انسان اور ایمان
مصنف: استاد شھید مرتضی مطھری
انسان اور حیوان
انسان خود ایک طرح کا حیوان ہے لہٰذا دوسرے جانداروں کے ساتھ اس کی متعدد چیزیں مشترک ہیں لیکن اس کی بعض چیزیں اپنے ہم جنسوں سے مختلف بھی ہیں جو اسے دیگر جانداروں سے ممتاز کرتی ہیں انہیں امتیازات نے انسان کو اعلیٰ و اشرف بنا دیا ہے جن میں کوئی جاندار اس کا رقیب نہیں۔
انسان کا دوسرے جانداروں کے ساتھ بنیادی فرق دو صورتوں میں واضح ہوتا ہے:(۱) ادراکات (۲) رجحانات
یہی فرق انسانیت کا معیار اور انسانی تمدن و ثقافت کا سرچشمہ ہے۔
عام طور پر جاندار نعمت سے بہرہ مند ہیں کہ اپنے آپ اور باہر کی دنیا کو جان سکیں۔ جاندار اپنی اسی آگاہی اور شناخت کے تحت اپنی آرزوؤں اور خواہشات کے حصول کی تگ و دو کرتا ہے۔ انسان بھی دوسرے جانداروں کی خواہشات اور آرزوؤں کا حامل ہے لہٰذا یہ بھی اپنی معرفت کے مطابق ان تک پہنچنے کی جدوجہد کرتا ہے البتہ اس کا دوسرے جانداروں کے ساتھ فرق یہ ہے کہ اس کی آگاہی و معرفت کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اسی طرح اس کی خواہشات اور آرزوئیں بھی اعلیٰ وارفع ہیں یہی چیز انسان کو ممتا ز کرتی ہے عظمت عطا کرتی ہے اور دیگر تمام جانداروں سے جدا کرتی ہے۔

حیوان کی آگاہی و خواہشات کی سطح
اس دنیا کے بارے میں حیوان کی آگاہی فقط ظاہری حواس ہی کے ذریعہ ہوتی ہے بنا برایں :
۱۔ یہ آگاہی سطحی اور ظاہری ہے اشیاء کے اندر اور ان کے اندرونی روابط سے اس کا کوئی سروکار نہیں۔
۲۔ یہ آگاہی انفرادی اور جزوی ہوتی ہے۔ کلیت اور عمومیت سے تہی دامن ہے۔
۳۔ یہ خاص علاقہ تک محدود ہوتی ہے حیوان کی زندگی کے دائرے تک محدود رہتی ہے اس کے اپنے محدود محیط سے باہر نہیں جاتی۔
۴۔ یہ آگاہی حال سے متعلق ہے فقط زمان حال سے مربوط ہے ماضی و مستقبل سے منقطع ہے۔ حیوان اپنی تاریخ سے آگاہ ہے نہ تاریخ عالم سے آشنائی رکھتا ہے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے نہ اس کے لئے کوئی ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔
حیوان شعور کے اعتبار سے ظواہر انفرادیت جزویت محیط زندگی کے ماحول اور زمان حال کی چاردیواری سے باہر نہیں نکلتا۔ حیوان ان چاروں زندانوں میں ہمیشہ کے لئے قید ہے۔ اگر کبھی اس قید و بند سے باہر نکلے تو شعور و آگاہی اور اختیار کے ساتھ باہر نہیں آتا بلکہ غیر شعوری طور پر جبلت و طبیعت کے تحت مجبوراً باہر نکلتا ہے۔
جس طرح کائنات کے بارے میں حیوانی شناخت محدود ہے اسی طرح حیوانی خواہشات بھی خاص حدود ہی کے اندرمقید ہیں۔
اولاً: یہ خواہشات مادی ہیں کھانے پینے کھیلنے سونے گھر بنانے اور جنسی لذت کے حصول تک محدود ہیں حیوان کے لئے اخلاقی و معنوی اقدار معنیٰ نہیں رکھتیں۔
ثانیاً: ذاتی اور انفرادی خواہشات ہیں جو اس کے اپنے ساتھ ہی مربوط ہیں یا زیادہ سے زیاد اس کے اپنے جوڑے اور اولاد کے اردگرد گھومتی ہیں۔
ثالثاً: ایک خاص علاقہ تک محدود ہیں اور اس کی زندگی کے دائرے میں ہیں۔
رابعاً: زمان حال ہی سے متعلق ہوتی ہیں۔
مختصر یہ کہ جو محدودیت حیوان و ادراک کے پہلو میں ہے وہی محدودیت اس کے میلانات و خواہشات میں بھی پائی جاتی ہے لہذا حیوان اس اعتبار سے بھی ایک خاص زندان میں مقید ہے۔
اگر حیوان کسی خاص ہدف کے حصول کی تگ و دو کر رہا ہو یا کسی خاص مقصد کی جانب بڑھ رہا ہو جو اس کے دائرے سے باہر ہے مثلاً اس کی حرکت انفرادی ہونے کی بجائے نوع سے تعلق رکھتی ہو یا حال کی بجائے مستقبل سے مربوط ہو جیسے بعض اجتماعی زندگی گزارنے والے حیوانا ت مثلاً شہد کی مکھی وغیرہ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ سب کچھ وہ غیر شعوری طور پر جبلی تقاضوں کے تحت انجام دے رہی ہوتی ہے یا دوسرے لفظوں میں اس قوت و طاقت کے حکم کے مطابق انجام دیتا ہے جو اس کی کائنات کی خالق و مدبر ہے۔

انسان کی آگاہی اور خواہشات کی سطح
آگاہی و ادراک کا میدان ہو یا خواہشات ومیلانات کا ہر دور تک انسان کی دسترس بہت وسیع اور اعلیٰ ہے۔ انسانی آگاہی و معرفت اشیاء کے ظواہر سے عبور کر کے ان کی ذات و ماہیت کے اندر دور تک سرایت کرتی ہے۔ اس کے باہمی روابط اور ان پر حاکم قوانین میں بھی اثرورسوخ پیدا کر لیتی ہے۔
انسانی آگاہی زمان و مکان کی قید سے مبرا یہ زمان و مکان دونوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتی ہے اس لئے یہ اپنے دائرہ حیات سے ماورا کی بھی آگاہی حاصل کر لیتا ہے۔ یہاں تک کہ دوسرے کرات کی بھی خبر لے آتا ہے۔ انسان اپنے ماضی و مستقبل کے بارے میں معلومات حاصل کر لیتا ہے۔ اپنی تاریخ کے ساتھ ساتھ زمین آسمان پہاڑ دریا جنگلات و نباتات معدنیات و حیوانات اور دنیا کی دوسری مخلوقات کے بارے میں بھی آگاہی حاصل کر لیتا ہے۔ اور آئے دن نئی نئی خبروں کا انکشاف کرتا رہتا ہے۔ مستقبل کے بارے میں بڑی دور کی سوچتا ہے۔ ان سب سے بڑھ کر انسان اپنی فکری قوت کے بل بوتے پر بعض لا محدود اور جاوداں اشیاء کی بھی شناخت حاصل کر لیتا ہے۔ انفرادی اور جزوی شناخت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بہت بلند ہو جاتا ہے۔ کلی قوانین آفاقی حقائق اور کائنات پر حاکم اسرار و رموز کشف کرتا ہے پھر آہستہ آہستہ فطرت پر اپنا تسلط جما لیتا ہے۔
انسان اپنی خواہشات کو بھی رفعتوں سے نوازسکتا ہے۔ انسان ایک ایسا وجود ہے جو اعلیٰ اقدار کے حصول کے لئے پاؤں مارتا ہے اعلی جذبات کا حامل اور کمال کا طالب ہے ایسے عقائد کی تلاش میں رہتا ہے جو مادے کاپابند نہ ہوں اور مفاد پرستی کی آلائشوں سے پاک ہوں ایسے جذبے بیوی بچوں اور ذاتیات ہی میں نہیں کھو جاتے بلکہ خاص عمومیت رکھتے ہیں اور تمام بشریت پر سایہ فگن ہوتے ہیں کسی خاص زمان یا کسی خاص مکان و علاقے تک محدود نہیں ہوتے۔
انسان اس قدر عقیدہ پر ست ہے کہ اسے اپنے عقائد کے سامنے دیگر تمام اشیاء کی قدروقیمت ہیچ نظر آتی ہے۔ انسانوں کی آسائش و خدمت اسے آسائش سے زیادہ اہم دکھاتی ہے دوسروں کے پاؤں میں چبھنے والا کانٹا اسے یوں لگتا ہے جیسے اس کے اپنے پاؤں میں بلکہ آنکھ میں چبھا ہو ہر ایک کو ہمدردی کی دولت بانٹتا پھرتاہے دوسروں کے دکھ میں دکھی اور شادی و سرود میں مسرور وشاداں ہوتا ہے۔ اپنے مقدس عقائد کو یوں دل میں اتار لیتا ہے کہ پھر وہ تمام ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال دیتا ہے یہاں تک کہ پھر ان کی راہ میں اپنی قیمتی ترین متاع حیات بآسانی قربان کر دیتا ہے۔ تمدن بشری کا یہی انسانی پہلو روح تمدن کہلاتا ہے اور یہ انہیں بشری جذبوں و خواہشات سے پیدا ہوتا ہے۔

انسانی امتیاز کا معیار
کائنات کے بارے میں انسان کی وسیع آگاہی اجتماعی بشری کاوشوں ہی کی بدولت ہے۔ اس آگاہی کی تکمیل میں صدیوں کی انتھک محنت کارفرما ہے خاص قواعد و ضوابط اور منطقی اصولوں کے خمیر سے حاصل ہونے والی اس آگاہی و شناختی کو "علم" سے موسوم کیا جا تاہے یہاں علم سے مراد ہے کائنات سے متعلق وہ تمام بشری افکار کا مجموعہ جو انسان کی اجتماعی کوششؤں کا ثمر ہے۔ اور ایک خاص منطقی نظم و ترتیب سے آراستہ ہے۔
انسان کے روحانی رجحانات اس کے ایمان و عقیدہ کی پیداوار ہوتے ہیں۔ دنیا میں موجود بعض حقائق سے انسان کا دلی لگاؤ بھی اس کے رجحانات کی پیدائش کا باعث ہوتا ہے یہ حقائق انفرادیت جزویت اور مادیت سے ماوراء ہوتے ہیں۔ عمومیت کے حامل ہوتے ہیں۔ نفع و سود کے درپے نہیں ہوتے ایسا ایمان اور قلبی لگاؤ اپنے مقام پر خود سے ایسے تصور کائنات کے لئے رحم کا کردار ادا کرتا ہے جو پیامبران خدا نے بشریت کو عطا کیا ہے یا پھر ایمان افروز فکر پیش کرنے والے فلسفی نے پیش کیا ہے۔ مختصر یہ کہ انسان کے یہی حیوانیت سے بلند و بالا روحانی میلانات جب اس کے افکار و اعتقادات کی بنیاد بنتے ہیں تو انہیں ایمان کہا جاتا ہے۔
پس نتیجہ یہ نکلا کہ انسان اور دوسرے جانداروں کے درمیان اہم اور بنیادی فرق علم و ایمان ہے۔ علم و ایمان ہی انسانیت کا معیار ہے اور اسی پر انسان کی انسانیت کا دارومدار ہے۔
انسان اور دوسرے جانداروں کے درمیان تفاوت پر مفکرین نے بہت کچھ کہا ہے بعض کے نزدیک انسان کا دیگر انواع کے ساتھ کوئی بنیادی فرق نہیں ہے آگاہی و شناخت کے مسئلہ کو "تفاوت کمیت" یا زیادہ سے زیادہ "تفاوت کیفیت" میں شمار کرتی ہیں اسے تفاوت ماہیت نہیں سمجھتے۔ مشرق و مغرب کے عظیم فلاسفہ کو انسانی مسئلہ شناخت کے حوالے سے جن عجائب اہمیتوں اور عظمتوں نے بہت متاثر کیا ہے وہ ان لوگوں کی نظروں میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ یہ لوگ انسان کو خواہشات کے میدان میں بھی ہر جہت سے حیوان ہی سمجھتے ہیں اور اس بارے میں معمولی ترین فرق کے بھی قائل نہیں ہوتے۔
(برطانیہ کے معروف فلسفی "ہابر" کی انسان کے بارے میں یہی رائے ہے)
بعض کے نزدیک بنیادی فرق جاندار ہونے میں ہے ان کا نظریہ ہے کہ جاندار ذی حیات ہونا فقط انسان ہی کا خاصہ ہے دوسرے حیوانات احساس رکھتے ہیں۔ نہ میلان و رغبت لذت و الم سے نا آشنا ہیں۔ یہ جانداروں کے مشابہ بے جان مشینیں ہیں۔ جاندار وجود صرف انسان ہے بنا برایں اس کی صحیح تعریف یہ ہو گی کہ انسان ایک جاندار وجود کا نام ہے۔( ڈکارٹ کا مشہور نظریہ )
بعض مفکرین صرف انسان کو دنیا کا جاندار نہیں سمجھتے اس کے اور دوسرے جانداروں کے درمیان بنیادی خصوصیات و تفاوت کے قائل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک گروہ نے انسان کی کسی ایک خصوصیت کو پیش نظر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ مختلف و جوہات کی بناپر انسان کی مختلف تعریفیں ہوئی ہیں۔ مثلاً حیوان ناطق (عقل فکر سے کام لینے والا کمال کا طالب لامتناہی عقیدے کا تمنائی اقدار کا متلاشی مافوق الفطرت حیوان سیر نہ ہونے والا غیر معین ذمہ داری اٹھانے والا دور اندیش آزادو خود مختار گناہگار سماجی قانون کا پابند حسن کا شیدائی انصاف پسند دوغلا حامل فرائض عاشق باضمیر بے خبر ایجادوتخلیق کرنے والا تنہا مضطرب عقیدہ پرست آلات ساز مہم جو خیال تراش روحانی اور دروازہ روحانیت وغیرہ۔ یہ بات واضح ہے کہ ان میں ہر ایک برتری اپنے مقام پر ٹھیک ہے لیکن اگر ہم کوئی جامع اصطلاح یا عبارت پیش کرنا چاہیں جو ان تمام تعریفات کی جامع ہو تو پھر شاید "علم و ایمان" کی بنیاد پر ممتاز ہے۔

