دینی معلومات
لفظ ''دین'' کثیر الاستعمال الفاظ میںسے ایک ہے ۔عام طور پر دیندار اسے کہتے ہیں جو کائنات کے لئے ایک خداکا قائل ہو اور اس کی خوشنودی کے لئے خاص قسم کے اعمال بجا لاتاہو۔
ممکن ہے ہر معاشرے اور ملت میں، قانون کے مطابق معاشرہ کے ہر فرد کے لئے فرائض معین ہوئے ہوں ،اور ان پر لوگ عمل کرتے ہوں، تو یہ تصور کیا جائے کہ وہاں پھر''دین'' کی ضرورت نہیں ہے ،لیکن اسلام کے احکا م اور ضوابط پر سنجیدگی سے غور کرنے سے اس معنی کے خلاف ثابت ہو تا ہے ،کیونکہ دین اسلام صرف خدا کی عبادت و ستائش تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس میں انسا ن کے تمام انفرادی و اجتماعی مسائل کے لئے جامع قواعد و ضوابط اور مخصوص قوانین وضع کئے گئے ہیں اور بشریت کی وسیع دنیا کے بارے میں حیرت انگیز صورت میں تحقیق کی گئی ہے۔اور انسان کی ہر انفرادی و اجتماعی حرکت و سکون کے لئے مناسب قوانین وضع کئے گئے ہیں ۔ایسے دین کو تکلفاتی اور رسمی دین سے تشبیہ یا نسبت نہیں دی جاسکتی ہے ۔
خدائے متعال نے قرآن مجید میں دین اسلام کو مذکورہ بیان شدہ کیفیت میں تو صیف فرمائی ہے اور اس کے علاوہ یہودیت و نصرانیت کوکہ جن کی آسمانی کتا بیں توریت و انجیل ہیں اور ان میں اجتماعی احکام وقواعدوضوابط ہیں ۔اسی صورت میں بیان فر مایا ہے، چنانچہ فر ماتا ہے:
(وکیف یُحکّمو نکَ وعندہم التّورٰة فیہا حکم اللّہ۔۔۔ انّا انزلنا التورٰة فیہا ھدیَ وّ نور یحکم بہا النبیّون الّذین اسلموا للّذین ھادوا والرّبّنیون والاحبار۔۔.وقفینا علی أثارہم بعیسیٰ ابن مریم ۔۔۔وء اتینہ الانجیل فیہ ھدی وّنور و مصدقاً لما بین یدیہ من التورٰة و ھدی وّ موعظة للمتّقین و لیحکم اھل الانجیل بما انزل اللّہ فیہ۔۔۔ و انزلنا الیک الکتٰب بالحق مصد قاً لما بین یدیہ من الکتب ومھیمنا علیہ فاحکم بینہم بما انزل اللّہ۔۔۔) (مائدہ٤٣۔٤٨)
'' اوریہ کس طرح آپ سے فیصلہ کرائیں گے جب کہ ان کے پاس توریت موجود ہے جس میں حکم خدا بھی ہے... بیشک ہم نے توریت کو نازل کیاجس میں ہدایت اور نور ہے اور اس کے ذریعہ اطاعت گزار انبیاء یہودیوں کے لئے فیصلہ کرتے ہیں اور اللہ والے علماء یہود... اور ہم نے انھیں انبیاء کے نقش قدم پر عیسی بن مریم کو چلا یا۔...اور ہم نے انھیں انجیل دیدی جس میں ہدایت اور نور تھا اور وہ اپنے سامنے کی توریت کی تصدیق کر نے والی اور ہدایت تھی اور صاحبان تقوی کے لئے سامان نصیحت تھی ... اہل انجیل کو چاہئے کہ خدانے جو حکم نازل کیا ہے اس کے مطابق فیصلہ کریں ۔...اور اے پیغمبر!ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی ہے جو اپنے پہلے کی توریت اور انجیل کی مصداق اور محافظ ہے لہذا آپ ان کے درمیان تنزیل خدا کے مطابق فیصلہ کریں ''
توریت اور انجیل۔ جو اس وقت یہودو نصاری کے ہاتھ میں ہیں۔ بھی اسی مطلب کی تائید کرتی ہیں،کیونکہ توریت میں بہت سے قوانین اور تعزیراتی ضوابط موجود ہیں اورظاہری طور پرانجیل بھی توریت کی شریعت کی تائید وتصدیق کرتی ہے۔
نتیجہ
مذکورہ بیان سے واضح ہوتا ہے کہ''قرآن مجید کی اصطلاح میں دین '' کہ وہی زندگی کی روش ہے،اور اس سے انسان پہلو تہی نہیںکرسکتا ۔دین اور ایک اجتماعی قانون کے درمیان جو فرق پایا جا تا ہے وہ یہ ہے کہ دین خدا کی طرف سے ہوتا ہے اور اجتماعی قانون لو گوں کے افکار کی پیداوار ہو تا ہے ۔دوسرے الفاظ میں دین لوگوں کی اجتماعی زندگی اور خدائے متعال کی پر ستش اور اس کی فرمانبرداری کے درمیان ایک ربط پیداکرتا ہے ،لیکن اجتماعی قانون میں اس رابط کی کوئی اہمیت نہیں ہو تی ہے۔
خداکے قانون سے رابط کا اچھا اثر
''دین''انسان کی اجتماعی زندگی اور خدائے متعال کی پر ستش کے درمیان رابطہ پیدا کرنے کے نتیجہ میں انسان کے تمام انفرادی و اجتماعی اعمال کو خدائی ذمہ داری قرار دے کر اس کو خدا کے لئے جواب دہ جانتاہے ۔چو نکہ خدائے متعال اپنی لامحدود قدرت اوربے پناہ علم کی بناپر ہر جہت سے انسان پر احاطہ رکھتا ہے اور اس کے دل ودماغ کے تمام اسرارو افکارسے مکمل طور پر آگاہ ہے اور اس سے کوئی چیز پو شیدہ نہیں ہے، اسی لئے دین نے بشری قانون کی طرح امور کے نظم و نسق کو باقی رکھنے کے لئے محافظ اور نگہبان مقرر کئے ہیں اور مخالفت وسرکشی کر نے والوں کی سزاکے لئے قوانین وضع کر کے بشری قانون کی نسبت ایک اور امتیاز حاصل کیاہے اور وہ یہ کہ :دین،انسان کی حیرت اور ہوشیار ی کی باگ ڈور کو ایک باطنی و ابدی محافظ کے ہاتھ میں دیتا ہے۔کیو ںکہ دین سے نہ غفلت ہوتی ہے اور نہ خطا اور اس کی جزا اور سزا سے کوئی بچ نہیں سکتا ۔خدائے متعال فرماتا ہے:
(وہو معکم این ما کنتم۔۔۔) (حدید٤)
''اور تم جہاں بھی ہو ،وہ تمہارے ساتھ ہے''
(واللّہ بمایعملون محیط) (انفال٤٧)
''اور اللہ ان کے کام کااحاطہ کئے ہوئے ہے''
(وانکلا لما لیوفینہم ربّک اعمالہم۔۔۔) ( ہود١١١)
''اور یقینا تمہارا پروردگار سب کے اعمال کاپوراپورا بدلہ دے گا۔''
اگرہم قانون کے دائرہ میں زندگی کر نے والے کے حالات کادین کے دائرہ میں زندگی کرنے والے کے حالات سے مواز نہ کریں گے تو دین کی برتری واضح اور روشن ہو جائے گی ۔کیونکہ جس معاشرے کے تمام افراد متدین ہوں اور اپنے دینی فرائض کو انجام دیں، ہر حالت میں خدائے متعال کو اپنے کاموں میں حاضر وناظر جانیں ،تو وہ ایک دوسرے سے بد ظن نہیںہوتے ہیں ۔
اس لئے ایسے ماحول میںزندگی کر نے والے عوام الناس،ایک دوسرے کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہتے ہیں اور نہایت ہی آرام و مسرت کی زندگی گزارتے ہیں اور انھیں کوابدی سعادت نصیب ہوتی ہے۔لیکن جس ماحول میںصرف بشری قانون کی حکمرانی ہوتی ہے وہاں پر،جب تک لوگ اپنے کام پرکسی کو نگراں محسوس کرتے ہیں اس وقت تک وہ کام میں کوتاہی نہیں کرتے ،ورنہ ممکن ہیکہ وہ ہر طرح کی کوتاہی کے مر تکب ہو ں ۔
جی ہاں ،اخلاق کے پابند معاشرے میں ،جو دلی سکون پایا جاتا ہے،وہ اسی دین کا مرہون منت ہوتاہے نہ کہ قانون کا ۔
دوسرے الفاظ میں ،دین،ایسے عملی و اخلاقی عقائد وضوابط کا مجموعہ ہے ،جسے انبیاء خدا کی طرف سے انسان کی راہنمائی اورہدایت کے لئے لائے ہیں ۔ان عقائد کو جاننا اور ان احکام پر عمل کرنا انسان کے لئے دونوں جہاںمیں سعادت کا سبب بنتا ہے ۔
اگر ہم دیندار ہوں اور خداو پیغمبرۖ کے احکام کی اطاعت کریں تو اس ناپائدار دنیا میں بھی خوش قسمت اوردوسری دنیا کی ابدی اور لامحدود زندگی میں بھی سعادت مند ہوں گے۔
وضاحت:ہم جانتے ہیں کہ سعادت مند وہ شخص ہے جس نے اپنی زندگی اشتباہ اور گمراہی میںنہ گزاری ہو ،اس کے اخلاق پسندیدہ ہوں اور نیک کام انجام دیتا ہو۔خدا کا دین ہمیں اسی سعادت اور خوش بختی کی طرف ہدایت کرتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ:
اولاً:جن صحیح عقائد کو ہم نے اپنی عقل وشعور سے درک کیا ہے ،انھیں مقدس و محترم جانیں ۔
ثانیا ً: ہم پسندیدہ اخلاق کے مالک ہوںاور حتی الامکان اچھے اور شائستہ کام انجام دیں، اس بناء پر دین تین حصوں میں تقسیم ہو تا ہے :
١۔عقائد
٢۔اخلاق
٣۔عمل
١۔عقائد
اگر ہم اپنی عقل وشعور کی طرف رجوع کریں تودیکھیں گے کہ اس عظیم اور وسیع کائنات کی ہستی،اس حیرت انگیز نظا م کے ساتھ ، خودبخود وجود میں آنا ۔ اور اس کا اول سے آخر تک کانظم و نسق،کسی منتظم کے بغیر ہونا ممکن نہیں ہے۔یقینا کوئی خالق ہے،جس نے اپنے لامحدودعلم وقدرت سے اس عظیم کائنات کوپیدا کیا ہے اور تمام امور میںپائے جانے والے ثابت وناقابل تغیر قوانین کے ذریعہ کائنات کے نظام کوانتہائی عدل وانصاف کے ساتھ چلایاہے ۔کوئی بھی چیز عبث خلق نہیں کی گئی ہے اور کوئی بھی مخلوق خدائی قوانین سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔
لہذا یہ باور نہیں کیا جاسکتا ہے کہ،ایسا مہر بان خدا،جو اپنی مخلوق پر اس قدر مہربان ہے،انسانی معاشرے کوانسان جو زیادہ ترنفسانی خواہشات کا اسیر بن کر،گمراہی اور بدبختی سے دوچار ہو تا ہے ۔کی عقل کے رحم وکرم پر چھوڑدے ۔
اس بناپر،معصوم انبیاء کے ذریعہ بشرکے لئے ایسے قواعد وضوابط کابھیجنا ضروری ہے تاکہ ان پر عمل کر کے انسان سعادت و خوش بختی تک پہنچ جائے ۔
چونکہ پروردگار کے احکام کی اطاعت کی جزا اس دنیا کی زندگی میں مکمل طور پر ظاہر نہیں ہو سکتی ،لہذا ایک دددوسرے جہان کا ہونا ضروری ہے کہ جہاں پرلوگوں کا حساب و کتاب ہو، اگر کسی نے نیک کام انجام دیا ہے تو اسے اس کی جزا ملے اور اگر کسی سے کوئی برا کام سرزد ہوا ہو تو اسے اس کی سزا ملے ۔
دین ،لوگوں کو ان اعتقادات اوردیگر تمام حقیقی عقائد ۔جن کو ہم بعد میں تفیصل سے بیان کریں گے ۔کی طرف تشویق کر تاہے اور انھیں جہل وبے خبری سے پرہیز کرنے کی تاکید کرتا ہے۔
٢۔اخلاق
دین،کا ہم سے مطالبہ یہ ہے کہ زندگی میں پسندیدہ صفات اختیار کریں اور اپنے آپ کو قابل ستائش اورنیک خصلتوں سے آراستہ کریں ۔ہم فرض شناس،خیر خواہ، انسان دوست، مہر بان ،خوش اخلاق اور انصاف پسند بن کر حق کا دفاع کریں ۔اپنے حدوداور حقوق سے آگے نہ بڑھیںاور لوگوں کے مال ،عزت ،آ برو او رجان پر تجاوز نہ کریں ۔علم ودانش حاصل کرنے میں کسی بھی قسم کے ایثار اور فدا کار ی سے دریغ نہ کریں، خلاصہ یہ کہ اپنی زندگی کے تمام امور میں عدل وانصاف اور اعتدال کو اپنا شیوہ قرار دیں ۔
٣۔عمل
دین ،ہمیںیہ حکم دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں وہ کام انجاں دیں جن میں ہماری اپنی اور اپنے معاشرے کی خیر وصلاح ہو ۔اورفساد وتباہی مچانے والے کاموں سے پرہیز کریں۔ اس کے علاوہ دین ہمیں یہ بھی حکم دیتا ہے کہ خدائے متعال کی عبادت وپرستش کے عنوان سے کچھ اعمال جیسے نماز، روزہ وغیرہ ۔جو بندگی اور فرمانبرداری کی نشانی ہے۔کو بجا لائیں۔
یہ وہ قواعد وضوابط اور احکام ہیں ،جنھیں دین لے کر آیا ہے اور ہمیں ان کی طرف دعوت دیتا ہے ۔چنانچہ واضح ہے کہ ان ضوابط اور احکام میں سے کچھ کا تعلق عقیدہ سے کچھ کا اخلاق سے اور کچھ کا عمل سے ہے ، جیسا کہ بیان ہوچکا ہے کہ ان کو قبول کرنا اور ان پر عمل کرنا ہی انسان کے لئے سعادت و خوش بختی ہے ،کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ انسان کے لئے سعادت حاصل کرنا ممکن نہیں ہے مگر یہ کہ حقیقت شناس ہو اور پسندیدہ اخلاق و اعمال پر مبنی زندگی بسر کرے۔
|