انسان شناسی
 

تساہل و تسامح
١٦و ١٧ ویں صدی کی دینی جنگوں کے نتیجہ میں صلح و آشتی کے ساتھ باہم زندگی گزارنے کے امکان پر مختلف ادیان کے ماننے والوں کے درمیان گفتگو او رتساہل و تسامح(سستی و چشم پوشی ) کی تاکید ہوئی ہے، اور دینی تعلیمات کی وہ روش جو ہیومنزم کا احترام کرتی تھیں تساہل و تسامح کی روش سے بہت زیادہ متاثر ہوئیں ، اس نظریہ میں تسامح کا مطلب یہ تھا کہ مذاہب ایک دوسرے سے
اپنے اختلافات کو محفوظ رکھتے ہوئے باہم صلح و آتشی سے زندگی گذار سکیں ، لیکن جدید انسان گرائی کے تساہل و تسامح سے اس فکر کا اندازہ ہوتاہے کہ انسان کے دینی اعتقادات اسی کی ذات کا سر چشمہ ہیں اور اس کے علاوہ کوئی خاص چیز نہیں ہے ۔ ان اعتقادات کے اندر ،بنیادی اور اساسی چیز وحدت ہے کہ جس میں عالمی صلح کا امکان موجود ہے، ہیومنیسٹ اس دنیا کے اعتبار سے خدا کی یوں تفسیر کرتا ہے کہ : مسیح کا خدا وہی فلسفی بشر کی عقل ہے جو مذہب کی شکل میںموجود ہے۔(١) اس زاویہ نگاہ سے مذاہب میں تساہل یعنی ، مسالمت آمیز زندگی گزارنے کے علاوہ فلسفہ اور دین کے درمیان میں بھی تساہل موجود ہے ، جب کہ یہ گذشتہ ایام میں ایک دوسرے کے مخالف تھے ۔ یہ چیز قدیم یونان اور اس کی عقل گرائی کی طرف رجوع کی وجہ نہیں تھی ۔ یہ نظریہ جو ہر دین اور اہم نظام کی حقانیت اور سعادت کے انحصاری دعوے پر مبنی ہے کسی بھی اہم نظام اور معرفت کو حق، تسلیم نہیں کرتا اور ایک طرح سے معرفت اور اہمیت میں مخصوص نسبت کا پیروکار ہے اسی بنا پر ہر دین اور اہم نظام کی حکمرانی فقط کسی فرد یا جامعہ کے ارادہ اور خواہش پر مبنی ہے ۔

سکولریزم (٢)
اگرچہ ہیومنزم کے درمیان خدا اور دین پر اعتقاد رکھنے والے افراد بھی ہیںاور انسان مداری (انسان کی اصالت کا قائل ہونا)کو مومن اور ملحد میں تقسیم کرتے ہیں لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہیومنزم کو بے دین اور دشمن دین نہ سمجھیں تو کم از کم خدا کی معرفت نہ رکھنے والے اور منکر دین ضرور ہیں، اور ہیومنزم کی تاریخ بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ خدا کی اصالت کے بجائے انسان کو اصل قرار دینا ہی باعث بناکہ ہیومنزم افراد قدم بہ قدم سکولریزم اورالحادنیزبے دینی کی طرف گامزن ہو جائیں۔ خدا اور دینی تعلیمات کی جدید تفسیر کہ جس کو ''لوٹر ''جیسے افراد نے بیان کیاہے کہ خدا کو ماننا نیزخدا او ردین آسمانی کی مداخلت سے انکار
..............
(1)ibid
(2)Secularism.
منجملہ مسیحی تعلیم سے انکار ، طبیعی دین ( مادّی دین ) اور طبیعی خدا گرائی کی طرف مائل ہونا جسے ''ولٹر''(٢) (١٧٧٨۔١٦٩٤ )اور ''ہگل ''(٣)(١٨٣١۔١٧٧٠ )نے بھی بیان کیا ہے،اور '' ہیکسلی ''(٤)جیسے افراد کی طرف سے دین اور خدا کی جانب شکاکیت کی نسبت دینااور'' فیور بیچ ''(٥)(١٨٣٣۔١٧٧٥) ''مارکس '' (٦)( ١٨٨٣۔١٨١٨)نیز ملحد اور مادہ پرستوں نے دین اور خدا کا بالکل انکار کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ یہ ایسے مراحل ہیں جنہیں ہیومنزم طے کرچکا ہے ۔البتہ غور و فکر کی بات یہ ہے کہ ہگل جیسے افراد کے نزدیک اس خدا کا تصورجو ادیان ابراہیمی میں ہے بالکل الگ ہے ۔دین اور خدا کی وہ نئی تفسیرجو جدید تناظر میں بیان ہوئی ہیں وہ ان ادیان کی روح سے سازگار نہیں ہے اور ایک طرح سے اندرونی طورپردینی افکارو اہمیت کی منکر اورانہیںکھوکھلا کرنے والی ہیں۔ بہر حال ہیومنزم کی وہ قسم جو مومن ہے اس کے اعتبار سے بھی خدا اور دین نقطہ اساسی اور اصلی شمار نہیں ہوتے بلکہ یہ انسانوں کی خدمت کے لئے آلہ کے طور پر ہیں،یہ انسان ہے جو اصل اور مرکزیت رکھتا ہے ،ڈیوس ٹونی لکھتا ہے :
یہ کلمہ (ہیومنزم ) انگلیڈ میں یکتا پرستی (٧)حتی خدا شناسی سے ناپسندیدگی کے معنی میں استعمال ہوتا تھا اور یہ قطعا مسیحیوں اور اشراقیوں کی موقعیت سے سازگار نہیں تھا، عام طورپر یہ کلمہ الہی تعلیمات سے ایک طرح کی آزادی کا متضمن تھا ۔ ت.ھ. ہیکسلی(٨) ڈاروینزم کا برجستہ مفکر اور چارلز بریڈلیف(٩) قومی سکولریزم کی انجمن کے مؤسس نے روح یعنی اصل ہیومنزم کی مدد کی اور اس کو فروغ بخشا تاکہ اس کے ذریعہ
..............
(1)Deism.
(2)Voltaire.
(3)Hegel,Friedrich.
(4)Huxley,Julian.
(5)Feuerbach, von Anseim
(6)Mark, karl.
