پہلی فصل :
مفہوم انسان شناسی
اس فصل کے مطالعہ کے بعدآپ کی معلومات :
١۔'' انسان شناسی '' کی تعریف اور اس کے اقسام کو بیان کریں؟
٢۔جملۂ'' انسان شناسی؛ فکر بشر کے آئینہ میں'' کی وضاحت کریں ؟
٣۔معرفت خدا، نبوت و معاد کا انسان شناسی سے کیا رابطہ ہے دو سطروں میں بیان کریں؟
٤۔ انسان شناسی ''کل نگر''و'' جزء نگر'' کے موضوعات کی مثالوں کو ذکر کریں ؟
٥۔ خود شناسی سے کیا مراد ہے اور اس کا دینی انسان شناسی سے کیارابطہ ہے بیان کریں؟
٦۔ ''دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران ''میں سے چارمحورکی وضاحت کریں ؟
خدا ،انسان اور دنیا فکر بشر کے تین بنیادی مسائل ہیں جن کے بارے میں پوری تاریخ بشر کے ہر دور میں ہمیشہ بنیادی، فکری اور عقلی سوالات ہوتے رہتے ہیں اور فکر بشر کی ساری کوششیں انہی تین بنیادی چیزوں پر متمرکز اور ان سے مربوط سوالات کے صحیح جوابات کی تلاش میں ہیں۔
بہر حال انسان کی معرفت ،اس کے مشکلات کا حل نیز اس کے پوشیدہ اسرار،کافی اہمیت کے حامل ہیں، جس نے بہت سے دانشمندوں کو اپنے مختلف علوم کے شعبوں میں مشغول کررکھا ہے۔(١)مذاہب آسمانی کی تعلیمات میں (خصوصاً اسلام میں)معرفت خدا کے مسئلہ کے بعد معرفت انسان سب سے اہم مسئلہ مانا جاتا ہے،دنیا کا خلق کرنا ،پیغمبروں کو مبعوث کرنا ،آسمانی کتابوں کا نزول در حقیقت آخرت میں انسان کی خوشبختی کے لئے انجام دیا گیا ہے اگرچہ قرآن کی روشنی میں سبھی چیزیںخدا کی مخلوق ہیں اور کوئی بھی شئی اس کے مقابلہ میں نہیں ہے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کی روشنی میں اس کائنات کو ایک ایسے دائرے سے کہ جس کے دو نقطہ ہوں تعبیر کیا گیا ہے جس کی حقیقی نسبت کا ایک سرا اوپر(اللہ) ہے اور دوسرا سرانیچے (انسان) کی طرف ہے (٢)اورانسان بھی ایک عرصۂ دراز سے ، اپنے وسیع تجربے کے ذریعہ اسی نسبت کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جب
..............
(١)منجملہ علوم جو انسان اور اس کے اسرار و رموز کی تحلیل و تحقیق کرتے ہیں جیسے علوم انسانی تجربی اور دیگر فلسفے جیسے علم النفس ، فلسفہ خود شناسی ، فلسفہ اخلاق ،فلسفہ عرفان ، فلسفہ اخلاق ،فلسفہ اجتماعی ، فلسفۂ علوم اجتماعی ، فلسفہ تاریخ و حقوق وغیرہ
(٢) ایزوٹسو ،ٹوشی ہیکو، قرآن میں خدا و انسان ، ترجمہ احمد آرام ، ص ٩٢۔
کہ انسان شناسی کے ماہرین نے اس بات کی تاکید کی ہے کہ انسان کی معرفت کے اسباب ووسائل ، پوری طرح سے انسان کی حقیقت اور اس کے وجودی گوشوں کے حوالے سے مہم سوالات کا جواب نہیں دے سکتے ہیں لہٰذا آج انسان کو ایسا وجود جس کی شناخت نہ ہو سکی ہو یا انسان کی معرفت کا بحران وغیرہ جیسے الفاظ سے یاد کیا جانے لگا ۔
