ہمارے عقیدے
 

۶۹۔دونمازوں کو ساتھ پڑھنا
ہمارا عقیدہ ہے کہ : نمازظھر و عصر یا مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھنا جائز ہے(اگرچہ انہیں انہیں الگ الگ وقت میں پڑھنا افضل اور بہتر ہے) ہمارا عقیدہ ہے کہ :نبی اکرم (ص)کی طرف سے دو نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت ان لوگوں کی حالت کے پیش نظر ہے جو مشکلات سے روبرو ہیں۔
صحیح ترمزی میں ابن عباس سے یوں منقول ہوا ہے کہ”’جمع رسول اللہ (ص)بین الظھر والعصر و بین المغرب والعشاء بالمدینةمن غیر خوف والمطر،قال تقول لابن عباس ما اراد بذٰلک ؟قال اراد ان لا یحرج امتہ“‘یعنی مدینہ میںپیغمبر اسلام (ص) نے ظھر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں بھی اکٹھی پڑھیں حالانکہ نہ کوئی خطرہ تھا اور نہ بارش تھی ۔ابن عباس سے دریافت کیا گیا کہ اس کام سے آنحضرت کا کیا مقصد تھا ؟ تو اس نے جواب دیا تاکہ اپنی امت کو مشکل میں نہ ڈالیں(یعنی جس مقام پر دو نوں نماز وں کو ایک ساتھ پڑھنا زحمت کا باعث ہو وہاں اس اجازت سے فائدہ اٹھایا جائے)(سنن ترمزی ،جلد ا صفحہ ۳۵۴ باب ۱۳۸ اور سنن بیہقی،جلد ۳ صفحہ ۶۷۔)
خاص کر موجودہ دور میں جب کہ معاشرتی زندگی خاص کر کارخانوں اور مصروف صنعتی مراکز میں بڑی پیچیدہ شکل اختیار کر چکی ہے اور پانچ الگ الگ اوقات میں نماز کی پابندی کی شرط کے باعث بعض لوگوں نے نماز کو بالکل ہی چھوڑ دیا ہے ۔ پیغمبر اسلام (ص) نے یہ جو اجازت عطا فرمائی ہے اس سے استفادہ کرتے ہوئے نماز کو زیادہ پابندی سے ادا کیا جا سکتا ہے۔


۷۰۔خاک پر سجدہ
ہمارا عقیدہ ہے کہ :مٹی یا زمین کے دوسرے اجزاء پر سجدہ کرنا چاہئے یا ان چیزوں پر جو زمین سے اگتی ہوں جیسے درختوں کے پتے اور لکڑی نیز دیگر پودوں پر سوائے ان چیزوں کے جو کھائی جاتی ہیں یا پہننے کے کام آتی ہیں۔
لہذٰا قالین وغیرہ پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ہم مٹی پر سجدہ کرنے کو سب چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں ،اسی لئے آسانی کی وجہ سے بہت سے شیعہ سانچے میں ڈھلے ہوئے پاک مٹی کا ایک ٹکڑا اپنے پاس رکھتے ہیں جسے سجدہ گاہ کہتے ہیں اور اس پر سجدہ کرتے ہیں ۔یہ پاک بھی ہے اور مٹی بھی۔
اس سلسلہ میں ہماری دلیل نبی اکرم (ص) کی یہ مشہور حدیث ہے۔-”جعلت لی الارض مسجدا و طھورا“ہم یہاں لفط مسجد کو ”سجدہ کی جگہ“کے معنی میں لیتے ہیں ۔ یہ حدیث اکثر کتب صحاح اور دوسری کتابوں میں نقل ہوئی ہے۔(بخاری نے اپنی صحیح میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے باب التےمم (جلد ا صفحہ ۹۱)میں،نسائی نے اپنی صحیح میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے باب التےمم بالصعید میں اسے ذکر کیا ہے۔مسند احمد میں یہ حدیث ابن عباس سے منقول ہے ۔دیکھئے جلد ۱ صفحہ ۳۰۱ ،شیعہ کتب میں بھی پیغمبر اکرم (ص)سے یہ روایت مختلف اسناد کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اس حدیث میں مسجد سے مراد سجدہ کی جگہ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد نماز کی جگہ ہے۔ اور یہ ان لوگوں کے عمل کی نفی کرتی ہے جو صرف ایک مخصوص مقام پر نماز پڑھتے ہیں ۔لیکن اس بات کے پیش نظر کہ یہاں طہور یعنی ”تےمم کی مٹی“کی بات آئی ہے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں اس مسجد سے مراد سجدہ کی جگہ ہے۔یعنی زمین کی مٹی طہور بھی ہے اور سجدہ کرنے کی جگہ بھی۔
اس کے علاوہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے بہت سی روایات منقول ہیں جن میں مٹی اور پتھر وغیرہ کو سجدہ کی جگہ قرار دیا گیا ہے۔


۷۱۔انبیاء اورآئمہ (ع)کے مزاروں کی زیارت
ہمارا عقیدہ ہے کہ:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،آئمہ اہل بیت علیہم السلام ،عظیم علماء ،دانشمندوں اور راہ حق کے شہیدوں کے مزارات کی زیارت سنت موکدہ ہے۔
اہل سنت کی کتابوں میں نبی اکرم (ص) کے روضہ مبارک کی زیارت کرنے کے بارے میں بے شمار روایات موجود ہیں ۔شیعہ کتابوں میں بھی یہ بات مذکور ہے۔اگر ان روایتوں کو اکٹھا کر دیا جائے تو ایک الگ کتاب بن سکتی ہے۔(ان روایات سے آگاہی حاصل کرنے ،اسی طرح زیارت کے سلسلہ میں بزرگوں کے کلمات اور حالات دیکھنے کے لئے الغدیر ،جلد۵ ،صفحہ ۹۳تا ۲۰۷ کی طرف رجوع کریں ۔)
