دین ،قرآن مجید کی نظر میں
(ان الدّین عند اللّہ الاسلام ومااختلف الّذین اوتوا الکتاب الاّٰ من بعد ما جآ ء ہم العلم بغیاً بینہم و من یکفر بایٰات اللّہ فا ن اللّہ سریع الحساب) (آل عمران١٩)
''دین،اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے اور اہل کتاب نے علم آنے کے بعد ہی جھگڑا شروع کیا صرف آپس کی شرارتوں کی بناپر اور جو بھی آیات الہی کا انکار کرے گاتوخدابہت جلد حساب کرنے والا ہے۔''
انبیاء نے جس دین کی طرف لوگوں کودعوت دی ہے وہ خداپرستی اور اس کے احکام کے مقابلہ میں تسلیم ہونا ہے۔ادیان کے علمائ،باوجود اس کے کہ حق کی راہ کو باطل سے تشخیص دیتے تھے ،تعصب ودشمنی کی وجہ سے حق سے منحرف ہوکرہر ایک نے ایک الگ راستہ اختیار کیا ،اور نتیجہ کے طور پر دنیا میں مختلف ادیان وجود میں آگئے ۔حقیقت میں لوگوں کے اس گروہ نے آیات الہی کی نسبت کفر اختیار کیا ہے اور خدائے متعال ان کے اعمال کی جلد ہی سزا دے گا:
(ومن یبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ وہو فی الاخرة من الخٰاسرین) (آل عمران ٨٥)
''اور جو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ قیامت کے دن خسارہ والوں میں ہوگا۔''
( یا ایّہا الذین ء آمنوا ادخلوا فی السّلم کافّةً ولا تتّبعوا خطوات الشیطان انہ لکم عدوّمّبین ) (بقرہ٢٠٨)
''ایمان والو !تم سب مکمل طریقہ سے اسلام میں داخل ہو جائو اور شیطانی اقدامات کا اتباع نہ کرو وہ تمہاراکھلا ہوا دشمن ہے۔''
(واوفوا بعہد اللّہ اذاعٰاہد تّم ولا تنقضوا الایمٰان بعد توکیدہٰا وقد جعلتم اللّہ علیکم کفیلا ان اللّہ یعلم ماتفعلون)
(نحل ٩١)
'' اور جب کوئی عہد کرو تو اللہ کے عہد کو پورا کرو اور اپنی قسموں کوان کے استحکام کے بعد ہر گز مت توڑو جب کہ تم اللہ کو کفیل اور نگران بنا چکے ہو کہ یقینا اللہ تمہارے افعال کو خوب جانتا ہے۔''
اس آیة شریفہ کا مقصد یہ ہے کہ، مسلمان جو بھی عہد و پیمان خدا یا بندوں سے کریں ،انھیں اس پر عمل کرنا چاہئے اور اسے نہ توڑیں ۔
(ادع الی سبیل ربّک بالحکمةوالموعظة الحسنة وجٰادلہم بالّتی ہی احسن ان ربّک ہو اعلم بمن ضلّ عن سبیلہ وہو اعلم بالمہتدین) (نحل ١٢٥)
''آپ اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہتر ین طریقہ ہے کہ آپ کا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بہک گیا ہے اور کون لوگ ہدایت پانے والے ہیں ۔''
مقصد یہ ہے کہ،دین کی تر قی کیلئے مسلمان کوہر ایک کے ساتھ اس کی عقل وفہم کے مطابق اس کے لئے مفید ہو ،اور اگردلیل و برہان اور نصیحت سے کسی کی راہنمائی نہ کر سکا ،تو جد ل (جو کہ مطلب کو ثابت کر نے کا ایک طریقہ ہے )کے ذریعہ اس کو حق کی طرف دعوت دے۔
(واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلّکم ترحمون)
(اعراف٢٠٤)
''اور جب قرآن کی تلا وت کی جائے تو خاموش ہو کر غور سے سنو شاید تم پررحمت نازل ہوجائے ۔''
