دینی تعلیم
 

دین کافطری ہون
انسان اپنی فطرت اورخداداد طینت کے لحاظ سے دین کاخواہاں ہے ،کیو نکہ انسان اپنی زندگی کے سفر میں سعادت حاصل کرنے کے لئے مسلسل ہاتھ پائوں مارتا ہے اور اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ان اسباب ووسائل سے استفادہ کرتاہے جواس کے مقاصد میں مؤثر ہیں ،بیشک وہ ہمیشہ ایسے سبب کی تلاش میں ہوتاہے جو مؤثر ہو اور وہ ناکام نہ ہو ۔دوسری طرف ہم عالم طبیعت میں کوئی ایسا سبب نہیں پاتے ہیں جس کا اثر دائمی ہو اور وہ کبھی رکاوٹوں کے مقا بلہ میں نا کام نہ ہو۔
انسان فطرت کے مطابق اپنی سعادت کے لئے ایک ایسا سبب چاہتا ہے جو ناکام نہ ہو اور ایک ایسا پشت پناہ بھی چایتا ہے کہ جو کبھی ساتھ نہ چھوڑے تاکہ اپنی زندگی کو اس سے منسلک کر دے اور باطنی آرام وسکون حاصل کر سکے ،حقیقت میں دین بھی یہی چاہتاہے۔ کیونکہ صرف خدائے متعال ہے جو اپنے ارادہ میں ہر گز مغلوب و ناکام نہیں ہو تا ہے اور عذر و قصور اس کے لئے قابل تصور نہیں ہے، اور خدائے متعال سے مربوط زندگی کے طریقوں کا نام ہی ''دین اسلام ہے''۔
اس بنا ء پریہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی فطری خواہش ،دین کے تین بنیادی اصو لوں توحید،نبوت اور معاد کو ثابت کرنے کے بہترین دلائل میں سے ایک ہے،کیونکہ فطری ادراک دوستی اور دشمنی کے مفہوم کو مخلوط نہیں کر تاہے اورتشنگی کو سیراب نہیں سمجھتا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ بعض اوقات انسان یہ تمنا کرتا ہے کہ پرندے کے مانند اس کے بھی پر ہوتے تا کہ پر واز کر تا یاایک ستارہ کے مانند آسمان پر ہو تااور طلوع وغروب کرتا ،لیکن ان کی حقیقت محض ایک تصور ہے یہ اور بات ہے کہ انسان دل کی گہرائیوں سے اپنی سعادت، مطلق راحت وسکون یا انسانی تقاضوں کی بناپر وہ سنجیدہ زندگی کی خاطر ایک پناہ گاہ کی تلاش میں ہے اور ہر گز اس سے منہ نہیں موڑ تا ہے۔
اگر کائنات میں ناقابل مغلوب سبب (خدا)نہ ہو تا تو انسان اپنی بے آلائش طبیعت سے اس کی فکر میں نہیں پڑ تا اور اگر مطلق وآرام (جوآخرت کا سکون وآرام ہے)کا وجود نہ ہوتاتو انسان فطری طورپر اس کو پانے کی فکر ہی نہ کرتا اور اگر دینی طریقہ(جو نبوت کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے ) حق نہ ہو تا ،تو انسان کے باطن میں اس کی تصویر بھی نہ ہو تی ۔
انسان مختلف قسم کی جسمانی و روحانی ،مادی ومعنوی ضرورتیں رکھتا ہے کہ جس کو اجتماعی زندگی کے ذریعہ دور کیا جا سکتا ہے اور انسانی معاشر ے کا ہر فرد عام و سائل کو استعمال کر کے،کسی رکاوٹ کے بغیر ،اس دنیا کی چند روزہ زندگی کو آرام وآسائش میں گزارتا ہے اور دوسری دنیا کے لئے زادراہ حاصل کرتا ہے،پس انسانی معاشرے میں ایک ایسا قانون نافذ ہونا چاہئے جو خالق کائنات کے ارادہ کے مطابق اور فطرت و خلقت سے ہم آہنگ ہو۔ اس قانون کے مطابق ہر ایک کو اپنی جگہ پر قرار پانا چاہئے اور معاشرے میں اپنی قدرو منزلت کے مطابق اس سے استفادہ کرے اور دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرنے سے پرہیز کرے آخر کارمعاشرے کے تمام لوگ خدائے متعال کے ارادہ کے سامنے تسلیم ہو جائیں اور سب آپس میں بھائی بھائی اور حق وانصاف کے مقا بلہ میں برا بر ہو جائیں ۔

