ہمارے عقیدے
 

چوتھا حصہ قیامت اور موت کے بعد کی زندگی
۳۴۔ قیامت کے بغیر زندگی بے معنا ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ موت کے بعد ایک معین دن میں سارے انسان زندہ کیے جائیں گے اور ان کے اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا۔ نیک اور صالح عمل والے جنت الفردوس اور برے اور گناہ گارافراد دوزخ بھیجے جائیں گے۔
اللہ لا الہ الاھو لیجمعنکم الی یوم القیامة لا ریب فیہ۔
ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، بے شک قیامت کے دن ، جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے، وہ تم سب کو جمع کرے گا۔
(سورہ نساء آیہ ۸۷)
فاما من طغی و اثر الحیوة الدنیا فان الجحیم ھی الماوی، و اما من خاف مقام ربہ و نھی النفس عن الھوی، فان الجنة ھی الماوی۔
ترجمہ: لیکن جن لوگوں نے سرکسی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم رکھا، بے شک ان کا ٹھکانہ جھنم ہے اور جو لوگ مقام عدالت پروردگار سے ڈرتے ہیں اور اپنے نفس کو ھوی و ھوس سے بچاتے ہیں، یقینا جنت ان کا مقام ہیں۔
(سورہ نازعات آیہ ۳۷ سے ۴۱)
ہماراعقیدہ ہے کہ یہ دنیا ایک پل کی طرح ہے جس پر سے تمام انسانوں کو گزرنا ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والی دنیا کی طرف جانا ہے یا دوسرے لفظوں میں ، دنیا ایک ایسی گزرگاہ، یونیورسٹی ، بازار، تجارت یا کھیتی ہے، جس کو ذریعہ بنا کر انسان اپنے اصلی ھدف تک پہچتاہے۔
امیر المومنین علیہ السلام دنیا کے بارے میں فرماتے ہیں:
ان الدنیا دار صدق لمن صدقھا ۔۔۔ و دارغناء لمن تذور منھا ، و دار موعظة لمن اتعظ بھا، مسجد احباء اللہ و مصلی ملائکة اللہ و مھبط وحی اللہ و متجر اولیاء اللہ۔
ترجمہ: نے شک دنیا صدق وصداقت کا گھر ہے اس کے لیے جو اس کے ساتھ سچا ہو، بے نیازی کا گھر ہے اس کے لیے جو اس سے زاد راہ ذخیرہ کرے، آگاھی و بےداری کا گھر ہے اس کے لیے جو اس سے نصیحت لے، دنیا محبان خدا کے لیے سجدہ کرنے ، نماز پڑھنے اور وحی نازل ہونے کی جگہ اور دوستان خدا کے لیے تجارت گاہ ہے۔
(نہج البلاغہ، کلمات قصار نمبر۱۳۱)


۳۵۔ قیامت کے دلائل واضح اور روشن ہیں۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ قیامت کی دلیلیں اور نشانیاں نہایت واضح ہیں۔ اس لیے کہ ایک تو اس دنیاوی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خلقت کا اصلی اور بنیادی مقصد نہیں ہو سکتی، کہ جس میں انسان چند روز کے لیے آئے اور ڈھیروں مشکلات کے ساتھ زندگی گزارے اور آخر میں سب کچھ ختم ہو جائے اور دنیا فنا ہو جائے۔ افحسبتم انما خلقنا کم عبثا و انکم الینا لا ترجعون۔ کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تمہیں بیکار پیدا کیا گیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹ کر نہیں آوگے۔
(سورہ مومنون آیہ ۱۱۵)
