تہذیب اخلاق
انسان،اپنے خداداد ضمیر سے پسندیدہ اخلاق کی قدرو قیمت کو سمجھتا ہے اور اسکی انفرادی واجتماعی اہمیت کو جان لیتاہے ۔لہذا انسانی معاشرے میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے کہ جوپسندیدہ اخلاق کی تعر یف اور پسندیدہ اخلاق رکھنے والے شخص کااحترام نہ کرے ۔
جواہمیت انسان پسندیدہ اخلاق کو دیتاہے وہ محتاج تعارف وبیان نہیںہے اوراسلام میں اخلاق کے بارے میں جووسیع احکام بیان ہوئے ہیں وہ سب واضح ہیں ۔خدائے متعال فرماتا ہے :
(ونفس وماسوّٰ ہا٭فَلہَمَہافجورَہاوتقوٰہا٭قد افلح من زکّٰہا٭وقد خاب من دسّٰھٰا) ( شمس٧۔١٠)
''اورنفس کی قسم اور ا س خداکی قسم جسں نے اسے درست کیاہے ٠پھر بدی اور تقویٰ کی ہدایت دی ہے ٠بیشک وہ کامیاب ہوگیاجس نے نفس کوپاکیزہ بنالیا٠اوروہ نامراد ہوگیا جس نے اسے آلودہ کردیاہے ''
حصول علم
پسندیدہ معنوی صفات میں سے ایک علم ہے اورعالم کی جاہل پر فضیلت وبرتری اظہر من الشمس ہے ۔
جو چیز انسان کودوسرے حیوانات سے جدا کرتی ہے ،بیشک وہ عقل کی طاقت اور علم کا زیور ہے۔دوسرے حیوانات میں سے ہر ایک اپنی خاص بنا وٹ کے مطابق ناقابل تغیر فطرت رکھتاہے اور یکساں صورت میں اپنی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور اس کی زندگی میں ہرگزکسی قسم کی ترقی اور بلندی کی کوئی امید نہیں پائی جاتی .وہ اپنے اور دوسروں کے لئے کوئی نیا باب نہیں کھول سکتے ہیں یہ صرف انسان ہے جوعقل کی طاقت سے،ہرروز اپنے گزشتہ معلومات میں جدید معلومات کااضافہ کرتاہے اور طبیعت اورمادرای طبیعت کے قوانین کوکشف کرکے ہرزمانہ میں اپنی مادی اور معنوی زندگی کو تازگی اوررونق بخشتا ہے،اپنے ماضی کے ادوار پرنظرڈال کراپنے اوردوسروں کے مستقبل کی بنیاد ڈالتا ہے ۔
اسلام نے علم حاصل کرنے کے سلسلہ میں اس قدرتاکید کی ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
''علم حاصل کرناہرمسلمان پر واجب ہے ''(١)
''علم حاصل کرو،اگرچہ چین میں بھی ہو''(٢)
..............
