پیغمبر کی صفات
مذکورہ بیان سے واضح ہواکہ پیغمبر میں حسب ذیل صفات ہونی چاہئیں :
١۔اپنے فریضہ کو انجام دینے میں خطاسے محفوظ اور معصوم ہونا چاہئے اور ہر طرح کی فراموشی اور دوسری ذہنی آفتوں سے بھی محفوظ ہونا چاہئے تاکہ جو چیز اس پر وحی ہوتی ہے اس کو صحیح طورپر حاصل کر کے ،کسی لغزش وغلطی کے بغیر لوگوں تک پہنچا دے ،کیونکہ اگر ایسا نہ کیا تو الہی ہدایت اپنے مقصدتک نہیں پہنچ سکتی اور عام ہدایت کا قانون اپنی کلی حیثیت کو کھو کر انسان پر اثر انداز نہیں ہوسکتاہے۔
٢۔پیغمبر کو اپنے کردار وگفتار میں لغزش اور گناہ سے محفوظ ہونا چاہئے چونکہ گناہ کی صورت میں تبلیغ مو ثّر واقع نہیں ہوتی ،جس کے قول وفعل میں اختلاف ہو ،لوگ اس کے قول کو قابل قدر نہیں جانتے حتی اس کے کردار کو بھی جھوٹ کی دلیل سمجھ کر کہتے ہیں: (اگروہ سچ کہتا تووہ اپنی بات پر عمل کرتا)
ان دو مطالب کو ایک عبارت میں جمع کیا جاسکتا ہے :تبلیغ کے صحیح وموئثّرواقع ہونے کے لئے پیغمبرکا خطا اور معصیت سے معصوم ہونا ضروری ہے ،جیسا کہ قرآن مجید کی دلیل بھی بیان کی گئی ۔(١)
..............
١۔جن٢٨٢٦۔
٣۔پیغمبرکواخلاقی فضائل کا مالک ہونا چاہئے،جیسے:عفت،شجاعت،عدالت وغیرہ کیونکہ یہ سب پسندیدہ صفات شمار ہوتی ہیں اور جو ہر قسم کی معصیت سے محفوظ ہو اور دین کی مکمل طور پر اطاعت کرتا ہو اس کا دامن کبھی اخلاقی ،برائیوں سے داغدار نہیں ہو سکتا ۔
انبیاء ،انسانوں کے درمیان
تاریخ کی رو سے مسلّم ہے کہ لوگوں کے درمیان کچھ پیغمبر تھے جنہوں نے دعوت کے ذریعہ انقلاب برپا کیا ہے ،لیکن پھر بھی ان کی زندگی کے بارے میں تاریخ زیادہ واضح نہیں ہے ۔صرف حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی تاریخ میں کسی طرح کا ابہام نہیں ہے ۔اورقرآن مجید،جو آنحضرتۖکی آسمانی کتاب ہے اور اس میں آپۖکے دین کے عالی مقاصد درج ہیں ،گزشتہ انبیاء کی دعوت کے موضوع کو بھی واضح کرتا ہے اور ان کے مقاصد کو بھی بیان کرتاہے ۔
قرآن مجید بیان کرتا ہے کہ خدائے متعال کی طرف سے بہت سے انبیاء ر لوگوں کی طرف آئے ہیں اور انہوں نے متفقہ طور پر توحید اور دین کی دعوت کی ہے،چنانچہ فرماتاہے :
(وماارسلنا من قبلک من رّسول الّانوحی الیہ انّہ لاالہ الّا انا فاعبدون ) ( انبیائ٢٥)
''اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کی طرف وحی کرتے رہے کہ میرے علاوہ کوئی خدانہیںہے ،لہذا سب لوگ میری ہی عبادت کرو۔''
صاحب شریعت انبیائ
قرآن مجید بیان فرماتا ہے کہ خدا کے سارے نبی آسمانی کتاب کے حامل نہیںتھے اور نہ ہی مستقل شریعت لے کر آئے تھے ۔خدائے متعال فرماتا ہے:
(شرع لکم من الدّین ماوصّی بہ نوحاً والّذی وحینا الیک وما وصّینا بہ ابرھیم و موسٰی وعیسٰی۔۔۔) (شوریٰ ١٣)
''اس نے تمھارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کوکی ہے اور جس کی وحی پیغمبر!تمھاری طرف بھی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراہیم ،موسی اور عیسی کوبھی کی ہے ...''
