٢۔نبوت
انسان کوپیغمبر کی ضرورت
خدائے متعال نے اپنی کامل قدرت سے جو کہ ہراعتبار سے بے نیاز ہے کائنات اور کائنات میں گوناگوں مخلو قات کو خلق کیا اور انھیں بیشمار نعمتوں سے نوازا ہے۔
انسان اورتمام دوسری جان دار وغیر جان دار مخلو قا ت کی پرورش پیدائش کے دن سے لیکر کائنات کے آخری دن تک ،خدا ہی کرتا ہے ،اور ان میں سے ہر ایک ،خاص نظم و نسق اور خاص تربیت سے ایک معلوم و معین مقصد کی طرف ہدایت پاتے ہیں اور اسی کی طرف بڑ ھتے ہیں جبکہ تمام لمحات میں وہ اپنی شایان شان عنایتوں سے نوازے جاتے ہیں ۔
اگرہم صرف اپنی زندگی کے بارے میں غور وخوض کریں ،یعنی شیرخوارگی ،بچپن ،جوانی اور بوڑھاپے کے دورپر نظر ڈالیں ،تو خدائے متعال کا وہ کامل لطف و کرم جو ہمارے شامل حال ہے، کے بارے میں ہماراضمیر گواہی دے گا ،اور جب یہ مسئلہ ہمارے لئے واضح ہو جائے گا تو یقینا ہماری عقل فیصلہ دے گی کہ خالق کائنات ،اپنی مخلوق کے لئے سب سے زیادہ مہر بان ہے ۔اسی مہربانی کی وجہ سے ہمیشہ ان کے حالات کے مطابق مصلحت کی رعایت کرتا ہے اور حکمت و مصلحت کے بغیر ہر گز ان کے فساد وتباہی کے کاموں سے راضی نہیں ہوتا ۔انسان،خدا کی ایک ایسی مخلوق ہے ۔کہ جس کی فلاح و بہبود اور سعادت اس میںہے کہ حقیقت پسنداور نیک منش ہو ،یعنی اس میں صحیح عقائد ،پسندیدہ اخلاق اور نیک کردار ہونا چاہئے۔
ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ انسان اپنی خدا داد عقل سے اچھے اور برے کو پہچان سکتا ہے اور چاہ کو را ہ سے تشخیص دے سکتا ہے ،لیکن یہ جاننا چاہئے کہ عقل اکیلے ہی اس گرہ کو کھول کر انسان کی حقیقت پسندی اور نیکی کی طرف رہنمائی نہیں کر سکتی ،کیونکہ انسانی معاشرے میں جو مشاہدہ کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ زیادہ تر برائیاں ان لوگوں سے انجام پارہے ہیں ،جو عقل و شعور اور برے بھلے کی تمیز رکھتے ہیں ،لیکن خود پرستی ،منا فع پر ستی اور ہوس رانی کے نتیجہ میں ان کی عقل اس کے جذبات اور ہواوہوس کی تابع ہو کرگمراہی سے دوچار ہو تی ہے ۔لہذا خدائے متعال کوایک دوسرے راستہ سے یا ایک ایسے وسیلہ سے سعادت کی طرف ہماری راہنمائی کرنا چاہئے جو کبھی ہوا وہوس سے مغلوب نہ ہواور اپنی رہبری میں کبھی اشتباہ و غلطی کاشکارنہ ہو،ایسا راستہ صرف نبوت کا ہے۔
انبیاء کی تبلیغ
ہماری عقل جو فیصلہ کرتی ہے اوراس کے مطابق حکم دیتی ہے کہ انسان کے لئے ''نبوت'' کے نام کا ایک راستہ کھلا ہونا چاہئے ۔ یہ چیزعملابھی مورد تاکید قرار پاکر انجام پایا ہے۔ انسانوں میں سے (انبیائ)نامی کا ایک گروہ خدائے متعا ل کی طرف سے منتخب ہوا ہے ۔ جنہوںنے لو گوںکی ہدایت کے لئے اعتقادی کچھ عملی قوانین وضوابط پیش کئے اور ان کو صحیح راستے پر چلنے کی دعوت دی ہے
ان پیغمبروں نے اپنے دعوی کے صحیح ہونے اوراپنے دین کے سچے ہونے کومعقول طریقوں سے لوگوں کے لئے ثابت کیا ،اور اپنے تربیتی مکتب میں کچھ شائستہ افراد کی پرورش کی ۔
عقل معاش، جسے ہم عقل علمی بھی کہتے ہیں (وہ شعورجس سے ہم اپنی زندگی کو چلاتے ہیں)ہمیںیہ اجازت دیتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے فائدے کے لئے ہر قابل استفادہ چیز سے استفادہ کریں ،جیسے:فضا،ہوا،درختوں،ان کے پھل،پتوںاور لکڑیوں حیوانات،ان کے گوشت،دودھ ،اون اورکھال سے استفادہ کریں ۔اسی طرح ہم اپنی بے شمار ضرورتوں کے پیش نظر اپنے ہم نوع انسانوں کی سر گرمیوں سے بھی اپنے نفع میں استفادہ کرتے ہیں ۔
