عورت کے بارے میں اسلام کا نظریہ
جس دن اسلام کاسورج بشریت کے افق پر طلوع ہوا ، اس وقت عورت کی سماجی حالت وہی تھی جو خلاصہ کے طور پربیان کی گئی ۔
اس زمانہ کی دنیا میں عورت کے بارے میں چندغلط اور خرافات پر مشتمل افکار اورظالمانہ طرز عمل کے علاوہ کچھ نہیں تھا .لوگ(حتی خودعورت کاطبقہ )عورت کے لئے کسی مقا م یاحق کے قائل نہیں تھے اوراسے ایک پست مخلوق سمجھتے تھے جوشریف انسان (مرد)کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔
اسلام نے پوری طاقت کے ساتھ ان افکار کی مخالفت کی اورعورت کے لئے حسب ذیل حقوق مقررفرمائے :
١۔عورت ایک حقیقی انسان ہے اورانسان کے نرومادہ جوڑے سے پیداکی گئی ہے اورانسان کی ذاتی خصوصیات کی حامل ہے اورانسانیت کے مفہوم میں مرد کو اس پر کوئی امتیاز حاصل نہیںہے۔خدائے متعال اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے :
(یایّہا النّٰاس اِنّاخلقنکم من ذکرٍوانثی ...) (حجرات١٣)
''انسانو!ہم نے تم کوایک مرداورایک عورت سے پیداکیاہے ...''
کئی دوسری آیتوں میں فرماتا ہے :
(بعضکم من بعض) (آل عمران ١٩٥)
''تم سب ہم جنس ہو ''
٢۔عورت،مرد کے مانندمعاشرہ کاعضو ہے اورقانونی شخصیت کی مالک ہے ۔
ًًً٣۔عورت چونکہ فطری رشتہ دارہے اسلئے سرکاری اورقانونی طورپربھی رشتہ دار ہے ۔
٤۔بیٹی ،اولادہے جس طرح بیٹااولادہے،اسلئے بیٹیاں ،بیٹوںکی طرح اولادہیں ،اس لحاظ سے عورت بھی مرد کی طرح اپنے سببی اور نسبی رشتہ داروں جیسے باپ اورماں سے میراث پاتی ہے ۔
٥۔عورت فکری آزادی کی مالک ہے اوراپنی زندگی میں ہرقسم کا فیصلہ کرسکتی ہے اورشر عی حدود میں اپنی مرضی کے مطابق اپنے لئے شوہرمنتخب کرسکتی ہے اور باپ یاشوہرکی ولایت اورسر پرستی میںرہے بغیر آزادی کے ساتھ زندگی گزارسکتی ہے اورہر جائز پیشہ کو منتخب کرسکتی ہے ۔
عورت عمل کے میدان میں مستقل ہے اوراس کاکام اورکوشش محترم ہے اور وہ مالک بن سکتی ہے اوراپنی دولت وثروت کو مرد کی سر پرستی اورمداخلت کے بغیرتصرف کرسکتی ہے اوراپنے انفرادی واجتماعی مال اورحقوق کادفاع کرسکتی ہے اور دوسروں کے حق میں یاخلاف گواہی دے سکتی ہے ۔وہ جنسی آمیزش کے مسئلہ کے علاوہ (جس میں ازدواجی زندگی کے معاہدہ کے مطابق اپنے شوہر کی اطاعت کرناضروری ہے )اپنے شوہر کے لئے کوئی دوسرا کام انجام دے تو وہ قابل قدر ہے۔
٦۔مرد کو عورت پر حکم چلانے اورظلم کرنے کا کوئی حق نہیںہے اور ہرظلم جومردوں کے بارے میں مقدمہ چلا کرقابل سزا ہے وہ عورتوں کے بارے میں بھی مقدمہ چلانے اورسزا دینے کے قابل ہے۔
٧۔عورت معنوی دینی شخصیت کی مالک ہے اوراخروی سعادت سے محروم نہیں ہے ،وہ وایسی نہیں ہے جیساکہ اکثرادیان اورمذاہب عورت کو ایک شیطان کے مانند،رحمت خداوندی سے مایوس تصور کرتے ہیں ۔
خدائے متعال اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے :
(من عمل صٰلحاً من ذکر او انثی و ہو مؤمن فلنحیینَّہ حیٰوة طیّبة ولنجزینَّہم اجرہم باَحسنِ ماکانوا یعملون ) (نحل٩٧)
''جوشخص بھی نیک عمل کرے گاوہ مرد ہو یاعورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطاکریں گے اورانھیں ان اعمال سے بہترجزادیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے ہیں''
(...انّی لااضیع عملَ عامل منکم من ذکر اوانثی ...)