اس بناپر بڑے انبیاء میں سے پانچ نبی جو صاحب شریعت اور آسمانی کتابوں کے حامل تھے،حسب ذیل ہیں :
١۔حضرت نوح علیہ السلام
٢۔حضرت ابراہیم علیہ السلام
٣۔حضرت موسی (کلیم)علیہ السلام
٤۔حضرت عیسی(مسیح)علیہ السلام
٥۔حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ان انبیاء میں سے ہر ایک کی شریعت اپنے گزشتہ نبی کی شریعت کو مکمل کرنے والی تھی ۔
اولوالعزم پیغمبر اور دوسرے انبیائ
ہم یہ بیان کر چکے کہ جو پیغمبر آسمانی کتاب اور مستقل شریعت لے کر آئے تھے وہ پانچ ہیںلیکن خدا کے رسول صرف یہی پانچ افراد نہیں تھے ،بلکہ ہر امت کا ایک نبی تھا اورخدا کی طرف سے لوگوں کے لئے بہت سے انبیاء بھیجے گئے ہیں ،کہ ان سے میں صرف بیس افراد کا نام قرآن مجید میں موجود ہے ،چنانچہ خدائے متعال فرماتاہے :
(۔۔۔منہم من قصصنا علیک ومنہم من لم نقصص علیک۔۔۔) (غافر٧٨)
''...جن میں سے بعض کا تذکرہ آپ سے کیا ہے اور بعض کاتذکرہ بھی نہیں کیا ہے ''
(ولکلّ امّةٍ رسول۔۔۔) (یونس٤٧)
''اور ہر امت کے لئے ،ایک رسول ہے۔''
(۔۔۔ولکلّ قومٍ ہاد۔۔۔) (رعد٧)
''اور ہر قوم کے لئے ایک ہدایت کر نے والا ہے...''
جی ہاں،اولواالعزم پیغمبروں میں سے ہر ایک کے بعدجتنے بھی پیغمبر آئے ہیں ،انہوں نے انسانوں کو انہی پیغمبروں کی شریعت کی طرف دعوت دی ہے اور اس طرح،بعثت ودعوت کا سلسلہ جاری رہا ،یہاں تک کہ خدائے متعال نے پیغمبراکرم حضرت محمدبن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گزشتہ پیغمبروں کے سلسلہ کو ختم کرنے اورآخری احکام وکامل ترین دینی ضوابط کو پہنچانے کے لئے مبعوث فرمایا اورآپۖکی آسمانی کتاب کوآخری آسمانی کتاب قرار دیا نتیجہ میں،آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دین قیامت تک جاری رہے گااورآپۖکی شر یعت ہمیشہ کے لئے زندہ رہے گی۔
١۔حضرت نوح علیہ السلام
سب سے پہلے پیغمبرجسے خدائے متعال نے شریعت اور آسمانی کتاب کے ساتھ عالم بشریت میں بھیجا،حضرت نوح علیہ السلام تھے۔
حضرت نوح علیہ السلام لوگوں کو توحید،یکتا پرستی کی تر غیب اورشرک وبت پرستی سے پر ہیز کرنے کی دعوت دیتے تھے۔چنانچہ قرآن مجید میں ان کے قصوں سے واضح ہے کہ طبقاتی اختلافات کو ختم کرنے اور ظلم وستم کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے آپۖسخت جہاد ومبارزہ کرتے تھے اوراستدلال کے زریعہ جو اس زمانہ کے لوگو ں کے لئے نیا تھا ،اپنی تعلیمات پہنچاتے تھے ۔
آپۖنے ایک طولانی مدت تک جاہل ،ضدی اور سرکش لوگوں سے دست بگریبان ہونے کے بعدایک چھوٹے گروہ کی ہدایت کی اور خدائے متعال نے ایک طوفان کے ذریعہ کفار کو ہلاک کر کے زمین کو ان کے ناپاک وجود سے پاک فرمایا۔حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے کچھ پیروؤں کے ساتھ نجات پانے کے بعد دنیا میں ایک نئے دینی معاشرہ کی بنیاد ڈالی۔
یہ معزز پیغمبر ،شریعت توحید کے بانی اور خدا کے پہلے کچھ مور ہیں ،کہ جنہوں نے ظلم وستم اور سرکشی کا مقابلہ کیا اور دین حق وحقیقت کی عظیم خدمت کی لہذا خدائے متعال کی طرف سے خاص درودوسلام کے مستحق قرار پائے اور رہتی دنیا تک زندہ وپائندہ رہیں گے:
(سلٰم علی نوحٍ فی العٰلمین) (صافات٧٩)
''ساری خدائی میں نوح پر ہمارا سلام ''
٢۔حضرت ابراہیم علیہ السلام
حضرت نوح علیہ السلام کے بعد ایک طویل عرصہ گزر چکا تھا ۔اور اس عرصہ میں اگر چہ بہت سے انبیاء جیسے حضرت ہود علیہ السلام ،حضرت صالح علیہ السلام اوران کے علاوہ دوسرے انبیاء لوگوںکی خدائے متعال اورحق کی طرف رہنمائی فرماتے رہے ،لیکن پھر بھی دن بدن شر ک وبت پرستی کا بازار گرم ہوتا جارہا تھا ،یہاں تک کہ تمام عالم میں بت پرستی پھیل گئی اورخدائے متعال نے اپنی حکمت سے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام فطری انسان کے ایک کامل نمونہ تھے۔ آپ نے پاک و بے آلائش فطرت سے حقیقت کے لئے جستجو کرکے خالق کائنات کی وحدانیت کو پایا اور اپنی زندگی کے آخری لمحات تک شرک و ظلم سے لڑتے رہے۔
جیسا کہ قرآن مجید سے ثابت ہے اور اہل بیت کی روایتیں بھی دلالت کرتی ہیں،کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بچپن شہر کے شوروغل سے دور ایک غار میں گزرا۔آپ کی ملاقات صرف کبھی کبھی اپنی والدہ سے اس وقت ہوتی تھی جب وہ آپ کے لئے کھانا پانی لے کر آتی تھیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک دن اپنی والدہ کے ساتھ غار سے باہرنکلے اور شہر تشریف لائے ۔اور اپنے چچا آزرکے پاس گئے ،وہ جو چیز بھی دیکھتے تھے وہ ان کے لئے نئی اور حیرت انگیز ہوتی تھی ۔ان کی پاکیزہ فطرت ہزاروں حیرت وتعجب کے عالم میں بڑی بے چینی و بے تابی کے ساتھ ان چیزوں کی خلقت کی طرف متوجہ تھی جن کا وہ مشاہدہ کر تے تھے اور وہ ان کی تخلیق کے اسرارتک پہنچنے کی جستجو میں تھے،جب انہوں نے ان بتوں کو دیکھا کہ جنہیں آزر اور دوسرے لوگوں نے تراشا تھا اوروہ ان کی پرستش کرتے تھے ۔ تو انکی حقیقت کے بارے میں سوال کیا لیکن ان بتوںکے رب ہونے کے بارے میں جو وضاحت کی جاتی تھی وہ اس سے مطمئن نہیں ہوتے تھے۔
جب حضرت ابراہیم نے کچھ لوگوں کو ستارئہ زہرہ ،کچھ لوگوں کو چاند اور کچھ لوگوں کو سورج کی پوجا کرتے ہوئے پایا ،جو کہ ایک مدت کے بعد ڈوب جاتے تھے،تو آپ نے ان کے رب ہونے کو قبول نہ کیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے بعد خدائے واحد کی پرستش اورشرک سے اپنی بیزاری کالوگوں میں بلا خوف اعلان کر دیا اور اب وہ بت پرستی اورشرک سے مقابلہ کرنے کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچتے تھے۔بت پرستوں کے ساتھ انتھک مقابلہ کرتے اور ان کو توحید کی طرف دعوت دیتے تھے۔
آخر کارایک بت خانہ میں داخل ہوئے اوربتوںکا توڑنا ان لوگوں میں سب سے بڑا جرم شمار ہوتا تھاآپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا ۔مقدمہ کی سماعت کے بعد آپ کو آگ میں جلانے کی سزا سنادی گئی،کاروائی مکمل کر نے کے بعد آپ کوآگ میں ڈال دیا گیا ،لیکن خدائے متعال نے آپ کی حفاظت فرمائی اورآپ آگ سے صحیح وسالم باہر نکل آئے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کچھ مدت کے بعد اپنی جائے پیدائش ملک بابل سے سر زمین شام اور فلسطین کی طرف ہجرت کی اور اس علاقہ میں اپنی دعوت کو جاری رکھا ۔