ان چیزوں کے مصرف اور استفادہ کا حکم ہمیں ہماری عقل و شعورنے دیا ہے اور اسی نے ان کے جائز ہونے کی تصدیق کی ہے ،اس لئے ہے کہ اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ بھوک کے وقت تم کیوں کھانا کھاتے ہو ؟ پیاس کے وقت کیوں پانی پیتے ہو؟یا ہوا میں کیوں سانس لیتے ہو؟تو اس کے یہ سوالات مضحکہ خیز ہوں گے۔
لیکن جب ہم اپنے ہم نوع انسان کے کام وکوشش سے استفادہ کرنے کے لئے ان سے پہلی بار رابطہ بر قرار کرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ وہ بھی ہماری طرح ہیں جس طرح ہم ان کی سر گرمیوں کے نتیجہ سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں ،اسی طرح وہ بھی ہماری سر گرمیوں کے نتیجہ سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں ۔کیونکہ ہم اپنی سر گرمیوں کے نتیجہ کو انھیں مفت میں دینے کے لئے تیارنہیں ہیںلہذا ان کے پاس بھی جو کچھ ہے وہ اسے مفت میں دینے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ ہم اجتماعی طور پر ایک دوسرے کا تعاون کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اپنے ہم نوع انسان کی زندگی کی ضرورتوںکو پورا کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں تاکہ اس کے مقابلہ میں وہ بھی ہماری مدد کریں ۔
اسی احتیاج وضرورت کے پیش نظر،مختلف انسان آپس میں جمع ہو گئے اور ایک دوسرے کی مدد اور کام سے استفادہ کرتے ہیں ،حقیقت میں مختلف افراد کے کام اور ان کی کوششیں ایک دوسرے پر بٹ جاتی ہیں ،اور اس کے بعدہر ایک اپنی حیثیت اور اجتماعی سر گرمی کے مطابق اس سے استفادہ کرتا ہے ۔
معاشرے میں قوانین و قواعد کی ضرورت
جیسا کہ بیان کیا جاچکا کہ انسان مجبور ہوکر اجتماعی تعاون پرآمادہ ہوتا ہے ورنہ فطری طور پر وہ صرف اپنی زندگی کے نفع کاخواہان ہے ،لہذا جب بھی اسے موقع ملتا ہے وہ دوسروں کے منافع پر تجاوز کرتا ہے جبکہ اس نے اپنے منافع سے کوئی چیزدوسروں کو ا نہیں دی ہے کہ تعادل بر قراررہے ۔اسی لئے ہر معاشرے میں کچھ قوانین ومقررات کا ہونا ضروری ہے تاکہ ان کی رعایت کرنے سے ،انسان کی اجتماعی قدروقیمت محفوظ رہے،اور ان کو تجاوز کر نے سے رو کا جا سکے۔ قوانین وضوابط کو لوگوں کے اتفاق نظر یا ان کی اکثریت کی رائے سے منطور کیا جانا چاہئے تاکہ ہر فرد اپنے انفرادی واجتماعی فرائض سے آگاہ ہو جائے۔
قواعدوضوابط کی تکوینی بنیاد
قوانین وضوابط ایسے فرائض ہیں جو انسانی زندگی کی مصلحتوں کی حفاظت کے لئے وضع ہوئے ہیں ۔اس لحاظ سے ان کی قدروقیمت اجتماعی ہے نہ فطری وتکوینی ۔یعنی فطرت میں حکم فرماقوانین کا خودبخود کوئی اثر نہیں ہے ،بلکہ جب معاشرے کے لوگ انھیں جاری کر تے ہیں تو یہ جاری ہوتے ہیں ورنہ یہ ایک بے اثر افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے۔