١۔اصول کافی ،ج١،ص٣٠۔
٢۔نہج الفصاحہ،ح٣٢٤،ص٦٣۔
''گہوارہ سے قبر تک علم حاصل کر نیکی کو شش کرو''(١)
اسلام،خلقت کے اسرار کوجاننے اورآسمانوں،زمین ،انسان کی فطرت،تاریخ وملل اور اپنے اسلاف کے آثار(فلسفہ ،علوم ریاضی وطبیعی وغیرہ)کے بارے میں غور وخوض کرنے کی بہت تاکید کرتا ہے اور اسی طرح اخلاقی اورشرعی مسائل (اسلامی اخلاق و قوانین )اور صنائع کے اقسام ۔جو انسان کی زندگی کو منظّم کرتے ہیں۔کو سیکھنے کی اسلام بہت ترغیب دیتااور تاکید کرتا ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں علم کی اہمیت اس قدر ہے کہ جنگ بدر میں جب کفار کی ایک جماعت مسلمانوں کے ہاتھوں اسیرہوگئی، توآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ اسیروں میں سے ہر فرد زیادہ ر قومات ادا کرکے آزاد ہوسکتاہے ،لیکن اسیروں میں جو افراد تعلیم یافتہ تھے وہ یہ رقومات ادا کرنے سے اس شرط پر متثنیٰ قرار دیئے گئے کہ ان میں سے ہر ایک دس جوان مسلمانوں کو لکھناپڑھنا سکھائے ۔
اسلام کی نظرمیں طالب علم کی اہمیت
ہر مقصد تک پہنچنے کے لئے سعی وکوشش کی اہمیت خوداس مقصدکی اہمیت کے برابر ہوتی ہے اور چونکہ ہرانسان اپنی خداداد فطرت سے عالم بشریت میں علم ودانش کو ہر چیز سے بالا تر جانتا ہے ،لہذا طالب علم کی قدرو قیمت بالا ترین قدرو قیمت ہوگی اس چیز کے پیش نظر کہ اسلام ایسادین ہے کہ جو فطرت کی بنیادوں پر مستحکم واستوار ہے لہذا ا بلاشبہہ طالب علم کی سب سے زیادہ قدروقیمت کا قائل ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
..............
١۔نہج الفصاحہ،ح٣٢٧،ص٦٤۔
''جو علم حاصل کرنے کی راہ میں ہو ،وہ خداکا محبوب ہے ''(١)
ا س کے باوجود کہ جہاد،دین کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے اور اگر پیغمبر ۖیا امام حکم جہاد دیدیں توعام مسلمانوں کا جنگ میں شریک ہونا ضروری ہوجاتا ہے ،لیکن جو لوگ دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ اس حکم سے مستثیٰ اور معاف ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو ہمیشہ علمی مراکزمیں تعلیم حاصل کرنے میں مشغول رہنا چاہئے ۔خدائے متعال فرماتا ہے :
(وما کان المؤمنون لینفروا کآفّةً فلولا نفر من کلّ فرقة منہم طائفة لیتفقَّہوا فی الدّین ولینذروا قو مہم اذا رجعواالیہم لعلّہم یحذرون) (توبہ١٢٢)
''صاحبان ایمان کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ سب کے سب جہاد کے لئے نکل پڑیں تو ہر گروہ میں سے ایک جماعت اس کام کے لئے کیوں نہیں نکلتی ہے کہ دین کا علم حاصل کرے اورپھر جب اپنی قوم کی طرف پلٹ کر آئے تواسے عذاب الہی سے ڈرائے کہ شاید وہ اسطرح ڈرنے لگیں ۔''
معلم اورمربی کی اہمیت
علم اور طالب علم کے بارے میں مذکورہ بیان سے اسلام میں معلم کی بھی اہمیت واضح ہوجا تی ہے ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
''من تعلّمت منہ حر فا صرت لہ عبدا''(٢)
..............