ہر دور میں تمام بڑے علماء اور لوگوں کے طبقوں نے اس کو اہمیت دی ہے۔کتابیں ان لوگوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہیں۔جو رسول اکرم (ص)یا دوسرے بزرگوں کے مزاروں کی زیارت کے لئے جاتے تھے۔(ان روایات سے آگاہی حاصل کرنے نیز زیارت کے بارے میں بزرگوں کے اقوال اور حالات کے مطالعہ کے لئے سابقہ ماٴخز کی طرف رجوع کریں۔)بہر حال یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس مسئلہ پر تمام مسلمانوں کا اجماع اور اتفاق ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ زیارت اور عبادت کے درمیان فرق کو نہیں بھولنا چاہئے ۔عبادت و پرستش خدا کے لئے مخصوص ہے جبکہ زیارت کا مقصد بزرگان دین کا احترام ،ان کی یاد کو زندہ رکھنا اور خدا کے حضور ان سے شفاعت طلب کرنا ہے۔یہاں تک کہ بعض روایات کے مطابق آنحضرت (ص) اہل قبور کی زیارت کے لئے جنت البقیع جاتے اور ان کے لئے رحمت اور مغفرت کی دعا فرماتے تھے۔(یہ روایات صحیح مسلم ،ابو داؤد ،نسائی ، مسند احمد ،صحیح ترمذی اور سنن بیہقی میں دیکھی جا سکتی ہیں۔)
بنابر ایں اسلامی فقہ کے نقطئہ نظر سے اس کام کے جواز میں کسی شخص کو شک نہیں کرنا چاہئے ۔


۷۲۔مراسم عزا داری کا فائدہ
ہمارا عقیدہ ہے کہ-:شہدائے اسلام بالخصوص شہیدان کربلا کی عزاداری اور ان کا سوگ منانے کا مقصد ان کی یاد کو زندہ رکھنا اور اسلام کی راہ میں ان کی قربانیوں کا پرچار ہے۔اسی لئے ہم مختلف دنوں بالخصوص عاشور کے ایام (محرم کے پہلے دس دن )میں عزا داری مناتے ہیں جو رسول کی بیٹی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلام کے لخت جگر ،بہشت کے جوانوں کے سردار (”الحسن والحسین سےدا شباب اہل الجنة“حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔یہ حدیث صحیح ترمذی جلد ۲ صفحہ ۳۰۹،۳۰۷، میں ابو سعید خدری اوٖر حذیفہ سے منقول ہے۔نیز صحیح ابن ماجہ باب فضائل اصحاب رسول اللہ (ص) مستدرک الصحیحین ،حلیةالاولیاء ،تاریخ بغداد ،اصابة ابن حجر ،کنز العمال ،ذخائر اعقبی اور دوسری بہت سی کتابوں میں مذکور ہے۔)امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے ایام ہیں۔ہم ان کی زندگی اور ان کے کارناموں کا ذکر کرتے ہیں ،ان کے اہداف پر بحث کرتے ہیں اور ان کی پاک روحوں پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔
ےزید ایک فاجر،خود سراور اسلام سے بیگانہ شخص تھا ۔لیکن بد قسمتی سے اسلامی خلافت پر قابض تھا ۔امام حسین علیہ السلام نے سن ۶۱ ہجری میں اس کے خلاف قیام کیا۔اگر چہ وہ اور ان کے تمام ساتھی عراق میں کربلا نامی سرزمین پر شہید کر دئے گئے اور انکی خواتین قیدی بنا لی گئیں لیکن انکے خون نے اس دور کے تمام مسلمین میں ایک حیرت انگیز جزبہ اور ولولہ پیدا کر دیا۔بنی امیہ کے خلاف ےکے بعد دیگر بغاوتیں ہونے لگیں۔ان بغاوتوں نے بنی امیہ کے ظلم وستم کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔آخر کار انکا ناپاک وجود ختم ہو گیا ۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ واقعہ عاشورہ کے بعد بنی امیہ کی حکومت کے خلاف جتنی بغاوتیں ہوئیں سب کا عنوان ”الرضا لآل محمد “اور ”ےٰالثارات الحسین “کے نعرے تھے ۔یہاں تک کہ ان میں سے بعض نعرے تو بنی عباس کے ابتدائی دورر حکومت میں بھی بلند ہوتے رہے۔(ابو مسلم خراسانی جس نے عباسی حکومت کا خاتمہ کیا،اس نے مسلمانوں کی بعد ہم دردیاں حاصل کرنے کے لئے الرضا لآل محمد کا نعرہ لگایا ۔کامل ا بن اثیر ،جلد ۵ صفحہ ۳۷۲۔توابین کا قیام بھی”یا لثارات الحسین “کے نعرہ سے شروع ہوا۔الکامل ،جلد۴ صفحہ ۱۷۵ ۔مختار ابن ابو عبیدہ ثقفی کا قیام بھی اسی نعرہ کے ساتھ ہوا تھا،جلد ۴ صفحہ۲۸۸۔بنی عباس کے خلا ف جن لوگوں نے قیام کیا ان میں سے ایک حسین ابن علی شہیدفتح ہیں۔انہوں نے اپنا مقصد ایک جملے میں اس طرح بیان کیا ۔”و ادعوکم الیٰ الرضا من آل محمد “یعنی مین تمہیں آل محمد کی خوشنودی حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔مقاتل الطالبین ،صفحہ ۲۹۹ اور تاریخ طبری ،جلد ۸ صفحہ۱۹۴)
امام حسین علیہ السلام کا خونچکاں قیام آج ہم شیعوں کے لئے ہر قسم کی استبدادیت یا سینہ زوری اور ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک نمونئہ عمل اور لا ئحہ عمل کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ ”ھیھات منّاالذلّة“(ہم ہر گزذلت قبول نہیں کرتے )اور ”انّ الحیاة عقیدة و جھاد “(زندگی ایمان اور جھاد ہے) کے نعروں نے،جو کربلا کی خونین تحریک کا عطیہ ہےںہماری ہمیشہ مدد کی ہے تاکہ ہم ظالم اور جابر حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور سےد الشہدا ء امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی پیروی کرتے ہوئے ظالم کے شر کو دفع کریں ۔(انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران میں یہ نعرہ ہر طرف دکھائی دیتے ہیں )۔
مختصر یہ کہ شہدائے اسلام خاص کر شہدائے کربلا کی یاد تازہ کرنے سے ہمارے اندر عقیدہ اور ایمان کی راہ میں شہادت ،ایثار ،شجاعت اور فداکاری کا جزبہ ہمیشہ بیدار رہتا ہے ۔ یہ ہمیں عذت سے زندہ رہنے اور ظلم کے آگے سر نہ جھکانے کا درس دیتا ہے۔ یہ ہے ان واقعات کو زندہ رکھنے اور ہر سال عزاداری کا سلسلہ باقی رکھنے کا فلسفہ ۔