مذکورہ دو حقیقتوں میں غوروفکرہمیںمندرجہ ذیل چار سوالات سے روبروکرتا ہے:
١۔انسان کے بارے میں کئے گئے بنیادی سوال کون سے ہیںاور انسان کی معرفت میں کیسی کو ششیں ہونی چاہیئے اوران سوالات کے لئے مناسب جوابات تک رسائی کیسے ممکن ہے؟
٢۔انسان کی معرفت میں بشر کی مسلسل حقیقی تلاش کا سبب کیا ہے؟ اورکیا دوسرے بہت سے اسباب کی طرح فطری جستجو کا وجودہی ان تمام کوششوںکی وضاحت و تحلیل کے لئے کافی ہے؟ یا دوسرے اسباب و علل کی بھی جستجوضروری ہے یا انسان کی معرفت کے اہم مسائل اوراس کی دنیو ی و اخروی زندگی نیز علمی و دینی امور میں گہرے اور شدید رابطوں کو بیان کرنا ضروری ہے ؟
٣۔دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران سے کیا مراد ہے اور اس بحران کے انشعابات کیا ہیں ؟
٤۔دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران سے نجات کے لئے کیا کوئی بنیادی حل موجود ہے؟دین اور دینی انسان شناسی کا اس میں کیا کردار ہے ؟
مذکورہ سوالات کے مناسب جوابات حاصل کرنے کے لئے اس فصل میں انسان شناسی کے مفہوم کی تحقیق اور اس کے اقسام ،انسان شناسی کی ضرورت اور اہمیت ، انسان شناسی کے بحران اور اس کے اسباب نیز دینی انسان شناسی کی خصوصیات کے بارے میں ہم گفتگو کریں گے ۔
١۔انسان شناسی کی تعریف
ہر وہ منظومہ معرفت جو کسی شخص ، گروپ یا طبقہ کا کسی زاویہ سے جائزہ لیتی ہے اس کو انسان شناسی کہا جا سکتا ہے ،انسان شناسی کی مختلف اور طرح طرح کی قسمیں ہیںکہ جس کا امتیاز ایک دوسرے سے یہ ہے کہ اس کی روش یا زاویہ نگاہ مختلف ہے، اس مقولہ کوانسان شناسی کی روش کے اعتبار سے تجربی ،عرفانی، فلسفی اور دینی میں اور انسان شناسی کی نوعیت کے اعتبار سیکلی اورجزئی میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
١۔روش اور نوعیت کے اعتبار سے انسان شناسی کے اقسام
انسان شناسی کے اقسام
روش کے اعتبار سے
نوعیت کے اعتبار سے
تجربی
عرفانی
فلسفی
دینی
جامع اجزائ
٢۔انسان شناسی کے اقسام
تجربی،عرفانی،فلسفی اور دینی
متفکرین نے انسان کے سلسلہ میں کئے گئے سوالات اور معموں کو حل کرنے کے لئے پوری تاریخ انسانی میں مختلف طریقہ کار کا سہارا لیا ہے ،بعض لوگوں نے تجربی روش سے مسئلہ کی تحقیق کی ہے اور ''انسان شناسی تجربی ''(١)کی بنیاد رکھی جس کے دامن میں انسانی علوم کے سبھی مباحث موجود ہیں ۔(٢)
..............
