول میں ہم ذکر کرچکے ہیں کہ انسان اور اس کی خصوصیات کی معرفت کے لئے چار طریقوں ؛ عقل ، تجربہ ، شہود اور وحی سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ اور ان کے درمیان طریقہ وحی ،کو مذکورہ خصوصیات کی روشنی میں دوسری راہوں پر ترجیح حاصل ہے اگرچہ ہر راہ و روش اپنے مخصوص مقام میں نتیجہ بخش ہے، فطرت انسان کی شناخت میں بھی یہ مسئلہ منکرین کے لئے مورد توجہ رہا ہے اورانھوں نے اس سلسلہ میں بحث و تحقیق بھی کی ہے۔ جو کچھ پہلی فصل میں بیان ہوچکا ہے وہ ہمیں مزید اس مسئلہ میں گفتگو کرنے سے بے نیاز کردیتا ہے ۔ اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے :ملاحظہ ہو؛ ازرائل شفلر ؛ در باب استعدادھای آدمی ، گفتاری در فلسفہ تعلیم و تربیت ، دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، سمت ، ١٣٧٧ تہران : ص ١٦٣

مشترکہ فطرت کی خصوصیات
جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کی مشترکہ فطرت کی پہلی خصوصیت اس کا حیوانیت سے بالاتر ہونا ہے اس لئے کہتمایل و رجحانات تفکرو بینش حیوانوں میں پائی ہی نہیں جاتی ہے مثال کے طور پر نتیجہ اور استدلال کی قدرت اور جاہ طلبی یا کم از کم انسان کے اندر و سعت کے مطابق ہی یہ چیزیںپائی جاتی ہیں جو باقی حیوانوں میں نہیں ہوتی ہیں مثال کے طور پر گرچہ حیوانات بھی معلومات رکھتے ہیں لیکن حیوانوں کی معلومات انسانوں کی معلومات کے مقابلہ میں نہ ہی اس میں وسعت ہے اور نہ ہی ظرافت و تعمق جیسے صفات کی حامل ہے ،اسی وجہ سے انسان اور حیوان میں معلومات کے نتائج و آثار بھی قابل قیاس نہیں ہیں ، علم و ٹیکنالوجی انسان سے مخصوص ہے ۔مشترکہ فطرت کی دوسری خصوصیت ، حضوری فطرت ہے ۔ تعلیم و تعلّم اور دوسرے اجتماعی عوامل اور مشترکہ فطرت کے عناصر کی پیدائش میں ماحول کا کوئی کردار نہیں ہے اسی بنا پر یہ عناصر انسان کی تمام افراد میں ہر ماحول و اجتماع اور تعلیم تعلّم میں (چاہے شدت و ضعف اور درجات متفاوت ہوں )وجود رکھتا ہے ۔
انسان کی مشترکہ فطرت کے عناصر کی تیسری خصوصیت ،لازوال ہونا ہے ،انسان کی مشترکہ فطرت چونکہ اس کی انسانیت کی ابتدائی حقیقت و شخصیت کو تشکیل دیتی ہے لہٰذا انسان سے جدا اور الگ نہیں ہوسکتی اور فرض کے طور پر اگر ایسے افراد ہوں جو ان عناصر سے بے بہرہ ہوں یا بالکل کھو چکے ہوں ان کی حیثیت حیوان سے زیادہ نہیںہے اور ان کا شمارانسان کی صفوں میں نہیں ہوتابلکہ کبھی تو بعض عناصر کے نابود ہو جانے سے اس کی دائمی زندگی مورد سوال واقع ہوجاتی ہے مثال کے طور پر جو قدرت عقل و دانائی سے دور ہو یا عقل ہی نہ رکھتا ہو وہ گرچہ ظاہری شکل و صورت ، رفتار و کردار میں دوسرے انسانوں کی طرح ہے لیکن در حقیقت وہ حیوانیجہت سے اپنی زندگی گذار رہا ہے اور اس سے انسانی سعادت سلب ہوچکی ہے، مذکورہ خصوصیات میں سے ہر ایک انسان کی مشترکہ فطرت کے عناصر کی معرفت کے لئے معیار ہیں ۔ اور ان خصوصیات کا انسان کے ارادے اور تمایل ، فکری توانائی اور بینش کا ہونااس بات کی علامت ہے کہ یہ ارادے ،فکری توانائی اور بینش ،انسانی فطرت کا حصہ ہیں ۔

ماحول اور اجتماعی اسباب کا کردار
جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کی مشترکہ فطرت کے عناصر روز خلقت ہی سے تمام انسانوں کے اندرودیعت کر دیئے گئے ہیں جس کو ماحول اور اجتماعی عوامل نہ ہی مہیا کرسکتے ہیں اور نہ ہی نابود کرسکتے ہیں ۔ مذکورہ عوامل انسان کی فطرت میں قدرت و ضعف یا رہنمائی کا کردار ادا کرتے ہیں مثال کے طور پر حقیقت کی طلب اورمقام ومنزلت کی خواہش فطری طور پر تمام انسانوں میں موجود ہے البتہ بعض افراد میں تعلیم و تعلم اور ماحول و اجتماعی اسباب کے زیر اثر پستی پائی جاسکتی ہے یا بعض افراد میں قوت و شدت پائی جاسکتی ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دونوں فطری خواہش کسی خاص اہداف کے تحت مورد استفادہ واقع ہوں جو تعلیم و تربیت اور فردی و اجتماعی ماحول کی وجہ سے وجود میں آئے ہوں۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ مشترکہ فطرت کے ذاتی اور حقیقی ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے سبھی عناصر فعلیت اور تکامل سے برخوردار ہیں بلکہ انسانوں کی مشترکہ فطرت کو ایسی قابلیت اور توانائی پر مشتمل سمجھنا چاہیئے جو وقت کے ساتھ ساتھ اور بیرونی شرائط کے فراہم ہوتے ہی استعمال اور انجام پاتے ہیں، یہ نکتہ ایک دوسرے زاویہ سے بعض مشترکہ فطری عناصر پر ماحول اور اجتماعی توانائی کے اسباب کے تاثرات کو بیان و واضح کرتا ہے ۔

انسانی مشترکہ فطرت پر دلائل
یہ ہم بتا چکے ہیں کہ انسان کی مخصوص خلقت اور حیوانیت سے بالا ترگوشوں کو اس کی فہم ، خواہش اور توانائی؛ تین پہلوؤں میں تلاش کرنا چاہیئے اور یہ جستجو دینی متون اور عقل و تجربہ ہی کی مدد سے ممکن ہے پہلے تو ہم غیر دینی طریقوں اوربغیر آیات و روایات سے استفادہ کرتے ہوئے انسانوں کی مشترکہ فطرت کو مورد تحلیل و تحقیق قرار دیں گے اور آخر میں دینی نظریہ سے یعنی دین کی نگاہ میں انسانوں کی مشترکہ فطرت (الٰہی فطرت)کے مرکزی عنصر کو آیات و روایات کی روشنی میں تجزیہ و تحلیل کریں گے ۔
