گریہ اور عزاداری
 

امام زمانہ ذاکر حسین
واعظ اہل بیت مرحوم شیخ احمد کافی رضوان اللہ تعالٰی علیہ نقل کرتے ہیںکہ مرحوم ملاّ احمد مقدّس اردبیلی فرماتے ہیںکہ ہم لوگ طلاّب کے ہمراہ امام حسین کی زیارت کرنے کربلا جاتے تو ہمارے قافلہ میں ایک طالب علم تھا جو مصائب امام حسین بیان کیا کرتا اور خدانے اسے عجیب انداز مصائب دیا تھاعلاّمہ مقدّس اردبیلی کہتے ہیںہم امام حسین کے چہلم کے دن کربلا میں پہنچے تو دیکھا ہر طرف بھیڑ ہی بھیڑ ہے میں نے طالب علموں سے کہا : وہ طالب علم کہاں ہے جو مصائب پڑھا کرتا تھا کہانہیں معلوم وہ کہاں چلاگیا ،میں نے کہا جاؤ اسے ڈھونڈ کے لاؤ ۔ طالب علموں نے اندر بہت بھیڑ ہے آپ ادھر ہی ایک کونے کھڑے ہو کر زیارت پڑھ لیں تاکہ زائرین کے لئے مزاحمت ایجاد نہ ہو ۔میں نے طالب علموں کو جمع کر کے پوچھا کہ وہ طالب علم کہاں گیا تاکہ مصائب سناتا ،اتنے میں ایک عربی شخص مجمع کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور کہا: اے مقدّس اردبیلی کیا پروگرام ہے ؟ میں نے کہا : زیارت پڑھنا چاہتا ہوں۔کہااچاھ بلند آواز سے پڑھو تاکہ میں بھی سن سکوں ۔میں نے بلند آواز سے زیارت پڑھی تو اس نے مجھے زیارت کے بعض لطیف نکات کی طرف متوجہ کیا اور کہا تم اس طالب علم سے کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا:ہم اس سے مجلس سننا چاہتے ہیں۔کہا اگر میں سنا دوں تو پھر؟ہم نے کہا : اگر پڑھنا جانتے ہوتو سنا دو ۔اب اس نے امام حسین کی ضریح کی طرف منہ کیا اور عجیب انداز میں مصائب پڑھا کہ ہمیں منقلب کردیا ۔اور پھر ایک جملہ کہا :یا اباعبداللہ یہ طلاّب اور میں اس منظر کو کیسے بھول ہیںجب آپ نے اپنی بہن زینب کو الوداع کیا تھا ۔علاّمہ مقدّس اردبیلی فرماتے ہیں: جب میں سر اٹھا کر دیکھا تو وہ عربی نوجوان وہاں سے غائب ہو چکا تھا اس وقت میں سمجھا کہ وہ امام زمانہ عجّل اللہ فرجہ الشّریف تھے ۔

عزاداروں کی خدمت کا ثواب
صاحب کتاب اسرار الشہادة ایک معتبر واسطے سے (علاّمہ بحر العلوم کے مشہور شاگرد شیخ حسین تبریزی سے) نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دن غروب آفتاب کے وقت وادی السّلام میں موجود تھا اور نجف اشرف جاناچاہتا تھا کہ اچانک دیکھا گھوڑوںپر سوار ایک جماعت آ رہی ہے اور ان کے آگے آگے ایک نورانی چہرے والا شخص ہے جو دوسروںسے بالکل الگ نظر آرہا ہے ۔جب یہ لوگ میرے پاس پہنچے تو میں نے ان میں سے دو افراد کو پہچان لیا اور ان کے قریب گیا ،سلام کیا اور انہیں ان کے نام سے پکا ر ا،انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور کہا: ہم وہ نہیں ہیںجو آپ سمجھ رہے ہیںبلکہ ہم تو ملائکہ ہیںاور وہ شخص جو سب سے آگے آگے ہے وہ اہواز کے رہنے والے ایک نیک شخص کی روح ہے اور ہم سب کو اس کے استقبال کا حکم دیا گیا ہے آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں ۔میں ان کے ساتھ چل پڑا ،انہوں نے اس کے گھوڑے کی رکاب پکڑی اور ایک ایسی جگہ لے گئے جہاں ہر طرح کی نعمتیں ہی نعمتیںتھیں ،ہر طر ف چراغوں نے نور پھیلا رکھا تھا ۔او راس کا عجیب احترام کیا گیا ،جنّتی کھانوں کا دستر خوان بچھا یا گیا ،انواع واقسام کے کھانے لائے گئے ...اس شخص میں تین خصوصیات تھیں جس کی وجہ سے یہ مقام ملا :