(١)انسان شناسی تجربی کو انسان شناسی logy Anthropo کے مفہوم سے مخلوط نہیں کرنا چاہیئے ،جیسا کہ متن درس میں اشارہ ہوچکا ہے، انسان شناسی تجربی، علوم انسانی کے تمام موضوعات منجملہ Anthropologyکو بھی شامل ہے، گرچہ پوری تاریخ بشر میں مختلف استعمالات موجود ہیں، لیکن دور حاضر میں علمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں اس کے رائج معانی علوم اجتماعی کے یا علوم انسانی تجربی کے موضوعات میں سے ہے جس میں انسان کی تخلیق کا سبب ، جمعیت کی وسعت اور اس کی پراکندگی ، انسانوں کی درجہ بندی ، قوموں کا ملاپ ، ماحول و مادی خصوصیات اور اجتماعی و سماجی موضوعات،نیز روابط جیسے مسائل کو تجربہ کے ذریعہ واضح کیا گیاہے ۔
(٢) فارسی میں کلمہ علوم انسانی کبھی کلمہ Humanitiesاور کبھی کلمہ Social sciencesکے مترادف قرار پاتا ہے ۔ کلمۂ Humanitiesکا فارسی معنی علوم انسانی یا
. . .معارف انسانی قرار دینا بہتر ہے ، اس کا ابتدائی استعمال ان انگریزی اور یونانی آثار پر ہوتا تھا جو قرون وسطی میں اہل مدرسہ کی خدا شناسی کے برخلاف انسانی پہلو رکھتا تھا اور آج ان علوم میں استعمال ہوتا ہے جو انسان کی زندگی ، تجربہ رفتار و کردار کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔یورپ اور امریکہ میں یہ کلمہ ادبیات ، لسان ، فلسفہ ، تاریخ ، ہنر ، خداشناسی اور طبیعی و اجتماعی علوم کی موسیقی کے موضوعات کی جدائی کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ اور روش کے اعتبار سے علمی و تجربی روش میں منحصر نہیں ہے ، معارف دینی بھی جب فکر بشر کا نتیجہ ہو گی تواسی دائرہ اختیار میں قراردی جائیگی ، اسی بنا پر دینی معارف کے تفکرات و اعتبارات، خدا کی طرف سے اور فطرت سے بالاتر ذات سے حاصل ہونے کی وجہ سے اس گروہ سے خارج ہیں ، کلمہ ٔ Social sciencesکا بالکل دقیق مترادف '' علوم اجتماعی تجربی '' ہے اور کبھی انسانی علوم تجربی کا استعمال، طبیعی تجربی علوم کے مد مقابل معنی میں ہوتا ہے،اور جامعہ شناسی، نفسیات شناسی ، علوم سیاسی و اقتصادی حتی مدیریت ، تربیتی علوم اور علم حقوق کے موضوعات کوبھی شامل ہے ۔ اور کبھی اس کے حصار میں جامعہ شناسی ، اقتصاد ،علوم سیاسی اور انسان شناسی ( Anthropology) بھی قرار پاتے ہیں اور اجتماعی نفسیات شناسی ، اجتماعی حیات شناسی اجتماعی جغرافیا اور اس کے سرحدی گوشے اور حقوق ، فلسفہ اجتماعی ، سیاسی نظریات اور طریقہ عمل کے اعتبار سے تاریخی تحقیقات ( تاریخ اجتماعی ، تاریخ اقتصادی ) اس کے مشترکہ موضوعات میں شمار ہوتا ہے ۔رجوع کریں
Kuper Adman The social Sciences Encyclopedia Rotlage and Kogan paul.
و: فرہنگ اندیشہ نو ، بولک بارس و غیرہ ، ترجمہ پاشایی و نیز :
Theodorson George, A modern Dictionary of Social Sciences .
بعض لوگوں نے عرفانی سیرو سلوک اور مشاہدہ کو انسان کی معرفت کا صحیح طریقہ مانا ہے،اور وہ کوششیںجو اس روش سے انجام دی ہیں،اس کے ذریعہ ایک طرح سے انسا ن کی معرفت کو حاصل کر لیاہے جسے انسان شناسی عرفانی کہا جا سکتا ہے،دوسرے گروہ نے عقلی اور فلسفی تفکر سے انسان کے وجودی گوشوں کی تحقیق کی ہے اور فکری تلاش کے ما حصل کو انسان شناسی فلسفی کا نام دیا گیا ہے اور آخر کار ایک گروپ نے دینی تعلیمات اور نقل روایت سے استفادہ کرتے ہوئے انسان کی معرفت حاصل کی اور انسان شناسی دینی کی بنیاد رکھی ہے ،اس کتاب کی آئندہ بحثوں میں جو منظور نظر ہے وہ دینی تعلیمات اور نقل احادیث کے آئینہ میں انسان کی تحقیق ہے لہٰذاانسان شناسی کے باب میں دینی تعلیمات کو
ہم آئندہ مباحث میں محور قراردیں گے اگرچہ انسان شناسی فلسفی ،تجربی اور عرفانی معلومات بھی بعض جگہوں پروضاحت اور انسان شناسی دینی میں ان کا تقابل اور ہماہنگی کے بارے میں گفتگو کی جائیگی ، لہٰذا انسان شناسی میں ہماری روش ،نقل روایت اور ایک طرح سے تعبدی یا تعلیمات وحی کی روش ہوگی ۔(١)
..............
