دینی تعلیم
 

کھانا پینا
دین مقدس اسلام میں ،ہر وہ چیزجو کھانے اورپینے کے قابل ہو،حلال ہے لیکن چند استثنائی چیزوں کے علاوہ ،کہ ان میں سے بعض قرآن مجید میں اوربعض احادیث پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیان ہوئی ہیں۔
مذکورہ استثنائی چیزیں جن کا کھانا اور پینا حرام ہے ،دوقسم کی ہیں :

جان دار اور بے جان ۔
پہلی قسم :حیوانات
حیوانات تین قسم کے ہیں :دریائی ،خشکی ،اورپرند ے۔

الف۔ دریائی حیوانات:
پانی میں رہنے و الے حیوانوں میں صرف آبی پرندے اور چھلکے دار مچھلیاں حلال گوشت ہیں اور باقی جیسے سانپ مچھلی ،سگ مچھلی ،مگرمچھ ،سمندری کتا اورسور وغیرہ حرام ہیں ۔

ب۔خشکی کے حیوانات:
خشکی کے حیوانات دوقسم کے ہیں :(پالتواورجنگلی)
پالتو جانوروں میں ،بھیڑ،بکری ،گائے اوراونٹ حلال گوشت ہیں ۔اسی طرح گھوڑا،خچر اورگدھاحلال ہیں ،لیکن ان کاگوشت کھانا مکروہ ہے اور ان کے علاوہ جیسے کتااو بلی حرام ہیں ۔
جنگلی حہوانوںمیں گائے،مینڈھا،جنگلی بکری ،جنگلی گدھااورہرن حلال گوشت ہیں اورباقی درندے اور ناخن دار حیوانات ،جیسے :شیر ،چیتا ،بھیڑیا ،لومڑی ،گیڈر اور خرگوش ،حرام گوشت ہیں۔

ج۔پرندے:
پرندوں میں سے جن کے پوٹا اور ،سنگ دانہ ہو یا اڑتے وقت پر مارتے ہوں اورناخن نہ رکھتے ہوں ، جیسے پالتومرغی ،کبوتر ،فاختہ ،اورتیترحلال گوشت ہیں اور باقی حرام گوشت ہیں اورٹڈی کی ایک خاص قسم حلال گوشت ہے ان کی تفصیلات کے لئے توضیح المسائل کی طرف رجوع کیا جائے۔

نوٹ
گوشت کے حلال ہونے کے بارے میں جن حیوانوں کانام لیاگیا ،اس میں تزکیہ کی شرط ہے یعنی توضیح المسائل میں دی گئی تفصیل اور طریقہ سے ذبح کرنا۔

دوسری قسم :بے جان اشیائ
بے جان چیزیں دوقسم کی ہیں :
الف۔جامد(ٹھوس)
ب۔سیال چیزیں
الف :جامد چیزیں
١۔ہر حیوان کامردارخواہ حرام گوشت ہو یاحلال گوشت،اس کا کھاناحرام ہے ۔
اسی طرح نجس چیزیں ،جیسے:حرام گوشت حیوانوں کا فضلہ اور وہ کھانے کی چیزیں جونجاست کے ملنے سے نجس ہوگئی ہوں کا کھانا حرام ہے۔
٢۔مٹی

٣۔مہلک زہر
٤۔وہ چیزیں جن سے انسان فطری طورپرمتنفرہو،جیسے حلال گوشت حیوان کافضلہ اور اس کی ناک کاپانی اورجوکچھ اس کی انتڑیوںسے نکلتا ہے ۔اسی طرح حلال گوشت حیوان کے بدن کے اجزاء میں سے پندرہ چیزیں حرام ہیں (تفصیل کے لئے توضیح المسائل کی طرف رجوع کیا جائے)

ب: سیال چیزیں
١۔مست کر نے والی ہر رقیق چیز،اگرچہ کم ہی ہو اس کاپینا حرام ہے۔
٢۔حرام گوشت حیوانات کادودھ ،جیسے سور ،بلی اور کتّا۔
٣۔خون جہندہ رکھنے والے حیوان کاخون ۔
٤۔نجس مائعات،جیسے خون جہندہ رکھنے والے حیوانوںکا پیشاب اور منی وغیرہ ۔
٥۔وہ مائعات جن میں نجاستوں میں سے کوئی ایک مل گئی ہو۔


نوٹ
کھانے پینے کی حرام چیزیںاس وقت حرام ہیں جب اضطرارنہ ہو اوراضطرار کی صورت میں (جیسے:اگرکوئی شخص حرام غذا نہ کھائے تو بھوک سے مر جائے گا ، بیمارپڑنے یابیماری کے شدید ہونے سے ڈرتا ہو یاکمزور ہوکر سفر میں اپنے ہمسفروں سے پیچھے رہ کر ہلاک ہوجائے گا)کھانے پینے کی حرام چیزوںمیں سے اس قدر کھانا جائز ہے ،کہ اس کااضطرار دور ہوجائے .لیکن جوچوری کے لئے یا اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کے لئے وطن سے باہر آکرمضطر ہوجائے تو اس کیلئے جائز نہیںہے ۔

ایک اہم یاد دہانی
حفظان صحت کی رعایت ،انسان کے بنیادی فرائض میں سے ہے کہ ہرانسان خداداد شعور کے ذریعہ تھوڑی توجہ سے اس کے بارے میں معلوم کرسکتا ہے ۔
حفظان صحت پر مختلف قسم کے کھانے پینے کی چیزوں کے اثرات بھی بالکل واضح ہیں ۔اس کے علاوہ یہ چیزیں انسان کی روح واخلاق اور اسی طرح اس کے اجتماعی میل ملاپ پر بھی قابل توجہ اثرات ڈالتی ہیں ۔