زندگی کے آخری ایام میں خدائے متعال نے آپ کو دوفرزند عطا کئے۔ان میں سے ایک حضرت اسحاق تھے جو اسرائیل کے والداوردوسرے اسماعیل تھے جو مصری عرب کے باپ ہیں ۔
حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کو شیرخواری کے ایام میں ہی خداکے حکم سے ان کی والدہ کے ہمراہ حجاز لے جاکر تہامہ کے پہاڑوں کے بیچ میں ایک بے آب وگیاہ اور باشندوں سے خالی سر زمین میں چھوڑ دیا ،اس طرح صحرانشین عربوں کو توحید کی دعوت دی۔اس کے بعد خانہ کعبہ کی سنگ بنیاد ڈا لی اور اعمال حج انجام دینے کا تشرع فرمایا کہ اسلام کے ظہور اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت تک یہ عمل عربوں میں رائج تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام قرآن مجید کی نص کے مطابق دین فطرت کے حامل تھے۔آپ وہ پہلے شخص ہیںکہ جس نے خدا کے دین کو اسلام اور اس کے پیروئوں کو مسلمین کہا ،اوردنیا میں ادیان توحیدیعنی یہودیت ،نصرانیت اور اسلام آپ پر منتہی ہوتے ہیں، کیونکہ ان تینوں ادیان کے پیشواحضرت موسی کلیم ،حضرت عیسی مسیح اور حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور یہ سب دعوت دینے میںحضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقش قدم پر تھے۔
٣۔حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام
حضرت موسی بن عمران علیہ السلام تیسرے اولوالعزم پیغمبر اور صاحب کتاب وشریعت ہیں۔آپ اسرائیل (یعقوب ) کی اولاد میں سے ہیں ۔
حضرت موسی علیہ السلام کی زندگی شوروغل سے بھری ہوئی تھی ۔آپ کی پیدائش کے وقت بنی اسرائیل مصر میں قبطیوںکے درمیان ذلت واسیری کی زندگی گزار رہے تھے اور فرعون(١) کے حکم سے بچوں کے سر قلم کئے جارہے تھے۔
حضرت موسی علیہ السلام کی ماں کو خواب میں جوحکم دیاگیاتھاا س کے مطابق موسی کولکڑی کے ایک صندوق میں رکھ کر دریائے نیل میںڈال دیا۔پانی نے صندوق کوبہا کر فرعون کے محل کے قریب پہنچادیا ۔فرعون کے حکم سے صندوق کوپانی سے نکالا گیا ، جب صندوق کو کھولا گیا تواس میں ایک خوبصورت بچے کو پایا گیا۔
فرعون نے ملکہ کے اصرار پر بچے کو قتل نہیںکیا ،اور چونکہ وہ لا ولد تھا ،لہذا اسے اپنا بیٹا بنالیا اور دایہ کے حوالہ کیا گیا اتفاق سے وہی اس کی ماں تھی۔
حضرت موسی علیہ السلام ابتدائے جوانی تک فرعون کے دربار میں تھے۔اس کے بعد ایک قتل کے حادثہ کی وجہ سے فرعون سے ڈر کر،مصرسے بھاگ کر مداین چلے گئے اور وہاں پر حضرت شعیب پیغمبرعلیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور حضرت شعیب کی ایک بیٹی سے شادی کی ۔
کئی سال تک حضرت شعیب کی بھیڑبکریوں کو چراتے رہے۔ایک دن انھیں اپنے وطن کی یادآئی۔اپنے اہل و عیال اورسازوسامان کے ساتھ راہی مصرہوئے ۔اس سفر کے دوران جب رات کے وقت طور سینا پہنچے تو خدائے متعال کی طرف سے رسالت کے عہدہ
