دینی تعلیم
 

طلاق
(میاں بیوی کی جدائی)
میاں بیوی کے شرعی رابطہ کے ختم ہونے کے بعد،ایک دوسرے سے جدا ہوکرازدواجی حقوق کے قوانین کی پابندی سے آزاد ہونے کو''طلاق''کہتے ہیں ۔
طلاق کاقانون اسلام کا ایک ناقابل انکارامتیاز ہے جو وہ مسیحیت اورچند دیگرادیان پر رکھتا ہے اورانسانی معاشرے کی ایک ضرورت کوپورا کرتا ہے ،کیونکہ بے شمار ایسے مواقع پیش آتے ہیں کہ میاں اوربیوی کے اخلاق آپس میں سازگارنہیں ہوتے اورپیارومحبت کا ماحول ایک میدان جنگ میں تبدیل ہوجاتا ہے اوران کے درمیان مصالحت ممکن نہیں ہوتی ،اس صورت میں اگر میاں بیوی کارشتہ توڑنے کے قابل نہ ہوتا تو میاں بیوی کوعمر بھرایک بدبختانہ زندگی گزارنا پڑتی جو کہ در حقیقت ایک شعلہ ورجہنم ہے اورتلخی و محرومیت کے ساتھ نامناسب جسمانی اذیتیں برداشت کرناپڑتیں اور اس مطلب کی بہترین مثال یہ ہے کہ عیسائی حکومتیں بھی عام ضرورتوں کے پیش نظر آخر کار''طلاق'' کوقانونی حیثیت دینے پر مجبورہوئیں ۔
اسلام میں طلاق کا اختیارمرد کو دیاگیا ہے،البتہ اس حکم میں مرداورعورت کی فطری حالت کومدنظر رکھا گیا ہے ،کیوںکہ اگرطلاق کا اختیار عو رت کے ہاتھ میں ہوتا ،چونکہ عورت مردسے زیادہ جذبات کی اسیر ہوتی ہے ،اسلئے میاں بیوی کارابطہ ہمیشہ کمزور پڑتا اور تشکیل پایاہوا خاندان متزلزل ہوکرآسانی کے ساتھ بکھر جاتا ۔اسکے باوجوددین اسلام میں ایسی راہیں موجود ہیں کہ عورت بھی طلاق کے حق سے استفادہ کرسکتی ہے ،اپنے شوہرسے معاشرت کے ضمن میں دوراندیشی کے پیش نظر عقدنکاح کے وقت شرط رکھے کہ اگراحتمالی مشکلات میں سے کوئی مشکل پیش آئے تو طلاق جاری کرنے کی وکا لت کا حق ہوگا یایہ شرط رکھے کہ اگرشوہر بلاوجہ اسے طلاق دے تواس پراس کے مشکلات کوحل کرنے کی ذمہ داری ہوگی ۔
اسلامی شریعت نے اگرچہ طلاق کوقانونی حیثیت دی ہے ،لیکن اس کی غیر معمولی اورزبردست مذمت کی ہے اوربہت نصیحت کی ہے کہ اگرمسئلہ اضطرار کی حدتک نہ پہنچے تومرد اپنی بیوی کو طلاق نہ دے اورازدواجی رشتہ کونہ توڑے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :
''خدائے متعال کے نزدیک ناپسند ومنفورترین چیزوں میں سے ایک طلاق ہے''(١)
اسی لئے اسلام میں طلاق کے لئے چند مشکل قوانین وضع کئے گئے ہیں،جیسے طلاق دوعادل افرادکے سامنے انجام پانا چاہئے اوران دنوں میں ہو کہ عورت اپنی عادت کے ایام میں نہ ہواور مردنے ان دنوںاس سے ہمبستری نہ کی ہو۔
اسی طرح مقرر ہوا ہے کہ اگرطرفین کے درمیان کوئی اختلاف یانزاع پیدا ہوجائے تودوافراد کوحُکُم قراردیں تاکہ میاں بیوی کے درمیان مصالحت کرائیں اورصرف اس صورت میں طلاق دی جائے کہ جب مصالحت کی تمام کوششیں نا کام ہوجائیں ۔
..............
١۔وسائل الشیعہ ،ج١٥ ص٢٦٦ باب ۔

طلاق صحیح ہونے کی شرائط
اپنی بیوی کو طلاق دینے والے مرد میں درج ذیل شرائط ہونی چاہئیے :
١۔بالغ ہو۔
٢۔عاقل ہو ۔
٣۔اپنی اختیار سے طلاق د ے ۔
٤۔طلاق دینے کاقصدرکھتاہو ۔
اس بنا پر نابالغ،دیوانہ یاطلاق دینے پر مجبورشخص یامذاق میں صیغۂ طلاق پڑھنے والے کا طلاق صحیح نہیں ہے ۔
٥۔طلاق کے وقت،عورت خون حیض کو سے پاک ہونا چاہئے اور پاک ہونے کے بعد شوہر نے اس کے ساتھ ہم بستری نہ کی ہو ۔
٦۔طلاق اپنے مخصوص صیغوں میں پڑھا جائے اوردو عادل کے سامنے انجام پائے ۔

