دینی تعلیم
 

فرض شناسی
زندگی کے یہ بے شمار وسائل جو آج کل ہم انسانوں کے اختیار میں ہیں اورہم ان کو حاصل کرنے اور ان سے استفادہ کرنے کے لئے دن رات کوشش کرتے ہیں، ابتداء میں انسان کے اختیار میں نہیں تھے، بلکہ انسان کی سرگرمیوں کے نتیجہ میں تدریجاً وجود میں آئے ہیں اور ان سے استفادہ کیا جارہاہے۔ لیکن بہر صورت ابتدائی بشر سے لیکر آج کے متمدن انسان تک ہرگز کا ر و کوشش کا سلسلہ نہیں رکاہے بلکہ انسان نے اپنی خدا داد فطرت کے ذریعہ اپنی زندگی کے وسائل فراہم کرنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ جس انسان کی وجودی توانائی کی سرگرمی ٹھپ ہو جاتی ہے تواس کو مسلح کرنے کے داخلی و خارجی وسائل، آنکھ ، کان، منہ، ہاتھ، پاؤں، دماغ،دل ، پھیپھڑے اور جگر وغیرہ بے کار ہوجائیں گے،اور وہ مردہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔
اسی لئے انسان نہ صرف مجبورہوکر کام کرتا ہے ،بلکہ اس جہت سے بھی کہ وہ انسان ہے لہذا گوناگوںسرگرمیاں انجام دیتا ہے ،کیونکہ وہ اپنے انسانی شعور سے درک کرتا ہے کہ جس راہ سے بھی ممکن ہو ،وہ اپنی زندگی کی سعادت اورخوشبختی کو حاصل کرے ،اس لئے کاروکوشش میں لگ جاتا ہے اوراپنے مطالبات کی راہ میں قدم رکھتا ہے ،لہذا انسان جس ماحول اور جس روش پر زندگی گزار تا ہے خواہ:دینی ہویا غیردینی ،قانونی ہو یا استبدادی اورشہری ہویاخانہ بدوشی کی، اس میں اپنے لئے کچھ تکالیف وفرائض (وہ کام جن کا زندگی میں انجام دینا لازم جانتا ہے ) کااحساس کرتا ہے کہ ان کوانجام دینے میںانسان کی حقیقی آرزوئوں کو پورا کرسکتا ہے اوراس کے لئے خوشحالی کی اور آسودہ و سعادتمندانہ زندگی فراہم کرسکتا ہے ۔
البتہ ان تکا لیف اور فرائض ،جوسعادتمندی کی تنہا راہ ہے ،کی قدروقیمت خود انسانیت کی قدر و قیمت ہے کہ ہم اس سے زیادہ گراں بہا کسی چیز کا تصور نہیں کرسکتے اوراسے کسی دوسری چیزسے بدل نہیںسکتے ۔
اس بناپر ''فرض شناسی''اور اسکا انجام دینا عمل کے میدان میں اہم ترین مسئلہ ہے کہ اس کا سروکار انسان کی زندگی سے ہے ،کیونکہ اس کی اہمیت خود انسان کی اہمیت ہے ،جو شخص اپنے مسلمہ فرائض کوانجام دینے میں پہلو تہی کرتا ہے ،یاکبھی کوتاہی کرتا ہے ،تو وہ اسی کے مطابق انسانیت کی بلندی سے گرجاتا ہے اور فطری طورپر اپنی پستی اور بے قیمتی کا اعتراف کرتا ہے یا جوبھی خلاف ورزی کرتا ہے ،وہ اپنے معاشرے کے پیکر پر بلکہ حقیقت میں اپنے پیکر پرایک کاری ضرب لگاتاہے ۔
خدائے متعال فرماتاہے :
(والعصر٭انّ الانسٰن لفی خسر٭الا الَّذین آمنوا وعملواالصّٰلحت وتواصوا باِلحق وتواصوابالصّبر)
(عصر٣١)
''قسم ہے عصر کی بیشک انسان خسارہ میں ہے ٠علاوہ ان لوگوں کے جوایمان لائے اورانہوں نے نیک اعمال انجام دئے اور ایک دوسرے کو حق اورصبر کی وصیت ونصیحت کی۔''
نیز فرماتا ہے :
(ظہر الفساد فی البرّوالبحر بماکسبت ایدی النّٰاس ...)