١۔ اہل بیت رسول علیہم السّلام سے بے پناہ محبت کیا کرتا ۔

٢۔ ہمیشہ رزق حلال کھاتا۔

٣۔ سال کے اخراجات سے جو بچ جاتا اسے غریبوں اور امام حسین کی عزاداری کی راہ میں خرچ کر دیتا ۔
یہی نیکی باعث بنی کہ خدا وند متعال نے اسے اتنابلند مقام عطا کیا کہ ملائکہ بھی اس کا استقبال کررہے[90]۔

مؤمنین کی ذمہ داری
عزاداری امام مظلوم دین مقدّس اسلام کی بقاء کی ضامن ہے اور پوری امّت اسلامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دین کی بقاء کی خاطر امام حسین علیہ السّلام کی عزاداری کو احسن طریقے سے برپا کرنے کی کوشش کرے جس میں پیش قدم ماتمی عزادار ہیں جو اپنی جانوں پرکھیل کر اس عزاداری کی راہ میں آنے والی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں ذیل میں ہم عزاداروں کی ذمہ داریاں بیان کر رہے ہیں تا کہ وہ ان کا مطالعہ اوران پر عمل پیراہوکر بہتر طریقے سے دین کی خدمت کر سکیں :

١۔ خدا وند متعال کا شکر ادا کرنا کہ اس نے اہل بیت علیہم السّلام کی ولایت کی نعمت سے نوازاہے۔

٢۔اپنے والدین اور ان اساتیذ کے لئے دعاکرناجنہوں نے آل رسول کی محبت اور ان کی پیروی کرنے کی تربیت دی۔
٣۔عزاداری میں باوضو شریک ہوںاس لئے کہ یہ پاک ہستیوں کا ذکر ہے اور اگر انسان باوضو ہو کر اس ذکر کوسنے گا تو یقیناثواب میں اضافے کا موجب بھی بنے گا ۔

٤۔ غم وحزن والی صورت بناناکہ امام رضا علیہ السّلام فرماتے ہیں جب محرم کا مہینہ آتا تو میرے بابا پرغم وحزن کی عجیب کیفیت طاری ہوتی اور پھر فرمایا: اے ابن شبیب! اگر چاہتے ہو کہ روز قیامت ہمارے ساتھ رہو تو ہمارے غم میں غمگین ہو [91]۔

٥۔سیاہ کپڑے پہننا اور امام بارگاہوںکو بھی سیاہ پوش کرنا جو غم اور آل محمد سے محبت کی علامت ہے۔

٦۔مجالس عزا کا برپا کرنا اور ان میں بڑھ چڑھ کر شرکت کرنا۔
جیسا کہ امام صادق علیہ السّلام نے فضیل سے فرمایا: اے فضیل ! کیا مجالس برپا کرتے ہو
اس لئے کہ میں ان مجالس کو پسند کرتا ہوں[92]۔