(آل عمران ١٩٥)
''میں تم میں سے کسی بھی عمل کرنے والے کے عمل کوضائع نہیں کروں گا چاہے وہ مرد ہو یاعورت...''
درج ذیل آیہ شریفہ کے مطابق ممکن ہے ایک عورت تقوی اوردین کی بدولت ہزاروں مردوں پرامتیاز اور فوقیت حاصل کرے :
(یایّہا النّاس انّا خلقٰنکم من ذکر وانثی وجعلنٰکم شعوباً وقبائل لتعارفوا انَّ اکرمکم عند اللّٰہ اتقٰکم ...) (حجرات ١٣)
''انسانو! ہم نے تم کو ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیاہے اورپھر تم میں شاخیں اورقبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جوزیادہ پرہیز گار ہے ...''
نکاح
(ازدواج)
نکاح کے مسائل اوراحکام
اسلامی تعلیمات میں نکاح اورازدواجی زندگی کے موضوع کو کافی اہمیت دی گئی ہے ۔اس کی اہمیت اس حدتک ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
نکاح میری سنت ہے اورجو بھی میری سنت پر عمل نہ کرے ،اسے اپنے آپ کو مجھ سے نسبت نہیں دینی چاہئے اوروہ اپنے آپ کومسلمان شمارنہ کرے۔(١)
نکاح کے احکام
دین اسلام میں نکاح کی دوقسمیںہیں :
١۔'' دائمی نکاح'':یہ وہ نکاح ہے کہ عقدجاری ہونے کے فوراًبعد میاں بیوی کارشتہ ہمیشہ کے لئے برقرار ہوجا تا ہے ۔یہ رشتہ صرف طلاق کے ذریعہ توڑاجاسکتا ہے ۔اس ازدواج میں مرد کو مہر کے علاوہ بیوی کی حیثیت کے مطابق اس کی زندگی کے اخراجات اداکرنے ہوتے ہیں اور کم از کم چار راتوں میں سے ایک رات کو اس کے ساتھ گذارے
..............
١۔بحارالانوار.ج١٠٣،ص٢٢٠ح٢٣۔
بیوی اس سلسلہ میں شوہر کے تقاضا کو مسترد نہیں کرسکتی ہے ۔
٢۔موقت نکاح جسے''متعہ''کہا جاتا ہے ۔یہ نکاح ،ایک محدود اورمعین مدت کے لئے میاں بیوی کے درمیاں رابطہ کو پیدا کر تاہے اورجوں ہی مدت ختم ہوئی یامرد نے باقی مدت کو بخش دیا تو طلاق کے بغیر میاں بیوی کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے ۔
اس ازدواج میں نکاح دائم کے احکام میں سے کوئی حکم نہیں پایا جاتا ہے ،مگر یہ کہ عقد کے وقت شرط کی گئی ہو ۔
نوٹ
نکاح موقت''متعہ''اسلام میں جائزہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں رائج تھا ،یہاں تک کہ دوسرے خلیفہ نے بعض وجوہات کی بنا پر اس پرپابندی لگادی ،اس لئے اہل سنت اسے جائز نہیں جانتے ،لیکن شیعوں کے نزدیک جائز ہے اوراسے اسلام کے شاہکاروں میں سے ایک جانتے ہیں ،کیونکہ معاشرے کی ضرورتوں کے ایک اہم حصہ کو۔جس کودوسرے راستہ سے روکنا ممکن نہیںہے دور کرتا ہے اورعمومی عفت کا بہترین حامی اورضامن ہے ۔
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
''اگرموقت نکاح کو ممنوع نہ قرار دیا گیا ہوتا تو شقی اوربدبخت کے علاوہ کوئی زنانہ کرتا'' (١)
..............