اس کے باو جود یہ قوانین وضوابط ،فطرت وتکوین سے بے ربط بھی نہیںہیں،بلکہ ان میں تکوین کی ا صل موجود ہے ۔ فطرت اورانسان کی فطری ضرورت ان کاسرچشمہ ہے .یعنی خدائے متعال نے انسان کی خلقت کچھ اس طرح کی ہے کہ خواہ نخواہ اجتماعی افکار کے ایک سلسلہ کو وجودمیں لاکر انھیں قابل استفادہ قرار دیتا ہے اور اپنی تکوینی زندگی کو ان پر تطبیق کرتا ہے اور اپنے وجودی مقاصد تک پہنچتا ہے۔
زندگی کے قوانین کی طرف تکو ینی ہدایت
ہم جانتے ہیں کہ خدائے متعال اپنی عنایت کاملہ اور بے پناہ محبت کی بدولت اپنی ہر مخلوق کواس کے وجودی مقصد تک پہنچاتا ہے اور انسان بھی اس قانون سے مستثنی نہیں ہے ،پس خدائے متعال کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے لئے کچھ ایسے قوانین وضوابط وضع کر ے جو اس کی زندگی کی راہ ورسم کو تشکیل دے اور ان پر عمل کے ذریعہ ا نسان کی مصلحتیں اور منافع پورے ہو سکیں اوران کو حاصل کرنے کے لئے صرف عقل کافی نہیں ہے ۔کیونکہ کبھی خودعقل بھی درک کرنے میں خطا کرتی ہے اور اکثر اوقات عقل عادت ،تقلید اور وراثت میں ملی صفات سے متاثر ہوکر ہواوہوس سے مغلوب ہو کر انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے ۔جیسا کہ ہم جان چکے کہ،عقل انسان کو منافع طلبی کے قانون کی طرف رہنمائی کرتی ہے ،اور اگر انسان کبھی دوسروں کے لئے حق کا قائل ہوتا ہے اور عام قانون کی پیروی کرتا ہے،تو وہ بنابر مجبوری اور اپنے شخصی منافع کو حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے ،اسی وجہ سے اکثر لوگ جب قدرت و توانائی کے عروج پر پہنچتے ہیں تو اپنے مقابلہ میں کسی حریف اور مخالف کو کچھ نہیںسمجھتے ،ہر قانون وحکم کی سر کشی کرتے ہیں اور دوسروں کے منافع کو اپنے لئے مخصوص کر اتے ہیں اور ان کے حقوق کو پامال کرتے ہیں ۔
لہذا خدائے متعال کو چاہئے کہ لوگوں کو ان کی زندگی کی راہ و رسم کے بارے میں ایک ایسے طریقہ سے راہنمائی کرے،جو ہرقسم کی خطاولغزش سے محفوظ ہو اور وہ طریقہ (نبوت)ہے،اور وہ یہ ہے کہ خدائے متعال اپنے بعض بندوں کو راہ فکر وعقل کے علاوہ ایک اور راہ (راہ وحی )سے معارف واحکام کے ایک سلسلہ کی تعلیم دے تا کہ ان پر عمل کے ذریعہ لوگوں کی حقیقی سعادت کی طرف رہنمائی کرسکے۔
نتیجہ
مذکورہ بیان سے معلوم ہوا کہ خدائے متعال کو چاہئے کہ اپنے بعض بندوں کو غیبی تعلیم کے قوانین سے آگاہ کر کے بھیجے جو انسانی سعادت کے ضامن ہیں ۔خدا کے پیغام لانے والے انسان کو پیغمبر یا خدا کارسول کہتے ہیں ،اور خدا کی طرف سے لائے گئے پیغامات کے مجموعہ کو''دین ''کہتے ہیں ۔
یہ بھی معلوم ہواکہ خداکی طرف سے بھیجے گئے دینی معارف اور الٰہی قوانین کوصحیح طور پرتبدیلی،اور کمی بیشی کے بغیر لوگوں کے پاس پہنچنا چاہئے ۔یعنی خدا کا پیغمبروحی الہی کو حاصل کرنے میں خطا نہ کرے اوراس کی حفاظت میں بھول چوک اور لغزش سے دو چارنہ ہو اور اس کو لوگوں تک پہنچانے میں غلطی یا خیانت نہ کرے۔جیساکہ ہم نے بیان کیا کہ ضروری معارف اورزندگی کے قوانین کی طرف لوگوں کی ہدایت نظام خلقت کا جزو ہے اور یہ انسان کی تخلیق کا ایک مقصد ہے۔خلقت اپنی راہ کو طے کرنے میں ہر گزخطااور لغزش کو قبول نہیں کرتی ،مثال کے طور پر یہ ممکن نہیں ہے کہ نظام خلقت ،انسان کے تناسل سے ایک پتھر یا پودے کو وجود میں لائے یا گیہوں کے دانہ کو بونے کے بعد ایک حیوان پیدا ہو یا انسان کی آنکھ موجودہ حالت میں معدہ کا کا م انجام دے یا کان دل کا کام انجام دے۔
