گریہ اور عزاداری
 

گلی کوچوں میں عزاداری
گلی کوچوں او رسڑکوں پر عزاداری اور نوحہ خوانی ان امورمیں سے ہے جو صدر اسلام سے لے کر آج تک شیعہ و سنی مسلمانوں کے درمیان رائج ہیںاور بڑے بڑے علمائے اہل سنّت اسے انجام دیتے چلے آئے
ہیں ۔جب تک اسلام کی سربلندی وسرفرازی کا کلمہ پڑھنے والے موجود ہیں تب تک امام حسین کے پیغام کو اسی عزاداری کے ذریعے دنیا والوں تک پہنچاتے رہیں گے ۔یہ وہ غم ہے جس کی حفاظت وپاسداری خود خدانے اپنے ذمہ لے رکھی ہے ورنہ بنو امیہ اور بنو عباس نے اس غم کو مٹانے کے لئے کون سی کوشش نہ کی لیکن اس غم ، مجلس وماتم اوراس عزاداری مظلو م کربلا کونہ مٹاسکے اورپیغمبر ۖ کے چاہنے والے بھی آج تک اسی ماتم وعزاداری کی صورت میں نواسہ رسول ۖ سے محبت اور یزید سے بیزاری کا اعلان کر تے چلے آرہے ہیں۔

یا حسین بن علی ماتم تیرا ہم کرتے رہیں گے
دم تیرا ہم اللہ کی قسم بھرتے رہیں گے
لاکھ چھپے پردوں میں تو اے روح یزیدی
لعنت تیری تصویر پہ ہم کرتے رہیں گے

آج بھی عزادار ی کی مخالفت کرنے والے خود حکومت اور حکمرانوں کے خلاف سڑکوںاورروڈوں پر جلوس نکالتے رہتے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ جب نواسہ رسول ۖ کی مظلومیت اور یزید کے ظلم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے عاشقان رسول ۖ سڑکوں پر نکلتے ہیں تو انہی لوگوں کے اندر بغض رسول ۖ و آل رسول ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے اور فوراان جلوسوں کا راستہ روکنے پر تیار ہوجاتے ہیں اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ جلوس ان کے عقیدہ کی نفی کررہے ہیں لہذا جیسے کیسے ہو ان کا راستہ روکا جائے ورنہ کون سا ایسا دن ہے جس میں دنیا کے گوش وکنار میں ظلم کے خلاف احتجاج نہ ہوا ہو، لیکن وہاں نہ تو راستہ روکا جاتا ہے اور نہ بدعت کا فتوٰی لگایا جاتا ہے ۔ ذیل میں ہم علمائے اہل سنّت کے ماتم کے چند ایک نمونے پیش کر رہے تا کہ جو لوگ حقیقت تک پہنچنا چاہتے ہیں ان پر اتمام حجت ہو جائے ۔

١۔طبری :
انہوں نے اپنی کتاب تاریخ الطبری میں لکھا ہے :
((فلم أسمع واللہ واعیة مثل واعیة نساء بنی ھاشم فی دورھنّ علی الحسین)) [21]
خدا کی قسم ! میں نے بنو ہاشم کی خواتین کے حسین پر گریہ و فریاد کے مانند کوئی گریہ نہیں سنا.

٢۔ نسفی :
وہ کہتے ہیں : میںاہل سنت کے حافظ بزرگ ابو یعلی عبدالمومن بن خلف (ت ٣٤٦ھ) کے جنازے میں شریک تھا کہ اچانک چار سو طبلوںکی آواز گونجنے لگی[22]۔

٣۔ذہبی:
اہل سنّت کے بہت بڑے عالم دین اور علم رجال کے ماہر ذہبی کہتے ہیں : جوینی نے ٢٥ ربیع الثانی ٤٧٨ھ میں وفات پائی ۔ لوگ اسکے منبر کوتوڑ کر تبرک کے طور پر لے گئے ، اس کے سوگ میں دکانوں کو بند کردیا اور مرثیے پڑھے ۔ اس کے چار سو شاگرد تھے جنہوں نے اس کے فراق میں قلم ودوات توڑ ڈالے اور ا س کے لئے عزا برپا کی ۔ انہوں نے ایک سال کے لئے عمامے اتار دیئے اور کسی کی جرأت نہ تھی کہ سر کوڈھانپے ۔ طلاب شہر میں پھرتے ہوئے نوحہ وفریاد اور گریہ وزاری میں مشغول رہتے[23] ۔

٤۔سبط بن جوزی :
ابن کثیر (البدایة والنہایة ) میں لکھتے ہیں ؛
ملک ناصر (حاکم حلب) کے زمانے میں یہ درخواست کی گئی کہ روز عاشوراء کربلا کے مصائب بیان کئے جائیں ۔ سبط بن جوزی منبر پر گئے ، کافی دیر سکوت کے بعد عمامہ سر سے اتارا اورشدید گریہ کیا۔ اور پھر یہ اشعار پڑھے :

ویل لمن شفعائہ خصمائہ
والصور فی نشر الخلائق ینفخ

لا بد ان ترد القیامة فاطم
وقمیصھا بدم الحسین ملطخ

افسوس ہے ان پر جن کی شفاعت کرنے والے جب میدان محشر میں صور پھونکاجائیگا تو ان کے دشمن ہونگے ۔ اورفاطمہ روز قیامت ضروراپنے فرزند حسین کے خون میں لتھڑی ہوئی قمیص لے کر میدان محشر میں وارد ہونگی۔
یہ کہہ کرمنبر سے اترے اور اپنی رہائش گاہ کی طرف چلے گئے[24] ۔

٥۔عمر بن عبدلعزیز :
خالد ربعی عمر بن عبدالعزیز کی عزاداری کے بارے میں کہتاہے :
تورات میں بیان ہوا ہے کہ عمربن عبد العزیز کی موت پر چالیس دن تک زمین وآسمان گریہ کریں گے[25].
واضح روایات او رتاریخی شواہد کی روشنی میں مجالس ، ماتم وسوگواری ، نوحہ خوانی ، گریہ وعزاداری ، عزیزوں کے فراق میں بے تابی ، منہ اور سینے پر پیٹنا ، دکانوں کا بند رکھنا او رغم مناتے ہوئے سڑکوں پر نکلنا طول تاریخ مسلمین میں رائج رہا ہے اور علماء نے بھی اس کی تائید فرمائی ہے جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ۔