انسانیت بنیا دیا عمارت
ہم جان چکے ہیں کہ انسان ایک قسم کا حیوان ہے اس لئے دوسرے تمام جانداروں کے ساتھ اس کی بہت ساری چیزیں مشترک ہیں اور یہ بعض بنیادی فرق بھی رکھتا ہے جن وجہ سے انسان دوسرے جانداروں سے ممتاز ہوتا ہے۔ انسان حیوان سے اپنی مشترک و امتیازی و جوہات کی بناء پر دو طرح کی زندگی کا حامل ہے۔ حیوانی اور انسانی زندگی یا دوسرے معنوں میں مادی اور ثقافتی زندگی۔
اب یہاں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ انسان کی حیوانیت اور انسانیت میں کیا ربط ہے؟ بحث یہ ہے کہ انسان کی حیوانی زندگی اور انسانی زندگی کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ یا انسان کی مادی زندگی اور روحانی و تمدنی زندگی کا باہم کیا جوڑ بنتا ہے؟ کیا ان دونوں میں سے کوئی ایک جڑ کا کام دیتی ہے اور دوسری اس کی شاخ و برگ کی مانند ہے؟ ایک اساس کے طور پر ہے تو دوسری اس کا پر تو اور انعکاس ہے؟ ایک بنیاد ہے تو دوسری اس کے اوپر قائم ہونے والی عمارت ؟ آیا مادی زندگی بنیاد ہے اور ثقافی زندگی عمارت ہے؟
آج کل بحث مباحثوں میں سماجی پہلوزیادہ غالب رہتا ہے اور نفسیاتی پہلو نظر انداز کر دیا جاتا ہے سماجیات کو اہمیت دی جاتی ہے اور ماہرین نفسیات کی آراء پس پشت ڈال دی جاتی ہیں لہٰذا بحث کی صورت یوں بنتی ہے کہ آیا اجتماعی و معاشرتی شعبوں کی اقتصادیات ہی بنیاد بنتی ہے چونکہ پیداوار اور پیداواری روابط اسی پر منحصر ہیں اور باقی تمام سماجی پہلواس کا پر تو ہیں۔ خصوصاً وہ شعبے جو انسان کی انسانیت کے علم بردار ہیں۔ وہ بھی اقتصادی بنیادپر اٹھنے والی عمارت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیا سائنس فلسفہ ادب دین قانون اخلاق اور فن ہر دور میں اقتصادی و معاشی حقیقتوں ہی کے مظاہر رہے ہیں اور خود بنیاد کی حیثیت نہیں رکھتے۔
جی ہاں! آج کل جو بحث ہے وہ اس اندا زمیں ہے لیکن سماجیات کی اس بحث کا نتیجہ بہرحال علم نفسیات (سائیکالوجی) ہی پر منتہی ہوتا ہے۔ پھر یہ بحث انسان کی اصلیت و حقیقت کے بارے میں موجود فلسفی بحث میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ وہ یوں کہ انسان کی انسانیت کسی صورت بھی اصالت کی مالک نہیں فقط اس کی حیوانت اصالت سے بہرہ مندہے۔ حیوانیت کے مقابلے میں انسان کے اندر انسانیت نام کی کوئی اصالت موجود نہیں ہے۔ اس سے اسی نظریے کی تائید ہوتی ہے جو انسان اور حیوان کے درمیان کسی بنیادی فرق کا قائل نہیں۔
اس نظریہ کے مطابق خیر خواہی حقیقت جوئی جمال پرستی اور خدا پرستی جیسے انسانی رجحانات کی اصالت کا انکار ہوتا ہے مزید اس سے اس امر کی بھی نفی ہو جاتی ہے کہ انسان کائنات اور حقیقت سے متعلق حقیقت پسند ہو سکتا ہے کیوں کہ پھر کوئی نظریہ فقط نظریہ نہیں ہو سکتا غیر جانبدار رائے نہیں ہو سکتی بلکہ نظریہ کسی خاص مادی رجحان ہی کا نتیجہ ہو گا۔ تعجب ہے کہ اس نظریے کے حامل بعض مکاتب انسانیت کا دم بھی بھرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے ارتقاء کا سلسلہ حیوانیت سے شروع ہوتا ہے اور انسانیت کے کمال تک جا پہنچتا ہے۔ یہ اصول ایک ایک فرد پر بھی پورا اترتا ہے اور معاشے پر بھی صادق آتا ہے ۔
انسان اپنے وجود کی ابتداء میں ایک مادی جسم ہوتا ہے۔ جوہری تکامل کے ساتھ ساتھ روح یا جوہر روح میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ انسانی روح جسم کے دامن میں آنکھ کھولتی ہے پروان چڑھتی ہے اور آزادی کی دولت سے مالا مال ہو جاتی ہے۔
انسانیت کی حیوانیت بھی اس گھونسلے اور آشیانے کے مترادف ہے جس میں اس کی انسانیت پروان چڑھ کر کمال حاصل کرتی ہے۔ کمال کی خاصیت یہ ہے کہ وجود مکمل جس قدر بھی کمال حاصل کرتا جائے گا مستقل آزاد قائم بالذات اور اپنے محیط پر حاکم اور موثر ہوتا چلا جائے گا۔ لہذا انسان کی انسانیت فرد میں یا معاشرے میں جس قدر کمال حاصل کرے گی۔ استقلال اور تمام جوانب پر حاکمیت کی جانب گامزن رہے گی۔ کمال حاصل کرنے والا انسان ایک ایسا فرد ہے جو اندرونی و بیرونی ماحول کے تسلط و حاکمیت سے مبرا ہو اور عقیدہ و ایمان سے وابستہ ہو۔ معاشرے کی تکمیل بھی عیناً اسی طرح وقوع پذیر ہوتی ہے جیسے تکمیل روح جسم کے دامن میں اور فرد کی انسانیت کی تکمیل اس کی حیوانیت کے دامن میں انجام پاتی ہے انسانی معاشرہ زیادہ تر اقتصادی شعبوں کے خمیر سے ہی پروان چڑھتا ہے۔ معاشرے کے ثقافتی اور روحانی پہلومعاشرے کی روح کی طرح ہوتے ہیں جیسے جسم اورروح ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی طرح معاشرے کی روح اور بدن ایک دوسرے پر اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یعنی مادی شعبوں کے درمیان ایسے ہی روابط ہوتے ہیں۔جیسے فرد کے تکامل کا سفر روح کی زیادہ سے زیادہ آزادی استقلال اور حاکمیت کی جانب ہوتا ہے۔ معاشرے کی تکمیل بھی اس نہج پر ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیے زندگی پر آزادی و حاکمیت اور ثقافتی زندگی کا غلبہ ہوتا جاتا ہے۔
مستقبل کا انسان اقتصادی حیوان نہیں بلکہ ثقافتی حیوان ہے مستقبل کا انسان شکم پرور نہیں بلکہ عقیدہ و ایمان اور مسلک کا انسان ہے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلامی معاشرہ ایک جبر کے تحت قدم بہ قدم صراط مستقیم پر انسانی اقدار کی طرف رواں دواں ہے اور انسانی معاشرہ اس اعتبار سے ہر زمانے میں پہلے ایک قدم آگے ہوتا ہے۔
ممکن ہے انسانی معاشرتی و اجتماعی زندگی کی تمام تر مادی و سائنسی ترقی کے باوجود روحانی اعتبار سے گذشتہ ادوار کی نسبت پستی کا شکار ہو جیسا کہ آج ہمارے اس دور کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی حرکت میں مجموعی طور پر مادی و روحانی دونوں میدانوں میں پیش رفت کر رہا ہے۔ روحانی اعتبار سے انسان کی تکمیل حرکت بالکل سیدھی خط مستقیم پر نہیں ہوتی بلکہ گاہ بگاہ دائیں بائیں منحرف ہوتی رہتی ہے اور بعض اوقات ٹھہراؤ پھر باز گشت سے بھی دو چار ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود مجموعی طور پر ایک تکمیل حرکت ہے اس بناء پر ہم کہتے ہیں کہ مستقبل کا انسان ثقافتی حیوان ہے نہ کہ اقتصادی مستقبل کا انسان شکم پرور نہیں بلکہ ایمان و عقیدہ کا انسان ہے۔
اس نظریہ کے تحت انسان پہلے اپنی اصالت کی وجہ سے پیداواری آلات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ بلکہ ان سے بڑھ کر تکمیلی مراحل طے کرتا ہے۔ اپنی اسی تکمیل کی بناء پر قدرتی اور معاشرتی ماحول سے اس کی وابستگی اور تاثیر پذیری میں بھی آہستہ آہستہ کمی واقع ہوتی رہتی ہے دوسری طرف عقیدے ایمان مسلک اور نظریات کے ساتھ اس کی وابستگی ہوگی اور قدرتی و اجتماعی ماحول آزادی استقلال اور عقیدہ و ایمان کے ساتھ مکمل وابستگی ہو گی اور قدرتی و اجتماعی ماحول آزادی استقلال اور عقیدہ و ایمان کے ساتھ مکمل وابستگی حاصل کر لے گا۔ اگرچہ گذشتہ ادوار میں انسان نے اپنے وجود اور قدرتی نعمتوں سے کمتر فائدہ اٹھایا ہے اور زیادہ تر اپنی حیوانیت اور فطرت ہی کا اسیر رہا ہے۔ لیکن مستقبل کا انسان جہاں اپنے وجود اور فطرت سے پہلے بڑھ کر مستفید ہو گا وہاں ان کی قید سے نسبتاً زیادہ آزاد ہو گا اور ان دونوں پر اپنے غلبے میں اضافہ کرے گا۔ اس نظریہ کے مطابق انسان کی حقیقت اگرچہ حیوانی و مادی تکمیل ہی کے دامن میں ترقی کے زینے طے کرتی ہے لیکن کسی صورت میں مادی تکامل کے زیر سایہ یا تابع نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ خود سے علیحدہ آزاد مستقل اور کمال حاصل کرنے والی ایک حقیقت ہے۔ یہ مادی پہلوں سے اثر قبول کرتی ہے اور ان پر موثر بھی ہوتی ہے۔ انسان کا خالص تمدنی ارتقاء اور اصل انسانی حقیقت ہی دراصل انسان کی قسمت و تقدیر کا آخری فیصلہ کریں گے نہ کہ ترقی یافتہ پیداواری آلات انسان کی یہ اصل حقیقت اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ اور زندگی کے باقی شعبوں کے ہمراہ پیداواری آلات کو بھی کمال بخشتی ہے۔ پیداواری آلات خود بخود ترقی کے زینے طے نہیں کرتے۔ جیسے اوزار کے ترقی یافتہ ہونے سے پیداواری نظام ارتقاء پاتا ہے تو گویا اس نظا م میں تغیر و تبدل کی گنجائش موجود ہے۔ انسان کی انسانیت میں بھی اسی طرح تغیر و تبدل آتا رہتا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں تکامل ہوتا ہے اور انسانیت پیداواری نظام کو بھی کامل کر دیتی ہے۔

علم و ایمان
علم و ایمان کا باہمی رابطہ
ہم انسان کی انسانیت اور حیوانیت کے باہم رابطہ کو جان چکے ہیں یا دوسرے الفاظ میں انسان کی ثقافتی تمدنی اور معنوی زندگی کے ساتھ اس کی مادی زندگی کے رابطے کو بیان کر چکے ہیں۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کی انسانیت اصالت و استقلال رکھتی ہے یہ فقط اس کی حیوانی زندگی کا پر تو نہیں ہے۔ نیز یہ بھی واضح ہوا کہ علم وایمان انسان کی انسانیت کے بنیادی ارکان میں سے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دو ارکان یا انسانیت کے ان دورخوں کا آپس میں کیا رابطہ ہے یا آئندہ کیا رابطہ ہو سکتا ہے؟
یہ بات قابل افسوس ہے کہ عیسائیوں کے ہاں عہد عتیق ( تورات) کے بعض تحریفی حصوں کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں ایک فکر راسخ ہو چکی ہے جو علم و ایمان دونوں کو مہنگی پڑی ہے اور وہ فکر یہ ہے کہ علم و ایمان باہم متضاد ہیں۔ اس فکر کی اصل بنیاد وہی سوچ ہے۔ جو "عہد عتیق" کے "سفر پیدائش" میں ملتی ہے۔ سفر پیدائش باب دوم آیت ۱۶ میں آدم بہشت اور شجرہ ممنوعہ کے بارے میں یوں ملتا ہے۔
خدا نے آدم کو حکم فرمایا "باغ کے تمام درختوں سے بلا روک ٹوک کھاؤ لیکن معرفت نیک و بد کے درخت سے ہر گز نہ کھانا جس دن تم نے اس سے کھایا یقینا موت کے منہ میں چلے جاؤ گے۔"
باب سوم آیت نمبر ایک سے لے کر آٹھ میں ارشاد ہے:
"خدا کے بنائے ہوئے صحرائی جانوروں میں سب سے زیادہ ہوشیار سانپ تھا اس نے خاتون (حوا) سے کہا: کیا خدا نے واقعاً کہا ہے کہ باغ کے تمام درختوں سے نہ کھانا؟ خاتون نے سانپ سے کہاکہ باغ میں موجود درختوں کے پھل تو ہم کھاتے ہیں لیکن باغ کے درمیان میں موجود جو درخت ہے اس کے بارے میں خدا نے کہا ہے کہ اس کا پھل نہ کھانا اور نہ ہی اسے چھونا مبادا ! موت کے منہ میں جا پڑو۔ سانپ نے خاتون سے کہا تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا کو پتہ ہے کہ جس دن تم نے اس درخت سے کچھ کھالیا تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی طرح نیک و بد سے آگاہ ہو جاؤ گے۔ اب جب خاتون نے دیکھا کہ اس درخت سے کھانا بہتر ہے تو اس کی نظروں میں یہ بھلا دکھائی دینے لگا اسے دل پذیر و علم افزا سمجھ کر اس کا پھل کھا لیا اور اپنے شوہر کو بھی دیا تو اس نے بھی کھالیا اب ان دونوں کی آنکھیں کھل گئیں تو وہ سمجھ گئے کہ وہ عریاں ہیں لہذا انجیر کے پتے جوڑ کر دونوں نے اپنی شرم گاہ ڈھانپی۔"
اسی باب کی آیت ۲۳ ملاحظہ فرمائیں:
"خدا وند نے کہا ! اب تو انسان بھی ہم جیسا ہو گیا ہے کیوں کہ عارف نیک و بد ہو گیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مزید دست درازی کرے اور درخت حیات سے بھی کھالے اور پھرتا ابد زندہ رہے۔"
انسان خدا عرفان اورگناہ کی جو شناخت یہاں کی گئی ہے اس سے تو یوں لگتا ہے کہ خدا (دین) کا حکم یہ ہے کہ انسان نیک و بد کی پہچان حاصل نہ کرے آگاہی و معرفت کے قریب نہ پھٹکے۔ آگاہی کو شجرہ ممنوعہ قرار دیا گیا ہے انسان گناہ کا ارتکاب اور خدا کے حکم سے روگردانی کر کے (شریعت اور پیامبروں کی تعلیمات سے منہ موڑ کر ) معرفت و آگاہی حاصل کر سکتا ہے۔ اسی بناء پر اسے بہشت سے نکال باہر کیا گیا ہے۔ اس نظریے کے مطابق تمام وسوسوں کا سرچشمہ آگاہی ہے لہذا وسوسے کرنے والا شیطان در حقیقت عقل ہی ہے۔
ہم مسلمانوں نے قرآن سے یہ سیکھا ہے کہ خدا نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اسماء (حقائق) بتا دئیے اور پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں۔ شیطان اس لئے راندہ درگاہ ہوا کہ اس نے حقائق سے آگاہ خلیفة اللہ کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اسی طرح سنت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ شجرہ ممنوعہ حرص و طمع جیسی تھیں یعنی ایسی جو آدم کی حیوانیت سے متعلق تھیں یہ چیزیں اس کی انسانیت سے مربوط نہ تھیں۔ وسوسے ڈالنے والا شیطان ہمیشہ عقل کے خلاف اور حیوانی ہوائے نفس کے مطابق وسوسے ڈالتا ہے۔ انسانی وجود میں مظہر شیطان عقل نہیں نفس امارہ ہے۔ بنا برایں قرآن و سنت کی ان تعلیمات کے پیش نظر "سفر پیدائش کے مطالب ہمارے لئے انتہائی تعجب خیز ہیں۔
اسی فکر نے یورپی تمدن کی تاریخ کو گذشتہ پندرہ صدیوں میں ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ ایک دور کو ایمان سے تعبیر کرتے ہیں اور دوسرے دور کو علم کا زمانہ کہتے ہیں۔ اس فکر نے علم و ایمان کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لا کھڑا کیا ہے ۔ جبکہ اسلامی تمدن کی تاریخ ان ادوار میں تقسیم ہوتی ہے ایک عروج کا زمانہ جو علم و ایمان کا زمانہ ہے۔ دوسرا زوال کا زمانہ کہ جس میں علم و ایمان دونوں انحطاط و پستی کا شکار ہیں۔ ہم مسلمانوں کو ان کی اس غلط فکر سے دور رہنا چاہئے جس کی وجہ سے علم ایمان اور انسانیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ہمیں آنکھیں بند کر کے خوا ہ مخواہ علم وایمان کو باہم متضاد نہیں سمجھنا چاہئے۔
اب ہم ایک تحقیقی انداز سے مسئلہ کو پیش کرتے ہیں اور اس پر یہ عالمانہ بحث کرتے ہیں کہ آیا انسانیت کی یہ دو بنیادیں واقعاً دو جدازمانوں سے تعلق رکھتی ہیں؟ کیا انسان مجبور ہے کہ ہمیشہ آدھا انسان رہے اور ہر دور میں صرف آدھی انسانیت رکھتا ہو؟کیا انسان مجبور ہے کہ ہمیشہ ان دو بد بختوں میں سے کسی ایک کا شکار رہے؟ ایک جہل و نادانی سے پیدا ہونے والی بدبختیاں اور دوسری ایمان کے فقدان سے پیدا ہونے والی بدبختیاں۔
یہ بات بعد میں واضح ہو گی کہ ہر ایمان کی بنیاد بہر حال کائنات کے بارے میں ایک خاص فکر و نظر پر قائم ہوتی ہے اور بلا شبہ کائنات کے بارے میں ایسے متعدد افکار و عقائد علمی اصولوں کے مطابق نہیں ہیں اور جو بہرحال مسترد کر دئیے جانے کے قابل ہیں البتہ ہمارا موضوع بحث یہ نہیں بلکہ ہماری بحث اس بارے میں ہے کہ آیا کائنات و ہستی کے بارے میں کوئی ایسی فکر یا نظریہ موجود ہے جو سائنس و فلسفہ اور منطق کی کسوٹی پر بھی پورا اترتا ہو اور سعادت بخش ایمان کے لئے ایک مضبوط بنیاد بھی بن سکے؟
اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ ایسی فکر یا تصور کائنات میں موجود ہے تو پھر انسان مجبور نہیں کہ دو بد بختیوں میں سے کوئی ایک ضرور اس کے نصیب میں ہو۔
علم وایمان کے باہمی رابطہ پر دو پہلوؤں سے بات ہو سکتی ہے۔ پہلا یہ کہ آیا کوئی ایسا نظریہ ہے جو علم و منطق کی کسوٹی پر پورا اترنے کے ساتھ ساتھ ایمان و عقیدہ کی پیدائش کا باعث بھی ہو علم و فلسفہ کے عطا کردہ افکار ایمان عقیدے امید اور خوش بینی کے خلاف ہیں۔ اس مسئلہ پر ہم تصور کائنات کے عنوان سے بعدمیں بحث کریں گے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایک طرف علم کے انسان پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جائے اور دوسری طرف ایمان کی تاثیر بھی دیکھی جائے۔ کیا علم انسان کو جس چیز کی دعوت دیتا ہے ایمان اس کے برخلاف پکارتا ہے؟ کیا علم ہماری تربیت جس انداز سے کرنا چاہتا ہے ایمان اس کے برعکس ہماری تربیت کا متمنی ہے؟ کیا علم ہمیں جس طرف کھینچتا ہے ایمان اس کے متضاد کہیں اور گھسیٹتا ہے؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ علم اور ایمان ایک دوسرے کی تکمیل کا باعث بنتے ہیں؟ ہمارے آدھے حصے کی تعمیرعلم کرتا ہے اور باقی آدھے حصے کو علم کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے ایمان پروان چڑھاتا ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ علم ہمیں کیا دیتا ہے اور ایمان کیا بخشتا ہے؟ علم روشنی اور توانائی عطا کرتا ہے۔ ایمان عشق امید اور دل گرمی کا باعث بنتا ہے۔ علم آلات بناتا ہے اور ایمان مقصد علم سرعت دیتا ہے اور ایمان جہت علم کر سکنا ہے اور ایمان اچھا چاہنا علم بتاتا ہے کہ کیا ہے اور ایمان ہدایت کرتا ہے کہ کیا کرناچاہئے ؟ علم بیرونی انقلاب ہے اور ایمان اندرونی انقلاب ہے۔ علم جہان کو جہان آدمیت بناتا ہے اور ایمان روح کو روح آدمیت بناتا ہے۔ علم انسانی وجود کو افقی سطح تک ترقی دیتا ہے اور ایمان انسان کو عمودی سطح پر اوپر لے جاتا ہے علم طبیعت ساز ہے اور ایمان انسان ساز علم بھی انسان کو طاقت عطا کرتا ہے اور ایمان بھی لیکن علم کی طاقت منفصل ہوتی ہے اور ایمان کی طاقت متصل ہوتی ہے۔ علم جمال ہے اور ایمان بھی جمال لیکن علم حسن عقل اور ایمان جمال روح علم حسن فکر ہے اور ایمان جمال احساس علم بھی انسان کو اطمینان عطا کرتا ہے اور ایمان بھی۔ علم اطمینان خارجی عطا کرتا ہے اور ایمان سکون داخلی۔ علم بیماری سیلاب زلزلہ اور طوفان کے مقابل پناہ گاہ ہے اور ایمان اضطراب پریشانی تنہائی احساس محرومی اور بے وقتی کے مقابل پناہ گاہ ہے۔ علم دنیا کو انسان کے لئے ساز گار کرتا ہے اور ایمان انسان کو انسان کے لئے ساز گار کرتا ہے۔
انسان کے لئے علم و ایمان کی اکٹھی ضرورت ہے یہ بات مذہبی و غیر مذہبی مفکرین کی انتہائی توجہ کا مرکز رہی ہے علامہ اقبال کہتے ہیں:
آج بشریت کو تین چیزوں کی احتیاج ہے کائنات کی روحانی تعبیر کی جائے فرد کو روحانی آزادی حاصل ہو ایسے بنیادی اور بااثر جہانی اصول جو انسانی معاشرے کے تکامل کی روحانی توجیہ کریں اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید یورپ نے ان شعبوں میں مثالی فکری ادارے قائم کیے ہیں۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ صرف عقل کے ذریعے حاصل ہونے والی حقیقت میں ایک زندہ عقیدے کی سی حرارت نہیں ہو سکتی کیوں کہ یہ فقط شخصی الہام کا نتیجہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ عقل محض نے نوع بشر پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالا۔ جبکہ دین ہمیشہ افراد کی ترقی اور معاشروں کے تغیر وتبدل کا سبب رہا ہے۔
یورپ کی مثالیت پسندی ایک زندہ عامل کی صورت میں اس کی حیات میں ہر گز داخل نہیں ہو سکی اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خودی سرگرداں ہے۔
یقین کریں کہ آج کا یورپ انسانی اخلاق کی پیش رفت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جبکہ مسلمان وحی پر مبنی ایسیے افکار اور نظریات سے مالا مال ہیں جو زندگی کی بہت گہرائیوں سے حاصل ہوتے ہیں ۔ ان کے ظاہر کو باطنی رنگ عطا کرتے ہیں۔ مسلمان شخص کے لئے زندگی کا روحانی پہلو چونکہ ایک اعتقادی مسئلہ ہے لہذا اس اعتقاد کے دفاع میں وہ خوشی سے جان کی بازی لگا دیتا ہے۔("احیاء فکر دینی دراسلام "، ترجمہ احمد اسلام ص۲۰۳)
ویل ڈیورانٹ مشہور کتاب "تاریخ تمدن" کا مصنف اگرچہ غیر مذہبی شخص تھا اس کے باوجود کہتا ہے قدیم دنیا اور آج کی جدید مشینی دنیا میں فرق صرف وسائل کی بناء پر ہے۔ مقاصد کے اعتبار سے ان میں اختلاف نہیں… اب اس مسئلہ پر آپ کیا کہیں گے اگر ہماری تمام تر ترقی و پیش رفت صرف وسائل اور روش کی اصلاح تک محدود ہو اور اہداف و مقاصد کی بہترین نہ ہو۔( ندات فلسفہ ص ۲۹۲)
مزید کہتا ہے کہ
"دولت تھکا دیتی ہے عقل و حکمت ایک سرد اور دھیمی ہی روشنی
ہے لیکن عشق ناقابل بیان حد تک دلجوئی کرتے ہوئے دلوں کو گرماتاہے۔"(ندات فلسفہ ص ۱۳۵)
آج پیشتر اس بات کا اندازہ ہو چکا ہے کہ سینتھسزم (Synthesism)محض علم پسندی اور خالص سائنسی تربیت ایک مکمل انسان بنانے سے قاصر ہے۔ نری علمی تربیت آدھا انسان بناتی ہے مکمل انسان نہیں بناتی۔ اس تربیت کے نتیجہ میں انسان خام مال ہوتا ہے اس کی تکمیل نہیں ہوتی۔ ایسی تربیت سے انسان توانا قوی بنتا ہے لیکن بافضیلت نہیں ہوتا۔ انسان کے ایک پہلو کی تعمیر ہوتی ہے اور باقی تمام پہلو تشنہ رہ جاتے ہیں۔ آج سب یہ بات سمجھتے ہیں کہ علم محض کا دور ختم ہو چکا ہے اور اب معاشرے میں عقیدے کا فقدان خطرناک صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ بعض لوگ اس فقدان کو فلسفہ محض سے پورا کرنا چاہتے ہیں جبکہ بعض دوسرے افراد ادبیات آرٹ اور علوم انسانی کی مدد سے عقیدے کا خلا پر کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک (ایران) میں بھی انسان دوستی کی ثقافت کی باتیں اور خصوصاً مولانا روم سعدی اور حافظ جیسے شعراء کے عرفانی کلام کی تجاویز بھی اسی عقیدتی و معنوی خلا کو پر کرنے کی کوششیں ہیں جبکہ یہ لوگ اس بات سے غافل ہیں کہ ان ادبیات کی روح اور کشش مذہب ہی کی وجہ سے ہے۔ ان ادبیات کی انسان دوستی والی روح در حقیقت وہی اسلامی مذہبی روح ہے۔ وگرنہ آج کی نئی ادبیات اپنی تمام تر انسان دوستی کے اظہار کے باوجود کیونکر سرد اور بے جان ہیں؟ ان میں کیوں کشش دکھائی نہیں دیتی؟ ہماری عرفانی ادبیات کا انسانی پہلو انسان و کائنات کے بارے میں ایک خاص طرز فکر کی پیداوار ہے جو در حقیقت اسلامی فکر ہی ہے۔ اگر ان ادبی شہ پاروں سے اسلامی روح نکال دی جائے تو باقی مردہ جسم اور کوڑا کرکٹ کے علاوہ کچھ نہ بچے گا۔
اس خلا کو محسوس کرنے والوں میں سے ایک ویل ڈیورنٹ بھی ہے اس نے ادب فلسفہ اور آرٹ کے ذریعے اس خلا کو پر کرنے کی تجویز دی ہے۔ وہ کہتا ہے:
ہمارے سکولوں میں اور یونیورسٹیوں کو اسپنسر(انیسویں صدی کا مشہور برطانوی فلسفی) کے نظریہ تربیت سے بہت زیادہ نقصانات اٹھانے پڑے ہیں اسپنسر نے تربیت کی تعریف یوں کی ہے کہ انسان کو اس کے ماحول سے ہم آہنگ کیا جائے۔ یہ تعریف بے جان اور میکانیاتی ہے۔ اس نے میکانیات کی برتری کے فلسفے سے جنم لیا ہے۔ ہر تخلیقی زمین اور روح اس سے متنفر ہے۔ اس نظریہ تربیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے تعلیمی ادارے نظری اور میکانیات علوم سے معمور ہیں اور ادب تاریخ فلسفہ اور آرٹ جیسے مضامین سے خالی ہیں۔ ایسے مضامین ان کے نزدیک بے فائدہ ہے۔ تربیت کا حاصل آلات و اوزار کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ایسی تربیت انسان کو حسن و جمال سے بیگانہ بنا دیتی ہے۔ اسے حکمت سے الگ تھلگ کر دیتی ہے۔ اگر اسپنسر کوئی کتاب نہ لکھتا تو یہ دنیا کے لئے اچھا ہوتا ۔(ندات فلسفہ ص۲۰۶)
یہ بات انتہائی تعجب انگیز ہے کہ ویل ڈیورنٹ اعتراف تو کرتا ہے کہ موجودہ بحران اعتقادی بحران ہے۔ یہ خلا عقائد اہداف اور مقاصد کا خلا ہے۔ ایک ایسا خلا جو بے ہودہ پستیوں کا شکار ہے علاوہ ازیں ویل ڈیورنٹ اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ یہ خلا انسانی اہداف اور مقاصد کے بارے میں کوئی خاص سوچ اور ایمان نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ ان تمام اعترافات کے باوجو اس کاخیال یہ ہے کہ ہر طرح کی معنویت سے اس کی چارہ جوئی ہو سکتی ہے خواہ وہ معنویت قوت تخیل تک ہی محدود کیوں نہ ہو۔ اس کے خیال میں آرٹ شعر موسیقی اور تاریخ جیسے شعبے اس خلا کو پُر کرنے کی صلاحیت و قدرت رکھتے ہیں جو انسان کی عقیدہ پرستی اور کمال مطلوب تک پہنچنے کی فطری خواہش سے پیدا ہوتی ہے۔