(١)طریقہ وحی سے مراد یہ ہے کہ واقعیت اور حقایق کی شناخت میں تجربی طریقۂ سے استفادہ کرنے کے بجائے عقلی یا شہودی اور وحی الٰہی کے ذریعہ معرفت حاصل کی جائے . ایسی معرفت پیغمبروں کے لئے منزل شہود کی طرح ہے اور دوسرے جو دینی مقدس متون کے ذریعہ اسے حاصل کرتے ہیں وہ سندی یا نقلی طریقہ سے حقیقت کو حاصل کرنا ہے اسی بنا پر اس کو روش نقلی بھی کہا جاتا ہے ۔ البتہ کبھی طریقہ وحی سے مراد، دین کی مورد تائید طریقوں کا مجموعہ ہے جوروش تجربی ، عقلانی اور شہودی کو اس شرط پر شامل ہے کہ جب وہ واقع نما اور ان کاقطعی ہونا ثابت ہوجائے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس قسم کی روش کو دینی روش کہنا چاہیئے ۔ دینی متون اور منابع کے درمیان فقط وہ اسلامی منابع مورد توجہ ہوناچاہیئے جو ہمارے نظریہ کے مطابق قابل اعتبار ہوں۔ چونکہ تمام منابع اسلامی کے اعتبار سے (خواہ وہ آیات و روایات ہوں) مسئلہ کی تحقیق و تحلیل کے لئے مزید وقت درکار ہے لہٰذا اسلام کا نظریہ بیان کرنے میں تمام مذاہب و فرقوں کے درمیان سب سے مستحکم و متقن منبع دینی یعنی قرآن مجید سے انسان شناسی کے مختلف موضوعات کی تحقیق و تحلیل میں استفادہ کریں گے اور مخصوص موارد کے علاوہ روائی منابع سے استناد نہیں کریں گے ؛ اسی بناپر مورد بحث انسان شناسی کو اسلامی انسان شناسی یا قرآنی انسان شناسی بھی کہا جاسکتا ہے ۔
انسان شناسی خردو کلاں یا جامع و اجزائ
انسان کے بارے میںپوری گفتگو اور انجام دی گئی تحقیق کو دو عام گروہ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛ کبھی انسان کی تحقیق میں کسی خاص شخص،کوئی مخصوص گروہ ،یا کسی خاص زمان و مکان کو پیش نظر رکھ کر افراد کے سلسلہ میں مفکرین نے سوال اٹھائے ہیںاوراسی کے متعلق جواب لانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور کبھی انسان بطور کلی کسی شخص یا خاص شرائط زمان و مکان کا لحاظ کئے بغیر مفکرین و محققین کی توجہ کا مرکز قرار پاتا ہے اور انسان شناسی کے راز کشف کئے جا تے ہیں ،مثال کے طور پر انسان کے جسمانی