انسانوں کی مشترکہ فطرت کے وجود پر پہلی دلیل یہ ہے کہ انسان ایک مخصوص فہم و معرفت کا مالک ہے ،انسان اس فہم و ادراک کی مدد سے قیاس اور نتیجہ اخذ کرتاہے اور اپنی گذشتہ معلومات کے ذریعہ نئی معلومات تک پہونچتاہے ۔ انسان کا نتیجہ حاصل کرنا، عقلی ادراک اور قواعد و اصول پر استوار ہے ،مثال کے طورپر ''نقیضین کا جمع ہونا محال ہے ، نقیضین کارفع بھی محال ہے ،سلب الشیٔ عن نفسہ ممکن نہیںہے، کسی شیٔ کا اپنے آپ پر مقدم ہونا محال ہے '' یہ ایسے قضایا ہیں جن کو اصول و قواعد کا نمونہ سمجھا جاناچاہیئے،یہ قضایا فوراً فہم و حواس کے ادراک میںنہیں آتے ہیں بلکہ بشر کی اس طرح خلقت ہوئی ہے کہ اس کے ذہن کے آمادہ ہونے کے بعد یعنی جب اس کے حواس فعال ہوں اور اس کے لئے تصورات کے اسباب فراہم ہوں تو دھیرے دھیرے اس کی ذہنی قابلیت رونما ہوگی اور اس طرح سے بدیہی قضایا حاصل ہوں گے ۔ ان بدیہی قضایا کی مدد سے انسان کا ذہن اپنی تصدیقات اور مقدمات کو مختلف شکل و صورت میں مرتب کرتا ہے اور اقسام قیاس کو ترتیب دیتے ہوئے اپنی معلومات حاصل کرلیتا ہے ،ایسی بدیہی معلومات کو ''ادراکات فطری ''کہتے ہیں ،اس معنی میں کہ انسان فطری اور ذاتی طور پر اس طرح خلق ہوا ہے کہ حواس کے بے کار ہونے کے بعد بھی خود بخود ان ادراک کو حاصل کرلیتا ہے، اس طرح نہیں جیسا کہ مغرب میں عقل کو اصل ماننے والے ''ڈکارٹ''اور اس کے ماننے والوں کا نظریہ ہے کہ ادراکات بغیر کسی حواس ظاہری اور باطنی فعالیت کے انسان کی طبیعی فطرت میں ہمیشہ موجود ہیں ۔
انسان کے اخلاق و کردار کی معرفت بھی مشترکہ فطرت کی اثبات کے لئے موافق ماحول فراہم کرتی ہے ،فردی تجربہ و شواہد اور بعض مشترکہ اخلاقی عقائد کا گذشتہ افراد کے اعمال میں تاریخی جستجو،مثال کے طور پر عدالت اوروفاداری کا اچھا ہونا، ظلم اور امانت میں خیانت کا برا ہوناوغیرہ کوبعض مفکرین مثال کے طور پر'' ایمانول کانٹ '' فقط عقل عملی کے احکام کی حیثیت سے مانتے ہیں اور کبھی اس کو'' حِسِّ اخلاقی '' یا ''وجدان اخلاقی ''سے تعبیر کرتے ہیں اس نظریہ کے مطابق تمام انسان ایک مخصوص اخلاقی استعداد کی صلاحیت رکھتے ہیں جو نکھرنے کے بعد بدیہی اور قطعی احکام بن جاتے ہیں ۔
البتہ ان اخلاقی احکام کا صرف'' عقل عملی ''نامی جدید قوت ، نیز'' وجدان یا حس اخلاقی'' سے منسوب ہونا ضروری نہیں ہے ۔بلکہ یہ اسی عقل کا کام ہوسکتا ہے جو نظری امور کو حاصل کرتی ہے بہر حال جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان ذاتی اور نظری طور سے ان اہم قضایا اور احکام کا مالک ہے ۔