آیہ کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ اگر قیامت کا وجود نہ ہوتا تو یہ دنیا بیہودہ و بیکار ہوتی۔
دوسرے یہ کہ: عدل الہی کا تقاضا ہے کہاچھے اور برے افراد جو اس دنیا میں ایک یہ صف میں ہیں بلکہ برے لوگ آگے ہیں، ایک دوسرے سے جدا ہوں اور سب کو ان کے اچھے یا برے اعمال کی جزا و سزا ملے۔ ام حسب الذین اجترحوا السیئات ان نجعلھم کالذین آمنوا و عملوا الصالحات سواء محیاھم و مماتھم ساء ما یحکمون۔
ترجمہ: یعنی جو لوگ گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں، کیا وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کی طرح قرار دیں گے جو ایمان لائیں ہیں اور عمل صالح انجام دیتے ہیں؟ اور ان کی زندگی اور موت ایک جیسی یوگی؟ وہ کتنا برا فیصلہ کرتے ہیں۔
(سورہ جاثیہ ۲۱)
۳۔ خدا کی بے پناہ رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے فیض اور نعمت کا سلسلہ انسان کی موت سے ختم نہ ہو ، بلکہ با صلاحیت اور اہل افراد کے تکامل کا سلسلہ آگے بڑھتا رہے۔ (کتب علی نفسہ الرحمة یجمعنکم الی یوم القیامةلا ریب فیہ) یعنی خدا نے اپنے اوپر رحمت کو فرض کیا ہے وہ تم سب کو ضرور بالضرور قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں ہے۔
(سورہ انعام آیہ ۱۲)
جو لوگ قیامت کے سلسلہ میں شک و تردید کے شکار تھے ، قرآن ان سے کہتا ہے: یہ کیسے ممکن ہے کہ مردوں کو زندہ کرنے کے سلسلہ میں تم خدا کی قدرت میں شک کرو، حالانکہ تمہیں پہلی مرتبہ بھی اس نے ہی پیدا کیا ہے۔ جس نے تمہیں پہلی بار مٹی سے پیدا کیا ہے وہی تمہیں ایک بار پھر دوسری زندگی کی طرف پلٹائے گا۔ (افعیینا بالخلق الاول بل ھم فی لبس من خلق جدید) یعنی کیا پہلی خلقت سے تھک گیے(جو قیامت کی خلقت پر قادر نہ ہوں؟ لیکن وہ (ان واضح دلائل کے باوجود نئی خلقت کے متعلق شک کرتے ہیں۔
(سورہ ق آیہ ۱۵)
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے: (وضرب لنا مثلا و نسی خلقہ قال من یحیی العظام و ھی رمیم) (قل یحیی الذی انشاء ھا اول مرة و ھو بکل خلق علیم)
یعنی اس نے ہمارے لیے ایک مثال پیش کی ، لیکن اپنی خلقت کو بھلا بیٹھا اور کہا کون ان پوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرے گا؟ کہو کہ جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا ہے وہ انہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور وہ ہر مخلوق کے بارے میں علم رکھتا ہے۔
(سورہ یاسین آیہ ۷۸، ۷۹)
علاوہ از ایں کیا زمین و آسمان کی خلقت کے مقابلہ میں انسان کی خلقت کوئی بڑی بات ہے؟ جو ہستی یہ قدرت رکھتی ہے کہ اس قدر وسیع اور حیرت انگیز کائنات کو پیدا کرے وہ یہ طاقت بھی رکھتی ہے کہ موت کے بعد مردوں کو زندہ کر دے۔ (اولم یرو ان اللہ الذی خلق السماوات والارض و لم یعیا بخلقھن بقادر علی ان یحیی الموتی بلی انہ علی کل شی قدیر) یعنی کیا وہ نہیں جانتے کہ جس خدا نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور جو ان کی خلقت سے عاجز نہیں ہوا، وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کرے ؟ ہاں وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