١۔وسائل الشیعہ ،ج١٤،ص٤٣٦،باب متعہ ۔
جن کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے
اسلام میں بعض عورتوں کے ساتھ رشتہ داری اورنسبی رشتہ کی وجہ سے نکاح کرنا حرام اورممنوع ہے، اور وہ حسب ذیل ہیں :
١۔ماں ،دادی،نانی اور جتنا سلسلہ اوپرچلا جائے ۔
٢۔بیٹی،نواسی اورجتنا سلسلہ نیچے چلاجائے۔
٣۔پوتی اورجتنا سلسلہ نیچے چلاجائے۔
٤۔بہن،بھانجی اورجتنا سلسلہ نیچے چلاجائے۔
٥۔بھتیجی ،بھتیجی کی بیٹی اورجتنا سلسلہ نیچے چلا جائے ۔
٦۔پھوپھی
٧۔خالہ
نوٹ
جوعورتیں نسبی رشتہ کی وجہ سے مردپر حرام ہیں وہی عورتیں ایک شیرخواربچہ کو دودھ پلانے سے حرام ہوجاتی ہیں ۔
بعض عورتیں سببی رشتہ (دامادی )کی وجہ سے مردپر حرام ہوجا تی ہیں ،وہ حسب ذیل ہیں :
١۔بیوی کی ماں اوراسکی دادی ونانی اور جتنا سلسلہ اوپر چلا جائے ۔
٢۔بیوی کی بیٹیاں ،اگرمردنے اس بیوی سے ہمبستری کی ہو۔
٣۔باپ کی بیوی ،اگرچہ باپ نے اس کے ساتھ ہمبستری بھی نہ کی ہو۔
٤۔بیٹے کی بیوی ،اگرچہ بیٹے نے اس کے ساتھ ہمبستری بھی نہ کی ہو۔
٥۔بیوی کی بہن ۔جب تک بیوی زندہ اور مردکے عقد میں ہو ۔
٦۔بیوی کی بھتیجی اور بھانجی ، جبکہ بیوی سے اجازت نہ لی ہو،لیکن بیوی کی اجازت سے حرام نہیں ہیں ۔بعض عورتیں دوسرے وجوہا ت سے مردپر حرام ہوجاتی ہیں :
١۔شادی شدہ عورت۔
٢۔پانچویں عورت ،جس مرد کے چار دائمی عقدوالی بیویاں ہوں ۔
٣۔کافر عورت،لیکن یہودی اورعیسائی کے مانند اہل کتاب ہو تو اس کے ساتھ موقت عقدکیا جا سکتا ہے ۔
عقد کاولی
دین اسلام میں ، مرداورعورت اگربالغ ہوں تواپنا شریک حیات انتخاب کرنے میں آزاد ومستقل ہیں ۔لیکن نابالغ بیٹی اور بیٹے کے ولی ان کے باپ ہیں ،اس معنی میں کہ باپ اپنی نابالغ بیٹی کاعقد کسی لڑکے سے کرسکتا ہے اوراپنے نابالغ بیٹے کا عقد کسی لڑکی سے کر سکتا ہے ۔
اولاد کے حقوق اورتبعیت
١۔اگرشادی شدہ عورت،سے کوئی بچہ پیدا ہو تو یہ بچہ اس کے شوہر کاہے،چنانچہ وہ بچہ دائمی بیوی ہو تو شوہرا پنا بچہ ہونے سے ا نکار نہیں کرسکتا ہے۔
٢۔اگربچہ اپنی زندگی کا خرچ پورانہ کرسکتا ہو ،تو اسکے ماں باپ کو اس کے اخراجات کو پورا کرنا چاہئے اورچنانچہ ماں باپ اپنے اخراجات پو رے نہ کرسکتے ہو ں توان کے اخراجات ان کے فرزند کے ذمہ ہیں ۔
اسلام میں متعدد بیویاں
شریعت اسلام کے مسلمات میں سے ہے کہ مرد ایک ساتھ چار بیویاں رکھ سکتا ہے۔ اس حکم کے فلسفہ کو سمجھنے کے لئے درج ذیل نکات پر توجہ کرنا ضروری ہے :