مشترکہ فطرت کے وجود کی دوسری دلیل ، انسانوں کے درمیان حیوانیت سے بالا تمنا اور آرزوؤں کا وجود ہے ۔ علم طلبی اور حقیقت کی تلاش ، فضیلت کی خواہش ، بلندی کی تمنا ، خوبصورتی کی آرزو ، ہمیشہ باقی رہنے کی خواہش اور عبادت کا جذبہ یہ ساری چیزیں حقیقی اور فطری خواہشات کے نمونے ہیں اوران کے حقیقی اور فطری ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ہر انسان کی روح ان خواہشات کے ہمراہ ہے اور یہ ہمراہی بیرونی اسباب اور تربیت ، معاشرہ اور ماحول کے تصادم سے وجود میں نہیں آئی ہے بلکہ یہ انسانی روح کی خاصیت ہے اور ہر انسان فطری طور پر (خواہ بہت زیادہ ضعیف اور پوشیدہ طور پر ہو)ان خواہشات سے بہرہ مند ہے ۔
اور جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ ان کے استعمال اور ان کی نشو و نمامیں بیرونی عوامل ، اسباب و علل بھی ان خواہشات کی کمی اور زیادتی میں دخیل ہیں لیکن ان کی تخلیق اور حقیقی خلقت میں موثر نہیں ہیں مثال کے طور پر انسان کی فطری خواہش کاجاننا ، آگاہ ہونا اور دنیا کے حقائق کو معلوم کرنا صغر سنی ہی کے زمانے سے عیاں ہوتی ہے اور یہ چیزانسان سے آخری لمحات تک سلب نہیں ہوتی ہے، ذہن انسانی کی مختلف قوتیں اور طاقتیں اس فطری خواہش کی تسکین کے لئے ایک مفید وسیلہ ہیں ۔
فطری خواہشات کا ایک اور نمونہ خوبصورتی کی خواہش ہے جو انسان کی فطرت و ذات سے تعلق رکھتی ہے پوری تاریخ بشر میں انسان کی تمام نقاشی کی تخلیقات اسی خوبصورت شناسی کے حس کی وجہ سے ہے البتہ خوبصورت چیزوں کی تشخیص یا خوبصورتی کی تعریف میں نظریاتی اختلاف ہونا اس کی طرف تمایل کی حقیقت سے منافات نہیں رکھتاہے ۔
مشترکہ فطرت کی تیسری جستجو خودانسان کی ذاتی توانائی ہے، معتبر علامتوں کے ذریعہ سمجھنا اور سمجھانا ، زبان سیکھنے کی توانائی، عروج و بلندی کے عالی مدارج تک رسائی اور تہذیب نفس وغیرہ جیسی چیزیں انسان کی منجملہ قوتیں ہیں جو مشترکہ فطری عناصر میں شمار ہوتی ہیں اور روز تولد ہی سے انسان کے ہمراہ ہیں ،اور دوسرے عوامل فقط قوت و ضعف میں ان کی ترقی و رشد کا کردار ادا کرتے ہیں ،یہ قوتیں بھی انسان کی مشترکہ فطرت کے وجود کی دلیل ہیں ۔(١) معارف اور خواہشات کے پائے جانے کے سلسلہ میںانسان کی آئندہ مشترکہ توانائی کے وجود کی آیات و روایات میں بھی تائید و تاکید ہوئی ہے مثال کے طور پر آیہ فطرت جس کے بارے میں آئندہ بحث کریں گے اور وہ آیات جو انسانوں کی مشترکہ فطری شناخت کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں اور آیہ شریفہ (وَ نَفسٍ وَ مَا سَوّیٰھَا فَألھَمَھَا فُجُورَھَا وَ تَقوَیٰھَا)(٢)(قسم ہے نفس انسانی کی اور اس ذات کی کہ جس نے اسے درست کیا پھر اس کی بدکاری اور پرہیزگاری کوالہام کے ذریعہ اس تک پہونچایا )مشترکہ اخلاقی اور اعتباری فطرت کی تائید کرتی ہے اور بہت سی آیات انسان کو انسانیت کے بلند ترین مرتبہ تک پہونچنے میںتلاش اور ختم نہ ہونے والے
..............
