غصب
جو شخص کسی کے مال کو زبردستی اس سے چھین کر،مالکیت کے اسباب میں سے کسی سبب کے بغیراسے اپنامال قراردے یاکسی دوسرے کے مال پرزبردستی قبضہ کرکے استفادہ کرے ،اگرچہ اسے اپنا مال قرارنہ دے ،اس عمل کو شرعاً''غصب''کہتے ہیں ۔
لہذا،تسلط جمانے کے کسی جائز سبب جیسے :بیع ،اجارہ اور اجازت کے بغیرکسی دوسرے کے مال پرقبضہ جمانے کو غصب کہتے ہیں ۔یہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ غصب، ایک نامناسب کام ہے جو مالکیت کی خصوصیت کی بنیاد کو پامال کرتا ہے۔جس قدرمالکیت کی خصوصیت کی بنیادمعاشرے کے زندہ اورپائیدار رہنے میںموثرہے اسی قدرغصب معاشرے کو برباد کرکے اس کی ترقی کو روکتا ہے ۔
اگریہ طے پاجائے کہ معاشرے کے اثرو رسوخ رکھنے والے افراد قانون کی اجازت کے بغیرکمزوروں اوراپنے ماتحتوں کی کمائی پر قبضہ جمائیں توخصوصیت اورمالکیت اپنے اعتبارکو کھودے گی۔ہرایک اپنے سے کمزورلوگوں کے خصوصی حقوق کے بارے میں اسی طرز فکر پر عمل کرے گااورماتحت اورکمزورلوگ بھی اپنی محنت و مشقت کی کمائی کی حفاظت کے لئے ہرممکن اقدام کرکے عزت وشرافت فروشی پر مجبور ہوں گے۔اور نتیجہ میں انسانی معاشرہ غلاموں کے خریدو فروخت کے ایک بازار میں تبدیل ہو کر رہ جائے گا اورقوانین و ضوابط اپنے اعتبار سے گر جائیں گے اور ان کی جگہ پر ظلم وستم جانشین ہوگا ۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے غاصب کے لئے سخت قوانین وضع کئے ہیں اورغصب کو گناہ کبیرہ شمار کیا ہے۔
قرآن وسنت کی نص کے مطابق،شرک کے علاوہ ہرقسم کے گناہ کو خدا کی طرف سے بخش دئے جانے کا احتمال ہے ۔اورہرگناہ حتی شرک بھی توبہ کے ذریعہ قابل عفو وبخشش ہے ۔لیکن جس کی زندگی کے ریکارڈمیں دوسروں کے حقوق کے بارے میں غصب اورظلم وستم درج ہو،تواس کے لئے کسی بھی صورت میں حقدار سے بخشش حاصل کئے بغیر خدا کی پوچھ گچھ اورسزا سے بچنے کی اُمید نہیں ہے ۔
غصب کے بعض احکام
١۔ غاصب پر واجب فوری ہے کہ غصب کیاگیا مال ،مالک کو لوٹادے ،اوراگروہ زندہ نہ ہوتواسے اس کے وارثوں کے حوالہ کردے ،اگرچہ اس مال کا واپس کرنا غاصب کے لئے کافی نقصان کاسبب بنے ۔مثال کے طور پر کسی کاپتھریا لوہے کا ایک ٹکڑاغصب کر کے اپنے مکان کی بناء میں نصب کرے جواس کے لاکھوں برابرقیمت پر تعمیرہوئی ہو ،تو مکان کوگراکر اس پتھر اورلوہے کے ٹکڑے کو نکال کراس کے مالک کو لوٹادے ،مگر یہ کہ اس کا مالک اس کی قیمت حاصل کرنے پر راضی ہو جائے ۔یااس کے مانند کسی نے دس من گندم غصب کرکے دس خروارجوسے مخلوط کیا ہو ،اگر گندم کامالک اس کی قیمت لینے پرراضی نہ ہو جائے تواسے عین گندم کو جوسے جداکرکے مالک کو واپس کرنا چاہئے ۔
٢۔اگرغصب کئے گئے مال میں کوئی نقص پیدا ہوجائے ،توعین مال کو واپس کرنے کے علاوہ نقصان کی تلافی بھی کرنا چاہئے ۔