(روم٤١)
''لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی بناپر فساد خشکی اورتری ہر جگہ غالب آگیا ہے ۔''

فریضہ کی تعیین میں مختلف روشوں کا اختلاف
عا لم انسانیت میں فریضہ کو پہچاننے اور اس پرعمل کرنے کی اہمیت بذات خود ایک پائدارو مسلم فریضہ ہے اور ہرگز کوئی ایسا انسان نہیں پایاجاسکتا جواپنی انسانی فطرت سے اس حقیقت کامنکر ہو ۔
جی ہاں ،چونکہ انسانی فرائض انسان کی زندگی کی سعادت سے مکمل رابطہ رکھتے ہیں اوردین انسانی زندگی کے بارے میں غیردینی طریقوںسے نظریاتی اختلاف رکھتا ہے لہذادینی فرائض،دوسرے فرائض کی روشوں سے اختلاف رکھیں گے۔
دین کا عقیدہ ہے کہ انسان کی زندگی ایک لامحدوداورابدی ہے ،جوموت سے ختم نہیںہوتی اور موت کے بعداس ابدی زندگی کاسرمایہ وہی صحیح عقائد ،پسندیدہ اخلاق اوراعمال صالحہ ہیں جنھیں انسان نے دنیا میں حاصل کیا ہے۔
اس لحاظ سے دین نے جو فرائض اور تکالیف فرداورمعاشرہ کے لئے مرتب کئے ہیں ،ان میں اس ابدی دنیاکی زندگی کو بھی مدنظر رکھا ہے ۔
دین اپنے قوانین کوخداشناسی اورخداکی عبادت وبندگی کی روشنی میں مقّرر کرتا ہے جس کاواضح اثرموت کے بعد قیامت کے دن ظاہر ہو گا ۔
غیر دینی طریقے (جوبھی ہوں)صرف اس دنیا کی چند روزہ زندگی کو مدنظر رکھتے ہیں اور انسان کے لئے کچھ فرائض وضع کرتے ہیں تا کہ ان کے ذریعہ مادی زندگی اور جسمانی قوای جو تمام حیوانوں میں مشترک ہیںسے بہتر استفادہ کریں۔حقیقت میں یہ طریقے ایک حیوانی زندگی کو انسان کے لئے مرتب کرتے ہیں کہ جس کی منطق کا سرچشمہ چرندوں اور درندوں کے جذبات ہوتے ہیں اور انسان کی حقیقت پسندی اور اس کی معنویات سے بھری ابدی زندگی کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔
یہی وجہ ہے کہ انسانیت کے بلند اخلاق (جیسا کہ قطعی تجربہ بات سے ثابت ہے) غیر دینی معاشروں سے رفتہ رفتہ ختم ہورہے ہیں اور روز بروز ان کا اخلاقی انحطاط و اضح و آشکارتر ہوتاجارہاہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں: دین کی بنیاد ، تقلید پر ہے، یعنی چون وچرا کے بغیر فرائض اور قوانین کے ایک سلسلہ کو قبول کرنا ، لیکن اجتماعی طریقے وقت کی منطق کے ساتھ قابل مطابقت ہیں۔
جنہوں نے یہ بات کہی ہے، انہوں نے اس نکتہ سے غفلت کی ہے کہ جو قوانین و ضوابط معاشرے میں نافذ ہوتے ہیں، ا ن کو بلا چون و چرا نافذ ہونا چاہئے۔
ہرگز یہ نہ دیکھا گیا ہے اور نہ ہی سناگیا ہے کہ کسی ملک میں لوگ ملک میںلاگو قوانین پر مناظرہ اور بحث و گفتگو کے بعد ان پر عمل کرتے ہوں اور جو بھی ان قوانین کے فلسفہ کو نہ سمجھ سکا وہ اس پر عمل کرنے سے معاف ہو اور ان کو قبول کرنے میں مختار ہو، اس سلسلہ میں دینی اور غیر دینی روش میں کوئی فرق نہیں ہے۔
لیکن کسی ملک کے فطری او راجتماعی حالات کا مطالعہ اور اس کی عام روش میں جستجو کرکے اس ملک کے قوانین کے کلیات کی حکمت کے کچھ جزئیات معلوم کئے جاسکتے ہیں۔
دینی قوانین میں بھی یہی خاصیت پائی جاتی ہے۔ حقیقت پسندانہ راہ سے اور خلقت اور انسان کی فطری ضرورتوںکے بارے میں جستجو کرکے دین کے قوانین کے کلیا ت جو فطری روش ہے کے بارے میں بعض جزئیات کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔
قرآن مجید او ربہت سی روایتیں انسان کو سوچنے ، غورو فکر او رتدبر کی دعوت دیتی ہیں اور بعض احکام میں اجمالی مصلحت کے بارے میں حکم یا اشارہ کیا جاتاہے، چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ا وراہل بیت اطہار علیہم السلام سے احکام کے فلسفہ کے بارے میں بہت سی روایتیں نقل ہوئی ہیں اور در دست ہیں۔

دفاع کی اہمیت
جس طرح ایک انسان اپنی زندگی میں خوشبختی اور سعادت کا شیدائی ہوتا ہے اور ان کو حاصل کرنے میں سرگرم عمل ہو تا ہے، اسی طرح وہ ہرطرف سے بے شمار خطرات سے بھی دوچارہوتاہے۔ ان میں سے بعض خطرے اس کے اصل وجود کو اور بعض اس کی زندگی کی سعادت و خوشبختی کو نشانہ بناتے ہیں، اس لئے انسان ان کو دور کرنے کے لئے مقابلہ اور دفاع کرنے پر مجبور ہے۔
انسان کی خلقت میں بھی ان ہی دو مرحلوں ''جذب و دفع'' کی پیشنگوئی کی گئی ہے، اور اس کے وجود کی عمارت میں مناسب وسائل استعمال ہوئے ہیں۔اسی طرح معاشرہ کے کچھ فوائد ہیں کہ جنھیں حاصل کرناچاہئے اوربعض خطرات سے بھی دوچار ہے کہ بہر حال ان کے مقابلہ میں کھڑے ہوکر اپنی زندگی کے مقدسات کا دفاع کرنا چاہئے۔
جس نے لوگوں کی جانوں کو ختم کرنے ، آزادی کے پرچم کو سرنگوں کرنے یا ان کی آزادی کو ختم کرنے کو اپنا مقصد قرار دیا ہے، وہ معاشرے کا دشمن ہے۔ انسان کا فقر و ایما ن کی کمزوری اور نادانی معاشرے کے دشمن ہیں ، جو اپنے معاشرے ، یعنی زندگی کی سعادت اور انسا نی حقیقت کا پابند ہے، اسے اپنے ان خطرناک دشمنوں کے مقابلہ میں دفاع کرنا چاہئے۔

بخش دین
اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ انسان کے ضمیر میں ، اصل زندگی اور شرافت مندانہ زندگی کی ایک ہی بنیادہے اور جو زندگی شرافت کے ساتھ ہولیکن انسان کی سعادت اس میں نہ ہو، تو وہ حقیقت میں زندگی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی موت ہے جو طبیعی موت سے تلخ و ناگوارہے، جو انسان اپنی شرافت و سعادت کی اہمیت کا قائل ہے، اسے اس پست زندگی سے موت کی طرح فرار کرنا چاہئے۔
انسان جس ما حول میں بھی رہ رہا ہو اور جس روش کی طرف بھی مائل ہو، وہ اپنی خدا داد فطرت سے سمجھتا ہے کہ محترم و مقدس میں موت، بذات خود ایک سعادت ہے، دین کی منطق میں یہ مسئلہ دوسری ہر منطق سے زیادہ واضح اوروہم و گمان کے خرافات سے نہایت دورہے، جو شخص دین کے حکم سے اپنے دینی معاشرے کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان نچھا ور کردے ،وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کسی چیز سے محروم نہیں ہوا ہے بلکہ اس نے اپنی چند روزہ زندگی کو خدا کی راہ میں پیش کرکے ایک نہایت شیرین، گراں بہااور ابدی زندگی کو حاصل کیا ہے اور یقینا اس کی سعادت ناقابل زوال ہے .چنانچہ خدائے متعال اپنے کلام میں فرماتا ہے :
(ولاتحسبن الّذین قتلوا فی سبیل اللّہ امواتاً بل احیائ عند ربّہم یرزقون) (آل عمران ١٦٩)
''اور خبردار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرناوہ زندہ ہیں اوراپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں ''