(سورہ احقاف ۳۳)


۳۶۔ معادجسمانی
ہمارا عقیدہ ہے کہ نہ صرف انسان کی روح بلکہ جسم اور روح دونوں ہی دوسری دنیا میں جائیں گے اور ایک نئی زندگی شروع ہوگی۔کیونکہ اس دنیا میں جو کچھ انجام پایا تھا وہ اسی روح اور جسم کے ذریعہ انجام پایا تھا، لہذا سزا اور جزا بھی دونوں کو ملنی چاہیے۔
قرآن مجید میں قیامت سے متعلق اکثر آیات میں ---معاد جسمانی کی بات کی گئی ہے اور مخالفین کے تعجب کا کہ پوسیدہ ہڈیاں کیسے نئی زندگی حاصل کریں گے، قرآن نے یہ جواب دیا ہے: (قل یحیی الذی انشاء ھا اول مرة ) یعنی جس نے انسان کو پہلی بار خاک سے پیدا کیا ہے وہ اس طرح کے کام پر قادر ہے۔
(سورہ یاسین آیہ ۷۹)
(ا یحسب الانسان ان لن نجمع عظامہ ) (بل قادرین علی ان نسوی بنانہ) یعنی کیا انسان یہ گمان کر تا ہے کہ ہم اس کی (پوسیدہ ) ہڈیوں کو جمع (اور زندہ) نہیں کر پائیں گے؟ ہاں ہم قدرت رکھتے ہیں۔ اس کی (انگلیوں کے) پوروں کو بھی درست کر دیں۔(اور پہلی حالت میں پلٹا دیں۔)
(سورہ قیامت آیہ ۳،۴)
یہ آیات اور اس طرح کی دورسری آیات معاد جسمانی کو صریحا بیان کرتی ہیں۔
وہ آیات جو یہ کہتی ہیں کہ تمہیں تمہاری قبروں سے اٹھایا جائے گا، وہ بھی واضح طور پر جسمانی معاد پر دلالت کر رہی ہیں۔
(سورہ یونس ۵۱ و ۵۲ آیت، سورہ قمر آیہ ۶۷ ، سورہ معارج آیہ ۴۲)
قرآن میں قیامت سے متعلق اکثر آیات روحانی معاد اور جسمانی معاد دونوں کو بیان کرتی ہیں۔


۳۷۔ موت اور بعد کی عجیب دنیا
ہمارہ عقیدہ ہے کہ موت کے بعد قیامت اور پھر بہثت و دوزخ کے سلسلہ میں جو کچھ رونما ہوگا اس کی عظمت کا ہم اس محدود دنیا میںاندازہ نہیں لگا سکتے ارشاد ربانی ہے -:(فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرة آعین) یعنی کہ کوئی نہیں جانتا --،ان (نیک لوگوں ) کے لئے کیسی نعمتیں رکھی گئی ہیں جو انکی آنکھوں کے لئے ٹھنڈک کی بائث ہیں ۔(سورئہ سجدہ آےت ۷۱)نبی اکر م کی اک بہت ہی مشہور حدیث میں منقول ہے ( اللہ ےقول اعددت لعباد ی ا لصالحین ما لا عین رات ولا عذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر ) یعنی خدا نے فرمیا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں ے لئے ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہے کہ جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا کسی کان نے نہیں سنا اور کسی انسان کے دل میں انکا خیال تک نہیں آیا ہے۔
(معروف محدثین مثلا بخاری اور مسلم اور مشھور مفسرین مشلا طبرسی،آلوسی اور قرطبی نے ےہ حدیث اپنی کتابوں مین نقل کی ہے۔)