١۔بحارالانوار،(ج١ ص١٧٨،ح٦٠)
٢۔عوالی اللئانی ،ج١،ص٢٩٢،ح١٩٣۔
''جومجھے ایک کلمہ تعلیم دیدے میں خود کواس کا بندہ قراردوں گا''
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
''لوگوں کے تین گروہ ہیں :پہلا:عالم ربانی دوسرا:جواپنی اوردوسروں کی نجات کے لئے علم حاصل کرتا ہے ۔تیسرا:وہ لوگ جو عقل ودانش سے عاری ہوتے ہیں ان لوگوں کی مثال اس مکھی کی سی ہے جو جانوروں کے سروصورت پربیٹھتی ہے اورہواکے چلنے پر ادھر ادھر اڑتی ہے یاجہاں سے بھی بدبو آتی ہے اسکی طرف دوڑتی ہے'' ۔
معلم اور شاگرد کا فریضہ
قرآن مجید،علم ودانش کو انسان کی حقیقی زندگی جانتا ہے ،کیونکہ اگر علم نہ ہوتاتوانسان اورجمادات اورمردوں میں کوئی فرق نہ ہوتا۔
اس بناپر،طالب علم کو چاہئے کہ اپنے معلم کو زندگی کا مرکز تصور کرے تاکہ تدریجاًاپنی حقیقی زندگی کواس سے حاصل کرسکے ،اس لحاظ سے اسے یہ تصورکرناچاہئے کہ اس کے تو سط سے اسے زندگی ملی ہے اس لئے اس کی عزت وتعظیم میں کوتاہی نہ کرے اوراگر تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں اس کی طرف سے اگر سختی بھی دکھائی دے تو اس کی زندگی اورموت کے بعد اس کے احترام میں کوتاہی نہ کرے ۔
اسی طرح معلّم کوبھی اپنے آپ کواپنے شاگرد کی زندگی کا ذمہ دار سمجھنا چاہئے اورجب تک اسے ایک زندہ انسان اور فخرومباہات کے درجہ تک نہ پہنچا دے اس وقت تھکن محسوس نہ کرے اورآرام سے نہ بیٹھے۔
اگرکبھی اس کاشاگرد تعلیم وتربیت حاصل کرنے میں کوتاہی کرے تواستاد کاحوصلہ پست نہیں ہونا چاہئے ،اگر وہ تعلیم وتربیت میں ترقی کا مظاہرہ کرے تواس کی ہمت افزائی کرنی چاہئے،اگرلاپروائی کرے تواس کی حوصلہ افزائی کر کے اس میں شوق پیدا کرنا چاہئے اور شاگرد کے جذ بات کوہرگز اپنے طرزعمل سے مجروح نہ کرے ۔
ماں باپ کے بارے میں انسان کا فریضہ
ماں با پ اپنے فرزندکی پیدائش کا ذریعہ اوراس کے ابتدائی مربی ہیں اس سبب سے دین مقدس اسلام میں سب سے اہم نصیحت وتاکید ماں باپ کی اطاعت اوراحترام کے بارے میں کی گئی ہے ،یہاں تک کہ خدائے متعال توحید کے ذکر کے بعد والدین کے ساتھ نیکی کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے :
(وقضی ربُّک اَلّا تعبدواالّا ایّاہ وبالوالدین احسٰناً...)
(اسرائ٢٣)
''اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنااورماں باپ کے ساتھ اچھا برتائو کرنا ...''
جن روایتوں میں گناہان کبیرہ کو گنوایا گیا ہے ان میں شرک کے بعدوالدین کے ساتھ برے برتائوکو گناہ کبیرہ شمار کیاگیا ہے .خدائے متعال مذکورہ آیہ شریفہ کے ضمن میں بھی فرماتا ہے :
(...اِمّا یبَلغنَّ عندک الکبر احدہما اوکلاہمافلا تُقل لَّہمااُفٍّ ولا تنہرہما و قل لہما قولاً کریماً٭واخفِض لہما جناح الذُّلّ من الَّرحمة...) (اسرائ٢٤٢٣)
''...اور اگرتمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوںبوڑھے ہوجائیں توخبرداران سے اف بھی نہ کہنا اور جھڑکنا بھی نہیں اوران سے ہمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا ، اور ان کے لئے خاکساری کے ساتھ اپنے کندھوں کو جھکادینا۔''
چہ خوش گفت زالی بہ فرزندخویش
چو دیدش پلنگ افکن وپیل تن
گر از عہد خردیت یاد آمدی
کہ بیچارہ بودی درآغو ش من