(یا ایّہا الّذینء امنوا اطیعوا اللّہ و اطیعوا الرّسول و اولی الامرمنکم فان تنٰازعتم فی شی ئٍ فرُدّوہ الی اللّہ و الرّسول ان کنتم تومنون باللّہ و الیوم الاٰخر ذلک خیر واحسن تاویلا) ( نسائ٥٩)
''ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمھیںمیں سے ہیں ،پھر اگر آپس میںکسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگرتم اللہ اورروزآخرت پر ایمان رکھنے والے ہو ،یہی تمہارے حق میں خیر اورانجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے۔''
مقصد یہ ہے کہ اسلامی معاشروں میں ، اختلاف دور کرنے کا وسیلہ ،قرآن مجید اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے،اور ان دودلیلوں کے ذریعہ ہر اختلاف کو حل کرنا چاہئے اوراگر کسی مسلمان نے عقل سے اختلاف دور کیا،تووہ بھی اس لئے ہے کہ قرآن مجید نے عقل کے حکم کو قبول کیا ہے ۔
(فبما رحمةٍ من اللّہ لنت لہم ولو کنت فظّاً غلیظ القلب لانفضّوا من حولک فاعف عنہم واستغفر لہم و شاورہم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللّہ ان اللّہ یحبّ المتوکّلین)
(آل عمران ١٥٩)
''پیغمبر!یہ اللہ کی مہر بانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے ،لہذتم انھیں معاف کردو ۔ان کے لئے استغفار کرو اور ان سے جنگ کے امورمیں مشورہ کرو اور جب ارادہ کرو تو اللہ پر بھروسہ کرو کہ وہ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتاہے''
کیونکہ نیک برتائو ،خیر خواہی اور امور میں مشورہ کرنا ،انس ومحبت کا وسیلہ ہے اورمعاشرہ کے افراد کو اپنے سر پرست سے محبت کرنی چاہئے تاکہ وہ ان کے دلوں میں نفوذ کرسکے۔ خدائے متعال مسلمانوں کے سر پرست کو خوش اخلاقی اور مشورہ کا حکم دیتا ہے،اوریہ حکم اس لئے ہے کہ ممکن ہے لوگ اپنی سوچ میں غلطی کریں لہذا حکم دیتا ہے کہ مشورت کے بعد اپنے فیصلہ میں آزاد ہو اور اس لئے کہ خدا کے ارادہ سے کوئی مخالفت نہیں کر سکتا ہے ،اپنے امور میں خداپر توکل کر کے اپنے کام اسی کے سپرد کرے ۔
معاشرے میں دین کا کردار
دین،ایک بہترین روش ہے،جس سے انسانی معاشرہ کو منظم کیا جا سکتا ہے اوریہ دوسری تمام روشوںسے زیادہ لوگوں کو اجتماعی قوانین کی رعایت کرنے پرابھارتاہے، اور جب ہم ان اسباب وعلل کا مطالعہ کرتے ہیں جو ماضی میں انسانی معاشرے کے وجود میں آنے کاسبب بنے ہیں تو یہ حقیقت مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے ۔
انسان زندگی میں اپنی سعادت و کامرانی کے علاوہ کسی چیز کو نہیں چاہتا ہے اور اس کے لئے کوشش کرتا ہے ۔البتہ یہ سعادت زندگی کے تمام وسائل کی فراہمی کے بغیرممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف انسان اپنے خداداد فہم و شعور سے درک کرتاہے کہ وہ ان تمام ضرورتوںکوتنِ تنہاپورا نہیں کرسکتا کہ جن سے وہ اپنی من پسند سعادت کو حاصل کرسکے۔ واضح ہے کہ زندگی کی تمام ضرورتوں کوپورا کرنا ایک شخص کے بس کی بات نہیں ہے ، خواہ وہ کتناہی طا قتور کیوں نہ ہو ۔