لیکن غیر دینی طریقے،جوانسان کی زندگی کو اسی دنیا کی چند روزہ زندگی تک محدودجانتے ہیں،ہرگز نہیں کہہ سکتیں کہ انسان مرنے کے بعد بھی زندہ ہوتا ہے یا سعادت وخوشبختی حاصل کرتا ہے ، مگر یہ کہ وہم و گمان اور خرافات سے سمجھ میںآ جائے کہ جو وطن یا قومی مقدسات کی راہ میں قتل ہو جاتا ہے ،اس کا نام جاں نثاروں اورقوم کے فداکاروں کی فہرست میں قرار پاسکتا ہے اور تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جاسکتا ہے اور ہمیشہ کے لئے زندہ وجاوید رہ سکتا ہے ۔
لیکن جو تمجید اور تعظیم اسلام میں خدا کی راہ میں شہید ہونے اور قتل کئے جانے کے سلسلے میں کی گئی ہے ،وہ کسی اورصالح عمل کے لئے نہیں کی گئی ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
''ہرنیکی سے بالاتر ایک نیکی ہے یہاں تک کہ راہ خدامیں شہید ہو جائے ،اس کے بعد کوئی نیکی نہیں ہے ۔''(١)
صدراسلام کے مسلمان پیغمبرخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغفار کی درخواست کرتے تھے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کے نتیجہ میں شہادت کے اعلی درجہ پر فائز ہوتے تھے اور شہادت کے ذریعہ دنیاسے چلے جانیوالوں کے لئے گریہ نہیں کرتے تھے ،کیونکہ وہ زندہ ہیں اورنہیں مرے ہیں ۔

مال کی ز کواة
مال سے انسان کی زندگی میں جو اعتدال پیدا ہوتاہے ،وہ محتاج بیان نہیں ہے ۔اسکی اہمیت کا عالم یہ ہے کہ بہت سے لوگ زندگی مال کوہی جانتے ہیں اور انسان کے لئے مال ودولت کے علاوہ کسی فضیلت وشرافت کے قائل نہیں ہیں ۔اوراپنی تمام سرگرمیوں کو پیسے جمع کرنے اورمال ذخیرہ کرنے میں صرف کرتے ہیں اور نتیجہ میں مال سے یہی دلبستگی اور حرص ان کو بخل کی صفت میں مبتلا کر دیتی ہے کہ جس کی بنا پر وہ دوسروں کو ان کے حق سے محروم کرتے ہیں اور کبھی اس سے بلند ترقدم اٹھاکر پستی اوربخل کے سامنے تسلیم ہو کرخود
..............
١۔میزان الحکمة ج١،ص٤٠٠۔
بھی اس مال سے بہرہ مند ہونے سے محروم ہوجاتے ہیں ،اس طرح نہ خودکھاتے ہیں اورنہ دوسروں کو کھلاتے ہیں اور صرف پیسے جمع کرنے میں لذت محسوس کرتے ہیں ۔
جوافرادبخل کی ناپسندیدہ صفت میں مبتلا ہیں (البتہ کنجوسی میں مبتلا ہونے والے ان لوگوں سے پست ہیں )وہ انسانی فطرت سے گرجاتے ہیں اورزندگی کے بازار میں دیوالیہ ہوتے ہیں ،کیونکہ :
١۔زندگی میں،صرف اپنی سعادت ،خوشبختی اور آسودگی کو چاہتے ہیں اورانفرادی زندگی کے قائل ہوتے ہیں ،جبکہ انسان کی فطرت نے اجتماعی زندگی کو ہمارے لئے زندگی کے عنوان سے پہچنوایا ہے اورانفرادی زندگی جس راہ سے بھی ہو،اس کاانجام ناکامی ہے ۔
٢۔اپنی قدرت کا دوسروں کے سامنے مظاہرہ کرکے محتاجوں اورناداروں کی خا طر و تواضع کو اپنی طرف جذب کرتے ہیں اور باوجودیکہ محتاجوں کی کوئی مدد نہیں کرتے لیکن پھر بھی ان سے ہمیشہ اپنی تعظیم کرانا چاہتے ہیں ،ان کے ساتھ غلاموں کا سلوک کرتے ہیں اوربت پرستی کاجذبہ زندہ رکھتے ہیںجس کے نتیجہ میں معاشرے سے ہرقسم کی شہامت ،شجاعت ،فطرت کی بلندی اورانسانی فخرومباہات ختم ہوجاتے ہیں ۔