حقیقت میں ہم اس دنیا میں اس جنین کی مانند ہیںجو شکم مادر کی محدود دنیا میں رہ رہا ہو۔ اگر فرضا جنین عقل اور حوش بھی رکھتا تو وہ ان حقائق کا ادراک نہیں کر سکتا جو رحم مادر کے باہر کی دنیا میں موجود ہے مثلا درخشان سورج اور چاند ،باد سحری کے چلنے پھولوں کے منظر اور سمندر کی لہروں کی آواز کو ہر گز درک نہیں کرتا ۔ قیامت کے مقابلہ میں دنیا کی مثال ایسی ہی ہے جیسی دنیا کے مقابلہ میں جنین کی ۔ (اس نکتہ پر غور فرمائےے)


۳۸۔ قیامت اور نامئہ اعمال
ہمارہ عقیدہ ےہ ہے کہ :وہ اعمال نامے جو ہمارے اعمال کی نشاندہی کر رہے ہوں گے۔ اس دن ہمارے ہاتھ میں دئےے جا ئیں گے۔ نیک لوگوں کا نامئہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں جب کہ برے لوگوں کا نامئہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جا ئے گا۔نیک اورمومن لوگ اپنا نامئہ اعمال دیکھ کر خوش ہوںگے جبکہ برے لوگ اپنا نامئہ اعمال دیکھ کر بہت غمگین اور پریشان ہوںگے۔قرآن نے بھی ےہ بیان فرمیا ہے :(فاما من اوتی کتابہ بیمینہ فیقول ھا ٓ ام اقرؤاکتابیہ)(انی ظننت انی ملاق حسابیہ)(فھوفی عیشةراضیة)۔۔۔۔۔۔(و اما من اوتی کتابہ بشمالہ فیقول یآلیتنی لم اوت کتابیہ) یعنی وہ شخص جس کا نامئہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جا ے گا (وہ خوشی سے ) پکارے گا کہ( اے اہل محشر)میرا نامئہ اعمال پکڑ کر پڑھو۔مجھے ےقین تھا کہا میں اپنے اعمال کا نتیجہ پاؤںگا۔وہ ایک پسندیدہ زندگی گزارے گا۔لیکن جس شخص کا نامئہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گاوہ کہے گا کہ اے کاش میرا نامئہ اعمال مجھے نہ دیا جاتا۔ (سورئہ الحاقہ،آیت۱۹ تا ۲۳)
البتہ ےہ بات واضح نہیں ہے کہ نامئہ اعمال کیا ہے اور کس طرح لکھا جاتا ہے،مگر اس کے اندر لکھی ہوئی باتوں کو کوئی شخص نہیں جھٹلا سکے گا۔چنانچہ پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ معاد اور قیامت کی کچھ ایسی خصوصیات اور جزئیات ہیںجن کا ادراک دنیا کے لوگوں کے لئے مشکل یا نا ممکن ہے۔البتہ قیامت کے بارے میں جو موٹی موٹی باتیں سب کو معلوم ہے اور ےہ ناقابل انکار ہیں۔

۳۹۔ قیامت کے گواہ
ہمارا عقیدہ ہے کہ:قیامت کے دن علاوہ اس کے کہ اللہ خود ہمارے اعمال پر شاھد اور گواہ ہے،کچھ دوسرے گواہ بھی ہمارے اعمال پر گواہی دیں گے ۔ہمارے ہاتھ اور پاؤں ےہاں تک کہ ہمارے بدن کی جلد اور وہ زمین جس پرہم رہ رہے ہیں ،اس کے علاوہ دوسری تمام چیزیں ہمارے اعمال کی گواہ اورشاہد ہیں ۔
(الیوم نختم علی افواھھم وتکلمنا ایدیھم وتشھد ارجلھم بماکانوایکسبون ) یعنی ہم آج (قیامت کے دن)ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور انکے ہاتھ ہمارے ساتھ گفتگو کریںگے اور ان کے پاؤں ان کے کاموں کی گواہی دیںگے ۔
(سورئہ ےس ،آےت ۶۵)