اس لحاظ سے انسان اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے ہی جیسے لوگوںسے مدد لینے پر مجبور ہے تا کہ اپنے ضروری اورحیات آفرین وسائل کو حاصل کر سکے،اس صورت میں کہ ہرایک ان وسا یل میںسے کسی ایک کو حاصل کرنے کی ذمہ داری کوقبول کرتاہے اوراسے فراہم کرتا ہے ،اس کے بعدتمام افراد اپنی فعالیتوں کے ماحصل کو ایک جگہ جمع کر تے ہیںاوران میںسے ہر شخص اپنی فعالیت اور حیثیت کے مطابق حصہ لیتا ہے اور اس سے اپنی زندگی کو چلاتا ہے ۔
اس طرح ،انسان اپنی سعادت کو پورا کرنے کے لئے اپنے ہم نوع انسانوں کا تعاون کرتاہے اوراُن سے تعاون لیتاہے ،یعنی مختصر یہ کہ تمام لوگ ایک دوسرے کے لئے کام کرتے ہیں اور اس کا م کے نتیجہ کوجمع کرتے ہیں اورمعاشرے کاہر فرد اپنی حیثیت اور فعالیت کے مطابق اپنا حصہ لے لیتا ہے ۔
معاشرے کو قوانین کی ضرورت
لوگوں کی محنت و مشقت کا ماحصل چونکہ ایک ہوتا ہے اورسب اس سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں اس لئے معاشرے کوکچھ قوانین کی ضرورت ہے تاکہ ان کی رعایت سے بغاوت اور لاقانونیت کو روکاجا سکے ۔واضح ہے کہ اگر معاشرے کانظام چلانے کے لئے کچھ ضوابط وقوانین نہ ہوں تو افراتفری پھیلتی ہے اور انسانی معاشرہ اپنی زندگی کوایک دن بھی جاری نہیں رکھ سکتا ۔
البتہ یہ قوانین معاشرے اقوام ، لوگوںکی فکری سطح اور حکومتی دفاتر کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں ۔ بہر حال کوئی بھی ایسا معاشرہ نہیں پایا جاسکتا جوایسے قوانین سے بے نیاز ہو کہ جن کا اکثر افراداحترام کرتے ہوں۔تاریخ بشریت میں ہرگز ایسا کوئی معاشرہ نہیں پایاگیا جس میں کسی قسم کے مشترک آداب ورسو م و قوانین وضوابط نہیں تھے۔
قوانین کے مقابلہ میں انسان کاآزاد ہونا
چونکہ انسان اپنے تمام کام اپنے اختیار سے انجام دیتاہے ،اس لئے وہ ایک طرح کی آزادی محسوس کرتا ہے اور وہ اس آزادی کو''مطلق ''یعنی بدون قیدوشرط تصور کر کے ،مکمل آزادی چاہتا ہے اور ہر قسم کی پابندی سے بھاگتاہے۔اسی وجہ سے وہ ہرطرح کی رکاوٹ ومحرو میت سے رنجیدہ ہوتا ہے اور مختصر یہ کہ وہ ہر دھمکی سے اپنے اندردباؤ اور خاص ناکامی کا احساس کرتا ہے ،اس لحاظ سے اجتماعی قوانین چاہے کتنے ہی کم کیوں نہ ہوں ،چونکہ وہ ایک حد تک انسان کوپابند کرتے ہیں ،لہذا وہ اسکی حریت پسندی کے خلاف ہوں گے۔
دوسری طرف انسان یہ سوچتا ہے کہ اگر معاشر اور اس کے نظم و نسق کے تحفظ کے لئے وضع کئے گئے قوانین کے مقابلہ میں اپنی آزادی سے کسی حد تک دستبردار نہ ہو جائے تو افراتفری پھیل کر اس کی پوری آزادی و آسائش ختم ہو جائے گی ،چنانچہ اگر وہ کسی کے ہاتھ سے ایک لقمہ لے گا تو دوسرے لوگ اس کے ہاتھ سے پورا کھانا چھین لیں گے اوراگروہ کسی پر ظلم کرے گا تودوسرے بھی اس پر ظلم کریں گے۔
اس لحاظ سے اسے چاہیے کہ اپنی آزادی کے ایک حصہ کو محفوظ رکھے ،اور اس کے دوسرے حصہ سے صرف نظر کرے تو اس طرح وہ اجتماعی قوانین وضوابط کا احترام کرے گا۔