طول ،عرض، عمق کی بناوٹ کی کیفیت کے بارے میں ،اسی طرح اولین انسان یا جسم میںتاریخی اعتبار سے تبدیلی اور تغیر کیبارے میں گفتگو ہوتی ہے یا ابتدائی انسانوں کے فکری ،عاطفی وعملی یا مخصوص سرزمین میں قیام یا معین مرحلۂ زمان میں زندگی گزارنے والے افراد کے طریقۂ زندگی ،کلچر، آداب و رسومات کے بارے میں تحقیق و گفتگو ہو تی ہے اور کبھی عام طور پر انسان کے مجبور و مختار ،دائمی اور غیردائمی یا دوسری مخلوقات سے اس کی برتری یا عدم برتری نیز اس کے انتہائی کمال اور حقیقی سعادت و خوش بختی کے بارے گفتگو ہوتی ہے جو کسی ایک فرد یا کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہوتی۔انسان شناسی کی پہلی قسم کو انسان شناسی خرد یا ''جزنمائی'' اور انسان شناسی کی دوسری قسم کو انسان شناسی کلاں یا ''کل نمائی'' کہا جا سکتا ہے ۔
اس کتاب کے زاویہ نگاہ سے انسان شناسی کلاںیا کل مورد نظر ہے اسی بنا پر انسان کے سلسلہ میں زمان و مکان اور معین شرائط نیز افراد انسان کے کسی خاص شخص سے استثنائی موارد کے علاوہ گفتگو نہیں ہو گی،لہٰذا اس کتاب میں مورد بحث انسان شناسی کا موضوع ،انسان بعنوان عام ہے اور انسان کو بہ طور کلی اور مجموعی مسائل کے تناظر میں پیش کیا جائے گااور وہ تجربی اطلاعات و گزارشات جو کسی خاص انسان سے مختص ہیں یا کسی خاص شرائط و زمان و مکان کے افراد سے وابستہ ہیں اس موضوع بحث سے خارج ہیں۔
انسان شناسی کی ضرورت اور اہمیت
انسان شناسی کی ضرورت اور اہمیت کے لئے دو زاویہ نگاہ سے تحقیق کیا جاسکتا ہے :
پہلے زاویہ نگاہ میں ، اس مسئلہ کی بشری تفکر کے دائرہ میں تحقیق کی جاتی ہے ۔
دوسرے زاویہ نگاہ میں ،انسان شناسی کی اہمیت کو دینی تعلیمات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے ۔
الف: انسان شناسی ،بشری تفکر کے دائرے میں
باہدف زندگی کی تلاش
انسان کی زندگی کا بامقصد اور بے مقصد ہونا اس کے مختلف تصورات سے پوری طرح مرتبط ہے اور ان مختلف تصورات کو انسانشناسی کی تحقیقات ہمارے لئے فراہم کرتی ہے ، مثال کے طور پر اگر انسان شناسی میں ہم یہ تصور ذہن میں بٹھا لیں کہ انسان کا کوئی معقول و مناسب ہدف نہیں ہے جس پر اپنی پوری زندگی گذارتا رہے یا اگر انسان کو ایسی مخلوق سمجھا جائے جو زبر دستی الٰہی ، تاریخی ، اجتماعی زندگی گذارنے پر مجبور ہو اور خود اپنی تقدیر نہ بنا سکے تو ایسی صورت میں انسان کی زندگی بے معنی اور کاملاً بے مقصد اور عبث ہوگی ، لیکن اگر ہم نے انسان کو باہدف (معقول و مناسب ہدف) اور صاحب اختیار تصور کیا اس طرح سے کہ اپنے اختیار سے تلاش و کوشش کے ذریعہ اس بہترین ہدف تک پہونچ سکتا ہے تو اس کی زندگی معقول و مناسب اور بامعنی وبا مقصدتصور کی جائے گی ۔ (١)
..............