(8)Thomas,Henry,Hexley
(٧)یکتا پرستی یا توحید (Unitarianism)سے مراد مسیحیت کی اصلاح کرنے والے فرقہ کی طرف سے بیان کئے گئے توحید کا عقیدہ ہے جو کاٹولیک کلیسا کی طرف سے عقیدہ ٔ تثلیث کے مقابلہ میں پیش کیا گیا ہے اوریہ ایک اعتبار سے مسیحیت کی نئی تفسیر تھی جوظاہراً مقدس متون کی عبارتوں سے ناسازگار اور مسیحی مفکرین کی نظر میں دین کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف تھی ۔ اورعام طور پر یہ کلمہ الٰہی تعلیمات سے آزادی کا متضمن تھا ۔
(٩)وہ پارلیمنٹ کا ممبر اور National Reformerنشریہ کا مدیر اعلیٰ تھا جس نے قسم کھانے کی جگہ انجیل کی تائید کے سلسلہ میں مجلس عوام سے ٦٠ سال تک مقدمہ لڑا۔
سرسخت مسیحیت کے آخری توہمات کو بھی ختم کردے ۔(١)
نیز وہ اس طرح کہتا ہے کہ : ''ا گسٹ کانٹ''(٢)کے مادی اور غیر مادی افکار کے اقسام سے عناد، عوام پسند ہیومنزم کے مفہوم کا یکتا پرستی یا الحاد اور سکولریزم میں تبدیلی کا باعث ہوا ہے جو آج بھی موجود ہے ۔ اور اس کی تحریک کو ١٩ویں صدی میں تاسیس انجمنوں کے درمیان مشاہدہ کیا جاسکتا ہے (٣)مثال کے طور پر عقل گرا(اصالت عقل کے قائل )مطبوعاتی ، اخلاقی اور قومی سکولریزم کی انجمنیں۔
''ڈیوس ٹونی''اپنی کتاب کے دوسرے حصہ میں مسیحی ہیومنزم مومنین کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : مسیحیت اور ہیومنزم کا پیوند اختلافات سے چشم پوشی کرکے انجام پایا جس کی وجہ سے مسیحی ہیومنزم کی ناپایدار ترکیب میں فردی ہیومنزم کے نقش قدم موجود تھے ۔ یعنی خداوند متعال جوہر چیز پر قادر ہے اور کالون کی ہر چیز سے باخبرہے اور فردی ارادہ کی آزادی کے درمیان تناقض،ایسے تناقض ہیں جو ''فیلیپ سیڈنی(٤)، اڈموند اسپنسر(٥) کریسٹو فرمارلو(٦)، جان ڈان(٧) اور جان ملٹن''(٨) جیسے اصلاح گرہیومنیسٹ کی عبارتوں میں جگہ جگہ ملتاہے ۔(٩)محمد نقیب العطاس بھی لکھتا ہے : ''نظشے '' کا نعرہ ''کہ خدا مرگیا ہے '' جس کی گونج آج بھی مغربی دنیا میں سنی جاسکتی ہے اور آج مسیحیت کی موت کا نوحہ خصوصاً پروٹسٹوں یعنی اصلاح پسندوں کی طرف سے کہ جنہوں نے ظاہراً اس سر نوشت کو قبول کرتے ہوئے مزید آمادگی سے زمانے کے ساتھ ساتھ طریقۂ مسیحیت کی تبدیلی کے خواہاں ہیں ۔ اس کاعقیدہ ہے کہ اصلاح پسندوںنے ہیومنزم کے مقابلہ میں عقب نشینی کے ذریعہ مسیحیت کودرونی طور پر بدل دیا ہے۔ (١٠)''ارنسٹ کیسیرر ''دور حاضر میں اصلاحات (رسانس) پر جاری تفکر کی توصیف میں جو
..............
(١)ڈیوس ٹونی ، ہیومنزم ؛ ص ٣٧۔
(٣)گذشتہ حوالہ ، ص ٤١۔
(2)August,conte
(4)Philip,sidney
(5)Edmund, spenser
(6)Chirs topher Marlowe
(8)John,Don
(9)John,Milton.
(١٠)العطاس ، محمد نقیب ، اسلام و دینوی گری ، ترجمہ احمد آرام ؛ ص ٣ و ٤۔
ہیومنزم سے لیا گیا ہے اور اس سے ممزوج و مخلوط ہے لکھتا ہے :ایسا لگتا ہے کہ تنہا وسیلہ جو انسان کو تعبداور پیش داوری سے آزاد اور اس کے لئے حقیقی سعادت کی راہ ہموار کرتا ہے وہ پوری طرح سے مذہبی اعتقاد اور اقدار سے دست بردار ہونا اور اس کو باطل قرار دینا ہے ، یعنی ہر وہ تاریخی صورت کہ جس سے وہ وابستہ ہے اور ہر وہ ستون کہ جس پر اس نے تکیہ کیا ہے اس کی حاکمیت کی تاریخ اور عملی کارکردگی کے حوالے سے اس کے درمیان بہت گہرا فاصلہ ہے کہ جس کو ہیومنزم کے نظریہ پر اساسی و بنیادی تنقید تصور کیا جاتا ہے اور دور حاضر میں اصلاحات کی عام روش ، دین میں شکوک اور تنقید کا آشکار انداز ہے ۔ (١)

ہیومنزم کے نظریہ پر تنقید و تحقیق

فکرو عمل میں تناقض
فکرو عمل میں تناقض یعنی ایک فکری تحریک کے عنوان سے ہیومنزم کے درمیان اورانسانی معاشرہ پر عملی ہیومنزم میں تناقض نے انسان کی قدر و منزلت کو بلند و بالا کرنے کے بجائے اس کو ایک نئے خطرے سے دوچارکردیا اور انسان پرستی کے مدعی حضرات نے اس کلمہ کو اپنے منافع کی تامین کے لئے غلط استعمال کیاہے۔ شروع ہی میں جب حق زندگی ، آزادی و خوشی اور آسودگی کے تحت ہیومنزم میں انسانی حقوق کے عنوان سے گفتگو ہوتی تھی تو ایک صدی بعد تک امریکہ میں کالوں کو غلام بنانا قانونی سمجھا جاتاتھا ۔(٢)اور معاشرہ میں انسانوں کی ایک کثیر تعداد ماڈرن انسان پرستی کے نام سے قربان ہوتی تھی۔(٣)''نازیزم''(٤)''فاشیزم''(٥)اسٹالینزم(٦)امپریالیزم(٧)کی تحریکیں،
ہیومنزم کی ہم فکراور ہم خیال تھیں (٨)اسی بنا پر بعض مفکرین نے ضد بشریت ، انسان مخالف تحریک
..............
(١)کیسیرر ، ارنسٹ؛ فلسفہ روشنگری؛ ترجمہ ید اللہ موقن ، ص ٢١٠۔
(٢)احمد ، بابک ؛ معمای مدرنیتہ ؛ ص ١١١۔ ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ص ٣٦۔
(٣)گذشتہ حوالہ ،ص ٢٠(٨)ڈیوس ٹونی،وہی مدرک ،ص ٩،٥٤،٦٤،٨٤۔
(4)Nazism
(5)Fascism.
(6)Stalinism.
(7)Imperialism.