قوانین کی ترقی میں کمزوریاں
مذکورہ مطالب کے پیش نظر،انسان کی آزاد پسند ذہنیت اور اجتماعی ضوابط کے درمیان ایک قسم کا ٹکرائواورتضاد موجود ہے ۔یعنی قوانین ایک قسم کی زنجیر ہے جو اس کے پائوں میں پڑی ہے اور وہ ہمیشہ اس زنجیر کو توڑنا چاہتاہے تاکہ اس پھندے سے رہائی پائے اور یہ اجتماعی قوانین کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے جو اس کی بنیادوں کو متزلزل کر دیتاہے ۔
اسی لئے ہمیشہ قوانین اور عملی فرائض کی خلاف ورزی کرنے والوں کی سزا کے لئے کچھ اور قواعدوضوابط بنائے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو قوانین کی خلاف ورزی کرنے سے روکا جاسکے ،اس سلسلہ میں کبھی لوگوں کو قوانین کی اطاعت کرنے کی تشویق کے لئے انعا مات کی امید دلائی جاتی ہے ۔البتہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ (یعنی سزا کاخوف اور جزا کاشوق) قوانین کے نفاذ میں کسی حدتک مدد کرتا ہے ۔لیکن یہ خلاف ورزی کے راستہ کو سو فیصد بند کر کے قانون کے اثر و تسلط کو مکمل طور پر تحفظ نہیں بخش سکتا، کیونکہ تعزیراتی قوانیں بھی دوسرے کارآمد قوانین کے محتاج ہونے کی وجہ سے خلاف ورزی سے محفوظ نہیں ہیں اور انسان کی آزادپسند طبیعت کی طرف سے انہیںہمیشہ خطرہ لاحق رہتاہے ۔چونکہ جو لوگ مکمل طور پر نفوذ اورطاقت رکھتے ہیں وہ کسی خوف وہراس کے بغیر کھلم کھلا مخالفت کرسکتے ہیں یانفوذ کے ذریعہ ،عدلیہ اور انتظامی محکموں کو اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔
جو لوگ نفوذ وطاقت نہیں رکھتے ہیں ،وہ بھی معاشرے کی ہدایت کرنے والوں کی غفلت یا کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھا کر مخفیانہ طور پر خلاف ورزی کر سکتے ہیں ،یا رشوت اور سفارش کے ذریعہ یا معاشرے کے بااثر اشخاص کے ساتھ دوستی اوررشتہ داری کے ذریعہ اپنے مقصد تک پہنچ سکتے ہیں اور اس طرح معاشرے کے نظم کو عام حالات سے خارج کرکے ناکارہ بنا سکتے ہیں ۔
اس بات کابہترین ثبوت یہ ہے کہ ہم مختلف انسانی معاشروں میں اس قسم کی مخالفتوں اور قانونشکنی کے ہزاروں نمونے روزانہ مشاہدہ کرتے ہیں ۔
قانون میں خامی کااصلی سر چشمہ
اب دیکھنا چاہئے کہ اس خطرہ کا سرچشمہ کہاں ہے اورانسان کی سرکش اورآزادی پسند طبیعت کو کیسے قابو میں کیا جائے اور نتیجہ میں قانون کی مخالفت کو روکا جائے؟
اس خطرہ کا سرچشمہ۔ جو معاشرے میں فسادبرپاکرنے کا سب سے بڑا سبب ہے یہاں تک کہ قوانین بھی اسے روک نہیں سکتے ۔یہ ہے کہ عام اجتماعی طریقے ،جو قوانین کو وجود میں لاتے ہیں ، کہ جن کا تعلق افراد کے مادی مراحل سے ہے ،وہ ان کی معنویات اور باطنی فطرتوں کی کوئی اعتنا نہیں کرتے اور ان کامقصد صرف ہما ھنگی اورنظم و نسق کا تحفظ اور لوگوں کے اعمال کے درمیان توازن بر قرار رکھنا ہوتا ہے تاکہ اختلاف اور کشمکش کی نوبت نہ آئے ۔