(و قالو ا لجلودھم لم شھدتم علینا قالوا انطقنااللہ الزی انطق کل شئی) یعنی وہ اپنے بدن کے چمڑے سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کےوں گواہی دی؟وہ جواب میں کہیں گے :جس خدا نے ہر چیز کو گویائی عطا کی ہے اس نے ہمےں گویائی عطا کی ۔(اور تمہارے اعمال سےپردہ ہٹانے کی ذمہ داری ہمیں سونپی ہے)۔
(سورئہ حم سجدہ ،آیت ۲۱)
( ویومئذ تحدث اخبارھا)(بان ربک اوحی لھا )یعنی اس دن زمین اپنی خبریں بیان کرے گی کےونکہ تیرے رب نے اس پر وحی کی ہے(کہ ےہ ذمہ داری انجام دے)۔
(سورئہ زلزال ،آیت ۴ اور ۵)


۴۰۔ پل صراط اور میزان اعمال
ہم قیامت کے دن پل صراط اور میزان کی موجودگی پر ایمان رکھتے ہیں۔
صراط وہی پل ہے جو جنم کے اوپر سے گزرتا ہے اورسب کو اس سے گزرنا ہوگا۔ ہاں جنت کا راستہ جہنم کے اوپر سے گزرتا ہے۔
(وان منکم الا واردھاکان علی ربک حتما مقضیا)(لم ننجی الزین اتقواوتذرالظالمین فیھا جثیا)یعنی تم سب کے سب جہنم میں وارد ہوںگے ۔ےہ تمہارے پر وردگار کا ےقینی اور حتمی امر ہے ۔اس کے بعد متقی لوگوں کو ہم اس سے نجات دیں گے اور ظالموں کو اسکے اندر زانو کے بل گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔
(سورئہ مرےم ،آیات ۷۱اور ۷۲)
اس خطرناک اور مشکل راستہ سے گزرنا ہمارے اعمال سے و ابستہ ہے۔چنانچہ ایک مشہور حدیث ہے:ِ”منھم من یمر مثل عدوالفرس،ومنھم من یمر حبوا،و منھم من یمر مشیا،ومنھم من یمرمتعلقا، و قد تاخز النار منہ شئیاوتترک شیئا---“یعنی کچھ لوگ بجلی کی طرح اس سے گزر جائیں گے،کچھ ذمہ داری گھوڑے کی سی تیزی کے ساتھ ، بعض ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل،کچھ پیدل چلنے والوں کی طرح،اور بعض اس سے لٹک کر چلیںگے۔کبھی جہنم کی آگ ان سے کچھ چیزیں لے لے گیاور کچھ چیزیں چھوڑ دے گی۔( ےہ حدیث معمولی سے فرق کے ساتھ فریقین کی کتابوں میں آئی ہے مثلا کنزالعمال حدیث۳۶۔۳۹ اور قرطبی جلد ۶ صفحہ ۴۱۷۵(سورئہ مرےم کی آےت ۷۱ کے ذیل میں)،نیز شیخ صدوق نے اپنی آمالی میںحضرت امام جعفر صادق (ع) سے رواےت کی ہے ۔صحیح بخاری میں بھی ”الصراط جسر جہنم “کے عنوان سے ایک باب موجود
ہے ۔(دیکھئے صحیح بخاری جلد ۸ صفحہ۱۴۶)
” میزان “ جیسا کہ اس کے نام سے واضح ہے انسانوں کے اعمال جانچنے کاایک ذریعہ ہے۔ ہاں اس دن ہمارے تمام اعمال کا حساب لیا جائے گا اور ہر عمل کے وزن اور قدر و قیمت کا علم ہو جائے گا۔
”وتضعالموازین القسط لیوم القیٰمة فلا تظلم نفس شیئا وان کان مثقال حبة من خردل اتینابھا وکفٰیبنا حاسبین)یعنی ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو نصب کریںگے پھر کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔ اگرچہکسی کا عمل (اچھے اور برے اعمال)رائی کے دانہ کے برابر ہی کےوں نہ ہو ،ہم اسے حاضر کریں گے۔ اور ہم حساب کرنے کے واسطہ بہت کافی ہیں ۔
(سورئہ انبیاء آیت ۴۷)
(فاما من ثقلت موازینہ )(فھوفی عیشہ راضیة)(واما من خفت موازینہ)(فامہ حاویة)یعنی البتہ وہ شخص جس کے اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا وہ ایک خوشحال زندگی گزارے گا اور جس کے اعمال کا پلڑاہلکا ہوگا اس کا ٹھکانا جہنم ہے ۔