دھوکا دینے والی باتیں ، ذات پات کی برتری کی آواز جیسی تعبیروں کو نازیزم اور فاشیزم کی ایجاد جانا ہے اور ان کو انسان مخالف طبیعت کو پرورش دینے نیز مراکز قدرت کی توجیہ کرنے والا بتایا ہے ۔(١) اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی جرم ایسا ہو جو انسانیت کے نام سے انجام نہ پایا ہو ۔(٢)
ہیومنزم کے ناگوار نتائج اور پیغامات ایسے تھے کہ بعض مفکرین نے اس کو انسان کے لئے ایک طرح کا زندان و گرفتاری سمجھا اور اس سے نجات پانے کے لئے لائحہ عمل بھی مرتب کیا ہے ۔(٣)

فکری حمایت کا فقدان
ہیومنزم کے دعوے کا اور ان کے اصول کا بے دلیل ہونا، ہیومنزم کا دوسرا نقطہ ضعف ہے ۔ ہیومنیسٹ ا س سے پہلے کہ دلیلوں و براہین سے جس کا دعویٰ کر رہے تھے نتیجہ حاصل کرتے، کلیسا کی سربراہی کے مقابلہ میں ایک طرح کے احساسات و عواطف میں گرفتار ہوگئے ،چونکہ فطرت پرستی سے بے حد مانوس تھے لہٰذا روم و قدیم یونان کے فریفتہ و گرویدہ ہوگئے ۔ ''ٹامس جفرسن''(٤)نے امریکا کی آزادی کی تقریر میں کہاہے کہ :ہم اس حقیقت کو بدیہی مانتے ہیں کہ تمام انسان مساوی خلق ہوئے ہیں ۔ (٥)
''ڈیوس ٹونی '' لکھتا ہے کہ : عقلی دور(ترقی پسند زمانہ) کا مذاق اڑانے والی اور نفوذ والی کتاب جس نے محترم معاشرہ کو حتی حقوق بشر کی کتاب سے زیادہ ناراض کیا ہے، وہ مقدس کتاب ہے جو عالم آخرت کے حوادث اور سرزنش سے بھری ہوئی ہے،اس کا طریقہ اور سیاق و سباق تمام مسخروں اور مذاق اڑانے والوں کا مسخرا کرناہے ۔ بعض اومانٹسٹ حضرات نے بھی ہیومنزم کی حاکمیت کی توجیہ کی اوراسے اپنے منافع کی تامین کا موقع و محل سمجھا ۔
..............
(١)ملاحظہ ہو گذشتہ حوالہ ص ٢٧۔٣٦، ٤٥۔٤٦،٥٤۔٦٢،٦٤،٨٤۔٩٤،١٤٧۔١٧٨ واحدی ، بابک گذشتہ حوالہ ص ٩١۔٩٣، ١١٠،١٢٢.
(٢)احمدی ، بابک ، گذشتہ حوالہ ص ١١٢۔
(٣)ڈیوس ٹونی ، گذشتہ حوالہ ،١٧٨۔
(٥) گذشتہ حوالہ ، ص ١١٠۔
(4)Thomas, Jeferson.
ہیومنیسٹ کی طرف سے بیان کئے گئے کلی مفاہیم کے بارے میں ''ڈیوس ٹونی ''یہ جانتے ہوئے کہ اس کو منافع کے اعتبار سے بیان کیا گیا ہے لکھتا ہے کہ : اس میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیشہ خود سے سوال کرے کہ : اس عظیم دنیا میں بلند مفاہیم کے پشت پردہ کون سا شخصی اور محلی فائدہ پوشیدہ ہے؟ (١)مجموعی طور پر ہیومنیسٹ، انسان کی قدر و منزلت اور فکری اصلاح کے لئے کوئی پروگرام یا لائحہ عمل طے نہیں کرتے تھے بلکہ گذشتہ معاشرہ کی سرداری کے لئے بہت ہی آسان راہ حل پیش کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے ...''لیونارڈو برونی ''(٢)نے لکھا تھا کہ : تاریخی تحقیق ہمیںاس بات کا سبق دیتی ہے کہ کیسے اپنے بادشاہوں اور حاکموں کے حکم اور عمل کا احترام کریں اور بادشاہوں ، حاکموں کو اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ کیسے اجتماعی مسائل کا لحاظ کریں تاکہ اپنی قدرت کو اچھی طرح سے حفظ کرسکیں،(٣) غرض کہ ہر وہ چیز جو قرون وسطی کی نفی کرے یہ لوگ اس کا استقبال کرتے تھے اور اس کی تاکید بھی کرتے تھے ۔ کلیسا کی حاکمیت ،خدا و دین کا نظریہ انسان کا فطرةً گناہگار اور بد بخت ہونا ، معنوی ریاضت نیز جسمانی لذتوں سے چشم پوشی اور صاحبان عقل و خرد سے بے اعتنائی یہ ایسے امور تھے جو قرون وسطی میں معاشرہ پر سایہ فکن تھے ۔ اورہیومنیسٹوں نے کلیسا کی قدرت و حاکمیت سے مقابلہ کرنے کے لئے ، خدا محوری اور اعتقادات دینی کو پیش کیااور انسان کی خوش بختی ،جسمانی لذتوںاور صاحبان خرد کو اہمیت دینے نیز حقوق اللہ اور اخلاقی شرط و شروط سے انسان کو آزاد کرنے کے لئے آستین ہمت بلند کی ۔(٤) وہ لوگ علی الاعلان کہتے تھے کہ : قرون وسطی کے زمانے میں کلیسا نے جو حقوق واقدار انسان سے سلب کر لئے تھے، ہم اس کو ضرور پلٹائیں گے ۔(٥)
..............
(١)ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ص،٣٦۔(2)Leonardo Bruni(5) Abagnano,Nicola,ibid (٣) احمد، بابک ، گذشتہ حوالہ؛ ص، ٩١ و ٩٣ (٤)ویل ڈورانٹ لکھتا ہے کہ ہیومنیسٹوں نے دھیرے دھیرے اٹلی کی عوام کو خوبصورتی سے شہوت کے معنی سمجھائے جس کی وجہ سے ایک سالم انسانی بدن کی کھلی ہوئی تہذیب (خواہ مرد ہو یا عورت خصوصاً برہنہ ) پڑھے لکھے طبقوں میں رائج ہوگی ۔ویل ڈورانٹ ، تاریخ تمدن ، ج ٥ص ٩٧۔٩٨. جان ہرمان بھی لکھتا ہے کہ : قرن وسطی کے اواخر میں بھی بہت سی گندی نظموں کا سلسلہ رائج ہوگیا تھا جو زندگی کی خوشیوں سے بطور کامل استفادہ کی تشویق کرتی تھی ۔ رنڈل جان ہرمان ، سیر تکامل عقل نوین ، ص ١٢٠۔
بہرحال انسانمحوری ( اصالت انسان ) کے عقیدے نے ہر چیز کے لئے انسان کو میزان و مرکز بنایا اورہر طرح کی بدی اور مطلق حقائق کی نفی، نیز فطرت سے بالاتر موجودات کا انکار منجملہ خدا اور موت کے بعد کی دنیا (آخرت)کے شدت سے منکر تھے۔آخر وہ کس دلیل کی بنا پر اتنا بڑا دعویٰ پیش کرتے ہیں ؟ان کے پاس نہ ہی معرفتِ وجوداور نہ ہی انسانوں کی کاملا آزادی واختیار (١)پر کوئی دلیل ہے اور نہ ہی خدا کے انکار اور اس کے قوانین اور وحی سے بے نیازی پر کوئی دلیل ہے اور نہ ہی شناخت کی اہمیت کے سلسلہ میں کوئی پروف ہے ۔ اور نہ ہی بشر کے افکار و خیالات ، آرزوؤں ، خواہشوں نیزحقوقی و اخلاقی اہمیتوںپر کوئی ٹھوس ثبوت ہے اور نہ ہی فلسفی اور عقلی مسائل کو بعض انسان پرست فلاسفہ کی نفسیاتی تحلیلوں سے ثابت کیا جا سکتاہے ۔ بلکہ عقلی اور نقلی دلیلیں نیز شواہد و تجربات اس کے خلاف دلالت کرتے ہیں، اگرچہ انسان اسلامی تعلیمات اورادیان ابراہیمی کی نگاہ میں مخصوص منزلت کا حامل ہے اور عالم خلقت اور کم از کم اس مادی دنیا کو انسان کامل کے توسط سے انسانوں کے لئے پیدا کیا گیا ہے اوروہ اس کی تابع ہے ۔ لیکن جیسا کہ متعدد دلیلوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ انسان کا سارا وجود خدا سے وابستہ اور اس کے تکوینی اور تشریعی تدبیر کے ماتحت ہے اور اسی کا محتاج ہے اور اس کی مدد کے بغیر تکوینی اور تشریعی حیثیت سے انسان کی سعادت غیر ممکن ہے ۔
..............