٧۔مجالس عزاداری میں دوسروں کے حقوق کی رعایت کرناجیسا کہ خدا وند متعال کا ارشاد بھی ہے :
((یاأیھا الّذین آمنوا اذاقیل لکم تفسّحوافی المجالس فافسحوا))
ترجمہ:اے ایمان والو! جب تمہیں مجلس میں وسعت کے لئے کہا جائے تو دوسروں کو جگہ دے دو۔
مسلمانوں میںایک شوق یہ بھی تھا کہ ہر وقت بزم رسول ۖ میں حاضر رہو تاکہ اپنے تقرّب کا پروپیگنڈا کیا جاسکے او راس طرح عدیم الفرصت مسلمانوں کو زحمت ہوتی تھی تو قدرت نے تنبیہ کی کہ اوّلا تو آنے والوں کو جگہ دو اور پھر جگہ کم ہو تو اٹھ جاؤ اور اسے برا نہ مانو اس لئے کہ صاحبان علم وایمان کو بہر حال برتری حاصل ہونی چاہئے اور انہیں محفل میں مناسب جگہ ملنی چاہئے ،انہیں جاہلوں اور کم مرتبہ لوگوں کے برابر نہیں قراردیا جاسکتا ہے۔
عالم عالم ہوتاہے اورجاہل جاہل ،صرف محفل میں آکر بیٹھ جانے سے جاہل عالم نہیں کہا جا سکتا اور محفل میں حاضر نہ رہ سکنے کی وجہ سے عالم جاہل کے مانند نہیں ہو سکتا ۔علم ایک کمال بشریت ہے جو اپنے حامل کو سر فراز اور سر بلند رکھتا ہے[93] ۔ پس عزاداروں کو چاہئے کہ اگر کوئی اہل علم مجلس کے دوران آجائے تو اسے مناسب جگہ دیں ۔

٨۔جب ذکر مصیبت کیاجائے تو گریہ کرنا تاکہ بخشش کا سبب بن سکے۔

٩۔ایسی مجالس میں شرکت کرنا جہاں اہل علم و تقوٰی خطاب کررہے ہوں۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السّلام سے فرمایا :
((یاعلی ! اذا أتٰی علی المؤمن أربعین صباحا ولم یجلس العلماء ،قسی قلبہ وجرّ علی الکبائر .)) [94]
اے علی! جب کوئی مومن چالیس دن تک علماء سے دور رہے تو اس کا دل سخت ہو جاتا ہے او ر
تو گناہ کبیرہ کے انجام دینے میں اس کی جرأت بڑھ جا تی ہے ۔

١٠۔ اہل بیت علیہم السّلام کے دشمنوں سے اظہار نفرت کرنا ۔

١١۔ایّام عزاداری میں امام زمانہ عجّل اللہ فرجہ الشریف اور ایک دوسرے کو تسلیت عرض کرنا[95]۔

١٢۔ہر طرح کی فضول گفتگواور غیر شرعی حرکات سے پرہیز کرنا۔

١٣۔مجلس کے بعد خطیب سے جس بات کی سمجھ نہ آئے اس کے متعلق سوال کرنا۔

١٤۔عزاداری کی راہ میں مشکلات ایجاد کرنے والے مسائل پر نگاہ رکھنا اور انہیں دور کرنے کی کوشش کرنا۔

١٥۔امر بالمعروف اورنہی عن المنکرجو امام حسین علیہ السّلام کی عزاداری کا اصلی مقصد ہے
اگر مجلس میںگانوں کی طرز پر قصیدے پڑھے جائیں تو مؤمنین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پڑھنے والے کو احترام کے ساتھ روک دیںاور اس شرعی وظیفہ کے انجام دینے میں کوتاہی نہ برتیں۔ورنہ بنی اسرائیل کی طرح اس ذمہ داری میں کوتاہی کی وجہ سے لعنت کے مستحق قرار پائیں گے[96]۔

١٦۔علماء،ذاکرین،ماتمیوںاوربانیان مجالس کا احترام کرنا۔

١٧۔روز عاشور کام کاج کی چھٹی کرنا۔ امام رضا علیہ السّلام فرماتے ہیں:جو شخص روزعاشور کام چھوڑ دے گا تو خد اوند متعال اس کی دنیا وآخرت کی حاجات کو پوراکردے گا[97]۔

عزاداروں کے نام پیغام
اے صف ماتم مظلوم بچھانے والو
یاد گار ایک مسافر کی منانے والو