(سورئہ قارعہ،آیات ۶تا۹)
ہاں۔ہمارا عقیدہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کی نجات اور کامیابی کا دارومدار اس کے اعمال پر ہے نہ اس کی آرزؤں اور تصورات پر۔ایک کو اسکے اعمال کا صلہ ملے گا ۔نیکی اور تقویٰ کے بغیر کوئی کامیاب نہیں ہوگا۔(کل نفس بما کسبت رھینة)یعنی ہرکوئی اپنے اعمال کے بدلے گرو ی ہے۔
(سورئہ مدثر ،آیت ۳۸)
پل صراط اور میزان کے بارے میں ےہ ایک مختصر سی وضاحت تھی ،اگرچہ ان کی تفصیلات کا ہمیں علم نہیں ہے ۔ جیسا کہ پہلے بھی ہم ذکر کر چکے ہیں کہ آخر ت کی دنیا اس دنیا سے بہت بڑی ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں ۔لہذا اس عالم کی تمام باتوں کا ادراک ہم مادی دنیا کے قیدی انسانوں کے لئے مشکل یا ناممکن ہے۔


۴۱۔ قیامت کے دن شفاعت
ہمارا عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن انبیاء ، ائمہ معصومین علیہم السلام اور اولیاء اللہ خدا کے اذن سے بعض گناہ گاروں کی شفاعت فرمائیں گے اور خدا کی بخشش انہیں نصیب ہو جائے گی۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ اجازت فقط ان لوگوں کے لیے ہوگی جنہوں نے اللہ اور اولیاء اللہ سے اپنا رابطہ قائم رکھا ہوگا۔ لہذا شفاعت مشروط ہے۔ےہ بھی ہماری نیتوں اور اعمال سے ایک طرح کا تعلق رکھتی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے (ولایشفعون الا لمن ارتضیٰ) یعنی وہ صرف اسی کی شفاعت کریں گے جسکی شفاعت پر خدا راضی ہوگا ۔ (سورئہ انبیاء آےت ۲۸)
جس طرح پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے ”شفاعت “انسانوں کی تربیت کا ایک ذریعہ اور گناہوں میں غوطہ زن ہونے سے روکنے کاایک ذریعہ ہے گویا ےہ انسان سے کہتا ہے کہ اگر تم سے کوئی گناہ ہو بھی گیا ہے تو یہیں سے لوٹ جاؤ اور اس سے زیادہ گناہ مت کرو۔
یقینی طور پر شفاعت عظمیٰ کا مقام پیغمبر اسلام ﷺکو حاصل ہے ۔ ان کیابعد باقی انبیاء اور ائمہ معصومین (ع) ےہاں تک کہ شہداء ، علماء صاحب معرفت اور کامل مومنین ،نیز قرآن اور نیک مومنین بھی بعز افراد کی شفاعت کریں گے۔
حضرت امام جعفر صادق (ع) سے مروی ایک حدیث میں مزکور ہے ” ما من احد من الاولین والاخرین الا وھو یحتاج الی شفات محمد ﷺ یوم القیامة“‘یعنی اولین اور آخرین میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو قیامت کے دن حضرت محمد ﷺکی شفاعت کا محتاج نہ ہو۔(بحار الانوار،جلد ۸ صفحہ ۴۲)
کنزالعمال میں نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث ےوں کہتی ہے کہ ”الشفعاء خمسة :القرآن والرحم والامانة ونبیکم و اھل بیت نبیکم“ یعنی روز قیامت شفاعت کرنے والے پانچ ہوں گے ۔قرآن،صلئہ رحم ، امانت ،تمہارے نبی ﷺ اور تمہارے نبی کے اھل بیت۔ (کنزالعمال ،حدیث ۲۹۰۴۱جلد ۱۴ صفحہ ۲۹۰)