١۔یہ حکم،اختیاری احکام میں سے ہے اور واجبی وحتمی حکم نہیں ہے، یعنی مسلمان مردپر واجب نہیں ہے کہ چاربیویاں رکھے بلکہ ایک ہی وقت میں دویاتین یاچاربیویاں رکھ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ،چونکہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے میں شرط یہ ہے کہ ان کے درمیان عدالت کی رعایت کرے اور یہ کام بہت مشکل ہے اورہرایک کے بس کی بات نہیںہے ۔ اس لئے اس کام کے لئے قدم اٹھانا اپنے لئے استثناء حالت پیدا کرنا ہے ۔
٢۔بشر کی ضرورتوں میں سے ایک تناسل وتوالداورآبادی بڑھاناہے ۔ خالق کائنات نے اسی غرض سے انسان کو مرداورعورت میں تقسیم کیا ہے .اسلام بھی چونکہ دین فطرت ہے اس لئے اس نے انسان کی ضرورتوں کو مد نظر رکھا ہے اسی لئے ازدواج کا حکم دیا ہے اورچونکہ مرداورعورت میں تناسل اور توالد صلاحیت کے لحاظ سے ، فرق ہے ،اس لئے متعدد شادیاں جائز کی ہیں ۔
اب ہم اختلاف کی علتیں بیان کرتے ہیں :
الف:کلی طورپر عورت نوسال کی عمر میں ازدواج کی صلاحیت پیداکرتی ہے جبکہ مرد کے لئے یہ استعداد پندرہ سال میں پیدا ہوتی ہے۔
نتیجہ کے طورپر اگرہم کسی معین سال کو مدنظر رکھ کر لڑکے اورلڑکیوں کی ولادت کو (اکثرًلڑکیاں لڑکوں سے زیادہ ہوتی ہیں )درج کریں گے اور بعد والے سالوں کی ولادتوں کو اس پر اضافہ کریں گے توسولہویں سال ہر لڑکا جوازدواج کی شرعی صلاحیت پیدا کرے گا اس کے مقابلہ میں سات لڑکیاں ازدواج کی صلاحیت پیدا کریںگی ۔اگرلڑکوں کے ازدواج کی عمر جو معمولاً بیس سال سے اوپر ہے، کو مدنظر رکھیں ،تواکیسویں سال میں ہرایک لڑ کے کے مقابلہ میں دولڑکیاں شا دی کے لا ئق ہوںگی اورپچیسویں سال میں کہ عام طور پر شادی اسی عمر میں کردی جاتی ہے ۔ہردس لڑکوں کے مقابلہ میں سولہ لڑکیاں شادی کے لائق ہو جائیں گی ۔
ب۔عورت غالباًپچاس سال کی عمرمیں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کھودیتی ہے جبکہ مرداپنی طبیعی عمر کے آخری دنوں تک یہ صلاحیت رکھتا ہے ۔
ج۔اعدادوشمار کے مطابق نوزاد لڑکوں کی موتیں نوزادلڑکیوں سے زیادہ ہوتی ہیں اورعورتوں کی اوسط عمرمردوں کی نسبت زیادہ ہے کیونکہ گوناگوں عوامل کی وجہ سے عورتوں کی نسبت مردوں میں موتیں زیادہ ہوتی ہیں ۔اسی طرح(اعدادوشمار کے مطابق)مردکی عمرغالباًعورت کی عمرسے کم ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ معاشرہ میں ہمیشہ بیوہ عورتیں ،بیوی کے بغیرمردوں سے زیادہ ہوتی ہیں ۔
اس بات کا بہترین ثبوت یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں متعدد شادیوں کی رسم صدیوں تک باقی تھی اور باوجود اس کے کہ بعض لاابالی اورفاقد عدالت مردوں نے بھی یہ کام انجام دیا ہے ،لیکن کبھی کوئی مشکل یاعورتوں کی کمی کا مسئلہ پیش نہیں آیا ہے ۔
کہتے ہیں:چونکہ متعدد شادیوں کامسئلہ عورت کی فطرت کے خلاف ہے،چوں کہ اس کے جذبات کو مجروح کرتا ہے یہا ں تک کہ بعض اوقات اسے انتقام لینے پر مجبور کرتا ہے اورمرد کی زندگی خطرہ میں پڑجاتی ہے ۔
