گریہ اور عزاداری
 

٣۔ صحابہ کرام او رتابعین کی سیرت
صحابہ کرام اور تابعین کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ اپنے عزیزوں کی موت پر گریہ کیا کرتے تھے ۔جس کے عملی نمونے بیا ن کر رہے ہیں:

١) حضرت علی علیہ السّلام :
ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ جب امیر المومنین کو مالک اشتر کی شہا دت کی خبر ملی تو گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
(( علی مثلہ فلتبک البواکی )) [15]
گریہ کرنے والوں کیلئے شائستہ یہ ہے کہ اس جیسے پر آنسوبہائیں۔

٢) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا :
عباد کہتے ہیں : حضرت عائشہ فرمایا کرتیں : پیغمبر اکرم ۖ کی رحلت کے وقت میں نے ان کا سر تکیے پر رکھا ((وقمت التدم]اضرب صدری[مع النساء واضرب وجھی ))[16] اور دوسری عورتوں کے ہمراہ سینے اور منہ پر پیٹا۔

٣) حضرت عمر:
((عن أبی عثمان:أتیت عمر بنعی النعمان بن مقرن، فجعل یدہ علی رأسہ و جعل یبکی )) [17]
ابوعثمان کہتے ہیں : جب میں نے حضرت عمر کو نعمان بن مقرن کی وفات کی خبر دی تو انہوں نے اپنے سر پرہاتھ رکھااور گریہ کیا ۔
جب محمد بن یحییٰ ذہلی نیشاپوری نے احمد ابن حنبل کی وفات کی خبر سنی توکہا : مناسب ہے کہ تما م اہل بغداد اپنے اپنے گھروں میں نوحہ خوانی کی مجالس برپا کریں ۔

٤)عبداللہ بن رواحہ :
عبد اللہ بن رواحہ نے جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر سنی تو ان کی شان میں اشعار پڑھتے ہوئے گریہ کیا[18]۔

٥)عبداللہ بن مسعود :
نقل کیا گیا ہے کہ جب حضرت عمر کی وفات ہوئی تو ابن مسعودنے ان پر گریہ کیا :
((فوقف ابن مسعود علی قبرہ یبکی )) [19]
ابن مسعودنے ان کی قبر پر کھڑے ہوکر گریہ کیا۔

٦)امام شافعی :
اہل سنّت کے امام ،شافعی امام حسین علیہ السّلام کی شان میں نوحہ پڑھتے ہوئے کہتے ہیں :


تاوب عنّی والفؤاد کئیب
وأرقّ عینی فالرقاد غریب

وممّا نفٰی جسمی وشیّب لُمّتی
تصاریف ایّام لھنّ خطوب

فمن مبلغ عنّی حسین رسالة
وان کرھتھا أنفس وقلوب

قتیلا بلا جرم کأنّ قمیصہ
صبیغ بماء الأرجون خضیب

فللسّیف اعوال وللرّمح رنّة
وللخیل من بعدالصّھیل نحیب

تزلزلت الدّنیا لآل محمد
وکاد لھم صمّ الجبال تذوب

وغارت نجوم واقشعرّت کوکب
وھتّک أستار وشقّ جیوب

یُصلّی علی المبعوث من آل ھاشم
ویُعزی بنوہ انّ ذا لعجیب

لئن کان ذنبی حبّ آل محمّد
فذلک ذنب لست منہ أتوب
ھم شفعائی یوم حشری وموقفی
اذا ما بدت للناظرین خطوب [20]