(١)انسان محوری کا نظریہ رکھنے والوں میں سے بعض کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان بہت زیادہ اختیارات کا حامل ہے ان کا کہنا ہے کہ انسان جس طریقہ سے چاہے زندگی گذار سکتا ہے ۔ ژان پل ، سارٹر کہتا ہے کہ : اگر ایک مفلوج انسان دوڑمیں ممتاز نہ ہوسکتا ہو تو یہ خود اس کی غلطی ہے ، اسی طرح وہ لوگ اعمال کے انجام دینے(عامل خارجی کو بغیر مد نظر رکھتے ہوئے خواہ حقوقی ، سنتی ، اجتماعی ، سیاسی ، غیر فطری افعال) میں انسان کی ترقی سمجھتے ہیں ۔

فطرت اور مادہ پرستی
قریب بہ اتفاق اکثرہیومنزم کے ماننے والوں نے فطرت پسندی کو انسان سے مخصوص کیا ہے
او ر اس کو ایک فطری موجود اور حیوانات کے ہم پلہ بتایا ہے۔ حیوانوں ( چاہے انسان ہو یا انسان کے علاوہ ) کے درجات کو فقط فرضی مانتے ہیں ۔(١) انسان کے سلسلہ میں اس طرح کے فکری نتائج اور ایک طرف فائدہ کا تصور، مادی لذتوں کا حقیقی ہونا اور دنیائے مغرب کی تباہی اور دوسری طرف سے ہر طرح کی اخلاقی قدرو منزلت ، معنوی حقوق ، معنوی کمالات اور ابدی سعادت کی نفی کی ہے ۔
ہم آئندہ مباحث میں ثابت کریں گے کہ نہ تو انسان حیوانوں کے برابر ہے اور نہ ہی مادی اور فطری اعتبار سے منحصر ہے اور نہ ہی اس کی دنیا صرف اسی مادی دنیا سے مخصوص ہے ،انسان ایک جہت سے غیر مادی پہلو رکھتا ہے اور دوسری جہت سے انسان موت سے نابودنہیں ہوتااور اس کی زندگی مادی زندگی میں محدود نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کا آخری کمال خدا سے قریب ہونااور خدا جیسا ہونا ہے جس کی کا مل تجلی گاہ عالم آخرت ہے جیسا کہ وجود شناسی کے مباحث میں ثابت ہو چکا ہے،خدا صرف ایک فرضی موجود اور انسان کی آرزو، خیالات اور فکری محصول نہیں ہے بلکہ اس کا ایک حقیقی و واقعی وجود ہے نیز وہ تمام وجود کا مرکز اور قدر و منزلت کی خواہشوں کی آماجگاہ ہے سارے عالم کا وجود اس سے صادر ہوا ہے اور اسی سے وابستہ ہے اور اس کی تکوینی و تشریعی حکمت و تدبیر کے ما تحت ہے ۔

ہیومنزم اور دینی تفکر
عقل و خرد ، خدائی عطیہ ہے اور روایات کی روشنی میںباطنی حجت ہے جو خداکی ظاہری حجت یعنی انبیاء کے ہمراہ ہے، لہٰذا ہیومنزم کی مخالفت کو، عقل و صاحبان خرد کی مخالفت نہیں سمجھنا چاہیئے،وہ چیزیں جو ہیومنزم کی تنقید کے سلسلہ میں بیان ہوتی ہیں وہ عقل کو اہمیت دینے میں افراط، خدا اور عقل کوبرابر سمجھنا یا عقل کو خدا پر برتری دینا اور عقل پرستی کو خدا پرستی کی جگہ قرار دینا ہے ۔ دین کی نگاہ میں عقل انسان کو خدا کی طرف ہدایت کرتی ہے اور اس کی معرفت و عبادت کی راہ ہموار
..............
(١)فولادوند، عزت اللہ ؛ ''سیر انسان شناسی در فلسفہ غرب از یونان تاکنون '' نگاہ حوزہ ؛ شمارہ ٥٣و ٥٤،ص ١٠٤۔١١١.
کرتی ہے ،امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ''العَقلُ مَا عُبدَ بِہ الرَّحمٰن و اکتسِبَ بِہ الجنَان ''(١) عقل وہ ہے جس کے ذریعہ خدا کی عبادت ہوتی ہے اور بہشت حاصل کی جاتی ہے اور ابن عباس سے بھی نقل ہوا ہے کہ فرمایا : ''رَبّنَا یعرفُ بالعقلِ و یُتوسل لَیہ بالعَقلِ''(٢) ہمارا خدا عقل کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے اور عقل ہی کے ذریعہ اس سے رابطہ برقرار ہوتا ہے۔
عقل کا صحیح استعمال ،انسان کو اس نکتہ کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ وہ یوں ہی آزاد نہیں ہے بلکہ اللہ کی ربوبیت کے زیر سایہ ہے ۔نیز اخلاقی اقدار اور حقوقی اہمیت کے اصول ،عقل اور الٰہی فطرت کی مدد سے حاصل ہوسکتے ہیں ۔ لیکن عقل کی رہنمائی اورتوانائی کی یہ مقدار جیسا کہ وہ لوگ خود بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ نہ ہی ہیومنزم کی فرد پرستی کا مستلزم ہے اور نہ ہی انسان کی حقیقی سعادت کے حصول کے لئے کافی ہے، وہ چیزیںجو عقل ہمارے اختیار میں قرار دیتی ہے وہ کلی اصول اور انسان کی ضرورتوں کی مبہم تأمین اور افراد کے حقوق اور عدالت کی رعایت نیز انسان کی بلند و بالا قدر و منزلت ، آزادی اور آمادگی اور اس کی قابلیت کی سیرابی ہے ۔ لیکن حقیقی سعادت کے لئے بیان کئے گئے میزان و حدود اور اس کے مصادیق و موارد کا پہچاننا ضروری ہے ۔ وہ چیزیں جو عقل بشر کی دسترس سے دور ہیں وہ ہیومنزم نظریے خصوصاً ہیومنزم تجربی ( اومانیز کی ایک قسم ہے ) کے حامی اس سلسلہ میں یقینی معرفت کے عدم حصول کی وجہ سے مختلف ادیان و مکاتب کے ہر فرضی نظریہ کو پیش کرتے ہیں اور معرفت وسماجی پلورالیزم کے نظریہ کو قبول کرتے ہیں ۔(٣) تاریخی اعتبار سے اس طرح کے فلسفہ اور نظریات ،نوع بشر کو آزادی اور سعادت کی دعوت دینے کے بجائے خوفناک حوادث و مصائب کی سوغات پیش کرتے ہیں ۔(٤) اور ان نتائج کو فقط ایک امر اتفاقی اور اچانک وجود میں آنے والا حادثہ نہیں سمجھنا چاہیئے،
..............