مجلس ذکر عزا میں مری آنے والو
اے شہادت پہ مری اشک بہانے والو

ذکر کرتے ہو زباں سے سحر وشام مرا
گوش دل سے سنتے نہیں پیغام مر

متغیر ہے بہت رنگ جہاں اب تو سنو
باغ اسلا م ہے پامال خزان اب تو سنو

جاگ اٹھو ،ترگ کرو خواب گراں اب تو سنو
مٹ رہے ہیں مری منزل کے نشان اب تو سنو

کیسے ثابت ہو رلاتی ہے تمہیں یاد مری
دیکھتا یہ ہوں کہ سنتے نہیں فریا دمیری

کیا یہ منشاء ہے کہ پھر خوں میں نہا کر آؤں
پھر اسی شان سے ہاتھوں پہ لئے سر آؤں

قصر جنّت سے ادھر بادل مضطر آؤں
کیا یہ مطلب ہے کہ پھر قبر سے باہر آؤں

جوش میں پھر نہ مرا جذبہ غیرت آئے
کہیں پہلے نہ قیامت سے قیامت آئے

اب نہ وہ دل ہیں نہ وہ گلشن اخلاص کی سیر
ہوگیا کیا کہ نہیں میری طرح طالب خیر

کیسے اپنے ہو کہ باطن میں نظر آتے ہو غیر
مجھ سے دعوائے محبت میری تعلیم سے بیر

دل میں جب جوش اطاعت کا بھرا ہوتاہے
حق محبت کا اسی وقت اداہوتا ہے

کیا تمہیں آکے اس خواب سے بیدار کروں؟
کیا کسی دشت کو پھر سے خون سے گلزار کرو ں

اپنے اکبرکو پھر آمادہ پیکار کروں
کیا پھر عباس کو لشکر کا علمدار کروں؟

مجھ سے مانوس ہو میری راہ سے بیزار ہو تم
پھر کسی خونی منظڑ کے طلبگار ہو تم

آج ہر بات پہ کیوں تفرقہ کرتے ہو تم
انجمن ساز ہو یا خانہ برانداز ہو تم

دل پہ ہوتا نہیں انوار حقائق کا ورود
کم ہے اعمال میں اخلاص وصداقت کا وجود

ذوق تحسیں ہے کہیں اور کہیں شوق نمود
حال یہ ہے تو رہے گی یہ عزا بھی بے سود

شہید کربلا کو سلام
بھولا نہ سانحہ ابھی عالم حسین کا
انسانیت کو آج بھی غم حسین ک

محسن تھا نہ کوئی ہمدم حسین کا
گردش میں قافلہ رہا پیہم حسین ک

ٹکرا گیا ہزاروں سے شیر خد اکا لال
اہل جہاں نے دیکھ لیا دم حسین ک

بیعت نہ کی کسی نے بھی سب ہو گئے شہید
ہرایک آدمی تھا منطّم حسین ک

رنج والم میں ڈوبی ہے کرب وبلا کی شام
ماتم کررہی ہے صبح کو شبنم حسین ک

کوشش ہزار ان کو جھکانے کی کی مگر
دشمن کے آگے سر خم نہ ہو حسین ک

نسل خلیل سے ہیں وہ سبط رسولۖ بھی
کوثر بھی حسین کا زمزم حسین ک

لہرا رہا ہے صبر وشجاعت کا آج بھی
کرب وبلا کے سینے پہ پرچم حسین کا

نام یزید لیتا ہے کون احترام سے
لیکن ہے نام اب بھی مکرّم حسین کا

یاد حسین دل میں ہے جمشید جلوہ گر
سینے میں اپنے رکھتے ہیں ہم غم حسین ک


( جمشید اقبال حنفی)

وصلی اللہ علی الحسین وجدّہ وأبیہ وأمّہ وأخیہ والمعصومین من بنیہ وغفراللہ شیعتہ ومحبّیہ ولعن اللہ قاتلیہ ۔