ممکن ہے بعض لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ ہم عزاداری کے مراسم میں کیا کرتے ہیں اور وہ اسے ایک ایسا تاریخی واقعہ سمجھے کہ جس پر عرصہ سے فراموشی کی گرد و غبار پڑی ہو۔لیکن ہم خود جانتے ہیں کہ ان واقعات کی یاد زندہ رکھنے سے ہمارے کل ،آج اور آئندہ کی تاریخ پر کیا اثرات مترتب ہوئے ہیں اور ہوں گے۔
غزوہ احد کے بعد سےد الشہداء حضرت حمزہ پر پیغمر اکرم ْ(ص) اور مسلمانو ں کے سوگ منانے کا واقعہ تاریخ کی سب مشہور کتابوں میں درج ہے ۔ رسول اکرم (ص) انصار کے ایک گھر کے پاس سے گزر رہے تھے ۔ آپ (ص) نے گریہ اور نوحہ کی آواز سنی۔ آپ کی آنکھیں بھی برسنے لگی اور چہرئہ اقدس سے آنسوں بہنے لگے ۔ آپ (ص) نے فرمایا : لیکن حمزہ پر کوئی رونے والا نہیں ہے۔سعد بن معاز نے جب یہ بات سنی تو وہ قبیلہ بنی عبد الاشہل کے بعض لوگوں کے پاس گئے اور انکی عورتوں کو حکم دیا :آنحضرت (ص) کے چچا کے گھر جاؤ اور سےد الشہدا ء حمزہ کا سوگ مناؤ(کامل ابن اثیر ،جلد ۲ صفحہ ۱۶۳و سیرہ ابن ہشام ،جلد ۳ صفحہ ۱۰۴)۔
واضح ہے کہ یہ کام حضرت حمزہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ باقی تمام شہداء کے معاملہ میں بھی اس پر عمل کرنا چاہئے ۔ہمیں چاہئے کہ موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے انکی یاد زندہ رکھیں اور اس طریقہ سے مسلمانوں کی رگوں میں نیا خون دوڑاتے رہیں ۔اتفاقا آج جب کہ میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں عاشورہ کا دن ہے(۱۰ محرم الحرام ۱۴۱۲ ہجری)۔
آج پورے عالم تشیع میں سچ مچ ایک عظیم ولولہ موجزن ہے۔جوان ،نوجوان اور بوڑھے سب مل کر سیاہ کپڑے پہنے ہوئے امام حسین (ع) اور شہدا ء کربلا کا سوگ منا رہے ہیں ۔ ان سب کے دلوں اور ذہنوں میں ایک ایسا انقلاب برپا ہے کہ اگر انہیںاسلام کے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لئے کہا جائے تو سب اسلحہ اٹھا کر میدان میں اتر جائیں گے اور کسی قسم کی قربانی اور جاں نثاری سے دریغ نہیں کریں گے۔گویا سب کی رگوں میں شہادت کا خون دوڑ رہا ہے اور اس وقت اور اس گھڑی حضرت امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں کو اسلام کی قربان گاہ کربلا میں اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔
ان پر شکوہ مراسم میں جو ولولہ انگیز اشعار پڑھے جاتے ہیں وہ استعمار اور استکبار کے خلاف دندان شکن نعروں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ ہم ظلم کے سامنے نہ جھکنے اور ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دینے کا اعلان کر رہے ہیں ۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ :یہ ایک عظیم معنوی سرمایہ ہے جس کی حفاظت کرنی چاہئے اور اسلام ،ایمان اور تقویٰ کی بقا کے لئے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔


۷۳۔ متعہ
ہمارا عقیدہ ہے کہ:وقتی شادی ایک شرعی کام ہے جسے اسلامی فقہ میں”متعہ“ کہتے ہیں ۔شادی دو قسم کی ہے ایک دائمی شادی جس میں وقت معین نہیں ہوتا اور دوسری متعہ جس کی مدت طرفین کے توافق سے معین ہوتی ہے۔
یہ شادی دائمی شادی کے ساتھ بہت سے مسائل میں مشابہت رکھتی ہے ۔مثلا حق مہر،عورت کا ہر مانع سے خالی ہونا وغیرہ ،نیز اس شادی سے پیدہ ہونے والے بچے انہی احکام کے حامل ہیں جو دائمی شادی سے پیدہ ہونے والے بچے رکھتے ہیں ۔جدائی کے بعد عدت پوری کرنے کا مسئلہ مشترک ہے۔یہ سب چیزیں ہمارے نزدیک مسلم ہیں ۔دوسرے لفظوں میں متعہ اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ ایک قسم کی شادی ہے۔البتہ دائمی نکاح اور متعہ میں کچھ فرق بھی ہیں اور وہ یہ کہ متعہ میں عورت کا نفقہ شوہر پر واجب نہیں ہے اور میاں بیوی ایک دوسرے کی میراث کے حقدار نہیں ہوں گے۔(لیکن ان کے بچے والدین اور ایک دوسرے کی میراث کے حقدار ہوں گے )۔
بہر حال ہم نے یہ حکم قرآن مجید سے لیا ہے ،جو فرماتا ہے کہ(فما استمتعتم بہ منھنّ فاتوھنّ اجورھنّ فریضة) یعنی جن عورتوں سے تم متعہ کرتے ہوں ان کا حق مہر تم کو ادا کرنا ہوگا (سورئہ نساء آیت ۲۴)بہت سے مشہور محدثین اور عظیم مفسرین نے تصریح کی ہے کہ یہ آیت متعہ کے متعلق ہے ۔
تفسیر طبری میں اس آیت کے ذیل میں متعہ سے متعلق بہت سی احادیث بیان کی گئی ہیں،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت متعہ کے بارے میں ہے اور پیغمبر اکرم (ص) کے بہت سے صحابیوں نے اس پر گواہی دی ہے ۔(تفسیر طبری ،جلد ۵ صفحہ ۹)
تفسیر الدرّالمنثور اور سنن بیہقی میں بھی اس سلسلہ میں بہت سی روایات نقل کی گئی ہیں ۔(الدر المنثور،جلد ۲ صفحہ ۱۴۰ اور سنن بیہقی جلد ۷صفحہ ۲۰۶)
صحیح بخاری ، مسند احمد،صحیح مسلم اور دوسری بہت سی کتابوں میں ایسی احادیث موجود ہیں ،جو نبی اکرم (ص) کے دور میں متعہ کی موجودگی پر دلیل ہیں ،اگر چہ اسکی مخالف روایات بھی موجود ہیں۔(مسند احمد،جلد ۴صفحہ ۴۲۶،صحیح بخاری ،جلد ۷صفحہ ۱۶ اور صحیح مسلم ،جلد ۲ صفحہ ۱۰۳۳،باب نکاح المتعہ)