نہ کردی در این روز بر من جفا
کہ تو شیر مردی و من پیر زن
''کیاخوب کہا ہے ایک بوڑھیا نے اپنے بیٹے سے جب اس کو ایک طاقتورشیر اورہاتھی کے ماننددیکھااگرتجھے وہ اپنابچپن یاد آتاجب کہ تم میری آغوش میں ایک بیچارہ طفل تھے؟توآج تم مجھ پریہ ظلم نہ کرتے کہ تم ایک شیرمرد بن چکے ہو اورمیں ایک بوڑھی عورت ہوں۔''
دین مقدس اسلام میں،ماں باپ کی اطاعت ،واجب کے ترک ہونے یاحرام میں مرتکب ہونے کے علاوہ، واجب ہے،اورتجربہ سے ثابت ہواہے کہ جن لوگوں نے اپنے ماں باپ کو رنج وتکلیف پہنچائی ہے،وہ اپنی زندگی میں خوشبخت اورکامیاب وکامران نہیں ہوئے ہیں ۔
بزر گوں کا احترام
بوڑھوں کا احترام بھی لازم ہے ۔چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :
''بوڑھوں کااحترام اور تعظیم کرنا خدا کی تعظیم اورا حترام کرناہے ''(١)
اپنے رشتہ داروںکے بارے میں انسان کافریضہ
انسان کے ماں باپ کے ذریعہ جورشتہ دارنسبی رابطہ رکھتے ہیں ،وہ طبیعی خاندان کوتشکیل دینے کا سبب بنتے ہیں اورخونی رشتہ اورانسانی خلیوں کے اشتراک کی وجہ سے انسان کو خاندان کاجزوقرار دیتے ہیں ۔اس طبیعی اتحاد اورارتباط کی وجہ سے اسلام نے اپنے پیروئوں کوصلہء رحم کاحکم دیا ہے اورقرآن مجید اور ائمہ دین کی روایتوں میں اس سلسلہ میں بہت ہی تاکید کی گئی ہے ۔خدائے متعال فرماتا ہے:
(...وَاَّتقوااللّٰہ الّذی تسا ئلَون بہ وَالارحام ان اللّہ کان علیکم رقیباً) (نسائ١)
''اور اس خداسے بھی ڈروجس کے ذریعہ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہواورقرا بت داروںکی بے تعلقی سے بھی ۔اللہ سب کے اعمال کا نگراں ہے ۔''
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
''میں اپنی امت کو صلہء رحم کی نصیحت کرتا ہوں اوراگررشتہ داروں کے درمیان ایک سال کی دوری کافاصلہ ہو تو بھی اپنے رشتہ کے پیوندکونہ توڑیں ۔''(٢)
..............
١۔بحارالانوار،ج٧٥،ص١٣٦ح٢۔
٢۔اصول کافی .ج٢،ص١٥١۔
ہمسایوں کے بارے میں انسان کافریضہ
چونکہ ہمسایہ زندگی بسر کر نے کی جگہ پر ایک دوسرے سے نزدیک ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے زیادہ رابطہ رکھتے ہیں اورگویا ایک بڑے خاندان کے حکم میں ہوتے ہیں لہذا ان میں سے کسی ایک کا اچھا اور برا طرزعمل ہمسایوں پر دوسروں کی نسبت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے ۔
جورات کو اپنے گھر میں صبح ہونے تک شور و غل مچا تاہے ،وہ شہر کے آخر میں رہنے والوں کوتکلیف نہیں پہنچاتا ہے ،لیکن اپنے ہمسایہ کے آرام وآسائش میں خلل ڈالتا ہے ۔
جو مالدار اپنے خوب صورت محل میں عیش وعشرت میں زندگی گزار رہا ہے،دور رہنے والے مفلسوں کی نگاہوں سے دور ہے ،لیکن ہر لمحہ اپنے ایک تنگ دست اور غریب ہمسایہ کی جھونپڑی میں اُگے ہوئے ایک پھول کے پودے کو آگ لگا تا ہے ،تو یقینا ایک دن ایسا آئے گا جب وہ اپنے کیفر کردار تک پہنچ جائے گا ۔اس لحاظ سے دین مقدس اسلام میں ہمسایہ کے حالات کی رعایت کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
''جبرئیل امین نے ہمسایہ کے بارے میں اس قدرمجھے نصیحت کی کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ خدائے متعال ہمسایہ کو وارثوں میں قرار دے گا ''(١)
..............