(١)مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ج١، ص ١١٦و ١٧٠۔
(٢)گذشتہ مدرک ص ٩٣
(٤)ملاحظہ ہو؛ معمای مدرنیتہ ؛ فصل ہفتم۔
(٣)مومٹنگ کہتا ہے کہ : ''ہم کو تجربہ کے ذریعہ حقیقت تک پہونچنا چاہیئے ، لیکن دنیا حتی انسان کے بارے میں یقین حاصل کرنا مشکل ہے اور یہ تمام چیزیں منجملہ اخلاقی اصول خود انسان کے بنائے ہوئے ہیں۔ہمیں تمام آداب و رسوم کا احترام کرنا چاہیئے اور پلورالیزم معاشرہ کو قبول کرنا چاہیئے ''( فولادوند ، عزت اللہ ؛ گذشتہ مدرک )
اگر انسان کو خود اسی کی ذات پر چھوڑ دیا جائے اس طرح سے کہ وہ کسی دوسری جگہ سے رہنمائی اور زندگی ساز ضروری پیغام دریافت نہ کرے توقوت عاطفہ ، غضبیہ اور شہویہ جو فطری طور سے فعال رہتی ہیں اور ہمیشہ تکامل کی طرف گامزن ہیں ساتھ ہی ساتھ اس کی خواہش بھی اس پر حاکم ہوجائے گی اور اس کی عقل سلیم نہ فقط ان امور کے ماتحت ہوجائے گی بلکہ ناپسندیدہ اعمال کی انجام دہی کے لئے عقلی بہانے تراشتی پھرے گی ۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ : (نّ الاِنسَان لیَطغیٰ أن رَاہُ استَغنَی)(١) یقینا انسان سر کشی کرتا ہے اس لئے کہ وہ خود کو بے نیاز سمجھتا ہے ۔

بے قید وشرط آزادی
جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ ہیومنزم کے ماننے والے معتقد تھے کہ: انسانی اقدار،حمایت اور طرفداری کے لئے بس فلسفی قوانین ہیں، دینی عقاید و اصول اورانتزاعی دلیلیںانسانی اقدار اور اس کی اہمیت کو پیش کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں ۔(٢) انسان کو چاہیئے کہ خود اپنی آزادی کو طبیعت (مادہ) اور معاشرہ میں تجربہ کرے ایک نئی دنیا بنانے اور اس میںخاطر خواہ تبدیلی اور بہتری لانے کی صلاحیت انسان کے اندر پوری پوری موجود ہے۔ (٣)ایسی بکھری ہوئی اور بے نظم آزادی جیسا کہ عملاً ظاہر ہے بجائے اس کے کہ انسان کی ترقی کی راہیں اور اس کی حقیقی ضرورتوں کو تامین کریں انسان پر ستم اور اس کی حقیقی قدر و منزلت اور حقوق سے چشم پوشی کا ذریعہ ہو گئی اورمکتب فاشیزم و نازیزم کے وجود کا سبب بنی۔ ''ہارڈی ''کتاب ''بازگشت بہ وحی'' کا مصنف اس کے نتیجہ کو ایک ایسے سانحہ سے تعبیر کرتا ہے کہ جس کا ہدف غیرمتحقق ہے۔ اس سلسلہ میں لکھتا ہے کہ :بے وقفہ کمال کی جانب ترقی اور پھر اچانک اس راہ میں شکست کی طرف متوجہ ہونا ١٩ ویں صدی میں یہی وہ موقعہ ہے جس کو''سانحہ'' سے
..............
(١)سورۂ علق ٦و ٧.
(2)Encyclopedia Britanica. (3)Abbagnona, Nicola,ibid.
تعبیر کیا گیا ہے جو ماڈرن ( ترقی پسند) ہونے کی حیثیت سے مشخص ہے ۔ (١)
حقیقی اور فطری تمایل کی وجہ سے وجود میں آئی ہوئی انسان کی خود پسندی میں تھوڑا سا غور و خوض ہمیں اس نتیجہ تک پہونچاتا ہے کہ اگر انسان کی اخلاقی اور حقوقی آزادی دینی تعلیمات کی روشنی میں مہار نہ ہو، توانسان کی عقل ، ہوس پرستی اور بے لگام حیوانی خواہشات کے زیر اثرآکرہر جرم کو انجام دی سکتی ہے۔(٢) قرآن مجید اوراسلامی روایات بھی اس نکتہ کی طرف تاکید کرتے ہیں کہ وحی سے دور رہ کرانسان خود اور دوسروں کی تباہی کے اسباب فراہم کرتا ہے ۔ نیز خود کو اور دوسروں کو سعادت ابدی سے محروم کرنے کے علاوہ اپنی دنیاوی زندگی کو بھی تباہ و برباد کرتا ہے(٣) یہی وجہ ہے کہ قرآن انسان کو (ان شرائط کے علاوہ جب وہ خود کو خدائی تربیت و تعلیم کے تحت قرار دیتا ہے ) خسارت والا اور شقی سے تعبیر کرتاہے (نَّ النسَانَ لَفِی خُسرٍ لاّ الَّذِینَ آمنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالحَاتِ وَ تَوَاصَوا بِالحقِّ وَ تَواصَوا بِالصَّبرِ)(٤)یقینا انسان خسارے میں ہے مگر وہ افراد جو ایمان لائے اور جنہوں نے عمل صالح انجام دیا اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت کرتے ہیں '' اور دوسری طرف ہیومنزم کی بے حد و حصر آزادی کہ جس میں فریضہ اور عمومی مصالح کی رعایت اور ذمہ داری کے لئے کوئی گنجائش نہیںہے، اس نظریہ میں ہر انسان کے حقوق ( واجبات کے علاوہ ) کے بارے میںبحث ہوتی ہے کہ انسان کو چاہیئے کہ اپنے حق کو بجالائے نہ کہ اپنی تکلیف اور ذمہ داری کو، اس لئے کہ اگر کوئی تکلیف اور ذمہ داری ہے بھی تو حق کے سلسلہ ادائگی میں اسے آزادی ہے ۔ (٥)
..............
