دینی تعلیم
 

اسلام میں فیصلہ

مسائل عدلیہ کے کلیات
شرعی طور پر جو صفتیں قاضی میں ہونی چاہئیں ، حسب ذیل ہیں:
١۔ بالغ
٢۔عاقل
٣۔ اسلام
٤۔ عدالت، یعنی گناہان کبیرہ کو انجام نہ دے اور گناہان صغیرہ پر اصرار نہ کرے۔
٥۔ حلال زادہ
٦۔ علم، یعنی عدلیہ سے مربوط قوانین کو اپنے اجتہاد سے جانتاہو، اگر دوسرے کے فتوی کے مطابق سنائے تو کافی نہیں ہے۔
٧۔یادادشت۔ یعنی بھولنے والا فیصلہ نہیں دے سکتا ہے۔
٨۔بینائی۔ اکثر فقہا کی نظر میں نابینا جج نہیں بن سکتا ہے۔
اگر قاضی میں مذکورہ صفات میں سے کوئی ایک صفت نہیں پائی جاتی ہو تو وہ خو دبخودفیصلہ دینے کے منصب سے عزل ہوجاتاہے۔

قاضی (جج) کے فرائض
اسلام کی مقدس شریعت میں، جو فیصلہ دینے کے منصب پر فائز ہو، اس کے لئے مندرجہ ذیل فرائض کا انجام دینا ضروری ہے:
١۔ لوگوں کے ایک دوسرے کے خلاف دعووں کے بارے میں فقہ کی کتابوں میں موجود قوانین کے مطابق فیصلہ دینا۔
٢۔ یتیموں او ردیوانوں کی سرپرستی کرنا، اگر ان کے باپ یا داد انے ان کے لئے کوئی سرپرست معین نہ کیا ہو۔
٣۔ عمومی اوقاف اور مجہول المالک اموال کی حفاظت کرنا۔
٤۔ احمقوں کے مال کی دیکھ بھال کرنا۔
٥۔ دیوانہ پن اور مفلس ہونے کا حکم جاری کرنا اور حکم جاری کرنے کے بعد مفلس کے مال کی حفاظت کرنا۔
٦۔ خیانت کرنے کی صورت میں وصی کو بدل دینا۔
٧۔ وصی کے ساتھ ایک امین کو بھی رکھنا، جب وصی اکیلے ہی ذمہ داری کو نبھانہ سکے۔
٨۔ اگر کوئی اپنا قرض ادانہ کرسکے تو اسے مہلت دینا۔
٩۔ممکن ہونے کے باوجود واجب نفقہ دینے سے اجتناب کرنے والوں پر ذمہ داری عائد کرنا۔
١٠۔ اس کے حوالہ کئے گئے اسناد اور امانتوں کا تحفظ کرنا۔
١١۔ شرعی حدود جاری کرنا۔
١٢۔ شرعاً معین شدہ افرا د کو جیل بھیجنے کا حکم جاری کرنا۔

فیصلہ کرنے کی اہمیت
اسلام میں''قاضی''کے لئے معین کئے گئے فرائض کی تحقیقات سے فیصلہ کرنے کی اہمیت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔اسی لئے قاضی اپنے فیصلہ میں جذبات سے کام نہیں لے سکتا ہے اور رشوت لینے کا ، یہاں تک کہ بر حق افراد سے بھی ،سخت منع کیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ اسے ان افراد کے درمیان فرق نہیں کرنا چاہئے جو اس کے پاس رجوع کرتے ہیں ۔
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلا م''مالک اشتر'' کے نام لکھے گئے ایک حکم نامہ میں فیصلہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
''لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کرنا جو دعویٰ دائر کرنے والوں کے رجوع کرنے سے تھک کر دل تنگ نہ ہو جائے اور کاموں کی رسیدگی میں مکمل طور پر صبروتحمل کا مظاہرہ کرتا ہو اورامور کے بارے میں فیصلہ دینااس کے لئے مشکل نہ ہو ۔دعوی ،کرنے والے اسے خواراورحقیرنہ سمجھیں امور کے مشکلات کے بارے میں تحقیقات اوردقت کرے اورکسی کام کو سر سری طورپر انجام نہ دے ،اگرکیس اس کے لئے واضح ہے تو لوگوں کی چاپلوسی ،دھمکی اورطمع و لالچ دلانے کے اثرمیں نہ آ ئے اورحکم الہیٰ کو کسی شک وشبہہ کے بغیر اظہار کرکے نافذ کرے اور لوگوں کے مال پر طمع کرنے سے پرہیز کرے ،چونکہ اس قسم کے لوگ کم پائے جاتے ہیں اسلئے ان کی اہم اورسنجیدہ ذمہ داری کے پیش نظرمناسب تنخواہ معین کرے تاکہ وہ اپنی آبرومند انہ زندگی میں دوسروں کے محتاج نہ رہیں اور رشوت لینے کے لئے کوئی بہانہ باقی نہ رہے اورانھیں فیصلہ سنانے کی آزادی دینا تاکہ دوسروں کی بد گوئی اورچالبازیوں سے محفوظ رہیں ۔''