طلاق کی قسمیں
طلاق کی دوقسمیں ہیں :
١۔طلاق رجعی :یہ وہ طلاق ہے کہ مرد اپنی اس بیوی کو طلاق دے کہ جس کے ساتھ ہم بستری کی ہو ۔اس صورت میں مرد طلاق کا عدہ تمام ہونے سے پہلے رجوع کرکے نئے عقد کے بغیر ازدواجی رابطہ کو پھرسے بر قرارکرسکتا ہے ۔
٢۔طلاق بائن :یہ وہ طلاق ہے ، کہ جس میں طلاق جاری ہونے کے بعد مرد رجوع کرنے کا حق نہیں رکھتا ہے ۔اس کی چند قسمیں ہیں :
الف:عورت کے ساتھ مرد کے ہمبستری ہونے سے پہلے دیاجانے والاطلاق ۔
ب:یائسہ عورت کی طلاق،یعنی وہ عورت جس میں بچہ پید اکرنے کی صلاحیت موجودنہ ہو ۔
ج:اس عورت کی طلاق جس کی عمرابھی نوسال تمام نہ ہوئی ہو ۔
مذکورہ تین قسم کے طلاقوں میں عدہ نہیں ہے ۔
د:اس عورت کی طلاق جس کو تین مرتبہ طلاق دی گئی ہو۔اس طلاق میں اس کے علاوہ کہ مرد رجوع نہیں کرسکتا ہے،اسے پھرسے اپنے عقدمیں بھی نہیں لاسکتا ہے مگر یہ کہ یہ عورت کسی دوسرے مردکے عقد دائمی میں آجائے اوراس سے ہم بستری کی جائے پھر وہ مرداسے طلاق دیدے یامرجائے تواس صورت میں عدہ تمام ہونے کے بعدپہلا شوہر اس کے ساتھ پھرسے عقد کرسکتا ہے۔
ھ۔طلاق خلع:اس عورت کی طلاق جو اپنے شوہرکو پسند نہیں کرتی ہے اوراپنامہر یاکوئی اورمال اسے بخش کر اس سے طلاق حاصل کرے ،اس کو''خلع''کہتے ہیں ۔اس طلاق میں جب تک بیوی اپنے شوہر کو بخش دئے گئے مال کامطالبہ نہ کرے ،اس وقت تک مرد رجوع نہیں کرسکتا ہے ۔
طلاق مبارات:یہ وہ طلاق ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو نہ چاہتے ہوںاور بیوی مرد کو کچھ مال دے اوراس کے مقابلہ میں وہ اسے طلاق دے ۔اس طلاق میں بھی جب تک بیو ی ا پنے اداکئے ہوئے مال کا مطالبہ نہ کرے،مرد رجوع کرنے کا حق نہیں رکھتا ہے ۔

ز۔نواں طلاق:ان شرائط کے ساتھ جو فقہ کی کتابوں میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں، اس طلاق کے بعدعورت مرد پرہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہے اورکسی صورت میں اس کے ساتھ دوبارہ ازدواجی رشتہ برقرارنہیں کرسکتا ہے ۔

عدت کے احکام اور اس کی قسمیں
جس عورت نے اپنے شو ہر کے ساتھ ہم بستری کی ہو اورازدواج کے رشتہ کو مستحکم کیا ہو، اگر اس کاشوہراسے طلاق دیدے ،تو اسے ایک معین مدت تک عدہ رکھناچاہئے،یعنی اس مدت میں ازدواج کرنے سے پرہیز کرے ۔اس کام کے دواہم نتائج ہیں :
اول یہ کہ:نطفوںکے مخلوط ہونے سے بچایا جاسکتا ہے ۔
دوسرے یہ کہ:ممکن ہے اس مدت کے دوران میاں بیوی اپنی جدائی سے پشیمان ہوکر رجوع کریں ۔
عدہ کی مدت کے دوران مرد کو بیوی کے اخراجات کو اداکرناچاہئے اوراسے اپنے گھرسے نہ نکالے ۔اوراگریہ چوتھی بیوی تھی تو عدہ تمام ہونے تک دوسری عورت سے عقدنہ کرے۔اگرطلاق مرد کی مہلک بیماری کے دوران انجام پائے تو اس کے ایک سال کے اندرمرنے کی صورت میں بیوی اس کے ترکہ سے میراث لینے کی حقدار ہے ۔

عدت کی قسمیں
عدہ کی تین قسمیں :

١۔حاملہ عورت کا عدہ
٢۔غیرحاملہ عورت کاعدہ
٣۔عدہ وفات
ان کی تفصیل حسب ذیل ہے :
١۔اگرحاملہ عورت کو طلاق دی جائے تواس کاعدہ بچہ کی پیدائش یا اسکے سا قط ہونے تک ہے۔اس بناپر اگرطلاق دینے کے ایک گھنٹہ بعداسکابچہ پیداہو جائے تو وہ دوسراشوہر کرسکتی ہے۔
٢۔جوعورت حاملہ نہ ہواوراس کی عمر پورے نوسال ہو یا یائسہ نہ ہو،جبکہ اس کے شوہرنے اس کے ساتھ ہم بستری کی ہو اور حیض کے علاوہ دنوں میں طلاق دی ہوتواسے اتنا انتظار کرناچاہئے کہ دوبارحیض دیکھے اور پاک ہوجائے اور جوںہی تیسرے حیض کودیکھے گی اس کا عدہ تمام ہو جائے گا۔
٣۔جس عورت کا شوہر مر جائے اوروہ حاملہ نہ ہوتواسے چار مہینے دس دن عدہ رکھنا چاہئے۔اگرحاملہ ہو تو اسے بچے کی پیدائش تک عدہ رکھنا چاہئے لیکن اگر چار مہینے دس دن گزرنے سے پہلے، بچہ پیدا ہوجائے تواسے اپنے شوہرکے مرنے کے دن سے چارمہینے دس دن تک انتظار کرنا چاہئے اوراسے''عدہ وفات''کہتے ہیں ۔