٣۔اگرغضب کیاگیا مال تلف ہو جائے تواس کی قیمت اداکی جانی چاہئے۔
٤۔اگرغاصب ، غصب کئے گئے مال کے کسی حصہ کو ضائع کردے ، تو چاہے اس نے خوداس سے استفادہ نہ کیا ہو تو بھی وہ اس مال کے منافع کا ضامن ہے،جیسے،کسی نے کرایہ کی گاڑی کو غصب کرکے کئی دن تک اسے گیرج میں رکھاہو ۔
اسی طرح اگرغاصب ،غصب کئے گئے مال میں اضافہ کردے،جیسے ایک بھیڑکو غصب کرنے کے بعداسے اچھی گھاس کھلا کرفربہ بنادے تواس اضافہ میں کوئی حق نہیں رکھتا ہے البتہ اگرمذکورہ اضافہ منفصل ہو،یعنی ایک زمین کوغصب کرکے اس میں کا شتکاری کرکے زراعت حاصل کرے توغصب کیاہوامال اجرت کے ساتھ مالک کولوٹادے اورزراعت غاصب کی ہوگی ۔
لُقطہ
جوبھی مال پایا جائے اوراسکا مالک معلوم نہ ہواسے ''لُقطہ''کہتے ہیں :
١۔جومال پایا جائے اوراس کا مالک معلوم نہ ہو،اگراس کی قیمت ایک مثقال(١)چاندی سے کم ہو،تواسے اٹھاکر خرچ کیا جاسکتا ہے اوراگراس کی قیمت ایک مثقال چاندی سے زیادہ ہو تواسے نہیں اٹھاناچاہئے اوراٹھانے کی صورت میں عادی راہوں سے ایک سال تک اس کے مالک کو ڈھونڈنا چاہئے اورمالک کو ڈھونڈلینے کی صورت میں اس کے حوالہ کرنا چاہئے اوراس کامالک نہ ملاتواس مال کواسکی طرف سے کسی فقیر کوصدقہ دینا چاہئے ۔
٢۔اگرکسی مال کوایک ایسی ویران جگہ میں پایاجائے جس کے باشندے نابود ہوچکے ہوں یاغاراور اس بنجر زمین میں پایاجائے کہ جس کا کوئی مالک نہ ہو۔ تو پایاگیا مال پانے والے کا ہے ،اوراگرمال ایسی زمین میں ملے جو کسی کی ملکیت ہو تو اس کے گزشتہ مالکوں سے دریافت کیا جانا چاہئے ،اگرانہوں نے اس کو چھپایاہو توعلامت ونشانی بتانے کی صورت میں دیا جائے ورنہ یہ مال پانے والے کا ہے ۔
..............
١۔تقریباًساڑھے تین گرام۔
بنجر زمینوں کوآباد کرن
ایسی زمین کوآباد کرنا جس سے استفادہ نہیں ہوتاتھا (خواہ وہ زمین کبھی آبادنہیں تھی ،یاکبھی آبادتھی لیکن وہاں کے باشندوں کے معدوم ہونے کی وجہ سے غیرآ باداوربے فائدہ رہی ہو یامرغ زاروں یانرسل زاروں کے مانند)۔بہر حال زمینوں کوآباد کرنااسلام میں نیک کام شمارہوتا ہے اور مالکیت کاسبب بننے کے علاوہ اخروی ثواب بھی رکھتا ہے۔
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ :
''جو کوئی شخض کسی بنجرزمین کوآباد کرے ،وہ زمین اس کی ہے۔'' (١)
حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ:
''اگر کوئی گروہ کسی بنجر زمین کوآباد کرے ،تووہ اولویت کاحق رکھتا ہے اوروہ اس زمیں کا مالک ہے ۔''(٢)
اسلام میں بنجر زمینوں کا مالک خدا،رسول خداۖاورامام ہے ( اسلامی حکومت سے مربوط ہیں)اورانفال میں شمار ہوتی ہیں ۔بنجرزمینوں کو مندرجہ ذیل شرائط سے آبادکرکے ان کامالک بن سکتے ہیں ،اوراگرکئی افرادملکیت کاقصد کریں توجو پیش قدمی کرے گا وہ اولویت کاحق رکھتاہے:
..............