(١)ڈیوس ٹونی ؛ گذشتہ حوالہ، ص ٤٤و ٤٥۔ (٢)ڈیوس ٹونی کہتا ہے : ایسا لگتا ہے کہ جفرسون اور اس کے مددگار ١٧٧٦کے بیانیہ میں مندرج عمومی آزادی کو اپنے غلاموں یا ہمسایوں میں بھی رواج دیتے تھے ۔ (٣)اس سلسلہ میں قرآن کے نظریہ کی وضاحت آئندہ مباحث میں ذکر ہوگی (٤) سورۂ عصر ٢و ٣۔ (٥)ہم یہاں اس مسئلہ کو ذکر کرنا نہیں چاہتے کہ انسان کا مکلف ہونا بہت ہی معقول اور فائدہ مند شی ہے یا اسی طرح حق بین اور حق پسند ہونا بھی معقول ہے .لیکن ہم مختصراً بیان کریں گے کہ اجتماعی تکالیف اور دوسروں کے حقوق کے درمیان ملازمت پائے جانے کی وجہ سے الہی اور دینی تکالیف مورد قبول ہونے کے علاوہ اسے مستحکم عقلی حمایت حاصل ہے دنیاوی فائدہ اور افراد معاشرہ کے حقوق کی تامین کے اعتبار سے ہیومنزم حق پرستی پر برتری رکھتا ہے ۔اس لئے کہ اس معتبر نظام میں جب کہ ہر فرد اپنا حق چاہتا ہے اس کے باوجود اگر کوئی دوسروں کے حقوق کی رعایت کے مقابلہ میں احساس مسئولیت کرتا ہے تووہ خود کو خداوند منان کی بارگاہ میں جواب گو سمجھتا ہے ۔
اجتماعی صورت میں ہیومنزم کے ماننے والوں کی آزادی یعنی جمہوریت نیز حقوقی، اجتماعی قوانین کے حوالے سے نسبی آزادی کے قائل ہیںجو دینی نظریہ سے مناسبت نہیں رکھتے ۔
ہمارے دینی نظریہ کے مطابق سبھی موجودات کا وجود خدا کی وجہ سے ہے اور تمام انسان مساوی خلق ہوئے ہیںنیز ہر ایک قوانین الہی کے مقابلہ میں ذمہ دار ہے اور حاکمیت کا حق صرف خدا کوہے ۔ پیغمبر، ائمہ اور ان کے نائبین ،ایسے افراد ہیں جن کو ایسی حاکمیت کی اجازت دی گئی ہے ۔ حقوقی اور اخلاقی امورجو اللہ کی طرف سے آئے ہیںاور معین ہوئے ہیں ثابت اور غیر متغیر ہیں۔دین کی نگاہ میں اگرچہ افراد کے حقوق معین و مشخص ہیں جس کو عقل اور انسانی فطرت کلی اعتبار سے درک کرتی ہے لیکن حد و حصر کی تعیین اور ان حقوق کے موارد اور مصادیق کی تشخیص خدا کی طرف سے ہے اور تمام افراد، الہٰی تکلیف کے عنوان سے ان کی رعایت کے پابند ہیں، ہیومنزم کی نظر میں انسانوں کی آزادی کے معنی اعتقادات دینی کو پس پشت ڈالنا اور اس کے احکام سے چشم پوشی کرنا ہے لیکن اسلام اورادیان آسمانی میں انسانوں کے ضروری حقوق کے علاوہ بعض مقدسات اور اعتقادات کے لئے بھی کچھ خاص حقوق ہیں جن کی رعایت لازم ہے مثال کے طور پر انسان محوری کا عقیدہ رکھنے والے کے اعتبار سے جس نے بھی اسلام قبول کیا ہے اسلام کو چھوڑکر کافرو مشرک ہونے یا کسی دوسرے مذہب کے انتخاب کرنے میں بغیر کسی شرط کے وہ آزاد ہے۔ لیکن اسلام کی رو سے وہ مرتد ہے (اپنے خاص شرائط کے ساتھ ) جس کی سزا قتل یا پھانسی ہے جیسا کہ پیغمبر ۖ اور معصومین علیھم السلام کو ناسزا (سب ) کہنے کی سزا پھانسی ہے لیکن ہیومنزم کی نگاہ میں ایسی سزا قابل قبول نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک پیغمبر ۖ و ائمہ معصومین اور دیگر افراد کے درمیان کوئی تفاوت نہیں ہے ۔

تسامح و تساہل
جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ انسان محوری کا عقیدہ رکھنے والے مطلقا تساہل و تسامح کی حمایت و طرف داری کرتے ہیں اور اس کو قرون وسطی کے رائج تہذیب سے مبارزہ کی نشانی اور قدیم یونان و روم کی طرف بازگشت نیز آزادی اور انسانی قدرو منزلت کا تقاضاجانتے ہیں۔ انہوں نے تمام کامیابیوں کو انسانی کارنامہ اور فکر بشر کا نتیجہ سمجھا ہے ، شناخت کے حوالے سے ، شکاکیت و نسبیت کے نظریہ سے وابستہ ہیں۔ وہ لوگ اعتبارات ، ضروریات اور افکار کے ایک خاص مجموعہ کی تائید نیز حاکمیت اور اس سے دفاع کو ایک غیر معقول بات تصور کرتے ہیں ۔
یہ نظریہ مذاہب آسمانی کی تعلیمات خصوصاً اسلام سے مختلف جہتوںمیں نہ صرف یہ کہ سازگار نہیں ہے بلکہ متضاد بھی ہے،ایک طرف تسامح و تساہل کے اصول (انسان اور اعتبارات و معرفتکے درمیان رابطہ ) دینی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے اور دینی تفکرمیں خداوند عالم کی ذات نقطۂ کمال ہے نہ کہ انسان کی ذات اور یہ اہمیت و منزلت یقینی معرفت کی حمایت سے مزین ہے اور دوسری طرف اسلام ہر دین کے ( حتی ادیان غیر الٰہی ) اور اس کے ماننے والوں کے ساتھ تساہل و تسامح کو قبول نہیں کرتا بلکہ کفر و الحاد کے مقابلہ میں صلح و آشتی کو ناقابل تسلیم جانتاہے ۔(١) خاص طور سے دوسرے الٰہی ادیان کے ماننے والوں کے سلسلہ میں اسلام، نرمی کا برتاؤ بھی معقول اندازہی میں کرتا ہے ،اور اسلامی معاشرہ میں نیزمسلمانوں کے درمیان دوسرے مذاہب کی تبلیغ قابل قبول نہیں ہے، ان لوگوں کو حکومت اسلامی کے قوانین کے خلاف کسی عمل کے انجام دینے اور علنی طور پر محرمات اسلام کے مرتکب ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ ان قوانین کے حصار میں اسلام نہ فقط دوسرے ادیان کے ماننے والوں سے نرمی کے برتاؤ کی تاکید کرتا ہے بلکہ ان سے نیکی کی وصیت کرتا ہے اور قید و بند اور ظلم سے انسانوں کو رہائی دلانے کے لئے اپنی تلاش جاری رکھتاہے اور ان لوگوں کی فریاد رسی کرتا ہے جو مسلمانوں کے مقابلہ میں انصاف چاہتے ہیں نیز یہ مسلمانوں کی علامتوں اور وظائف میں سے ہے کہ وہ مظلوموں کی فریاد رسی کریں۔
..............