حضرت امام جعفر صادق (ع) سے مروی ایک اور حدیث کچھ ےوں ہے : ”اذا کان یوم القیامة بعث اللہ العالم والعابد ،فاذا وقف بین یدی اللہ عز وجل قیل للعابد انطلق الیٰ الجنة و قیل للعالم قف تشفع الناس بحسن تادیبک لھم“ یعنی جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ عالما ور عابد کو اٹھائے گا۔جب دونو ں خالق کی بارگاہ میں کھڑے ہوںگے تو عابد سے کہا جائے گا ، کھڑے رہو اور لوگوں کی جو اچھی تربیت تم نے کی تھی اس کی بنا پر اسکی شفاعت کرو۔(بحار الانوار،جلد۸ صفحہ ۵۶ حدیث۲۲)
ےہ حدیث شفاعت کے فلسفہ کی طرف بھی لطیف اشارہ کر رہی ہے۔


۴۲ ۔ عالم برزخ
ہمارا عقیدہ ہے کہ:اس دنیا اور آخرت کے درمیان ایک تیسری دنیا بھی موجود ہے جس کا نام” عالم برزخ “ہے۔ موت کے بعد اور قیامت تک تمام انسانوںکی روحیں اس میں ٹھہریںگی ۔
(ومن ورا ٓئھم برزخ الیٰ ےوم ےبعثون “ یعنی اور انکے پیچھے (موت کے بعد) قیامت تک ایک برزخ ہے۔ (سورئہ مومنون،آےت ۱۰۰)
البتہ ہم عالم برزخ کی جزئیات سے بھی زیادہ اگاہی نہیں رکھتے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے ۔ہم بس اتنا ہی جانتے ہیں کہ نیک اور صالح لوگوں کی روحیں جو بلند درجات کی حامل ہے۔ (جیسے شھداء کی روحیں )عالم برزخ میں بہت سی نعمتوں سے بہرہ مند رہتی ہیں۔
(ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون) یعنی ایسا ہرگز مت سوچو کہ جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ہیں وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے اللہ کے ہاں رزق پاتے ہیں ۔ (سورئہ آل عمران ،آےت ۱۶۹)
نیز ظالموں ،متکبروں اور انکے حامےوں کی روحیں عالم برزخ میں عزاب پائیںگی ۔ جس کہ قرآ ن نے فرعون اور آل فرعون کے بارے میں کہا ہے:(النار یعرضون علیھا غدوا و عشیویوم تقوم الساعةادخلوا آل فرعون اشد العذاب)یعنی (برزخ میں)ان کا عذاب (جہنم کی)
آگ ہے۔ انہیں صبح وشام اسکے آگے کیا جائے گا ۔ اور جب قیامت برپا ہوگی (تو ارشاد ہوگا)کہ آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں مبتلا کر دو۔ (سورئہ مومن ،آےت۴۶)
لیکن تیسرا گروہ جن کے گناہ تھوڑے ہیں وہ نہ اس گروہ کے ساتھ ہیں اور نہ ا س گروہ کے ساتھ۔وہ عذاب اور سزا س ے بچے رہیں گے۔ گویا وہ عالم برزخ میں نیند جیسی حالت میں رہیںگے اور قیامت کے دن بیدار ہوں گے۔
(ویوم تقو م الساعةیقسم المجرمون ما لبثوا غیرساعة)(وقال الذین اوتوالعلم والایمان لقدلبثتم فی کتاب اللہ الیٰ یوم البعث فھٰذا ےوم البعث ولکنکم کنتم لایعلمون )یعنی اور جس دن قیامت آئے گی توگنہگار قسم کھائیںگے کہ وہ عالم برزخ میں ایک گھڑی ہی ٹہرے ہیں ۔لیکن وہ لوگ جنہیں علم اورایمان دیا گیا ہے۔(وہ مجرموں کو مخاطب کرکے کہیں گے )تم خدا کے حکم سے قیامت کے دن تک (برزخ کی دنیا میں)ٹھہرے ہوئے تھے ۔اب قیامت کا دن ہے لیکن تم نہیں جانتے تھے۔ (سورئہ روم ،آیات ۵۵ اور ۵۶)