ایسا سوچنے والوں نے اس حقیقت میں غفلت برتی ہے کیوںکہ مذکورہ مخالفت عادت سے مربوط ہے نہ اسکی فطرت اورطبیعت سے،کیونکہ اگراس کی بنیاد فطرت پر ہوتی تومتعدد شادیوں کا کام عملاًکبھی واقع ہی نہ ہوتا ۔کیونکہ جوعورتیں کسی مرد کی دوسری ،تیسری یا چوتھی بیوی بنتی ہیں ،وہ عورتوں کے اسی طبقہ سے تعلق رکھتی ہیں جوکہ اپنی مرضی اوررغبت سے شادی شدہ کسی مردسے شادی کرنے پرآمادہ ہوتی ہیں۔اگریہ کام انکی فطری اورطبیعی جذبات کے خلاف ہوتا،توہرگزایسی چیز کوقبو ل نہ کرتیں ،چنانچہ اگرازدواج میں کسی عورت سے یہ شرط کی جائے کہ اسے تنہازندگی گزارناہوگی اورکسی سے بات نہیں کرے گی ،توچونکہ یہ کام اسکی فطرت کے خلاف ہے ،اس لئے ہرگز وہ اس شرط کوقبول نہیں کرے گی۔
اسکے علاوہ دین اسلام میں اس مشکل کوحل کر نے کے لئے ایک راستہ موجود ہے ،وہ یہ کہ عورت ازدواج کے وقت،عقدلازم کے ضمن میں شرط رکھ سکتی ہے کہ اس کاشوہردوسری شادی نہ کرے اورا س طرح اس کا سد باب کر سکتی ہے ۔
اولاد کی میراث کا مسئلہ بھی دوسری صورت میں منظم کیاجاسکتا ہے،مثلاًحکومت کو مردکاوارث قراردیں اورمعاشرے کے فرزندوں اورنوزاد بچوں کی تربیت حکومت کے ذمہ چھوڑکربچوں کو پرورش گاہ اورنرسریوں میں پالا جائے ۔
اگرچہ یہ طریقہ انسانی معاشروں میں استثنائی طورپر انجام پاتا ہے ،لیکن ایک ناقابل تغیرقانون کی حیثیت سے جاری رہنے کی ہرگز صلاحیت نہیں رکھتا،کیونکہ،یہ طرزعمل،مختصر زمانہ میں ،انسانی جذبات،غمخواری ،مہرومحبت اورقوی خاندانی ہمدردی۔جونسل کی ایجاد کے لئے انسان کااصلی محرک ہے کونابود کرکے رکھدیتاہے اورنتیجہ کے طورپرنسل بڑھانے کے موضوع کولوگوں میں خاص کرعورتوں میں کہ واقعاً ایام حمل کے دوران ناقابل برداشت تکلیفیںاٹھاتی ہیں ایک بیہودہ عمل دکھاتا ہے اورمہرومحبت والے خاندان کوایک تاریک زندان میں تبدیل کردیتا ہے ۔
ایسے حالات کے رونماہونے کی وجہ سے تناسل وتوالدکاراستہ بالکل بندہوجاتا ہے اورخاندان جوحقیقت میں شہری معاشرہ کو تشکیل دیتاہے نابود ہوکررہ جاتاہے،اورخاندان کی تشکیل اورتناسل وتوالدفنی وسائل اورسیاسی فریب کاریوں کے ذریعہ انجام پاتے ہیں،جیسے بچہ پیداکرنے والوں کے لئے بڑے بڑے انعامات کااعلان کرنایاسخت قوانین نافذ کرناوغیرہ ۔بدیہی ہے کہ اس قسم کی حالت،جوفطرت کے ساتھ ساز گار نہیں ہوتی،پائدارنہیں ہے ۔
اس کے علاوہ واضح ہے کہ اس صورت میں ،انسان کی زندگی ایک وحشتناک شکل میںتبدیل ہوکرخشک وبے لذت ہوگی اورحقیقت میں ،انسان کی زندگی کاماحول مویشیوں سے زیادہ پست اوردرندوں کے ماحول سے زیادہ خطرناک ہوگا۔
|