اجتماعی قانون کا تقاضایہ ہے کہ قانون کی شقوں پر عمل کیا جائے اور معاشرے کے امور کو کنٹرول کیا جائے ۔اس قانون کا انسان کے داخلی صفات اور باطنی جذبات سے کوئی تعلق نہیں ہے ،جو ان اعمال کے محرک اور قوانین کے داخلی دشمن ہیں ۔
اس کے باوجود اگر انسان کی آزادی پسند فطرت اور دوسرے سیکڑوں جبلتوں (جیسے خودخواہی اورشہوت پرستی جومفاسد کے اصلی سبب ہیں )کی طرف توجہ نہ کی جائے تو معاشرے میں افراتفری اورلاقانونیت رائج ہوجائے گی اوراختلافات کادامن روز بروز پھیلتا جائے گا ،کیونکہ تمام قوانین کو ہمیشہ قوی باغیوں اور سر کشوں کے حملہ کاخطرہ لاحق ہوتا ہے جوانہی جبلتوں سے پیدا ہوتے ہیں اور کوئی قانون بُرے کو کنٹرول کر کے اختلافات کو نہیں روک سکتا ہے۔
تمام قوانین پردین کی ترجیح
قانون کے تحفظ کے لئے آخری طریقہ ،تعزیراتی قوانین وضع کرنا اور محا فظ مقرر کرنا ہے لیکن جیسا کہ بیان کیاگیا ، تعزیراتی قوانین اور محافظ انسان کی سر کشی اور دیگر جبلتون کو روک نہیں سکتے تاکہ اجتماعی قوانین پر عمل ہو سکے۔
دین کے پاس مذکورہ وسائل کے علاوہ مزید دوطاقتور وسیلے بھی موجود ہیں ،جن سے وہ ہر مخالف طاقت کو مغلوب کر کے اسے تہس نہس کر سکتا ہے :
١۔ہر دین دار فرددین کی راہنمائی سے اس حقیقت تک یہنچتاہے کہ اس کی زندگی اس ناپائدار اور گزرجانے والی دنیا کی چند روزہ زندگی تک محدود نہیں ہے ،بلکہ اس کے سامنے ایک ابدی اورلامحدود زندگی ہے ،جو موت سے نابود نہیں ہوتی ۔اس کی ابدی سعادت اورآسائش صرف اس میں ہے کہ وہ پرودردگار عالم کی طرف سے اس کے پیغمبروں کے توسط سے بھیجے گئے قوانین کی پیروی کرے ،کیونکہ وہ جانتاہے کہ دینی قوانین ، ایک ایسے دانا اور بینا پروردگار کی طرف سے بھیجے گئے ہیں ،جو انسان کے باطن وظاہر سے آگاہ ہے اوراپنی مخلوق سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں رہتا ۔ایک ایسادن آنے والا ہے جس دن وہ اسی انسان کو اپنے پاس بلائے گا،اس کے پنہاں اور آشکار اعمال کا حساب و کتاب لے گا اور نیک اعمال کی پاداش اور برے اعمال کی سزادے گا ۔
٢۔ہر دیندا رشخص اپنے دینی عقائد کے مطابق جانتا ہے کہ جب دینی حکم کو بجا لاتا ہے تووہ اپنے پروردگار کی اطاعت کرتا ہے ،اس کے باوجودوہ بندگی کی رسم کے مطابق کسی اجر پاداش کامستحق نہیں ہے ، لیکن پروردگار کے فضل وکرم سے اس کو نیک پاداش ملے گی ،اس لحاظ سے ہر اطاعت کو انجام دے کر اس نے حقیقت میں اپنے اختیارسے ایک معاملہ اور ایک لین دین کیاہے ۔چونکہ وہ اپنی مرضی سے اپنی آزادی کے ایک حصہ سے دست بردار ہواہے اور اس کے مقابلہ میں اپنے پروردگارکی خوشنودی و مہر بانی حا صل کی ہے ،اس لئے اسے اپنی نیکیوں کی پاداش ملے گی۔
دیندار شخض، دینی قوانین وضوابط کی پیروی کر کے اپنی پوری خوشی سے معاملہ کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے اور جو کچھ اپنے اختیار سے دیتا ہے اس کے کئی گنا نفع کماتا ہے ۔وہ ایک چیز کو بیچ کراس کے بدلے میں اس سے بہتر مال خرید لیتا ہے ۔لیکن جو شخص دین کا پابند نہیں ہو تا ،چونکہ وہ ضوابط کی رعایت اور قانون کی پیروی کو اپنے لئے ایک نقصان تصور کرتاہے اور اس کی آزادی پسند طبیعت اس کی آزادی کے ایک حصہ کو کھو دینے سے ناراض ہوتی ہے ۔وہ اس موقع کی تلاش میں ہو تا ہے کہ اس زنجیرکو توڑ کراپنی آزادی حاصل کرے ۔