١۔مصر میں بادشاہ کو (فرعون )کہتے تھے۔
پرفائز ہوئے اورآپ کومامور کیا گیا کہ فرعون کو دین توحید کی دعوت دیں اور بنی اسرائیل کو قبطیوں سے نجات دلائیں اور اپنے بھائی ہارون کو اپنا وزیر قرار دیں ۔
لیکن اپنے فریضہ کو انجام دینے اور پیغام الٰہی کو پہنچانے کے بعد فرعون،جوکہ بت پرست تھااورخود کو خدا کہتا تھا ،نے آ پ کی رسالت اوردعوت کو مسترد کردیا اور بنی اسرائیل کی آزادی کا ضامن نہیں ہوا۔
حضرت موسی علیہ السلام نے سالہا سال تک لوگوں کو توحید کی دعوت دی اور بہت سے معجزے دکھائے لیکن اس کے باوجود فرعون اور اس کی قوم ان کے ساتھ سختی اور تند مزاجی کا مظاہرہ کرتی رہی۔یہاں تک کہ حضرت موسی علیہ السلام خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کے ہمراہ رات کے اندھیرے میں مصر سے کوچ کر کے صحرائے سینا کی طرف چلے گئے۔جب وہ بحراحمر پہنچے تو فرعون کو یہ معلوم ہوگیا اور اس نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کیا ۔
حضرت موسی علیہ السلام نے معجزہ کے ذریعہ سمندر کو شگافتنہ کیا اور اپنی قوم کے ساتھ پانی سے گزرگئے ،لیکن فرعون اور اس کا لشکر غرق ہوگیا۔اس واقعہ کے بعد خدائے متعال نے حضرت موسی علیہ السلام پر توریت نازل فرمائی اور بنی اسرائیل میں کلیمی شریعت کونافذ کیا ۔
٤۔حضرت عیسی مسیح علیہ السلام
حضرت مسیح اولواالعزم اور صاحب کتاب و صاحب شریعت پیغمبروںمیں سے چوتھے پیغمبرہیں۔آپ کی پیدائش غیر معمولی تھی ۔آپ کی والدہ حضرت مریم،ایک مقدس و پارسا دوشیزہ تھیںجو بیت المقدس میں عبادت کرنے میں مشغول تھیں کہ خدا کی طرف سے روح القدس آپ پر نازل ہوئے اورحضرت مسیح کی بشارت دی پھر ان کی آستین میں پھونک مار ی کہ جس سے وہ حاملہ ہو گئیں ۔
حضرت مسیح نے پیدا ہونے کے بعد اپنی ماں پر لوگوں کی طرف سے لگائی جانے والی تہمتوں کا جواب گہوارہ میں دیا اور اپنی والدہ کا دفاع کیا اور اپنی نبوت اور کتاب کے بارے میں لوگوں کو خبر دی۔اس کے بعد جوانی میں لوگوں کو دعوت دینے میں مشغو ل ہوئے اور حضرت موسی کی شریعت میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے اسے زندہ کیا ۔آپ اپنے حواریوں کو اسلام کے مبلّغ کی حیثیت سے مختلف علاقوں میںبھیجتے تھے ۔
ایک مدت کے بعد جب ان کی دعوت پھیل گئی ،تو یہودی(آپ کی قوم)آپ کو قتل کرنے کے در پے ہو گئے ،لیکن خدائے متعال نے آپ کو نجات دی اور یہودیوں نے آپ کی جگہ پر کسی اور کوپکڑ کر سو لی پر چڑھادیا ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ خدائے متعال نے قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام پر نازل ہونے والی کتاب کا نام ''انجیل''بیان کیا ہے ،یہ ''انجیل''ان انجیلوں کے علاوہ ہے، جو آپ کے بعدآپ کی سیرت اور دعوت کے بارے میں لکھی گئی ہیں ۔ان میں سے چارانجیلیں لوقا،مرقس،متی،اور یوحنا کی تالیف رسمی طور پر قبول کی گئی ہیں ۔
|