اس چیز سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے انبیاء کو معصوم ہونا چاہئے ۔یعنی جس کا م کو وہ خود واجب جانتے ہو ں اسے ترک نہ کریں اور جس کام کو وہ خود گناہ جانتے ہوںانہیں انجام نہ دیں ، کیونکہ ہم (انسان)اپنے ضمیر سے جانتے ہیں کہ جو اپنی بات پر عمل نہ کرے، حقیقت میں وہ اس بات کے صحیح اور سچ ہونے کا قائل نہیں ہے ۔اس صورت میں اگر پیغمبر گناہ کا مرتکب ہو جائے ،تو کوئی اس کی بات پر یقین نہیں کرے گااور تبلیغ کا مسئلہ بے اثر ہوگا اور اگر بعد میں توبہ اور اظہارندامت بھی کرتا ہے تو بھی ہمارا دل اس کی طرف سے صاف نہیں ہوگا اور ہر حالت میںتبلیغ کا مقصدفوت پر جائے گا ۔خدائے متعال فرماتا ہے :
(عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ احداً٭الّا من ارتضی من رسول فانّہ یسلک من بین یدیہ ومن خلفہ رصداً٭ لیعلم ان قد ابلغوا رسٰلت ربّہم۔۔.) (جن ٢٨٢٦)
''وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ۔مگر جس رسول کو پسند کر لے تواس کے آگے پیچھے نگہبان فرشتے مقرر کردیتا ہے ،تاکہ وہ دیکھ لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات کو پہنچا دیا ہے ۔''
انسان اور دوسری مخلو قات کی ہدایت میں فرق
توحید کی بحثوں سے واضح ہو تا ہے کہ اشیاء کی تخلیق خدا کی طرف سے ہے ،لہذا ان کی پرورش بھی اسی سے مربوط ہے۔واضح الفاظ میں یہ کہا جائے کہ کائنات کی ہر مخلوق ،اپنی پیدائش کے آغاز سے اپنی بقااور نقائص کو دور کرنے میں سر گرم عمل ہوتی ہے اورا اپنی کمیوں وضرورتوں کو یکے بعد دیگررفع کرتی ہے اور امکان کی حدتک اپنے آپ کو کامل اور بے نیاز کرتی ہے ۔اپنی بقاکے سفر میں ایک منظم حرکت کے تحت اپنے وجود کو جاری رکھتی ہے ،اس سفر کو منظم کرنے والا اور ہر منزل پر اسکا رہبر خدائے متعال ہے۔
اس نظریہ کے مطابق ایک قطعی نتیجہ نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کائنات کی ہر قسم کی مخلوق ایک خاص تکوینی پرو گرام کے تحت باقی ہے اور اس میں اپنی خاص سر گرمی ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ،کائنات کے مظاہر میں سے ہر معیّن گروہ کے لئے ، اپنی بقا کے سفر میں کچھ معیّن فرائض ہیں جو خدائے متعال کی طرف سے انھیں عطا ہوتے ہیں ۔ چنانچہ قرآن مجید اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
(۔۔۔ربّنا الّذی عطی کلّ شی ئٍ خلقہ ثمّ ہدی) (طہ٥٠)
''...ہمارارب وہ ہے جس نے ہرشے کو اس کی مناسب خلقت عطا کی ہے اورپھر ہدایت بھی دی ہے ''
خلقت کے تمام اجزااس کلی حکم میں شامل ہیں اور ان میں سے ہر گز کوئی مستثنیٰ نہیں ہے آسمان کے ستارے اورہمارے پیروں تلے زمین اور ان میں موجود عناصر اور ابتدائی مظاہر کو ظاہر کرنے والی تر کیبیں اورنباتات وحیوانات ،سبھی کی یہی حالت ہے ۔اس عام ہدایت میں انسان کی حالت بھی دوسری مخلوقات کے مانند ہے ، سوائے یہ کہ انسان اور دوسری مخلوقات کے درمیان ایک فرق ہے۔
انسان اور دوسری مخلوقات میں فرق