١،٢۔میزان الحکمة،ج١،ص٩٤ ۔
١۔امام یاان کے نائب کی اجازت سے۔
٢۔کسی دوسرے شخص نے پہلے اس کی پتھروں سے نشاندہی یاحدبندی نہ کی ہو۔
٣۔دوسروں کی ملکیت کے حدود سے متصل نہ ہو،جیسے نہر کے اطراف کنویں کے پشتے میں اورکھیت کی سرحد سے ملی نہ ہو۔
٤۔خالی زمین ،جیسے خراب شدہ مسجدیا اوقاف ، عام مسلمانوں کی زمین جیسے کوچے اورسڑکیں نہ ہوں۔
نوٹ
تعمیر اور آباد کرنا ایک عرفی مفہوم ہے ،اس لئے جب عرف کہے:''ایک شخص نے فلاں زمین آ باد کی ہے'' مالکیت تحقق پاتی ہے ۔البتہ آباد کرنا بھی مختلف مقاصدکے پیش نظر مختلف ہے ۔چنانچہ کھیتی باڑی میں ہل چلانے سے آباد کرنا عمل میں آ تا ہے اور عمارت بنانے میں دیواربنانے سے ثابت ہوتا ہے ،یہاں تک کہ حاضرلوگوں میں سے ہرایک کھدائی اوراستخراج کے بغیر اس سے استفادہ کرسکتا ہے،ہرایک کے لئے جائزہے کہ ضرورت کے مطابق اس سے استفادہ کرے اور اگران کااستفادہ کرنا کھدائی اوراستخراج اوردیگر فنی کاموں پر منحصرہو ،جیسے سونا اورتانباوغیرہ تو جو محنت ومشقت سے کھدائی وغیرہ کرکے استخراج کرے وہی مالک ہوگا۔
بڑی نہریں مسلمانوں میں مشترک ہیں اسی طرح دریا اور برف وباران کاپانی جو پہاڑوں سے بہہ کر نیچے آتا ہے ،جو بھی ان کے نزدیک اورآگے ہو وہ دوسروں پر مقدم ہے ۔
تخصیص اور مالکیت کی اصل
یہی عقیدہ کہ انسان زمین کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے ،اسے اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اس کے مظاہر سے آ سانی کے ساتھ استفادہ کرے ۔مثلاًاس کازلال پانی پئے ،میٹھے میوے اورحیوانوں کا گوشت کھا ئے ،پہاڑوں کے درّوں میں درختوں کے سائے میں آ رام کرے ،یاصنعت ۔یعنی مادہ پرانجام دی سر گرمیوں کواپنی مرضی کے مطابق استعمال میں لائے ۔
البتہ اگرصرف چند افراد زمین پرایسی زندگی گزارتے کہ آ پس میں کوئی ٹکراو نہ ہوتا توہرگز کوئی مشکل پیش نہ آتی ،لیکن افراد کا جمع ہونا اور ان کا باہم زندگی گزارنا جوانسان کی اجتماعی شہری زندگی کی بنیاد ہے ،کہ ہرفرد زمین اوراس کے مظاہرکو اپنی ملکیت سمجھ لے تو،قدرتی طورپر لوگوں کے درمیان ٹکرائواورشدید تصادم کاسبب بن جائے گا ،جب ہر شخص اپنی ضرورت کو پورا کرنے کی تلاش وکوشش کرے گا،تودوسرے اسے اپنی آزادی وآسائش میں مخل سمجھتے ہوئے اس کے لئے رکاوٹ ایجاد کریں گے،کیونکہ انسان اپنی زندگی کو ہرقیمت پر جاری رکھنے کے لئے مجبور ہے۔