گواہی

مرداورعورت کی گواہی
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا کہ استدلال کی قدرت مرد میں اورجذبات کی قدرت عورت میں زیادہ ہوتی ہے،اس لئے اسلام میں دوعورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابرہے ۔خدائے متعال اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے :
(...واستشہدوا شہیدین من رجالکم فان لم یکونا رجلین فرجل ومراتان ممّن ترضون من الشُّہداء ان تضلَّ احدٰ ہما فتذکر احدٰہما الاخری...) (بقرہ ٢٨٢)
''...اوراپنے مردوں میں سے دوگواہ بنائو اوردومردنہ ہوں توایک مرداوردوعورتیں تاکہ ایک بہکنے لگے تودوسری یاددلادے۔''

گواہی کے کلیات
تنہا وہ عام راستہ کہ جس کے ذریعہ تمام حالات میں حوادث پر قابو پایاجا سکتا ہے، گواہی کو برداشت کرنا اور اس کو انجام دیناہے اور دوسرے وسائل جیسے ''لکھنا'' اور ''فنی وسائل'' جو حوادث کو ضبط کرنے اور شکل و اعتراف کو استحکام بخشنے کے لئے فراہم کئے گئے ہیں، عام نہیں ہیں اور انسان کے اختیار میںنہیں ہیں۔
اس لئے، اسلام نے اس بہت سادہ اور طبیعی وسیلہ کو اہمیت دی ہے اورحکم دیا ہے کہ لوگ اس راستہ سے حوادث پر قابو حاصل کریں اور ضرورت کے وقت گواہی دیں۔

گواہ کی شرائط
١۔ بالغ ہو، اس بناپر نابالغ بچے کی گواہی قبول نہیں ہے، صرف جو بچہ دس سال کی عمر تک پہنچاہو، اگر اس نے گناہ نہ کیا ہو، تو وہ زخم لگانے کے بارے میں گواہی دے سکتا ہے۔
٢۔ دیوانہ او راحمق نہ ہو۔
٣۔ مسلمان ہو، لیکن اگر وصیت کرتے وقت مسلمان گواہ تک رسائی ممکن نہ ہو تو کافرذمی (اہل کتاب جو اسلام کی پناہ میں ہو ) کی گواہی قابل قبول ہے۔
٤۔ عادل ہو، پس فاسق او رجھوٹی گواہی دینے والے کی گواہی قبول نہیںہے مگر یہ کہ وہ توبہ کرکے اس پر ثابت قدم رہے۔
٥۔ حلال زادہ ہو، اس لحاظ سے حرام زادہ کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔
٦۔ اس پر الزام نہ ہو، اس بناپر اس شخص کی گواہی پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے جو دعوے کے موضوع میں غرضمند ہو۔
٧۔ یقین رکھتا ہو ، اس بناپر جو حدس و یقین حس کے طریقہ سے حاصل نہ ہوا ہو، اس پرگواہی نہیں دی جاسکتی ہے اور اگر جھوٹی گواہی کی وجہ سے کسی کے نقصان میں کو ئی حکم جاری ہواہو، تو گواہ ضامن ہے اور اس کی تنبیہ کی جانی چاہئے او راس کے جھوٹ کو بھی لوگوں میں اعلان کرناچاہئے۔