(١)معانی زندگی کی تلاش کا مسئلہ نفسیاتی علاج ( Psychotherapy)میںبہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور نفسیاتی علاج کے موضوعات میں سے ایک با مقصدعلاج ( logotherapy) ہے ،بامقصد علاج کے نفسیاتی ماہرین کا عقیدہ ہے کہ تمام نفسیاتی علاج جس کا کوئی جسمانی سبب نہیں ہے زندگی کو بامقصد بنا کر علاج کیا جاسکتا ہے،بامقصد علاج کا موجد ''وکٹر فرینکل ( Emil Viktor Frankle ) معتقد ہے کہ زندگی کوایسا بامقصد بنانا چاہیئے کہ انسان اپنی زندگی گذارنے میں ایک ہدف نہائی کا تصور حاصل کرلے تاکہ اس کے زیر سایہ اس کی پوری زندگی بامقصد ہوجائے اورایسا کوئی لاجواب سوال جو اس کی زندگی کے بامقصد ہونے کو متزلزل کرے اس کے لئے باقی نہ رہے ، ایسی صورت میں جب کہ اس کی تمام نفسیاتی بیماریوں کا کوئی جسمانی سبب نہیں ہے اس طرح قابل علاج ہیں ۔ با مقصد علاج کے سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:
الف) انسان در جستجوی معنا ، ترجمہ اکبر معارفی ۔
ب)پزشک و روح ، ترجمہ بہزاد بیرشک ۔
ج) فریاد ناشنیدہ معنا ، ترجمہ بہزاد بیرشک ، از وکٹرفرینکل۔
اجتماعی نظام کا عقلی ہونا (١)
تمام اجتماعی اور اخلاقی نظام اس وقت قابل اعتبار ہوںگے جب انسان شناسی کے بعض وہ بنیادی مسائل صحیح اور واضح طور سے حل ہوچکے ہوں جو ان نظام کے اصول کو ترکیب و ترتیب دیتے ہیں۔ اصل میں اجتماعی شکل اور نظام کے وجود کا سبب انسان کی بنیادی ضرورتوں کا پورا کرنا ہے اور جب تک انسان کی اصلی اوراس کی جھوٹی ضرورتوںکو جدا نہ کیا جاسکے اور اجتماعی نظام انسان کے حقیقی اور اصلی ضرورتوں کے مطابق اس کا اخروی ہدف فراہم نہ ہوسکے تواس وقت تک یہ نظام منطقی اور معقول نہیں سمجھا جائے گا ۔
..............
(١) '' اجتماعی نظام''سے ہماری مراد ایسا آپس میں مر تبط مجموعہ اور عقائد ونظرات کا منطقی رابطہ ہے جسے کسی معین ہدف کو حاصل کرنے کے لئے روابط اجتماعی کے خاص قوانین کے تحت مرتب کیا گیا ہو جیسے اسلام کا اقتصادی ، سیاسی ، حقوقی اور تربیتی نظام ، اسی بنا پر اس بحث میں اجتماعی نظام کا مفہوم اس علوم اجتماعی سے متفاوت ہے جومختلف افراد کے منظم روابط اور ایک معاشرہ اور سماج کے مختلف پہلوئوں کو شامل ہوتاہے جس میں اگرچہ کسی حد تک مشابہت پائی جاتی ہے لیکن اس کا انتزاعی پہلو بہت زیادہ ہے،مذکورہ صراحت کے پیش نظر علمی و اجتماعی نظریہ کے دستور اور اجتماعی نظام کے درمیان فرق روشن ہوجاتا ہے ۔
علوم انسانی کی اہمیت اورپیدائش
''علوم انسانی تبیینی'' سے مرادوہ تجربی علوم ہیں جو حوادث بشر کی تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں اورفقط تاریخ نگاری اور تعریف کے بجائے حوادث سے مرتبط قوانین واصول کوآشکار کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ ان علوم کا وجود و اعتبار انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل ہونے پر موقوف ہے ، مثال کے طور پر اگرتمام انسانوں کے درمیان مشترکہ طبیعت اور فطری مسائل کے مثبت پہلوؤں کے جوابات تک رسائی نہ ہوسکے اور کلی طور پر انسانوں کے لئے حیوانی پہلو کے علاوہ مشترک امور سے انکار کر دیا جائے تو انسانی علوم کی اہمیت ، حیوانی اور معیشتی علوم سے گر جائے گی ،اور ایسی حالت میں علوم انسانی کا وجود اپنے واقعی مفہوم سے خالی