بعض سناٴی فقہاء قائل ہیں کہ نبی اکرم (ص) کے دور میں نکاح متعہ رائج تھا ۔ اس کے بعد یہ حکم منسوخ ہو گیا ،جبکہ نعض یہ کہتے ہیں کہ یہ حکم آنحضرت (ص) کی زندگی کے آخر تک باقی تھا اور جناب عمر نے یہ حکم منسوخ کیا۔ حضرت عمر کا یہ قول ”’متعتان کانتا علیٰ عھد رسول اللہ و انا احرمھما و اعاقب علیھا:متعةالنسآء و متعة الحجّ“‘یعنی پیغمبر اکرم کے دور میں دو متعہ جائز تھے اور میں انہیں حرام قرار دیتا ہوںاور ان پر سزا دوں گا ۔ان میں سے ایک عورتوں سے متعہ اور دوسرا متعةالحج (حج کی ایک خاص قسم ) ہے۔( یہ حدیث اسی عبار ت یا اس سے ملتی جلتی عبارت کے ساتھ سنن بیہقی،جلد ۷صفحہ ۲۰۶ اور دوسری بہت سی کتابوں میں آئی ہے”الغدیر“کے مصنف نے کتب صحاح اور مسند ست ۲۵ احادیث نقل کی ہیں ،جو یہ بتاتی ہیں کہ اسلامی شریعت میں متعہ حلال ہے اور پیغمبر اکرم (ص)، خلیفہ اول اور حضرت عمر کے دور کے کچھ حصہ میں اس پر عمل ہوتا رہا ہے۔پھر خلیفہ دوم نے اپنی عمر کے آخری دور میں اس پر پابندی لگا دی ۔ الغدیر جلد ۳ صفحہ ۳۳۲)
اس بات میں شک نہیں ہے کہ بہت سے دوسرے احکام کی طرح اس اسلامی حکم میں بھی اہل سنت کے راویوں کے درمیان اختلاف ہے۔بعض اس بات کے قائل ہیں کہ یہ نبی اکرم (ص) کے دور میں نسخ ہو چکا ہے ۔بعض خلیفہ دوم کے دور میں اس کے نسخ کے قائل ہیں اور بعض مکمل طور پر اسکا انکار کرتے ہیں ۔ فقہی مسائل میں اس طرح کا اختلاف موجود ہے،لیکن شیعہ فقہاء میں اسکے جائز ہونے پر اتفاق رائے ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ آنحضرت (ص) کے دور میں نسخ نہیں ہوا اور آنحضرت (ص) کی رحلت کے بعد نسخ نا ممکن ہے۔
بہر حال میرا عقیدہ ہے کہ:اگر متعہ سے غلط استفادہ نہ کیا جائے تو یہ ان جوانوں کے سلسلہ میں بعض معاشرتی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے جو دائمی شادی نہیں کر سکتے۔یا جو تجارتی،اقتصادی ،تعلیمی یا دیگر وجوہات کے باعث کچھ عرصہ کے لئے اپنے گھر والوں سے دور رہتے ہیں ۔متعہ کی مخالفت اس طرح کے افراد میں برائی کا راستہ کھول دے گی۔خاص کر ہمارے دور میں جس میں مختلف اسباب کی وجہ سے دائمی نکاح کی عمر بڑھ گئی ہے اور دوسری طرف سے جنسی شہوت کو ابھارنے والے اسباب بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔ اگر اس راستہ پر پابندی لگا دی جائے تو ےقینی طور پر برائی کا راستہ کھل جائے گا ۔
ہم یہ بات دوبارہ دہراتے ہیں کہ ہم اسلامی حکم سے ہر طرح کے غلط استفادہ کرنے،اسے شہوت پرست افراد کے ہاتھ کا کھلونا قرار دینے اور عورتوں کو بدکاری کی طرف دھکیلنے کے مخالف ہیں۔لیکن کسی قانون سے بعض شہوت پرست افراد کے غلط فائدہ اٹھانے کے بہانے خود اس قانون پر پابندی نہیں لگنی چاہئے بلکہ اس کے غلط استعمال پر پابندی لگنی چاہئے۔


۷۴۔ تاریخ تشیع
ہمارا عقیدہ ہے کہ:تشیع کی بنیاد پیغمبر کے دور میں آنحضرت کی احادیث کے باعث پڑی ۔ اس مطلب پر ہمارے پاس برے واضح ثبوت موجود ہیں ۔
بہت سے مفسرین نے اس آیت کریمہ (انّ الّذین آمنوا وعملوا الصالحات اولٰٓئک ھم خیر البریة) یعنی جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے وہ (خدا کی ) بہترین مخلوق ہیں ( سورئہ بینة ،آیت ۷) کے ذیل میں پیغمبر اکرم (ص) کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام اور ان کے شیعہ
ہیں ۔
نشہور مفسر سیوطی نے درالمنثور میں ابن عساکر سے اور اس نے اجبر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ ہم پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ علی (ع) ہماری طرف آئے ۔جب آنحضرت (ص)کی نگاہ ان پر پڑی تو آپ نے فرمایا۔”والّذینفسی بیده انّ ھٰذا و شیعتہ ھم الفائزون یوم القیامة“‘یعنی اس ذات کی قسم جس کے قبضئہ قدرت میں میری جان ہے ،بے شک یہ اور اسکے شیعہ ہی قیامت کے دن کامیاب ہیں۔اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی (انّ الّذین آمنوا وعملوا الصالحات اولٰٓئک ھم خیر البریة) اس کے بعد جب حضرت علی علیہ السلام جب اصحاب کی محفل میں آتے تھے تو وہ یہ کہتے تھے ”جاء خیر البریّة“‘خدا کی مخلوق کی سب سے بہترین فرد آگئی۔(الدر المنثور ،جلد ۶ صفحہ ۲۷۹)
”ابن عباس “۔”ابو حریرہ “،”ابن مردویہ“اور ”عطیہ عوفی“ سے بھی یہی بات (مختصر سے فرق کے ساتھ)منقول ہے۔(مزید معلومات کے لئے پیام قرآن جلد ۹ صفحہ ۲۷۹ اور ما بعد کی طرف رجوع کریں )۔
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ علی(ع) سے محبت رکھنے والوں کے لئے لفظ ”شیعہ“کا انتخاب نبی اکرم (ص) کے دور میں ہی ہو گیا تھا ۔ یہ نام انہیں پیغمبر اکرم (ص) نے عطا کیا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ عصر خلفاء یا عصر صفویہ میں انہیں یہ نام ملا ہو۔