دین کے فائدے
مذکورہ بیانات سے ثابت ہوگیا کہ فرداور معاشرے کی اصلاح میں دین ایک گہرا اثر رکھتاہے بلکہ یہ سعادت ونیک بختی کا منفرد وسیلہ ہے ۔جو معاشرہ دین کا پابند نہ ہو وہ حقیقت پسندی اورجدت فکرسے محروم ہے ،ایسے معاشرے کے لوگ اپنی قیمتی زندگی کو گمراہی اور ظاہر داری میں گزارتے ہیں ،عقل کو پامال کر کے حیوانوں کی طرح تنگ نظری اور بیوقوفی میں زندگی گزارتے ہیں اور اخلاقی انحطاط اورکردار کی پستی کا شکار ہوتے ہیں اور اس طرح انسانی خصو صیات و امتیازات سے محروم ہوجاتے ہیں ۔
اس قسم کا معاشرہ ،علاوہ اس کے کہ ابدی اور انتہائی کمال وسعادت تک نہیں پہنچتا ہے،اس دنیا کی ،اپنی مختصر اورناپائدار زندگی میں بھی انحرافات اور گمراہیوں کے منحوس نتائج سے دوچار ہو تا ہے اور کسی نہ کسی وقت اپنی غفلت کے برے نتائج کو بھگتے گا اور واضح طورپر اسے معلوم ہو گا کہ سعادت کا راستہ دین ہی تھا اورسر انجام اپنے کردارسے پشیمان ہو گا۔ خدائے متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے :
(قد افلح من زکّہا٭وقد خاب من دسّہا) (شمس٩۔١٠)
''بیشک وہ کامیاب ہو گیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنالیا.اوروہ نامرادرہا جس نے اسے آلودہ کرلیا ''
البتہ جاننا چاہئے کہ جس چیز سے انسان کی سعادت اورفردو معاشرے کی خوش بختی وابستہ ہے ،وہ دینی ضوابط پر عمل کرنا ہے ۔صرف نام سے کام نہیں چلتا،کیونکہ جس چیز کی اہمیت و قیمت ہے وہ خود حقیقت ہے نہ حقیقت کا دعویٰ۔جوشخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے لیکن اس کا باطن تاریک ہے اوروہ اخلاقی طور پر گراہوا اور بد کردار ہے،اس کے باوجود سعادت کے فرشتہ کا منتظر ہے،تو اسکی مثال اس بیماری کی جیسی ہے جو طبیب کے نسخہ کو جیب میں رکھ کر صحت یابی کی تو قع رکھتا ہے، یقینا ایسا انسان اس فکر کے ساتھ منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا ہے ۔خدائے متعال اپنے کلام میں فرماتا ہے:
(انّ الذّین ء امنوا والّذین ہادوا والنّصٰارٰی والصّٰائبین من اٰمن باللّہ و الیوم الاخر و عمل صٰالحاً فلہم اجرہم عند ربّہم ۔۔۔) (بقرہ٦٢)
''جو لوگ بظاہر ایمان لائے یا یہودی ،نصاریٰ اور صابیئن(١) ہیں ان
..............
١۔جنہوں نے مجوسی مذہب سے یہودی مذہب کی طرف تمائل پیدا کر کے مجو سیت اور یہو دیت سے ایک در میانی دین ایجاد کیا،انھیں صابئین کہتے ہیں ۔
میںسے جو واقعی اللہ اور آخرت پر ایمان لائے گا اس کے لئے پروردگار کے یہاں اجر وثواب ہے ...''
ممکن ہے اس آیہ شریفہ کے مضمون سے یہ تصور کیا جائے کہ جولوگ خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال انجام دئے ہوں ،اگر چہ انہوں نے تمام پیغمبروں یا بعض پیغمبروںکو قبول بھی نہ کیا ہو ،تب بھی وہ نجات پائیں گے ۔لیکن جاننا چاہئے کہ سورہ نساء کی آیت نمبر ١٥٠ اور١٥١ میں پروردگار عالم ان لوگوں کو کافر جانتاہے جو تمام پیغمبروں یا بعض پیغمبروں پر ایمان نہ رکھتے ہوں ۔

تاریخ ادیان کا ایک خلاصہ
ادیان کے وجود میں آنے کے بارے میں اجمالی تحقیق ، مطمئن ترین راہ ۔جس پر دینی نقطہ نگاہ سے اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید ہی کا بیان ہے، کیونکہ یہ ہر قسم کی خطا،اشتباہ، تعصب اور خود غرضی سے منزہ و پاک ہے۔
(انّ الدّین عند اللّہ الا سلام ...) (آل عمران ١٩)
''دین خدا ، دین اسلام ہی ہے''
جوانسان کی پیدائش کے پہلے ہی دن سے اس کے ساتھ تھا ،جیسا کہ قرآن مجید میں تاکید ہوئی ہے کہ،بشرکی موجودہ نسل کی ابتداء میں دو شخص ایک مرد اور ایک عورت تھے ۔مرد کا نام''آدم '' اور اس کی بیوی کا نام ''حوا''تھا ۔ حضرت آدم پیغمبر تھے اور ان پر وحی نازل ہوتی تھی ۔حضرت آدم کا دین بہت سادہ اور چند کلیات پر مشتمل تھا ،جیسے ،لوگوں کو خداکو یادکر نا چاہئے اورآپس میں ، خاص کراپنے والدین کے ساتھ احسان ونیکی کرنا چاہئے،فساد ،قتل اور برے کاموں سے پر ہیز کرناچاہے۔
آدم اور اُن کی بیوی کے بعد ،ان کی اولاد انتہائی سادگی اوراتفاق واتحاد کے ساتھ زندگی گزارتی تھی ،چونکہ دن بدن ان کی آبادی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا ،لہذا رفتہ رفتہ انہوں نے اجتماعی زندگی اختیار کرلی۔
اس طرح وہ بتدریج زندگی کے طورطریقوں کو سیکھتے تھے اور تہذیب و تمدن سے قریب ہوتے تھے ۔چونکہ آبادی بڑھتی گئی اس لئے وہ مختلف قبیلوںمیں تقسیم ہو گئے اورہر قبیلہ میں کوئی نہ کوئی بزر گ پیدا ہوتاتھااورقبیلہ کے لوگ اس کااحترام کرتے تھے،یہاں تک کہ اس کے مرنے کے بعد اس کا مجسمہ بنا کر اس کا احترام و ستائش کرتے تھے ۔اسی زمانہ سے لوگوں میں بت پرستی کا رواج پیدا ہوا ،چنانچہ ائمہ علیہم السلام کی روایتوں میں آیا ہے کہ بت پرستی اسی طرح شروع ہوئی ہے اور بت پرستی کی تاریخ بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے۔رفتہ رفتہ طاقتور افراد کمزوروں اور ضعیفوں پر زیادتی کرنے لگے اوراسطرح لوگوں میں اختلاف پیدا ہوتاچلاگیا ۔ اوریہ اتفاقی طور پر پیداہونے والے اختلافات ان کی زندگی میں گوناگوں کشمکش اور لڑائی جھگڑے پیداکرنے کا سبب بنے۔
یہ اختلافات ۔جو انسان کو سعادت کی راہ سے منحرف کر کے بدبختی اور ہلا کت کی طرف لے جاتے تھے ۔اس امر کاسبب بنے کہ خدائے مہر بان نے کچھ انبیاء کو منتخب کرکے آسمانی کتاب کے ساتھ بھیجا تا کہ انسان کے اختلافات کو دور کریں ،چنانچہ خدائے متعال اپنے کلام میں فر ماتا ہے:
(کان النّاس امّة واحدة فبعث اللّہ النبیّن مبشّرین و منذرین وانزل معہم الکتٰب بالحق لیحکم بین النّاس فیما اختلفوا فیہ۔۔۔) (بقرہ٢١٣)
''(فطری اعتبار سے)سارے انسان ایک قوم تھے ۔پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ بر حق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں''

دین اسلام اور اس کی آسمانی کتاب
دین اسلام ، ایک عالمی اور ابدی دین ہے۔اس میں اعتقادی ،اخلاقی اور عملی ضوابط کے امورکا ایک سلسلہ ہے جن پر عمل پیرا ہونے سے انسان دنیا وآخرت کی سعادت وخوش بختی حاصل کرتا ہے ۔
دین اسلام کے قواعد وضوابط ۔جو خالق کائنات کی طرف سے بھیجے گئے ہیں ۔ایسے ہیں کہ اگر انسانی معاشرے کا کوئی فرد یاانسانی معاشروں میں سے کوئی معاشرہ ان پر عمل کرے تو اس کے لئے زندگی کے بہترین شرائط اور ترقی یافتہ ترین انسانی کمال حاصل ہو سکتے ہیں ۔