(١)گذشتہ فصل میں ہم انسان شناسی کی ضرورت و اہمیت کے عنوان سے انسانی علوم میں انسانوں کی مشترکہ عقیدہ کو بیان کرچکے ہیں ،لہٰذا یہاں انسان کی مشترکہ فطرت کے آثارو عقائد پر بحث کرنے سے صرف نظر کرتے ہوئے اس نکتہ کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں کہ انسانی اور بین الاقوامی اقتصادی ،حقوقی ، تربیتی اور اخلاقی ہر قسم کا نظام، انسان کی مشترکہ فطرت کی قبولیت سے وابستہ ہے اور انسانی مشترکہ فطرت کے انکار کی صورت میں یہ نظام بے اہمیت ہو جائیں گے ۔
(٢)سورۂ شمس ٧و ٨۔
کمال کے حصول کی دعوت دیتی ہیں اور ضمنی طور پر اس راہ میں گامزن ہونے کے لئے انسان کی ذاتی قدرت کو مورد توجہ قرار دیتی ہیں ۔

فطرت (١)
جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ آیات و روایات میں وہ مطالب بھی مذکور ہیں جو وضاحت کے ساتھ یا ضمنی طور پر انسان کی مخصوص حقیقت ، مشترکہ فطرت اور معرفت کی راہ میں اس کے خصوصی عناصرنیز خواہشات اور قدرت کے وجود پر دلالت کرتے ہیں لیکن وہ چیز جس کی آیات و روایات میں بہت زیادہ تاکید و تائید ہوئی ہے وہ فطرت الٰہی ہے اور اس حقیقت پر بہت ہی واضح دلالت کرنے والی، سورۂ روم کی تیسویں آیہ ہے ۔
(فأَقِم وَجھَکَ لِلدِّینِ حَنِیفاً فِطرَتَ اللّٰہِ الّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیھَا
لا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللّٰہِ)
تو تم باطل سے کترا کے اپنا رخ دین کی طرف کئے رہو، یہی خدا کی فطرت ہے
جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے خدا کی فطرت میں تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے ۔
یہ آیہ انسان میں فطرت الٰہی کے وجود پر دلالت کرتی ہے یعنی انسان ایک ایسی فطرت ، سرشت اور طبیعت کے ہمراہ خلق ہوا ہے کہ جس میں دین قبول کرنے کی صلاحیت ہے لہٰذاانبیاء علیھم السلام خداوند عالم کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف انسانوں کو دعوت دینے کے سلسلہ میں کسی بے توجہ مخلوق سے مخاطب نہیں تھے بلکہ انسان کی فطرت اور ذات میں توحید کی طرف میلان اور کشش پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان ذاتی طور پر خدا سے آشنا ہے ،اس آیت کے علاوہ بعض روایات میں بھی انسان کے اندر الٰہی فطرت کے وجودکی وضاحت ہوئی ہے ۔
..............
(١)کلمہ فطرت ؛لغت میں کسی شیٔ کے خلقت کی کیفیت کے معنی میں آیا ہے اور اصطلاح کے اعتبار سے مفکرین کے درمیان متعدد استعمالات ہیں جن کو ضمیمہ میں اشارہ کیا جائے گا ۔
امام محمد باقر نے پیغمبر ۖ سے منقول روایت کی وضاحت میں فرمایا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : ''کُل مَولودٍ یُولدُ عَلیٰ الفِطرَة ''(١)''ہر بچہ توحیدی فطرت پر متولد ہوتا ہے '' پھر آپ نے فرمایا: ''یعنِی المَعرفَة بِأنّ اللّٰہ عَزّو جلّ خَالقُہ''مراد پیغمبر یہ ہے کہ ہر بچہ اس معرفت و آگاہی کے ساتھ متولد ہوتا ہے کہ اللہ اس کا خالق ہے ۔
حضرت علی فرماتے ہیں کہ: ''کَلمةُ الخلاص ھِی الفِطرَة''(٢) خداوند عالم کو سمجھنا انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔

بعض مشترکہ فطری عناصر کا پوشیدہ ہونا
معرفت شناسی سے مرتبط مباحث میں اسلامی حکماء نے ثابت کیا ہے کہ انسان کی فکری معرفت اس کی ذات کے اندر ہی پوشیدہ اور قابلیت کے طور پر موجود ہے اور مرور ایام سے وہ ظاہر ہوتی ہے ۔ دینی متون کے اعتبار سے بھی انسان ،اپنی پیدائش کے وقت ہر قسم کے ادراک اور علم سے عاری ہوتا ہے ۔
(وَ اللّٰہُ أَخرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّھَاتِکُم لا تَعلَمُونَ شَیئاً وَ جَعَلَ لَکُم
السَّمعَ وَ الأبصَارَ وَ الأفئِدَةَ لَعَلَّکُم تَشکُرُونَ)(٣)
اور خدا ہی نے تم کو مائوں کے پیٹ سے نکالاجب کہ تم بالکل نا سمجھ تھے اور تم کو
سماعت ، بصارت اوردل عطا کئے تاکہ تم شکر کرو۔
ممکن ہے یہ توہّم ہو کہ اس آیت کا مفہوم انسان کے متولد ہونے کے وقت ہر طرح کی معرفت سے عاری ہونا ہے، لہٰذا یہ خداوند عالم کی حضوری و فطری معرفت کے وجود سے سازگار نہیں
..............