(١)البتہ وہ فکر و اندیشہ جو ایک درونی اور غیر اختیاری فعل ہے ہماری بحث سے خارج ہے ، اور کسی ایمان و فکر سے وابستہ ہونا اور اس کا نشر کرنا یا بعض تفکرات کے لئے اختیار کا زمینہ فراہم کرنا یا اس کو باقی رکھنا یہ ہے کہ وہ امر اختیاری ہو۔

خلاصہ فصل
١۔ انسان کی واقعی شخصیت اور اس کی قابلیت اور توانائی کے سلسلہ میں دو کاملاً متفاوت نظریے موجود ہیں : ایک نظریہ انسان کو پوری طرح سے مستقل ، مختار او ر ہر طرح کی ذمہ داری سے عاری موجود جانتا ہے اور دوسرا نظریہ اس کو خدا سے وابستہ نیز خدا کی طرف اس کے محتاج ہونے کا قائل ہے اور پیغمبروں کی مدد سے خدا کی مخصوص ہدایت سے برخوردار اور خدوند عالم کے قوانین کے انجام دینے کا اس کو ذمہ دار مانتا ہے ۔
٢۔ انسان محوری کا عقیدہ رکھنے والوں (نظریہ اول کے ماننے والوں) نے انسان کو ہر چیز کا معیار قرار دے کر کلیسا کی تعلیمات اور مسیحیت کے قدیمی دین کو خرافات تصور کیا ہے اور اپنی خواہش کے مطابق فکری نمونہ تلاش کرنے کے لئے روم و قدیم یونان کے افکار کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔
٣۔ انسان محوری کا نظریہ رکھنے والے افرادقدیم یونان سے استفادہ کرتے ہوئے مسیحیت کی نفی کرنے لگے اور ''دین اور خدا کی نئی تفسیر ، دین اور تعلیمات مسیحیت کی نفی ، خدا کااقرار اور ہر خاص دین کی نفی ، دین میں شکوک اور آخر کار دین اور خداسے مکمل طور پر انکار کر دیا ہے''۔
٤۔ انسان محوری اور انسان مداری جو شروع میں ایک ادبی ، فلسفی تحریک تھی آہستہ آہستہ فکری ، سماجی تحریک میں تبدیل ہوگئی جو سبھی علمی ، ہنری ، فلسفی ، اخلاقی حتی دینی نظام اور قوانین پر حاوی ہوگئی اور کمیونیزم ، پریگماٹیزم ، لبرلیزم اورپروٹسٹنٹ(اصلاح پسند مسیحیت )کو وجود میں لانے کا سبب بن گئی ۔ اسی بنا پر آج انسان مدار حضرات، ملحد انسان مداراور موحد انسان مدار میں تقسیم ہوچکے ہیں ۔
٥۔ ہیومنزم کے بنیادی خمیرکاعقل گرائی کی حد سے زیادہ تجربات پر اعتماد کرنا، نیز آزادی خواہی کے مسئلہ میں افراط سے کام لینا،تساہل و تسامح اور سکولریزم جیسے اجزاء تشکیل دیتے ہیں ۔
٦۔ ہیومنزم کے بنیادی اجزاء ،افراطی پہلوؤں کی وجہ سے میدان عمل میں ، فاشیزم اور نازیزم کے نظریات سے جا ملے ، جس کی وجہ سے یہ موضوع ، بشر دوستی اور مطلقا خواہشات انسانی کی اہمیت اور اس کی اصالت کے قائل ہونے نیز عقل کے خطا پذیر ہونے کا یہ طبیعی نتیجہ ہے ۔
٧۔ انسان کو خدا کی جگہ تسلیم کرنا ،مضبوط فکری تکیہ گاہ کا نہ ہونا ، حد سے زیادہ تجربہ اور انسانی عقل کو اہمیت دینا اور شناخت کی قدر و منزلت اور شناخت کی معرفت میں نسبیت کا قائل ہونا یہ ایسے سست ستون ہیں جن سے ہیومنزم دوچار ہے ۔

تمرین
اس فصل سے مربوط اپنی معلومات کو مندرجہ ذیل سوالات و جوابات کے ذریعہ آزمائیں:
١۔ہیومنزم اور شخص پرستی کے درمیان نسبت کو بیان کریں ؟
٢۔ اسلام کی نظرمیں ایمان ، اعمال اور اعتبارات میں تساہل و تسامح کا کیا مقام ہے ؟ مثال کے ذریعہ واضح کریں ؟
٣۔ ''آتیتکم بالشریعة السھلة السّمحَة ''سے مراد کیا ہے اور سہولت اور سماحت کے درمیان کیا فرق ہے ؟
٤۔ ان آیات میں سے دو آیت جو خود ہمارے اور دوسرے الٰہی ادیان کے ماننے والوں سے مسلمانوں کے نرم برتاؤ کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں بیان کریں ؟
٥۔ حقیقی راہ سعادت کے حصول میں انسانی عقل کی ناتوانی پر ایک دلیل پیش کریں؟
٦۔ آزادی اوراستقلال ، تساہل ، بے توجہی اور نرمی کا برتاؤ ، مغربی عقل پرستی ، ہیومنزم اور دینی اصول میں عقل پر بھروسہ کرنے کے درمیان تفاوت کو بیان کریں ؟

مزید مطالعہ کے لئے :
۔احمدی ، بابک ( ١٣٧٧) معمای مدرنیتہ ، تہران : نشر مرکز ۔
۔احمدی ، بابک ؛ مدرنتیہ و اندیشہ انتقادی ، تہران : نشر مرکز۔
۔بلیسٹر ، آر ( بی تا ) ظہور و سقوط لیبرالیزم ؛ ترجمہ عباس مخبر ، تہران : نشر مرکز ( بی تا) .
۔بیوراکہارٹ ، جیکب ، ( ١٣٧٦) فرہنگ رنسانس در ایتالیا، ترجمہ محمد حسن لطفی ، تہران ، انتشارات طرح نو
۔ڈیوس ٹونی ( ١٣٧٨) لیبرالیزم ترجمہ عباس مخبر ، تہران : چاپ مرکز .
۔رجبی ، فاطمہ ( ١٣٧٥) لیبرالیزم ، تہران : کتاب صبح ۔
۔رنڈال ، جان ہرمن ( ١٣٧٦) سیر تکامل عقل نوین ، ترجمہ ابو القاسم پایندہ ، تہران ، انتشارات علمی و فرہنگی ، ایران ۔
۔سلیمان پناہ ، سید محمد ؛ ''دین و علوم تجربی ، کدامین وحدت ؟''مجلہ حوزہ و دانشگاہ . شمارہ ١٩، ص ١١، ٥٢.
۔صانع پور ، مریم ( ١٣٧٨) نقدی بر مبانی معرفت شناسی ہیومنیسٹی . تہران : اندیشہ معاصر.