ایک بے معنی لفظ ہو کر رہ جائے گا ، اس لئے کہ اس صورت میں انسان یا کسی بھی حیوان کا سمجھنا بہت دشوار ہوگا ،اس لئے کہ یا خود اسی حیوانی اور معیشتی علوم کے ذریعہ اور ان پر جاری قوانین کا سہارا لے کر اس تک رسائی حاصل کی جائے گی یا ہر انسان کی ایک الگ اور جدا گانہ حیثیت ہو گی جہاں ایک نمونہ یا بہت سے نمونے کی تحقیق اور ان نمونوں پر جاری قوانین اور ترکیبات کے کشف سے دوسرے انسانوں کی شناخت کے لئے کوئی جامع قانون حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ ان دونوں صورتوں میں علوم انسانی تبیینی اپنے موجودہ مفہوم کے ہمراہ بے معنی ہے،لیکن انسانوں کی مشترکہ فطرت کو قبول کرکے ( مشترکہ حیوانی چیزوں کے علاوہ جو انسانوں کے درمیان مشترک ہیں) راہ انکشاف اور اس طرح کے قوانین ومختلف نظامِ معرفت تشکیل دے کر انسان کے مختلف گوشوں میں علوم انسانی کی بنیاد کو فراہم کیا جاسکتا ہے ۔
البتہ اس گفتگو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسری مشکلات سے چشم پوشی کرلی جائے جو علوم انسانی کے قوانین کو حاصل کرنے میں در پیش ہیں ۔
اجتماعی تحقیقات اور علوم انسانی کی وجہ تحصیل
مزید یہ کہ انسان شناسی کے مسائل علوم انسانی کے اعتبار اور وجود میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ، علوم انسانی کے اختیارات اور میدان عمل کی حد بندی کا انسان شناسی کے بعض مباحث سے شدید رابطہ ہے ، مثال کے طور پر اگر ہم انسان شناسی کے بابمیں روح مجرد سے بالکل انکار کردیں یا ہر انسان کی اس دنیاوی زندگی کے اختتام سے انسان کی زندگی کا اختتام سمجھا جائے تو انسانی حوادث اور اجتماعی تحقیقوںنیز ہر معنوی موضوع میں ، انسان کی موت کے بعد کی دنیا سے رابطہ اور اس دنیاوی زندگی میں اس کے تأثّرات سے چشم پوشی ہو گی ،اس طرح انسان کے سبھی اتفاقات میں فقط مادی حیثیت سے تجزیہ و تحلیل ہوگی اور انسانی تحقیقیں مادی زاویوں کی طرفمتوجہ ہو کر رہ جائیں گی لیکن اگر روح کا مسئلہ انسان کی شخصیت سازی میں ایک حقیقی عنصر کے عنوان سے بیان ہو تو تحقیقوں کا رخ انسان کی زندگی میںروح و بدن کے حوالے سے تاثیر و تاثّرکی حیثیت سے ہو گا اور علوم انسانی میں ایک طرح سے غیر مادی یا مادی اور غیر مادی سے ملی ہوئی تفسیر و تشریح بیان ہوگی ، اس نکتہ کو آئندہ مباحث کے ضمن میں اچھی طرح سے واضح کیا جائے گا ۔ (١)
ب)انسان شناسی، معارف دینی کے آئینہ میں
انسان شناسی کے مباحث کا اصول دین اور اس کے وجود شناسی کے مسائل سے محکم رابطہ ہے نیز فروع دین اور دین کے اہم مسائل سے بھی اس کا تعلق ہے ۔ یہاں ہم وجود شناسی اوردین کے حوالے سے اجتماعی انسان شناسی سے رابطے کے بارے میں تین بنیادی اصولوں کے تحت تحقیق کریں گے ۔
خدا شناسی اور انسان شناسی
انسان شناسی اور خدا شناسی کے رابطہ کو سمجھنا (انسان و خدا کی طرف نسبت دیتے ہوئے ) شناخت حصولی اور شناخت حضوری دونوں کے ذریعہ ممکن ہے ۔(٢)یا دوسرے لفظوں میں ، انسان کی حضوری معرفت خود وسیلہ اور ذریعہ ہے خدا کی حضوری معرفت کا ،اور اسی طرح انسان کے سلسلہ میں حصولی شناخت بھی خدا اور اس کے عظیم صفات کے بارے میں حصولی شناخت کا ایک ذریعہ ہے۔ پہلی قسم میں عبادت ، تزکیہ نفس ، عرفانی راستوں کے ذریعہ اور دوسری قسم میںانسانی وجوداور اس کے اسرارورموز میں غور و فکر کے ذریعہ یہ شناخت ممکن ہے ۔اس کے باوجودیہ مباحث
..............
(١)موجودہ علوم انسانی کی فقط مادی تحلیلوں و معنوی گوشوں اور غیر فطری عناصر سے غفلت کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: مکتب ھای روان شناسی و نقد آن ( خصوصاً نقد مکتب ھا کا حصہ ) دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔
( ٢ ) معر فت یا علم حضوری سے مراد عالم اور درک کرنے والے کے لئے خود شئی کے حقیقی و واقعی وجود کاکشف ہونا ہے اور علم حصولی یعنی درک کرنے والے کے لئے حقیقی و خارجی شی کے وجود کا کشف نہ ہونا ہے ۔بلکہ اس حقیقی اور خارجی شی کے مفہوم یا صورت کو( جو اس وجود خارجی کو بیان کرتی ہے ) درک کرنا ہے اور اس صورت و مفہوم کے ذریعہ اس خارجی شی کودرک کیا جاتا ہے ۔
انسان شناسی،جو علم حصولی کے مفاہیم میں لحاظ کئے جاتے ہیں انسان کی حضوری معرفت اور خدا کے سلسلہ میں حضوری شناخت کے موضوع سے خارج ہیں لہٰذا ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔(١)
قرآن مجید خدا کی حصولی معرفت کے ساتھ انسان کی حصولی معرفت کے رابطہ کو یوں بیان کرتا ہے :
(وَ فِی الاَّرضِ آیات لِلمُوقِنِینَ وَ فِی أَنفُسِکُم أَفَلا تُبصِرُونَ)(٢)
زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں (خدا کے وجود اور اس کے
صفات پر بہت ہی عظیم )ہیں اور تم میں( بھی)نشانیاں (کتنی عظیم )ہیں تو کیا تم
دیکھتے نہیں ہو ۔
اور دوسری آیت میں بیان ہوا :
(سَنُریھِم آیاتِنَا فِی الآفاقِ وَ فِی أَنفُسِھِم حَتیٰ یَتَبَیّنَ لَھُم أَنّہُ الحَقُّ)(٣)
عنقریب ہم اپنی نشانیوں کو پورے اطراف عالم اور ان کے وجود میں دکھائیں گے
یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ حق ہے ۔(٤)
..............
(١)قابل ذکر یہ ہے کہ انسان کی حقیقی سعادت ( انبیاء الٰہی کی بعثت کا ہدف) پروردگار عالم کی عبادت میں خلوص کے ذریعہ ممکن ہے جو اس کی حضوری معرفت کا سبب ہو ۔ لیکن ایسی معرفت کا حصول بغیر علمی مقدمات کے ممکن نہیں ہے یعنی اس کی حقیقت اور عظمت کے حوالے سے اس کی حصولی معرفت ، نیز اس پر عقیدہ رکھنا ، اور مقام عمل میں اس پر پورا اترناہے، اور انسان شناسی کی تحقیق و تحلیل اس حضوری معرفت کی راہ حصول میں پہلا قدم ہے ۔
(٢)ذاریات ٢٠و ٢١۔
(٣)فصلت ٥٣۔
(٤)مراد ؛ معرفت حصولی میں مفاد آیت کا منحصر ہونا نہیں ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں حضوری و حصولی دونوں معرفت مراد ہو لیکن ظاہر آیت کے مطابق معرفت حصولی حتماً مورد نظر ہے ۔
|