ہمیں ہر گزاس میں شک وشبہ نہیں ہے کہ مست انسان کی نفسیاتی حالت اور اس انسان کی حالت ایک جیسی نہیں ہوتی جو ہوش میں ہے۔ اور ان کی اجتماعی گردش بھی ایک جیسی نہیں ہے ۔
یا اگر کوئی شخص مثلاًنفرت آمیزچیزوں کو کھانے کی عادت کرے ،اور اس عادت سے جواثراس کی انفرادی اوراجتماعی زندگی میں پیدا ہوگا ،وہ عام افرادکے لئے قابل برداشت نہیں ہے ۔
یہاں پر انسان اپنی خدادادفطرت سے سمجھتا ہے کہ اسے اپنے کھانے پینے میں کم وبیش محدودیت کا قائل ہوناچاہئے ،ہر کھانے والی چیز کو نہ کھالے اور ہر پینے والی چیز کو نہ پی لے ۔آخر کارہرنگلنے والی چیز کونہ نگل لے۔

خدائے متعال نے اپنے کلام پاک کی نص کے مطابق زمین پرموجود ہرچیز کوانسان کے لئے خلق کیا ہے اور خدائی متعال خود ،انسان اورانسان کی ضروریات زندگی کی چیزوں کامحتاج نہیں ہے اوراپنی مخلو قات کے فائدہ ونقصان کے بارے میں سب سے زیادہ دانااور بیناہے۔انسان کی خیروسعادت کے لئے کھانے اور پینے کی چیزوں میں سے بعض کوحلال اوربعض کو حرام قراردیا ہے ۔
بعض ان محرمات کوحرام قراردینے کا فلسفہ ،سادہ اوربے لاگ سوچ رکھنے والوں کے لئے واضح ہے اوربعض حکمتیں علمی بحثوں کے ذریعہ تدریجا ًواضح ہوئی ہیں اور جن چیزوں کے حرام ہونے کافلسفہ ہمیں ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا ہے،ان کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہرگزہمارے لئے واضح نہیں ہوں گی اور اگرواضح بھی نہ ہو ں تب بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ان میں کوئی فلسفہ نہیں ہے۔بلکہ اس کے پیش نظرکہ قوانین کا سرچشمہ خدائے متعال کا بے انتہا علم ہے ،اس لئے کہنا چاہئے کہ اس میں بہترین اورموثر ترین حکمت ومصلحت ہوگی اگرچہ ہم اپنی تنگ نظری اورمحدود علم کی وجہ سے اس کودرک کرنے سے عاجزاوربے بس ہیں ۔
میراث کے کلی مسائل
عالم طبیعت میں میراث کاموضوع،ایک کلی قانون ہے جوتخلیق کی توجہ کامرکز رہاہے اورہر ایک نسل اپنے اسلاف کی ذاتی خصوصیتوں کو میراث کے طور پر حاصل کرتی ہے ،''گندم ازگندم برویدجوازجو''۔
انسان بھی کسی حدتک اپنے اجدادکے اخلاق،صفات اور ان کے وجودی اوصاف کو میراث میں حاصل کرتے ہیں اسی ذاتی میل میلاپ اور ہما ہنگی کا سبب ہے کہ انسان عام حالت میں اپنے رشتہ داروں کی نسبت ایک خاص دلچسپی کو محسوس کرتا ہے اوربالخصوص اپنی اولادکو اپنا جانشین سمجھ کران کی بقاکو بالکل اپنی بقاجانتا ہے اور قدرتی طورپرجو کچھ اس کی ملکیت ہے،جسے اس نے محنت وزحمت اور کام وکوشش کرکے حاصل کیا ہے اوراپنے لئے مخصوص کر رکھا ہے ،اسے اپنی اولاد کی ملکیت جانتا ہے بلکہ اپنے رشتہ داروں کی ملکیت جانتا ہے ۔
اسلام بھی اسی فطری درک واحساس کے لحاظ اوراحترام کے پیش نظر انسان کے مال کواس کے مرنے کے بعد اس کے زندہ رشتہ داروں سے متعلق جانتا ہے اور میاں بیوی کوبھی جونسب اور ایک دوسرے کی زندگی میں شریک ہونے کے بانی ہیں رشتہ داروں میں شامل کرتا ہے ۔پہلے طبقہ کونسبی وارث اوردوسرے طبقہ کوسببی وارث جانتا ہے ۔
اس بناپر، مرنے والے کا مال ،اس کے نسبی اورسببی وارثوں میں ایک معین قانون کے مطابق تقسیم ہوگا ،لیکن کچھ افرادایسے ہیں جو میراث سے محروم ہیں ،یہاں پر ان میں سے دوافراد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

١۔کافرکومسلمان کی میراث نہیں مل سکتی ہے ۔اس کے علاوہ اگر کوئی کافر مرجائے اوراس کے وارثوں میں کوئی مسلمان ہوتو اس کے کافر رشتہ دارمیراث نہیں پائیں گے۔
٢۔قاتل،اگر کوئی شخص اپنے رشتہ داروں میں سے کسی کو قتل کردے تو قاتل اس کی میراث نہیں پائے گا،لیکن قاتل کی اولاد میراث سے محروم نہیں ہیں ۔