۔فولادوند ، عزت اللہ ؛ ''سیر انسان شناسی در فلسفہ غرب از یونان تاکنون '' مجلہ نگاہ حوزہ ، شمارہ ٥٣و ٥٤۔
۔ کیسیرر ، ارنسٹ(١٣٧٠) فلسفہ روشنگری ؛ ترجمہ ید اللہ موقن ، تہران : نیلوفر ۔
۔لبرلیزم سے مربوط کتابیں ، روشنگری ( رنسانس ) و پسامدرنیزم ، ہیومنزم کی ترکیبات و انسان مداران کی تالیفات ۔
۔گیڈنز ، انتھونی (١٣٧٧) فرہنگ علمی انتقادی فلسفہ . ترجمہ غلام رضا وثیق ، تہران : فردوسی ایران ۔
۔نوذری ، حسین علی ( ١٣٧٩) صورتبندی مدرنیتہ و پست مدرنیتہ ، تہران ، چاپخانہ علمی و فرہنگی ایران ۔
۔نہاد نمایندگی رہبری در دانشگاہھا ، بولتن اندیشہ . شمارہ ٢ و ٣۔
۔واعظی ، احمد ( ١٣٧٧) ''لیبرالیزم ''مجلہ معرفت ، شمارہ ٢٥ ص ٢٥۔٣٠، قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔
۔ویل ڈورانٹ ( ١٣٧١) تاریخ تمدن ، ترجمہ صفدر تقی زادہ و ابو طالب صارمی ، جلد پنجم ، تہران ، انتشارات و آموزشی انقلاب اسلامی ، ایران ۔

ملحقات
ہیومنزم کے سلسلہ میں دانشمندوں کے مختلف نظریات، اس کے عناصر اوراجزاء میں اختلاف کی بناپر ہے جو ہیومنزم کے نتائج اور موضوعات کے درمیان موجود ہیں اور اس کے ماننے والوں کے نظریات میںنسبتاً زیادہ تنوع کی وجہ ان کی نظری،اجتماعی اورسماجی وضعیت نیز ہیومنزم کے سلسلہ میں دانشمندوں کی طرف سے متفاوت نظریات پیش ہوئے ہیں ۔
ایک طرف تو ایسے دانشمند ہیں جو اس نظریہ کو ایک ضد انسانی تحریک سمجھتے ہیں جو بشر کے لئے سوائے خسارے کے کوئی پیغام نہیں دیتی اور اس کے بارے میں ان کی تعبیرات یوں ہیں ''دھوکہ دینے والا مفہوم ، قوم کی برتری اور غیر قابل توجیہ فرد کی حکمرانی کی آواز ، سبعیت کی توجیہ اور تخفیف نیز ماڈرن دور کی آشکار انداز میںنابرابری ، شخصی آزادی خواہی اور فردی منافع کا متحقق ہونا ، نازیزم و فاشیزم کی بے ہودہ پیداواراور ان کا وجود ، محیط زیست کو ویران کرنے والی ضد انسانی عادتوں اور فطری قوتوں پر حملہ آور قوتوں کو پرورش دینا جو آخری کارانسان کی ویرانی پر ختم ہوتا ہے، خوفناک اور ویران کرنے والی قوت جو آرام و سکون کا برتاؤ نہیں کرتی ہیں ، خیالی اور جھوٹے دعوے ، امپریالیزم کے ہم رتبہ و ہم مرتبہ، اسٹالینزم کی ایک دوسری تعبیر اور مسیحیت کے بعد کے احوال کے لئے ایک خطرناک چیز ، آخری قرن میں ایک بناوٹی مفہوم جو ایک عظیم دستور کے عنوان سے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دینے کے لائق ہے ،معاشرے کے بلند طبقے نیز قدرت و اقتدار کے مرکز کی تاویل و توجیہ ، شاہانہ فکر جو ایک خاص طبقہ کے منافع کی تاکید کرتی ہے اور جس کو اپنی آغوش میںلے کر اس کا گلا گھونٹ دیتی ہے، ہر جرم کا نتیجہ ،متناقض معانی اورمختلف پیغامات سے پر ، ایسے سانحہ کا پیش خیمہ جس کا ہدف متحقق ہونے والا نہیں ہے ۔(١)
..............
(١)ملاحظہ ہو: ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ، ص ٢٧،٣٦،٤٥،٤٦،٥٤،٦٢،٦٤،٨٤،٩٤،١٤٧،١٧٨.احمدی ، بابک گذشتہ حوالہ، ص ٩١، ٩٣، ١١٠، ١٢٢۔
دوسری طرف ہیومنزم کا دفاع کرنے والے ہیں جن کی کوشش انسان اور اس کی صلاحیت کو کمال بخشنا ہے ، نیزفکری اور اخلاقی آزادی کو تامین کرنا ،انسان کی زندگی کو عقلانی بنانا، انسان کی آزادی اور شرافت کی حمایت کرنا اور اس کی ترقی کی راہ ہموار کرنا اور کاملاً مبارزہ کرنے والا اور جہل و خرافات کے مقابلہ میں کامیاب ہونے والابتایا ہے ۔(١)
اگرچہ ہیومنزم کے بعض منفی پہلوؤں کو انسان مداری کا دعویٰ کرنے والوں کی غلط برداشت سمجھنا چاہیئے '' لیکن یہ تحریک جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ کم از کم اس طرح کی ناپسندیدہ حوادث کے واقع ہونے کے لئے ایک مناسب ذریعہ تھی اور اس کا دعویٰ کرنے والوں کی کثیر تعداد اور ان کی بعض تاریخ ،منفی پہلو سے آمیختہ تھی ۔
عوامی عقل کو محور قرار دینا اورایسے دینی و اخلاقی اقدار کی مخالفت جو معاشرے کے افراد کو معنوی انحرافات ، دوسروں کے حقوق پر تجاوز اور فساد پر کنٹرول کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں ، جس کا نتیجہ ماڈرن اسباب و امکانات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ غیر شایستہ افراد کے وجود میں آنے کی راہ ہموار کرنا اور ناگوار حوادث کے جنم لینے کا سبب نیز ان حوادث کی عقلی توجیہ بھی کرناہے ۔
ہیومنزم کے نظریات میں اختلافات اور ہیومنزم کی تعریف میں مشکلات کا سبب اس کے ماننے والوں کے مختلف نظریات ہیں ،بعض افراد مدعی ہوئے ہیں کہ ان مختلف نظریات کے درمیان کوئی معقول وجہ ِاشتراک نہیں ہے اور ان نظریات کو ہیومنزم کے کسی ایک نمونہ یا سلسلہ سے نسبت نہیں دی جاسکتی ہے اسی بناء پر ہیومنزم کی تعریف کے مسئلہ کو ایک سخت مشکل سے روبرو ہونا پڑا اور وہ لوگ معتقد ہیں کہ ہمارے پاس ایک ہیومنزم نہیں ہے بلکہ وہ لوگ ہیومنزم کے مختلف انواع کو مندرجہ ذیلعناوین سے یاد کرتے ہیں :
..............
(١)ملاحظہ ہو: ڈیوس ٹونی ؛ گذشتہ حوالہ ، ص ٩۔
١٥ویں صدی میں اٹلی کے مختلف شہری ریاستوں کا مدنی و معاشرتی ہیومنزم،١٦ویں صدی میں یورپ کے پروٹسٹل فرقہ کا ہیومنزم، ماڈرن آزاد و روشن خیال انقلاب کا فردی ہیومنزم ، یورپ کے سرمایہ دار طبقے کارومینٹک ہیومنزم،انقلابی ہیومنزم جس نے یورپ کو ہلاکر رکھ دیا،لیبرل ہیومنزم جو انقلابی ہیومنزم کو رام کرنے کے درپے تھا، نازیوں کاہیومنزم ، نازیوں کے مخالفین کا ہیومنزم ، ہیڈگر ، انسان مخالف ہیومنزم ، فوکواور آلٹوسر کی انسان گرائی کے خلاف ہیومنزم وغیرہ ہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان مختلف ہیومنزم کے مشترکات کو ایک نظریہ میں سمویا جا سکتا ہے کہ جس میں ہر ایک ،ہیومنزم کے مختلف درجات کے حامل ہیں اور ہم نے اس تحقیق میں ہیومنزم کے مشترکات اور ان کے مختلف نتائج اور آثار کو مورد توجہ قرار دیا ہے ۔