١۔مستدرک الوسائل ،ج٨،ص٤٢٧۔
نیزفرمایا:
''جوشخص اپنے ہمسایہ کو تکلیف پہنچائے گا ،اس تک بہشت کی خوشبونہیں پہنچے گی ۔جو اپنے ہمسایوں کے حق کی رعایت نہیں کرے گا ،وہ ہم میں سے نہیں ہے،اور جو سیر ہوگااور وہ جانتا ہو اس کا ہمسایہ بھوکا ہے اور اسے کچھ نہ دے تو وہ مسلمان نہیںہے ۔''(١)
ماتحتوں اور بیچاروں کے بارے میں انسان کا فریضہ
بیشک معاشرے کی تشکیل لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہوتی ہے اور ایک معاشرے کے افراد کا سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ محتاجوں اور بے چاروں کی دستگیری کریں اور جو لوگ اپنی زندگی کی ضروریات کو پوراکرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں ،کسی نہ کسی طرح ان کی مدد کر کے ان کی مشکلات کو حل کرے ۔
آج تو یہ مسئلہ واضح ہوچکا ہے کہ مالداروں کے مفلس و نادار ا فراد کی طرف توجہ نہ کرنے کی وجہ سے ایسا بڑا خطرہ لاحق ہے کہ ،جو معاشرے کو نابود کر سکتا ہے اورسب سے پہلے مالدار ہی اس خطرے کے شکار ہوں گے۔
اسلام نے اس خطرہ کے پیش نظرچودہ سوسال پہلے ہی حکم دیا ہے ،کہ مالداروں کو اپنی آمدنی کے ایک حصہ کو ہر سال کمزوروں اور حاجتمندوں میں تقسیم کرنا چاہئے اور اگراس سے ان کی ضرورت پوری نہ ہو سکے تو مستحب ہے کہ غریبوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے جتنا ممکن ہوسکے راہ خدا میں انفاق کریں ۔
..............
١۔سفینتہ البحار،ج١،ص١٩٠۔
خدائے متعال فرماتا ہے :
(لن تنالواالبرّ حتّٰی تنفقوا مِمّاتُحِبّون...) (آل عمران ٩٢)
''تم نیکی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں سے راہ خدا میں انفاق نہ کرو''
لوگوں کی خدمت و مدد کے بارے میں نقل کی گئی حدیثیں بے شمار ہیں۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
''خیرالنّاس انفعہم للنّاس''(١)
''لوگوں میں سب سے بہتروہ ہے جوسب سے زیادہ لوگوں کے لئے فائدہ مند ہو۔''
نیز فرماتے ہیں :
''قیامت کے دن خداکے نزدیک اس شخص کا مقام سب سے بلند ہو گا جوخدا کے بندوں کی حاجت روائی کی راہ میں سب سے زیادہ اقدام کرے۔''(٢)
در بلا یار باش یاران را
تا کند فضل ایزدت یاری
بہ ہمہ حال بدروی روزی
تخم نیکی کہ این زمان کاری
..............