مثال کے طور پر کرئہ زمین کو لاکھوں سال پہلے خلق کیاگیا ہے ،جو اپنی تمام پوشیدہ توانائیوں کو استعمال میں لاکرا پنے دائرہو حدود میں جب تک مخالف عوامل مانع نہیں ہوتے اس وقت تک سرگرم عمل ہے اوراپنی وضعی وانتقالی حرکت کے نتیجہ میں اپنے وجودی آثار کو ظاہر کرتا ہے اور اس طرح اپنی بقا کی ضمانت حاصل کرتا ہے اور جب تک کوئی اس سے قوی مخالف عامل رکاو ٹ نہ بنے ،اسی سر گرمی کو جاری رکھے گا ،اور اپنے فرائض کو نبھانے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرے گا ۔
بادام کا درخت گٹھلی سے باہر آنے کے وقت سے کامل درخت کی صورت اختیار کرنے تک،تغذیہ ،رشدونمو وغیرہ میں،دوسرے الفاظ میں اپنے تکامل کے سفر کی راہ میں کچھ فرائض انجام دیتا ہے کہ اگر کوئی قوی تر مخالف عامل رکاوٹ نہ بنے تواپنے فرائض کو انجام دینے میں ہرگز کوتاہی نہیں کریگا اورکوئی کوتاہی کر بھی نہیں سکتا۔ہردوسری مخلوق کی بھی یہی حالت ہے ۔لیکن انسان ،اپنی خصوصی سر گرمیوں کو اپنے اختیار سے انجام دیتا ہے اور جو کام انجام دیتا ہے ،اس کا سرچشمہ اس کی فکر اور اس کا فیصلہ ہوتا ہے ۔ممکن ہے انسان کبھی ایک ایسے کام کو انجام دینے سے پہلو تہی کرے ،جو سو فیصدی اس کے نفع میں ہوا ور کوئی مخالف عامل بھی رکاوٹ نہ بنے اور اس کے مقابلہ میں ایک ایسے کام کوجان بوجھ کر انجام دے جس میں سوفیصدی ضرراورنقصان ہو ،مثلا کبھی دوائی کھانے سے پرہیز کرتا ہے اورکبھی جام زہر نوش کرکے خودکشی کرتا ہے ۔
البتہ واضح ہے کہ جو مخلوق مختار پیداکی گئی ہے ہو،عام ہدایت اس کے لئے جبری نہیں ہوگی۔یعنی انبیاء ،خیر وشر اورسعادت و بدبختی کی راہ کو خدائے متعال کی طرف سے لوگوں کو بیان کرتے ہیں اوردین کے پیرئوں کو ثواب کا مژدہ سناکر پروردگار کی رحمت سے امیدوار بناتے ہیں سرکشوں اورباغیوں کو خدا کے عذاب سے ڈراتے ہیں اور وہ ان میں سے ہر ایک کو اختیار کرنے میں آزادومختار ہوں گے ۔
صحیح ہے کہ انسان اپنے خیروشراور نفع ونقصان کو اجمالا عقل سے سمجھتا ہے۔لیکن یہی عقل، اکثراوقات اپنے کو گم کر کے نفسانی خواہشات کی پیروی کرتی ہے ،اور کبھی غلط راستہ پر چلتی ہے لہذاخدا کی ہدایت عقل کے علاو ہ کسی اور راستہ سے بھی انجام پانی چاہئے اور وہ اس راستہ کو خطاولغزش سے با لکل محفوظ ہونا چاہئے ۔یا دوسرے الفاظ میں خدائے متعال اپنے احکام کواجمالی طور پرعقل سے لو گوں کو سمجھاتا،اور ایک دوسر ے راستہ سے اس کی تصدیق فرماتا ۔
یہ راستہ،وہی ''نبوت''کا راستہ ہے کہ خدائے متعال اپنے سعادت بخش احکام کو وحی کے ذریعہ اپنے بندوں میں سے کسی ایک کو سمجھاتا ہے اور اسے مامور کر تا ہے کہ انھیں لوگوں تک پہنچائے اور انھیں امید و خوف کے ذ ریعہ شوق دلاکراور ڈراکر ان احکام پر عمل کرنے کے لئے مجبور کرے۔خدائے متعال اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے:
(انّا وحینا لیک کما وحینا الی نوحٍ و النّبیّن من بعدہ۔۔۔رسلاً مبشّرین ومنذرین لئلا یکون للنّاس علی اللّہ حجّة بعد الرّسل۔۔) (نسائ١٦٥١٦٣)
''ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی نازل کی ہے جس طرح نوح اور ان کے بعدکے انبیاء کی طرف وحی کی تھی ...یہ سارے رسول بشارت دینے والے اورڈرانے والے اس لئے بھیجے گئے تاکہ رسولوںکے آنے کے بعد انسانوں کی حجت خداپر قایم نہ ہونے پائے ''
|