علم و ایمان کی جانشینی
ہم یہ جان چکے ہیں کہ علم و ایمان فقط متضاد نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کاباعث بنتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ دونوں ایک دوسرے کی جگہ لے سکتے ہیں۔
جب ہم یہ جان چکے ہیں کہ علم کا کیا کردار ہے اور ایمان کیا کردار ادا کرتا ہے تو ایسے سوال اور جواب کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہ بات واضح ہے کہ علم ایمان کا جانشین نہیں ہو سکتا۔ ممکن نہیں کہ علم توانائی اورروشنی کے ساتھ ساتھ عشق و امید بھی عطا کرے اورعلم ہماری خواہشات کی سطح بلند کرے اور علاوہ اس کے کہ اہداف و مقاصد کے حصول میں مدد دے۔ وہ خواہشات عقائد اور مقاصد ہم سے لے طبیعت جبلت کے تحت جن کا محور ایک شخص کی ذات اور خود غرضی ہوتی ہے اور ان کے بدلے ہمیں ایسے عقائد و اہداف عطا کرے جن کا محدود روحانی و معنوی عشق و محبت ہو علم کوئی ایسا آلہ نہیں جو ہماری ماہیت اور جوہر کو بدل سکے اسی طرح ایمان بھی علم کا جانشین نہیں ہو سکتا۔ ایمان ہمیں جہان طبیعت کی پہچان بھی نہیں کروا سکتا۔ اس پر حاکم قوانین پر اکتفا نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ ہمیں ہماری پہچان بھی نہیں کروا سکتا۔
تاریخی تجربات اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ علم و ایمان کی جدائی سے انسانی معاشرے نے ناقابل تلافی نقصانات اٹھائے ہیں۔ ایمان کی شناخت علم ہی کے سائے میں ہونی چاہئے۔ ایمان علم کی روشنی میں خرافات سے دور رہتا ہے۔
اگر علم ایمان سے دور ہو جائے تو پھر ایمان جمود اور اندھے تعصب کا شکار ہو جاتا ہے۔ اپنے ہی گرد بڑی تیزی سے گھومتا رہتا ہے اور پھر کسی منزل تک پہنچانے کے قابل نہیں رہتا۔ جہاں علم و معرفت نہ ہو وہاں نادان مومنوں کا ایمان چالاک و عیار منافقوں کے ہاتھوں کھلونا بن جاتا ہے۔ اس کی مثال صدر اسلام میں خوارج کی شکل میں دکھائی دیتی ہے اور بعد کے ادوار میں بھی مختلف صورتوں میں جابجا مل جاتی ہے۔ ایمان سے خالی علم کسی پاگل کے ہاتھ میں تلوار کی مانند ہے اور ایسا علم نصف شب چور کے ہاتھ میں چراغ کی مانند ہے تاکہ وہ آسانی سے اچھے سے اچھا مال لے جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے تہی از ایمان عالم اور کل ایمان سے خالی جاہل انسان کے رویے اور کردار میں طبیعت و ماہیت کے اعتبار سے ذرہ بھر فرق نہیں ہے۔ کل کے فرعون چنگیز اور آتیلا اور آج کے چرچل جانسن نکسن اور سٹالن جیسے لوگوں میں کیا فرق ہے؟
یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا علم نور اور طاقت نہیں ہے؟ علم کا نور اور طاقت ہونا فقط بیرونی دنیا سے متعلق نہیں ہے بلکہ علم ہمارے اندر کی دنیا بھی ہمیں دکھاتا ہے اور اسے ہم پر واضح کرتا ہے بنا برایں ہمیں اپنے اندر کی دنیا تبدیل کرنے کی طاقت بھی عطا کرتا ہے لہذا علم دنیا کی بھی تعمیر کر سکتا ہے اور ایمان کا کام (انسان سازی) بھی کرتا ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ سب باتیں درست ہیں لیکن یہاں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ علم کی قدرت و توانائی ایک اوزار کی سی طاقت و توانائی ہے یعنی اس کا انحصار انسان کے ارادے اورحکم پر ہے۔ انسان کسی بھی میدان میں کوئی کام کرنا چاہے تو علم کے آلہ کی مدد سے بہتر انجام دے سکتا ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ مقاصد کے حصول میں علم انسان کا بہترین مددگار ہے۔
البتہ بحث یہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ انسان آلات کے استعمال سے پہلے مقصد پیش نظر رکھتا ہے کیوں کہ آلات ہمیشہ مقصد کے حصول کے لئے خدمت پر مامور ہوتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ یہ مقاصد کہاں سے پیدا ہوئے ہیں؟
چونکہ انسان طبیعی لحاظ سے حیوان ہے اور اکتسابی اعتبار سے انسان یعنی انسانی صلاحیتوں کو ایمان ہی کے سائے میں تدریجاً پروان چڑھنا چاہئے۔ انسان اپنی طبیعت کے زیر اثر مادی ذاتی حیوانی اور طبیعی مقاصد کی طرف خود بخود آگے بڑھتا ہے۔ آلات کو اسی راہ میں استعمال کرتا ہے۔ لہذا ایک ایسی قوت کی ضرورت ہے جو انسان کا مقصد و آلہ نہ ہو بلکہ انسان کو ایک آلہ کی طرح اپنی طرف حرکت دے۔ ایسی قوت چاہئے جو انسان کے اندر ایک دھماکہ کرے اور اس کی پوشیدہ صلاحتیوں کو بروئے کار لائے۔ ایک ایسی طاقت کی ضرورت ہے جو ضمیر میں انقلاب برپا کردے اور نئے نئے افق عطا کرے۔ یہ ایسے کام ہیں جو علم اور سائنس کے بس میں ہیں اور نہ ہی انسان و طبیعت پر حاکم قوانین کے کشف کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ البتہ انسانی روح میں بعض قدروں کے مقدس و گراں بہا ہونے سے یہ بات بن سکتی ہے اور ان قدروں کا تقدس انسان کے اعلیٰ میلانات و رجحانات سے پیدا ہوتا ہے اور خود یہ رجحانات بھی انسان و کائنات کے بارے میں ایک خاص طرز تفکر کی پیدائش ہوتے ہیں ان میلانات کو کسی لیبارٹری یا قیاس و استدلال سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس خاص طرز فکر کے بارے میں آئندہ ہم وضاحت کریں گے یہ علم کی دسترس میں نہیں ہے۔قدیم اور جدید تاریخ بتاتی ہے کہ علم و ایمان کی جدائی نے کیا گل کھلائے ہیں۔ جہاں ایمان تھا اور علم نہ تھا وہاں انسان دوستانہ کوششیں ایسے امور پر صرف ہوئیں جن کا نتیجہ کچھ زیادہ ہے اور گاہے اچھا نہ نکلا یہ کوشش تعصب جمود اور کبھی نقصان دہ لڑائیوں کا باعث بنیں۔ انسانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس طرح جہاں فقط علم اور ایمان نہ تھا جیسا کہ آج کل کے بعض معاشروں میں نظر آتا ہے ایسے میں تمام علمی طاقت صرف خود غرضی خود پرستی دھوکہ دہی دھونس عیاری و استحصال جیسے امو ر پر خرچ ہوئی۔
گذشتہ دو تین صدیوں کو سائنس پرستی اور ایمان سے فرار کا دور کہا جا سکتا ہے۔ اس میں بہت سے دانشوروں کی یہ رائے بنی کہ انسان کی تمام تر مشکلات کا حل سائنس میں پوشیدہ ہے۔ لیکن تجربہ نے اس کے خلاف ثابت کیا اور آج دنیا میں کوئی دانشور ایسا نہیں جو انسان کے لئے ایمان کی کسی نہ کسی صورت کی ضرورت کا قائل نہ ہو اگرچہ یہ ایمان غیر مذہبی ہی کیوں نہ ہو۔ بہر حال ماورائے سائنس کسی اور چیز کی ضرورت پر اب سب متفق ہیں۔
برٹرینڈرسل مادی رجحانات کے باوجود معترف ہے کہ
"ایسا کام جس میں صرف آمدن پیش نظر ہو اس کا نتیجہ زیادہ ثمر آور نہیں ہوتا۔ ایسے نتیجہ کے لئے کام اختیار کرنا چاہئے جس میں کسی ہدف مقصد اور فرد پر ایمان بھی مضمر ہو۔"( زنا شوئی وا خلاق )
آج مادہ پرست بھی اپنے بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ فلسفی اعتبار سے ہم مادہ پرست ہیں اور اخلاقی حوالے سے آئیڈیلسٹ (مثالی بے معنی) ہیں۔ یعنی فکری و نظری پہلو سے مادی ہیں اور عملی پہلو سے معنوی ہیں۔( جارج پویسٹر اصول معلوماتی فلسفہ)
اب یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان نظری و فکری اعتبار سے مادی ہو اور عملاً معنوی (مثالی و آئیڈیلسٹ)۔ یہ ایک ایسا پیچیدہ اور مشکل مسئلہ ہے جسے مادہ پرست ہی حل کر سکتے ہیں۔
جارج سارئن دنیا کا مشہور و معروف دانشور اور مقبول ترین کتاب "تاریخ سائنس" کا مصنف ہے۔ انسان کو انسان بنانے اور انسانیت کی بنیادوں پر بشری تعلقات استوار کرنے میں علم کی نارسائی اور انسان کے لئے ایمان کی اشد و فوری ضرورت کو یوں بیان کرتا ہے:
"علم نے بعض میدانوں میں عجیب و غریب اورعظیم ترقی کی ہے لیکن قومی و بین الاقوامی سیاست اور انسانی روابط جیسے میدان ابھی تک اسے منہ چڑا رہے ہیں۔"
جارج سارئن انسان کے لئے مذہبی و دینی ایمان کی ضرورت کا اعتراف کرتا ہے انسان کے لئے " آرٹ مذہب اور سائنس" کی مثلث کے ضروری ہونے پر گویا ہے کہ
"آرٹ حسن کو آشکار کرتا ہے اور یہی زندگی کی خوشی کا سبب بنتا ہے۔ دین محبت کا پیغمبر اور زندگی کی موسیقی ہے۔ سائنسی کا سروکار حق سچ اور عقل کے ساتھ ہے جو نوع بشر کی ہوشمندی کا باعث ہے ہمیں ان تینوں کی ضرورت ہے۔ آرٹ بھی ضروری ہے دین بھی چاہئے اور سائنس کی ضرورت لازمی ہے زندگی کے لئے مطلق صورت میں سائنس کی ضرورت لازمی ہے لیکن تنہا سائنس کسی صورت بھی کافی نہیں ۔"( شش بال ص ۳۰۵)
مذہبی ایمان
گذشتہ بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان عقیدہ و ایمان کے بغیر نہ صحیح زندگی گزار سکتا ہے اور نہ ہی بشریت اور تمدن بشری کے لئے کوئی مفید و ثمر بخش کام سر انجام دے سکتا ہے۔ عقیدہ و ایمان سے خالی انسان کی خودغرضی میں یہ عنصر نمایاں ہوتا ہے کہ ذاتی مفادات کے چکر سے کبھی نہیں نکلتا یا پھر تردد میں پڑا ہوا سر گرداں وجود ہوتا ہے جو اپنی زندگی میں اخلاقی و سماجی مسائل کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کو نہیں پہچانتا۔ چونکہ اخلاقی و اجتماعی مسائل سے مسلسل انسان کا واسطہ رہتا ہے اور ان مسائل میں انسان کسی مکتب عقیدے اور ایمان سے مربوط ہو تو اس کے لئے اپنی ذمہ داری واضح اور روشن رہے گی۔ اگر مکتب و دین اس کی ذمہ داری واضح نہ کریں تو یہ شخص ہمیشہ متردد رہے گا۔ کبھی ادھر کھنچ جائے گا تو کبھی ادھر بہہ نکلے گا یا دوسرے الفاظ میں تھالی کا بینگن بن جائے گا۔
در حقیقت کسی عقیدے یا مسلک و مکتب سے وابستگی کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں البتہ جس بات کی طرف توجہ دینا ضروری ہے وہ یہ کہ صرف مذہبی ایمان یہ قدرت رکھتا ہے کہ انسان کو ایک حقیقی مومن بنا سکے۔ اس سے خود غرضی اور خود پرستی بھی ایمان کے کنٹرول میں آجاتی ہے اور انسان میں تغیر اطاعت اور تسلیم جیسی ایک حالت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس طرح سے کہ چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ بھی جو مکتب پیش کرتا ہے کے بارے میں انسان شک و تردد میں مبتلا نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں مکتب اس قدر عزیز محبوب اور گراں بہا چیز کی صورت اختیار کر لیتا ہے کہ اس کے بغیر زندگی بے حقیقت اور بے معنی دکھائی دیتی ہے۔ لہذا اس کے دفاع میں انسان اپنی پوری غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
مذہبی ایمانی رجحانات اس چیز کا باعث بنتے ہیں کہ انسان اپنے فردی طبیعی میلانات کے خلاف کام سرانجام دے یہاں تک کہ اپنی تمام تر حیثیت اور ہستی بھی ایمان کی راہ میں لٹا دے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب انسان کے نظریات تقدس کا پہلو لئے ہوئے ہوں اور انسانی وجود پر حاکمیت مطلق حاصل کر لیں۔ فقط مذہبی قوت یہ قدرت رکھتی ہے کہ نظریات کو تقدس عطا کر سکے اور پوری طاقت سے انسان پر ان کا حکم لاگو کر سکے۔
بعض اوقات لوگ عقیدے و مذہب کے بغیر دباؤ عداوت اور انتقامی جذبات کے تحت ظلم و ستم اور دھونس کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اس راہ میں فداکاری کرتے ہیں۔ اپنی جان مال عزت و آبرو سب کچھ قربان کر دیتے ہیں اس کی مثالیں ہم دنیا کے گوشہ و کنار میں دیکھتے ہیں۔ لیکن ایک مذہبی و غیر مذہبی نظریہ کا فرق یہ ہے کہ جہاں کہیں مذہبی نظریہ کا مسئلہ ہو اور اسے تقدس حاصل ہو جائے تو قربانی مکمل رضا مندی اور طبیعی طور پر دی جاتی ہے۔ لہذا رضاو رغبت اور ایمان کے تحت انجام پانے والا کام ایک طرح کا انتخاب ہوتا ہے۔ جبکہ عالمی اور خارجی دباؤ کے تحت ہونے والا کام ایک طرح کا دھماکہ ہوتا ہے۔
ثانیاً اگر انسان کا تصور کائنات فقط مادی ہو اور حقیقت کو محسوسات میں منحصر قرار دیتا ہو تو پھر ہر قسم کی عقیدہ پرستی اورا جتماعی و انسانی نظریات ان حسی واقعات کے برخلاف ہوں گے۔ جنہیں انسان کائنات کے ساتھ اپنے رابطے کے دوران محسوس کرتا ہے۔
حسی تصور کائنات کا نتیجہ عقیدہ پرستی نہیں بلکہ خود پرستی ہوتی ہے۔ اگر عقیدہ پرستی کی بنیاد ایسا تصور کائنات نہ ہو کہ جس کا منطقی خود وہی عقیدہ نہ ہوتو پھر تصور کائنات صرف خیال پرستی تک محدود رہے گا۔ یعنی اس طریقے سے انسان اپنے اندر اپنے وہم و خیال سے ایک ایسی دنیا بنا لیتا ہے جو موجودہ حقائق سے ماورا ہوتی ہے اور پھر اس میں خوش رہتا ہے۔ لیکن اگر عقیدہ پرستی دین و مذہب سے پھوٹے تو ایک ایسے تصور کائنات پر مبنی ہو گی جس کا منطقی نتیجہ معاشرتی نظریات اورعقائد کی پیروی کی صورت میں ہوگا۔ مذہبی ایمان انسان اور کائنات کے درمیان ایک دوستانہ تعلق سے عبارت ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ مذہب ایمان اور کائنات کے کلی اہداف کے درمیان ہم آہنگی کا کردار ادا کرتا ہے۔ جبکہ غیر مذہبی نظریات اور ایمان ایک طرح سے کائنات سے تعلق منقطع کر دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی خیالی دنیا کے وجود کا سبب بنتا ہے جسے خارج میں موجود کائنات قبول نہیں کرتی ۔ مذہبی ایمان انسان کی چند ایسی ذمہ داریوں کا تعین ہی بدل دیتا ہے۔ یہ دنیا کی ساخت ہی حسی عناصر کے علاوہ مزید دوسرے عناصر بھی پیش کرتا ہے۔
خشک سرد مادی اور میکانیاتی دنیا کو زندہ باشعور اور آگاہ دنیا میں بدل دیتا ہے۔ مذہبی ایمان دنیا اور کائنات کے بارے میں انسان کی فکر و نظر بدل دیتا ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل کے امریکی ماہر نفسیات اور فسلفی ولیم جیمز کہتے ہیں:
"مذہبی فکر جو دنیا ہمارے سامنے پیش کرتی ہے صرف وہی مادی دنیا نہیں جس کی شکل بدل گئی ہو بلکہ اس عالم کی عمارت میں اس سے زیادہ چیزیں موجود ہیں کہ ایک مادی انسان جن کا حامل ہو سکتا ہے۔"