اگر چہ ہم دوسرے اسلامی فرقوں کا احترام کرتے ہیں اور انکے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ پر حج ادا کرتے ہیں اور اسلام کے مشترکہ اہداف کے لئے تعاون کرتے ہیں ،لیکن اس کے باوجود ہمارا عقیدہ ہے کہ علی (ع) کے ماننے والے بعض خصوصیات کے حامل ہیں اور ان پر نبی اکرم (ص) کی خاص توجہ اور نظر کرم تھی۔اسی لئے ہم نے اس مکتب کی پیروی اختیار کی ہے۔
شیعوں کے بعض مخالفین اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ مذہب شیعہ اور عبد اللہ ابن سبا کے درمیا رابطے کی کڑیاں ملائیں ۔اور وہ ہمیشہ یہ بات کہتے ہیں کہ شیعہ عبداللہ ابن سبا کے پیرو کار ہیں جو حقیقت میں یہودی تھا اور بعد میں اسلام لایا تھا۔یہ بات بہت ہی عجیب ہے کیونکہ شیعوں کی تمام کتابوں کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس مذہب کے ماننے والے اس شخص سے ذرہ برابر لگاؤ نہیں رکھتے ۔ اس کے بر عکس شیعوں کی تمام رجالی کتابوں میں عبد اللہ ابن سبا کو ایک گمراہ اور منحرف شخص قرار دیا گیا ہے ۔ہماری بعض روایتوں کے مطابق حضرت علی (ع) نے اس کے مرتد ہونے کی وجہ سے اسکے قتل کا حکم جاری کر دیا تھا (”تنقیح المقال فی علم الرجال “عبد اللہ ابن سبا کے ذکر میں اور علم رجال میں شیعوں کی دیگر مشہور و معروف کتب کی طرف رجوع کریں )۔
علاوہ از یں تاریخی حوالے سے عبد اللہ ابن سبا کا وجود ہی مشکوک ہے ۔بعض محققین کا خیال ہے کہ عبد اللہ ابن سبا ایک فرضی اور افسانوی شخصیت ہے اور اس نام کا شخص حقیقت میں موجود نہیں تھا۔چہ رسد باین کہ وہ مذہب شیعہ کا بانی ہو۔(کتاب عبد اللہ ابن سبا ، مصنفہ علامہ مرتضیٰ عسکری)بالفرض اگر ہم اس کو ایک فرضی انسان نہ بھی سمجھیں تب بھی ہماری نظر میں وہ ایک گمراہ اور منحرف شخص تھا ۔


۷۵۔شیعیت کے مراکز
یہ نکتہ اہمیت کا قابل ہے کہ شیعوں کا مرکز ہمیشہ ایران نہیں رہا بلکہ اسلام کی ابتدائی صدیوںمیں ہی اس کے متعدد مراکز تھے جن میں کوفہ،ےمن اور خود مدینہ بھی شامل ہیں۔شام میں بنی امیہ کے زہریلے پرپگینڈہ کے باوجودبھی شیعوں کے بہت سے مراکز موجود تھے،اگرچہ ان کی وسرت عراق میں موجود شیعہ مراکز کے برابر نہ تھی۔
مصر کی وسیع سر زمین میں بھی ہمیشہ شیعوں کی مختلف جماعتیں آتی رہی ہیں ۔یہاں تک کہ فاطمی خلفاء کے دور میں تو مصر کی حکومت بھی شیعوں کے ہاتھ میں تھی۔(بنی عباس کے دور میں شام کے شیعہ ہول ناک دباؤ کا شکار تھے ۔بنی عباس کے دور میں انہیں آرام نصیب نہیں ہوا۔یہاں تک کہ ان میں سے بہت سے لوگ بنی امیہ اور بنی عباس کے زندانوں میں چل بسے۔کچھ لوگ مشرق کی طرف چلے گئے اور بعض مغرب کی طرف۔ادریس بن عبداللہ بن حسن مصر چلے گئے اور وہاں سے مراکش چلے گئے ۔مراکش کے شیعوں کی مدد سے انہوں نے ادریسی سلسلہ حکومت کی بنیاد رکھی جو دوسری صدی کے آخر سے لیکر چوتھی
صدی کے آخر تک قائم رہی اور مصر میں شیعوں کی ایک اور حکومت بنی ۔یہ لوگ اپنے کو امام حسین علیہ السلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی بیٹی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی اولاد کہتے تھے ۔مصر کے لوگوں میں ایک شیعی حکومت کی تشکیل کے لئے آمادگی پاکر انہوں نے یہ کام کیا ۔چوتھی صدی ہجری ست باقاعدہ طور پر خلفاء کی کل تعداد چودہ ہے۔ان میں سے دس خلفاء کا مرکزحکومت مصر تھا۔تقریبا تین صدیوں تک انہوں نے مصر اور افریقہ کے دوسرے علاقوں میں حکومت کی ۔مسجد جامع الازہر اور الازہر یونیورسٹی انہوں نے بنائی ۔فاطمیوں کا نام فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ماٴخوز ہے ۔دیکھئے دائرةالمعارف دہخدا ،دائرة المعارف فرید وجدی ،المنجد فی الاعلام ،لفظ ”فطم“و”زہر“۔
اب بھی دنیا کے مختلف ملکوں میں شیعہ مسلمان موجود ہیں ۔مثلا سعودی عرب کے مشرقی علاقہ میں شیعوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور دیگر اسلامی فرقوں سے ان کے اچھے تعلقات ہے۔اگر چہ اسلام کے دشمنوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ شیعہ مسلمانوں اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان دشمنی ،عداوت،بدنیّتی اور غلط فہمیوں کے بیج بوئیں ، ان کے درمیان اختلاف اور جھگڑے کی آگ بھڑکائیں اور دونوں کو کمزور کرتے چلے جائیں ۔
بالخصوص آج جب کہ اسلام ، مادیت کے علم بردار مشرقو مغربی طاقتوں کے مقابلہ میں عالم گیر طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے ا ور دنیا کے لوگوں کو جومادی تہذیبوں سے مایوس ہو گئے ہیں اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔اسلام کے دشمنوں کی امیدوں کا سب سے بڑا سہارا یہ ہے کہ مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرنے اور دنیا میں اسلام کی بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لئے مذہبی اختلاف پھیلائیں اور مسلمانوں کو آپس میں الجھا دیں ۔بے شک اگر تمام اسلامی فرقوں کو ماننے والے بیدارا ور آگاہ رہیں تو اس خطرناک سازش کا سامنہ کر سکتے ہیں ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اہل سنت کی طرح شیعوں کے بھی مختلف فرقے ہیں ۔لیکن سب سے مشہور اور معروف شیعہ اثناء عشری ہیں جن کی تعداد دنیا کے شیعوں میں سب سے زیادہ ہے۔۔اگر چہ شیعوں کی صحیح تعداد اور دنیا کے مسلمانوں میں انکا تناسب واضح نہیں ہے لیکن کچھ اعداد و شمار کے مطابق ان کی تعداد بیس کروڑ کے لگ بھگ ہے ، جو دنیا کی مسلم آبادی کا تقریبا چوتھا حصہ ہے۔