اس لئے پہلے''اصل تخصیص'' کے نام پر ایک اصل وقانون وضع کیاگیا،تاکہ اجتماعی ٹکرائواورتصادم کو روکا جائے ۔اس اصل کوقابل احترام سمجھا گیا ہے ۔اس اصل و قانون کے مطابق،انسان جس چیز کواپنی سعی وکوشش سے حاصل کرے وہ ا س کا مالک ہے اوردوسروں کواس پر طمع ولالچ کرکے اس کے لئے رکاوٹ پیدا کرنے کاحق نہیں ہے۔ اس کے بعد''اصل مالکیت''کے نام پرایک اوراصل وضع کرکے اسے قابل احترام سمجھا گیا ہے کہ اس کے مطابق انسان اپنی کوششوں سے حاصل کی گئی چیزوں پراپنی مرضی سے تصرف کرسکتا ہے ۔
یہ اصل حقیقت میں''اصل تخصیص'' کو مکمل کرنے والی ہے ۔کیونکہ''اصل تخصیص''دوسروں کی خلل اندازی کوروکتی ہے اوریہ اصل اس چیز کی مالکیت کے لئے ہر قسم کے تصرف کو جائز بنادیتی ہے ۔
اسلام نے مالکیت کی اصل کومحترم جاناہے اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی معروف حدیث ( الناس مسلطون علی اموالھم )(١)میں مالک کے اپنے مال پرمکمل تسلط کی تائید فرمائی ہے ۔
اس قانون کے مطابق انسان جس طرح چاہے اپنے مال کو استعمال کرسکتا ہے ،اس کی حفاظت کرسکتا ہے ،کھاسکتا ہے ،پی سکتا ہے ،بخش سکتا ہے ،بیچ سکتا ہے اوراسی طرح دوسرے جائز تصرفات انجام دے سکتا ہے ،لیکن جوتصرفات ممنوع اور معاشرہ کی مصلحت کے خلاف ہیں مالک کوان کاہرگزاختیارنہیں ہے ۔
مالک اپنے مال پروہ تصرف نہیں کرسکتا ہے جواسلام ومسلمین کے نقصان میں ہو یااسراف اور فضول خرچی سے اپنے مال کونابود نہیں کرسکتا ہے،یا اپنے سونے اورچاندی کے سکّوں کو
..............
١۔عوالی اللئالی،ج١،ص٤٥٧ ۔
جاری نہ رکھ کر خزانہ کے طورپر جمع نہیں کرسکتا ہے ۔
اصل مالکیت ،اہم ترین اصل ہے جوانسان کواپنی آرزوتک پہنچاتی ہے اورقوانین کی رعایت کے سایہ میں انفرادی آزادی کوامکان کی آخری حد تک فراہم کرتی ہے ۔
جتنامال کی نسبت انسان کاتسلط یا اس کے کار وکوشش کے بارے میںاسکا اختیارکم ہوجائے گااتنی اس کی آزادی سلب ہو جائے گی اور اس کا استقلال نابود ہوجائے گا اور اگراصل تسلط بالکل نابودہو جائے ،توحقیقت میں ایک زندہ مخلوق سے اس کی اصل آزادی چھین لی جائے گی۔
اصل مالکیت کے دوتتمے
مالک کا اپنی ملکیت پر مکمل تسلط اور اس کے ہر جائز تصرف میں مطلوب آزادی ،ممکن ہے دوراستوں سے خطرہ میں پڑ جائے :
١۔دوسروں کی طرف سے تجاوز کی وجہ سے،جیسے کوئی اس کی ملکیت پر قبضہ کرکے اس کے لئے استفادہ کے راستہ کو مسدود کر دے۔
٢۔اس راستہ سے کہ دوسرے ایسا کام انجام دیں جس سے مالک کونقصان پہنچے۔
دین اسلام نے مذکورہ خطرات کو روکنے کے لئے دومزیداصلوں کووضع کیا ہے کہ اصل مالکیت خودبخودحاصل ہوتی ہے کہ حقیقت میں یہ دواصلیں اسکے نفاذاورحفاظت کی ضامن ہیں :
الف:اصل ضمان :اسلام اس اصل کے مطابق حکم دیتا ہے کہ جو بھی دوسرے کے مال کوپائے ،وہ اسکاضامن ہے ،یعنی اس کو وہ مال مالک کو لوٹادیناچاہئے اوراگر ضائع ہوجائے تو اسکے مانند یاقیمت اداکرے اس حکم کی دلیل ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حد یث ہے:
''علی الید مااخذت حتی تؤد''
ب:قائدہ لاضرر: اس قائدہ کو حدیث نبوی (لاضررولاضرار فی الاسلام)سے استدلال کیا جاتاہے ۔اس قائدے کے مطابق اگر اسلام کا کوئی بھی حکم جاری کرنے میں کسی شخص کوبعض مواقع پرمالی یاجانی نقصان پہنچائے،تو وہ حکم اس مورد میں، جاری نہیں ہوگا۔
جن چیزوںکو ملکیت بنایاجاسکتا ہے
دین مقدس اسلام میں ان چیزوںکوملکیت بنایا جاسکتیں ہے :
١۔قابل توجہ فائدہ ہو،مثال کے طور پرحشرات قابل ملکیت نہیں ہیں ۔
٢۔مذکورہ فائدہ حلال ہو،اس بناء پرجوئے کے وسائل،موسیقی کے آلات اوران کے مانند،جن کاحلال فائدہ نہیں ہے،کسی کی ملکیت نہیں ہوسکتے۔
١۔احکام ضمان کے دوحکم:
الف:اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی ملکیت کوغصب کرے،یعنی مالک کی اجازت کے بغیر اسے اپنے قبضہ میں لے لے یا مالک کو اپنی ملکیت میں تصرف کرنے نہ دے ،اسلام کے حکم کے مطابق فوراًاسے مالک کوواپس کرے اوراگر یہ ملکیت ضائع ہو جائے تو اسکے مانند یا اس کی قیمت اداکرے اور اگر غصب کرنے کی وجہ سے مال کے مالک کو کوئی نقصان پہنچے توغاصب اس کاذمہ دار ہے ۔
ب:اگر کوئی شخص مالک کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں تصرف کرے ،لیکن مالک کو بھی تصرف کرنے میں رکاوٹ نہ ڈالے۔تو خود مال اگرتلف ہوجا ئے تو اس کے مانندیاقیمت مالک کودے، ضمان کے احکام ومسائل بہت زیادہ ہیں ،تفصیلات جاننے کیلئے فقہی کتابوںکی طرف رجوع کریں ۔
٣۔مذکورہ حلال فائدہ کسی فردیاچندافراد کی تخصیص کے قابل ہو ۔اس بناء پرمساجد،عام سڑکیں اور ان کے مانند چیزیں ،جو معاشرے کے تمام لوگوں سے مربوط ہوتی ہیں ،کسی خاص شخص کی ملکیت نہیں بن سکتی ہیں ۔
جن چیزوں سے انسان مالک بن سکتا ہے
ما لک بننے کے لئے،انسانی معاشرے میں بہت سے وسائل موجود ہیں ،لیکن ان میں سے بعض جیسے جوا ،شرط لگانا،سودخواری اور رشوت ،چونکہ معاشرے کیلئے مضر ہیں ،اس لئے اسلام نے ممنوع فرمایا ہے ۔لیکن دوسرے وسائل مانند:بیع،اجارہ ،ھبہ اورجعالہ، جومعاشرے کے لئے مفید ہیں ،ان میں کچھ اصلاح کر کے انھیں قبول کیاہے اور کلّی طورپر اسلام کی نظر میں مالک بننے کے دو وسیلے ہیں :
١۔وہ جس کے انجام دینے میںکوئی لازم ہو جیسے :خرید وفروخت کہ اس کوانجام دینے کے لئے عقدبیع پڑھنایا لین دین کا ہونا ضروری ہے۔
٢۔وہ جس میں کسی عمل کی ضرورت نہیںہے ،جیسے:وفات کہ اس کے ذریعہ مالک کا مال وارثوں کو منتقل ہو تا ہے اور اس میں کسی لفظ یاعمل کی ضرورت نہیں ہے ۔
میراث اورنکاح کے احکام کی اہمیت کے پیش نظر ہم ان سے مربوط کلی مسائل بیان کرتے ہیں۔
|