(دین و روان)
ان سب کے علاوہ ہر انسان کی جبلت میں قابل پرستش و مقدس حقائق و واقعات کی طرف میلان موجود ہے۔ انسان میں متعدد میلانات اور بعض غیر مادی صلاحتیں مخفی ہوتی ہیں۔ جنہیں پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ انسانی میلانات مادی میلانات تک محدود نہیں ہیں۔ اسی طرح معنوی اورروحانی میلانات بھی فقط تلقینی و اکتسابی نہیں ہوتے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے سائنس بھی قبول کرتی ہے۔
ولیم جیمز کہتے ہیں:
"یہ دنیا ہمارے جتنے بھی میلانات کا محرک ہو ہماری بیشتر آرزوؤں اور خواہشوں کا سرچشمہ عالم ماورائے طبیعت ہے کیوں کہ ان میں سے بیشتر کی مادی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔"(دین و دروان)
چونکہ یہ میلانات وجود رکھتے ہیں لہذا ان کی نشوونما ضروری ہے۔ اگر ان کی صحیح نشوونما نہ ہو اور ان سے ٹھیک طرح فائدہ نہ اٹھایا جائے تو پھر یہ منحرف راستے پر چل نکلتے ہیں۔ اور ناقابل تصور نقصانات کا باعث بنتے ہیں۔ بت پرستی شخصیت پرستی طبیعت پرستی اور ہزاروں دوسری پرستشیں اسی انحراف سے پیدا ہوتی ہیں۔
"اریک فروم" کہتے ہیں:
"کوئی شخص دین سے بے نیاز نہیں ہر کوئی آگے بڑھنے کے لئے کسی سمت کا نیاز مند ہے۔اور ہر کسی کو اپنی وابستگی کے لے کوئی نہ کوئی عنوان درکار ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص خود اپنے غیر دینی عقائد سے ممتاز اپنے ایسے اعتقادات سے آگاہ نہ ہو جو دین کے زمرے میں آتے ہیں اور اس کے بر عکس بھی ہو سکتا ہے اور ہو سکتا ہے وہ یہ سمجھے کہ اسے اقتدار پیسے اور کامیابی جیسے ظاہراً غیر دینی مقاصد سے رغبت ہے اور یہ سمجھے کہ اسے اپنے عمل اور مصلحت آمیز امور سے دلچسپی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ انسان دین سے تعلق رکھتا ہے نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کس دین سے تعلق رکھتا ہے۔" (روانکاری و دین)
اس ماہر نفسیات کا مقصد یہ ہے کہ انسان کسی کو مقدس قرار دئیے اور عبادت کئے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا۔ فرض کریں اگر وہ خدائے وحدہ لاشریک کو نہ پہچانے اور اس کی پرستش نہ کرے تو پھر کسی اور چیز کو برتر حقیقت کے عنوان سے اپنے ایمان و پرستش کا موضوع بنا لے گا۔
پس چونکہ انسان کیلئے کسی عقیدہ و ایمان اور نظریے کا حامل ہونا ضروری ہے اور دوسری طرف فقط مذہبی ایمان ہی ایسا ایمان ہے جو حقیقی طور پر انسان کو اپنے زیر اثر کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ مزید براں انسان اپنی سرشت کے تحت کسی ایسی چیز کی تلاش میں رہتا ہے جسے وہ مقدس قراردے کر اس کی پرستش کرے۔ پس واحد راستہ یہ ہے کہ ہم مذہبی ایمان کی تقویت کریں۔
قرآن کریم ہی سب سے پہلی کتاب ہے جس نے بڑی صراحت سے مذہبی ایمان کو عالم خلقت کے ساتھ ہم آہنگ بتایا ہے:
"افغیر دین اللہ یبغون ولہ اسلم من فی السموات والارض"
( سورہ آل عمران آیت ۸۳)
"کیا وہ دین خدا کے علاوہ کسی اور چیز کی جستجو کرتے ہیں جبکہ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے اس کے حضور سر تسلیم خم ہے۔"
نیز یہ کہ قرآن مذہبی ایام کو انسانی فطرت کا حصہ قرار دیتا ہے۔
فاقم و جھک للدین حنیفا فطرة اللہ التی فطر الناس علیھا
(سورہ روم آیت ۳۰)
"حق طلب ہو کر اپنا رخ دین کی طرف کر لے وہی دین جو اللہ کی فطرت ہے کہ جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔"

ایمان کے آثار و فوائد
اگرچہ ہماری اب تک کی ہونے والی بات سے مذہبی ایمان کے آثار کسی حد تک واضح ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی ہم نے اس معنوی دنیا اور زندگی کے اس قیمتی ترین سرمایہ کے بابرکت آثار سے آشنائی کے لئے ایک الگ موضوع بحث قرار دیا ہے۔
ایک روسی مفکر "ٹالسٹائے" کہتے ہیں:
"ایمان وہ چیز ہے جس کے ساتھ لوگ زندگی بسر کرتے ہیں۔"
حکیم ناصر خسرو علوی بیٹے سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
زدنیا روی زدین کروم ایراک
مرا بی دین جھان چہ بود و زندان
مرا پور از دین ملکی است در دل
کہ آن ہرگز نخواہد گشت ویران
" میں نے دنیا سے دین کی طرف رخ اس لئے کیا ہے کہ بغیر دین کے دنیا میرے لئے ایک زندان کے سوا کیا ہے اے بیٹے میرے دل پر دین کی حکومت ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔"
مذہبی ایمان بہت سارے بابرکت اور نیک آثار کا حامل ہے۔
یہ سرودوشادمانی اجتماعی روابط کی اصلاح اوران پر یشانیوں کے خاتمہ کا باعث بنتی ہے جو اس کائنات کی بودو باش کا لازمہ ہیں۔ مذہبی ایمان کے آثار تین عناوین کے تحت درج ذیل ہیں:

(الف) سرور و انبساط
سرور خوشی اور مسرت پیدا کرنے کے حوالے سے مذہبی ایمان کا سب سے پہلا اثر یہ ہے کہ ایمان کائنات خلقت اور ہستی کے بارے میں انسان کو خوش بین بنا دیتا ہے۔ مذہبی ایمان کائنات کے بارے میں انسان کو ایک خاص نقطہ نظر عطا کرتا ہے۔
اس طرح سے خلقت کو بامقصد قرار دیتا ہے اور یہ مقصد اس کے نزدیک خیر سعادت اور کمال کی طرف بڑھتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نظام ہستی کو بحیثیت مجموعی اور اس پر حاکم قوانین کے بارے میں انسان کو خوش بین بنا دیتا ہے اس نظام ہستی میں موجود ایک باایمان شخص کی حالت ایک ایسے فرد کی سی ہوتی ہے جو ایک ایسے ملک میں رہتا ہے جس کے قوانین اداروں اور نظام کو وہ صحیح اور عادلانہ سمجھتا ہے۔ ملکی حکام کے حسن نیت پر بھی ایمان رکھتا ہے اپنی اور دوسروں کی ترقی و پیش رفت کے لئے راہیں ہموار سمجھتا ہے اور اسے یقین ہے کہ اس کی اور اس جیسے مکلف اور ذمہ دار افراد کی پسماندگی کا باعث اگر کوئی چیز ہو سکتی ہے تو وہ ان کی اپنی سستی اور ناتجربہ کاری ہی ہے۔
ایسے شخص کی نظر میں پسماندگی کا باعث وہ خود ہے اس میں ملک کے نظام اور اداروں کا کوئی قصور نہیں۔ جو بھی کمی ہو گی اس کا سبب وہ خود ہوگا اور اس جیسے دوسرے وہ تمام لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں۔ یہ غور و فکر اسے غیرت دلاتا ہے اور اسے خوش بینی اور اچھی امیدوں کے ساتھ حرکت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
لیکن ایک تہی ایمان آدمی کی نظام ہستی میں مثال یوں ہے جیسے کوئی فرد کسی ایک ایسے ملک میں رہتا ہو جس کے نظام یا قانون قاعدے ضابطے اور اداروں وغیرہ سب کو وہ غلط اور ظالم سمجھتا ہے۔ لیکن ان سب کو قبول کرنے پربھی مجبور ہے۔ ایسے فرد کے باطن ہمیشہ ناپسندیدگی کی ایک گرہ کی سی کیفیت بھی رہتی ہے۔ وہ کبھی اپنی اصلاح کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ خیال کرتا ہے کہ جہاں زمین و آسمان سب ناہموار ہیں سب عالم ہستی ظلم و جور اور بے انصافیوں کا مجسمہ وہاں مجھ جیسے ایک ذرے کی اصلاح کا کیا فائدہ ہو گا؟
ایسا فرد دنیا سے کبھی لذت نہیں پاتا اس کے لئے دنیا ہمیشہ ایک ہولناک زندان کی مانند ہوتی ہے اسی پر قران کریم نے کہا ہے کہ
ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشة ضنکا (سورہ طہ آیت ۱۲۴)
"جو کوئی میری یاد میرے ذکر سے رو گردانی کرے گا تو اس کی زندگی بہت تنگی اور دباؤ میں بسر ہو گئی۔"
یقینا ایمان ہی ہمارے اندر ہماری جانوں میں زندگی کو وسعتیں عطا کرتا ہے اور ہمیں روحانی امور کے دباؤ سے بچاتا ہے۔
خوشی و مسرت کے حوالے سے مذہبی ایمان کا دوسرا اثر روشن دلی ہے انسان جونہی دنیا کو مذہبی ایمان کے تحت حق و حقیقت کے نور سے روشن و منور دیکھتا ہے۔ تو یہی روشن بینی اس کے روح کو بھی منور کر دیتی ہے۔ روشن بینی ایک ایسا چراغ بن جاتی ہے جو اس کی ذات کے اندر جل رہا ہوتا ہے۔
ایمان سے خالی آدمی کی حالت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ دنیا اس کی نظروں میں ہیچ و پوچ بے معنی اور تاریک ہوتی ہے۔ اسی لئے دنیا میں جسے اس نے تاریک و اندھیر فرض کیا ہوا ہے اس کا دل بھی تاریک رہتا ہے۔
خوشی و مسرت ہی کے حوالے سے مذہبی ایمان کا تیسرا اثر اچھے نتیجے اور اچھی جدوجہد کے بارے میں پرامید ہونا ہے۔
مادی فکر کے اعتبار سے یہ جہان لوگوں کے بارے میں غیر جانبدار اور لاتعلق ہے۔ لوگ خواہ حق پر ہوں یا باطل پر عدل و انصاف کا دامن تھامیں یا ظلم و ستم کو پیشہ بنائیں صحیح راستے پر ہوں یا غلط راہوں پر چل نکلیں۔ ان کا نتیجہ صرف ایک ہی چیز پر منحصر ہے اور وہ ہے مقدار کوشش اور بس۔ لیکن باایمان شخص کی نظر و فکر میں یہ کہ اس جہاں میں دونوں گروہوں کی کوشش و جدوجہد کے حوالے سے کائنات کا ردعمل ایک جیسا نہیں ہوتا بلکہ نظام خلقت ان لوگوں کا حامی ہے جو حق و حقیقت عدالت و خیرخواہی اور صحیح و درست راستوں پر محنت و کوشش کرتے ہیں۔
ان تنصرو اللّٰہ ینصرکم
"اگر آپ خدا کی مدد کریں (حق کے راستے میں قدم بڑھائیں) تو خدا بھی آپ کی مدد کرے گا۔"( سورہ محمد آیت ۷)
ان اللّٰہ لا یضیع اجر المحسنین
"بے شک خدا نیک لوگوں کا اجر و صلہ کبھی ضائع نہیں کرتا۔"( سورہ توبہ ۱۲۰)
خوشی و مسرت ہی کے اعتبار سے مذہبی ایمان کا چوتھا اثر "سکون قلب" ہے۔ انسان فطرتاً اپنی سعادت کا خواہاں ہے۔ سعادت کے حصول کے تصور ہی سے شہرت و خوشی میں غرق ہو جاتا ہے۔ ہولناک تاریک اور محرومیوں سے مستقبل کی سوچ ہی سے اس کے تن بدن پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ انتہائی پریشان و مضطرب ہو جاتا ہے۔ دو چیزیں انسان کی سعادت کا باعث ہوتی ہیں:
۱۔ جدوجہد ۲۔ موافق حالات پر اطمینان
طالب علم کی کامیابی دو چیزوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔ پہلی اس کی اپنی کوشش اور جدوجہد۔ دوسری چیز مدرسے کا اچھا مدد کرنے والا ماحول اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرنا شوق و رغبت دلانا۔ اگر کوئی محنتی اور لائق طالب علم اپنی پڑھائی کے ماحول سے مطمئن نہ ہو اور سال کے آخر میں نمبر دینے والے استاد پر اعتماد نہ رکھتا ہو اور غیر عادلانہ روش سے پریشان ہو تو سارا سال خوف و اضطراب میں مبتلا رہے گا۔
انسان اپنی ذمہ داری سے تو آگاہ ہوتا ہے۔ اس طرف سے اسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ اضطراب شک و شبہ سے پیدا ہوتا ہے۔ انسان اپنے آپ سے مربوط کسی چیز میں متذبذب و متردد نہیں ہوتا۔ جو چیز انسان کو شک و شبہ میں ڈالتی ہے اور انسان جس چیز سے متعلق اپنی ذمہ داری سے بے خبر ہوتا ہے وہ کائنات ہے۔
کیا اچھے کاموں کا کوئی فائدہ ہوتا ہے؟ کیا صداقت اور امانت بے کار چیزیں ہیں؟ کیا تمام تر محنت اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے بعد نتیجہ محرومی ہی ہے؟ یہی مقام ہے جہاں اضطراب و پریشانی اپنی ہولناک ترین صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔
مذہبی ایمان تصویر کے دونوں رخ "انسان اور جہان" کو سامنے رکھتے ہوئے اعتماد اور اطمینان بخشتا ہے۔ دنیا کے سلوک سے متعلق انسان کی فکر و پریشانی ختم کرتا ہے اس کے بدلے انسان کو سکون قلب عطا کرتا ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ مذہبی آثار میں سے ایک سکون قلب ہے۔
مذہبی ایمان کا ایک اور مسرت بخش پہلو معنوی اور روحانی لذت کا حاصل ہے۔ انسان دو طرح کی لذت سے آشنا ہے۔ بعض لذتیں وہ ہیں جن میں انسان کی کوئی حس کسی خارجی چیز سے ایک خاص رابطہ قائم کرتی ہے۔ جیسے آنکھ دیکھنے سے کان سننے سے منہ چکھنے سے اور ہاتھ چھونے سے لذت حاصل کرتے ہیں۔ ایک طرح کی لذتیں بھی ہیں جو انسان کے وجدان و روح سے متعلق ہیں اور کسی ایک خاص عضو سے مربوط نہیں ہوتیں۔ جیسے انسان نیکی اور خدمت کرنے سے لذت حاصل کرتا ہے۔ محبوب اور محترم ہو کر سرور پاتا ہے یا پھر اپنی اولاد کی کامیابی و کامرانی سے خوش ہوتا ہے ایسی لذتیں کسی خاص عضو سے متعلق نہیں ہوتیں اور نہ ہی براہ راست کسی ایک خارجی عامل کے زیراثر ہوتی ہیں۔
معنوی لذات مادی لذتوں کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور اور دیرپا بھی ہوتی ہیں۔ حق پرست عرفاء کو عبادت و بندگی خدا سے حاصل ہونے والی لذت ایک ایسی ہی لذت ہے۔ وہ عارف و عابد لوگ جن کی عبادت خضوع و خشوع اور حضور و استغراق سے مالا مال ہو وہ عبادت سے عظیم ترین لذتیں حاصل کرتے ہیں جسے دینی اصطلاح میں "طعم ایمان" اور "حلاوت ایمان" سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایمان کی حلاوت و شیرینی ہر حلاوت سے بڑھ کر ہے۔ لذت معنونی اس وقت دوچند ہو جاتی ہے جب علم احسان خدمت کامیابی و کامرانی جیسے امور دینی احساس کے ساتھ پھوٹیں۔ خدا کے لئے انجام پائیں اور عبادت کے زمرے میں آئیں۔

(ب) اجتماعی روابط کی اصلاح میں ایمان کا کردار
انسان بعض دوسرے جانداروں کی طرح اجتماعی طبیعت پر پیدا کیا گیا ہے۔ فرد اکیلا اپنی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتا۔ زندگی ایک کمپنی یا سوسائٹی کی صورت میں ہونی چاہئے جس میں حقوق و فرائض کے اعتبار سے ہر ایک حصہ دار ہو افراد میں ایک طرح کی تقسیم کار ہو۔ شہد کی مکھیوں میں ذمہ داریوں اور کام کی تقسیم ان کی سرشت اور فطرت کے حکم پر ہوتی ہے ان میں کام سے انکار یا نافرمانی کی طاقت نہیں ہوتی۔ ان کے برعکس انسان ایک آزاد اور خود مختار جاندار ہے اپنے کام کو ذمہ داری اور مسئولیت کے عنوان سے انجام دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ اگرچہ دوسرے جانداروں کی ضروریات اجتماعی ہیں لیکن یہ اپنے جبلی و طبیعی امور کی انجام دہی پر مجبور ہیں۔ انسان کی ضرورتیں بھی اجتماعی ہیں۔ بغیر اس کے کہ ویسے جبلی تقاضے اس پر حکم فرما ہوں۔ انسان کی جبلی و فطری اجتماعی خواہشات اس کے اندر ایک "تقاضے" کی صورت میں ہوتی ہیں جنہیں تعلیم اور تربیت کے سائے میں پروان چڑھنا چاہئے۔
صحیح و سالم اجتماعی زندگی وہی ہے کہ افراد ایک دوسرے کے لئے قوانین حدود اور حقوق کا احترام کریں۔ عدل و انصاف کو ایک مقدس امر جانیں ایک دوسرے سے مہر و محبت سے پیش آئیں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کریں جسے خود نہیں چاہتے اسے دوسروں کے لئے بھی نہ چاہیں ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور اطمینان رکھیں دوسروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر ان کے لئے روحانی تکلیف کا باعث نہ بنیں۔ ہر شخص اپنے کو معاشرے کا ذمہ دار اور معقول فرد سمجھے۔ کھلے بندوں جس تقویٰ و پاکدامنی کا مظاہرہ کرتا ہے اپنی انتہائی خلوت میں بھی اسی تقویٰ و پاکدامنی کو تھامے رکھے۔ سب لوگ بغیر کسی لالچ کے ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کریں۔ ظلم و ستم کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں ظالم اور فاسد لوگوں کو من مانی نہ کرنے دیں اخلاقی قدروں کا احترام کریں ہمیشہ ایک جسم کے اعضاء کی مانند متحد و متفق رہیں۔
یہ مذہبی ایمان ہی ہے جو ہر چیز سے بڑھ کر حقوق کا احترام کرتا ہے عدالت کو مقدس سمجھتا ہے دلوں میں الفت و مہربانی ڈالتا ہے۔ ایک دوسرے کے دل میں اعتماد پیدا کرتا ہے انسان کے قلب و روح پر تقویٰ و پرہیزگاری کی حکومت قائم کر دیتا ہے۔ اخلاقی قدروں کو معتبر اور قابل قدر بناتا ہے ظلم و زیادتی کے مقابلے کے لئے شجاعت بخشتا ہے۔ تمام افراد کو ایک جسم کی مانند قرار دے کر متحد رکھتا ہے۔
حوادث سے انسانی تاریخ میں آسمانی ستاروں کی مانند انسان کی جو انسانی تجلیاں دکھائی دیتی ہیں یہ درحقیقت مذہبی احساسات کی کوکھ سے ہی جنم لئے ہوئے ہیں۔

(ج) پریشانیوں میں کمی
جہاں انسانی زندگی میں خوشی مسرت سرور و شادمانی کامیابی و کامرانی جابجا دکھائی دیتی ہے وہاں یہ زندگی مصیبت رنج ناکامی تلخی شکست اور محرومی کو بھی بہرحال اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ ان میں سے بہت سی مصیبتوں اور مشکلوں کو روکا جا سکتا ہے یا دور کیا جا سکتا ہے اگرچہ اس کے لئے بہت کوشش کرنا پڑے گی۔ یہ بات واضح ہے کہ عالم طبیعت کے ساتھ پنجہ آزمائی کرنا اور تلخی کو شیرینی میں بدلنا انسان کی ذمہ داری ہے لیکن دنیا کے بعض واقعات اور حوادث ایسے ہیں جنہیں انسان روک سکتا ہے نہ انہیں دور کرنے کی طاقت رکھتا ہے مثلاً بڑھاپا۔ انسان چاہے نہ چاہے اسے بڑھاپے کی طرف بڑھنا پڑتا ہے اور اس کی زندگی کا چراغ آہستہ آہستہ بجھتا چلا جاتا ہے۔ بڑھاپے کی ناتوانی کمزوری اور اس کے دیگر لوازمات زندگی کے چہرے کو مرجھا دیتے ہیں اس کے علاوہ موت اور نابودی کا خیال زندگی کو خیرباد کہنے کی فکر اپنے جانے اور دنیا دوسرے کے حوالے کرنے کی پریشانی انسان کو تڑپائے رکھتی ہے۔
مذہبی ایمان انسان میں استقامت پیدا کرتا ہے۔ تلخیوں کو میٹھا و شیریں بناتا ہے۔ باایمان شخص جانتا ہے کہ دنیا میں ہر چیز کا باقاعدہ ایک حساب کتاب ہے اگر مشکلات اور مصیبتوں میں اس کا ردعمل درکار اصولوں کے مطابق ہو تو اس کا نقصان ممکن ہے ناقابل تلافی ہو لیکن خدا تعالیٰ کسی اور طریقے سے اس کا ازالہ کر دیتا ہے۔ بڑھاپا اختتام نہیں ہے بلکہ باایمان آدمی تو ہمیشہ فرصت کے لمحات کو عبادت اور ذکر خدا سے محبت کر کے گزارتا ہے۔ اس نظریے سے بڑھاپا اس قدر محبوب و مطلوب بن جاتا ہے کہ خدا پرستوں کو جوانی سے زیادہ بڑھاپے کی زندگی میں مزہ آتا ہے۔ تہی از ایمان آدمی کی نظر میں موت کا جو چہرہ مہرہ ہوتا ہے وہ باایمان آدمی کی نظروں میں بدل جاتا ہے۔ ایسے شخص کی نظروں میں اب موت فنا و نابودی نہیں ہوتی بلکہ یہ فانی دنیا سے پائیدار اور باقی رہنے والی دنیا کی طرف منتقلی کا نام بن جاتی ہے۔ یہ ایک چھوٹے جہاں سے بڑے جہاں کی طرف روانگی ہوتی ہے عمل اور بیج بونے کے میدان سے نتیجہ اور پھل حاصل کرنے کے میدان میں جانا ہوتا ہے اس طرح باایمان آدمی نیک کاموں جنہیں دینی اصطلاح میں "اعمال صالح" کہا جاتا ہے میں حصہ لے کر موت کے خیال سے پیدا ہونے والی پریشانیوں کو دور کر لیتا ہے۔ ماہر نفسیات کے نزدیک یہ بات قطعی اور مسلم ہے کہ اکثر نفسیاتی بیماریاں جو زندگی کی تلخیوں اور روحانی پریشانیوں سے پیدا ہوتی ہیں غیر مذہبی لوگوں میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ مذہبی لوگوں کا ایمان جتنا زیادہ مضبوط اور محکم ہوتا ہے اتنا زیادہ وہ ان بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے دور میں ایمان کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والے عوارض میں سے ایک نفسیاتی اور اعصابی بیماریوں کی افزائش بھی ہے۔

