دینی تعلیم
محمد حسین طباطبائی
(مفسر تفسیر المیزان)
مرتّبہ: سید مہدی آیت اللّہی
مترجم: سید قلبی حسین رضوی
ناشر: مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

پروردگار عالم نے ارشاد فرمایا:
( اِنَّمَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْراً)
(سورۂ احزاب : آیت ٣٣)
اے اہلبیت اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ تم سے رجس اور گندگی کو دور رکھے اور تمہیں اسی طرح پاک رکھے جوپاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میںرسول خدا ۖ کی بہت سی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ آیۂ مبارکہ پنجتن اصحاب کساء کی شان میں نازل ہوئی ہے اور '' اہل بیت'' سے مراد وہی حضرات ہیں اور وہ : محمد ۖ ، علی ، فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلام ہیں۔نمونہ کے طور پر ان کتابوں کی طرف رجوع کریں:مسند احمد بن حنبل(وفات ٢٤١ ھ ):ج١، ص٣٣١،ج٤،ص١٠٧، ج٦،ص٢٩٢ و ٣٠٤؛ صحیح مسلم(وفات٢٦١ ھ) : ج٧،ص١٣٠؛ سنن ترمذی(وفات ٢٧٩ ھ ): ج٥،ص٣٦١ و...؛ الذریة الطاہرة النبویة دولابی(وفات: ٣١٠ ھ ): ص١٠٨؛ السنن الکبریٰ نسائی(وفات ٣٠٣ ھ ): ج٥ ،ص١٠٨ و ١١٣؛ المستدرک علی الصحیحین حاکم نیشاپوری(وفات: ٤٠٥ ھ ):ج٢، ص ٤١٦، ج٣،ص١٣٣و ١٤٧ و ١١٣؛ البرہان زرکشی(وفات ٧٩٤ ھ ) ص١٩٧؛ فتح الباری شرح صحیح البخاری ابن حجر عسقلانی(وفات ٨٥٢ ھ):ج٧،ص١٠٤؛ اصول الکافی کلینی(وفات ٣٢٨ ھ ): ج١،ص ٢٨٧ ؛ الامامة و التبصرة ابن بابویہ (وفات ٣٢٩ ھ): ص٤٧، ح٢٩؛ دعائم الاسلام مغربی(وفات ٣٦٣ ھ):ص٣٥ و ٣٧؛ الخصال شیخ صدوق(وفات ٣٨١ ھ):ص٤٠٣ و ٥٥٠؛ الامالی شیخ طوسی(وفات ٤٦٠ ھ):ح ٤٣٨،٤٨٢ و ٧٨٣ نیز مندرجہ ذیل کتابوں میں اس آیت کی تفسیر کی طر ف مراجعہ کریں: جامع البیان طبری(وفات ٣١٠ ھ)؛ احکام القرآن جصاص(وفات ٣٧٠ ھ )؛ اسباب النزول واحدی(وفات ٤٦٨ ھ)؛ زاد المسیر ابن جوزی(وفات٥٩٧ ھ)؛ الجامع لاحکام القرآن قرطبی(وفات ٦٧١ ھ)؛ تفسیر ابن کثیر (وفات ٧٧٤ ھ)؛ تفسیر ثعالبی (وفات٨٢٥ ھ)؛ الدر المنثور سیوطی(وفات ٩١١ ھ)؛ فتح القدیر شوکانی(وفات ١٢٥٠ ھ)؛ تفسیر عیاشی(وفات ٣٢٠ ھ)؛ تفسیر قمی(وفات:٣٢٩ ھ)؛ تفسیر فرات کوفی (وفات ٣٥٢ ھ) آیۂ اولوا الامر کے ذیل میں؛ مجمع البیان طبرسی(وفات ٥٦٠ ھ) اور بہت سی دوسری کتابیں۔

حرف اول
جب آفتاب عالم تاب افق پرنمودار ہوتاہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ ونکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کا فور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کاسورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔
اسلام کے مبلغ و موسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الہی پیغامات، ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عر صے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمران ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماندپڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہب عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔
اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام او ر ان کے پیروؤں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اورناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کاشکار ہوکراپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکارو نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگیں تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیاہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن او رمکتب اہل بیت علیہ السلام کی طرف اٹھی او رگڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکر و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اوردوستداران اسلام سے اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں، یہ زمانہ عملی اور فکری مقابلے کازمانہ ہے اورجو مکتب بھی تبلیغ او رنشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیاتک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔
(عالمی اہل بیت کو نسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیروؤں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایاہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر اندازسے اپنا فریضہ ادا کرے، تا کہ موجود دنیا ئے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف وشفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوت ۖ و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق وانسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خون خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔
ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین ومصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنی خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، علامہ طباطبائی کی گرانقدر کتاب ''دینی تعلیم'' کو مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیاہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیںاور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں او رمعاونیں کا بھی صمیم قلب سے شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنی جہاد رضائے مولی کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام
مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام