قرآن مجید کی نظر میں خداشناسی کا طریقہ
جس شیر خوار بچہ نے دودھ پینے کے لئے ماں کا پستان پکڑرکھا ہے اور دودھ پی رہا ہے، حقیقت میں وہ دودھ چاہتا ہے ،اس کے علاوہ اگر کسی چیز کو ہاتھ میں اٹھا تا ہے تواسے کھانے کے لئے اپنے منہ تک لے جاتا ہے ،در اصل اس چیز کو اس نے کھانے کے لئے اٹھا یا تھااور جو ں ہی احساس کرتا ہے کہ اس نے غلطی کی ہے اور اٹھائی ہوئی چیز کھانے کی نہیں ہے ،تو اسے پھینک دیتا ہے ۔
اسی تر تیب سے ،انسان جس مقصد کے پیچھے دوڑتا ہے ،اصل میں وہ حقیقت کو چاہتا ہے، اگر اس کے لئے واضح ہو جائے کہ اس نے غلطی کی ہے اور غلط راہ پر چلا ہے ،تو اپنی غلطی اور خطاسے ناراض ہو تا ہے اورغلط مقصد کی راہ کی محنت پر افسوس کرتا ہے اور مختصر یہ کہ انسان ہمیشہ اشتباہ اور خطا سے پر ہیز کرتا ہے اور حتی الامکان حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے ۔
یہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان فطرت اور جبلت کی رو سے حقیقت پسند ہے ، یعنی لامحالہ ہمیشہ حقیقت کی جستجو اور حق کی پیروی کرنے والا ہو تا ہے ،اس نے اس فطری عادت کو کسی سے یاد اور کہیں سے نہیں سیکھا ہے ۔
انسان اگر کبھی سخت رویہ اختیار کر کے حق کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتا ہے ،وہ اس لئے ہے کہ وہ خطا واشتباہ سے دو چار ہوتا ہے اور حق و حقیقت اس کے لئے واضح نہیں ہوتی ہے اگر اس کے لئے حق واضح ہو تاتو غلط راستہ پر نہ چلتا ۔
کبھی انسان نفسانی خواہشات کی پیروی میں ایک قسم کی دماغی بیماری سے دو چار ہوتا ہے اور حق کی شیرینی کا مزہ اس کے منہ میں کڑوا بن جاتا ہے ،اس وقت حق کو جانتے ہوئے بھی اس کی پیروی نہیں کرتا ہے ۔اس کے باوجود کہ وہ حق کی حقانیت اور یہ کہ اسے اس کی پیروی کرنی چاہئے ،کااعتراف کرتا ہے ،لیکن اسکی اطاعت کرنے سے سر کشی کرتا ہے۔ چنانچہ بہت سے ایسے اتفاقات بھی ہو تے ہیں کہ انسان مضر اورنقصان دہ چیزوں کا عادی ہو کر ،اپنی انسانی فطرت ،جوکہ خطرہ اورضررسے محفوظ رکھتی ہے ،کو پامال کر تا ہے ،اور ایک ایسے کام کو انجام دیتا ہے ،جس کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ نقصان دہ ہے۔ (جیسے :سگریٹ ،شراب اور نشہ آور چیزوں کے عادی لوگ )قرآن مجید انسان کو حق پسندی اور حق کی پیروی کر نے کی دعوت دیتا ہے اور اس سلسلہ میں زیادہ تاکید کرتا ہے اور گوناگون بیانات کے ذریعہ انسان سے درخواست کرتا ہے کہ حق پسندی اور حق کی پیروی کی فطرت کو اپنے اندر زندہ رکھے۔
خدائے متعال فرماتا ہے:
(۔۔۔فماذا بعد الحق الا الضلل۔۔۔) (یونس٣٢)
''اورحق کے بعد ضلالت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔''
(والعصر انّ الانسان لفی خسر الّا الذین ء آمنوا وعٰملوا الصّٰلحت وتواصوا بالحق وتواصوا بالصّبر) (عصر ١۔٣)
''قسم ہے عصر کی ،بیشک انسان خسارہ میںہے ۔علاوہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے اور ایک دوسرے کوحق اور صبر کی وصیت ونصیحت کی۔''
واضح ہے کہ خداوند عالم کی یہ ساری تاکید یں اس لئے ہیں کہ اگر انسان اپنی حقیقت پسندی کی فطرت کو زندہ نہ رکھے اور حق و حقیقت کی پیروی کی کوشش نہ کرے تو اپنی سعادت و کامیا بی کا پابند نہ ہو گا اور وہ نفسانی خواہشات اوراپنی مرضی کے مطابق جوچاہے گا کہے گا اور جو چاہے گا کرے گا۔ اور غلط تصورات اور خرافی افکار میں گرفتار ہو گا اور اس وقت ایک چوپایہ کی طرح اپنی راہ ( جو انسانی سر مایہ ہے) سے بھٹک کر ، ہوا و ہوس ،لا ابا لی اور اپنی نادانی کی پھینٹ چڑھ جائیگا ۔خدائے متعال فرماتا ہے :
(ارء یت من اتّخذ الٰہہ ہوٰہ افانت تکون علیہ وکیلا ٭ ام تحسب ان اکثر ہم یسمعون او یعقلون اِنْ ہم الّا کالانعام بل ہم اضلّ سبیلا) (فرقان ٤٣،٤٤)
''کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات ہی کو اپنا خدا بنا لیا ہے،کیاآپ اس کی بھی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہیں ؟کیاآپ کاخیال یہ ہے ان کی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے؟ ہرگز نہیں یہ سب جانوروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ گم کردہ راہ ہیں ۔''
البتہ جب انسان کی حقیقت پسندانہ فطرت زندہ ہو تی ہے اورحق کی پیروی کرنے کی عادت اس میںکارفرما رہتی ہے ،تو یکے بعد دیگرے اس کے لئے حقائق واضح ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہ جس حق وحقیقت کو پالے گا اسے دل سے قبول کرے گا اور سعادت و خوشبختی کی راہ میں روزبروز آگے بڑ ھتا چلاجائے گا ۔
خداوندمتعال تمام صفات کمالیہ کا مالک ہے
کمال کیا ہے؟
ایک گھر کو اس وقت کامل گھر کہہ سکتے ہیں ،جب ایک گھرانے کی ضروریات زندگی کے تمام چیزیں اس میں موجود ہوں ،چنانچہ اس میں مہمان خانہ،باو رچی خانہ ،غسل خانہ وغیرہ کے لئے کافی کمرے موجود ہوں ،جس گھر میں جس قدر یہ وسائل کم ہوں اسی قدر اسے ناقص سمجھا جائے گا ۔
اسی طرح ایک انسان میں اس کی فطری خلقت کے مطابق جن چیزوں کا موجود ہونا ضروری ہے ،اگر وہ سب اس میں پائی جاتی ہوں تو وہ کامل ہے ،اگر ان میں سے کسی ایک کی کمی ہو، یعنی وہ ہاتھ ،پائوں یا آنکھ سے محروم ہو تو اسی ا عتبارسے ناقص سمجھا جائے گا ۔
لہذامذکورہ بیان سے معلوم ہواکہ صفت کمال وہ چیز ہے کہ جو خلقت کی ضرور توںکو پیداکرتی ہے اوراس کے نقص کو دو ر کرتی ہے ،علم کی صفت کے مانند کہ جہل کی تاریکی کو دور کر کے عالم کے لئے معلوم کو واضح کردیتا ہے اور'' قدرت''کہ صاحب قدرت شخص کے مقاصد اور ا غراض کو ممکن بنادیتی ہے اور اسے ان پر مسلط کر دیتی ہے ا یسے ہی دوسرے صفات ہیں جیسے صفت حیات وغیرہ ۔
ہماراضمیر فیصلہ کر تا ہے کہ خالق کائنات ( جو ھستی عالم اور مخلو قات عالم کا سر چشمہ ہے، ہر فرض کی گئی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور ہر نعمت وکمال کو فراہم کرتا ہے) تمام صفات کمال کا مالک ہے ، کیونکہ ایک حقیقت پسندنظر کے مطابق یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی شخص ا یسی نعمت کسی کو بخش دے جوخودنہ ر کھتاہویا جس عیب میں وہ خود مبتلا ہو دوسروں سے اس کو دور کرے۔خدائے متعال اپنے کلام پاک میں اپنے تمام صفات کمال کی ستائش کرتا ہے اور خود کو ہر قسم کے عیب ونقص سے پاک ومنزہ قرار دیتاہے:
(وربّک الغنیّ ذوالرّحمة۔۔۔) (انعام ١٣٣)
''تیرا پروردگار بے نیاز اور مہر بان ہے''
(اللّہ لا الہ الّالہ ہولہ الاسما ء الحسنی ) (طہ ٨)
''وہ اللہ ہے جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے،اس کے لئے بہترین نام ہیں ۔''
وہ زندہ، عالم،د یکھنے والا،سننے والا،قادر،خالق اور بے نیاز ہے ، پس خدائے متعال کو تمام صفات کمال کا مالک اور اس کی ذات اقدس کو ہر صفت نقص سے پاک و منزہ جاننا چاہئے ،کیونکہ اگر اس میں نقص ہو تا تو اسی لحاظ سے نیاز مند ہوتا اور اس اعتبارسے اس سے بالاتر کسی اور خدا کو ہونا چاہئے تھا جو اس کی نیاز مندی کو دور کر سکتا ۔
(سبحانہ وتعالی عمّا یشرکون) (یونس ٥)
''وہ پاک و پاکیزہ ہے اور ان کے شرک سے بلند وبرتر ہے''
توحید اور یکتائی
(لوکان فیہما آلہة الّا اللّہ لفسد تا۔۔۔) (انبیاء ٢٢)
'' یاد رکھو اگر زمین وآسمان میں اللہ کے علاوہ اور خدا بھی ہوتے تو زمین و آسمان دونوں بر باد ہو جاتے۔''
وضاحت
اگر کائنات پر کئی خدائوںکی حکومت ہوتی ،جیسا کہ بت پرست کہتے ہیںکہ کائنات کے ہر شعبہ کاایک الگ خدا ہے ۔ز مین وآسمان اور دریا و جنگل کا الگ الگ خدا ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کائنات کی ہر جگہ پر خدائوں کے درمیان اختلاف کی وجہ سے الگ الگ انتظام بر قرار ہو تا اور اس صورت میں کائنات کا کام لامحالہ تباہی وبر بادی سے دوچار ہوتا ،چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات کے تمام اجزاء آپس میں ھم آہنگ اور مکمل طور پر موافق ہیں اور سب مل کر ایک نظام کو تشکیل دیتے ہیں ،اس بناپر، کہنا چاہئے کہ خالقِ کائنات ایک سے زیادہ نہیں ہے۔
یہاں پر یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ فرض کئے گئے خدا، چونکہ عاقل ہوں گے اور وہ جانتے ہوں گے کہ ان کا اختلاف کائنات کو تباہی وبربادی کی طرف لے جائے گا،لہذا وہ ہر گز آپس میں اختلاف نہیں کریں گے ،کیونکہ اس صورت میں وہ ایک دوسرے کے کام میں مؤثر ہوں گے اور ہر ایک دوسرے کی موافقت اور اجازت کا محتاج ہو گا اور اکیلے ہی کوئی کام انجام نہیں دے سکتا ۔ جب کہ خدائے تعالی کو ا حتیاج سے منزہ وپاک ہونا چاہئے ۔
خدائے متعال کا وجود،قدرت اور علم
اس وسیع وعریض کائنات کے آپس میں ملے ہوئے اجزاء ،اور اس کی عام اورحیرت انگیز گردش، اور کائنات کے گوشہ وکنار میں جاری، آپس میں مرتبط اور آنکھوں کو خیرہ دینے والے جزئی نظام اور نتیجہ کے طور پر مختلف انواع کے مظاہر اپنے خاص مقصد کی طرف، انتہائی نظم وتر تیب کے ساتھ حرکت میں ہیں ،یہ نظم ہر عقلمند انساں کے لئے واضح کر دیتا ہے کہ عالم ھستی اور جو کچھ اس میں ہے اپنے وجود وبقا کے لئے ایک لا فانی وجود سے متصل ہیں ،جس نے اپنی لا محدود قدرت و علم سے کائنات اور کائنات میں مو جود ہر شئے کو خلق کیا ہے اوراپنی ہر مخلوق کو پرورش کے گہوارہ میں قرار دیا ہے اور اپنی خاص عنایتوں سے ان کے مطلوب کمال کی طرف ابھار تا ہے ِیہ وہی ہے جس کی ھستی لافانی ہے اور ہر چیز کو جانتاہے اور اس پر قادر ہے،خدائے متعال فرماتا ہے :
(لہ ملک السمٰوات والارض یحی ویمیت وہو علی کل شیء قدیر٭ہوالاوّل والاٰخر والظّاھر والباطن وہو بکل شی ء علیم) (حدید٣٢)
''آسمان وزمین کا کل اختیار اسی کے پاس ہے اور وہی حیات وموت کا دینے والا ہے اور ہر شے پر اختیار رکھنے والا ہے ۔وہی اول ہے وہی آخر وہی ظاہر ہے وہی باطن اور وہی ہر شے کا جاننے والا ہے۔''
خدا کی قدرت
(۔۔۔وللّہ ملک السمٰوات والارض وما بینہما یخلق ما یشآء واللّہ علی کل شی ء قدیر) ( مائدہ ١٧)
''اور اللہ ہی کے لئے زمین وآسمان اور ان کے درمیان کی کل حکومت ہے۔وہ جیسے بھی چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور ہرشے پر قدرت رکھنے والا ہے ''