مکتب آئیڈیالوجی نظریہ
مکتب یا آئیڈیالوجی کیا ہے؟ اس سے کیا مراد ہے؟ اس کی تعریف کیا ہے؟ انسان کو ایک فرد کے عنوان سے یا معاشرے کا ایک عضو ہونے کی حیثیت سے کسی مکتب کا پیروکار ہونا کیوں ضروری ہے؟ اسے کسی آئیڈیالوجی سے وابستہ ہونے اور اس پر ایمان رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا کسی فرد یا معاشرے کے لئے آئیڈیالوجی کا ہونا ضروری ہے؟
اس بات کے لئے ایک مقدمے کی ضرورت ہے۔
انسان کی سرگرمیاں دو طرح کی ہوتی ہیں: التذا ذی (لذت بخش) اور تدبیری۔ لذت بخش سرگرمیاں معمول کی سرگرمیاں ہوتی ہیں جنہیں انسان جبلت فطرت عادت کہ جو فطرت ثانوی ہے کے تحت انجام دیتا ہے۔ یہ کام انسان کسی لذت کے حصول کے لئے یا پھر کسی تکلیف سے نجات کے لئے انجام دیتا ہے مثلاً جب پیاسا ہو تو پانی کی طرف لپکتا ہے جب کسی ڈسنے والی چیز کو دیکھتا ہے تو اس سے دور بھاگتا ہے اسے سگریٹ کی شدید طلب پیدا ہوتی ہے تو اسے سلگا لیتا ہے۔
ایسے کام انسان کی طبیعت و مزاج کے مطابق ہوتے ہیں اور براہ راست لذت و رنج کے ساتھ ان کا تعلق ہوتا ہے۔ التذا ذی کام ایک خاص کشش اور قوت جاذبہ کے ساتھ انسان کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور تکلیف دہ کام ایک خاص قوت دافعہ کے ساتھ انسان کو اپنے سے دور کر دیتے ہیں۔
تدبیری سرگرمیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں خود سے کوئی قوت جاذبہ یا دافعہ نہیں ہوتی۔ جبلت اور طبیعت انسان کو ان کاموں پر نہیں اکساتی اور نہ ہی ان کاموں کے ترک کرنے کا کوئی مشورہ دیتی ہے۔ انسان اپنی عقل اور ارادے کے حکم پر ان کاموں میں موجود مصلحتوں کے پیش نظر انہیں انجام دیتا ہے یا چھوڑ دیتا ہے یعنی علت غائی و قوت محرکہ اور انسان کو اس کام پر اکسانے والی طاقت "مصلحت"ہوتی ہے اس میں لذت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ جبلت لذت کی پہچان کرتی ہے اور عقل مصلحت کو پہچانتی ہے۔ خواہش کا محرک لذت اور ارادے کا محرک مصلحت ہے۔ انسان انفرادی کاموں کی انجام دہی کے دوران لذت محسوس کرتا ہے لیکن مصلحت والے کاموں کے دوران لذت نہیں پاتا البتہ اس تصور سے خوش ہو جاتا ہے کہ اس نے مصلحت کی راہ میں ایک قدم آگے بڑھایا ہے وہ مصلحت جو کمال اور خیر ہے یا ایسی لذت ہے جو مستقبل قریب میں اسے حاصل ہونے والی ہے۔ وہ کام جو لذت بخش اور سرور آفرین ہے اس میں اور وہ کام جو لذت بخش نہیں بلکہ کبھی رنج آور بھی ہے فرق ہے لیکن انسان اپنی مرضی اور خوشی سے یہ رنج اٹھاتا ہے۔ مصلحت والے کام کا نتیجہ فوری برآمدنہ ہونے کی وجہ سے لذت بخش اور سرور آور نہیں ہوتا لیکن اطمینان بخش ہوتا ہے۔ انسان اور حیوان کے باہمی مشترکات میں لذت اور رنج تو شامل ہے لیکن اطمینان خوشی اور کراہت یا عدم اطمینان انسان ہی کا خاصہ ہے۔ جیسا کہ آرزو کرنا اور امید رکھنا انسان کے ساتھ مختص ہے۔ رضایت کراہت آرزو اور امید معقولات کے قلم رو اور انسانی افکار کے دائرئہ کار میں شامل ہیں۔ انسان کے حواس اور حسی ادراک کے ساتھ ان کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ ہم نے کہا ہے کہ انسان اپنے تدبیری کام اپنے ارادے اور عقل کی قوت سے انجام دیتا ہے جب کہ لذت بخش کام اس کے برخلاف میلانات و احساسات کے تحت انجام پاتے ہیں۔ اس قوت عقل کے حکم پر کاموں کے انجام پانے کا معنی یہ ہے کہ حساب کتاب کرنے والی یہ عقولی قوت خیر و بھلائی کمال و سعادت اور لذت کو مستقبل بعید میں مشاہدہ کر رہی ہوتی ہے اسے حاصل کرنے کے لئے مختلف تدبیریں کرتی ہے۔ ارادے کی قوت سے تدبیری کاموں کے انجام پانے کا معنی یہ ہے کہ انسان میں عقل کے ساتھ مربوط ایک طاقت موجود ہے جس کا کام عقل سے منظور شدہ قوانین کو عملی جامہ پہنانا ہوتا ہے یہ طاقت ایسی ہے کہ کبھی تو ہر قسم کے میلان رجحان اور طبیعی رغبت کو پس پشت ڈال کر عقل کے منظور شدہ قوانین اور تدابیر کو عملی صورت عطا کرتی ہے۔ ایک طالب علم کی جوانی کا طبیعی مزاج اسے سونے کھانے پینے آرام کرنے کھیلنے کودنے اور شہوت پرستی کی دعوت دیتا ہے لیکن اس کی حساب کتاب رکھنے والی عقل ایک طرف ان کاموں کے برے نتیجے اور دوسری طرف مشکل برداشت کرنے بے خوابی و بیداری اور شہوت و لذت سے چشم پوشی کا تقاضا کرتی ہے۔ مصلحت کے تحت اسے حکم دیتی ہے کہ میرے راستے کا انتخاب کرے اس وقت انسان عقلی حکم مصلحت کو طبیعی حکم لذت پر ترجیح دیتا ہے اور اسی طرح ایک بیمار اگرچہ دوائی سے نفرت کرتا ہے۔ بدمزہ اور کڑوی دوائیوں کے استعمال سے سخت تکلیفیں اٹھاتا ہے لیکن مصلحت اندیش عقل کے حکم پر اور میلانات پر حاکم ارادے کی قوت سے کڑوی دوائیاں بھی نگل لیتا ہے۔
عقل و ارادہ جس قدر زیادہ مضبوط ہوں گے اسی قدر زیادہ اور بہت سے میلانات کے خلاف طبیعت پر حکمرانی کر سکیں گے۔
انسان فکری و تدبیری فعالیت میں مسلسل کسی ایک فکر سوچ ترکیب یا نظریہ کو عملی جامہ پہنا رہا ہوتا ہے عقل و ارادہ کے حوالے سے انسان جتنا کامل ہو گا اتنی ہی اس کی سرگرمیاں التذا ذی ہونے کی بجائے عقلی و فکری اور تدبیری ہوں گی۔ حیوان کی ساری فعالیت لذت کے خلاف ہوتی ہے۔ اگرچہ حیوان میں گاہ بگاہ دوراندیشی ہدف اور نتیجہ کے لئے سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں مثلاً گھونسلے بنانا ہجرت کرنا جوڑے بنانا تولید و تناسل وغیرہ لیکن ان میں سے کوئی ایک کام بھی آگاہی ہدف سے واقفیت حصول مقصد کے لئے مختلف راہوں پر غور و فکر یا وسیلے کے انتخاب کے ساتھ انجام نہیں پاتا بلکہ ماوراء قوت کی طرف سے ایک جبلی و فطری یا جبری الہام ہوتا ہے جس کے تحت یہ امور سرانجام پاتے ہیں۔ فکری و تدبیری فعالیت کے حوالے سے انسان کی سرگرمیاں کا دائرئہ کار اس قدر وسیع ہو جاتا ہے کہ وہ لذت بخش سرگرمیوں کو بھی اپنے اندر سمو لیتا ہے یعنی بامصلحت کاموں کی اتنی توجہ سے منصوبہ بندی کی جائے کہ لذت بخش کام بھی اس کے ضمن میں آ جائیں پھر ہر لذت لذت ہونے کے ساتھ ساتھ مصلحت بھی ہو اور ہر جبلی فعالیت تقاضائے طبیعت کی تکمیل کے ساتھ ساتھ عقل کی اطاعت و فرمانبرداری بھی کرے۔ اگر تدبیری سرگرمیاں التذا ذی فعالیت کو اپنے زیرسایہ کر لیں اور لذت بخش سرگرمیاں زندگی کے عمومی پروگراموں اور کلی امور کا ایک حصہ بن جائیں تو پھر طبیعت عقل کے ساتھ اور میلان و رجحان ارادے کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں گے۔
چونکہ فکری فعالیت کا محور دور کے اہداف و مقاصد ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس کے لئے بہتر طور پر منصوبہ بندی سوچ و بچار مقاصد کے حصول کے لئے وسیلے کا انتخاب اور طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں ایک انفرادی پہلو کا تعلق ہے یعنی ایک فرد اپنے لئے خود سے ترکیبیں سوچتا ہے منصوبہ بندی کرتا ہے تدابیر کرتا ہے اپنے افکار و نظریات کو عملی جامہ پہناتا ہے حصول مقصد کے لئے وسیلے اور طریقہ کار کا تعین کرتا ہے۔ یہ سب امور ایک ہی فرد کی عقل پر منحصر ہیں اور اس کی معلومات اطلاعات ہنر اور فیصلے کی قوت کے معیار سے مربوط ہیں۔
بالفرض اگر فکری فعالیت اوج کمال تک جا پہنچے تو انسان کی سرگرمیوں کے "انسانی" ہونے کے لئے یہ کافی نہیں ہے۔ انسان کی تدبیری فعالیت انسانیت کی لازم شرط ہے کیوں کہ آدھی انسانیت عقل علم آگاہی اور تدبیر پر مشتمل ہے لیکن یہ کافی و وافی شرط نہیں ہے۔ انسانی سرگرمیاں اس وقت انسانی ہوتی ہیں جب عقل و ارادہ کے ساتھ ساتھ انسانیت کے عالی رجحانات کی بھی غمازی کریں یا کم از کم بلند مرتبہ انسانی میلانات کے متضاد نہ ہوں۔ وگرنہ ظالمانہ ترین انسانی کام بھی کبھی فکر تدبیر و ہوش فہم و فراست نتیجے پر نظر منصوبہ بندی اور فکری بنیادوں کی فراہمی کے ساتھ ہی وجود میں آتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال استعمار کے شیطانی منصوبے ہیں۔ قوت فکر و تدبیر جب انسانی و ایمانی جذبوں سے جدا ہو جائے اور مادی و حیوانی عزائم کی غلام بن جائے تو اسے اسلامی دینی اصطلاح میں "نکرا" اور "شیطنت" کہا جاتا ہے۔ تدبیری فعالیت ہمیشہ انسانی نہیں ہوتی بلکہ اگر اس کے اہداف کا محور "حیوانیت" ہو تو پھر یہ لذت بخش حیوانی فعالیتوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتی ہے مثلاً حیوان محض اپنا پیٹ بھرنے کے خلاف کسی ایک جانور یا ایک انسان کو چیرتا پھاڑتا ہے جب کہ ایک مفکر و مدبر انسان صرف اسی مقصد کے لئے پورے کے پورے شہر کو اجاڑ کر رکھ دیتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر شہروں کے شہر ویران کر دیتا ہے۔ ہزاروں بے گناہ لوگوں کو آگ و خون کے دریا کی نذر کر دیتا ہے۔ کیا ایک فرد کی تمام مصلحتوں کے لئے اس کی شخصی عقل کے پیش کردہ اہداف کافی ہیں؟ یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ ایک فرد کی ساری مجموعی مصلحتوں کے لئے اس اکیلے فرد کی عقل کس قدر کارآمد ہو سکتی ہے؟ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ زندگی کی جزوی اور محدود تدابیر کے لئے عقل و فکر اور سوچ و بچار کی قوت ضروری اور مفید ہے۔ انسان کو روزمرہ زندگی میں ہمیشہ کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے مثلاًدوست کا چناؤ علمی و تعلیمی شعبے کا چناؤ شریک حیات کا چناؤ کام اور کاروبار کا چناؤ سفر میل جول سیر و سیاحت تفریح نیک سرگرمیاں برائیوں اور انحرافات کے ساتھ مقابلے کا مسئلہ وغیرہ___
انسان کو بلاشک و شبہ ان سب امور میں غور و فکر سوچ و بچار اور تدبیر کرنے کی احتیاج ہے جس قدر زیادہ غور و فکر کرے گا اسی قدر زیادہ کامیاب ہو گا۔ علاوہ ازیں کبھی دوسروں کے تجربات اور افکار سے استفادہ کی بھی اسے ضرورت ہوتی ہے۔ ان تمام جزوی امور میں انسان منصوبہ بندی کے ساتھ پروگرام بناتا اور پھر اسے عملی صورت دیتا ہے۔ اب کلی اور وسیع دائرئہ کار میں اس (انفرادی عقل) کا عمل دخل کیا ہو گا؟ کیا انسان اپنی شخصی زندگی کے تمام مسائل کے لئے کوئی منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا اس میں یہ قدرت ہے کہ ان مسائل کا کوئی ایسا کلی حل نکالے جو اس کی زندگی کی تمام مصلحتوں کو پیش نظر رکھے؟ یا اس کی تنہا فکری قدرت کے منصوبے صرف جزوی اور محدود مسائل کے لئے ہیں اور ہر طرح کی سعادت کی ضامن زندگی کی ان تمام مجموعی مصلحتوں پر احاطہ کرنا عقل کے بس کی بات نہیں؟ اگرچہ بعض فلاسفہ نے "خود کفیل" ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہم نے اپنے تئیں سعادت و شقاوت یا بدبختی و خوش قسمتی کی راہیں تلاش کر لی ہیں اور اپنے ارادے و عقل کے بھروسے پر ہم اپنے آپ کو خوش قسمت بنا سکتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ہم جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں کوئی دو فلسفی بھی ایسے نہیں ملتے جو اس راستے کے حصول کے لئے ایک نقطہ نظر رکھتے ہوں آخری اور اصلی ہدف "سعادت" کا مفہوم پہلی نظر میں تو بڑا واضح و روشن معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ مبہم ترین مفاہیم میں سے ایک ہے۔ سعادت کیا ہے؟ کن چیزوں سے حاصل ہوتی ہے؟ شقاوت کیا ہے؟ اس کے عوامل کیا ہیں؟ ابھی تک یہ بات مجہول ہے اور اس کی شناخت نہیں ہوئی کیوں؟ چونکہ ابھی تک خود انسان کی صلاحیتوں اور توانائیوں کا اندازہ نہیں ہو سکا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ انسان کی شناخت تو نہ ہو سکے لیکن اس کی سعادت کا پتہ چل جائے اور اس کے حصول کے طریقے بھی معلوم ہو جائیں۔
اس سے بڑھ کر یہ کہ انسان ایک اجتماعی و تمدنی جاندار ہے۔ اجتماعی زندگی اس کے لئے ہزاروں مسائل اور مشکلات کھڑی کر دیتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ وہ ان سب کو حل کرے اور ان سے متعلق اپنی مسئولیت واضح کرے چونکہ انسان ایک اجتماعی وجود کا حامل ہے لہٰذا اس کی اور دوسروں کی سعادت عقائد خیر و شر کے معیارات راہ پرورش وسیلے کا انتخاب اور دوسروں کی سعادت کے معیارات باہم ایک دوسرے سے منسلک ہیں انسان دوسروں کو نظرانداز کر کے اپنا جداگانہ راستہ اختیار نہیں کر سکتا۔ اسے اپنی سعادت ایسی شاہراہ پر تلاش کرنی چاہئے جو معاشرے کو سعادت و کمال تک پہنچاتی ہے۔
اگر حیات ابدی اور روح کی ہمیشگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس دنیا کے بعد والی دنیا سے متعلق عقل کی ناتجربہ کاری کو دیکھا جائے تو مسئلہ کہیں زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں مکتب اور آئیڈیالوجی کی ضرورت نمایاں ہوتی ہے یعنی ایک کلی نظریے اور ایک جامع ہم آہنگ اور مربوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جو انسان کے کمال اور سب کی سعادت کی ضامن ہو اس کے اصول و منابع راہ و روش ضروری و غیر ضروری امور نیک و بد ہدف و وسیلہ ضروریات مشکلات اور ان کا حل مسئولیت و ذمہ داری ایک ایک چیز مشخص ہو اور تمام افراد کے فرائض اور ذمہ داریاں اس سے واضح ہوتی ہیں۔
انسان اپنی پیدائش ہی سے یا کم از کم اجتماعی زندگی کے پھیلنے اور وسیع ہونے سے اختلافات کے وجود میں آنے کے وقت سے نظریہ حیات یا قرآن کی اصطلاح میں کسی "شریعت" کا محتاج رہا ہے۔(۱)
جوں جوں وقت گذرتا گیا انسان رشد کرتا گیا اور کمال کی طرف بڑھتا رہا اسی قدر اس کی یہ احتیاج و ضرورت بڑھتی گئی گذشتہ زمانے میں قومی نسلی قبائلی اور ملی تعصبات اور رجحانات ایک "اجتماعی روح" کے طور پر انسانی معاشروں پر حاکم تھے۔
یہ روح اپنے مقام پر بعض عقائد اور نظریات کو جنم دیتی تھی اگرچہ یہ نظریات غیر انسانی ہی کیوں نہ ہوں لیکن معاشرے کو متحد رکھتے تھے اور اس کے لئے ایک سمت کا تعین کرتے تھے۔ علمی و عقلی رشد و کمال نے ان رشتوں کو کمزور کر دیا ہے۔ علم اپنی ذاتی خاصیت کے تحت انفرادیت کی طرف میلان رکھتا ہے جذبات کو کمزور اور احساسات کو سرد کر دیتا ہے۔
آج اور بالخصوص کل کے انسان کو جو چیز وحدت اور سمت عطا کر سکتی ہے اور ایک مشترک نظریہ دے سکتی ہے خیر و شر کا معیار ہو سکتی ہے اور بتا سکتی ہے کہ اسے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے وہ ایک ایسا فلسفہ حیات ہے جو آگاہی کے ساتھ منتخب کیا جائے جس سے اس کا عقیدہ جنم لے اور جو منطق پر استوار ہو دوسرے لفظوں میں اسے ایک جامع اور کامل آئیڈیالوجی اور نظریہ حیات کی ضرورت ہے۔ آج کا انسان ماضی کے انسان کی نسبت ایک ایسے فلسفہ زندگی کا زیادہ ضرورت مند ہے جو اسے انفرادی اور شخصیت مفادات کے انسان کی نسبت ایک ایسے فلسفہ زندگی کا زیادہ ضرورت مند ہے جو اسے انفرادی اور شخصی مفادات سے بالاتر حقائق سے وابستہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو آج یہ بات قابل انکار نہیں کہ مکتب اور نظریہ حیات اجتماعی زندگی کی ضروریات میں سے ہیں۔ ایک ایسے مکتب کی منصوبہ بندی کون کر سکتا ہے بلاشک و شبہ ایک شخص کی عقل یہ قدرت نہیں رکھتی۔ کیا اجتماعی و مجموعی عقل میں یہ طاقت ہے؟ کیا انسان اپنی گذشتہ اور موجودہ معلومات اور تجربوں کی روشنی میں کوئی منصوبہ یا لائحہ عمل تجویز کر سکتا ہے؟
