احکام کے بارے میں
چندسبق
اجتہاد اورتقلید
انسان کی زندگی میں پائی جا نے والی حاجتیں اوران کو پوراکرنے کے لئے ان کی سرگرمیاں،اتنی زیادہ ہیں کہ ایک معمولی انسان ان کوگننے اورشمار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا،ان سب کے بارے میں اور مہارت حاصل کرکے کافی مقدار میں معلومات حاصل کرنے کی بات ہی نہیں!
دوسرے یہ کہ انسان اپنے کام کو فکروارادہ سے انجام دیتا ہے اور جہاں پر اسے کوئی فیصلہ کرنا ہو،تو اس کے بارے میں اس کے پاس کافی معلو مات ہونا چاہئے ورنہ وہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکتااس کو اپنے انجام دینے والے کاموں میںخود ماہر ہونا چاہئے یا کسی ما ہر سے پوچھے اوراس کے حکم کے مطابق اس کام کو انجام دے ۔چنانچہ فطری طورپر ہم مریضوں کاعلاج کرنے کے لئے طبیب سے،مکان کانقشہ بنانے کے سلسلہ میں انجینئرسے ،معماری میں معمارسے رجوع کرتے ہیں اور دروازے اورکھڑ کیاں بنانے میں نجّارپر اعتماد کرتے ہیں ۔
پس ہم ہمیشہ بہت کم کاموں کے علاوہ اپنے دوسرے تمام مسائل میں تقلید کرتے ہیں۔جویہ کہتا ہے کہ :''میں اپنی زندگی میں تقلید کے سامنے ہتھیارنہیں ڈالتا ہوں''وہ شخص یااپنی بات کے معنی کونہیں سمجھا ہے یاایک فکری آفت میں مبتلا ہوا ہے ۔
چونکہ اسلام نے اپنی شریعت کی بنیاد انسانی فطرت پر ڈالی ہے ، لہذااسی روش کاانتخاب کیاہے۔اسلام نے اپنے پیروئوںکو حکم دیا ہے کہ دینی معارف اوراحکام کو سیکھیںان معارف کا سر چشمہ کتاب خدااور پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وآئمہ ھدی علیہم السلام کی سنت کے علاوہ کوئی اورچیز نہیںہے ۔
بدیہی ہے کہ تمام دینی معارف کو کتاب وسنت سے حاصل کرنا،ہرایک کے بس کی بات نہیں ہے اوریہ کام مسلمانوں کے ایک خاص گروہ کے علاوہ تمام مسلمانوں کے لئے ممکن نہیں ہے ۔
اس لئے خود بخود دین کاحکم اس صورت میں نکلتا ہے کہ مسلمانوں میں سے وہ لوگ جودینی معارف واحکام کواستدلال کی راہ سے حاصل نہیں کرسکتے،انھیںان لوگوںکی طرف رجوع کرنا چاہئے جودینی احکام کودلیل سے حاصل کر چکے ہوں اوراسطرح اپنے فریضہ پرعمل کریں ۔
جو عالم دینی احکام کواستدلال کی راہ سے حاصل کرتا ہے ،اس کو''مجتہد'' اور اس کے کام کو''اجتہاد''کہا جاتا ہے اورجو مجتہد کی طرف رجوع کرتا ہے اس کو ''مقلد'' اور اس کے اس کام کو''تقلید''کہتے ہیں ۔