١۔نہج الفصاحہ،ح١٥٠٠،ص٣١٥۔
٢۔کنزالعمال ،ج٦ ،ص٥٩٥۔
معاشرے کے بارے میں انسان کا فریضہ
چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کی مدد سے کام کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ایک دوسرے کے کام وکوشش سے استفادہ کرتے ہیں اوراپنی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں ۔ان افراد سے تشکیل پانے والا معاشرہ ایک بڑے انسان کے مانند ہے اور تمام افراد اس بڑے انسان کے اعضاء کے مانند ہیں ۔
انسان کے بدن کاہرعضو، اپنے مخصوص کام کو انجام دیتا ہے اور اپنے کام کے نفع کے علاوہ دوسرے اعضاء کے منافع سے بھی فائدہ اٹھاتا ہے ،یعنی اپنی سر گرمی کی حالت میں اپنے نفع کو دوسرے اعضاء کے منا فع کے ضمن میں حاصل کرتا ہے اوردوسروں کی زندگی کے سائے میں اپنی زندگی کو جاری رکھتا ہے ۔اگر سارے اعضاء خود غرض ہوتے اور دوسروں کے کام نہ آتے،مثلا جہاںپر ہاتھ پائوںاپنے کام میںمشغول ہیں ،آنکھ اپنی نگاہ سے ان کاتعاون نہ کرتی یامنہ غذاکو چبانے اوراس سے لذت حاصل کرنے پر اکتفا کرتا اور معدہ کی ضرورت کوپورا نہ کرتا یعنی کھانے کو نہ نگلتا توانسان بلا فاصلہ مر جاتا اورنتیجہ کے طور پر خود غرض وانحصار طلب اعضاء بھی مر جاتے۔
معاشرہ کے بارے میں معاشرے کے افراد کا فریضہ بھی ایک انسان کے بدن کے اعضاء کے مانند ہے ۔یعنی انسان کواپنا منافع معاشرے کے منافع کے ضمن میں حاصل کرنا چاہئے اور اپنے کام وکوشش سے معاشرے کو فائدہ پہنچانے کا خیال ہونا چاہئے تاکہ اپنی محنتوں سے بہرہ مند ہو سکے اور سبھی کو فائدہ پہنچائے تاکہ خود بھی بہرہ مند ہوسکے ۔تمام لوگوںکے حقوق سے دفاع کرے تاکہ خود اسکے حقوق نابودنہ ہوں ۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہم اپنی خدادادفطرت سے سمجھتے ہیں اوردین مقدس اسلام بھی ۔جوفطرت وخلقت پر استوارہے۔اس کے علاوہ کوئی اور حکم نہیں رکھتا۔
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
''مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اوراجنبیوں کے مقابلہ میں ایک دست،ایک دل اوریک جہت ہیں ''(١)
مزیدفرماتے ہیں :
''المسلم من سلم المسلمون من یدہ ولسانہ''(٢)
''مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرے مسلمان امان میں رہیں ''
مزیدفرماتے ہیں:
''من اصبح ولم یہتم بامورالمسلمین فلیس بمسلم''(٣)
'' جو مسلمانوں کے مسائل کواہمیت نہ دے وہ مسلمان نہیں ہے۔''
اسی وجہ سے،پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ تبوک میں لشکر اسلام کو لے کرروم کی سرحد کی طرف روانہ ہوئے تواس وقت تین افراد نے اس جنگ میں شرکت نہیں کی تھی۔اسلامی لشکر کے جنگ سے واپس آنے پرجب یہ تینوں آدمی ان کے استقبال کے
..............
١۔ نہج الفصاحہ ، ص ٦٢٥، ح ٣٠٨١ و ٣٠٨٢۔
٢۔بحارالانوارج٧٧ص٥٣۔
٣۔ اصول کافی، ج ٢، ص ١٦٣۔
لئے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا،توآنحضرتۖنے اپنے رخ کو موڑ لیااور ان کے سلام کا جواب نہیں دیا اوراسی طرح مسلمانوں نے بھی ان سے اپنا منھ موڑلیا،نتیجہ میں مدینہ منورہ میں کسی نے حتی ان کی عورتوںنے بھی ان سے بات نہیں کی انہوں نے بے بس ہوکرمدینہ کے پہاڑوں میں پناہ لی اور توبہ واستغفار کیا۔چند دنوں کے بعد خدائے متعال نے ان کی توبہ قبول کی پھروہ شہرکے اندرآگئے ۔
|