اگر ہمارے لئے انسان سب سے زیادہ مجہول چیز ہو تو پھر انسانی معاشرہ اور انسان کی سعادت ہمارے لئے بطریق اولیٰ مجہول تر ہو گی۔ پس کیا کرنا چاہئے؟ اب یہاں پر اگر ہم ہستی و خلقت پر حق و حقیقت کی نگاہ ڈالیں اور نظام ہستی کو ایک متوازن نظام سمجھیں۔ اس ہستی کے عبث ہونے کی نفی کریں تو ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس عظیم نظام خلقت نے اس عظیم ضرورت کو نظرانداز نہیں کیا۔ انسانی عقل کے افق سے مافوق یعنی افق وحی نے اس شاہراہ کی بنیادی حدود کو واضح کر دیا ہے۔ (اسے نبوت کا اصول کہتے ہیں) اب علم و عقل کا کام انہیں بنیادی حدود کے اندر حرکت کرنا ہے۔ انسان کی احتیاج جو انسانی ذریعے (نبی) سے شریعت الٰہی کے ساتھ پوری ہوتی ہے۔ اس کی بلند پایہ وضاحت بوعلی نے کتاب نجات میں کی ہے:
فالحاجة الی ھذا الانسان فی ان یبقی نوع الانسان و یتحصل وجودہ اشد من الحاجة الی انبات الشعر علی الحاجبین و تقعیر الاخمص من القدمین و اشیاء اخری من المنافع التی لاضرورة الیھافی البقاء بل اکثر مالھا انھا تنفع فی البقاء
"وہ کہتے ہیں کہ بنی نوع انسان کی بقاء اور انسان کے انسانیت کے کمال تک پہنچنے کے لئے انسانی آئیڈیالوجی اور شریعت الٰہی کو بیان کرنے والے نبی کی ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے کہ ابروؤں پر بال اگا دیئے جائیں اور پاؤں کے تلوؤں کو گہرا بنایا جائے یا اس طرح کے دوسرے امور جو نوع انسانی کی بقاء کے لئے ضروری ہی نہیں ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ مفید ہیں یعنی خلقت کے عظیم نظام نے چھوٹی چھوٹی اور معمولی ضرورتوں کو نظرانداز نہیں کیا تو پھر کیسے ممکن ہے کہ بڑی بڑی ضرورتوں کا خیال نہ رکھا ہو؟"
لیکن اگر اگر ہم وجود و آفرینش کے بارے میں نگاہ و حقیقت سے محروم ہوں تو پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ انسان گمراہی اور سرگردانی پر مجبور ہے اور اس ظلمت کدہ میں سرگرداں انسان کی پیش کردہ بھرپور آئیڈیالوجی اور لائحہ عمل وقتی مصروفیت اور سرگردانی کے علاوہ کچھ نہ ہو گا۔
متذکرہ بالا ان سے کسی ایک مکتب اور آئیڈیالوجی کے وجود کی ضرورت واضح ہوتی ہے اور کسی مکتب و نظام حیات کے ساتھ انسان کے وابستہ ہونے کی ضرورت بھی نمایاں ہو جاتی ہے۔
البتہ کسی فرد کا کسی آئیڈیالوجی کے ساتھ وابستہ ہونا اسی وقت حقیقت کا روپ دھارتا ہے جس وقت یہ ایمان کی صورت اختیار کرے جب کہ ایمان ایک حقیقت ہے جو طاقت سے اور مصلحت کی خاطر پیدا نہیں ہو سکتا۔ طاقت کو منوایا جا سکتا ہے سر جھکایا جا سکتا ہے لیکن نظریہ حیات ایسی چیز نہیں ہے جس کے لئے سر جھکایا جائے بلکہ اسے قبول کرنا ہوتا ہے اس میں جذب ہونا پڑتا ہے اور نظریہ حیات ایمان کا متقاضی ہے۔
ایک کارآمد آئیڈیالوجی کے لئے ضروری ہے کہ ایک طرف تو ایک خاص تصور کائنات کا حامل ہو جو عقل کو قانع کر سکے اور فکر کی ضرورت کو پورا کر سکے اور دوسری طرف اپنے تصور کائنات سے منطقی طور پر ایسے مقاصد واضح کر سکے کہ جو تجاذب و کشش کے حامل ہوں تب ایمان کے دو بنیادی عنصر عشق و عقل باہم مل کر دنیا کی تعمیر کر سکیں گے۔
یہاں ہر چند مسئلے مختصر طور پر بیان کرنا ضروری ہیں لیکن ان کی تفصیل کسی مناسب موقع پر اٹھا رکھتے ہیں:
(الف) آئیڈیالوجی دو طرح کی ہوتی ہے: (۱) انسانی اور (۲) گروہی۔ انسانی آئیڈیالوجی یعنی جس کا مخاطب بنی نوع انسان ہے۔ قبیلہ نسل قوم یا کوئی خاص طبقہ نہیں ہے۔ ایسی آئیڈیالوجی کسی ایک معین گروہ یا طبقہ کی نجات کا دعویٰ نہیں کرتی بلکہ نوع انسانی کی نجات کی دعویدار ہے۔ منصوبہ اور لائحہ عمل تمام انسانوں کے لئے پیش کرتی ہے۔ کسی مخصوص طبقے کی نمائندگی نہیں کرتی۔ اپنے حامی اور مددگار کسی ایک معین حلقے یا گروہ سے حاصل نہیں کرتی بلکہ تمام گروہوں حلقوں ملتوں اور طبقوں کو دعوت دیتی ہے۔ اس کے برعکس گروہی آئیڈیالوجی کا مخاطب گروہ طبقہ یا ایک مخصوص حلقہ ہوتا ہے اور صرف اسی گروہ کی نجات یا برتری کی دعویدار ہوتی ہے چونکہ اس کے مخاطب صرف اسی گروہ کے افراد ہوتے ہیں۔ بنا برایں یہ جو بھی منصوبہ تجویز کرے گی اسی مخصوص گروہ کے لئے ہو گا۔ لہٰذا صرف اسی گروہ سے اپنے خاص مددگار و جانثار جذب کرتی ہے۔
ان میں سے ہر ایک آئیڈیالوجی انسان کے بارے میں اپنا ایک خاص نظریہ رکھتی ہے۔ ہمہ گیر اور انسانی آئیڈیالوجی انسان کے بارے میں ایک خاص معرفت کی حامل ہوتی ہے جیسے اسلامی نظریہ حیات ہے۔ انسان کے بارے میں اس کی خصوصی معرفت کو "فطرت" سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے انسان اپنی خلقت کے دوران تاریخی و اجتماعی عوامل کی تاثیر پر مقدم ہے۔ اس کے وجود کو ایک خاص پہلو عطا کیا گیا ہے۔ حیوان سے ممتاز کر کے اسے ھویت اور الگ حیثیت بخشنے والی اعلیٰ صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں۔ اس نقطہ نظر کے مطابق انسان اپنی خلقت میں ایک خاص شعور سے بہرہ ور ہے اور اسے ایک ایسا وجدان عطا کیا گیا ہے جو پوری نوع انسانی میں موجود ہے۔ یہی فطری وجدان اسے نوع کے تعین دعوت کی صلاحیت اور مخاطب واقع ہونے کی صلاحیت اور تحریک دیتا ہے۔ ایسے نظریات حیات نوع انسانی کے بارے میں مخصوص وجدان فطری کی بنیاد پر اپنی دعوت کا آغاز کرتے اور تحرک پیدا کرتے ہیں۔
بعض ان نظریات حیات کے بارے میں کچھ اور نقطہ نظر رکھتے ہیں ان کے مطابق انسان بحیثیت نوع مخاطب قرار دینے اور دعوت دیئے جانے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس میں تحرک پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ انسان کا شعور وجدان اور میلانات ملی قومی زندگی کے اجتماعی یا تاریخی عوامل کے زیراثر طبقاتی صورت میں ابھرتے ہیں۔ خاص تاریخی و اجتماعی عوامل سے صرف نظر کر لیا جائے تو انسانی شعور رکھتا ہے نہ وجدان اور نہ "دعوت" دیئے جانے اور مخاطب قرار پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ایک ماخوذ اور انتزاعی وجود ہے "عینی" و نظر پر مبنی نہیں ہے۔ ایسے فلسفیوں کا ہدف طبقاتی مفادات یا قومی و نسلی احساسات یا پھر زیادہ سے زیادہ قومی ثقافت ہوتی ہے۔ بلاشک و شبہ اسلامی آئیڈیالوجی پہلی قسم میں سے ہے اور یہ فطرت انسان سے پھوٹتی ہے۔ اسی لئے اسلام کے مخاطب الناس___ یعنی سب لوگ ہیں۔(۱)
اسلام کسی خاص طبقے یا گروہ سے خطاب نہیں کرتا۔
اسلام نے عملاً تمام گروہوں سے اپنے حامی و مددگار حاصل کئے ہیں حتیٰ جس طبقہ کے خلاف اسلام نے قیام کیا ہے اور اسے قرآن کی اصطلاح میں "ملا و مترف" سرمایہ دار و جاگیردار طبقے کا نام دیا گیا ہے۔ اسی میں سے اپنے حامی اور جانثار پیدا کر لئے ہیں۔ کسی طبقے میں سے خود اسی طبقے کے خلاف اپنے لئے جانثار بنا لینا کسی گروہ میں سے خود اسی گروہ کے مفادات کے خلاف اپنے حامی پیدا کر لینا یا پھر کسی شخص کو خود اس کے خلاف ابھارنا ایسے کام اسلام نے تاریخ میں بہت کئے ہیں اور اب بھی ایسا کرتا ہے۔ اسلام دین ہونے کی حیثیت سے انسانی وجود کی انتہائی گہرائی تک اپنا اثر کرتا ہے اور انسانی فطرت پر مبنی ہے۔ لہٰذا اسلام اس امر پر قادر ہے کہ کسی فرد کو اس کی اسی تباہی کے خلاف "ابھارے" اسے اپنے ہی خلاف قیام کرنے پر اکسائے اور اس طرح اس کے خلاف خود اسی کے ہاتھوں انقلاب برپا کر دے اسی کو "توبہ" کہتے ہیں۔ گروہی اور طبقاتی نظریہ حیات صرف ایک فرد کو دوسرے فرد کے خلاف یا ایک طبقہ کو دوسرے طبقہ کے خلاف ابھارنے کی طاقت رکھتا ہے۔ لیکن کسی فرد کو اپنے ہی خلاف انقلاب برپا کر دینے پر آمادہ کرنے کی صلاحیت اس میں ہرگز نہیں ہوتی۔ اس نظریہ حیات میں یہ صلاحیت بھی نہیں ہوتی کہ کسی فرد کو خود اسی کے اندر سے زیرنگرانی رکھے اور اسے کنٹرول کر سکے (اسی کو "مراقبہ" کہتے ہیں)۔
اسلام چونکہ ایک مذہب ہے اور آخری دین ہے لہٰذا کسی بھی دوسرے آسمانی دین سے بڑھ کر عدالت اجتماعی (Social Justice) قائم کرنے کے لئے آیا ہے۔ ( سورہ اعراف آیت:۲۹ قل امر ربی بالقسط___)
اسی لئے اس کا لازمی طور پر ہدف محروم و مستضعف افراد کی نجات اور ظالم مستکبروں کے خلاف جنگ کرنا ہے۔ لیکن اسلام کے مخاطب صرف محروم و مستضعف لوگ ہی نہیں ہیں۔ اسلام نے صرف اسی طبقے سے اپنے حامی پیدا نہیں کئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے مذہب کی قوت اور انسانی فطرت کو بنیاد بناتے ہوئے جن طبقات کے خلاف قیام کیا ان طبقات میں سے بھی اپنے لئے جانثار پیدا کئے ہیں۔ اسلام حیوانیت پر انسانیت جہالت پر علم ظلم پر عدالت تبعیض پر مساوات رذالت پر فضیلت لاابالی پر تقویٰ اور شرک پر توحید کی کامیابی کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ اس کا ایک مظہر و مصداق ظالموں اور جابروں پر مستضعفین کی کامیابی ہے۔
(ب) گذشتہ بحث کے ساتھ یہ مسئلہ بھی بیان ہونا چاہئے کہ آیا خالص انسانی ثقافت کی ماہیت قومی ملی یا طبقاتی ہوتی ہے؟ کیا موجودہ یا آئندہ وجود میں آنے والی ثقافت ایک ہی ہے یا متعدد ہیں؟
یہ مسئلہ بھی اسی سے مربوط ہے کہ آیا انسان کی نوعیت خالص اور ایک ہی فطرت کی مالک ہے اور یہی فطرت دراصل انسانی ثقافت کو بھی یکتائی عطا کرتی ہے یا ایک ایسی فطرت کا کہیں کوئی وجود نہیں ہے؟ بلکہ ثقافتیں تاریخی قومی اور جغرافیائی عوامل کی پیدائش ہوتی ہیں یا پھر طبقاتی مفادات کے رجحانات سے ثقافتیں وجود میں آتی ہیں؟ اسلام چونکہ اپنے تصور کائنات میں فطرت واحد کا قائل ہے لہٰذا ایک ہی نظریہ حیات اور ایک ہی ثقافت کا حامی ہے۔
(ج) واضح ہے کہ صرف اور صرف ایک انسانی نظریہ حیات نہ کہ گروہی نظریہ حیات ایک واحد نظریہ حیات نہ کہ تقسیم انسانی پر مبنی آئیڈیالوجی اور ایک فطری نظریہ نہ کہ مفاد پرستانہ نظریہ انسانی قدروں پر مبنی ہو سکتا ہے اور انسانی ماہیت کا مالک ہو سکتا ہے۔
(د) آئیڈیالوجی زمان و مکان میں مقید ہوتی ہے؟ کیا انسان مجبور ہے کہ ہر زمان و مکان کے بدلنے اور شرائط کے تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خاص نظریہ حیات کا حامل ہو؟ کیا نظریہ حیات پر (علاقے و مقام کے اعتبار سے) اصول اختلاف اور (زمانے کے اعتبار سے) نسخ و تغیر حکم فرما ہے؟ یا جیسا کہ انسانی آئیڈیالوجی گروہ کے حوالے سے ایک ہی ہے متعدد نہیں ہیں اسی طرح زمان و مکان کے حوالے سے بھی یگانہ و یکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں گروہی اعتبار سے یہ "عام" ہے اور "خاص" نہیں ہے اور زمان و مکان کے حوالے سے "مطلق" ہے "نسبی" نہیں ہے۔
آئیڈیالوجی زمان و مکان کے اعتبار سے مطلق ہو یا نسبی اپنے طور پر پابند ہے کہ اس کا مطلوب انسان کی نوعی فطرت ہو اور اس کا ہدف بنی نوع انسان کی سعادت ہو یا گروہی مفادات اور قومی و طبقاتی جذبات اس کے پیش نظر ہوں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ آئیڈیالوجی وابستہ ہے۔ اس چیز سے کہ اجتماعی تبدیلیوں کی ماہیت کے بارے میں ہم کیا نظریہ رکھتے ہیں۔ کیا جب معاشرہ بدلتا ہے ایک زمانہ گذار کر نئے دور کا آغازہوتا ہے تو اس وقت اس کی ماہیت بدل جاتی ہے۔
جس کے نتیجے میں اس پر پہلے قوانین سے مختلف لاگو ہو جاتے ہیں مثلاًجیسے پانی کا درجہ حرارت بڑھنے سے بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے تو پھر اس پر گیس کے قوانین لاگو ہو جاتے ہیں اور مائعات کے نہیں رہتے یا اجتماعی رشد و کمال اور تبدیلیاں ایسی نہیں ہیں بلکہ معاشرے کے ارتقاء کے بنیادی قوانین اور وہ مدار جس میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ثابت اور غیر متغیر ہیں۔ معاشرے میں مقام اور مرحلے کی تبدیلی ہوتی ہے۔ ترقی کے قانون اور اصول میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ جیسا کہ زندگی کے لحاظ سے جانداروں میں رشد و کمال اور طول پیدا ہوتا رہتا ہے لیکن رشد و کمال کے قوانین ہمیشہ ثابت رہتے ہیں۔
اس مسئلے میں ایک اور نقطہ نظر کے مطابق نظریہ حیات زمان و مکان کے اعتبار سے مطلق ہو یا نسبی۔ یہ اس چیز سے مربوط ہے کہ کوئی نظریہ حیات کسی تصور کائنات پر مبنی ہے۔ وہ نظریہ کائنات سائنسی فلسفی یا مذہبی ہے؟ سائنسی نظریہ حیات چونکہ ایک ناپائیدارات پر مبنی ہے لہٰذا خود پائیدار نہیں ہو سکتا۔ البتہ فلسفی تصور کائنات اس کے برعکس ہے کہ جو "اصول اولیہ" اور بدیہیات اولیہ پر مشتمل ہوتا ہے یا مذہبی تصور کائنات جو وحی و نبوت پر مبنی ہے۔ اس وقت اتنی فرصت اور موقع نہیں کہ ہم مسئلہ فطرت کو بیان کر سکیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے معارف اسلامی میں "ام المسائل" کی حیثیت حاصل ہے۔ نیز اسی صورت حال کے پیش نظر معاشرے کل تغیر و تبدل پر تحقیقی نظر ڈالنے سے قاصر ہیں۔ البتہ اس کتاب کے پانچویں باب میں "معاشرہ اور تاریخ" کے عنوان سے ہم بات کریں گے اور معاشرے کی تبدیلیوں اور فطرت سے ان کے رابطے پر ایک تحقیقی نظر ڈالیں گے۔
(ھ) کیا خود آئیڈیالوجی پر اصول تغیر حاکم ہے یا اصول ثبات حکم فرما ہے؟ گذشتہ بحث یہ تھی کہ آیا انسان کی آئیڈیالوجی مختلف زمان و مکان میں مختلف ہوتی ہے؟ یہ آئیڈیالوجی کے تبدیل یا منسوخ ہونے کا مسئلہ تھا لیکن اب ایک اور مسئلہ درپیش ہے اور وہ ایک آئیڈیالوجی کے تغیر و تبدل کا مسئلہ ہے۔ مسئلہ یوں ہے کہ آئیڈیالوجی اپنے محتویٰ کے اعتبار سے چاہے عام ہو یا خاص مطلق ہو یا نسبی خود اس اعتبار سے کہ یہ ایک مظہر (Phenomenon)کے اور مظاہر میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے اور وہ کمال کی طرف بڑھتے رہتے ہیں لہٰذا کیا آئیڈیالوجی دائمی طور پر تغیر و تبدل کا شکار رہتی ہے۔ کیا آئیڈیالوجی کی حقیقت پیدائش کے وقت کچھ اور ہوتی ہے کہ قائدین اور مفکرین کی طرف سے مسلسل اور ہمیشہ اس کی اصلاح ہوتی رہے اسے آراستہ و پیراستہ کیا جاتا رہے اور اس پر تجدید نظر ہوتی رہے۔ جیسا کہ آج کے مادی نظریات کی حالت ہمارے سامنے ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ نظریات جلد ہی فرسودہ اور پرانے ہو جائیں گے اور اپنی صلاحیت کھو بیٹھیں گے؟ یا کیا ممکن ہے ایک آئیڈیالوجی اس قدر منظم ہو اور معاشرہ و انسان کی حرکت کے بنیادی خطوط پر یوں رواں دواں ہو کہ قائدین کی طرف سے اس کی اصلاح یا تجدید نظر کی ضرورت نہ پڑے اور نظریات بنانے والے مفکرین و قائدین کا کام صرف اس کی حدود و مفہوم کے اندر "اجتہاد" کرنا ہو اور اسی طرح نظریاتی ارتقاء اجتہاد میں ہو نہ کہ آئیڈیالوجی کے متن میں؟اس سوال کا جواب گذشتہ سوالوں کے جوابات کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
(مزید تفصیل کیلئے شہید مطہری کی کتاب "کتاب نبوت" دیکھی جا سکتی ہے)