البتہ اس نکتہ کو جانناچاہئے کہ تقلید،عبادت،معاملات اور دین کے دوسرے عملی احکام میںجائز ہے ،لیکن اصول دین میں ،جواعتقادی مسئلہ ہے،کسی صورت میں کسی کی تقلیدنہیں کی جاسکتی ہے۔کیونکہ اصول دین میں ایمان وعقیدہ ضروری ہے نہ عمل،اس لئے دوسروں کے ایمان کواپنا ایمان فرض نہیں کیا جاسکتاہے ،یعنی یہ نہیں کہاجاسکتاہے کہ خدا ایک ہے اس دلیل پر کہ ہمارے والدین یا عالم ایسا کہتے ہیں ۔یا مرنے کے بعدزندگی حق ہے ،کیونکہ تمام مسلمان اس کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔
اس لئے ہرمسلمان پرواجب ہے کہ اپنے اصول دین کودلیل کی راہ سے جانے اگرچہ سادہ طریقہ سے ہی ہو۔
نجاسات
نجاسات(نجس چیزیں )چند چیزیں ہیں :
١و٢:پیشاپ اورپاخانہ۔ (١)
اس حرام گوشت حیوان کاپیشاب اورپاخانہ نجس ہے جوخون جہندہ رکھتا ہویعنی وہ حیوان جس کی رگ کاٹنے پرخون اچھل کرنکلے ،جیسے:بلی ،لومڑی ،خرگوش وغیرہ ،بلکہ اگر مرغی یا کوئی دوسراحیوان ،جونجاست کھانے کی وجہ سے حرام گوشت بن چکا ہو ، تواس کا بھی پیشاب وپاخانہ نجس ہے ۔
٣۔خون جہندہ رکھنے والے حیوانوں کامردار،خواہ حلال گوشت ہوں یاحرام گوشت،لیکن حرام گوشت حیوان کے بعض اجزاء جیسے ،اون ،بال اورناخن جو جان نہیں رکھتے ہیں پاک ہیں ۔
٤۔خون جہندہ رکھنے والے حیوانوں کاخون ،خواہ حلال گوشت ہوں یاحرام گوشت۔
..............
١۔پیشاب نکلنے کی جگہ صرف پانی سے پاک ہوتی ہے اورپاخانہ نکلنے کی جگہ کوپانی سے دھویا جاسکتا ہے یاپتھریا اسکے مانندتین ٹکڑوں سے پاک کیا جاسکتا ہے .البتہ یہ اس صورت میں ہے کہ پاخانہ اپنی جگہ سے باہر نہ پھیلا ہو ورنہ پانی کے بغیرپاک نہیں ہوگا۔ضمناًیاد دہانی کی جاتی ہے کہ اگرپاخانہ تین پتھر سے صاف نہ ہواتو اس سے زیادہ پتّھر سے پاک کیا جائے ۔
٥و٦۔خشکی میں رہنے والے کتے اورسور ،ان کے تمام اجزاء یہاں تک کہ ان کے بال بھی نجس ہیں ۔
٧۔شراب اورمست کرنے والی ہر سیال چیز۔
٨۔آب جو ۔
مطہّرات
(پاک کرنے والی چیزیں )
ہروہ چیز جس سے نجاست پاک کی جاتی ہے ،اسے (مطہر)کہتے ہیں اورمطہرات درج ذیل ہیں :
١۔پانی،
یہ ہرنجس ہوئی چیز کو پاک کرتا ہے،لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ پانی مطلق ہو۔اسلئے مضاف پانی،جیسے ہندوانہ اورگلاب کے پانی سے نجاست پاک نہیں ہوتی اوران سے وضوو غسل بھی صحیح نہیں ہے ۔(١)
٢۔زمین ،
یہ جوتے کی تہ اورپائوں کے تلوے کو پاک کرتی ہے۔
٣۔آفتاب ،
یہ نجس زمین اور چٹائی وغیرہ کو اپنی گرمی سے خشک کرکے پاک کرتا ہے۔
٤۔استحالہ ،
یعنی نجس چیز اپنی جنس بدل کرایک پاک چیزکی صورت میں ظاہر ہوجائے۔جیسے کتّانمک کی کان میںگرکرنمک میں تبدیل ہو جائے۔
١۔پانی کی دوقسمیں ہیں :کرُاورقلیل۔کرُپانی: بیس مثقال کم ١٢٨من تبریزی ہے ،جوتقریباً٣٨٤کلوگرام ہوتا ہے اوراگر کوئی نجاست اس سے مل جائے ،تونجس نہیں ہوتا ،قلیل پانی: وہ پانی جوکرُسے کم ہو،اگراس سے کوئی نجاست مل جائے تو وہ نجس ہوجاتا ہے اور اس کا پاک ہونا اس طرح ہے کہ جاری یابارش کے پانی سے متصل ہو جائے یااس پرایک کرُکااضافہ کیا جائے ۔