نتیجہ
مذکورہ بیانات سے معلوم ہوتاہے کہ معاشرے کی زندگی کے تحفظ کے لئے دین کا اثر غیر دینی طریقوںکی نسبت زیادہ قوی اور عمیق ہے ۔
دوسروں کی کوشش
دنیا کے پسماندہ ممالک ،جو قرن اخیر میں ترقی وپیش رفت کی فکر میں ہیں ،اگر چہ انہوں نے اجتماعی حکو مت کو قبول کیا ہے ،لیکن قانون کی ضعیف شقوں کی طرف توجہ نہیں کی ہے اور دین کی طاقت سے استفادہ نہیں کیا ہے ،اس لئے ان کی دنیا تاریک ہوئی ہے اوران کی زندگی کا ماحول جنگل کے قانون میں تبدیل ہواہے ۔
ان کے مقابلہ میں ،دنیا کی ترقی یافتہ اور ہوشیار قوموں نے ،قوانین کی کمزوری سے آگاہ ہو کر ،قانون کو حتمی ناکامی سے نجات دلانے کے لئے ،کچھ کوششیں کر کے ایک دوسرا راستہ اختیار کیاہے۔
ان قوموں نے تعلیم و تربیت کے نظام کو ایسے منظم کیا ہے کہ لوگوں میں خود بخود صحیح اخلاق پید ہوںاور جب وہ عملی میدان میں قدم رکھیں ، تو قانون کو مقدس اور ناقابل مخالفت سمجھیں ۔
اس قسم کی تر بیت قانون کے عام طورپر نافذ ہونے کاسبب بنتیہے اور نتیجہ میں قابل توجہ حد تک معاشرے کی سعادت کو پورا کر کے قانون کو ناکامی سے نجات دلائی جاتی ہے۔ لیکن جاننا چاہئے کہ ایسے معاشروں میں پرورش پانے والے افکار دو قسم کے ہوتے ہیں :
١۔انسان دوستی جیسے عقائد و افکار، اپنے ماتحتوں کے ساتھ خیرخواہی اور رحم دلی ،جو حقیقت پسندی پر استوار ہوں ،بیشک ان کو آسمانی ادیان سے لیا گیاہے اور قدیم زمانے سے ( جبکہ ترقی یافتہ معاشرے وجود میں نہیں آئے تھے )دین، لوگوں کو ان افکار کی طرف دعوت دیتا رہا ہے ۔
لہذا، جو خوش بختی اور سعادت ان افکار کے ذریعہ ترقی یافتہ معاشروں میںنظر آرہی ہے، وہ دین کے برکات میں شمار ہوتی ہے ۔
٢۔بیہودہ اور افسانوی عقائد وافکار ، جن کی خرافات کے بازار کے علاوہ کہیں کوئی اہمیت نہیں ہے ،مثال کے طور پر افراد کو تلقین کی جاتی ہے کہ اگر وطن کی نجات کی راہ میں کوئی تکلیف اٹھائی یاقتل کئے گئے تو،تمہارا نام تاریخ کے صفحات میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گااگرچہ ،اس قسم کے خرافاتی تصورات کا ایک عملی نتیجہ ہوتا ہے اوریہ بھی ممکن ہے کوئی شخص اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر میدان جنگ میں جان نثاری کا ثبوت دے اور بہت سے دشمنوں کو قتل کردے،لیکن وہ فائدے کے بجائے قوم کو بہت بڑا نقصان پہنچاتا ہے ،کیونکہ یہ تفکرانسان کو خرافاتی بنا کر اس کی حقیقت پسندانہ فطرت کو بیکار بنادیتی ہے ،جو لوگ خدااور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اور موت کو نابودی اورفنا سمجھتے ہیں ،ان کی نظر میں موت کے بعد ابدی اور کامیاب زندگی کامفہوم ومعنی نہیں ہے ۔
|