(١)کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ اصول کافی ؛ ج٢ ص ١٣۔
(٢)نہج البلاغہ ، خطبہ ١١٠
(٣)سورہ نحل ٧٨۔
ہے، لیکن جیسا کہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ مذکورہ آیہ انسان کی خلقت کے وقت تمام اکتسابی علوم کی نفی کرتی ہے لیکن یہ امکان ہے کہ انسان سے علم حضوری کے وجود کی نفی نہ کرتی ہو ،اس مطلب کی دلیل یہ ہے کہ کان اور قلب کو انسان کی جہالت بر طرف کرنے والے اسباب کے عنوان سے نام لیاہے اس لئے کہ اکتسابی علم میں ان اسباب کی ضرورت ہے ،گویا آیہ خلقت کے وقت آنکھ ،کان اور دوسرے حواس سے حاصل علوم کی نفی کرتی ہے لیکن انسان سے حضوری علوم کی نفی نہیں کرتی ہے۔
تقریباً یہ بات اتفاقی ہے کہ انسان کے اندر موجودہ فطری اور طبیعی امور چاہے وہ انسان کے حیوانی پہلو سے مرتبط ہوں جیسے خواہشات اور وہ چیزیں جو اس کی حیوانیت سے بالا تر اور انسانی پہلو سے مخصوص ہیں خلقت کے وقت ظاہر اور عیاں نہیں ہوتے ہیں ،بلکہ کچھ پوشیدہ اور مخفی صلاحیتیںہیں جو مرور ایام سے دھیرے دھیرے نمایاں ہوتی رہتی ہیں جیسے جنسی خواہش اور ہمیشہ زندہ رہنے کی تمنا ، لہٰذا وہ چیز جس کی واضح طور پرتائید کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ فطری امور انسان کی خلقت کے وقت موجود رہتے ہیں ،لیکن خلقت کے وقت ہی سے کسی بھی مرحلہ میں ان کے فعال ہونیکے دعوے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے ۔(١)
..............
(١)وہ چیزیں جوفطری امور کے عنوان سے مورد تحقیق واقع ہوچکی ہیں وہ انسان کی فطری و ذاتی خصوصیات تھیں ۔ لیکن یہ جاننا چاہیئے کہ فطری وصف کبھی انسانی خصوصیات کے علاوہ بعض دوسرے امور پر صادق آتا ہے ، مثال کے طور پر کبھی خود دین اور شریعت اسلام کے فطری ہونے کے سلسلہ میں گفتگو ہوتی ہے اور اس سے مراد انسان کے وجودی کردار اور حقیقی کمال کی روشنی میں ان مفاہیم کی مناسبت و مطابقت ہے ،انسان کی فطری قابلیت و استعداد سے اسلامی تعلیمات اور مفاہیم شریعت کا اس کے حقیقی کمال سے مربوط ہونا نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی مختلف فطری اور طبیعی قوتوں کی آمادگی ، ترقی اور رشد کے لئے ایک نسخہ ہے '' شریعت ، فطری ہے '' اس کے یہ معنی ہیں کہ انسان اور اس کے واقعی اور فطری ضرورتوں میں ایک طرح کی مناسبت و ہماہنگی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ فطرت انسان میں دینی معارف و احکام بالفعل یا بالقوة پوشیدہ ہیں ۔