٥۔انتقال ،
یعنی انسان کے بدن کاخون یاخون جہندہ رکھنے والے کسی حیوان کاخون ایک ایسے حیوان کے بدن میں منتقل ہوجائے جوخون جہندہ نہ رکھتا ہو۔جیسے انسان کے بدن کاخون مچھر یامکھی وغیرہ کے بدن میں منتقل ہوجائے ۔
٦۔عین نجاست کازائل ہوجانا،
یعنی حیوان کے ظاہراور انسان کے باطن،مثلاً اگرحیوان کی پشت یاانسان کی ناک کے اندرکاحصہ خون آلود ہوجائے ،تو خون کے زائل ہونے کے بعدپاک ہوجاتا ہے اور اسے پانی سے دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔
٧۔تبعیّت،
تبعیت سے مرادیہ ہے کہ ایک نجس چیز دوسری نجس چیز کے پاک ہونے سے پاک ہوجاتی ہے ،جیسے کافر کے مسلمان ہونے سے اس کافرزندباپ کی تبیعت میں پاک ہو جاتا ہے۔
٨۔کم ہونا،
یعنی انگور کاپانی ابا لنے سے نجس ہو جاتا ہے ،لیکن اگر ابالنے کے ذریعہ دو تہائی پانی بھاپ میں تبدیل ہو کرکم ہو جائے تو باقی پانی پاک ہوجاتا ہے۔
غسل
غسل دوطریقہ سے انجام دیا جاسکتا ہے :(ترتیبی اورارتماسی )
غسل ترتیبی سے مرادیہ ہے کہ سروگردن اور دائیں و بائیں طرف کوترتیب سے دھو یا جائے۔
غسل ارتماسی یہ ہے کہ انسان یکبارگی پورے بدن کو پانی میں ڈبودے۔غسل کی دوقسمیں ہیں:واجب اور مستحب ۔دین اسلام میں مستحب غسل بہت زیادہ ہیںاور واجب غسل سات ہیں :
١۔غسل جنابت
٢۔غسل میت
٣۔غسل مس میت،یعنی اگرانسان مردہ کے بدن کوسرد ہونے کے بعد اور غسل میت دینے سے پہلے مس کرے ،یعنی اپنے بدن کا کوئی حصہ اس کے بدن سے ملائے ،تواسے غسل کرنا چاہئے ۔
٤۔نذریاعہدکیا ہو یاقسم کھائی ہوکہ غسل کرے گا۔
٥۔غسل حیض
٦۔غسل نفاس
٧۔غسل استحاضہ
پہلے چارغسل مردوں اور عورتوں میں مشترک ہیں اورآخری تین غسل صرف عورتوں سے مخصوص ہیں ۔
شخص مجنب پر جو چیزیں حرام ہیں ،وہ حسب ذیل ہیں:
١۔اپنے بدن کے کسی حصہ کوقرآن مجید کے الفاظ،خداکے نام اور پیغمبرۖوائمہ اطہار علیہم السلام کے ناموں سے مس کرنا۔
٢۔مسجد الحرام اورمسجدالنبی ۖمیں داخل ہونا ۔
٣۔دوسری تمام مسا جد میں رُکنااورکوئی چیزان میں رکھنا ۔
٤۔قرآن مجید کے ان چار سوروں میں سے کسی ایک کی تلاوت کرنا کہ جن پر سجدہ واجب ہے۔یعنی سور ہ نجعم ،اقرائ،الم تنزیل اورحم سجدہ ۔
جنابت،حیض،نفاس اوراستحاضہ کے تمام ا حکام کوتوضیح المسائل سے حاصل کرناچاہئے ۔
نوٹ۔ غسل میں بھی وضو کی طرح نیت کرنالازم ہے اورغسل سے پہلے بدن پاک ہوناچاہئے اور بدن تک پانی پہنچنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہونی چاہئے ۔
|