اسلام ایک جامع اور ہمہ گیر مکتب
اسلام کے جو ایسے تصور کائنات (جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے) پر مبنی ہے ایک ایسا مکتب ہے جو ہمہ گیر اور حقیقت پسند ہے۔ دنیاوی اخروی جسمانی و روحانی عقلی و فکری حساسی و جذباتی انفرادی و اجتماعی انسانی ضرورتوں کے تمام پہلوؤں پر اسلام نے توجہ دی ہے۔ اسلامی تعلیمات کو مجموعی طور پر تین شعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

(الف) اصول عقائد
چیزیں جن کے بارے میں ہر آدمی کی ذمہ داری ہے کہ ان کے بارے میں اپنا عقیدہ قائم کرے اس میدان میں انسان کے کام کی نوعیت تحقیقی و علمی ہوتی ہے۔

(ب) اخلاقیات
ایسی صفات اور خصائل کا مجموعہ جن کا حصول ہر مسلمان شخص کے لئے ضروری ہے۔ ہر مسلمان فرد کو چاہئے کہ اپنے آپ کو ان صفات اور خوبیوں سے آراستہ کرے اور ان سے متضاد و متصادم امور سے اپنے آپ کو بچائے اس میدان میں انسان کے کام کی نوعیت خود سازی اور نفس کی نگہداری کرنا ہے۔

(ج) احکام
ایسے اوامر کا مجموعہ ہے جو انسان کی خارجی اور حقیقی سرگرمیوں سے مربوط ہوتے ہیں۔ یہ تمام معاشی مساوی دنیوی اخروی انفرادی اور اجتماعی سرگرمیوں پر محیط ہوتے ہیں۔
شیعہ مذہب کے مطابق اسلامی عقائد کے پانچ اصول ہیں: توحید عدل نبوت امامت اور قیامت۔ یہ وہ عقائد ہیں جن کے بارے میں اسلام کے نزدیک صحیح عقیدے کا حصول ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ اسلام ان اصول عقائد کے بارے میں تقلید اور تعبد کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ اس بات کو ضروری سمجھتا ہے کہ ہر شخص خود سے آزادی اور اختیار کے ساتھ ان عقائد کی درستگی کو جانے۔ اسلام کی نظر میں عبادت فقط نماز روزہ جیسی بدنی عبادات تک محدود نہیں اور نہ ہی زکوٰة و خمس جیسی مالی عبادات میں اسے مقید کیا جا سکتا ہے۔ بعض اور عبادات بھی ہیں جن میں سے ایک فکری عبادت ہے۔ غور و فکر یا سوچ و بچار جیسی یہ فکری عبادت اگر انسان کو متنبہ اور بیدار کرنے کے لئے ہو تو یہ سالہا سال کی بدنی عبادت سے افضل اور بالاتر ہے۔

قرآن کی نظر میں فکری لغزش کے مقامات
قرآن مجید جو غور و فکر اور فکری بنیاد پر نتیجہ اخذ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ تفکر کو عبادت شمار کرتا ہے اصول عقائد کو منطقی غور و فکر کے بغیر ٹھیک نہیں سمجھتا۔ اسی پس منظر میں قرآن نے ایک بنیادی مطلب کی طرف توجہ دی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کی فکری لغزشوں کا سرچشمہ کیا ہے اور خطا و گمراہی کی اصل جڑ کہاں ہے؟ اگر انسان یہ چاہے کہ ٹھیک ٹھیک سوچے غلطی نہ کرے منحرف نہ ہو تو اسے کیا کرنا چاہئے؟
قرآن مجید نے بعض امور کو غلطیوں کی علت اور گمراہیوں کے سبب کے طور پر بیان کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

علم و یقین کی بجائے ظن و گمان پر اعتماد
قرآن گویا ہے:
وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ ان یتبعون الا الظن( انعام ۱۱۶)
"بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ اگر تم ان کی بات ماننے لگو تو تمہیں راہ حق سے بھٹکا دیں گے کیوں کہ وہ گمان کی پیروی کرتے ہیں اور صرف اندازے ٹیوے سے کام لیتے ہیں۔"
قرآن کریم نے بہت سی آیات میں ظن و گمان کی پیروی کی شدید مخالفت کی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ
ولاتقف مالیس لک بہ علم(اسراء ۳۶)
"جب تک کسی چیز کے بارے میں تمہیں علم و یقین حاصل نہ ہو جائے اس کے پیچھے نہ چلو۔ "
آج فلسفی نقطہ نظر سے بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اشتباہات اور غلطیوں کے بڑے اسباب میں سے ایک یہی ہے۔ قرآن سے ہزار سال بعد "ڈیکارٹ" نے اپنا پہلا منطقی اصول یہ قرار دیا اور کہا کہ میں کسی چیز کو حقیقت نہیں مانوں گا جب تک وہ چیز میرے لئے یقینی نہ ہو جائے۔ اپنی "تصدیقات" کے معاملے میں جلد بازی ذہنی سابقے اور میلان سے پرہیز کروں گا۔ اس وقت تک کسی چیز کو قبول نہیں کروں گا جب تک وہ چیز میرے لئے ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک نہ ہو جائے۔ (سیر حکمت در اروپا جلد اول)

میلانات اور ہوائے نفس
اگر انسان صحیح فیصلہ کرنا چاہے تو جس بات پر وہ سوچ رہا ہو اس کے بارے میں اسے مکمل طور پر غیر جانبدار رہنا چاہئے۔ حقیقت پسند بننے کی کوشش کرے دلیل و مدارک کے سامنے سرتسلیم خم کرے۔ بالکل ایک جج کی طرح کہ جب وہ کسی فائل کا مطالعہ کرے تو اسے مقدمے کے دونوں فریقوں کے بارے میں غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اگر قاضی یا جج کا ذاتی رجحان کسی ایک کی طرف ہو تو غیر شعوری طور پر اسی فریق کے دلائل اس کے لئے جاذب نظر ہوں گے اور اس کے خلاف آنے والے دلائل یا دوسرے فریق کے حق میں جانے والے دلائل خود بخود اس کی نظروں سے اوجھل ہوتے جائیں گے اور یہ امر قاضی کی خطا کا سبب بنتا ہے۔ اگر انسان اپنے افکار میں کسی مطلب کی نفی یا اثبات پر اپنے آپ کو غیر جانبدار نہ رکھے اور اس کا ذاتی رجحان کسی اور طرف ہو تو خود بخود اس کی توجہ کے بغیر ہی اس کی فکر کی سوئی اس کے ذاتی رجحان یا اس کی نفسانی خواہش کی طرف مڑ جائے گی۔ اسی لئے قرآن نے ظن و گمان کی طرح ہوائے نفس کو بھی لغزش کے اسباب میں شمار کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ان یتبعون الا الظن و ماتھوی الانفس ( سورہ نجم آیت ۲۳)
"یہ لوگ تو صرف اپنے ظن و گمان اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔"

جلد بازی
ہر فیصلے اور اظہار کے لئے کچھ معین اسناد ضروری ہوتی ہیں جب تک کسی مسئلے پر مطلوبہ اسناد حاصل نہ ہوں کسی بھی قسم کا اظہار نظر جلد بازی اور فکری لغزش کا موجب ہو گا۔ قرآن کریم بار بار انسانی علمی سرمائے کے کم ہونے کی جانب اشارہ کرتا ہے مزید بعض بڑے فیصلوں کے لئے اس کے ناکافی ہونے کا ذکر کرتا ہے۔ قطعی و حتمی اظہار کو احتیاط سے دور سمجھتا ہے مثلاً:
ما او تیتم من العلم الا قلیل ( سورہ اسرا آیت ۸۵)
"تمہیں جتنا علم دیا گیا ہے وہ کم ہے اور قضاوت کے لئے کافی نہیں ہے۔ "
امام صادق۱فرماتے ہیں: ۱قرآن میں خدا نے اپنے بندوں کو دو آیتوں کے ذریعے نصیحت کی ہے۔ اول یہ کہ جب تک کسی چیز کے بارے میں علم پیدا نہ کر لیں تصدیق نہ کریں (تصدیق کرنے میں جلد بازی نہ کریں)۔ دوسرا یہ کہ جب تک کسی چیز کے بارے میں علم حاصل نہ کر لیں اور علم و یقین کے مرحلے تک نہ پہنچ جائیں اس چیز کی نفی نہ کریں اسے رد نہ کریں (انکار کرنے میں جلد بازی)۔ ارشاد باری تعالیٰ ملاحظہ فرمائیں:
الم یوخذ علیھم میثاق الکتاب ان لا یقولو اعلی اللّٰہ الا الحق ( سورہ اعراف آیت ۱۲۹)
"کیا ان سے کتاب (کتاب فطرت یا آسمانی کتب) میں وعدہ نہیں لیا گیا کہ خدا پر سچ کے علاوہ کچھ نہیں کہیں گے (بات کا حق سچ ہونا ضروری ہے)۔"
ایک اور آیت میں یوں فرمایا:
بل کذبو ابمالم یحیطوا بعلم
( سورہ یونس آیت ۳۹)
"انہوں نے اس چیز کا انکار کیا اور جھٹلایا جس پر ان کو کوئی احاطہ نہ تھا (یعنی اسے نہ جانتے تھے)۔" (تفسیرالمیزان (عربی) ج ۶ ص ۳۱۹)
# آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
انسان اپنی طبیعت اولیٰ کے تحت جب دیکھتا ہے کہ کوئی ایک خاص فکر و عقیدہ گذشتہ نسلوں میں موجود تھا تو خود بغیر سوچے سمجھے اس کو قبول کر لیتا ہے۔ قرآن یاددہانی کرواتا ہے کہ گذشتہ نسلوں کے افکار و نظریات کو جب تک عقل و منطق کے معیار پر نہ پرکھو انہیں قبول نہ کرو۔ پہلی نسلوں کے عقائد کے حوالے سے تمہیں آزاد فکر ہونا چاہئے۔
و اذا قیل لھم اتبعوا ما انزل اللّٰہ قالوا بل نتبع ما الفینا علیہ آبائنا اولو کان آباؤ ھم لا یعقلون شیاً و لا یھتدون ( سورہ بقرہ آیت ۱۷۰)
"جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدا نے وحی کے ذریعے جو کچھ نازل کیا ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ہم صرف اپنی راہ و رسم اور روایات پر چلیں گے جن پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا۔"
کیا اگر ان کے آباؤ اجداد کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور انہیں کوئی راستہ سجھائی نہ دیتا ہو پھر بھی یہ انہی کی پیروی کریں گے؟

شخصیت پرستی
فکری لغزشوں کے اسباب میں سے ایک سبب شخصیت پرستی بھی ہے۔ عظیم تاریخی شخصیات یا معاصر بڑی بڑی شخصیات لوگوں کے دل و دماغ پر اپنی عظمت اور ہیبت کی وجہ سے ان کی فکر سوچ ارادے اور فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ درحقیقت دوسروں کے فکر و ارادہ کو مسخر کر لیتی ہیں۔ پھر دوسرے لوگ اسی طرح سوچتے ہیں جیسے وہ سوچیں اور اسی طرح فیصلے کرتے ہیں جیسے ان کے فیصلے ہوں۔ اس طرح لوگ ان کے سامنے اپنا ارادہ اور فکری آزادی کھو بیٹھتے ہیں۔
قرآن ہمیں فکری آزادی کی دعوت دیتا ہے۔ بڑوں کی اندھی تقلید کو دائمی بدبختی کا سبب گردانتا ہے۔ بنابرایں اسی راستے سے گمراہی پر چل نکلنے والوں کی زبانی کہتا ہے:
ربنا انا اطعنا سادتنا و کبرانا فاضلونا السبیلا ( سورہ احزاب آیت ۶۷)
"ہمارے خدا ہم نے اپنے بڑے بوڑھوں کی پیروی اور اطاعت کی نتیجتاً انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا۔"

اسلام میں فکری مآخذ
قرآن غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ فکری لغزشوں کی راہیں واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ مزید برآں غور و فکر کے سرچشموں کی بھی خبر دیتا ہے۔ یعنی جن موضوعات پر انسان کو سوچنا چاہئے اور ان موضوعات سے اپنی معلومات و اطلاعات کے لئے استفادہ کرنا چاہئے۔ قرآن نے انہیں بیان کیا ہے۔
اسلام میں کلی طور پر ایسے مسائل میں فکری توانائیاں خرچ کرنے سے منع کیا گیا ہے جن کا نتیجہ تھکاوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے موضوعات پر اسلام نے تحقیق کرنے سے روکا ہے۔ ممکن ہے بعض مسائل قابل تحقیق ہوں لیکن انسان کو ان سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتا ہو تو ایسے مسائل میں پڑنے کی بھی مخالفت کی گئی ہے۔
پیغمبر اکرم نے ایسے علم کو بے ہودہ اور لغو کہا ہے جس کے ہونے سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو اور اس کے نہ ہونے سے کوئی نقصان بھی نہ ہو۔ لیکن وہ علوم جو فائدہ مند ہیں۔ ان کے لئے تحقیق کے تمام راستے کھلے ہیں۔ اسلام نے ان کی تائید کی ہے اور ان کے بارے میں شوق و رغبت بڑھائی ہے۔
قرآن کریم نے غور و فکر کے لئے تین موضوعات کو مفید اور سودمند بیان کیا ہے۔
(مزید تفصیل کیلئے شہید مطہری کی کتاب "رسالہ شناخت در قرآن" دیکھئے)

عالم طبیعت
قرآن میں متعدد آیات ایسی ہیں جو عالم طبیعت کی طرف توجہ دلاتی ہیں: طبیعت یعنی زمین آسمان ستارے سورج چاند بادل بارش ہوائیں دریاؤں میں کشتیوں کا چلنا نباتات حیوانات حتیٰ ہر وہ محسوس چیز جو انسان کے اردگرد موجود ہے۔ یہ ان موضوعات میں سے ہیں جن کے بارے میں بہت دقیق غور و فکر کرنا چاہئے اور غور و فکر سے علم حاصل کرنا چاہئے۔
بطور مثال یہ آیت ملاحظہ ہو:
قل انظروا ماذا فی السموات والارض (یونس ۱۰۱)
"لوگوں سے کہہ دیجئے کہ غور کریں۔ مطالعہ کریں دیکھیں زمین و آسمان میں کیا کچھ ہے؟"

تاریخ
قرآن کی بہت سی آیات گذشتہ قوموں کے مطالعہ کی دعوت دیتی ہیں اور اسے حصول علم کا ایک منبع و سرچشمہ قرار دیتی ہیں۔ قرآن کی رو سے تاریخ بشر اور اس کے انقلابات یا تغیر و تبدل اصول و سنن کی بنیاد پر انجام پاتے ہیں۔ تاریخ میں عزت ذلت کامیابی ناکامی فتح و شکست خوش بختی و بدبختی کا ایک خاص دقیق و منظم حساب کتاب ہے۔ اسی حساب کتاب اور قانون و ضابطہ کو جان کر موجودہ تاریخ عصر حاضر کی لگام اپنے ہاتھ میں لے جا سکتی ہے۔ اپنے اور لوگوں کی سعادت کے لئے ان اصول و روایات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
نمونہ کے طور پر یہ آیت مجیدہ ملاحظہ ہو:
قد خلت من قبلکم سنن فسیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبة المکذبین (آل عمران آیت ۱۳۷)
"آپ سے پہلے قوانین اور اصول سنن روبہ عمل آ چکے ہیں۔ پس آپ ذرا زمین میں چل پھر کر گذشتگان کے آثار میں غور و فکر کریں اور دیکھیں ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جنہیں ہم نے وحی کے ذریعے حقائق بیان کئے اور انہوں نے اسے جھوٹ سمجھا۔"

انسانی ضمیر
قرآن انسانی ضمیر کو معرفت کا ایک خاص منبع و مآخذ قرار دیتا ہے۔ قرآن کی نظر میں تمام خلقت حقیقت کشف کرنے کے لئے اللہ کی آیات اس کی علامتیں اور نشانیاں ہیں۔ قرآن انسان کی بیرونی دنیا کو "آفاق" اور اندرونی دنیا کو "انفس" کے نام سے یاد کرتا ہے۔
( سورہ فصلت آیت ۵۳)
اسی طرح قرآن نے انسانی ضمیر کی خاص اہمیت کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اسلامی ادبیات میں "آفاق و انفس" کی اصطلاح یہیں سے پیدا ہوئی ہے۔
جرمن فلسفی "کانٹ" کا ایک مشہور عالم جملہ جو اس کی قبر پر بھی کندہ ہے۔
کانٹ کہتا ہے کہ
"دو چیزیں انسان کو سخت تعجب میں ڈال دیتی ہیں ایک ستاروں سے بھرا آسمان جو ہمارے سروں پر قائم ہے اور دوسرا وجدان و ضمیر جو ہمارے اندر ہے۔"