۷۶۔ میراث اہل بیت
اس مکتب فکر کے ماننے والوں نے آئمہ اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ پیغمبر اکرم (ص) کی بہت سی احادیث نقل کی ہیں نیز حضرت علی (ع) اور دوسرے اماموں سے بھی بہت زیادہ روایات نقل کی ہیںجو آج شیعی تعلیمات اور فقہ کے بنیادی ماٴخذ میں سے ایک ماٴخذ ہے۔ ان احادیث پر مشتمل کتابوں میں سے چار کتابیں مشہور ہیں -:
۱۔ اصول کافی
۲۔من لا ےحضرہ الفقیہ
۳۔تھذیب الاحکام
۴۔الاستبصار
لیکن اس بات کو دہرانا ضروری ہے کہ ان مشہور ماٴخذ یا دوسرے معتبرماٴخذ میں کسی حدیث کی موجودگی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حدیث اپنی جگہ معتبر ہے ۔ بلکہ ہر حدیث کا ایک سلسلہ سند ہے۔سند میں مذکور ہر راوی کا جائزہ کتب رجال کی روشنی میں لیا جاتا ہے۔اگر سند کے تمام اشخاص قابل اعتماد ثابت ہوں تو اس وقت وہ حدیث ایک معتبر حدیث کی حیثیت سے پہچانی جائے گی۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ حدیث مشکوک یا ضعیف کہلائے گی ۔یہ کام صرف علمائے حدیث اور رجال کے بس کی بات ہے۔
اس سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ کتب شیعہ میں احادیث کی جمع آوری کا طریقئہ کار اہل سنت کے معروف ماٴخذ سے مختلف ہے۔کیونکہ مشہور کتب صحاح خاص کر صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ان کے مولفین کی روش یہ رہی ہے کہ وہ ایسی احادیث جمع کریں جو ان کے نزدیک معتبر اور صحیح ہوں اسی
وجہ سے اہل سنت کے عقائد تک رسائی کے لئے ان میں مذکور احادیث پر استناد کیا جا سکتا ہے(مقدمہ صحیح مسلم اور فتح الباری فی شرح صحیح البخاری کی طرف رجوع کریں ۔)جبکہ شیعہ محدثین کا موقف یہ رہا ہے کہ اہل بیت سے منسوب تمام احادیث اکٹھی کر دی جائیں پھر صحیح اور غیر صحیح احادیث کی پہچان کا کام علم رجال کے سپرد کر دیا جائے، غور کیجئے۔


۷۷۔دو عظیم کتابیں
شیعوں کے اہم ماٴخذ (جو انکے عظیم ورثے کا ایک حصہ محسوب ہوتے ہیں)میں سے ایک نھج البلاغہ ہے جس میں تقریبا ایک ہزار سال پہلے شریف رضی مرحوم نے تین حصوں حضرت علی (ع) کے خطبات،خطوط اور مختصر فرمودات جمع کئے ہیں ۔اس کتاب کے مضامین اس قدر بلند اور الفاظ اتنے خوب صورت ہیں کہ کسی بھی مکتب فکرکا پیروکار جب اس کتاب کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے مفاہیم سے متاٴثر ہو جاتا ہے۔ اے کاش نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی اس سے آشنا ہوتے تاکہ وہ توحید ، مبداٴ اور معاد کے علاوہ اخلاقی و سیاسی و معاشرتی مسائل کے بارے میں اسلام کی عظیم تعلیمات سے آگاہ ہوتے۔
ان عظیم ورثوں میں سے ایک عظیم ورثہ ”صحیفہ سجادیہ“ہے جو بہترین ،فصیح ترین اور زیباترین دعاؤں کا ایسا مجموعہ ہے جو بڑے عمیق اور بلند معانی پر مشتمل ہے ۔حقیقت میں یہ کتاب نھج البلاغہ والا کردار دوسرے انداز میں انجام دے رہی ہے۔ اس کے ایک ایک فقرے میں انسان کے لئے ایک نیا سبق پوشیدہ ہے ۔حقیقت میں یہ کتاب ”خدا کے حضور ہر انسان کو دعا اور مناجات کرنے کاسلیقہ سکھاتی ہے اور انسان کی روح اور دل کو نورانیت اور پاکیزگی عطا کرتی ہے۔
جیسا کہ اس کتاب کے نام سے واضح ہے یہ کتاب شیعوں کے چوتھے امام حضرت علی ابن الحسین علیہما السلام ،جن کا لقب سجاد ہے کی دعاؤں پر مشتمل ہے ۔ جب بھی ہم اپنے اندر دعا کی روح ،کدا کی طرف زیادہ توجہ اور اس کی ذات پاک سے زیادہ عشق پیدا کرنا چاہتے ہیں تویہ دعائیں پڑھتے ہیں اور اس نوخیز پودھے کی طرح جو بہار کے بابرکت بادلوں سے سےراب ہوتا ہے اس کتاب سے سےراب ہوتے ہیں۔
شیعہ احادیث جن کی تعداد دسیوں ہزار سے زیادہ ہے کا بیشتر حصہ پانچویں اور چھٹے امام یعنی امام محمد ابن علی الباقر(ع)اور حضرت جعفر ابن محمد الصادق (ع) سے مروی ہے۔بہت سی احادیث آٹھویں امام حضرت علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام سے بھی مروی ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تین عظیم ہستیوں کو زمان و مکان کے اعتبار سے ایسا ماحول ملا جس میں ان پر دشمنوں اور اموی اور عباسی حکمرانوں کا دباؤ کم تھا ۔اسی وجہ سے یہ ہستیاں رسول اکرم (ص) کی بہت ساری احادیث جو ان تک اپنے آباء و اجداد کے ذریعہ پہنچی تھی بیان کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔یہ احادیث اسلامی فقہ کے تمام ابواب سے متعلق تھیں۔مذہب شیعہ کو مزہب جعفری کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کی اکثر روایات چھٹے امام جعفر صادق (ع) سے مروی ہیں ۔ امام صادق (ع) کے دور میں بنی امیہ کی حکومت کمزور ہو چکی تھی اور بنی عباس کو ہنوز لوگوں پر دباؤ ڈالنے کی طاقت نصیب نہیں ہوئی تھی ۔
