گریہ اور عزاداری
مصنف: ناظم حسین اکبر
www.abutalib.in
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم..
انتساب
عزاداری نواسہ رسول ۖ، سیّد الشہداء ،مظلوم کربلا ، امام حسین علیہ السّلام کی ترویج کی خاطر اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنے والے اور دیگر تمام ماتمی عزاداروں کے نام جنہوں نے اپنی ساری زندگی عزاداری کے دفاع اور عزاداروں کی خدمت پر صرف کردی .
سخن مؤلف
الحمد للہ ربّ العالمین والشّکر للہ ربّ الشّھداء والصّدیقین الّذی جعل فی ذریّة الحسین علیہ السّلام الآ ئمّة النجباء وفی تربتہ الشفاء وتحت قبتہ استجابة الدّعا وصلیّ اللّہ علی محمّد وآلہ الطاھرین۔
نواسہ رسول ،جگر گوشہ علی وبتول ، نو جوانان جنّت کے سردار امام حسین علیہ السّلام کے غم میں مجالس عزا کا قیام دین مبین اسلام کی بقا ء کی خاطر اس انقلاب کا تسلسل ہے جسے امام حسین علیہ السّلام نے کربلا کے میدان میں باطل کے خلاف برپا کیا ۔
امام حسین علیہ السّلام کے قیام کا مقصد دین خدا کو تحریف اور باطل افکار سے بچانا تھا جس کی واضح مثال تاریخ اسلام میں خلفاء کا عمل ہے کہ واقعہ کربلا سے پہلے ہر خلیفہ کا عمل شریعت نظر آتا ہے لیکن کربلا کے انقلاب نے وہ اثر چھوڑا کہ اس کے بعد شریعت اور خلفاء کے عمل کو جدا کردیا اس کے بعد کسی کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ کسی خلیفہ وقت کے عمل کو شریعت میں داخل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد امام حسین علیہ السّلام دین کی پہچان بن گئے جیسا خواجہ اجمیری لکھتے ہیں:
شاہ ا ست حسین بادشاہ است حسین ****** دین است حسین دیں پناہ است حسین
سر داد نداد دست در دست یزید ******** حقّا کہ بنائے لا الہ است حسین
خواجہ اجمیری نے امام حسین علیہ السّلام کو بانی اسلام کہہ کر پیغمبر ۖ کے اس فرمان کی تائید کردی کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں گویا ا س نے حسین کورسول پاک ۖ کی نگاہ سے دیکھا ہے رسول خدا وۖ کی مستقبل بیں نگاہوں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ ایک ایسا دور آئے گا کہ کلمہ گوؤں کی تلوار سے اسلام قتل کردیا جائے گا لہذا پیغمبر اسلام ۖ نے یہ چاہا کہ جب اسلام کا خون بہا دیا جائے تو خون حسین اس کی رگوں میں دوڑا دیاجائے اسی لئے اُمّت اسلامیہ کو آگاہ کردیاکہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ۔پیغمبر ۖ نے تعارف کرواکر بتا دیا کہ اے مسلمانو! اس کا خون نہ بہانااس لئے کہ اس کی رگوں میں میرا خون ہے یہ آواز پیغمبر ۖ آج بھی گونج رہی ہے لیکن خود پرستوں نے اپنے نبی ۖ کی بات بھی سنی ان سنی کردی اور اپنے نبیۖ کے فرزند اور ان کے یارو انصارکو تین دن کا بھوکا پیاسا شہید کردیا ،ان کی لاشوں کو پامال کیا اورسول زادیوں کو قیدی بنا کردرباروں اور بازاروں میں پھرایا گیا،یہی وہ غم تھا جس پر تمام انبیا ء علیہم السّلام نے گریہ وعزاداری کی اور پھر آئمہ معصومین علیہم السّلام نے خود مجالس عزابرپا کر کے ان کی اہمیت کو اجاگر کیا اس لئے کہ مظلوم کربلا ، امام حسین علیہ السّلام کی عزاداری کو زندہ رکھنا در حقیقت اسلام کو زندہ رکھنا ہے ۔
عزیزو اقارب کی موت پر گریہ کرنے کے جواز پر تمام اسلامی فرقوں کا اتفاق پایا جاتا ہے(الفقہ علی المذاہب الأربعہ١:٥٠٢. )اور امام حسین علیہ السّلام پر گریہ و عزاداری اور ان کے غم میں ماتم ،عام غم و ماتم سے مکمل طور پر فرق رکھتا ہے اس لئے کہ یہ فرزند مصطفٰیۖ کا ماتم ہے ، نواسہ خاتم الانبیا ء کا ماتم ہے ، جگر گوشہ زہراء و مرتضٰی کا ماتم ہے ،اس غریب کا ماتم ہے جس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا ، اس مظلوم کا ماتم ہے جس کا کٹا ہوا سر اس کی بیٹیوں اور بہنوں کی آنکھوں کے سامنے شہر بہ شہر پھرایا گیا، اس مظلوم کا ماتم ہے جس کے بدن پر لبا س بھی باقی نہ رہنے دیا گیا ، ا س بے کس کا ماتم ہے جس کے چھ ماہ کے شیرخوار پر بھی ترس نہ کھایا گیا ، اس شہید کا ماتم ہے جس کی بہنوں اور بیٹیوں کو ننگے سر درباروں اور بازاروں میں پھرایا جاتا رہا ، اس امام معصوم کا ماتم ہے جس کا بدن تین دن تک بے گور و کفن کربلا کی جلتی ہوئی زمین پر پڑا رہا ، اس بے نوا کا ماتم ہے جس کی مظلومیت پر خود دشمن نے بھی گریہ کیا ، اس مظلوم کا ماتم ہے جس کی بے کسی پر انبیاء و ملائکہ اور جنّ و انس نے ماتم کیا ، اس بے وطن کا ماتم ہے جس پر آسمان نے خون برسای
لہٰذ ا پیغمبر ۖ کا کلمہ پڑھنے والے ہرعاشق رسولۖ پر واجب ہے کہ وہ نواسہ رسولۖ کی مظلومیت کا غم منائے اور دوسروں کو بھی اس میں شرکت کرنے کی دعوت دے تاکہ اپنے نبی ۖ سے محبت کا اظہار کر سکے ۔کتاب حاضر میں ہم قرآن وسنّت اور سیرت صحابہ کرام سے امام حسین علیہ السّلام پر گریہ وعزاداری کے جواز کو اثبات کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی فضیلت اوراجرو ثواب کے متعلق چند احادیث نقل کریں گے تاکہ ہماری بخشش کا سبب بن سکے۔ والسّلام علی من اتّبع الھدٰی
اللّھمّ اجعلنا من الباکین علی الحسین الشھید المظلوم علیہ السّلام
ناظم حسین اکبر ( ریسرچ اسکالر )
ابوطالب اسلامک انسٹیٹیوٹ لاہور پاکستان
٤دسمبر ٢٠٠٩ء بمطابق ١٦ذی الحجہ ١٤٣٠ہجری
|