دینی تعلیم
 


عقائد
١۔توحید
٢۔نبوت
٣۔معاد
٤۔عدل
٥۔امامت

١۔توحید

اثبات صانع
انسان جب حقیقت بینی کی فطرت سے کام لیتا ہے تو عالم ھستی کے ہر گوشہ و کنار پر نظر ڈالنے سے اسے پروردگار عالم او رخالق کائنات کے وجود کی بہت سی دلیلیں نظر آتی ہیں، کیونکہ انسان اپنی حقیقت پسند انہ فطرت سے محسوس کرتاہے کہ مخلوقات میں سے ہر ایک،وجود کی نعمت سے مالامال ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنے وجود میں،قہری طور پر ایک معین راستہ کو طے کررہا ہے اورایک مدت کے بعدوہ اپنی جگہ کو دوسرے کے لئے چھوڑتاہے، اس نے ہر گز اپنے اس وجود کو خودہی اپنے لئے فراہم نہیں کیا ہے او رجس منظم راہ پر گامزن ہے ، اسے خودہی اپنے لئے نہیں بنایا ہے اوراپنے سفر کے راستہ کی ایجاد اور اس کے نظم و نسق میں کسی قسم کی مداخلت نہیں رکھتا، کیونکہ انسان نے، انسانیت اور انسانی خصوصیات کو اپنے لئے خود اختیار نہیں کیا ہے، بلکہ انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور انسانی خصوصیات اسے عطا کی گئی ہیں۔
اسی طرح حقیقت پسندانہ انسانی فطرت اس بات کو قبول نہیں کرتی ہے کہ یہ سب اشیاء خودبخود وجود میں آئی ہوں گی اور کائنات میں موجود نظام یوں ہی کسی حساب و کتاب کے بغیر وجود میں آگئے ہوں گے، جبکہ انسان کا ضمیر اس قسم کے اتفاق کو منظم طور پر ایک دوسرے کے اوپر چنی گئی چند اینٹوں کے بارے میں قبول نہیں کرتا۔یہاں پر انسان کی حقیقت پسندانہ فطرت اعلان کرتی ہے کہ عالم ھستی کی ضرور کوئی پناہ گاہ ہے ،جوھستی کا سر چشمہ ،اور کائنات کو پیدا کرنے اوراسے باقی رکھنے کے لئے اس کی حفاظت کرنے والا ہے ،اور وہ لا محدودوجود اور علم و قدرت کاسر چشمہ،خدائے متعا ل کی ذات ہے ،اور اس کائنات کے وجود کا سر چشمہ خدا کی ذات ہے ،چنانچہ خدائے متعال فرماتا ہے :
(الّذی اعطی کل شی ء خلقہ ثم ہدی) (طہ٥٠)
''(خالق کائنات)وہ ہے جس نے ہرشے کو اس کی مناسب خلقت عطا کی ہے اور پھر ہدایت بھی دی ہے ۔''
اسی فطرت کی وجہ سے،جہاں تک تاریخ بتاتی ہے ،انسانی معاشرہ کی اکثریت ،کائنات کیلئے ایک خدا کے قائل رہے ہیں اور اسلام کے علاوہ دوسرے تمام ادیان جیسے نصرانیت، یہودیت ،مجوسیت اور بدھ مت اس سلسلہ میں ہم عقیدہ ہیں اور جو پروردگار کے وجود کے مخالف ہیں ،ان کے پاس اسکے وجود کے انکار کے سلسلہ میں ہرگز کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ حقیقت میں وہ کہتے ہیں کہ:ہم پروردگار کے وجود کی کوئی دلیل نہیں رکھتے یہ نہیں کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اس کے عدم وجود کی کوئی دلیل ہے ۔
مادہ پرست انسان کہتاہے :''میں نہیں جانتا''یہ نہیں کہتاہے''نہیں ہے''دوسرے الفاظ میں مادہ پرست انسان مذبزب ہے نہ منکر۔
خدائے متعال اپنے کلام میں اس مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :
(وقالوا ما ہی الّا حیاتنا الدّنیا نموت ونحیا وما یہلکنا الّا الدّھر وما لہم بذلک من علم ان ہم الا یظنون)
(جاثیہ٢٤)
''اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف زندگانی دنیا ہے اس میں مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہم کو ہلاک کر دیتا ہے اور انھیں اس بات کاکوئی علم نہیں ہے کہ یہ صرف ان کے خیالات ہیں اور بس۔''

ابتدائے خلقت کی بحث
انسان اپنی خداداد فطرت سے ہر مظہر وحادثہ کا مشاہدہ کرنے کے بعد اس کے وجود میں آنے کی علت تلاش کرتا ہے اور ہرگز احتمال نہیں دیتا ہے کہ کوئی چیز خودبخوداور کسی سبب کے بغیر وجودمیں آئی ہوگی ۔اگرکسی ڈرائیور کی گاڑی خراب ہوجاتی ہے تو وہ گاڑی سے اتر کرگاڑی میںاس جگہ کو دیکھتا ہے جہاں خراب ہونے کا احتمال ہو تاہے تاکہ گاڑی کے رکنے کاسبب معلوم کرسکے اوراسے ہرگز یقین نہیں ہوتا ہے کہ گاڑی خرابی کے بغیر ر ک گئی، اور گاڑی کو پھر چلانے کے لئے اس کے تمام وسائل سے استفادہ کرتا ہے اور ہرگز اس اتفاق کا منتظر نہیں رہتا ہے کہ گاڑی خودبخود چلے گی۔
انسان کو اگر بھوک لگ جائے تو وہ روٹی کی فکر میںپڑتاہے اورجب اسے پیاس لگتی ہے تو پانی تلاش کرتا ہے اور اگر سردی محسوس کرتاہے تولباس اور آگ ڈھونڈتا ہے ۔وہ کبھی کسی اتفاق کے ذریعہ ان ضرورتوں کو دور کرنے کا انتظار نہیں کرتا اور اس خوش فہمی میںآرام سے نہیں بیٹھتا۔
جوشخض کسی عمارت کو تعمیر کرنا چاہتا ہے وہ لامحالہ اس کے سازوسامان ،معماراور مزدور وغیرہ کا انتظام کرتا ہے اوروہ بالکل یہ امید نہیں رکھتا کہ اس کی آرزو خودبخود پوری ہوجائے۔ انسان جب سے ہے اسی وقت زمین پر پہاڑ،جنگل ، وسیع دریا اورسمندر موجود ہیں۔اور اس وقت سے سورج ،چاند اورچمکنے ہوئے ستاروں کو آسمان پرمنظم اورمسلسل متحرک دیکھ رہاہے ۔اس کے باوجوددنیا کے سائنسدان اپنی انتھک علمی کوشش اور تگ دو سے مخلوقات اور حیرت انگیزمظاہر کے وجود میں آنے کے اسباب وعلل کے بارے میں بحث کررہے ہیں اور وہ ہر گز یہ نہیں کہتے کہ جب سے ہم ہیں اسی وقت سے ان کواسی طرح دیکھ رہے ہیں،لہذایہ خودبخودپیدا ہوئے ہیں۔
اسی جستجو کی فطرت اور اسباب وعلل کی بحث و تحقیق نے انسان کو مجبور کردیا ہے کہ وہ عالم ہستی اور اس کے حیرت انگیز نظام کی پیدائش کے بارے میں کھوج کرے کہ کیا یہ وسیع کائنات ،جس کے اجزاایک دوسرے سے مربوط ہیں اور حقیقت میں ایک عظیم مظہر ہے ،خودبخود وجود میں آیا ہے یا اس کا سر چشمہ کہیں اور ہے ؟اور کیا یہ حیرت انگیز نظام ،جو ثابت اور بلا استثناء قوانین کے مطابق کائنات کے گوشہ وکنار میں جاری ہے اور ہرچیز کو اس کے خاص مقصد کی طرف راہنمائی کرتا ہے ،ایک بے انتہا قدرت اور علم کی طرف سے جاری اور اس کا نظام چلایا جاتا ہے،یاکسی حادثہ اور اتفاق کے نتیجہ میں پیدا ہواہے ؟

معرفت خدا اور ملتیں
ہم جانتے ہیں کہ عہد حاضر میں روئے زمین پر دین داروں کی اکثریت ہے،اور وہ خالق کائنات پراعتقاد رکھتے ہیں اور اس کی پرستش کرتے ہیں ۔کل کے انسان کی حالت بھی آج کے انسان کی سی تھی ،جہاں تک تاریخ بتاتی ہے ،وہ یہ کہ انسانوں کی اکثریت دین دار تھی اوروہ کائنات کے لئے ایک خدا کے قائل تھے ۔
اگر چہ خداشناس اور دین دارمعاشروں میں،فکری اختلاف بھی تھااور ہر قوم چشمہ تخلیق کو مخصوص اوصاف سے متصف کرتی تھی ،لیکن اصل مقصد میں وہ اتفاق نظر رکھتے تھے ،حتی قدیم ترین تمدن کے آثار جنھیں انسان نے کشف کیاہے ،ان میں دین اور خداشناسی کی علامتیں پائی جاتی ہیںاور ایسی علامتیں بھی ملی ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ماورائے طبیعت پر بھی اعتقاد وایمان رکھتے تھے ۔حتی جدید بر اعظموںجیسے امریکہ اورآسٹریلیا اور قدیمی براعظموں کے دور دراز جزائرجو آخری صدیوں میںکشف ہوئے ہیں ،ان کے اصل باشندے بھی خدا کے معتقد تھے،اور وہ تصور کائنات کے سلسلہ میں اختلافات نظر کے با وجود کائنات کا ایک سرچشمہ تسلیم کرتے تھے اگر چہ قدیم دنیاسے ان کے رابطہ کی تاریخ معلوم نہ ہو سکی ۔
اس بات پر غور کرنا کہ خدا کا اعتقاد انسانوں کے درمیان ہمیشہ سے موجود تھا ،اس مطلب کو واضح کر تا ہے کہ خدا کو پہچانناانسان کی فطرت ہے اور انسان اپنی خداداد فطرت سے ،کائنات کی تخلیق کے لئے ایک خدا کو ثابت کرتا ہے۔خدائے متعال نے انسان کی اس فطری خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
(ولئن سأ لتہم من خلقہم لیقو لن اللّہ۔۔۔) (زخرف٧٨)
''اگر ان سے پوچھ لوگے کہ انھیں کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یقینا کہیں گے خدانے''
نیز فرماتا ہے:
(و لئن سالتہم من خلق السمٰوات و الارض لیقولن اللّہ۔۔۔)
(لقمان٢٥)
''اگر ان سے پوچھ لوگے کہ انھیں کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یقینا کہیںگے : خدا''

انسان کی زندگی میں تجسس کا اثر
اگر انسان نے خالق کائنات اور اس کے نظام کے پیدا کرنے والے ۔جو کہ اس کی فطرت کا اقتضاء ہے ۔کے بارے میں مثبت جواب دیا ،تو اس نے کائنات اور اس کے حیرت انگیز نظام کی پیدائش کے لافانی مبداء کو ثابت کیا اوراس نے تمام چیزوں کو خدا کے محکم ارادہ سے جو اسکی لامحدود قدرت وعلم پرمبنی ہے ۔اور نتیجہ میں وہ پورے وجود میں ا یک قسم کے اطمینا ن واعتماد کو محسوس کرتا ہے۔اوروہ اپنی زندگی میں رونما ہونے والی ہر قسم کی مشکلات اور سختیوں سے دوچارہونے پرہرگز نا امیدنہیں ہوتا ہے بلکہ ان سے نپٹنے کے لئے ہر قسم کی تدبیر سے کام لیتا ہے ،کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کوئی بھی علت وسبب۔ خواہ وہ کتناقوی ہو۔ اس کی باگ ڈور خدا کے ہاتھ میں ہے اور ہر چیز اس کے زیر فرمان ہے ۔
ایسا شخض کبھی اسباب وعلل کے سامنے سراپا تسلیم نہیں ہوتا اور جب کبھی دنیا کے حالات اس کے مطابق ہوتے ہیں تو غرور و تکبر سے اس کادماغ خراب نہیں ہوتا اوروہ اپنی اورکائنات کی حقیقی حیثیت کوفراموش نہیں کرتا ،کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ظاہری اسباب وعلل خود مختار نہیں ہیں بلکہ ان کا تعلق حکم خدا سے ہے ۔آخر کار ایسا انسان یہ جان لیتا ہے کہ عالم ہستی میں خدائے متعال کے علاوہ کسی اور کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرنا چاہئے اور خدا کے فرمان کے علاوہ کسی بھی فرمان کے سامنے مطلق طورپر تسلیم نہیں ہونا چاہئے ۔لیکن جس نے مذکورہ سوالات کا منفی جواب دیا ،وہ اس امید اور حقیقت پسندی عالی منشی اور فطری شجاعت کا حامل نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ جن ملتوں میں مادیت کا غلبہ ہے وہاں روز بروز خود کشی کے واقعات زیادہ رونما ہوتے ہیں ،اور جن کااعتقاد حسی اسباب و علل تک محدود ہو وہ چھوٹے سے چھوٹے نامناسب حالات کے رونما ہونے پراپنی سعادت و کامیابی سے نا امید ہو کر اپنی زندگی کاخاتمہ کردیتے ہیں،لیکن جو لوگ خدا شناسی کی نعمت سے مالامال ہیں،وہ موت کے دہانے پربھی نا امید نہیں ہوتے ،کیونکہ وہ خدائے قادر وبینا پر ایمان رکھتے ہیں ،اس لئے مطمئن و امید وار ہوتے ہیں ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جبکہ چاروں طرف سے دشمن کے تیر وتلوار کا نشانہ بنے ہوئے تھے ،فرماتے ہیں :
''تنہا جو چیز اس ناگوار مصیبت کو میرے لئے آسان بنا رہی ہے ،وہ یہ ہے کہ میں خدائے متعال کو مستقل اپنے اعمال پر ناظر دیکھتا ہوں ۔''

توحید کے بارے میں قرآن مجید کا اسلوب
اگر انسان پاک طبیعت اور مطمئن دل سے ،کائنات پر نظر ڈالے تو اس کے ہر گوشہ وکنار میں وجود خدا کے آثار ودلائل کا مشاہدہ کرے گا اور اس حقیقت کے ثبوت میں ہر در و دیوار سے گواہی سن لے گا ۔ اس دنیا میں جو چیز بھی انسان کے سامنے آتی ہے وہ خدا کی پیدا کی ہوئی اور مظہر ہے،یا کوئی خاصیت خدانے اس میں پیدا کردی ہے ،یاایک ایسا نظام ہے جو خدا کے حکم سے ہر چیز میں جاری ہے اورانسان بھی انہی میں سے ایک ہے اوراس کاپورا وجود اس حقیقت کی گواہی دیتا ہے ،کیونکہ نہ اس کااپنا وجوداپنے آپ سے ہے اورنہ ہی اس سے ظاہر ہونے والی خاصیتیں اس کے اختیار میں ہیں اورنہ اس نے اپنی زندگی کی اس نظام کو خود بنایا ہے جو اس کی پیدائش سے ابھی تک جاری ہے اوروہ یہ فرض کرسکتا ہے کہ اس کائنات کا نظام اتفاقی طور پر وجود میں آگیا ہے ،اورنہ ہی وہ اپنے وجود اور اپنے وجود کے نظام کو اس ما حول کی طرف نسبت دے سکتا ہے جس میں وہ پیدا ہوا ہے ،کیونکہ مذکورہ وجوداور یہ نظام خود اس ماحول کی پیداوار نہیں ہے اورنہ وہ اتفاقاً وجود میں آیا ہے۔
یہاں پر انسان کو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ عالم ھستی کے لئے ایک سرچشمہ تسلیم کرے جو اشیا کو خلق کرنے والا اور ان کی پر ورش کرنے والا ہے ۔وہی ہر مخلوق کو پیدا کرتا ہے اوراس کے بعد بقا اورایک خاص نظا م کی شاہراہ پراس کے مخصوص کما ل کی طرف ہدایت کرتا ہے ،چونکہ انسان عالم ھستی میں اشیا ء کو آپس میں ایک دوسرے سے مربوط اور ایک خاص نظا م سے منسلک پاتا ہے ،اس لئے مجبورا فیصلہ کرتا ہے کہ خلقت کاسرچشمہ اور اس کے نظام کو چلانے والا ایک ہی ہے۔
انسان پر یہ حقیقت معمولی توجہ سے واضح ہوجاتی ہے، اور اس میں کسی قسم کا ابہام نہیں پایاجاتا۔ سوائے اس کے کہ انسان کبھی زندگی کی کشمکشوں میںایسا گرفتار ہوتاہے کہ اپنی عقل و شعور کی تمام توانائیوں کو حیاتی مبارزوں کی راہ میں استعمال کرتاہے اور اپنے تمام وقت کو زندگی کی دوڑ دھوپ میں صرف کرتاہے، اور اس قسم کی چیزوں کے بارے میں غور کرنے کی تھوڑی سی بھی فرصت نہیں نکال پاتا اور نتیجہ میں اس حقیقت سے غافل رہتاہے، یا یہ کہ طبیعت کے دل فریب مظاہر سے متاثر ہو کر ہوس رانیوں اور عیاشیوں میں سرگرم ہوتاہے۔ چونکہ ان حقائق کی پابندی انسان کو بہت سی مادی لاابالیوں سے روکتی ہے، اس لئے وہ فطری طور پر ان حقائق کی تحقیق کے سلسلہ میں پہلوتہی کرتا ہے اور اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا۔
اس لئے قرآن مجید میں مخلوقات کی پیدائش اور ان میں جاری نظام کے بارے میں گوناگون طریقوں سے بہت زیادہ توجہ دلائے گئی ہے اور برہان و دلائل پیش کئے گئے ہیں ، کیونکہ اکثر لوگ خاص کروہ لوگ جو فطرت کے دل فریب مظاہر کے شیفتہ ہو چکے ہیں اوروہ اپنی زندگی کی سعادت و کامیابی کو عیاشیوں و خوش گزرانیوںمیں پاتے ہیں، ا ور مادیات و محسوسات سے انس و محبت کی وجہ سے فلسفی فکر او رنظریات کی عقلی تحقیق سے محروم ہیں۔
لیکن انسان ہر حالت میں عالم ھستی کا ایک جزو ہے اور کائنات کے دیگر اجزاء اور اس میںجاری جزئی او رکلی نظاموں سے ایک لمحہ بھی بے نیاز نہیں ہے، اور ہر لمحہ اپنے ذہن کو عالم ھستی اور اس میں جاری نظام کی طرف متوجہ کر سکتا ہے ، اور کائنات کے خالق کے وجود کو پاسکتا ہے۔ خدائے متعال اپنے کلام پاک میں فرماتاہے:
(اِنَّ فی السمٰوات و الارض لَایٰتٍ للمومنین، و فی خلقکم و ما یبثُّ من دابّة آیٰت لقوم یوقنون و اختلاف الّیل و النّہار و ما انزل اللّہ من السمآء من رزق فاحیا بہ الارض بعد موتہا و تصریف الریح ء اٰیٰت لقوم یعقلون) (جاثیہ٣۔٥)
''بیشک آسمانوں او رزمینوں میں صاحبان ایمان کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ اور خود تمہاری خلقت میں بھی او رجن جانوروں کو وہ پھیلاتا رہنا ہے ان میں بھی صاحبان یقین کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔اور رات دن کی رفت و آمدہیں او رجو رزق خدانے آسمان سے نازل کیا ہے، جس کے ذریعہ سے مردہ زمینوں کو زندہ بنایاہے اور ہواؤں کے چلنے میں اس قوم کے لئے نشانیاں پائی جاتی ہیں جو عقل رکھنے والی ہے۔''

مثال اورو ضاحت
قرآن مجیدمیںآیتیںہیں،جن میں انسان کو چاند،ستاروں،زمین ،آسمان ،سورج ،پہاڑوں، دریاؤں،نباتات، حیوانات او رخودانسان کی خلقت کے بارے میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے، اور ان میں سے ہر ایک کا جو حیرت انگیز نظام ہے اس کی یاددہانی کرائی گئی ہے۔
حقیقت میںکائنات کا نظام ، جو کائنات کی گوناگون سرگرمیوں کو خلقت کے مقاصد اور کائنات کے اہداف کی طرف بڑھاتاہے، وہ نہایت ہی حیرت انگیز او رتعجب خیز ہے۔ گیہوںکا ایک دانہ یا بادام کی ایک گٹھلی زمین سے اگنے کے بعد ایک پودے یا میوہ داردرخت میں تبدیل ہوجاتاہے۔ اوریہ دانہ یا گٹھلی مٹی میں قرار پانے کے بعد شگافتہ ہو کراس کی سبز نوک باہر نکلتی ہے اور اس میں جاتی ہے، جب یہ پودا اپنے مقصد کی منزل تک پہنچتا ہے تو اس دوران مختلف ا ور عظیم نظام سرگرم ہوتے ہیں کہ جن کی عظمت و وسعت کا مشاہدہ کرکے عقل متحیر ر ہ جاتی ہے۔
ستارے، آسمان اور چمکتا ہواسورج او ردرخشان اور زمیں ہر ایک اپنی وضعی وانتقالی گردشوں او راپنے اندر پوشیدہ توانائیوں سے اور اسی طرح اس دانہ یا گٹھلی میں قرار دی گئی ، پر اسرار طاقتیں ، اور سال کے موسم، اور ان کے حالات، ابرو ہوا اور بارش ،ا ور شب و روز، گندم کے ایک پودے کے اگنے میں مدد کرتے ہیں ،اس نئے پودے کو پرورش کے لئے اپنے گہوارہ میں سلاتے ہیں ،دایااور نرسوں کے مانندایک دوسرے کا تعاون کرتے ہوئے کوشش کرتے ہیںیہاں تک کہ یہ دانہ اپنی بالیدگی ورشد کے آخری مرحلہ تک پہنچ جائے۔
یہی مثال انسان کے ایک نو مولودبچے کی ہے کہ جس کا نظام پیدائش ایک پودے یاکسی دوسر ی چیز کی پیدائش سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے ۔یہ خلقت کے منظم وپیچیدہ نظام کے لاکھوں بلکہ کروڑوں سا ل کی سرگر میوں کا ماحصل ہے ۔
ایک انسان کی روز مرہ کی زندگی کی گردش۔ اپنے وجود سے باہر عالم ھستی سے رکھنے والے رابطہ کے علاوہ ۔اپنے وجود کے اندر ایک حیرت انگیزنظام سے نشاط سے مربوط ہے کہ دور اندیش سائنسدانوں کی فکریں صدیوں سے مسلسل ان کے ظاہر کا مشاہدہ کرنے میں سر گرم عمل رہی ہیں اور ہر روز ان اسرار سے پردہ اٹھا یا جاتا ہے اور ابھی بھی ان کی معلو مات مجہو لات کی نسبت بہت کم ہیں ۔