٣۔اس کے علاوہ کہ وہ خود پاک جذبات،محبت،مودت،انسان دوستی،خیرخواہی اور انسانی ہمدردی کو پامال کرتے ہیں ،معاشرے میں جرم وخیانت اور ہرقسم کی پستی ورذالت کو ترویج دیتے ہیں،کیونکہ جرم وجفا،جیسے: بدگوئی ،بے حیائی ،چوری ،ڈاکہ زنی اورآدم کشی کا قوی ترین طبیعی عامل محتاجوں کے طبقہ میں موجودفقروفاقہ غیظ و غضب اور کینہ وہ انتقامی جذبہ ہے جومالداروں کے بارے میں ناداروں اوربیچاروں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے ،کہ اس کے بخیل اورکنجوس مال داراس کے باعث ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں بخیل شخص در حقیقت معاشرہ کاسب سے بڑا دشمن ہوتا ہے، بہرحال وہ خدا کے غضب وسخت سزااور لوگوں کی نفرت میں گرفتار ہوگا ۔
قرآن مجید میں بخل اورکنجوسی کی ناپسند صفتوں کی مذمت اورسرزنش میں اور اس کے برعکس جود وسخاوت،اورخدا کی راہ میں انفاق اور ناداروں وبے چاروں کی دستگیری کرنے والوں کی مدح وثناء میں بہت سی آ یتیں نازل ہوئی ہیں ۔
خدائے متعال اپنے کلام پاک میں وعدہ کیاہے کہ ،جومال انفاق کیا جاتا ہے ،اس کے عوض دس اوربعض مواقع میں سترّ بلکہ سات سوسے بیش تر تک اضافہ کرکے انفاق کرنے والے کو واپس بھیجا جاتا ہے۔
تجربہ سے بھی ثابت ہو اہے کہ سخی لوگ جب جوانمردی کے ساتھ حاجتمندوں کی مدد کرتے ہیں اور انسانی معاشرے کی مشکلات کو دورکرتے ہیں توروز بہ روز ان کی دولت او رنعمتوں میں اضافہ ہوتاہے۔

کار گرہ گشا نشود در زمانہ بند
ہزگر کسی ندید در انگشت شانہ بند
اگر لو گ کسی دن مشکلات سے دوچار ہوجائیںتو تمام دل ان کے ساتھ ہوں گے، انہوں نے جو دوسروں کے حق میںمدد کی ہے وہ اجتماعی صورت میں ان کے حق میں لوٹے گی ۔ اور اس کے علاوہ انہوں نے اپنے اچھے کردار سے ایک شریف انسان کے مانند اپنے ضمیر کو آرام بخشاہے، واجب اور مستحب حقوق کے بارے میں ندائے آسمانی کو لبیک کہا ہے اور انسانیت کے پاک جذبات سے مہربانی، شفقت، انسان دوستی اور خیر خواہی سے استفادہ کیا ہے، اس طرح عام محبوبیت اور خالص احترام کے مستحق ہوئے اور آخر کار خدا کی خوشنودی او رابدی سعادت کو کم ترین قیمت پر خرید لیا ۔

علم کی زکواة
''علم او رثقافت'' بے نظیر دولت ہے، جن سے انسان اپنی زندگی میں ہرگز بے نیاز نہیں ہوتاہے اور ایسا انسان نہیں پایا جاسکتا ، جو اپنی انسانی فطرت سے جہل پر علم کی برتری کو درک نہ کرتا ہو یا علماء اور دانشوروں کے احترام میں ان کے حق میں فیصلہ نہ دیتا ہو۔
خدائے متعال اپنے کلام پاک میں عالم و جاہل میں فرق کے بارے میں زندہ و مردہ اور بینا و او ر نابینا کی مثال دیتاہے۔ اوراسلام میں علم و دانش کو جو اہمیت دی گئی ہے، وہ اہمیت کسی اور دین میں نہیں پائی جاتی، یہاں تک کہ پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
''علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے ''(١)
نیز فرماتے ہیں:
''گہوارہ سے قبر تک علم حاصل کرو چاہے دنیا کے اس پار بھی ہو۔ ''(٢)
اسی کے پیش نظر اسلام نے بخل اور کنجوسی کی نہی کی ہے۔ علم کو چھپانے کی مذمت کی ہے، بلکہ دینی علوم کو چھپانا حرام قرار دیا ہے اور عالم کو جاہل کی تربیت کرنے کاذمہ دار قرار دیا ہے۔
..............