وضاحت
جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص موٹر کار خرید نے کی قدرت رکھتا ہے ،تو ہمارا مقصد یہ ہو تا ہے ،کہ جو موٹر کار خرید نے کا محتاج ہے اس کے پاس اس کے خریدنے کی مالی طاقت ہے، اور اگر ہم یہ کہیں کہ فلاں شخص بیس کلو گرام وزنی پتھر اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے ،تو ہمارا مقصد یہ ہو تا ہے کہ اس میں بیس کلو گرام پتھراٹھانے کی طاقت موجود ہے ۔
حقیقت میں،کسی چیز پر توانائی و قدرت ر کھنے کے یہ معنیٰ ہیں کہ اس کے تمام ضروری وسائل اس کے پاس ہیں،اور چونکہ عالم ھستی میں جس وجود کو بھی فرض کیاجائے ،اس کی نیاز مندی اور زندگی کی گردش کی ضرورت خدا کے وجود سے پوری ہوتی ہے ،یہ کہنا چاہئے کہ خدائے متعال ہر چیز کی قدرت و توانائی رکھتا ہے اور اسی کی ذات پاک کائنات کا سر چشمہ ہے۔
خدا کا علم
(َلا یعلم مَن خلق۔۔۔) (ملک١٤)
''کیاپیداکرنے والا نہیں جانتا ہے؟''
وضاحت
چونکہ ہرمخلوق اپنی پیدائش وھستی میں خدائے متعال کی لا محدود ذات کی محتاج ہے،اس لئے اس مخلوق اور خدا کے درمیان پردے اور رکاوٹ کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے یا اس کا خداسے پو شیدہ ہونا تصور نہیں کیا جاسکتا،بلکہ اس کے لئے ہر چیز آشکار ہے اور ہر چیز کے داخل وخارج پر تسلّط اور احاطہ کرتا ہے۔
خداکی رحمت
جب ہم ایک ناتوان محتاج کو دیکھتے ہیں ،تو اپنی توانائی کے مطابق اس کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں ،یاکسی مصیبت زدہ بے چارہ کی مدد کرتے ہیں یاایک نابینا کاہاتھ پکڑ کر اسے اس کی منرل مقصود تک پہنچاتے ہیں ۔ایسے کاموں کو ہم مہر بانی اوررحمت شمار کر کے پسندیدہ اور قابل ستائش جانتے ہیں ۔
جن کاموں کو کارساز اور بے نیازخدا انجام دیتا ہے ،وہ رحمت کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتے، کیونکہ وہ اپنی بے شمار نعمتوں کو بخش کر سبھی کو بہرہ مند کرتا ہے اور ہر بخشش سے۔خود کسی کا نیاز مند ہوئے بغیر۔مخلوقات کی ضرورتوں کے ایک حصہ کو پورا کرتا ہے ،چنانچہ فرماتا ہے:
(۔۔۔و ن تعدوا نعمت اللّہ لا تحصوہا۔۔۔) (ابرا ھیم ٣٤)
''اگرتم اس کی نعمتوں کو شمار کرناچاہوگے تو ہر گزشمار نہیں کرسکتے۔''
(ورحمتی وسعت کلّ شی ئ۔۔۔) (اعراف١٥٦)
''اور میری رحمت نے تمام چیزوں کا احاطہ کیا ہے۔''
تمام صفات کمالیہ
(وربّک الغنیّ ذوالرّ حمة۔۔۔) (انعام٣٤ ١)
''تمہارے پروردگار بے نیاز اور صاحب رحمت ہے''
وضاحت
کائنات میں موجود ہر خوبی اورزیبائی ،جس کمال کی صفت کے بارے میں تصور کریں ،وہ ایک نعمت ہے جسے خدائے متعال نے اپنی مخلو قات کو عطا کیا ہے اور اس کے ذریعہ خلقت کی ضرورتوں میں سے کسی ایک کوپورا کیا ہے ،البتہ اگر وہ خود اس کمال کا مالک نہ ہوتا ،تو اس کمال کو دوسروں کو بخشنے میں عاجز ہوتا اور خود بھی ضرورتوں میں دوسروں کا شریک بن جاتا ،پس خداوند عالم کے تمام صفات کمال خود اسی کے ہیں اور اس نے کوئی کمال کسی دوسرے سے حاصل نہیں کیا ہے اور اس نے کسی کے سامنے دست نیاز دراز نہیں کیا ہے، بلکہ خود تمام صفات کمال ،جیسے:حیات، علم ،قدرت وغیرہ کا مالک ہے اورتمام صفات عیب اورنیاز مندی واحتیاج کے اسباب جیسے:ناتوانی ،نادانی ،موت،گرفتاری وغیرہ سے پاک ومنزہ ہے ۔
|