ہماری کتابوں کی رو سے مشہور ہے کہ اس امام نے حدیث ، معارف اور فقہ کے میدانوں میں چار ہزار شاگردوں کوو تربیت دی۔حنفی مذہب کے مشہور امام ابو حنیفہ نے ایک مختصر سے جملہ میں امام صادق علیہ السلام کا تعارف اس طرح پیش کیاہے”ما راٴیت افقہ من جعفر ابن محمد “یعنی میں نے جعفر ابن محمد (ع) سے برا فقیہ نہیں دیکھا۔(تذکرة الحفاظ ذہبی ،جلد ۱ صفحہ۱۶۶)
اہل سنت کے ایک اور امام مالک بن انس نے کہا :میں کچھ عرصہ تک جعفر(ع) ابن محمد (ع) کے پاس آتا جاتا رہا۔میں نے انہیں ہمیشہ ان تین حالتوں میں سے ایک میں پایا:یا نماز کی حالت میں یا روزہ کی حالت میںیا قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے۔
میرے عقیدہ کے مطابق علم و عبادت کے حوالے سے کسی نے جعفر ابن محمد (ع) الصادق (ع)سے بڑھکر کسی شخص کو نہ دیکھا اور نہ کسی کے بارے میں سنا ہے ۔( تہذیب التہذیب جلد ۲ صفحہ ۱۰۴،کتاب الامام الصادق (ع)جلد ۱ صفحہ ۵۳ میں اسد حیدر کے بقول)۔چونکہ اس کتاب میں نہایت اختصار کے ساتھ مطالب کو بیان کرنا مقصود ہے لہٰذا آئمّہ اہل بیت علیہم السلام کی شان میں دوسرے علمائے اسلام کے تبصروں کا تذکرہ نہیں کرتے۔


۷۸۔ اسلامی علوم میں شیعوں کا کردار
ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلامی علوم کو وجود بخشنے میں شیعوں کا اہم کردار رہا ہے ۔بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ شیعہ ،علوم اسلامی کا سر چشمہ ہیں۔یہاں تک کہ اس سلسلہ میں کتاب یا کتابیں لکھی گئی ہیں اور ثبوت پیش کئے گئے ہیں ۔لیکن ہم کہتے ہیں کہ کم ا زکم ان علوم کو وجود میں لانے میں ان کا بہت بڑا حصّہ ہے۔اس بات کی سب سے بڑی دلیل وہ کتابیں ہیں جو شیعہ علماء نے مختلف اسلامی علوم اور فنون کے بارے میں لکھی ہیں ۔ فقہ اور اصول فقہ میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں کچھ بہت زیادہ مفصل اور بے نظیر ہیں۔تفسیر اور قرآنی علوم میں ہزاروں کتابیں ،عقائد اور علم کلام میں ہزاروں کتابیں اب بھی ہماری لائبریریوں اور دنیا کی مشہور لائبریریوں میں موجود ہیں اور سب لوگوں کے سامنے ہیں ،ہر شخص ان لائبریریوں کی طرف رجوع کر کے اس دعویٰ کی صداقت کا مشاہدہ کر سکتا ہے ۔
ایک مشہور عالم دین نے ان کتابوں کی فہرست مرتب کی ہے اور ۲۶ بڑی جلدوں میں ان کا ذکر کیا ہے۔(اس کتاب کا نام الذریعہ الیٰ تصانیف الشیعہ ہے اور اس کے مصنف مشہور مفسر اورمحدث شیخ آغا بزرگ تہرانی ہیں۔ اس عظیم فہرست میں جن کتابوں کا تذکرہ ان کے مصنف کے نام پتہ اور ان کے حالات کے ساتھ ہو اہے ۔ ان کی تعداد۶۸ ہزار جلدیں ہیں ۔یہ کتاب ایک عرصہ پہلے چھپ کر منطر عام پر آچکی ہے۔)
یہ فہرست دسیوں سال پہلے مرتب ہوئی۔گذشتہ چند دہوں کے دوران ایک طرف سے گذشتہ شیعہ علماء کے علمی آثار کو زندہ کرنے نیز ان کی قلمی اور چاپ شدہ کتابوں کو جمع کرنے کی بڑی کوششیں ہوئی ہیں ۔دوسری طرف سے جدید کتابوںکی تصنیف و تالیف کے مےدان میں ےقین سے کہا جاسکتا ہے کہ سینکڑوں یا ہزاروں نئی کتابیں رشتئہ تحریر میں لائی جا چکی ہیں۔اگرچہ ان کتابوں کے اعداد و شمار کے بارے میں ہم نے کوئی فہرست مرتب نہیں کی ہے۔


۷۹۔سچائی ،صداقت اور امانت،اسلام کے اہم ارکان
ہمارا عقیدہ ہے کہ سچائی ،صداقت اور امانت اسلام کے اہم اوربنیادی ارکان میں سے ہیں۔قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے کہ :(قال اللہ ھٰذایوم ینفع الصادقین صدقھم)یعنی خدا وند عالم فرماتا ہے کہ آج وہ دن ہے کہ جس دن سچوں کی سچائی انہیں فائدہ پہنچائے گی۔(سورئہ مائدہ ،آیت ۱۱۹)
بلکہ قرآن کی بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن حقیقی جزا وہ ہے جو انسان کو سچائی اور صداقت (ایمان،خدا کے ساتھ کئے گئے وعدوں پر عمل اور زندگی کے تمام شعبوں میں سچائی اور صداقت) کے بدلے میں عطا کی جائے گی۔(لےجذی اللہ الصادقین بصدقھم)(سورئہ احزاب،آیت ۲۴)
جیسا کی پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے قرآنی حکم کے مطابق ہم سب مسلمانوں کی یہ ذمّہ داری ہے کہ ہم زندگی بھر معصومین اور سچوں کے ساتھ رہیں اور ان کے ہمراہ چلیں ۔(یاایھاالّذین آمنوااتقوا اللہ و کونوامع الصادقین)(سورئہ توبہ،آیت ۱۱۹)
اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہی خدا نے اپنے پیغمبر (ص)کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ خدا سے ہر کام کو صداقت کے ساتھ شروع کرنے اور صداقت کے ساتھ اس سے فارغ ہونے کی توفیق طلب کرے۔(و قل ربّ ادخلنی مدخل صدق و اخرجنی مخرج صدق)(سورئہ بنی اسرائیل،آیت ۸۰)