١۔ اصول کافی،ج ١، ص ٣٠، ح ١۔
٢۔نہج الفصاحہ ، ص ٦٤، ج ٣٢٤، ٣٢٧۔

معاشرے کے اندرونی دشمنوں سے مقابلہ
چنانچہ ، فطرت کے حکم سے، معاشرے کے بیرونی دشمنوں سے جنگ کرنی چاہئے اور معاشرہ کو نقصان سے بچانا چائے اور ، اسی طرح معاشرے کے اندرونی دشمنوں سے بھی جنگ او رمقابلہ کرنا چاہئے۔ معاشرے کا اندرونی دشمن وہ ہے جو عام روش او رجاری قوانین کی مخالفت کرتا ہے اور اس طر ح معاشرے کی زندگی کے ناطے کو توڑدیتا ہے اور جاری نظام کو درہم و برہم کردیتا ہے، اس لئے نظم و نسق ،امور کی حفاظت اور معاشرے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے کچھ افراد پر مشتمل پلیس و غیرہ کا نظام تشکیل دیا جاتا ہے اورخلاف ورزی کرنے والوں کے لئے مختلف سزائیں مقرر کی جاتی ہیں۔
اسلام نے بھی قواے نافذہ کے علاوہ، معاشرے کے افراد کے لئے مختلف سزائیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکو واجب قرار دیا ہے اور اس طرح مقابلہ کو مزید عوامی اور موثر تر بنادیا ہے۔
اسلام اور معاشرے کی دوسری روشوں کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ دوسری روشیں صرف لوگوں کے افعال و اعمال کی اصلاح کی طرف توجہ کرتی ہیں ، لیکن اسلام لوگوں کے افعال کے علاوہ ان کے اخلاق کی طرف بھی توجہ کرکے دونوں مرحلوں میں فساد کے ساتھ مقابلہ کرتاہے۔
جن اعمال کو اسلام نے گناہ اور معصیت کے طور پر حرام قرار دیا ہے، وہ ایسے اعمال ہیں جن سے معاشرے میں بُرے اثرات اور منحوس نتائج بر آمد ہوتے ہیں،اس توصیف کے پیش نظر ان میں سے بعض اعمال براہ راست مرتکب ہو نے والے ایک فرد یا تمام افراد کو برباد کردیتے ہیں کہ جس کی وجہ سے انسان کے کسی عضو میں زخم کے مانند معاشرے میں رخنہ ڈالتاہے۔ اکثر گناہ جو انسان کی بندگی کی حالت میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں او رالہٰی حقوق کو ضرر پہنچاتے ہیں، ان کی بھی یہی حالت ہے، جیسے نماز نہ پڑھنا اور روزہ نہ رکھنا و غیرہ۔
ان میں سے بعض اعمال اجتماعی زندگی کے لئے بالواسطہ خطرہ بنتے ہیں، معاشرے کے پیکر کو تباہ وبرباد کرکے رکھدیتے ہیں۔ ان کی مثال ان بیماریوں کی سی ہے جو براہ راست انسان کی زندگی سے سروکار رکھتی ہیںاور زندگی کے رشتہ کو توڑ دیتی ہیں جیسے جھوٹ بولنا اور تہمت لگانا اسلام کی نظر میں ماں باپ کے حقوق ، غیبت اور لوگوں پر تجاوز کا بھی یہی حکم ہے۔

اسلام میں گناہان کبیرہ کی عام سزا
مذکورہ بُرے اعمال ، اسلام میں گناہان کبیرہ کہے جاتے ہیں اور خدائے متعال نے اپنے کلام پاک میں واضح طور پر ان گناہوں کے مرتکب لوگوں کے لئے عذاب کا وعدہ دیا ہے۔
اس کے علاوہ ان میں سے بعض کے بارے میں سخت سزائیںمقّرر کی ہیں۔ کلی طور پر ان گناہوںکے مرتکب لوگ (اگر ایک ہی بار بھی انجام دیں) عدل و انصاف کا خاتمہ کرتے ہیں، یعنی معاشرے کے ایک صالح عضو سے اس کی شرافت کو سلب کرتے ہیں۔
جو شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتاہے وہ اپنی عدالت کو کھودیتا ہے اور وہ ان اختیارات سے بہرہ مند نہیں ہو سکتا، جن سے معاشرے کاایک صالح عضو بہرہ مند ہوتا ہے۔ وہ اسلامی حکومت میں کوئی ذمہ داری نہیں سنبھال سکتا ، خلافت کے عہدہ پر فائز نہیں ہوسکتا، امام جماعت نہیں بن سکتا ، اورکسی کے حق میں یامخالفت میں اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہے اور وہ اسی حالت میں رہے گا جب تک کہ توبہ نہ کرلے او ر مسلسل تقوی و پرہیز گاری سے دوبارہ ''عدالت'' کی صفت کا مالک بن جائے۔