احادیث میں بھی ذکر ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمیا ہے کہ ”القبر روضة من ریاض الجنة او حفرة من حفرالنیران“یعنی قبر یا تو جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔(دیکھئے صحیح ترمذی ،جلد ۴،کتاب صحیفةالقیامة،باب ۲۶ ،حدیث ۲۴۶۰۔شیعہ مآخذمیں ےہ حدیث کہیں امیرالمومنین(ع) سے اور کہیں امام علی ابن الحسین (ع)سے رواےت کی گئی ہے۔

۴۳۔مادی اور معنوی صلے
ہمارا عقیدہ ہے کہ :قیامت کے دن ملنے والا صلہ مادی پہلو بھی رکھتا ہے اور معنوی بھی،کیونکہ معاد،روحانی ہونے کے ساتھ ساتھ جسمانی بھی ہوگی۔
قرآن کریم اوراحادیث میں بہشت کے باغات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کے درختوں کے نیچے نہرے جاری ہوں گی۔(جنات تجری من تحتھاالانھار)(سورئہ توبہ ، آےت ۸۹)اور ےہ کہ جنت کے باغات کے پھل اور سائے ابدی ہوں گے(اکلھا دائم وظلھا)(سورئہ رعد ،آیت ۳۵)اور مومن لوگوں کے لئے بہشت میں بیویاں موجود ہوںگی(ازواج مطھرة)(سورئہ آل عمران آےت ۱۵)یاد رہے ےہ اور اسی طرح جہنم کی جلانے والی آگ اور اسکی دردناک سزاؤں کا جو تذکرہ آیا ہے وہ سب عالم آخرت کی جسمانی سزا اور جزا سے مربوط ہے۔
لیکن ان سے بڑھکر معنوی نعمتیں،معرفت الہی کے انوار ، پروردگار کا روحانی قرب اور اسکے جمال کے جلوے ہیں۔ےہ وہ لذتیں ہیں جو زبان اور بیان کے ذریعہ قابل وصف نہیں ہیں ۔
قرآن کی بعض آیات میں جنت کی بعض مادی نعمتوں،سرسبز وشاداب باغات ،اور پاکیزہ گھروں کے تذکرے کے بعد ارشاد ہوا ہے (ورضوان من اللہ اکبر)یعنی خدا کی خشنودی اور رضا سب سے بڑھ کر ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے :(ذاٰلک ھو فوز العظیم)یعنی ےہی تو عظیم کامیابی ہے ۔(سورئہ توبہ آےت ۷۲)
جی ہاں ،اس سے بڑھ کر لذت بخش بات اور کونسی ہوگی کہ انسان ےہ محسوس کرے کہ اس کے عظیم اور پیارے معبود نے اسے اپنی بارگاہ میںشرف قبولےت بخشا ہے اور اسے اپنی خشنودی کے سائے میں جگہ دی ہے ؟
امام علی ابن الحسین (ع) سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ ”ےقول (اللہ)تبارک وتعالیٰ رضای عنکم و محبتی لکم خیر و اعظم مما انتم فیہ“ یعنی خدا وند متعال ان سے کہے گا کہ تم سے میری خوشنودی اور تم سے میری محبت ان نعمتوں سے بہتر اور برتر ہیں جو تمہیں حاصل ہیں ۔وہ سب ےہ بات سنیں گے اور اس بات کی تصدیق کریںگے۔ (تفسیر عیاشی ،سورئہ توبہ کی آےت ۷۲ کع ذیل میں ،برواےت المیزان جلد:۹۱)
سچ مچ اس سے بڑھکر اور کو نسی نعمت ہو سکتی ہے کہ انسان سے ےہ کہا جائے ۔( یا ایتھاالنفس المطمئنة)(ارجعی الیٰ ربک راضیةمرضیه)(فادخلی فی عبادی )(وادخلی جنتی)یعنی اے نفس مطمئنة اپنے رب کی طرف لوٹ جا اس حالت میں کہ تو اس سے راضی ہو اور وہ تجھ سے ،پس میرے بندوں کی صف میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا ۔(سورئہ فجر ، آیات ۲۷ تا ۳۰)