دین اسلام،کے نیک آثارہر فرداورہر معاشرے کے لئے مساوی ہیں اور چھوٹے بڑے،عالم و جاہل،مردوعورت،سفید فام و سیاہ فام اور مشرقی ومغربی، بلا استثناء اس مقدس دین کے فوائداور خوبیوں سے فیضیاب ہو سکتا ہے ،اوراپنی ضرورتوںکو اچھی طرح پورا کرسکتاہے ۔
دین اسلام نے اپنے معارف و ضوابط کوفطرت کی بنیاد پراستوا رکیا ہے اور انسان کی ضرورتوں کو مدنظر رکھا ہے ،اور ان کوپورا کرتا ہے اور انسان کی فطرت اور ساخت بھی مختلف افراد،نسلوں اور متعدد زمانوں میں یکسان ہے ،اس لحاظ سے واضح ہے کہ انسانی معاشرہ مشرق سے لے کرمغرب تک ایک ہی قسم کا خاندان ہے اور وہ انسانی ساخت کے اصول وارکان میں آپس میں شریک ہیں اور مختلف افراداور نسلوں کی ضرورتیںبھی مشابہ ہیں اور بشر کی آنے والے نسلیں بھی اسی خاندان کی اولاد ہیں اور یقیناانہی کے وارث ہیںاوراُن کی ضرورتیںانہی کی ضرورتیں جیسی ہوںگی۔
نتیجہ کے طور پر،اسلام ایک ایسا دین ہے جوانسان کی واقعی اور فطری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اورسبھی کے لئے کافی اور ابدی ہے۔
اسی لئے خدائے متعال نے اسلام کودین فطرت کا نام دیا ہے اور لوگوں کو انسانی فطرت کو زندہ رکھنے کی دعوت دیتا ہے اور دین کے بزرگوں نے فرمایا ہے:
''اسلام ایک آسان دین ہے جو انسان پر میں سختی نہیں کرتا ۔''
خدائے متعال نے دین اسلام کوفطرت کی بنیاد پر بنایا ہے لہذا اس کی کلیات سبھی کے لئے قابل فہم ودرک ہیں ،لیکن پھر بھی اس نے اس کے اصلی معارف وضوابط کی بنیادوں کو پیغمبراکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی آسمانی کتاب ''قرآن مجید'' میں فرمایاہے۔
دین مقدس اسلام،آخری آسمانی دین ہے اس لئے یہ مکمل ترین دین ہے ۔اس دین کے آنے کے بعدگذشتہ دین منسوخ ہوگئے ،کیونکہ کامل دین کے ہوتے ہوئے ناقص دین کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ دین اسلام ہمارے پیغمبرحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ بشر کے لئے بھیجا گیا ہے۔نجات اورسعادت کا یہ دروازہ دنیا کے لوگوں کے لئے اس وقت کھولاگیا جب انسانی معاشر ہ اپنی فکری ناتوانی کے دور سے گزر رہاتھااور انسانیت کے کمال کو حاصل کرنے کے لئے مکمل طور پرآمادہ ہوچکا تھا اور الٰہی معارف اور اس کے بلند مطالب کو حاصل کرنے کی لیاقت پیدا کر چکا تھا۔
اسی لئے اسلام حقیقت پسندانسان کے لئے قابل فہم حقائق ومعارف اورپسندیدہ اخلاق لیکر آیا۔جو انسان کا امتیاز ہے،اور انسان کی زندگی کے انفرادی و اجتماعی کاموں کو منظم کرنے والے ضوابط، لائے اور ان پر عمل کرنیکی نصیحت کی ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ دین اسلام کے معارف کلی طورپر تین حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں : ''اصول دین ،اخلاق اورفروع فقہی '' نیز واضح رہے کہ اصول دین ،یعنی دین کی اصلی بنیادیں ،تین ہیںاور اگرانسان میں ان میں سے کوئی ایک نہ پائی جائے تو وہ دین سے خارج ہو جاتا ہے:
١۔توحید،یعنی خداکی وحدانیت پر عقیدہ رکھنا۔
٢۔انبیاء کی نبوت پر عقیدہ رکھنا،جن کے آخری پیغمبرحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
٣۔معاد پر ایمان ،یعنی یہ عقیدہ ہوکہ،خدائے متعال مرنے کے بعدسبھی کوزندہ کرے گاان کے اعمال کاحساب لے گا ۔نیک لوگوں کو نیکی کی جزااور برے لوگوں کوسزادے گا۔
مذکورہ تین اصولوں میں مزیددواصول اضافہ کئے جاتے ہیںجو مذہب شیعہ کے مخصوص عقائدہیں کہ جن کے نہ پائے جانے پر انسان شیعہ مذہب سے خارج ہوتا ہے ،اگر چہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا اور وہ دو یہ ہیں :
١۔امامت
٢۔عدل