اسی بناء پر ہم احادیث میں دیکھتے ہیں کہ خدا کی طرف سے کوئی نبی مبعوث نہیں ہو ا مگر یہ کہ اس کے بنیادی لائحہ عمل میں صداقت ،سچائی اور امانت شامل تھیں”انّ اللہ عزّ وجلّ لم یبعث نبیا الّا بصدق الحدیث و ادآء الامانةالیٰ البرّ والفاجر“(بحار الانوار میں یہ حدیث حضرت امام جعفر صادق (ع) ہے،دیکھئے جلد ۷۸ صفحہ ۲ اور نیز جلد ۲ صفحہ ۱۰۴)
ہم نے بھی ان آیات اور روایات کی روشنی میں اپنی پوری کوشش اس بات پر صرف کی ہے کہ اس کتاب کے مباحث میں صرف اور صرف صداقت و سچائی کا راستہ اپنائیں اور کوئی ایسی بات نہ کریں جو حقیقت اور امانت داری کی منافی ہو۔امید ہے کہ خدا کے لطیف و کرم سے ہم اس ذمّہ داری سے عہدہ برآہونے میں خدا کی توفیق حاصل کر چکے ہوں گے ۔انّہ ولیّ التّوفیق ۔


۸۰۔حرف آخر
اس کتاب میں ذکر شدہ باتیں اسلام کے اصول و فروع کے بارے میں اہل بیت علیہم السلام کے معتقدین اور شیعوں کے عقائد کا خلاصہ ہے۔یہ کسی کمی بیشی
اور تحریف کے بغیر بیان ہوئی ہیں ۔قرآنی آیات ،اسلامی روایات اور علمائے اسلام کی مختلف کتابوں سے انکا ثبوت بھی اجمالی طور پر فراہم کر دیا گیا ہے ۔اگر چہ ابحاث کے اختصار اور تلخیص کے پیش نظر تمام شواہد اور دلائل کو پیش کرنا ممکن نہ تھا اس کتاب میں ہمارا مقصد بھی اجمالی طور پر اور اختصار کے ساتھ مطالب کو بیان کرنا تھا ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب مندرجہ ذیل نتائج کی حامل ہے۔۔
۱مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ یہ شیعہ عقائد کو واضح اور موثر انداز میں بیان کرتی ہے۔تمام اسلامی فرقے یہاں تک کہ غیر مسلم بھی اس مختصر سے کتابچہ کا مطالعہ کرکے شیعہ مذہب کے ماننے والوں کے عقائد سے براہ راست اجمالی طور پر آگاہ ہو سکتے ہیں ۔اس کتاب کی تدوین میں بہت زیادہ زحمت اٹھائی گئی ہے۔
۲ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لئے اتمام حجت کا باعث ہو سکتی ہے جو سمجھے اور جانے بغیر ہمارے عقائد کے متعلق فیصلہ کرتے ہیں نیز مشکوک اور مفاد پرست افراد یا غیر معتبر کتابوں سے ہمارے عقائد لیتے ہیں ۔
۳ہم سمجھتے ہیں کہ مذکورہ بالا عقائد کے مطالعہ کی روشنی میںاس مکتب فکر کے ماننے والوں اور باقی اسلامی فرقوں میں اتنا بڑا اختلاف نہیں ہے جو اس فرقے اور باقی اسلامی فرقوں کے درمیان مشترکہ تعاون کی راہ میں رکاوٹ بنے،کیونکہ تمام اسلامی فرقوں کے درمیان مشترکہ نکات بہت زیادہ ہیں اور سب کو مشترکہ دشمنوں کا بھی سامنا ہے۔
۴ہمیں ےقین ہے کہ اسلامی فرقوں کے اختلاف کو ہوا دینے اور ان کے درمیان جنگ اور خونریزی کی آگ بھڑکانے کے لئے خفیہ ہاتھ کام کر رہے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ اسلام (جو اس دور میں دنیا کے عظیم خطوں پر چھاتا جا رہا ہے اور کمیونزم کی بربادی سے پیدا ہونے والی خلاء کو پر کرنے والا ہے نیز سرمایہ دارانہ نظام کی روز بروز بڑھتی ہوئی لا ینحل مادی مشکلات کو حل کرنے والا ہے) کو کمزور کریں۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے دشمنوں کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ اس کام میں کامیاب ہوں اور یہ قیمتی موقع ہاتھ سے نکل نہ جائے جو دنیا میں اسلام کی شناخت کے لئے ہمارا ہاتھ آیا ہے۔
۵ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اسلامی فرقوں کے علماء اکھٹے ہو جائیں اور محبت و خلوص سے معمور ماحول میں ہر قسم کے تعصب اور ہٹ دھرمی کو بالائے طاق رکھ کر اختلافی مسائل پر بحث و گفتگو کریں تو ان اختلافات کے کم ہو جانے کا بہت زیادہ امکان ہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ سارے اختلافات ختم ہو جائیں گے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اختلافات میں کمی آئے گی ۔جس طرح کچھ عرصہ پہلے ایران کے بعض شیعہ اور سنی علماء زاہدان نامی شہر میں بیٹھے اوربعض اختلافات کا کاتمہ کر دیا اس کی تفصیل اس مختصر سی کتاب کے دامن میں نہیں سما سکتی۔(اس کی تفصیلات ”پیام حوزہ “نامی رسالے میں ملاحظہ ہوں )
آخر میں ہم خدا وند متعال کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتھ بلند کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں (ربّنا اغفر لنا ولاخواننا الّذین سبقوونابالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلّاللّذین امنوا ربّنا ا نّک رؤف رّحیم)یعنی خدایا ہمیں معاف معاف کر دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جنہوں نے ایمان میں ہم پر سبقت کی ہے اور ہمارے دلوں پر ایمان والوں کے لئے کسی قسم کا کینہ قرار نہ دینا ۔اے ہمارے پروردگار تو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔(سورئہ حشر ،آیت ۱۰)